Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 15

سورة القمر

وَ لَقَدۡ تَّرَکۡنٰہَاۤ اٰیَۃً فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿۱۵﴾

And We left it as a sign, so is there any who will remember?

اور بیشک ہم نے اس واقعہ کو نشانی بنا کر باقی رکھا پس کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَد تَّرَكْنَاهَا ايَةً ... And indeed, We have left this as a sign. Qatadah said, "Allah left the ship of Nuh intact until the first generation of this Ummah were able to see it." However, it appears that the meaning here is that Allah kept ships as a sign. For instance, Allah the Exalted said, وَءَايَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ And a sign for them is that We bore their offspring in the laden ship. And We have created for them of the like thereunto, on which they ride. (36:41-42), إِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَأءُ حَمَلْنَـكُمْ فِى الْجَارِيَةِ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَأ أُذُنٌ وَعِيَةٌ Verily, when the water rose beyond its limits, We carried you in the boat. That We might make it an admonition for you and that it might be retained by the retaining ears. (69:11-12) Allah's statement here, ... فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ Then is there any that will remember? means, `is there any that will receive admonition and reminder. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin Mas`ud said, "The Prophet recited to me, فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (Then is there any that will remember)" Al-Bukhari collected a similar Hadith from Abdullah that he said, "I recited to the Prophet فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (then is there any that will remember) and the Prophet said, فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (Then is there any that will remember)." Allah's statement, فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 مُدَّکِرٍ معنی ہیں عبرت پکڑنے اور نصیحت حاصل کرنے والا (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] کشتی نوح نشانی کے طور پر :۔ یہ کشتی با لآخر جودی پہاڑ پر ٹک گئی۔ آسمان سے بارش بند ہوگئی۔ نیچے سے زمین نے پانی جذب کیا۔ کچھ ہواؤں اور سورج نے پانی خشک کیا۔ چناچہ چالیس دن بعد کشتی پر سوار لوگ اس قابل ہوگئے کہ کشتی سے اتر آئیں۔ مگر کشتی وہیں رہ گئی۔ اس سے جو کام لیا جانا منظور تھا وہ لیا جاچکا تھا۔ یہ مدت ہائے دراز تک وہیں پڑی رہی اور آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنی رہی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ تَّرَکْنٰـھَآ اٰیَۃً : اس کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ ہود ( ٤٤) اور سورة ٔ عنکبوت (١٥) کی تفسیر ۔ ٢۔ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ :” مذکر “ ” ذکر یذکر “ میں سے باب افتعال کا اسم فاعل ہے ، جو اصل میں ” مذتکر “ ہے، تائے افتعال کو دال سے بدل دیا گیا ، اسی طرح ذال کو بھی دال سے بدل کر اس میں ادغام کردیا گیا ، جیسا کہ سورة ٔ یوسف میں گزار ہے (وَقَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْہُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ ) (یوسف : ٤٥)” اور ان دونوں میں سے جو رہا ہوا تھا اور اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا ، اس نے کہا “۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ تَّرَكْنٰہَآ اٰيَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝ ١٥ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ مدکر فھل من مدکر۔ ہل سوالیہ ترغیبی ہے یعنی استفہام سے طلب خیر مقصود نہیں ہے بلکہ عبرت اندوزی پر آمادہ کرنا۔ اور نصیحت پذیری کی ترغیب دینا مقصود ہے۔ مدکر۔ اسم فاعل۔ واحد مذکر ادکار ( افتعال) مصدر سے اور ذکر مادہ سے مشتق ہے۔ اصل میں اذکار تھا۔ افتعال کے فاء کلمہ میں جب ذال واقع ہو تو تاء کو دال میں بدل دیتے ہیں پس اذکار سے اذدکار بنا۔ اور اسم فاعل کی صورت مذدکر ہوگئی۔ ت کو دال سے بدل لینے کے علاوہ دو صورتیں یہ بھی جائز ہیں :۔ (1) دال کو ذال سے بدل کر ادغام ہو۔ اس صورت میں مصدر اذکار اور اسم فاعل مذکر ہوگا۔ مذکر نصیحت حاصل کرنے والا۔ عبرت پکڑنے والا۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ { وَلَقَدْ تَّرَکْنٰہَـآ اٰیَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ۔ } ” اور ہم نے اسے چھوڑ دیا ایک نشانی کے طور پر تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ! “ یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی مشیت الٰہی سے محفوظ کرلی گئی اور کسی وقت ایک بہت بڑی نشانی کے طور پر دنیا کی نظروں کے سامنے آجائے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح زیر زمین دفن شدہ شداد ّکی جنت ارضی کے بارے میں اب دنیا جان چکی ہے یا بحیرئہ مردار کی تہہ میں قوم لوط (علیہ السلام) کے شہروں کے کھنڈرات دریافت کرلیے گئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 It may also mean: `We left this dreadful punishment as a sign of warning," but in our opinion the preferable meaning is that the Ark was left as a sign of warning. Its resting and existence on a high mountain continued to warn the later generations of the wrath of God for thousand of years and kept on reminding them how the people who had disobeyed God on this earth had met their down, and how the believers had been rescued from it. Imam Bukhari, Ibn Abi Hatim, 'Abdur Razzaq and Ibn Jarir have related traditions on the authority of Qatadah saying that at the time the Muslims conquered 'Iraq and al-Jazirah, this Ark still existed on Mount Judi (and according to a tradition, near the settlement of Baqirda), and the early Muslims had seen it. In the modern times also some people during their flights in the aeroplanes have sighted an Ark-like object on a peak in this region, which is suspected to be the Ark of Noah, and on the basis of the same expeditions have been sent from time to time to search it out. (For further details, see E.N. 47 of AI-A'raf, E.N. 46 of Hud, and E.N. 25 of AI-Ankabut ).

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :14 یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے اس عقوبت کو ایک نشان عبرت بنا کر چھوڑ دیا ۔ لیکن ہمارے نزدیک زیادہ قابل ترجیح معنی یہ ہیں کہ اس کشتی کو نشان عبرت بنا دیا گیا ۔ ایک بلند و بالا پہاڑ پر اس کا موجود ہونا سینکڑوں ہزاروں برس تک لوگوں کو خدا کے غضب سے خبردار کرتا رہا اور انہیں یاد دلاتا رہا کہ اس سر زمین پر خدا کی نافرمانی کرنے والوں کی کیسی شامت آئی تھی اور ایمان لانے والوں کو کس طرح اس سے بچایا گیا تھا ۔ امام بخاری ، ابن ابی حاتم ، عبدالرزاق اور ابن جریر نے قتادہ سے یہ روایات نقل کی ہیں کہ مسلمانوں کی فتح عراق والجزیرہ کے زمانے میں یہ کشتی جودی پر ( اور ایک روایت کے مطابق باقِردیٰ نامی بستی کے قریب ) موجود تھی اور ابتدائی دور کے اہل اسلام نے اس کو دیکھا تھا ۔ موجودہ زمانے میں بھی ہوائی جہازوں سے پرواز کرتے ہوئے بعض لوگوں نے اس علاقے کی ایک چوٹی پر ایک کشتی نما چیز پڑی دیکھی ہے جس پر شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ سفینہ نوح ہے ، اور اسی بنا پر وقتاً فوقتاً اس کی تلاش کے لیے مہمات جاتی رہی ہیں ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 47 ، ہود ، حاشیہ 46 ۔ جلد سوم ، العنکبوت ، حاشیہ 25 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:15) ولقد ترکناھا : ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع سفینہ ہے۔ یعنی اس سفینہ کو ہم نے عبرت دلانے کے لئے باقی رکھا۔ چناچہ جزیرہ میں یا جودی پر وہ کشتی مدت دراز تک موجود ہی رہی یہاں تک کہ اس وقت کے دور اول کے بعض لوگوں نے بھی اس کو دیکھا تھا۔ (تفسیر مظہری) ۔ یا یہ جنس سفینہ کے لئے ہے۔ یا واقعہ کے لئے ہے یعنی قوم نوح کو بطور عبرت غرق کردینا اور نوح اور ان کے مومن ساتھیوں کو بچا لینے کا واقعہ۔ ایۃ۔ نشانی، حکم خداوندی، پیغام الٰہی۔ دلیل، معجزہ، آیت اصل معنی کے لحاظ سے ظاہری نشانی کو کہتے ہیں۔ اسی اعتبار سے قرآن مجید کی آیت کو آیت کہتے ہیں کہ وہ گویا کلام کے ختم ہوجانے کی نشانی ہے۔ علامت ہے بوجہ مفعول ہونے کے منصوب ہے۔ فھل من مدکر۔ ہل سوالیہ ترغیبی ہے یعنی استفہام سے طلب خیر مقصود نہیں ہے بلکہ عبرت اندوزی پر آمادہ کرنا۔ اور نصیحت پذیری کی ترغیب دینا مقصود ہے۔ مدکر۔ اسم فاعل۔ واحد مذکر ادکار (افتعال) مصدر سے اور ذکر مادہ سے مشتق ہے۔ اصل میں اذکار تھا۔ افتعال کے فاء کلمہ میں جب ذال واقع ہو تو تاء کو دال میں بدل دیتے ہیں پس اذکار سے اذدکار بنا۔ اور اسم فاعل کی صورت مذدکر ہوگئی۔ ت کو دال سے بدل لینے کے علاوہ دو صورتیں یہ بھی جائز ہیں :۔ (1) دال کو ذال سے بدل کر ادغام ہو۔ اس صورت میں مصدر اذکار اور اسم فاعل مذکر ہوگا۔ مذکر نصیحت حاصل کرنے والا۔ عبرت پکڑنے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یا ” اس کشتی کو ہم نے قدرت کی نشانی بنا کر چھوڑ دیا۔ “ ‘ کہتے ہیں کہ یہ کشتی جودی پہاڑ پر ایک مدت تک رہی اور اسے اس امت کے لوگوں نے بھی دیکھا۔ آج بھی اس کے بعض تختوں کی تلاش جاری ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد ترکنھا ............ مد کر (54:15) ” اس کشتی کو ہم نے ایک نشانی بنا کر چھوڑ دیا۔ پھر کوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا “ یہ واقعہ اپنے تمام حالات کے ساتھ ہم نے تاریخ کے ریکارڈ پر باقی رکھا تاکہ آنے والوں کے لئے ایک نشانی ہو۔ فھل من مد کر (54:15) ” پھر ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا) جو نصیحت قبول کرے۔ دلوں کو جگانے کے لئے ایک سوال کہ کیا تھا عذاب اور کیا انجام ہوا ڈرائے جانے والوں کا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کی غرقابی کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ﴿ وَ لَقَدْ تَّرَكْنٰهَاۤ اٰيَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ٠٠١٥﴾ (اور بلاشبہ ہم نے اس واقعہ کو عبرت بنا کر چھوڑ دیا سو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ولقد ترکناھا ہم نے اس قصے کو عبرت و نصیحت کی ایک دلیل اور نشانی بنادیا، کیا ہے کوئی اس سے عبرت حاصل کرنے والا ؟ ” نذر “ مصدر ہے بمعنی انذار اور استفہام تعظیم و تعجیب کیلئے یعنی میرا ڈر اور میرا عذاب کس قدر ہولناک اور عبرت آموز ہے۔ ” ولقد یسرنا القران۔ الایۃ “ چاروں قصوں کے بعد یہ مذکور ہے گویا ہر قصہ کے بعد ولقد جاءھم من الانباء۔ الایۃ “ کا مضمون یاد دلایا اور متنبہ فرمایا کہ ہر قصہ اپنی جگہ عبرت آموزی میں کافی اور مستقل ہے ہم نے قرآن کو ان کی زبان میں نازل کرکے، اس میں دلائل، اخبار امم ماضیہ اور وعدہ ووعید ذکر کر کے پندو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کردیا ہے، کیا ہے کوئی جو اس سے نصیحت حاصل کرے اور اس کے انوار و برکات سے اپنا سینہ روشن کرلے ؟

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) اور ہم نے اس واقعہ کو ایک سبق آموز نشانی کے طور پر چھوڑ دیا سو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے یعنی جو اس عبرت انگیز واقعہ سے نصیحت پکڑے ہوسکتا ہے کہ ترکنھا سے مراد وہ کشتی ہو اور مطلب یہ ہو کہ ہم نے اس کشتی کو باقی رکھا تاکہ اس سے عبرت ہو۔ چنانچہ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں نشانی کو یعنی دنیا میں تب سے کشب رہی یا وہ کشتی رہ گئی جودی پہاڑ پر نظر آئی قرنوں تک اس امت کے لوگوں نے بھی دیکھی۔ خلاصہ : یہ کہ کشتی چلانے کا دستور باقی رہا شاید اس سے پہلے کشتی کا دستور نہ تھا یا یہ کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کی کشی کو محفوظ رکھا جیسا کہ آج کل بھی اخبارات میں اس کے تذکرے ہوتے رہتے ہیں اور شاید ابھی اس کے کچھ تختے کہیں کسی پہاڑ پر برف میں موجود ہیں۔ واللہ اعلم۔