Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 44

سورة القمر

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ نَحۡنُ جَمِیۡعٌ مُّنۡتَصِرٌ ﴿۴۴﴾

Or do they say, "We are an assembly supporting [each other]"?

یا یہ کہتے ہیں کہ ہم غلبہ پانے والی جماعت ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or say they: "We are a great multitude, victorious!" stating that they believed they will support each other and their great gathering will avail them against those who intend to harm them. Allah the Exalted responded, سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 تعداد کی کثرت اور وسائل قوت کی وجہ سے، ہم دشمن سے انتقام لینے پر قادر ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ : یہاں ” جمیع “ ’ ’ کل “ ( تمام) کے معنی میں نہیں بلکہ ” یائ “ کے اضافے کے ساتھ ” جمع “ کے معنی ہے ، مضبوط جماعت ہے۔ ” انتصر ینتصر انتصار “ ظالم سے بچاؤ کرنا ، دشمن سے انتقام لینا ، مد مقابل پر غالب آنا ۔ یا پھر ان کا کہنا یہ ہے کہ نہ ہم پہلوں سے بہتر ہیں اور نہ کسی کتاب میں ہمارے عذاب سے محفوظ رہنے کی کوئی بات موجود ہے ، مگر ہم ایک مضبوط جماعت ہے جو اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں ، بدلا بھی لے سکتے ہیں اور مد مقابل پر غالب بھی آسکتے ہیں ، اس لیے ہمیں کوئی خوف نہیں ۔ آیت میں التفاتت ہے ، یعنی پچھلی آیت ” اکفار کم خیر “ میں خطاب کا صیغہ ہے اور یہاں غائب کے صیغے کے ساتھ ان کا ذکر ہے ، مراد ان کی تحقیر ہے کہ ایسی ڈینگیں مارنے والے خطاب کے قابل نہیں ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ۝ ٤٤ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے انْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ وَالانْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ : طلب النُّصْرَة وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] ، وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] ، فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] وإنما قال :«فَانْتَصِرْ» ولم يقل : انْصُرْ تنبيهاً أنّ ما يلحقني يلحقک من حيث إنّي جئتهم بأمرك، فإذا نَصَرْتَنِي فقد انْتَصَرْتَ لنفسک، وَالتَّنَاصُرُ : التَّعاوُن . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] لا نتصار والانتنصار کے منعی طلب نصرت کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں ۔ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرتی لا زم ہے ۔ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] اور جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس کے بعد انتقام لے ۔ فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ ( بار الہ میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں ان سے ) بدلہ لے ۔ میں انصر کی بجائے انتصر کہنے سے بات پر متنبہ کیا ہے کہ جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ذات باری تعالیٰ پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ( ذات باری تعا لی پہنچ رہی ہے کیو ن کہ میں تیرے حکم سے ان کے پاس گیا تھا لہذا میری مدد فر مانا گو یا یا تیرا اپنی ذات کے لئے انتقام لینا ہے ۔ لتنا صر کے معنی باہم تعاون کرنے کے ہیں ۔ چنا نچہ قرآن میں ہے : ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ { اَمْ یَـقُوْلُـوْنَ نَحْنُ جَمِیْـعٌ مُّنْتَصِرٌ ۔ } ” یا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک طاقتور جمعیت ہیں اور بدلہ لینے پر قادر ہیں ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: جب مکہ مکرمہ کے کافروں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا جاتا تھا تو وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارا جتھہ بڑا مضبوط ہے، ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:44) ام یقولون : یا کیا یہ لوگ کہتے ہیں۔ اس میں ضمیر فاعل کفار مکہ کے لئے ہے۔ ای ام یقولون کفار قریش (الیسر التفاسیر) کیا کفار قریش کہتے ہیں ۔ جمیع منتصر : موصوف و صفت۔ جمیع۔ سب۔ سارے۔ جمع سے بروزن فعیل بمعنی مفعول ۔ بمعنی مجموع ہے ایک جماعت، جتھا، ہم ایک ایسا جتھا ہیں۔ منتصر۔ اسم فاعل واحد مذکر، بدلہ لینے والا۔ یعنی ایسا جتھا جو (اپنے خلاف کسی زیادتی کا) بدلہ لے سکتا ہے، مراد مضبوط، طاقتور، انتصار (افتعال) مصدر۔ علامہ پانی پتی اس کی تشریح لکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یعنی مضبوط، محفوظ ہیں کوئی ہم تک پہنچنے کا ارادہ بھی نہیں کرسکتا۔ یا دشمنوں سے ہم انتقام لیتے اور غالب آتے ہیں کوئی ہم پر غالب نہیں آسکتا۔ یا یہ مطلب ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ چونکہ لفظ جمیع واحد تھا اس لئے اس کی صفت منتصر بھی بصیغہ واحد ذکر کی اس کے علاوہ آیات کو جن الفاظ پر ختم کیا گیا اس کا تقاضا بھی یہی تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام یقولون ............ منتصر (45:44) ” یا ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ہم ایک مضبوط جتھا ہیں اور اپنا بچاؤ کرلیں گے “ جب وہ دیکھتے تھے کہ کفار مکہ ایک بڑی جمعیت ہیں تو ان کے حوصلے بڑھ جاتے تھے اور اپنی قوت پر غرور میں مبتلا ہوکر کہتے تھے کہ ہم ہی غالب رہیں گے اور نہ ہم پر کوئی غالب ہوسکتا ہے اور نہ ہمیں کوئی قوت شکست دے سکتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غزوہ بدر میں اہل مکہ کی شکست اور بڑا بول بولنے کی سزا : ﴿اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ٠٠٤٤﴾ (کیا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت ہے غلبہ پانے والی) یعنی ہمارے اندر اتفاق اور اتحاد ہے۔ ہمارے سامنے جو بھی دشمن آئے گا شکست کھائے گا اور ذلیل ہوگا۔ كون ہے جو ہمیں شکست دے سکے، یہ ان لوگوں نے بہت بڑی بات کہی، اول تو سارے عرب کے سامنے اہل مکہ کی تعداد ہی کیا تھی بس اتنی بات تھی کہ حرم میں ہونے کی وجہ سے لوگ ان پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ لیکن اہل عرب کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہ تھی پھر بھی اتنی بڑی بات کہہ دی، تفسیر درمنثور میں حضرت ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ اہل مکہ نے یہ بات غزوہ بدر کے موقع پر کہی تھی ان لوگوں کو اپنی متحدہ جماعت پر گھمنڈ ہوگیا اور یہ نہ سوچا کہ جو ذات خالق اور مالک ہے وہ جسے چاہے اور جس کے ذریعے چاہے شکست دیدے، ادھر تو ان لوگوں نے اتنا بڑا بول بولا ادھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ شانہ، کی بارگاہ میں دعا شروع کی اور خوب زیادہ دعا کی اور عرض کیا کہ اے اللہ میں آپ کے عہد اور آپ کے وعدہ کو پیش کرکے عرض کرتا ہوں (کہ مسلمانوں کی مدد فرمائیں) اے اللہ اگر آپٖ چاہیں (یہ مومن بندے ہلاک ہوجائیں) آج کے دن کے بعد آپ کی عبادت نہ کی جائے۔ حضرت ابوبکر (رض) موجود تھے انہوں نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا یا رسول اللہ بس کیجئے آپ نے اپنے رب سے بہت الحاح کے ساتھ دعا کرلی۔ اس وقت آپ ایک قبہ میں تشریف رکھتے تھے۔ یہ آیت پڑھتے ہوئے آپ قبہ سے باہر نکلے ﴿ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ٠٠٤٥﴾ (دشمنوں کی جماعت عنقریب شکست کھائے گی اور پشت پھیر کر بھاگے گی۔ (صحیح بخاری صفحہ ٤٠٨، ٥٦٤، ٧٢٢) اہل مکہ نے جو غرور کا کلمہ بولا تھا جس کا نتیجہ انہوں نے بھگت لیا۔ ذلیل ہوئے، خوار ہوئے ان کی ایک ہزار کی جماعت تھی۔ تین سو تیرہ مسلمانوں کے مقابلے میں شکست کھا گئی مشرکین کے ستر آدمی قتل ہوئے اور ستر آدمیوں کو قید کرکے مدینہ لایا گیا۔ بڑا بول بولا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے رسول کے مقابلہ میں ذلیل نہ ہوتے تو کیا ہوتا۔ دنیا میں ہمیشہ سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمن رہے ہیں بڑی بڑی لڑائیاں ہوئیں اپنی کثرت پر بھروسہ کرکے مقابلہ میں آئے پھر ذلیل ہوئے ان کی حکومتیں پاش پاش ہوئیں کافروں کی بعض جماعتیں اب بھی اسلام اور مسلمانوں کے مٹانے کے درپے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی ذلت کا منہ دیکھیں گے۔ ﴿ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ٠٠٤٥﴾

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ ” ام یقولون۔ الایۃ “ یہ شکوی ہے کیا کفار عرب اپنی قوت و شوکت پر مغرور ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ایک مضبوط جماعت ہیں اس لیے ہم مغلوب و مقہور نہیں ہوسکتے اور اپنے دشمنوں سے بدلہ لے سکتے ہیں۔ ” سیہزم الجمع۔ الایۃ “ یہ جواب شکوی ہے اور مشرکین کے قول کا رد ہے نیز تسلی ہے برائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ عنقریب وقت آنے والا ہے کہ ان کا کبر و غرور خاک میں مل جائیگا اور وہ ذلت آمیز شکست اٹھائیں گے اور میدان میں ان کے پاؤں جم نہ سکیں گے اور وہ بزدلوں کی طرح پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلیں گے۔ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جب ابھی جہاد فرض بھی نہیں ہوا تھا اور ہجرت کے بعد میدان بدر میں یہ سچی پیشگوئی ظاہر ہوئی۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق کی دلیل ہے۔ وقد کان ھذا یوم بدر وھو من دلائل النبوۃ لان الایۃ مکیۃ وقد نزلت حیث لم یفرض جھاد ولا کان قتال (روح ج 27 ص 92) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) یا یہ یوں کہتے ہیں کہ ہم ایک انتقام لینے والی جماعت ہیں۔