Surat ul Qamar
Surah: 54
Verse: 1
سورة القمر
اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ ﴿۱﴾
The Hour has come near, and the moon has split [in two].
قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا ۔
اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ ﴿۱﴾
The Hour has come near, and the moon has split [in two].
قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا ۔
The Hour draws near; the cleaving of the Moon Allah informs, اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ The Hour has drawn near, and the moon has been cleft asunder. Allah informs about the approach of the Last Hour and the imminent end and demise of the world, أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَ تَسْتَعْجِلُوهُ The Event ordained by Allah will come to pass, so seek not to hasten it. (16:1), اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَـبُهُمْ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ Draws near for mankind their reckoning, while they turn away in heedlessness. (21:1) Hadiths about the Last Hour There are several Hadiths with this meaning. Al-Hafiz Abu Bakr Al-Bazzar recorded that Anas said that one day, when the sun was about to set, the Messenger of Allah gave a speech to his Companions, saying, وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا بَقِيَ مِنَ الدُّنْيَا فِيمَا مَضَى مِنْهَا إِلاَّ كَمَا بَقِيَ مِنْ يَوْمِكُمْ هذَا فِيمَا مَضَى مِنْه By He in Whose Hand is my soul! Not much of this world is left compared to what has already passed of it, except as much as what is left in this day of yours compared to what has already passed of it. Anas said, "We could only see a small part of the setting sun at the time." Another Hadith that supports and explains the above Hadith is recorded by Imam Ahmad that Abdullah bin Umar said, "We were sitting with the Prophet while the sun was rising above Qu`ayqa`an, after `Asr. He said, مَا أَعْمَارُكُمْ فِي أَعْمَارِ مَنْ مَضَى إِلاَّ كَمَا بَقِيَ مِنَ النَّهَارِ فِيمَا مَضَى What remains of your time, compared to what has passed, is as long as what remains of this day compared to what has passed of it." Imam Ahmad recorded that Sahl bin Sa`d said that he heard the Messenger of Allah say, بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ هكَذَا I was sent like this with the Last Hour. and he pointed with his middle and index finger. The Two Sahihs also recorded this Hadith. Imam Ahmad recorded that Wahb As-Suwa'i said that the Messenger of Allah said, بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهذِهِ مِنْ هذِهِ إِنْ كَادَتْ لَتَسْبِقُنِي I was sent just before the Last Hour, like the distance between this and this; the latter almost overtook the former. Al-A`mash joined between his index and middle fingers while narrating this Hadith. Imam Ahmad recorded that Al-Awzai said that Ismail bin Ubaydullah said, "Anas bin Malik went to Al-Walid bin Abdul-Malik who asked him about what he heard from the Messenger of Allah about the Last Hour. Anas said, `I heard the Messenger of Allah say, أَنْتُمْ وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْن You and the Last Hour are as close as these two (fingers)."' Only Imam Ahmad collected this Hadith. There is proof to support these Hadiths in the Sahih listing, Al-Hashir (literally the Gatherer), among the names of the Messenger of Allah; he is the first to be gathered, and all people will be gathered thereafter (for the Day of Judgement). Allah's statement, ... وَانشَقَّ الْقَمَرُ and the moon has been cleft asunder. It occurred during the time of Allah's Messenger, according to the authentic Mutawatir Hadiths the scholars agree that the moon was cleft asunder during the lifetime of the Prophet, and it was among the clear miracles that Allah gave him. Hadiths mentioning that the Moon was split The Narration of Anas bin Malik Imam Ahmad recorded that Anas bin Malik said, "The people of Makkah asked the Prophet for a miracle and the moon was split into two parts in Makkah. Allah said, اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ The Hour has drawn near, and the moon has been cleft asunder." Muslim also collected this Hadith. Al-Bukhari recorded that Anas bin Malik said, "The people of Makkah asked the Messenger of Allah to produce a miracle, and he showed them the splitting of the moon into two parts, until they saw (the mount of) Hira' between them." This Hadith is recorded in the Two Sahihs with various chains of narration. The Narration of Jubayr bin Mut`im Imam Ahmad recorded that Jubayr bin Mut`im said, "The moon was split into two pieces during the time of Allah's Prophet; a part of the moon was over one mountain and another part over another mountain. So they said, `Muhammad has taken us by his magic.' They then said, `If he was able to take us by magic, he will not be able to do so with all people."' Only Imam Ahmad recorded this Hadith with this chain of narration. Al-Bayhaqi used another chain of narration in a similar Hadith he collected in Ad-Dala'il. The Narration of `Abdullah bin `Abbas Al-Bukhari recorded that Ibn Abbas said, "The moon was split during the time of the Prophet." Al-Bukhari and Muslim collected this Hadith. Ibn Jarir recorded that Ibn Abbas commented on Allah's saying: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ وَإِن يَرَوْا ايَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ
اللہ تعالیٰ قیامت کے قرب کی اور دنیا کے خاتمہ کی اطلاع دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ Ǻ ) 16- النحل:1 ) اللہ کا امر آچکا اب تو اس کی طلب کی جلدی چھوڑ دو اور فرمایا آیت ( اقترب للناس حسابھم ) الخ ، لوگوں کے حساب کے وقت ان کے سروں پر آ پہنچا اور وہ اب تک غفلت میں ہیں ۔ اس مضمون کی حدیثیں بھی بہت سی ہیں بزار میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں سورج کے ڈوبنے کے وقت جبکہ وہ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خطبہ دیا جس میں فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں مری جان ہے دنیا کے گذرے ہوئے حصے میں اور باقی ماندہ حصے میں وہی نسبت ہے جو اس دن کے گذرے ہوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں ہے ۔ اس حدیث کے راویوں میں حضرت خلف بن موسیٰ کو امام ابن حبان ثقہ راویوں میں گنتے تو ہیں لیکن فرماتے ہیں کبھی کبھی خطا بھی کر جاتے تھے ، دوسری روایت جو اس کی تقویت بلکہ تفسیر بھی کرتی ہے وہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے ہے کہ عصر کے بعد جب کہ سورج بالکل غروب کے قریب ہو چکا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری عمریں گزشتہ لوگوں کی عمروں کے مقابلہ میں اتنی ہی ہیں جتنا یہ باقی کا دن گذرے ہوئے دن کے مقابلہ میں ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح مبعوث کئے گئے ہیں اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ قریب تھا وہ مجھ سے آگے بڑھ جائے ولید بن عبدالملک کے پاس جب حضرت ابو ہریرہ پہنچے تو اس نے قیامت کے بارے میں حدیث کا سوال کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم اور قیامت قربت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہو ۔ اس کی شہادت اس حدیث سے ہو سکتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ( حاشر ) آیا ہے اور ( حاشر ) وہ ہے جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو حضرت بہز کی روایت سے مروی ہے کہ حضرت عتبہ بن غزوان نے اپنے خطبہ میں فرمایا اور کبھی کہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا دنیا کے خاتمہ کا اعلان ہو چکا یہ پیٹھ پھیرے بھاگے جا رہی ہے اور جس طرح برتن کا کھانا کھا لیا جائے اور کناروں میں کچھ باقی لگا لپٹا رہ جائے اسی طرح دنیا کی عمر کا کل حصہ نکل چکا صرف برائے نام باقی رہ گیا ہے تم یہاں سے ایسے جہان کی طرف جانے والے ہو جسے فنا نہیں پس تم سے جو ہو سکے بھلائیاں اپنے ساتھ لے کر جاؤ سنو ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے گا جو برابر ستر سال تک نیچے کی طرف جاتا رہے گا لیکن تلے تک نہ پہنچے گا اللہ کی قسم جہنم کا یہ گہرا گڑھا انسانوں سے پر ہونے والا ہے تم اس پر تعجب نہ کرو ہم نے یہ بھی ذکر سنا ہے کہ جنت کی چوکھٹ کی دو لکڑیوں کے درمیان چالیس سال کا راستہ ہے اور وہ بھی ایک دن اس حالت پر ہو گی کہ بھیڑ بھاڑ نظر آئے گی ( مسلم ) ابو عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ مدائن گیا اور بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہم ٹھہرے ۔ جمعہ کے لئے میں بھی اپنے والد کے ہمراہ گیا حضرت حذیفہ خطیب تھے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لگوں سنو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکرے ہو گیا ۔ بیشک قیامت قریب آچکی ہے بیشک چاند پھٹ گیا ہے بیشک دنیا جدائی کا الارم بجا چکی ہے آج کا دن کوشش اور تیاری کا ہے کل تو دوڑ بھاگ کر کے آگے بڑھ جانے کا دن ہو گا میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا کہ کیا کل دوڑ ہو گی ؟ جس میں آگے نکلنا ہو گا ؟ میرے باپ نے مجھ سے فرمایا تم نادان ہو یہاں مراد نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے ۔ دوسرے جمعہ کو جب ہم آئے تو بھی حضرت حذیفہ کو اسی کے قریب فرماتے ہوئے سنا اس کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ غایت آگ ہے اور سابق وہ ہے جو جنت میں پہلے پہنچ گیا ۔ چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ذکر ہے جیسے کہ متواتر احادیث میں صحت کے ساتھ مروی ہے ، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ پانچوں چیزیں ردم ، دھواں ، لزام ، بطشہ اور چاند کا پھٹنا یہ سب گذر چکا ہے اس بارے کی حدیثیں سنئے ۔ مسند احمد میں ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا جس پر دو مرتبہ چاند شق ہو گیا جس کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے ۔ بخاری میں ہے کہ انہیں چاند کے دو ٹکڑے دکھا دئیے ایک حراء کے اس طرف ایک اس طرف مسند میں ہے ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر دوسرا دوسرے پہاڑ پر ۔ اسے دیکھ کر بھی جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا بول پڑے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہماری آنکھوں پر جادو کر دیا ہے ۔ لیکن سمجھداروں نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ ہم پر جادو کر دیا ہے تو تمام دنیا کے لوگوں پر تو نہیں کر سکتا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے اور روایتیں بھی بہت سی ہیں ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چاند گرہن ہوا کافر کہنے لگے چاند پر جادو ہوا ہے اس پر یہ آیتیں مستمر تک اتریں ، ابن عمر فرماتے ہیں جب چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک پہاڑ کے پیچھے اور ایک آگے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ ، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے ابن مسعود فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو یاد رکھنا اور گواہ رہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم سب منیٰ میں تھے اور روایت میں ہے کہ مکہ میں تھے ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ کفار نے یہ دیکھ کر کہا یہ ابن ابی کبشہ ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا جادو ہے لیکن ان کے سمجھداروں نے کہا مان لو ہم پر جادو کیا ہے لیکن ساری دنیا پر تو نہیں کر سکتا ، اب جو لوگ سفر سے آئیں ان سے دریافت کرنا کہ کیا انہوں نے بھی اس رات کو چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا چنانچہ وہ آئے ان سے پوچھا انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آکر یہی کہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی میں کوئی شک نہیں ، اب جو باہر سے آیا جب کبھی آیا جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی کا بیان اسی آیت میں ہے ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں پہاڑ چاند کے دو ٹکڑوں کے درمیان دکھائی دیتا تھا اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصاً حضرت صدیق سے فرمایا کہ اے ابو بکر تم گواہ رہنا اور مشرکین نے اس زبردست معجزے کو بھی جادو کہہ کر ٹال دیا ، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ جب یہ دلیل حجت اور برہان دیکھتے ہیں سہل انکاری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور مانتے ہیں بلکہ حق کو جھٹلا کر احکام نبوی کے خلاف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اپنی جہالت اور کم عقلی سے باز نہیں آتے ۔ ہر امر مستقر ہے یعنی خیر خیر والوں کے ساتھ اور شر شر والوں کے ساتھ ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ قیامت کے دن ہر امر واقع ہونے والا ہے اگلے لوگوں کے وہ واقعات جو دل کو ہلا دینے والے اور اپنے اندر کامل عبرت رکھنے والے ہیں ان کے پاس آچکے ہیں ان کی تکذیب کے سلسلہ میں ان پر جو بلائیں اتریں اور ان کے جو قصے ان تک پہنچے وہ سراسر عبرت و نصیحت کے خزانے ہیں اور وعظ و ہدایت سے پر ہیں ، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت کرے اور جسے گمراہ کرے اس میں بھی اس کی حکمت بالغہ موجود ہے ان پر شقاوت لکھی جا چکی ہے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے انہیں کوئی ہدایت پر نہیں لا سکتا جیسے فرمایا آیت ( قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ ١٤٩ ) 6- الانعام:149 ) ، اللہ تعالیٰ کی دلیلیں ہر طرح کامل ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لا کھڑا کرتا اور جگہ ہے آیت ( وَمَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ ١٠١ ) 10- یونس:101 ) بے ایمانوں کو کسی معجزے نے اور کسی ڈرنے اور ڈر سنانے والے نے کوئی نفع نہ پہنچایا ۔
یہ بھی ان سورتوں میں ہے جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عید میں پڑھا کرتے تھے،. 1۔ 1 ایک تو بہ اعتبار اس زمانے کے جو گزر گیا، کیونکہ جو باقی ہے، وہ تھوڑا ہے۔ دوسرے ہر آنے والی چیز قریب ہی ہے چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بابت فرمایا کہ میرا وجود قیامت سے متصل ہے، یعنی میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔ 1۔ 2 یہ وہ معجزہ ہے جو اہل مکہ کے مطالبے پر دکھایا گیا، چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے حتی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا۔ یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہوگیا۔ جمہور سلف و خلف کا یہی مسلک ہے (فتح القدیر) امام ابن کثیر لکھتے ہیں علماء کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ انشقاق قمر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہوا اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واضح معجزات میں سے ہے، صحیح سند سے ثابت احادیث متواترہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔
[١] ایک دفعہ رسول للہ منیٰ میں تشریف فرما تھے کفار مکہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے آپ سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا : آسمان کی طرف دیکھو، اچانک چاند پھٹ کردو ٹکڑے ہوگیا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم کے زمانہ میں چاند پھٹ کردو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر رہا اور دوسرا نیچے آگیا۔ آپ نے (ان لوگوں سے جو اس وقت موجود تھے) فرمایا : && دیکھو گواہ رہنا && (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ نبی اکرم کے زمانہ میں چاند پھٹا تھا۔ (حوالہ ایضاً ) ٣۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ مکہ کے کافروں نے آپ سے کہا کہ کوئی نشانی دکھاؤ۔ تو آپ نے انہیں چاند کا پھٹنا دکھادیا۔ (حوالہ ایضاً ) آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت اور انشقاق قمر کا باہمی تعلق یہ ہے کہ انشقاق قمر قرب قیامت کی ایک نشانی ہے جو واقع ہوچکی لہذا اسے بس اب قریب ہی سمجھو۔ جب کفار نے اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ یا تو چاند پر جادو کردیا گیا ہے یا ہماری نظروں پر جو ہمیں ایسا نظر آنے لگا ہے۔ اس حیرانی میں ایک شخص نے کہا کہ اگر ہماری نظر بندی کردی گئی ہے تو آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لو۔ چناچہ آس پاس کے لوگوں نے اس کی تصدیق کردی مگر یہ کافر اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے۔ اس آیت پر منکرین معجزات کئی طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ پہلا اعتراض معنی کی تاویل سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صیغہ ماضی کا معنی استقبال میں لیا جائے گا اور معنی یہ ہوگا کہ && جب قیامت قریب آجائے گی اور چاند پھٹ جائے گا && جیسا کہ (اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ۽) 81 ۔ التکوير :1) اور اس جیسی دوسری آیات کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تاویل اور دلیل اس لیے غلط ہے کہ جہاں قیامت کے حوادث کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً آسمان پھٹ جائے گا۔ ستارے بےنور ہوجائیں گے اور جھڑنے لگیں گے۔ زمین پر سخت زلزلے آئیں گے۔ پہاڑ اڑتے پھریں گے وغیرہ کا ذکر ہے وہاں ان باتوں کو کفار کے سحر کہنے کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی قرآن میں ایسی آیات کے ساتھ سحر کا ذکر آیا ہے۔ کافروں کا چاند کے پھٹنے کو جادو کہنا اور اس پر کفار کی تکرار ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ایک حسی معجزہ تھا جو وقوع پذیر ہوچکا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ فی الواقع ظہور میں آچکا ہے تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اس کا علم ہونا چاہئے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ رات کا ہے دن کا نہیں جب کہ اکثر لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر اس وقت آدھی دنیا میں تو ویسے سورج نکلا ہوا تھا۔ جہاں یہ واقعہ نظر نہ آسکتا تھا اور باقی آدھی دنیا میں سے بھی صرف ان مقامات پر نظر آسکتا تھا جو منیٰ کے مشرق میں واقع تھے۔ پھر اس واقعہ کا کوئی اعلان بھی نہیں ہوا تھا جیسے آج کل جنتریوں اور اخباروں سے معلوم ہوجاتا ہے یا رصدگاہوں کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے لہذا لوگ کوئی اس بات کے منتظر بھی نہیں بیٹھے تھے کہ چاند پھٹے تو ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ چاند گرہن کئی گھنٹوں تک لگا رہتا ہے۔ لوگوں کو پہلے خبر بھی دی جاچکی ہوتی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت چاند گرہن لگنے سے غافل ہوتی ہے اور یہ انشقاق قمر تو صرف ایک لمحہ کے لیے واقع ہوا تھا۔ اسے کون دیکھتا ؟ اور آس پاس کے لوگوں نے شہادت دے ہی دی تھی۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ایسے اہم واقعہ کا تاریخ میں بھی ذکر ہونا چاہئے تھا۔ اس اعتراض کے کئی جواب ہیں۔ پہلا یہ کہ سب سے زیادہ مستند تاریخ حدیث کی کتابوں سے ہی دستیاب ہوسکتی ہے اور ان میں یہ واقعہ موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ اس دور میں جیسی اور جتنی توجہ تاریخ نویسی پر دی جاتی تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ تیسرا یہ کہ جب دنیا کے لوگوں کی اکثریت اور ایسے ہی تاریخ نویسوں نے اسے دیکھا ہی نہ تو ہو لکھیں کیا ؟ اور چوتھا یہ کہ تاریخ بھی اس واقعہ کے اندراج سے یکسر خالی نہیں۔ تاریخ فرشتہ میں مذکور ہے کہ مالی بار کے مہاراجہ نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور بالآخر یہ واقعہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا تھا۔ خ چاند کے پھٹنے پر اعتراضات اور ان کے جواب :۔ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ہیئت دانوں اور منجمین نے بھی اس واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر چاند پھٹنے سے اس کی رفتار میں فرق آتا، یا وہ اپنا مدار بدل لیتا یا مدار سے ہٹ کر چلنے لگتا تو یہ باتیں اس قابل تھیں کہ ہیئت دان ان کا ذکر کرتے۔ لیکن جب ان میں سے کوئی چیز بھی واقع نہ ہوئی تو وہ کیا ذکر کریں ؟ اور پانچواں اعتراض یہ ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت ہے اور ان کا دراصل سب سے اہم یہی اعتراض ہے جو انہیں تسلیم کرنے سے روکتا ہے اور وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتے اور مختلف قسم کے اعتراض اور شکوک پیدا کرتے ہیں اور حقیقتاً ان کا یہ انکار اللہ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے۔ بہرحال یہ بات بھی آج بعید از عقل نہیں رہی۔ ہر سیارے کے پیٹ میں آتشیں مادے یا پگھلتی اور کھولتی ہوئی دھاتیں موجود ہیں جن کا درجہ حرارت ہزارہا درجہ سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ یہ مہیب لاوے ان عظیم الجثہ کروں کو کسی وقت بھی دو لخت کرسکتے ہیں۔ پھر ان کے مرکز کی مقناطیسی قوت جسے آج کی زبان میں قوت ثقل کہتے ہیں اور ان جدا شدہ ٹکڑوں کو ملا کر جوڑ بھی دیتی ہے اور ایسا عمل فضائے بسیط میں ہوتا رہتا ہے۔ یہ کہکشائیں اسی طرح وجود میں آئی ہیں اور آج بھی یہ عمل بند نہیں بلکہ بدستور جاری ہے۔ علاوہ ازیں شہاب ثاقب کسی سیارے کے اس طرح سے جدا شدہ ٹکڑے کا نام ہے۔ جو کبھی علیحدہ ہو کر پھر جڑ جاتا ہے۔ کبھی فضا میں ہی گر کر گم ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار زمین پر بھی آگرتا ہے۔ فضائے بسیط میں جو کچھ ہو رہا ہے اگر انسان کو اس کا صحیح طور پر علم ہوجائے تو وہ ان انشقاق قمر کے واقعہ پر کبھی تعجب نہ کرے۔ انسان کو کیا معلوم کہ اللہ کی قدرتوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور وہ کس قدر حکمت بالغہ سے اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے۔
١۔ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ :” اقتربت “ ” قرب یقرب “ (ک ، ع) میں سے باب افتعال کا ماضی معلوم ہے۔ حروف میں اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوتا ہے ، جیسے ” قدر “ اور ” اقتدر “ ہے ، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” قیامت بہت قریب آگئی ہے “۔ ویسے تو ہر آنے والی چیز قریب ہی ہے ، مگر قیامت کو بہت قریب اس لیے فرمایا کہ دنیا پر گزرے ہوئے وقت کے مقابلے میں باقی رہنے والا وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ اب اس کے فنا اور قیامت کے قیام کا وقت بہت ہی قریب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں ، بلکہ قیامت ہی آئے گی۔ سہل بن سعد (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :(بعثت انا والساعۃ کھاتین) ( مسلم ، الفتن ، باب قرب الساعۃ : ٢٩٥٠۔ بخاری : ٦٥٠٣)” مجھے اور قیامت کو ان دو (انگلیوں) کی طرح بھیجا گیا ہے “۔ ٢۔ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ : یعنی چاند کا پھٹنا اس بات کی علامت ہے کہ قیامت ، جس کی تمہیں خبر دی جاتی رہی ہے ، بہت قریب آگئی ہے ، کیونکہ جب چاند جیسا عظیم کرہ پھٹ سکتا ہے تو زمین و آسمان ، سورج اور ستارے بھی پھٹ کر دوسری صورت اختیارکر سکتے ہیں ، جیسا کہ فرمایا :(یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا ِﷲِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ) (ابراہیم : ٤٨)” جس دن یہ زمین اور زمین سے بدل دی جائے گی اور سب آسمان بھی اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے ، جو اکیلا ہے ، بڑا زبردست ہے “۔ ٣۔ قرآن مجید میں ماضی کے صغیے مستقبل کے معنی بھی آتے ہیں ۔ مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ ان کا واقع ہونا یقینی ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللہ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ ط ) ( ابراہیم : ٢٢)” اور شیطان کہے گا ، جب سارے کام کا فیصلہ کردیا جائے گا کہ بیشک اللہ نے تم سے وعدہ کیا ، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی “۔ اس مقام پر بھی بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند پھٹ جائے گا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ یہاں ماضی کا معنی ہی مراد ہے اور آیت کا مطلب یہی ہے کہ چاند پھٹ گیا ۔ ایک ہی آیت میں ایک فعل ماضی کا ترجمہ ماضی اور دوسرے فعل ماضی کا ترجمہ مستقبل کرنا ویسے ہی بےجوڑ لگتا ہے کہا جائے ” قیامت بہت قریب آگئی اور چاند پھٹ جائے گا “۔ پھر اگر مراد مستقبل میں چاند کا پھٹنا ہوتا تو الفاظ یہ ہونے چاہئیں تھے :” اتی الساعۃ وانشق القمر ‘ ‘ قیامت آگئی اور چاند پھٹ گیا “۔ پھر دونوں جگہ ماضی کا معنی مستقبل کرنا درست ہوتا ۔ اس آیت سے بعد والی آیات سے بھی ظاہر ہے کہ یہ واقعہ ہوچکا ہے ، تفصیل آگے آئے گی۔ صحیح احادیث سے بھی چاند کا پھٹنا ثابت ہے اور یہ واقعہ اتنی کثیر سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اکثر محدثین و مفسرین اسے متواتر قرار دیتے ہیں ۔ ابن کثیر (رح) تعالیٰ نے فرمایا :” چاند پھٹنے کے واقعہ پر علماء کا اتفاق ہے کہ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہوچکا ہے اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حیران کن معجزات میں سے ایک تھا۔ “ ابن کثیر نے اس مقام پر بہت سی احادیث نقل فرمائی ہیں ، یہاں چند احادیث نقل کی جاتی ہیں : ١۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں :(انشق القمر علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرقتین فرقۃ فوق الجبل و فرقۃ دونہٗ فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشھدوا) ( بخاری ، التفسیر ، باب : وانشق القمر۔۔۔۔۔: ٤٨٦٤)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا ، ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا اور ایک ٹکڑا اس کی دوسری جانب ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” گویا ہوجاؤ “۔ ٢ ؎۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا :(انشق القمر فی زمان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ( بخاری ، التفسیر ، باب : وانشق القمر۔۔۔۔ ٤٨٦٦) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چاند پھٹ گیا “۔ ٣ ؎۔ انس (رض) فرماتے ہیں :( سال اھل مکۃ ان یریھم آیۃ فاراھم انشقاق القمر) (بخاری ، التفسیر ، باب : ( وانشق القمر۔۔۔: ٤٨٦٧)” اہل مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی معجزہ دکھانے کا سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں چاند کا پھٹنا دکھایا “۔ ٤۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں :(انشق القمر بملکۃ حتی صار فرقین ، فقال کفار قریش اھل مکۃ ھذا سحر ، یسحرکم بہ ان ابی کبشۃ ، انظروا السفار ، فان کانوا راواما وایتم فقد صدق وان کانوا لم یروا مثل ما رایتم فھو سحر سحر کم بہ ۔ قال فسئل السفار قال و قدموا من کل وجہ فقالوا رایناہ) ( دلائل النبوۃ للبیھقی : ٢، ٢٦٦، ٢٦٧، وسندہ صحیح)” مکہ میں چاند پھٹ گیا ، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہوگیا تو مکہ والے کفار قریش کہنے لگے :” یہ جادو ہے جو ابن ابی کبشہ نے تم پر کردیا ہے ، جو لوگ سفر میں گئے ہوئے ہیں ان کا انتظارکرو ، اگر انہوں نے وہ دیکھا ہے جو تم نے دیکھا ہے تو اس نے واقعی سچ کہا ہے اور اگر انہوں نے وہ نہیں دیکھا جو تم نے دیکھا ہے تو یہ جادو ہے جو اس نے تم پر کردیا ہے “۔ فرمایا : ” تو سفر سے آنے والوں سے پوچھا گیا جو ہر جانب سے آرہے تھے تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے اسے دیکھا ہے “ ۔ تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے اس پر لکھا ہے کہ ابن کثیر نے فرمایا :” اسے ابن جریر نے بھی روایت کیا ہے اور یہ الفاظ زائد بیان کیے ہیں :(فانزل اللہ عزوجل) (اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ )” یعنی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں “۔ ٤۔ بعض واعظ حضرات بیان کرتے ہیں کہ چاند رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلی کے اشارے سے دو ٹکڑے ہوا ، انگلی کے اشارے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ چاند کا ایک ٹکڑا آپ کے گریبان سے ہو کر نکل گیا ، بالکل ہی لغوبات ہے۔ ٥۔ انشقاق قمر پر کیے جانے والے شبہات اور اعتراضات کے متعلق مفسر عبد الرحمن کیلانی کا کلام بہت عمدہ ہے وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے :” آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت اور انشقاق قمر کا باہمی تعلق یہ ہے کہ انشقاق قمر قرب قیامت کا ایک نشانی ہے جو واقع ہوچکی ہے ، لہنذا اسے بس اب قریب ہی سمجھو ۔ جب کفار نے اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ یا تو چاند پر جادو کردیا گیا ہے یا ہماری نظروں پر جو ہمیں ایسا نظر آنے لگا ہے۔ اس حیرانی میں ایک شخص نے کہا کہ اگر ہماری نظر بند کردی گئی ہے تو آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لو ۔ چناچہ آس پاس کے لوگوں نے اس کی تصدیق کردی ، مگر یہ کافر اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے ۔ اس آیت پر منکرین معجزات کئی طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ۔ پہلا اعتراض معنی کی تاویل سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صیغہ ٔ ماضی کا معنی استقبال میں لیا جائے گا اور معنی یہ ہوگا کہ ” جب قیامت قریب آجائے گی اور چاند پھٹ جائے گا “۔ جیسا کہ ” اذا الشمس کورت “ اور اس جیسی دوسری آیات کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تاویل اور دلیل اس لیے غلط ہے کہ جہاں قیامت کے حوادث کا ذکر آیا ہے ، مثلاً آسمان پھٹ جائے گا ، ستارے بےنور ہوجائیں گے اور جھڑنے لگیں گے ، زمین پر سخت زلزلے آئیں گے ، پہاڑ اڑتے پھیریں گے وغیرہ ، وہاں ان باتوں کو کفار کے سحر کہنے کا کوئی تعلق نہیں اور نہ قرآن میں ایسی آیات کے ساتھ سحر کا ذکر آیا ہے۔ کافروں کا چاند کے پھٹنے کو جادو کہنا اور اس پر کفار کی تکرار ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ایک حسی معجزہ تھا جو وقوع پذیر ہوچکا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ فی الواقع ظہور میں آچکا ہے تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اس علم ہونا چاہیے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ رات کا ہے ، دن کا نہیں ، جب اکثر لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ پھر اس وقت آدھی دنیا میں تو ویسے ہی سورج نکلا ہوا تھا جہاں یہ واقعہ نظر نہیں آسکتا تھا اور باقی آدھی دنیا میں بھی صرف ان مقامات پر نظر آسکتا تھا جو منیٰ کے مشرق میں واقع تھے۔ پھر اس واقعہ کا کوئی اعلان بھی نہیں ہوا تھا ، جیسے آج کل جنتریوں اور اخباروں سے معلوم ہوجاتا ہے ، یا ر صدگاہوں کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے ، لہٰذا لوگ کوئی اس بات کے منتظر بھی نہیں بیٹھے تھے کہ چاند پھٹے تو ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ چاند گرہن کئی گھنٹوں تک لگا رہتا ہے، لوگوں کو پہلے خبر بھی دی جا چکی ہوتی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت چاند گرہن لگنے سے غافل ہوتی ہے اور یہ انشقاق قمر تو صرف ایک لمحہ کے لیے واقع ہوا تھا ، اسے کون دیکھتا ؟ اور آس پاس کے لوگوں نے شہادت دے ہی دی تھی۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ایسے اہم واقعہ کا تاریخ میں بھی ذکر ہونا چاہیے تھا۔ اس اعتراض کے کئی جواب ہیں ، پہلا یہ کہ سب سے زیادہ مستند تاریخ حدیث کی کتابوں سے ہی دستیاب ہوسکتی ہے اور ان میں یہ واقعہ موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ اس دور میں جیسی اور جتنی توجہ تاریخ نویسی پر دی جاتی تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ تیسرا یہ کہ جب دنیا کے لوگوں کی اکثریت اور ایسے ہی تاریخ نویسوں نے اسے دیکھا ہی نہ ہو تو لکھیں کیا ؟ اور چوتھا یہ کہ تاریخ بھی اس واقعہ کے اندراج سے یکسر خالی نہیں ۔ تاریخ فرشتہ میں مذکور ہے مالی بدر کے مہاراجہ نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور بالآخر یہ واقعہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا تھا۔ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ہیئت دانوں اور منجمین نے بھی اس واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر چاند پھٹنے سے اس کی رفتار میں فرق آتا یا وہ اپنا مدار بدل لیتا یا مدار سے ہٹ کر چلنے لگتا تو یہ باتیں اس قابل تھیں کہ ہیئت دان اس کا ذکر کرتے ، لیکن جب ان میں سے کوئی چیز بھی واقع نہ ہوئی تو وہ کیا ذکر کریں ؟ اور پانچواں اعتراض یہ ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت ہے اور ان کا دراصل سب سے اہم یہ اعتراض ہے جو انہیں تسلیم کرنے سے روکتا ہے اور وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتے اور مختلف قسم کے اعتراض اور شکوک پیدا کرتے ہیں اور حقیقتاً ان کا یہ انکار اللہ کی قدرت کا ملہ کا انکار ہے ۔ بہ حال یہ بات بھی آج بعید از عقل نہیں رہی ۔ ہر سیارے کے پیٹ میں آتشیں مادے یا پگھلتی اور کھولتی ہوئی دھاتیں موجود ہیں جن کا درجہ حرارت ہزارہا درجہ سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ یہ مہیب لاوے ان عظیم الجثہ کروں کو کسی وقت بھی دولخت کرسکتے ہیں ۔ پھر ان کی مرکزی مقناطیسی قوت ، جیسے آج کی زبان میں قوت ِ ثقل کہتے ہیں وہ ان جدا شدہ ٹکڑوں کو ملا کر جوڑ بھی دیتی ہے اور ایسا عمل فضائے بسیط میں ہوتا رہتا ہے ۔ یہ کہکشائیں اسی طرح وجود میں آئی ہیں اور آج بھی یہ عمل بند نہیں ہوا بلکہ بدستور جاری ہے۔ علاوہ ازیں شہاب ِ ثاقب کسی سیارے کے اس طرح جدا شدہ ٹکڑے کا نام ہے جو کبھی علیحدہ ہو کر پھر جڑ جاتا ہے ، کبھی فضاء میں ہی گرکر گم ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار زمین پر بھی آگرتا ہے۔ فضائے بسیط میں جو کچھ ہو رہا ہے اگر انسان کو اس کا صحیح طور پر علم ہوجائے تو وہ انشقاق قمر کے واقعہ پر کبھی تعجب نہ کرے۔ انسان کو کیا معلوم کہ اللہ کی قدرتوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور وہ کس قدر حکمت بالغہ سے اس نظام ِ کائنات کو چلا رہا ہے۔ “ (تیسیر القرآن) ٦۔ ایک اہم سوال یہاں یہ ہے کہ کفارِ مکہ جب اپنے سوال کے جواب میں اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر ایمان نہیں لائے تو ان پر پہلی قوموں کی طرح عذاب آجانا چاہیے تھا جو نبیوں کے معجزے دیکھ کر ایمان نہیں لائی تھیں ۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ پہلی امتوں کو دکھائے جانے والے معجزات ان کے ایمان لانے کی شرط کے ساتھ مشروط مطالبے پر دکھائے گئے تھے ، جبکہ ہماری امت میں ایمان لانے کی شرط کے ساتھ بطور ِ عناد جس معجزے کا بھی مطالبہ کیا گیا ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا گیا ، بلکہ یہی کہنے کا حکم ہوا :(قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا ) (بنی اسرائیل : ٩٣) ” تو کہہ میرا رب پاک ہے ، میں تو ایک بشر کے سوا کچھ نہیں جو رسول ہے “۔ مزید دیکھئے سورة ٔ بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) کی تفسیر ۔ اس مقصد کے لیے آپ کو ایک ہی معجزہ پیش کرنے کا حکم تھا اور وہ ہے قرآن مجید کی ہمت ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کرلے آؤ ۔ اور یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس معجزے پر یا کسی بھی معجزے پر ایمان نہ لانے والوں پر عذاب استیصال یعنی ایسا عذاب نہیں آیا اور نہ آئے گا جو ان کا نام و نشان ہی مٹا دے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ عنکبوت (٥٠، ٥١) کی تفسیر ۔ البتہ اس شرط کے بغیر لوگوں کی درخواست پر بہت سے معجزے صادر ہوئے ہیں ، مثلا ً سورة ٔ بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں جن معجزوں کا کفار نے بطور شرط مطالبہ کیا اور ان کا مطالبہ پورا نہیں کیا گیا ، ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کردیں ، لیکن ایسی شرط کے بغیر یہ معجزہ متعدد بار واقع ہوا ہے ، جن میں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں سے پانی جاری ہونے اور حدیبیہ کے موق پر کنویں میں تیر ڈالنے سے پانی جاری ہونے کے واقعات جو سب جانتے ہیں ۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا :(انکم تعدون الایات عذابا وانا کنا نعدھا علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برکۃ لقد کنا تا کل الطعام مع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ونحن نسمع تسبیح الطعام قال واتی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یاناء فوضع یدہ فیہ فجعل الماء ینبع من بین اصابعہ فقال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حتی علی الوصوہ المبارک والبرکۃ من السماء حتی توضانا کلنا) ( ترمذی ، المناقب ، باب فی قول علی فی استقبال کلی حبل و شعر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالتسلیم : ٣٦٣٣، وقال حسن صحیح ، وقال الالبانی صحیح)” تم نشانیوں کو عذاب شمار کرتے ہو جبکہ ہم انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں برکت شما ر کرتے تھے ، چناچہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور ہم کھانے کی تسبیح سن رہے ہوتے تھے۔ “ عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا :’ ’ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک برتن لایا گیا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا تو پانی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں سے پھوٹنے لگا ، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اس با برکت وضو کے پانی پر آجاؤ اور برکت آسمان سے ہے۔ “ یہاں تک کہ ہم سب نے وضو کرلیا ۔ “ انشقاق قمر کا معجزہ بیشک اہل مکہ کے اس سوال کے جواب میں صادر ہوا کہ میں کوئی نشانی دکھائیں ، مگر یہ ان کے اس مطالبے کے جواب میں نہیں ہوا کہ آپ ہمیں چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھائیں ( جن روایتوں میں یہ بات ذکر ہوئی ہے وہ سب ضعیف ہیں) بلکہ انہیں ایک نشانی کے طور پر دکھا گیا جیسے انہوں نے جادو کہہ کر ماننے سے انکار کردیا ، فرمایا (وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ) ( القمر : ٢) ” اور اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (یہ) ایک جادو ہے جو گزر جانے والا ہے “۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ اس امت میں بھی معجزات دیکھ کر ایمان نہ لانے والوں پر عذاب آیا ، مگر اس کا طریقہ تبدیل کردیا گیا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اب ایسے لوگوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب دینے کا فیصلہ فرمایا اور فی الواقع ایسے تمام منکروں کو بدر اور دوسرے مقامات پر ذلت آمیز عذاب سے دو چار ہونا پڑا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللہ ُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ وَیُذْہِبْ غَیْظَ قُلُوْبِھِمْط وَیَتُوْبُ اللہ ُ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُط وَ اللہ ُ عَلِیْمٌ حَکَیْمٌ ) التوبۃ : ١٤۔ ١٥)” ان سے لڑو ، اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انہیں رسوال کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا ۔ اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ، کمال حکمت والا ہے “۔
Linkage between Surah An-Najm and Surah Al-Qamar Whereas the preceding Surah An-Najm had ended on a note of warning to disbelievers in the words: اَزِفَۃِ الاٰزِفَۃ azifat-il-` azifah, i.e., the Hour of their doom has drawn near, the present Surah opens with a similar sentence, |"The Hour (of doom) has drawn near|" and this statement is followed by one of its proofs, that is, the appearance of the miracle of the moon being split asunder. There are many signs of the Day of Doom; one of them is the advent of the last of the Prophets Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) itself, as reported in a hadith &I was sent like this with the last Hour& and he pointed with his middle and index fingers. There are many other Traditions mentioning that the advent of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is close to the Day of doom. Likewise, a great sign of Doomsday is the miracle of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) when he split the moon into two pieces, then he rejoined them. Also, the miracle of &moon-splitting& is significant from another point of view: Just as Allah&s power split the moon into two, so will planets and stars be destroyed by Him by breaking them into very small pieces which is not impossible, as has been proved by the miracle of splitting the moon. The Phenomenon of Moon-Splitting: A Miracle The disbelievers of Makkah asked the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to produce a proof in support of his claim, and he, with the dispensation of Allah, split the moon into two parts. This miracle is verified by the concluding part of verse 1: &and the moon has been split asunder.& The incident has been narrated successively in Traditions of reliable authority, and reported by such learned Companions as ` Abdullah Ibn Masud, ` Abdullah Ibn ` Umar, Jubair Ibn Mut` im, ` Abdullah Ibn ` Abbas, Anas Ibn Malik (رض) and others. ` Abdullah Ibn Masud (رض) reports that he himself was present and witnessed when the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) performed this miracle. Imams Tahawi and Ibn Kathir have stated that the reports narrating the phenomenon of &moon-splitting& are mutawatir (i.e. it has been reported successively and uninterruptedly by such a large number of authorities that their concurrence on falsehood is inconceivable.) Therefore, this Prophetic miracle has been proved by incontrovertible evidence. It was mentioned earlier that a large number of Traditions report the incident of &moon-splitting&, which may be summarized as follows: Whilst the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was sitting at Mina in Makkah, the pagans demanded that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should produce a proof substantiating his claim. Allah split the moon in two parts. A part of the moon was over one mountain on the eastern side, and another part was over another mountain on the western side. Thus there was a mountain between the two parts. This incident took place on a moonlit night. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to all who were present: &Be witnesses&. When all the people saw the miracle clearly, the two pieces rejoined. It was not possible for any person with eyes to deny this clear miracle. However, the pagans said: &Muhammad has ensorcelled us, but he cannot bewitch the whole world; so let us wait for people to come from the neighboring parts of the country and hear what they have to say&. (Baihaqi and Abu Dawud Tayalisi) Tayalisi records on the authority of ` Abdullah Ibn Masud (رض) that when travelers from the neighboring parts of the country arrived, they confirmed that they did see the moon in two parts. Some reports indicate that the miracle of &moon-splitting& occurred twice, but more authentic reports confirm that the miracle occurred once only. (Bayan-ul-Quran) The following Traditions are worth noting, which have been taken from Ibn Kathir: (1) Sayyidna Anas Ibn Malik (رض) narrates, as recorded in Sahib of Bukhari: اِنَّ اَھلَ مَکَّۃَ سَاَلُوا رَسُولَ اللہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَن ئُّرِیَھَمُ اٰیَۃً فَاَرَاھُمَ القَمَرَ شَقِّین حَّتّٰی رَاَوا حِرَاءَ بَینَھُمَا (بخاری و مسلم) &The people of Makkah asked the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to show them a sign, and he split the moon into two parts until they saw the mount of Hira& between them&. (2) Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) narrates, as recorded in Sahihs of Bukhari and Muslim, and in Musnad of Ahmad, اَنشَقَّ القَمَرُ عَلٰی عَھد رَسُولَ اللہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شِقَّینِ حَتّٰی نَظَرُوا اِلَیہِ فقَالَ رَسُولَ اللہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَشھَدُوا۔ |"The moon was split in two parts during the time of Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and they saw its two parts. Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Be witnesses&.|" Ibn Jarir has cited this report with the following addition: کُنَّا مَعَ رَسُولَ اللہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِمِنٰی فَاشَقَّ القَمَرُ فَاَخَذَت فِرقَۃُ خَلفَ الجَبَلِ فقالَ رَسُولَ اللہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَشھَدُوا اَشھَدُوا۔ |"Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) says: &We were with Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) at Mina. Suddenly the moon split in two pieces, and one piece went away behind the mountain. Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Be witnesses; be witnesses.& (3) The narration of Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) is recorded by Baihaqi and Abu Dawud Tayalisi in the following words: اَنشَقَّ القَمَرُ بِمَکَّۃَ حَتّٰی صارَ فِرقَتَینِ فَقَالَ کُفَّارُ قُرَیشِ اَھل مَکَّۃ ھٰذَا سِحرَکُم بَہٰ اِبنُ اَبِی کَبشَۃَ اَنظَرُوا السُّفَّرَ فَاِن کَانُوا رَأوا ما رَاَیتُم فقد صَدَقَ وَ اِن کَانُوا لَم یَرَوا مِثلَ مَا رَایتُم فَھُوَسِحرُ سَحرَکُم بَہٰ فَسُیِٔلَ السُّفَّارُ قَالَ وَ قَدِمُوا کُلِّ جِھَۃِ فَقَالُو رَاَیٔنَا۔ (ابن کثیر) |"In Makkah, the moon was split into two parts. The disbelieving Quraish claimed: &This is sorcery. Ibn Abi Kabshah [ the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] has ensorcelled you. Therefore, wait for the neighboring travelers to arrive. If they too have seen the two pieces of the moon, so he has spoken the truth. But if they have not seen the parts of the moon, then this is indeed a magical illusion which he has performed on you.& When the travelers arrived and were asked about it, they all confirmed that they did see the two parts of the moon.& :(Ibn Kathir) Criticism against the Miracle of &Moon-Splitting& The critics have raised two types of criticism against the miracle: one is based on the assumptions of Greek philosophers, and the other is based on layman&s thinking. The deviant Greek philosophers assume that it is not possible for the heaven and other celestial bodies to split or crack, and rejoin. But this is merely an idea unsubstantiated by any solid or concrete proof. Whatever proof or evidence the philosophers have advanced is flimsy, shaky, inadequate and unsubstantial. The Islamic philosophers [ mutakallimin ] have broken down their arguments and have shown that they are baseless, false and absurd. They could not prove by any rational argument that &moon-splitting& is impossible. Indeed, illiterate people regard every unusual thing as impossible. Obviously, the very meaning of mu’ jizah or a prophetic miracle is that it is an unusual event that is abnormal and out of general habit, which cannot be performed by common people. Any ordinary work which can be performed at any time cannot be called mu’ jizah or miracle. The other criticism based on a layman&s thinking is that if such a wonderful event had taken place, its knowledge would have been commonplace and would have found its mention in the books of history, but they say that they have found no such thing recorded. Such a thinking is too simplistic which lacks careful analysis. A careful analysis shows that the event had occurred in Makkah at night. At that particular moment, in many parts of the world it must have been day time where and when the question of witnessing this event does not even arise. In many other countries, it must have been middle of the night, or last part of the night when the people normally sleep. Furthermore, people who are awake also do not stare at the moon all the time. Splitting of the moon would not make any difference on the moonlight spread on the earth, so that it would attract people&s attention. The event took place suddenly and lasted for a short while. It is a daily experience that in particular countries at different times lunar eclipse takes place. Nowadays a forecast is made about its occurrence well in advance, yet there are hundreds of thousands of people who are absolutely unaware of it. Can this be the proof that the lunar eclipse did not take place? Thus if the event is not recorded in world history books, its occurrence cannot be denied or refuted. Besides, the event is recorded in the famous and reliable history book of India called &Tarikh-e-Farishtah&. It has been mentioned in this book that the Maharajah, a native ruler, of Malabar had witnessed this phenomenon that night with his own eyes, and had it entered in his diary. This incident was the cause of his embracing Islam. Earlier on the narratives of Abu Dawud Tayalisi and Baihaqi were quoted about the pagans of Makkah themselves who inquired from the people arriving from the neighboring parts of the country and they confirmed and verified that they had seen it. Allah, the Pure and the Exalted, knows best!
خلاصہ تفسیر (ان کفار کے لئے زاجر یعنی غلطی پر متنبہ کرنے والا امر تو اعلیٰ درجہ کا متحقق ہے، چنانچہ) قیامت نزدیک آپہنچی (جس میں تکذیب پر بڑی مصیبت آوے گی اور اس اخبار قرب ساعت کا مصداق بھی واقع ہوگیا چنانچہ) چاند شق ہوگیا (اور اس سے قرب قیامت کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے کہ شق قمر معجزہ ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا، جس سے آپ کی نبوت ثابت ہوتی ہے اور نبی کا ہر قول صادق ہے، اس لئے ضروری ہے کہ قیامت کے قریب آنے کی خبر جو آپ نے دی ہے وہ بھی صادق ہے اس سے تحقق زاجر کا متعین ہوگیا) اور (اس کا مقتضا یہ تھا کہ) یہ لوگ (اس سے منزجر اور متاثر ہوتے لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ) اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہوا جاتا ہے (یہ کہنا یہ ہے اس کے باطل ہونے سے کہ باطل کا اثر دیر تک قائم نہیں رہا کرتا، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ ، مطلب یہ کہ قرب قیامت سے نصیحت حاصل کرنا تو نبوت محمدیہ کے اعتقاد پر موقوف ہے، یہ لوگ خود اس کی دلیل ہی کو نظر تامل سے نہیں دیکھتے اور اس کو باطل سمجھتے ہیں تو پھر اس سے ان پر کیا اثر ہوتا) اور (اس اعراض اور بطلان دعویٰ معجزہ میں خود) ان لوگوں نے (باطل پر مصر ہو کر حق کو) جھٹلایا اور اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کی (یعنی ان کا اعراض کسی دلیل صحیح کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سبب اس اعراض کا ہوائے نفسانی کا اتباع اور از روئے عناد تکذیب حق ہے) اور (یہ معجزات کو جادو کہتے ہیں جس کا اثر جلد زائل ہوجایا کرتا ہے سو قاعدہ ہے کہ) ہر بات کو (بعد چندے اپنی اصلی حالت پر آ کر) قرار آجاتا ہے (یعنی حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا، اسباب و آثار سے عام طور پر متعین ہوجاتا ہے مطلب یہ کہ گو واقع میں تو فی الحال بھی حق متعین اور واضح ہے، اگر کم فہموں کی سمجھ میں اگر اب نہیں آتا تو بعد چندے تو ان کو بھی ظاہر ہوسکتا ہے، بشرطیکہ غور سے کام لیں تو چند روز کے بعد تم کو معلوم ہوجاوے گا کہ یہ سحر فانی ہے یا حق باقی ہے) اور (اس زاجر مذکور کے علاوہ) ان لوگوں کے پاس (تو امم ماضیہ کی بھی) خبریں اتنی پہنچ چکی ہیں کہ ان میں (کافی) عبرت یعنی اعلیٰ درجہ کی دانشمندی (حاصل ہو سکتی) ہے سو (ان کی یہ کیفیت ہے کہ) خوف دلانے والی چیزیں ان کو کچھ فائدہ ہی نہیں دیتیں (اور جب یہ حال ہے) تو آپ ان کی طرف سے کچھ خیال نہ کیجئے (جب وہ وقت قیامت اور عذاب کا جس سے ان کو ڈرا یا جاتا ہے آ جاوے گا تو خود معلوم ہوجاوے گا آگے اس روز کا بیان ہے، یعنی) جس روز ایک بلانے والا فرشتہ (ان کو) ایک ناگوار چیز کی طرف بلاوے گا ان کی آنکھیں (مارے ذلت اور ہیبت کے) جھکی ہوئی ہوں گی (اور) قبروں سے اس طرح نکل رہے ہوں گے جیسے ٹڈی پھیل جاتی ہے ، (اور پھر نکل کر) بلانے والے کی طرف (یعنی موقف حساب کی طرف جہاں جمع ہونے کے لئے بلانے والے نے پکارا ہے) دوڑے چلے جا رہے ہوں گے (اور وہاں کی سختیاں دیکھ کر کافر کہتے ہوں گے کہ یہ دن بڑا سخت ہے ) معارف و مسائل پچھلی سورت (النجم) اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ الخ پر ختم ہوئی ہے جس میں قیامت کے قریب آجانے کا ذکر ہے، اس سورت کو شروع اسی مضمون سے کیا گیا ہے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ ، آگے قرب قیامت کی ایک دلیل معجزہ انشقاق قمر کا ذکر فرمایا گیا ہے، کیونکہ علامات قیامت جن کی بڑی تفصیل ہے ان میں سے ایک بڑی علامت تو خود حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت و نبوت ہے، جیسا کہ حدیث میں آپ کا ارشاد ہے کہ میرا آنا اور قیامت اس طرح ملے ہوئے ہیں جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں، اور بھی چند روایات حدیث میں آپ کا قیامت کے قریب ہونا بیان فرمایا گیا ہے، اسی طرح ایک بڑی علامت قیامت کی یہ بھی ہے کہ آپ کے معجزہ کے طور پر چاند کے دو ٹکڑے ہو کر الگ الگ ہوجاویں گے پھر باہم جڑ جاویں گے، نیز معجزہ شق القمر اس حیثیت سے بھی قیامت کی علامت ہے کہ جس طرح اس وقت چاند کے دو ٹکڑے اللہ کی قدرت سے ہوگئے قیامت میں سارے ہی سیاروں اور ستاروں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا کوئی امر مستبعد نہیں۔ معجزہ شق القمر : کفار مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی نبوت و رسالت کے لئے کوئی نشانی معجزہ کی طلب کی، حق تعالیٰ نے آپ کی حقانیت کے ثبوت کے لئے یہ معجزہ شق القمر ظاہر فرمایا، اس معجزہ کا ثبوت قرآن کریم کی اس آیت میں بھی موجود ہے وانْشَقَّ الْقَمَرُ ، اور احادیث صحیحہ جو صحابہ کرام کی ایک جماعت کی روایت سے آئی ہیں جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر، جبیر بن مطعم، ابن عباس، انس بن مالک (رضی اللہ عنہم اجمعین) وغیرہ شامل ہیں، اور حضرت عبداللہ بن مسعود خود اپنا اس وقت میں موجود ہونا اور معجزہ کا مشاہدہ کرنا بھی بیان فرماتے ہیں، امام طحادی اور ابن کثیر نے واقعہ شق القمر کی روایات کو متواتر قرار دیا ہے، اس لئے اس معجزہ نبوی کا وقوع دلائل سے ثابت ہے۔ واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ کے مقام منیٰ میں تشریف رکھتے تھے، مشرکین مکہ نے آپ سے نبوت کی نشانی طلب کی، یہ واقعہ ایک چاندنی رات کا ہے، حق تعالیٰ نے یہ کھلا ہوا معجزہ دکھلا دیا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہو کر ایک مشرق کی طرف دوسرا مغرب کی طرف چلا گیا اور دونوں ٹکڑوں کے درمیان میں پہاڑ حائل نظر آنے لگا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب حاضرین سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو ، جب سب لوگوں نے صاف طور پر یہ معجزہ دیکھ لیا تو یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے، اس کھلے ہوئے معجزہ کا انکار تو کسی آنکھوں والے سے ممکن نہ ہوسکتا تھا، مگر مشرکین کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے جہان پر جادو نہیں کرسکتے، اطراف ملک سے آنے والے لوگوں کا انتظار کرو وہ کیا کہتے ہیں، بیہقی اور ابو داؤد طیالسی کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود سے ہے کہ بعد میں تمام اطراف سے آنے والے مسافروں سے ان لوگوں نے تحقیق کی تو سب نے ایسا ہی چاند کے دو ٹکڑے دیکھنے کا اعتراف کیا۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ معجزہ شق القمر مکہ مکرمہ میں دو مرتبہ پیش آیا مگر روایات صحیحہ سے ایک ہی مرتبہ کا ثبوت ملتا ہے (بیان القرآن) اس معاملہ سے متعلق چند روایات حدیث یہ ہیں (جو تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں ) (1) صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ان اھل مکۃ سالوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان یریھم ایۃ فاراھم القمر شقین حتی راوا حراء بینھما (بخاری و مسلم ) |" یعنی اہل مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اپنی نبوت کے لئے کوئی نشانی (معجزہ) دکھلائیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھلا دیا، یہاں تک کہ انہوں نے جبل حراء کو دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا |" (2) صحیح بخاری و مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے : انشق القمر علے ٰ عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شقین حتی نظروا الیہ فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشھدوا۔ |" رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں چاند شق ہوا اور دو ٹکڑے ہوگئے جس کو سب نے صاف طور سے دیکھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو |"۔ اور ابن جر پر نے بھی اپنی سند سے اس حدیث کو نقل کیا ہے، اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ کنا مع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بمنی فانشق القمر فاخذت فرقة خلف الجبل فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشھدوا اشھدوا (عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم منیٰ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، اچانک چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے، اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے چلا گیا، تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ گواہی دو ، گواہی دو ) (3) حضرت عبداللہ بن مسعود ہی کی روایت سے ابو داؤد طیالسی نے اور بیہقی نے یہ بھی نقل کیا ہے : انشق القمر بمکة حتی صار فرقتین فقال کفار قریش اھل مکة ھذا سحر سحرکم بہ ابن ابی کبشتة انظروا السفار فان کانوا راوا ما رایتم فقد صدق و ان کانوا لم یروا مثل ما رایتم فھو سحر سحرکم بہ فسئل السفار قال وقدموا من کل جھة فقالو راینا (ابن کثیر) |" مکہ مکرمہ (کے قیام کے زمانہ) میں چاند شق ہو کردو ٹکڑے ہوگیا، کفار قریش کہنے لگے کہ یہ جادو ہے ابن ابی کبشہ (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم پر جادو کردیا ہے، اس لئے تم انتظار کرو باہر سے آنے والے مسافروں کا، اگر انہوں نے بھی یہ دو ٹکڑے چاند کے دیکھے ہیں تو انہوں نے سچ کہا ہے اور اگر باہر کے لوگوں نے ایسا نہیں دیکھا تو پھر یہ بیشک جادو ہی ہوگا، پھر باہر سے آنے والے مسافروں سے تحقیق کی جو ہر طرف سے آئے تھے، سب نے اعتراف کیا کہ ہم نے بھی یہ دو ٹکڑے دیکھے ہیں |"۔ شق القمر کے واقعہ پر کچھ شبہات اور جواب : اس پر ایک شبہ تو یونانی فلسفہ کے اصول کی بنا پر کیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آسمان اور سیارات میں فرق اور التیام (یعنی شق ہونا اور جڑنا) ممکن نہیں، مگر یہ محض ان کا دعویٰ ہے اس پر جتنے دلائل پیش کئے گئے ہیں وہ سب لچر اور بےبنیاد ہیں، ان کا لغو و باطل ہونا متکلمین اسلام نے بہت واضح کردیا ہے، اور آج تک کسی عقلی دلیل سے شق قمر کا محال اور ناممکن ہونا ثابت نہیں ہوسکا، ہاں ناواقف عوام ہر مستبعد چیز کو ناممکن کہنے لگتے ہیں، مگر یہ ظاہر ہے کہ معجزہ تو نام ہی اس فعل کا ہے جو عام عادت کے خلاف اور عام لوگوں کی قدرت سے خارج حیرت انگیز و مستبعد ہو، ورنہ معمولی کام جو ہر وقت ہو سکے اسے کون معجزہ کہے گا ؟ دوسرا عامیانہ شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا عظیم الشان واقعہ پیش آیا ہوتا تو پوری دنیا کی تاریخوں میں اس کا ذکر ہوتا، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ مکہ معظمہ میں رات کے وقت پیش آیا ہے، اس وقت بہت سے ممالک میں تو دن ہوگا وہاں اس واقعہ کے نمایاں اور ظاہر ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا اور بعض ممالک میں نصف شب اور آخر شب میں ہوگا، جس وقت عام دنیا سوتی ہے اور جاگنے والے بھی تو ہر وقت چاند کو نہیں تکتے رہتے، زمین پر پھیلی ہوئی چاندنی میں اس کے دو ٹکڑے ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا جس کی وجہ سے کسی کو اس طرف توجہ ہوتی، پھر یہ تھوڑی دیر کا قصہ تھا، روز مرہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں چاند گرہن ہوتا ہے، اور آج کل تو پہلے سے اس کے اعلانات بھی ہوجاتے ہیں، اس کے باوجود ہزاروں لاکھوں آدمی اس سے بالکل بیخبر رہتے ہیں، ان کو کچھ پتہ نہیں چلتا، تو کیا اس کی یہ دلیل بنائی جاسکتی ہے کہ چاند گرہن ہوا ہی نہیں، اس لئے دنیا کی عام تاریخوں میں مذکور نہ ہونے سے اس واقعہ کی تکذیب نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی مشہور و مستند |" تاریخ فرشتہ |" میں اس کا ذکر بھی موجود ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ مالیبار نے یہ واقعہ بچشم خود دیکھا اور اپنے روزنامچہ میں لکھوایا اور یہی واقعہ ان کے مسلمان ہونے کا سبب بنا، اور اوپر ابوداؤ و طیالسی اور بیہقی کی روایات سے بھی یہ ثابت ہوچکا ہے کہ خود مشرکین مکہ نے بھی باہر کے لوگوں سے اس کی تحقیق کی تھی اور مختلف اطراف کے آنے والوں نے یہ واقعہ دیکھنے کی تصدیق کی تھی، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ١ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ شق الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس/ 26] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ، وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة/ 16] ، إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق/ 1] ، وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر/ 1] ، وقیل : انْشِقَاقُهُ في زمن النّبيّ عليه الصلاة والسلام، وقیل : هو انْشِقَاقٌ يعرض فيه حين تقرب القیامة وقیل معناه : وضح الأمروالشِّقَّةُ : القطعة الْمُنْشَقَّةُ کالنّصف، ومنه قيل : طار فلان من الغضب شِقَاقًا، وطارت منهم شِقَّةٌ ، کقولک : قطع غضبا والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] ، ( ش ق ق ) الشق الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شققتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس/ 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ( ان سے ) پھٹ جائے گی ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة/ 16] اور آسمان پھٹ جائے گا ۔ إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق/ 1] جب آسمان پھٹ جائیگا ۔ اور آیت کریمہ : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر/ 1] اور چاند شق ہوگیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ انشقاق قمر آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ یہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور بعض نے انشق القمر کے معنی وضح الاسر کئے ہیں یعنی معاملہ واضح ہوگیا ۔ الشقۃ پھاڑا ہوا ٹکڑا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ طار فلان من الغضب شقاقا فلاں غصہ سے پھٹ گیا ۔ جیسا کہ قطع غضبا کا محاورہ ہے ۔ طارت منھم شقۃ ۔ ان کا ایک حصہ اڑ گیا ۔ یعنی غضب ناک ہوئے ۔ الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ و دو سے بدن یا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔ قمر القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ( ق م ر ) القمر ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔
شق القمر کا معجزہ دلیل نبوت ہے قول باری ہے (اقتربت الساعۃ وانشق القمر قیامت نزدیک آپہنچی اور چاندشق ہوگیا) چاند کا شق ہوناحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر دلالت کے طور پر تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ عادات یعنی قوانین تکوینی میں اس جیسی تبدیلی صرف اس لئے کرتا ہے کہ یہ اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی دلیل بن جائے۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی روایت دس صحابہ کرام سے مروی ہے جن میں حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت انس (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت حذیفہ (رض) ، حضرت جبیر بن مطعم (رض) اور دوسرے صحابہ کرام شامل ہیں۔ میں نے ان کی روایات کی اسانید کو طوالت کے خوف سے بیان کرنا پسند نہیں کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ چاند قیامت کے وقت دو ٹکڑے ہوگا کیونکہ اگر یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں شق ہوگیا ہوتا تو یہ بات دنیا والوں کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہتی اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات دو وجوہ سے غلطے اول یہ کہ یہ مفہوم آیت کے الفاظ اور ان کے حقیقی معنی کے خلاف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شق قمر کی یہ روایت صحابہ کرام سے تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی اس کی تردید نہیں کی ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا ہوتا تو دنیا والوں کی نظروں کی نظروں سے یہ پوشیدہ نہ رہتاتو اس کا جواب یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کی نظروں سے اسے یوں پوشیدہ رکھا ہو کہ اس وقت اس پر بادل آگئے ہوں یا لوگ اپنے کام دھندوں میں مصروفیت کی بنا پر اس طرف متوجہ نہ ہوئے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی تدبیر کے طور پر یہ صورت پیدا کردی ہوتا کہ دنیا کے کسی حصے میں نبوت کا کوئی جھوٹا مدعی اس واقعہ کو اپنے جھوٹے دعوے کی دلیل نہ بناسکے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے سامنے اسے ظاہر کیا تھا جو اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھے اور آپ انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تھے اور ان پر حجت تام کررہے تھے۔
رسو الرم کی بعثت اور نزول دخان کی وجہ سے قیامت نزدیک آپہنچی ہے اور چاند پھٹ گیا کہ اس کے دو ٹکڑے ہوگئے یہ بھی علامت قیامت میں سے ہے۔ شان نزول : اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ (الخ) امام بخاری و مسلم اور حاکم نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ مکرمہ سے رسول اکرم کی ہجرت سے پہلے چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھے اس پر کفار کہنے لگے کہ آپ نے چاند پر جادو کردیا ہے تب یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ١ { اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ۔ } ” قیامت کی گھڑی قریب آچکی اور چاند شق ہوگیا۔ “ جیسا کہ قبل ازیں بھی کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سب سے قطعی اور یقینی نشانی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہے۔ اس حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَـیْنِ ) (١) ” مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح (جڑا ہوا) بھیجا گیا ہے “۔ اس لحاظ سے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ کا مفہوم یہ ہے کہ اب جبکہ آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دنیا میں آ چکے ہیں تو سمجھ لو کہ قیامت کا وقت بہت قریب آ لگا ہے۔ سورة السجدۃ کی آیت ٥ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک دن ہمارے ہزار برس کے برابر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کو ابھی صرف ڈیڑھ دن ہی ہوا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اب قیامت بالکل سامنے ہے۔ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) اپنے منہ کے ساتھ صور لگائے بالکل تیار کھڑے ہیں۔ بس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارے کی دیر ہے۔ جونہی اشارہ ہوگا وہ صور میں پھونک مار دیں گے۔ قربِ قیامت کے اس مفہوم کو سورة المعارج میں یوں بیان کیا گیا ہے : { اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا ۔ وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا ۔ } ” یہ لوگ تو قیامت کو بہت دور سمجھ رہے ہیں ‘ جبکہ ہم اسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں۔ “ آیت میں چاند کے پھٹنے کا ذکر ایک خرق عادت واقعہ کے طور پر ہوا ہے۔ روایات کے مطابق اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ چاند کی چودھویں رات تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارد گرد ہر طرح کے لوگ تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کوئی نشانی ہونی چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چاند کی طرف دیکھو۔ لوگوں کو متوجہ کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگلی کا اشارہ کیا اور چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف چلا گیا اور پھر اگلے ہی لمحے دونوں ٹکڑے قریب آکر دوبارہ جڑ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا : دیکھو اور گواہ رہو ! کفار نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم پر جادو کردیا تھا ‘ اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکہ کھایا۔ بعد میں باہر سے آنے والے لوگوں نے بھی اس کی شہادت دی۔ میرے نزدیک یہ معجزہ نہیں تھا بلکہ ایک ” خرقِ عادت “ واقعہ تھا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کی جا چکی ہے کہ ہر رسول کو ایک معجزہ دیا گیا جو باقاعدہ دعوے کے ساتھ دکھایا گیا۔ اس لحاظ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ قرآن ہے۔ البتہ خرق عادت واقعات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیشمار نقل ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اگر اولیاء اللہ سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کرامات تو ہزار گنا بڑی ہوں گی۔ اس واقعہ پر بہت سے اعتراضات بھی ہوئے ہیں ۔ اس بنیاد پر بھی کہ اس سے متعلق دنیا میں کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں ۔ اسی لیے سرسید احمد خان مرحوم اور ان کے مکتبہ فکر کے لوگوں نے آیت کے متعلقہ الفاظ کی مختلف تاویلات کی ہیں۔ بہرحال جہاں تک تاریخی ثبوت نہ ہونے کا تعلق ہے اس بارے میں یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ یہ واقعہ رونما ہونے کے وقت آدھی دنیا میں تو دن کی روشنی ہوگی ۔ لیکن جن علاقوں میں چاند دیکھا جاسکتا تھا ان علاقوں کے لوگ بھی تو ظاہر ہے اس وقت ٹکٹکی باندھے چاند کو نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان میں سے اکثر اس واقعے کے عینی شاہد بن جاتے۔ پھر یہ منظر بھی صرف لمحے بھر کا تھا اور اس دوران چاند کی روشنی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا کہ لوگ چونک کر دیکھتے۔ البتہ ایک تاریخی روایت کے مطابق برصغیر میں مالابار کے ساحلی علاقے کے ایک ہندو راجہ نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ بعد میں جب عرب تاجروں کے ذریعے اس تک اسلام کی دعوت اور قرآنی تعلیمات پہنچیں تو اس نے نہ صرف ایک چشم دید گواہ کے طور پر اس واقعہ کی تصدیق کی بلکہ وہ ایمان بھی لے آیا۔ واللہ اعلم !
1 That is, "The splitting of the Moon asunder is a portent that the Hour of Resurrection of which you are being foretold, has drawn near at hand, and the order of the Universe has begun to be disrupted. Moreover, the incident that a great sphere like the Moon's has split into two distinct parts, is a specific proof of the fact that Resurrection of which you are being forewarned can take place. Obviously, when the Moon can split, the earth also can split, the orbits of he stars and planets also can change and the whole system of the heavens also can be disturbed. There is nothing eternal and everlasting and stable here so that Resurrection may be improbable." Some people have taken this sentence to mean: "The Moon will split. " Although according to Arabic usage it is possible to take this meaning, the context clearly rejects it. In the first place, if this were the meaning, the first sentence would become meaningless. If the Moon had not actually split at the time when this Revelation was made, but it was going to split some time in the future, it would be absurd to say on the basis of this that the Hour of Resurrection had approached near at hand. After all, how can an incident that is to take place in the futute, be regarded as a sign of Resurrection's being near at hand, and how can such a testimony be put forward as a rational argument? Second, with this meaning in mind when we read the following verses, they appear to be altogether incoherent. The verses that follow clearly show that the people at that time had witnessed a sign that was a manifest portent of the possibility of Resurrection, but they rejected it as a magical illusion, and persisted in their belief that Resurrection was not possible. In this context, the words inshaqq-al-Qamar can be meaningful only if they are taken to mean: "The Moon split asunder." If they are taken to mean: "The Moon will split asunder," the whole following theme becomes disjointed. It will Took like this: "The Hour of Resurrection has drawn near and the Moon will split asunder. Yet whatever sign these people may see they turn away and say: `This is current magic !' They have denied and followed only their own lusts. " Therefore, the truth is that the incident of the splitting of the Moon is confirmed explicitly by the words of the Qur'an and it is not dependent upon the traditions of the Hadith. However, the traditions supply its details, and one comes to know when and how it had taken place. These traditions have been related by Bukhari, Muslim, Tirmidhi, Ahmad, Abu `Uwanah, Abu Da'ud Tayalisi, `Abdur Razzaq, Ibn Jarir, Baihaqi, Tabarani, Ibn Marduyah, and Abu Nu'aim Tsfahani with many chains of transmitters on the authority of Hadrat `Ali, Hadrat `Abdullah bin Mas'ud, Hadrat `Abdullah bin `Abbas, Hadrat' Abdullah bin `Umar, Hadrat Hudhaifah, Hadrat Anas bin Malik and Hadrat Jubair bin Mut`im. Three of these authorities, viz, Hadrat `Abdullah bin Mas'ud; Hadrat Hudhaifah, and Hadrat Jubair bin Mut`im, state that they were the eye-witnesses of this event; two of them cannot be its eye-witnesses, for this event took place before the birth of one (i.e. 'Abdullah bin `Abbas) and at a time when the other (i.e.. Anas bin Malik) was yet a child. But since both these scholars were Companions, obviously they must have reported this event after they had heard it from the aged Companions who had direct knowledge of it. The information that one gathers from the various traditions is that this incident occurred about five years before the Hijrah. It was the 14th night of the lunar month; the Moon had just risen when it suddenly split and its two parts were seen on either side of the hill in front. Then after a moment or so they rejoined. The Holy Prophet (upon whom be peace) at that time was at Mina. He told the people to mark it and be witnesses to it. The disbelievers said that Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) had worked magic on them; therefore, their eyes had been deceived. The other people said: "Mnhammad could have worked magic on us but not on all the people. Let the people from other places come: we shall ask them if they also had witnessed this incident. " When the people from other places came, they bore evidence that they also had witnessed the same phenomenon. Some traditions which have been related from Hadrat Anas give rise to the misunderstanding that the incident of the splitting of the Moon had happened twice. But, in the first place, no one else from among the Companions has stated this; second, in somc traditions of Hadrat Anas himself also the words arc marratain (twice), and in sane firqatain and shaqqatain (two pieces); third, the Qur'an mentions only one incident of the Moon's splitting asunder. The correct view therefore is that this incident happened only once. As for the stories which are current among the people that the Holy Prophet (upon whom be peace) had matte a gesture towards the Moon and it split into two parts and that one part of the Moon entered the breast of the garment of the Holy Prophet and went out of the sleeve, have no basis whatever. Here, the question arises: What was the real nature of this incident. Was it a miracle that the Holy Prophet (upon whom be peace) performed on the demand of the disbelievers of Makkah as a proof of his Prophethood? Or, was it only an accident that occurred on the Moon by the power of Allah and the Holy Prophet had only called the peoples attention to it and warned them to mark it as a Sign of the possibility and nearness of Resurrection? A large group of the Muslim scholars regards it as among the miracles of the Holy Prophet and holds the view that it had been shown on the demand of the disbelievers. But this view is based only on somc of those traditions which have been related from Hadrat Anas. Apart from him no other Companion has stated this. According to Fath al Bari Ibn Hajar says: "Apart from the narration by Hadrat Anas, in no other narration of this story have I come across the theme that the incident of the splitting of the Moon had taken place on the demand of the polytheists. (Bab Inshiqaq al-Qamar). Abu Nu'aim Isfahani has related a tradition on this subject in Dale il an-Nubuwwat, on the authority of Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas also, but it has a weak chain of transrmitters and none of the traditions that have been related with strong chains of tranamitters in the collections of Hadith on the authority of Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas, contains any mention of this. Furthermore, neither Hadrat Anas nor Hadrat `Abdullah bin `Abbas was a contemporary of this incident. On the contrary, none of the Companions from among Hadrat `Abdullah bin Mas'ud, Hadrat Hudhaifah, Hadrat Jubair bin Mut`im, Hadrat 'Ali, Hadrat `Abdullah bin 'Umar, who were contemporaries of the incident, has stated that the pagans of Makkah had demanded a Sign of the Holy Prophet to testify to his Prophethood on which he might havc shown the miracle of the splitting of the Moon. Above all, the Qur'an itself also is presenting this event not as a Sign of the Prophethood but as a Sign of the nearness of Resurrection. However, this was indeed 3 conspicuous proof of the Holy Prophet's truthfulness because it testified to the news that he was giving to the people of the coming of Resurrection. The critics raise two kinds of objections against it. In the first place, they say it is impossible that a great sphere like the Moon should split asunder into two distinct parts, which should get hundreds of miles apart and then rejoin. Secondly, they say if it had so happened, it would be a well-known event in the world and would have found mention in the books of History and Astronomy. But, in fact, both these objections are flimsy. As for the discussion of its possibility, it could perhaps find credibility in the ancient days but on the basis of what man has cane to know in the present day about the structure of the planets, it can be said that it is just possible that a sphere may burst because of its internal volcanic action and its two parts may be thrown far apart by the mighty eruption, and then may rejoin under the magnetic force of their centre. As for the second objection, it is flimsy because the event had taken place suddenly and lasted a short time only. It was not necessary that at that particular moment the world might be looking at the Moon. There was no explosion either that might have attracted the people's attention; there was no advance information of it that the people might be awaiting its occurrence and looking up at the sky. It could not also be seen everywhere on the earth but only in Arabia and the eastern (ands where the Moon had risen and was visible at that time. The taste and art of writing history also had not yet developed so that the people who might have witnessed it, should have made a record of it and then sane historian might have gathered the evidence and preserved it in some book of History. However, in the Histories of Malabar mention has been made of a native ruler who had witnessed this phenomenon that night. As for the books of Astronomy and Calendars, this event might havc been mentioned in them only if the event had affected the movement of the Moon, its orbit and the times of its rising and setting. As no such thing happened, it did not attract the ancient astronomers' attention. The observatories also were not so developed that they might havc taken notice of everything happening in the heavens and preserved a record of it.
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :1 یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قیامت کی گھڑی ، جس کے آنے کی تم لوگوں کو خبر دی جاتی رہی ہے ، قریب آ لگی ہے اور نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہو گیا ہے ۔ نیز یہ واقعہ کہ چاند جیسا ایک عظیم کرہ شق ہو کر دو ٹکڑے ہو گیا ، اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ جس قیامت کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ برپا ہو سکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب چاند پھٹ سکتا ہے تو زمین بھی پھٹ سکتی ہے ، تاروں اور سیاروں کے مدار بھی بدل سکتے ہیں اور افلاک کا یہ سارا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے ۔ اس میں کوئی چیز ازلی و ابدی اور دائم و مستقل نہیں ہے کہ قیامت برپا نہ ہو سکے ۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کا مطلب یہ لیا ہے کہ چاند پھٹ جائے گا ۔ لیکن عربی زبان کے لحاظ سے چاہے یہ مطلب لینا ممکن ہو ، عبارت کا سیاق و سباق اس معنی کو قبول کرنے سے صاف انکار کرتا ہے ۔ اول تو یہ مطلب لینے سے پہلا فقرہ ہی بے معنی ہو جاتا ہے ۔ چاند اگر اس کلام کے نزول کے وقت پھٹا نہیں تھا ، بلکہ وہ آئندہ کبھی پھٹنے والا ہے تو اس کی بنا پر یہ کہنا بالکل مہمل بات ہے کہ قیامت کی گھڑی قریب آ گئی ہے ۔ آخر مستقبل میں پیش آنے والا کوئی واقعہ اس کے قرب کی علامت کیسے قرار پا سکتا ہے کہ اسے شہادت کے طور پر پیش کرنا ایک معقول طرز استدلال ہو ۔ دوسرے یہ مطلب لینے کے بعد جب ہم آگے کی عبارت پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتی ۔ آگے کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ لوگوں نے اس وقت کوئی نشانی دیکھی تھی جو امکان قیامت کی صریح علامت تھی مگر انہوں نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دے کر جھٹلا دیا اور اپنے اس خیال پر جمے رہے کہ قیامت کا آنا ممکن نہیں ہے ۔ اس سیاق و سباق میں اِنْشَقَّ الْقَمَرُ کے الفاظ اسی صورت میں ٹھیک بیٹھ سکتے ہیں جبکہ ان کا مطلب چاند پھٹ گیا ہو ۔ پھٹ جائے گا کے معنی میں ان کو لے لیا جائے تو بعد کی ساری بات بے جوڑ ہو جاتی ہے ۔ سلسلہ کلام میں اس فقرے کو رکھ کر دیکھ لیجیے ، آپ کو خود محسوس ہو جائے گا کہ اس کی وجہ سے ساری عبارت بے معنی ہو گئی ہے : قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ جائے گا ۔ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ۔ انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی ۔ پس حقیقت یہ ہے کہ شق القمر کا واقعہ قرآن کے صریح الفاظ سے ثابت ہے اور حدیث کی روایات پر اس کا انحصار نہیں ہے ۔ البتہ روایات سے اس کی تفصیلات معلوم ہوتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ یہ کب اور کیسے پیش آیا تھا ۔ یہ روایات بخاری ، مسلم ، ترمذی ، احمد ، ابو عوانہ ، ابو داؤد طیالسی ، عبدالرزاق ، ابن جریر ، بیہقی ، طبرانی ، ابن مردویہ اور ابو نعیم اصفہانی نے بکثرت سندوں کے ساتھ حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت حذیفہ ، حضرت انس بن مالک اور حضرت جبیر بن مطعم سے نقل کی ہیں ۔ ان میں سے تین بزرگ ، یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت حذیفہ اور حضرت جبیر بن مطعم تصریح کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں ۔ اور دو بزرگ ایسے ہیں جو اس کے عینی شاہد نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ ان میں سے ایک ( یعنی عبداللہ بن عباس ) کی پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے ، اور دوسرے ( یعنی انس بن مالک ) اس وقت بچے تھے ۔ لیکن چونکہ یہ دونوں حضرات صحابی ہیں اس لیے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایسے سن رسیدہ صحابیوں سے سن کر ہی اسے روایت کیا ہو گا جو اس واقعہ کا براہ راست علم رکھتے تھے ۔ تمام روایات کو جمع کرنے سے اس کی جو تفصیلات معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ قمری مہینے کی چودھویں شب تھی ۔ چاند ابھی ابھی طلوع ہوا تھا ۔ یکایک وہ پھٹا اور اس کا ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا ۔ یہ کیفیت بس ایک ہی لحظہ رہی اور پھر دونوں ٹکڑے باہم جڑ گئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت منیٰ میں تشریف فرما تھے ۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا دیکھو اور گواہ رہو ۔ کفار نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ( نے ہم پر جادو کر دیا تھا اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکا کھایا ۔ دوسرے لوگ بولے کہ محمد ہم پر جادو کر سکتے تھے ، تمام لوگوں پر تو نہیں کر سکتے تھے ۔ باہر کے لوگوں کو آنے دو ۔ ان سے پوچھیں گے کہ یہ واقعہ انہوں نے بھی دیکھا ہے یا نہیں ۔ باہر سے جب کچھ لوگ آئے تو انہوں نے شہادت دی کہ وہ بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں ۔ بعض روایات جو حضرت انس سے مروی ہیں ان کی بنا پر یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شق القمر کا واقعہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ پیش آیا تھا ۔ لیکن اول تو صحابہ میں سے کسی اور نے یہ بات بیان نہیں کی ہے ۔ دوسرے خود حضرت انس کی بھی بعض روایات میں مرتین ( دو مرتبہ ) کے الفاظ ہیں اور بعض میں فِرقتین اور شقتین ( دو ٹکڑے ) کے الفاظ ۔ تیسرے یہ کہ قرآن مجید صرف ایک ہی انشقاق کا ذکر کرتا ہے ۔ اس بنا پر صحیح بات یہی ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک مرتبہ پیش آیا تھا ۔ رہے وہ قصے جو عوام میں مشہور ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا اور وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور یہ کہ چاند کا ایک ٹکڑا حضور کے گریبان میں داخل ہو کر آپ کی آستین سے نکل گیا ، تو یہ بالکل ہی بے اصل ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی حقیقی نوعیت کیا تھی؟ کیا یہ ایک معجزہ تھا جو کفار مکہ کے مطالبہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کے ثبوت میں دکھایا تھا ؟ یا یہ ایک حادثہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے چاند میں پیش آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس کی طرف توجہ صرف اس غرض کے لیے دلائی کہ یہ امکان قیامت اور قرب قیامت کی ایک نشانی ہے ؟علماء اسلام کا ایک بڑا گروہ اسے حضور کے معجزات میں شمار کرتا ہے اور ان کا خیال یہ ہے کہ کفار کے مطالبہ پر یہ معجزہ دکھایا گیا تھا ۔ لیکن اس رائے کا مدار صر ف بعض ان روایات پر ہے جو حضرت انس سے مروی ہیں ۔ ان کے سوا کسی صحابی نے بھی یہ بات بیان نہیں کی ہے ۔ فتح الباری میں ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ قصہ جتنے طریقوں سے منقول ہوا ہے ان میں سے کسی میں بھی حضرت انس کی حدیث کے سوا یہ مضمون میری نگاہ سے نہیں گزرا کہ شق القمر کا واقعہ مشرکین کے مطالبہ پر ہوا تھا ۔ ( باب انشقاق القمر ) ۔ ایک روایت ابو نعیم اصفہانی نے دلائل لنبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس مضمون کی نقل کی ہے ، مگر اس کی سند ضعیف ہے ، اور قوی سندوں سے جتنی روایات کتب حدیث میں ابن عباس سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے ۔ علاوہ بریں حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن عباس ، دونوں اس واقعہ کے ہم عصر نہیں ہیں ۔ بخلاف اس کے جو صحابہ اس زمانے میں موجود تھے ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت حذیفہ ، حضرت جبیر بن مطعم ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن عمر ( رضی اللہ عنہم ) ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ مشرکین مکہ نے حضور کی صداقت کے ثبوت میں کسی نشانی کا مطالبہ کیا تھا اور اس پر شق القمر کا یہ معجزہ ان کو دکھایا گیا ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن مجید خود بھی اس واقعہ کو رسالت محمدی کی نہیں بلکہ قرب قیامت کی نشانی کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ البتہ یہ اس لحاظ سے حضور کی صداقت کا ایک نمایاں ثبوت ضرور تھا کہ آپ نے قیامت کے آنے کی جو خبریں لوگوں کو دی تھیں ، یہ واقعہ ان کی تصدیق کر رہا تھا ۔ معترضین اس پر دو طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ۔ اول تو ان کے نزدیک ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے کہ چاند جیسے عظیم کرے کے دو ٹکڑے پھٹ کر الگ ہو جائیں اور سینکڑوں میل کے فاصلے تک ایک دوسرے سے دور جانے کے بعد پھر باہم جڑ جائیں ۔ دوسرے وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ واقعہ دنیا بھر میں مشہور ہو جاتا ، تاریخوں میں اس کا ذکر آتا ، اور علم نجوم کی کتابوں میں اسے بیان کیا جاتا ۔ لیکن در حقیقت یہ دونوں اعتراضات بے وزن ہیں ۔ جہاں تک اس کے امکان کی بحث ہے ، قدیم زمانے میں تو شاید وہ چل بھی سکتی تھی ، لیکن موجودہ دور میں سیاروں کی ساخت کے متعلق انسان کو جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کی بنا پر یہ بات بالکل ممکن ہے کہ ایک کرہ اپنے اندر کی آتش فشانی کے باعث پھٹ جائے اور اس زبردست انفجار سے اس کے دو ٹکڑے دور تک چلے جائیں ، اور پھر اپنے مرکز کی مقناطیسی وقت کے سبب سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ آ ملیں ۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے بے وزن ہے کہ یہ واقعہ اچانک بس ایک لحظہ کے لیے پیش آیا تھا ۔ ضروری نہیں تھا کہ اس خاص لمحے میں دنیا بھر کی نگاہیں چاند کی طرف لگی ہوئی ہوں ۔ اس سے کوئی دھماکا نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف منعطف ہوتی ۔ پہلے سے کوئی اطلاع اس کی نہ تھی کہ لوگ اس کے منتظر ہو کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوتے ۔ پوری روئے زمین پر اسے دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا ، بلکہ صرف عرب اور اس کے مشرقی جانب کے ممالک ہی میں اس وقت چاند نکلا ہوا تھا ۔ تاریخ نگاری کا ذوق اور فن بھی اس وقت تک اتنا ترقی یافتہ نہ تھا کہ مشرقی ممالک میں جن لوگوں نے اسے دیکھا ہوتا وہ اسے ثبت کر لیتے اور کسی مؤرخ کے پاس یہ شہادتیں جمع ہوتیں اور وہ تاریخ کی کسی کتاب میں ان کو درج کر لیتا ۔ تاہم مالابار کی تاریخوں میں یہ ذکر آیا ہے کہ اس رات وہاں کے ایک راجہ نے یہ منظر دیکھا تھا ۔ رہیں علم نجوم کی کتابیں اور جنتریاں ، تو ان میں اس کا ذکر آنا صرف اس حالت میں ضروری تھا جبکہ چاند کی رفتار ، اور اس کی گردش کے راستے ، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات میں اس سے کوئی فرق واقع ہوا ہوتا ۔ یہ صورت چونکہ پیش نہیں آئی اس لیے قدیم زمانے کے اہل تنجیم کی توجہ اس کی طرف منعطف نہیں ہوئی ۔ اس زمانے میں رصد گاہیں اس حد تک ترقی یافتہ نہ تھیں کہ افلاک میں پیش آنے والے ہر واقعہ کا نوٹس لیتیں اور اس کو ریکارڈ پر محفوظ کر لیتیں ۔
1: قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت چاند کے دوٹکڑے ہونے کا معجزہ بھی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں ظاہر ہوا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک چاندنی رات میں مکہ مکرمہ کے کافروں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ کھلا معجزہ دکھایا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوئے، جن میں سے ایک ٹکڑا پہاڑ کی مشرقی جانب چلا گیا اور دوسرا مغربی جانب، اور پہاڑ ان کے درمیان آگیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا کہ لو دیکھ لو ! جب سارے لوگوں نے جو وہاں موجود تھے یہ حیرت انگیز نظارہ کرلیا تو یہ دونوں ٹکڑے دوبارہ آپس میں مل گئے، جو کافر لوگ اس وقت موجود تھے وہ اس مشاہدے کا تو انکار نہیں کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے یہ کہا کہ یہ کوئی جادو ہے، بعد میں مکہ مکرمہ کے باہر سے آنے والے قافلوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ انہوں نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا تھا، ہندوستان کی تاریخ فرشتہ میں بھی مذکور ہے کہ گوالیار کے راجہ نے یہ واقعہ دیکھا تھا۔
١۔ ٥۔ مسند امام احمد صحیح ١ ؎ بخاری صحیح مسلم ترمذی ‘ مستدرک حاکم میں چند صحابہ کی روایتوں سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزہ چاہا۔ اس پر چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ اور یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ بعض علما نے اس آیت کے معنی میں یہ جو لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں شق القمر کا معجزہ جو ہوا ہے اس کا ذکر اس آیت میں نہیں ہے۔ بلکہ جس شق القمر کا اس آیت میں ذکر ہے وہ ایک قیامت کی نشانی ہے جب اور نشانیاں قیامت کی ظاہر ہوں گی۔ اس وقت یہ نشانی بھی ظاہر ہوگی۔ یہ قول قرآن شریف اور صحیح حدیثوں کے مضمون کے مخالف ہے کیونکہ قرآن شریف اور صحیح حدیثوں کے مضمون یہ ہے کہ یہ معجزہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ظاہر ہوا اور مشرکوں نے اس کو جادو بتایا اور یہ کہا کہ ہماری آنکھوں پر تو جادو کا اثر چھاپا ہوا ہے۔ باہر کے آنے والے مسافروں سے اس کا حال پوچھنا چاہے۔ اس صورت میں اگر اس وقت یہ معجزہ ظاہر نہیں ہوا تو پھر ان لوگوں نے جادو کس چیز کو بتایا اور مسافروں سے انہوں نے کس بات کی تصدیق چاہی۔ بعض روایتوں میں دو دفعہ شق القمر ہونے کا جو ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کا یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ راوی کا سہو ہے جو دو ٹکڑوں کو دو دفعہ کا لفظ روایت کردیا ہے یہ جو ایک اعتراض مشہور ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب تفہیمات الہیہ میں شق القمر کے معجزہ کا انکار کیا ہے یہ غلط ہے۔ شاہ صاحب نے تو تفہیمات میں یہ لکھا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرب قیامت کے ساتھ شق القمر کا ذکر فرمایا ہے اس لئے اس لحاظ سے یہ قیامت کے قریب ہونے کی ایک نشانی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نشانی دکھا کر لوگوں کو اس نشانی سے آگاہ کیا ہے۔ اس واسطے یہ آپکا ایک معجزہ ہے۔ اس معجزہ کا انکار کب نکلتا ہے بلکہ جس لحاظ سے شق القمر معجزہ ہے اس کی تفہیمات الہیہ کی اس عبارت میں ایک تفصیل ہے اور یہ تفصیل کچھ شق القمر پر منحصر نہیں۔ قیامت کی ہر ایک نشانی کے حق میں یہی بات کہی جاسکتی ہے جو شاہ صاحب نے شق القمر کے حق میں کہی ہے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آخری زمانہ میں آنا قیامت کی ایک نشانی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس نشانی سے لوگوں کو آگاہ کرنا یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہے شق القمر اور قیامت کی اور نشانیوں میں فرق اتنا ہی ہے کہ اور نشانیوں کے بیان فرمانے کا معجزہ تو آپ کا ظاہر ہوچکا اور وہ نشانیاں اپنے وقت پر ظاہر ہو کر ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے معجزہ کی تصدیق اس وقت ہوگی۔ اور شق القمر میں یہ دونوں باتیں ہو چکیں۔ اگر وہ دیکھیں کوئی نشانی ‘ نشانی سے مقصود یہی شق القمر ہے۔ جادو چلا آتا کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس طرح اور جادو کی باتیں ہیں ویسی ہی ایک بات یہی بھی ہے اور ہر کام ٹھہر رہا ہے ‘ کا مطلب یہ ہے کہ علم الٰہی میں نیک و بد قرار پا چکے ہیں۔ اس لئے بد لوگ اپنی بدی سے باز نہ آئے اور معجزہ کو جادو بتایا۔ اب اگے فرمایا کہ رسولوں کے جھٹلانے والی پچھلی امتوں کے عذاب میں گرفتار ہوجانے کا حال جو جگہ جگہ قرآن میں بیان کیا گیا ہے اس میں بھولے بھٹکے کے راہ پر لانے اور سرکشی سے باز آنے کے لئے بڑی حکمت سے کام لیا گیا ہے لیکن علم الٰہی کے موافق ازلی کمبخت جن کے سر پر سوار ہے ڈرانے والوں کی ڈر کی باتوں کا ان کے دل پر مچھ اثر نہیں ہوتا ہے اس لئے وہ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں جیسی باتیں یہ لوگ کر رہے ہیں۔ ان باتوں کی قدر ان لوگوں کو اس وقت معلوم ہوگی جب ان کو آگ میں جھونک دیا جائے گا اور انہیں ذلت دینے کیلئے اللہ کے فرشتے ان سے گھڑی گھڑی پوچھیں گے کہ جن چیزوں سے تم لوگ دنیا میں نہیں ڈرتے تھے بلکہ ان کے ڈرنے کو جادو کی سی وہمی باتیں بتاتے تھے اب ذرا خوب آنکھیں کھول کر دیکھ لو کہ اس آگ میں ان سانپ بچھوئوں میں کچھ اثر ہے یا جادو کی سی وہمی خیالی چیزیں ہیں۔ چناچہ سورة والطور میں یہ ان لوگوں کے ذلت دینے کا ذکر گزر چکا ہے۔ ابو دائود نسائی اور ترمذی ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے جنت اور دوزخ کو پیدا کیا تو جبرئیل (علیہ السلام) نے دوزخ کے عذاب کی سختیوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ یا اللہ جب دنیا میں بنی آدم تیرے رسولوں کی معرفت اس عذاب کا حال سن لیں گے تو وہ اس سے بچنے کی ایسی کوشش کریں گے کہ شاید دوزخ خالی رہے اور ان میں سے ایک شخص بھی اس میں نہ جائے پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا کی وہ خواہش اور لذتیں جبرئیل (علیہ السلام) کو دکھائیں جن کے سبب سے لوگ دوزخ میں جائیں گے تو جبرئیل (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ یا اللہ اب تو مجھ کو یہ خوف ہے کہ شاید بنی آدم میں سے بہت کم لوگ دوزخ سے نجات پائیں گے۔ ترمذی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی خواہشوں میں پھنس کر عقبیٰ سے غافل ہوجانا یہی گویا دوزخ کا سیدھا راستہ ہے مسند ٢ ؎ بزار میں انس بن مالک سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن سورج کے غروب ہونے کے قریب خطبہ پڑھا جس میں لوگوں کو طرح طرح کی نصیحت کی اور فرمایا جس طرح اب تھوڑا سا دن باقی ہے اسی طرح قیامت کے آنے میں اب تھوڑا سا عرصہ باقی ہے۔ عقبیٰ کے لئے جو کچھ کرنا ہے وہ چستی سے کیا جائے۔ ان آیتوں میں قیامت کے قریب ہونے کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے اس حدیث کی سند میں ایک راوی علی بن موسیٰ بن خلف ہے جس کو بعض علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن ابن حبان نے اس کو ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة القمر ص ٧٢١ ج ٢ و جامع ترمذی تفسیر سورة القمر ص ١٨٤ ج ٢۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی۔ باب ماجاء حفت الجنۃ بالمکارہ وحفت النار بالشھوات ص ٩٣ ج ٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٦٠ ج ٤۔ )
(54:1) اقتربت : ماضی واحد مؤنث غائب اقتراب (افتعال) مصدر وہ قریب آلگی۔ وہ نزدیک ہوگئی۔ الساعۃ : گھڑی ، وقت، رات یا دن کا کوئی سا وقت۔ اہل عرب اس کا استعمال وقت ہی کے معنی میں کرتے ہیں چاہے ذرا سی دیر کے لئے ہی ہو۔ قرآن مجید میں الساعۃ کا لفظ جہاں کہیں بھی استعمال ہوا ہے اس سے القیامۃ ہی مراد ہے۔ انشق : ماضی واحد مذکر غائب انشقاق (انفعال) مصدر۔ وہ پھٹ گیا۔ وہ شق ہوگیا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ اذا السماء انشقت (84:1) جب آسمان پھٹ جائے گا۔
ف 1 متواتر صحیح احادیث سے ثابت ہے اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ چاند کے پھٹنے کا یہ واقعہ بطور معجزہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں واقعہ ہوچکا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ چاند کے پھٹ جانے پر آپ نے فرمایا ” اشھدوا “ گواہ رہو “ (ابن کثیر) بعض لوگ انشق القمر “ کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ قیامت چاند پھٹے گا لیکن یہ مطلب بجائے خود مہمل ہے اور اس سے متواثر احادیث کی مخالفت (لازم آتی ہے اور پھر کسی عقلی دلیل سے بھی اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بایق رہا یہ کہنا کہ چاند پھٹا ہوتا تو تاریخوں میں اس کا ذکر ہوتا تو واضح رہے کہ اول تو یہ ہے بھی رات کا تھوڑی دیر کا واقعہ اس لئے دنیا بھر کے تمام لوگوں کا مطلع ہونا ضروری نہیں اور ضھر بعض ملکوں میں اس وقت دن ہوگا اور بعض میں مطلع کے اعتبار سے چاند کا طلوع بھی نہیں ہوگا۔ تاہم تاریخ فرشتہ وغیرہ میں مذکور ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ ” مالی بار “ نے چاند کو دو ٹکڑوں کی شکل میں دیکھا اور اس وجہ سے وہ اسلام بھی لے آیا۔ ” بینات “ میں اس پر تفصیلی بحث ہے۔
آیات ١ تا ٢٢۔ اسرار ومعارف۔ قیامت قریب پہنچ چکی ہے اور خود آپ کی بعثت اس کی بڑی نشانیوں میں سے ہے ، نیز دوسری بڑی نشانی جو آپ نے بتائی وہ چاند کا پھٹ جانا اور شق ہونا ہے سو وہ بھی واقع ہوگیا۔ واقعہ شق القمر۔ روایات قریب پہنچ چکی ہے اور خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اس کی بڑی نشانیوں میں سے ہے ، نیز دوسری بڑی نشانی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتائی وہ چاند کا پھٹ جانا اور شق ہونا ہے سو وہ بھی واقع ہوگیا۔ روایات میں ہے کہ آپ سے اہل مکہ نے یہود مدینہ کے کہنے پر ایسے معجزے کی طلب کی جو آسمان پر اپنااثر ظاہر کرے کہ یہود کے مطابق جادو کا اثر آسمان پر ممکن نہیں تھا چناچہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ چاندنی رات ہے آپ چاند کو دوٹکڑوں میں کرکے دکھادیجئے اس گھڑی آپ منی میں تشریف فرما تھے اور چاند کوہ حراپرچمک رہا تھا آپ نے انگلی مبارک سے اشارہ فرمایا تو وہ دو ٹکڑے ہوکرحرا کے دونوں طرف ایک ایک ٹکڑا نظرآنے لگا جبکہ کوہ حرا درمیان میں سراٹھائے کھڑا تھا آپ نے سب سے فرمایا دیکھو جب سب کی تسلی ہوچکی تو چاند پھر آپس میں مل گیا اس پر انہوں نے کہایہ خیر ہماری نظر پہ جادو کا اثر بھی ہوسکتا ہے اس کی تصدیق لوگوں سے کی جانی چاہیے جو باہر اور دور دراز مکہ سے آتے ہیں اس کا انتظار کریں گے جو بھی باہر سے آیا اس نے بھی تصدیق کی حتی کہ ہندوستان کی تاریخوں سے ملتا ہے کہ مالا بار کے مہاراجہ نے بھی دیکھا اور اپنے روزنامچے میں نوٹ کروایا پھر جب اسلام کی خبر پہنچی تو مشرف بہ اسلام ہوا۔ اس پر جس قدراعتراض کیے گئے وہ سب محض عقلی ہیں اور معجزہ تو ہوتاہی عقل کی رسائی سے بالاتر اور خرق عادت ہے نیز عہد حاضرہ کی تحقیق میں چاند کی جو تصاویر آئی ہیں ان میں بھی پھٹ کر جڑنے سے درمیان میں خط بناوہ واضح ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ۔ اس کے بعد بھی جو نہ مانیں تو یہ بدبخت ایسے ہی ہیں کہ جب کوئی معجزہ دیکھیں کہہ دیتے ہیں کہ یہ جادو کا کام ہے اور ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے نیز ان کا انکار کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ لوگ اپنی خواہشات نفس کے غلام ہیں اور ان کی پیروی میں لگے ہیں لیکن کب تک ہر کام ایک وقت پر واضح ہوجاتا ہے آخر ایک روز حق و باطل واضح ہو کر رہے گا انہیں پچھلی قوموں کی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے تھا ، جس سے واقعی ڈر لگتا ہے اگر کچھ بھی عقل سے کام لیتے تو ان کے لیے یہی نصیحت کافی تھی مگر ان بدبختوں پر کوئی اثر نہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کی پرواہ مت کیجئے کہ آپ کے بلانے پہ نہیں آرہے اور پھر جب بلانے والا میدان محشر کی طرف بلائے گا اور ایک مشکل مقام کی طرف پکارے گا تو مارے خوف کے آنکھیں جھکائے ہوئے قبروں سے ٹڈی دل کی طرح نکل پڑیں گے اور پکارنے والے کی طرف بھاگے ہوئے آئیں گے کسی کو انکار کی مجال نہ ہوگی بلکہ خود کافر بھی اس وقت تو قیامت کا یقین کرلیں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ بہت مشکل گھڑی آگئی ہے۔ ان لوگوں سے پہلے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے جھٹلایا اور ہمارے محبوب ومقبول بندے کی نہ صرف یہ تکزیب کی الٹا انہیں ڈرایا دھمکایا بھی اگر آپ تبلیغ سے باز نہ آئے تو آپ کو سنگسار کردیں گے اور ایذائیں دیتے تھے اور ان کی تعلیمات کو پاگل پن اور انہیں مجنون کہتے تھے آخر انہوں نے بددعا کی کہ اے اللہ میں عاجز آچکا ہوں اب تو ہی ان سے نبٹ۔ چناچہ ہم نے آسمانوں سے بھی پانی یوں برسایا جیسے اس کے دروا کردیے ہوں اور زمین سے بھی پانی جاری کردیا اور یوں دونوں پانی مل کر عظیم طوفان بن گیا اور ان کی ہلاکت کے فیصلے پر عملدرآمد ہوگیا جو علم الٰہی میں پہلے سے طے شدہ موجود تھا مگر نبی کی برکات اور نور ایمان کام آیا اور ایسے طوفان میں بھی ہم نے اپنے نبی اور اس کے متبعین کو ایک ایسی کشتی پر سلامت رکھا جو محض چند تختے تھے جو کیلوں وغیرہ سے جوڑ دیے گئے جس طوفان میں بڑے بڑے جہاز تھپیڑے نہ سہہ سکے اور ایک جہان غرق ہوگیا مگر وہ چند تختے ہماری مدد سے اور ہماری زیرنگرانی تیرتے رہے اور سلامتی کا سبب بن گئے جبکہ کفار نے غرق ہو کر اپنے کیے کا پھل پالیا اور ہم نے ان کی ہلاکت کو دوسروں کے لیے باعث نصیحت بنادیا اور بات تاریخ کا حصہ بن گئی اگر کسی کو غوروفکر کی سعادت نصیب ہوتویہ بہت بڑا درس عبرت ہے کہ اللہ کا عذاب کتنا سخت ہے اور عذاب کی وعیدیں کیسے پوری ہوتی ہیں سو ہم نے قرآن نازل فرما کرمعلم قرآن کی زبان پاک سے اسے بہت ہی آسان بنادیا کہ بہت بڑے فاضل سے لے کر عام آدمی تک اور ہر بچہ بوڑھا اپنی اپنی استعداد کے مطابق اسے نصیحت حاصل کرسکتا ہے اور اطاعت الٰہی کے عظیم مقصد تک پہنچ سکتا ہے نیز دنیا کی واحد کتاب کو چھوٹے چھوٹے بچے بھی حرف بہ حرف حفظ کرسکتے ہیں دونوں طرح کی آسانیاں میسر کردی ہیں قوم عاد نے کفر اختیار کیا تو ان کا جو حال ہواوہ بھی درست عبرت ہے کہ ہمارے عذاب کتنے سخت اور وعید کیسے پوری ہوتی ہے کہ بہت ہی طاقتور قوم تھی مگر ان پر ہوا کو طوفان بنادیا وہاں پانی جو حیات کا سبب تھا موت کا ذریعہ بنایہاں ہوا جو حیات کا دوسرا بڑا سبب بلکہ پانی سے بھی پہلے ضروری ہے وہ موت کا سبب بن گئی اور ان کے حق میں وہ دن ہمیشہ ک لیے منحوس بنا گیا کہ ہوا نے انہیں اکھاڑ بچھاڑ کر تباہ کردیا۔ اور برزخ کے عذابوں میں پہنچ گئے۔ پھرحشر اور پھر دوزخ یعنی اس روز کے بعد نحوست نے انہیں کبھی نہ چھوڑا اور یوں لگتا ہے جیسے کھجوروں کے تنے کسی نے اکھاڑ کر پھینک دیے ہوں بڑے بڑے کڑیل جوانوں کی لاشیں عبرت انگیز منظر پیش کرتی تھیں اور زبان حال سے بتارہی تھیں کہ اللہ کا عذاب کیسا ہوتا ہے اور اس کی وعید کس طرح پوری ہوتی ہے یہ ہمارا بہت ہی بڑا احسان ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے بہت آسان کردیا ہے اگر کوئی فکر کرنے والا اور نصیحت کا طالب ہو تو۔
7۔ یعنی اخبار قرب قیامت کا مصدق بھی واقع ہوگیا اور اس کا مصداق ہونا اس طرح ہے کہ شق قمر معجزہ ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جس سے نبوت ثابت ہوتی ہے، اور نبی کا ہر قول صادق ہے، پس آپ کا خبر دینا قربب و قوع قیامت کی نیز صادق ہے، اس سے محقق زاجر کا بیان متیقن ہوگیا۔
فہم القرآن ربط سورت : سورة النجم کا اختتام اس مضمون پر ہوا کہ قیامت قریب آن پہنچی ہے اور اس کی ہولناکیوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ سورة القمر کی بتدا میں قرب قیامت کی ایک بڑی نشانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ دین کا تیسرا بڑا عنوان قیامت ہے جس کی نشانیوں اور ہولناکیوں کا قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اہل مکہ کی غالب اکثریت قیامت پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ اس لیے وہ بات کو الجھانے کے لیے قیامت کے بارے میں کئی قسم کے سوالات کرتے تھے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ہر طرح سمجھانے اور یقین دلانے کی کوشش فرمائی کہ قیامت ہر صورت آکر رہے گی۔ مگر مکہ والے اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے کہ ایک رات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منیٰ میں تشریف فرما تھے اور اہل مکہ کے کچھ سردار بھی موجود تھے۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ چاند کی چودھویں رات تھی۔ مکہ والوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ چاند کو دو ٹکڑے کرکے دکھا دیں تو ہم آپ اور قیامت پر ایمان لے آئیں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تمہارا مطالبہ پورا ہوجائے تو پھر ایمان لے آؤ گے ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ! اس پر آپ نے اللہ کے حکم سے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور چاند کو اپنی انگلی کا اشارہ کیا۔ بس آپ کا اشارہ کرنا تھا کہ چاند دو ٹکڑے ہوا اور ایک لمحہ کے بعد اپنی پہلی حالت میں ضوفشاں ہونے لگا۔ اس قدر عظیم معجزہ دیکھنے کے باوجود کفار نے شور مچایا کہ یہ تو بہت بڑا جادوگر ہے۔ اس کا جادو آسمان پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنے باطل نظریات کو ترجیح دی اور شق قمر کے معجزے کو جھٹلا دیا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِمِنًی فَقَالَ اشْہَدُوا وَذَہَبَتْ فِرْقَۃٌ نَحْوَ الْجَبَلِ.) ( رواہ البخاری : باب انشقاق القم) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان کیا جس وقت چاند دو ٹکڑے ہوا تو ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منٰی کے میدان میں موجود تھے۔ چاند کا ایک ٹکڑا دوسرے سے الگ ہو کر پہاڑ کی طرف چلا گیا۔ آپ نے فرمایا لوگو ! گواہ رہنا۔ “ شق قمر پر اٹھنے والے اعتراضات اور ان کا جواب : شق قمر پر اعتراض کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ اگر واقعی ہی چاند دو ٹکڑے ہوا تو اس وقت لوگوں کو اس عظیم واقعہ کا علم کیوں نہیں ہوا ؟ ایسے دانشوروں سے سوال ہے کہ انہیں کس نے بتایا ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوا تھا۔ اگر یہ واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا تو قرآن مجید کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ چاند شق ہوگیا لیکن اس کے باوجود کفار کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے۔ 1 ۔ کیا شق قمر پر اعتراض کرنے والوں کے پاس عرب کے چودہ سو سال کی تاریخ کا ریکارڈ موجود ہے جس بنا پر یہ لوگ شق قمر کا انکار کرتے ہیں۔ 2 ۔ کیا شق قمر کا عمل گھنٹوں پر محیط تھا جو لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنتا اور اس زمانے کے تمام لوگ اس کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ بات تو اتنی ہے کہ ایک لمحہ کے لیے چاند دو ٹکڑے ہوا اور پھر اپنی اصلی حالت میں ضوفشاں ہونے لگا۔ دنیا میں ہر سال اور ہر ملک میں کتنی بارایسا ہوتا ہے کہ آسمانی بجلی ایک لمحہ کے لیے زمین پر اترتی ہے اور دوسرے لمحے اوپر چلی جاتی ہے۔ اس وقت ہزاروں لوگ بارش کا نظارہ کررہے ہوتے ہیں۔ مگر انہیں بجلی کی آمد ورفت کی خبر نہیں ہوتی۔ 3 ۔ سائنسدان ہر دور میں یہ مشاہدہ کرتے آرہے ہیں کہ بیشمار سیارے ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں اور پھر اپنے مدار میں واپس پہنچ جاتے ہیں۔ شق قمر کی تاریخی شہادت : پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر نے تفصیل کے ساتھ ایک آرٹیکل لکھا ہے کہ ہندوستان کی ریاست مالا بار کے راجہ نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے ایک وفد مکہ روانہ کیا۔ وفد کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات ہوئی اور وفد کے لوگ مسلمان ہوگئے لیکن وفد واپس ہندوستان پلٹا تو راستے میں ایک آدمی کے سوا باقی سفر کی صعوبتوں کی وجہ سے فوت ہوگئے اس نے واپس آکر راجہ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات بتلائے تو راجہ مسلمان ہوگیا اور اس نے مالا بار شہر میں ایک مسجد بنوائی۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے اس مسجد کی زیارت کی جس کا بیت اللہ کی بجائے مسجد اقصیٰ کی طرف تھا۔ یاد رہے کہ راجہ کے وفد کی ملاقات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدینہ میں ہوئی تھی۔ اس وقت نماز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا چہرہ بیت اللہ کی بجائے بیت المقدس کی طرف کرتے تھے۔ چاند اور سورج کا انجام : اللہ تعالیٰ نے اس شق قمر کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے جس میں کھلے الفاظ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس قیامت کا تم انکار کرتے ہو اس کا ایک وقت مقرر ہے جو کسی کے انکار یا اقرار کی وجہ سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوگا تو اس کی ذات کے علاوہ ہر چیز فنا ہوجائے گی۔ قیامت کی نشانیاں : قیامت کی تین قسم کی نشانیاں ہیں جن میں کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے، کچھ آپ کے دور میں ظاہر ہوچکی ہیں اور کچھ قیامت سے پہلے نمودار ہوں گی اور باقی نشانیاں اس وقت ظاہر ہوں گی جب قیامت کی آمد آمد ہوگی جن کا اختصار درج ذیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ قیامت ہر صورت آنی ہے مگر میں نے اس کا وقت چھپا رکھا ہے۔ (الاعراف : ١٨٧) (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَثَوْبُہُمَا بَیْنَہُمَا لَا یَطْوِیَانِہٖ وَلَا یَتَبَایَعَانِہٖ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ حَلَبَ لِقْحَتَہٗ لَا یَطْعَمُہٗ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ لُقْمَتَہٗ إِلٰی فِیْہٖ وَلَا یَطْعَمُہَا وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَلِیْطُ حَوْضَہٗ لَا یَسْقِیْ مِنْہٗ ) (رواہ احمد : مسند ابی ہریرۃ (رض) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کپڑا بیچنے اور خریدنے والا ابھی کپڑا سمیٹ نہیں سکیں گے کہ قیامت آجائے گی۔ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دوھ رہا ہوگا اور وہ اس کو پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اپنے منہ میں نہیں ڈال سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ ایک آدمی اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہوگا وہ اس سے پانی پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ “ ” حضرت ابوہریرۃ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ ایام میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی ان کا جنت سے اخراج ہوا، اور اسی دن ہی قیامت برپا ہوگی۔ “ (رواہ مسلم : باب فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ ) مسائل ١۔ شق قمر قرب قیامت کی بہت بڑی نشانی ہے جو ظاہر ہوچکی ہے۔ ٢۔ شق قمر کا معجزہ دیکھنے کے باوجود اہل مکہ نے اسے جادو قرار دیا۔ ٣۔ اہل مکہ اپنی خواہشات کے پیش نظر حقائق کو جھٹلایا کرتے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت اور ہر کام کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔
یہ ایک خوبصورت اور آنکھیں چندھیا دینے والا منظر ہے جس میں ایک عظیم کائناتی حادثہ دکھایا گیا ہے اور یہ اس سے بھی عظیم تر حادثہ کی تمہید ہے۔ اقتربت…………القمر (54: ١) ” قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند ٹکڑے ہوگیا “ امام بخاری نے روایت کی عبداللہ ابن عبدالوہاب سے انہوں نے بشر ابن مفضل سعید ابن ابوعروہ سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انس ابن مالک سے وہ کہتے ہیں ” اہل مکہ نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ آپ کوئی معجزہ دکھائیں۔ تو آپ نے ان کو دکھایا کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور دونوں کے درمیان حرا تھا۔ “ اس روایت کو بخاری اور مسلم نے دوسری اسناد سے بھی قتادہ اور حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے حضرت جبیر بن مطعم کی روایت امام احمد نے محمد ابن کثیر سے کی ہے۔ انہوں نے سلیمان ابن کثیر سے انہوں نے حصین ابن عبدالرحمن سے ، انہوں نے محمد ابن جیرابن مطعم سے ، انہوں نے اپنے والد حضرت جبیر بن مطعم سے۔ وہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر نظر آتا تھا اور دوسرا اس پہاڑ پر تو کفار نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم پر جادو کردیا ہے۔ اگر اس نے ہم پر جادو کیا ہے تو یہ دنیا کے سب انسانوں پر تو جادو نہیں کرسکتا۔ یہ روایت اس طریقے سے صرف امام احمد ہی نے کی ہے۔ امام بیہقی نے اپنی کتاب الدلائل میں بواسطہ محمد ابن کثیر ، اس کے بھائی سلیمان ابن کثیر سے ، اور انہوں نے حصین ابن عبدالرحمان سے روایت کی ہے اور ابن جریر اور بیہقی نے دوسرے طریقوں اور سندوں کے ساتھ حضرت جبیر بن مطعم (رض) سے نقل کی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی روایت امام بخاری نے روایت کی۔ یحییٰ ابن کثیر سے انہوں نے بکر سے ، انہوں نے جعفر سے ، انہوں نے عراک ابن مالک سے ، انہوں نے عبید اللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے وہ کہتے ہیں حضور اکرم کے زمانے میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ “ امام بخاری نے اور امام مسلم نے ایک سابقہ سند کے ذریعہ بواسطہ عراک ابن عباس سے روایت کی اور امام ابن جریر نے ایک دوسری سند سے بواسطہ علی ابن ابو طلحہ ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی۔ یہ اس طرح ہوا کہ ہجرت سے قبل چاند پھٹ گیا یہاں تک کہ لوگوں نے دیکھا کہ وہ دو ٹکڑے ہے۔ عوفی نے بھی حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح نقل کیا۔ طبرانی نے ایک دوسری سند سے بواسطہ مکرمہ ، حضرت ابن عباس (رض) روایت کی۔ انہوں نے فرمایا رسول اللہ کے زمانے میں چاند تاریک ہوگیا تھا۔ “ تو اہل مکہ نے کہا…. محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند پر بھی جادو کردیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اقتربت…………مستمر (54: ٢) حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت۔ حافظ ابوبکر بیہقی کہتے ہیں ابوعبداللہ الحافظ اور احمد ابن الحسن قاضی نے جروی سے روایت کی دونوں نے ، ابو العباس اصم سے ، انہوں نے عباس ابن محمد دوری سے ، انہوں نے وھب ابن جریرے انہوں نے شعبہ سے ، انہوں نے اعمش سے ، انہوں نے مجاہد سے ، اور انہوں نے عبداللہ ابن عمر (رض) سے ، اس آیت کی تفسیر میں۔ اقتربت…………القمر (54: ١) کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ کے زمانے میں ہوا تھا۔ یہ دو ٹکڑے ہوا تھا ایک پہاڑ سے پیچھے تھا اور ایک آگے تھا۔ “ اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللھم اشھد (اے اللہ…. گواہ رہنا) اس طرح اس روایت کو مسلم اور ترمذی نے شعبہ سے انہوں نے اعمش سے اور انہوں نے مجاہد سے نقل کیا ہے ۔ عبداللہ ابن مسعود (رض) کی روایت امام احمد فرماتے ہیں۔ روایت کی سفیان ابن ابونحبیح نے ، مجاہد سے ، انہوں نے ابو معمر سے ، انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے وہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ کفار نے اچھی طرح اسے دیکھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اشہدوا (گواہ رہو) امام بخاری اور امام مسلم نے سفیان ابن عینیہ سے یہی روایت کی ہے اور انہوں نے اعمش سے انہوں نے ابراہیم سے ، انہوں نے ابو معمر عبداللہ ابن سخیرہ سے ، انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے ، امام بخاری کہتے ہیں کہ امام ابو داؤد طیالسی نے یہ روایت کی ، ابوعوانہ سے انہوں نے مغیرہ سے انہوں نے ابو الضحی سے ، انہوں نے مسروق سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) سے انہوں نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ قریش نے کہا یہ ابن ابو کبثہ کا جادو ہے۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا دیکھو جو لوگ سفر پر ہیں وہ آجائیں کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے لوگوں پر تو جادو نہیں کرسکتا چناچہ اس کے بعد جو سفر پر تھے وہ آئے اور انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ امام بیہقی نے دوسرے طریقوں سے بھی اسے روایت کیا ہے مسروق سے ، انہوں نے عبداللہ ابن مسعود سے ، مفہوم اسی سے ملتا جلتا ہے۔ یہ ہیں متواتر روایات مختلف اسناد اور طریق سے کہ یہ واقعہ ہوا اور مکہ میں اس کی جگہ بھی بتادی گئی۔ ماسوائے ایک روایت کے جس میں منبی کا ذکر ہے باقی روایات مکہ کے بارے میں ہیں۔ حضور کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا اور ہجرت سے قبل پیش آیا۔ اکثر روایات میں آتا ہے کہ یہ دو ٹکڑے ہوگیا اور یہ ایک روایت میں آتا ہے کہ یہ چاند گرہن ہوگیا تھا۔ بہرحال واقعہ جو بھی ہو روایات سے ثابت ہے اور روایات زمان ومکان کی تحدید بھی کرتی ہیں اور شق قمر کی ہیئت کا تعین بھی کرتی ہیں۔ یہ ایسا واقعہ تھا کہ قرآن کریم نے اسے بطور دلیل قیامت مشرکین کے سامنے پیش کیا۔ کوئی ایسی روایت مشرکین سے منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نفس واقعہ کا انکار کیا ہو۔ لہٰذا یہ واعقہ اسی طرح ہوا ہوگا اور اس قدر لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ ان کے لئے نفس واقعہ کو جھٹلانا ممکن نہ رہا ہوگا۔ اگرچہ بطور کبر اور غرور ہو۔ اگر ان کے لئے اس کی تکذیب کی کوئی بھی صورت ہوتی تو وہ ضرور کرتے۔ کفار سے جو روایات اور تبصرے منقول ہیں وہ یہ ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جادو کردیا ہے لیکن خود ان میں سے دانشمند لوگوں نے کہا۔ ذرا تحقیق کرو اور مسافروں سے تحقیق کرنے کے بعد ان کو معلوم ہوگیا کہ یہ جھوٹ نہیں ہے کیونکہ اگر اہل مکہ کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسحور کرسکتے تو وہ پوری دنیا کو تو مسحور نہیں کرسکتے اور جب انہوں نے مسافروں سے پوچھا جو مکہ کے باہر سے آئے تھے تو انہوں نے بھی تصدیق کی۔ اب بات یہ رہ گئی کہ آیا مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں شق قمر کا معجزہ رونما ہوگیا۔ یہ روایت دراصل قرآن کی نص صریح سے متصادم ہے۔ مدلول یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ویسے معجزات نہیں دیئے گئے جس طرح انبیائے سابق کو دیئے گئے تھے اور اس کا ایک متعین اور خاص سبب تھا۔ وما …………الاولون ” اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں “ مطلب یہ ہے کہ اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ حضور کو وہ معجزات نہیں دیئے گئے جن کا مطالبہ ہوا تھا۔ کفار نے جب بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزات کا مطالبہ کیا ہے تو جواب یہی دیا گیا کہ معجزات پیش کرنا آپ کے فرائض میں شامل نہیں ہے اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک بشر اور رسول ہیں اور ہر جگہ صرف قرآن کریم ہی کو آپ کے لئے معجزہ قرار دیا گیا اور اسی جیسی کوئی سورت یا کتاب لانے کا چیلنج دیا گیا۔ قل لئن……………. رسولا (٣٩) (٧١ : ٨٨ تا ٣٩) ” کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار ہی پر جمے رہے اور انہوں نے کہا ” ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک تو ہمارے لئے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ نہ جاری کردے یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا قاغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کردے یا تو آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرادے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا خدا اور فرشتوں کو رودررو ہمارے سامنے لے آئے یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے جڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں۔ “ اے نبی ان سے کہو ” پاک ہے میرا پروردگار کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں “ لہٰذا یہ کہنا کہ شق قمر کا معجزہ کفار کے مطالبہ کے جواب میں آیا تھا ، قرآن مجید کی متعدد نصوص کے بھی خلاف ہے اور اس رجحان کے بھی خلاف ہے کہ اس دنیا میں آخری رسالت انسانیت کے سامنے صرف قرآن پیش کرے اور یہ کہ قرآن کا اعجاز ہی اس کا معجزہ ہو اور قرآن کے ذریعہ انسان کے دل و دماغ کو ان آیات ومعجزات کی طرف متوجہ کیا جائے جو انفس میں موجود ہیں جو آفاق میں بکثرت موجود ہیں اور جو انسانی تاریخ میں بکثرت ہیں اور سخت عبرت آموز بھی ہیں۔ باقی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر جو معجزات صادر ہوئے اور جن کی تصدیق صحیح روایات نے کی ہے تو وہ بطور اعزاز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیئے گئے بطور دلائل نبوت نہیں دیئے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ معجزہ شق قمر صادر ہوا۔ نص قرآنی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ روایات متواترہ میں اس کی تصدیق ہوئی اور جس جگہ اور جس زمانے میں صادر ہوا اس کا بھی تعین ہوگیا اور جس انداز میں ہوا اس کی تفصیلات بھی موجود ہیں لیکن جن روایات میں اس کی علت بیان کی گئی ہے اس کے بارے میں ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ بس یہی کہتے ہیں کہ شق قمر دلالت کرتا ہے قرب قیامت پر اور اسی میں ہمارے لئے عبرت ہے کہ ہم چوکنے ہوجائیں۔ جاگیں اور اس کی تیاری کریں اس عظیم گھڑی کی۔ لہٰذا شق قمر ایک کائناتی معجزہ تھا اور قرآن نے انسانوں کو اس کی طرف متوجہ کیا ہے جس طرح قرآن مجید دوسرے تکوینی معجزات کی طرف متوجہ کرتا ہے اور جس طرح دوسرے معجزات کے مقابلے میں ان کا رویہ قابل تعجب ہے۔ اسی طرح اس معجزے سے بھی انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ خارق عادت معجزات ، انسانیت کے ابتدائی دور ہیں۔ بیشک انسانوں کو متاثر کرتے تھے جس دور میں انسانیت نے اس قدر علمی ترقی نہ کی تھی کہ وہ اس کائنات میں قائم اور بکھرے ہوئے معجزات کو سمجھ سکیں اور ان سے متاثر ہوں۔ گزرے ہوئے نبیوں کے ہاتھوں جن معجزات کا صدور ہوا اور انسانیت ان سے متاثر ہوئی تو یہ اس دور کی بات ہے جب انسانیت عقلی بلوغ کے درجے کہ نہ پہنچی تھی لیکن آج اس کائنات میں ایسے ایسے معجزات انسانیت کو معلوم ہوچکے ہیں جو ان معجزات سے بڑے معجزات ہیں۔ اگر چہان لوگوں کو وہ متاثر نہیں کرتے جو وہی ابلدائی احساسات رکھتے ہیں اور جو عقلی بلوغ کے درجے تک نہیں پہنچے۔ فرض کیجئے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہونا معجزہ تھا تو چاند بذات خود بھی تو ایک معجزہ ہے۔ یہ سیارہ اپنے اس حجم ، موجودہ وضع ، شکل ، طبیعت ، گردش کی منازل ، دورے ، اس کے آثار ، زمین کی زندگی پر اس کے اثرات اور فضا میں اس کا اس طرح تیرنا بغیر کسی سہارے کے کیا یہ ایک عظیم معجزہ نہیں ہے جو ہر وقت قائم اور دائم اور ہمارے مشاہدے میں ہے اور ہم اس کے بارے میں ہر وقت سوچ سکتے ہیں۔ اس سے اثر لیتے ہیں۔ کیا قدرت الٰہیہ پر اس سے بڑی اور کوئی دلیل چاہئے۔ کون ہے جو نفس چاند کے معجزے سے انکار کرسکتا ہے۔ ماسوائے اس شخص کے جو ہٹ دھرم اور ضدی ہو۔ قرآن نے تو انسان کو اس کائنات کے سامنے کھڑا کردیا اور یہ مشاہدہ کرایا کہ اس کائنات کے اندر عظیم معجزات ہر وقت قائم اور دائم ہیں۔ قرآن انسان کو ان معجزات کے ساتھ دائما جوڑنا چاہتا ہے۔ یہ نہیں کہ شق قمر کی طرح کوئی چیز ہزارہا سال میں ایک بار دکھا دی جائے اور اس کو بھی ایک ہی زمانے کے لوگ دیکھ لیں۔ قرآن کہتا ہے کہ دیکھو اس کائنات کو اگر دیدہ عبرت نگاہ رکھتے ہو۔ یہ پوری کائنات معجزات کا ایک منظر نامہ ہے۔ جو آنکھوں کے سامنے رہتا ہے غائب نہیں ہوتا اور یہ سب معجزے دیکھو اور دیکھتے چلے جاؤ۔ اس میں چھوٹے معجزات بھی ہیں اور بڑے بھی اور یہ معجزات شہادت دے رہے ہیں۔ ان کی شہادت سنو۔ یہ عجیب شہادت ہے اسے ریکارڈ کرو۔ یہ نہایت ہی خوبصورت شہادت ہے اس میں جمال بھی ہے اور کمال بھی ہے اور یہ تو انسان کو نہ صرف یہ کہ فیصلے پر پہنچاتی ہے بلکہ دہشت زدہ اور ششدر کردیتی ہے اور اس کے نتیجے میں بہت ہی پختہ ایمان پیدا ہوتا ہے۔ نہایت گہرا اور سنجیدہ۔ اس سورت کے آغاز میں یہ اشارہ آتا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا ہے جس سے انسان پر گہرا اثر پڑتا ہے کیونکہ قیام قیامت اور چاند کا ٹکڑے ہونا بہت ہی بڑے واقعات ہیں۔ قرآن بتاتا ہے کہ تم نے یہ ایک عظیم حادثہ تو دیکھ ہی لیا ہے اسی طرح قیام قیامت بھی ہوگا۔ شق قمر کے بعد صرف قیامت کے بارے میں امام احمد نے روایت کی ہے حسین سے ، انہوں نے محمد ابن مطوف سے ، انہوں نے ابو حازم سے ، اور انہوں نے حضرت سہیل ابن سعد سے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ” میں اور قیامت اس طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں۔ “ آپ نے درمیان انگلی اور سبابہ کو جوڑ کر اشاہ کیا (متفق علیہ) باوجود اس حقیقت کہ قیامت کی گھڑی قریب آلگی ہے اور نہایت ہی اثر انگیز واقعہ بھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور مختلف شکلوں میں انہوں نے اللہ کی نشانیاں بھی دیکھ لی ہیں لیکن ان لوگوں کے دلوں میں عناد کوٹ کوٹ بھرا ہوا تھا۔ وہ گمراہی کی راہ پر اصرار کررہے تھے۔ وہ ڈراوے سے متاثر ہوتے تھے اور نہ اس کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں سے متاثر ہوتے تھے جو نصیحت کے لئے کافی ہیں اور انسان کو جھٹلانے سے روک سکتی ہیں لیکن ان لوگوں نے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔
قیامت قریب آگئی چاند پھٹ گیا، منکرین کی جاہلانہ بات اور ان کی تردید ان آیات میں انشقاق قمر یعنی چاند کے پھٹنے کا اور اہل مکہ کے عناد اور انکار کا تذکرہ فرمایا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب انہیں یہ بتایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں تو بہت سے معجزات ظاہر ہوئے ان میں وہ معجزات بھی تھے جنہیں اہل مکہ نے خود طلب کیا تھا۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ اہل مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ انہیں کوئی نشانی یعنی معجزہ دکھادیں لہٰذا آپ نے انہیں چاند کا پھٹنا دکھادیا۔ (صحیح بخاری صفحہ ٢٢: ج ٢) دوسری روایت میں یوں ہے جو حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ کے زمانہ میں چاند پھٹ گیا اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ پر اور دوسرا ٹکڑا پہاڑ کے نیچے آگیا آپ نے فرمایا کہ حاضر ہوجاؤ۔ (صحیح بخاری صفحہ ٢١: ج ٢) سنن ترمذی (فی تفسیر سورة القمر) میں ہے کہ مکہ معظمہ میں چاند کے پھٹنے کا واقعہ پیش آیا جس پر سورة قمر کی شروع کی دو آیتیں نازل ہوئیں۔ تفسیر معالم التنزیل (صفحہ ٢٥٨: ج ٤) میں ہے کہ اس وقت تو قریش مکہ نے یہ کہہ دیا کہ ہم پر جادو کردیا ہے پھر جب باہر سے آنے والے مسافروں سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہاں ہم نے چاند کے دو ٹکڑے دیکھے اس پر آیت کریمہ ﴿اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ ٠٠١ ﴾ نازل ہوگئی، سنن ترمذی میں ہے کہ جب مسافروں سے تصدیق ہوگئی تو ان میں سے بعض مشرکین نے کہا کہ اگر ہم پر جادو کردیا ہے تو سارے لوگوں پر تو جادو نہیں کردیا۔ بہرحال چاند پھٹا حاضرین نے دیکھا مسافروں کو بھی پھٹا ہوا نظر آیا اور جو چیز انسانوں کے خیال میں نہ ہونے والی تھی وہ وجود میں آگئی اس سے قیامت کا وقوع سمجھ میں آجانا چاہیے۔
ٖ 2:۔ ” اقتربت الساعۃ۔ تا۔ فما تغن النذر “ یہ تخویف اخروی کے لیے تمہید اور زجر مع شکوی ہے۔ یعنی جس طرح چاند دوٹکڑے ہوگیا اسی طرح تم بھی فنا ہوجاؤگے اور جس طرح چاند کے دونوں ٹکڑے دوبارہ مل گئے اسی طرح تم بھی دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جاؤ گے۔ ” انشق القمر “ سے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ مراد ہے جو مشرکین مکہ کے مطالبے پر اللہ نے ظاہر فرمایا۔ جب مشرکین نے اس کا مطالبہ کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی کہ ان کو یہ معجزہ دکھایا جائے شاید وہ ایمان لے آئیں چناچہ اللہ تعالیٰ چودہویں رات کے چاند کو دو ٹکڑے کرکے توحید و رسالت کی سچائی پر ایک نہایت ہی روشن اور واضح دلیل قائم فرما دی۔ انشق القمر وذلک علی عہد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبل الہجرۃ بنحو خمس سنین فقد صح من روایۃ الشیخین وابن جریر عن انس ان اھل مکۃ سالوہ (علیہ الصلوۃ والسلام) ان یریہم ایۃ فاراھم القمر شقتین حتی راہ احراء بینہما (روح ج 27 ص 74) ۔ وکانت لیلۃ البدر، فسال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ربہ ان یعطیہ ما قالوا فانشق القمر فرقتین (قرطبی ج 17 ص 127) ۔
(1) قریب آپہنچی قیامت اور پھٹ گیا چاند۔ اوپر کی سورت کے آخر میں قیامت کے قریب آنے کا ذکر فرمایا تھا اور یہ واقعہ بھی ہے کہ جس چیز کا آنا یقینی ہو وہ قریب ہی ہے اس سورت میں بھی اسی کے قرب کا اظہار فرمایا کیونکہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک بڑی علامت بھی ظاہر ہوگئی یعنی چاند بھی پھٹ گیا اگرچہ یہ شق قمر اور چاند کا پھٹنا بطور معجزہ ہوا اور دلائل رسالت کی دلیل ہوکر اس کا ظہور ہوا لیکن اس معجزے سے اول تو یہ بات معلوم ہوگئی کہ چاند کا پھٹ جانا ممکن ہے دوسرے یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جب رسول کسی بات کی خبر دے تو اس میں شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ ہماری اس تقریر سے انشقاق قمر کے ساتھ اقتراب قیامت کا تعلق بھی سمجھ میں آگیا ہوگا۔ اس لئے فرمایا کہ قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا آگے معجزات کی تکذیب اور قیامت کے انکار پر زجرو تو بیخ فرمائی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حج کے دنوں میں آدھی رات کو کافر جمع تھے حضرت ان کو سمجھاتے تھے انہوں نے مانگی کچھ نشانی حضرت نے فرمایا دیکھو آسمان کی طرف چاند دو ٹکڑے ہوگیا ان میں سے مشرق کو آیا ایک مغرب کو جب تک خوب طرح دیکھ لیا پھر آپس میں مل گیا، یہ نشانی ہے قیامت کی آگے سب کچھ یوں ہی پھٹے گا۔ معجزہ شق القمر مشہو رہے۔ مولانا شاہ رفیع الدین صاحب (رح) کا رسالہ اس باپ میں بہت کافی اور بس ہے۔