Surat ul Hadeed

Surah: 57

Verse: 22

سورة الحديد

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿۲۲﴾ۚ ۖ

No disaster strikes upon the earth or among yourselves except that it is in a register before We bring it into being - indeed that, for Allah , is easy -

نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ ( خاص ) تمہاری جانوں میں مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے یہ ( کام ) اللہ تعالٰی پر ( بالکل ) آسان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Everything that affects Mankind, is duly measured and destined Allah reminds of His measuring and deciding the destiny of all things before He created the creation, مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الاْاَرْضِ وَلاَا فِي أَنفُسِكُمْ ... No calamity occurs on the earth nor in yourselves, meaning, `there is nothing that touches you or happens in existence,' ... إِلاَّ فِي كِت... َابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ... but it is inscribed in the Book of Decrees before We bring it into existence. meaning, `before We created the creation and started life.' Qatadah commented on this Ayah, مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الاْاَرْضِ (No calamity occurs on the earth) refers to famine, while, وَلاَ فِي أَنفُسِكُمْ (or nor in yourselves) refers to suffering and diseases." He also said, "We were told that every person who suffers a prick of a thorn, a twisted ankle, or a bleeding vein, has it occur on account of his sins. What Allah forgives is even more." This great, honorable Ayah provides clear evidence to the misguidance of the cursed Qadariyyah sect, who deny Allah's Preordainment and His knowledge of everything before it occurs. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin Amr bin Al-`As said, "I heard the Messenger of Allah say, قَدَّرَ اللهُ الْمَقَادِيرَ قَبلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّموَاتِ وَالاَْرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَة Allah ordained the measures (of everything) fifty thousand years before He created the heavens and the earth." Muslim collected this Hadith in his Sahih with the addition: وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاء And His Throne was over the water. At-Tirmidhi also collected it and said, "Hasan Sahih." Allah's statement, ... إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ Verily, that is easy for Allah. means that He knows all things before they occur, and He records them exactly as they will occur when they occur, and this is easy for Him. Verily, Allah knows what happened, what will happen and what did not happen, and what shape and form it will take if it were to happen. Ordering Patience and Gratitude Allah said,   Show more

تنگی اور آسانی کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ اپنی اس قدرت کی خبر دے رہا ہے جو اس نے مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی اپنی مخلوق کی تقدیر مقرر کی تھی ، فرمایا کہ زمین کے جس حصے میں کوئی برائی آئے یا جس کسی شخص کی جان پر کچھ آ پڑے اسے یقین رکھنا چاہئے کہ خلق کی پیدائش سے پہلے ہے ، لیکن زیادہ ٹھیک بات یہ ہے...  کہ مخلوق کی پیدائش سے پہلے ہے ، امام حسن سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمانے لگے سبحان اللہ ہر مصیبت جو آسمان و زمین میں ہے وہ نفس کی پیدائش سے پہلے ہی رب کی کتاب میں موجود ہے اس میں کیا شک ہے؟ زمین کی مصیبتوں سے مراد خشک سالی ، قحط وغیرہ ہے اور جانوں کی مصیبت درد دکھ اور بیماری ہے ، جس کسی کو کوئی خراش لگتی ہے یا لغزش پا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کسی سخت محنت سے پسینہ آ جاتا ہے یہ سب اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے اور ابھی تو بہت سے گناہ ہیں جنہیں وہ غفور و رحیم اللہ بخش دیتا ہے ، یہ آیت بہترین اور بہت اعلیٰ دلیل ہے قدریہ کی تردید میں جس کا خیال ہے کہ سابق علم کوئی چیز نہیں اللہ انہیں ذلیل کرے ۔ صحیح مسلم شریف ہے اللہ تعالیٰ نے تقدیر مقرر آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے کی اور رویات میں ہے اس کا عرش پانی پر تھا ( ترمذی ) پھر فرماتا ہے کاموں کے وجود میں آنے سے پہلے ان کا اندازہ کر لینا ، ان کے ہونے کا علم حاصل کر لینا اور اسے لکھ دینا اللہ پر کچھ مشکل نہیں ۔ وہی تو ان کا پیدا کرنے والا ہے ۔ جس کا محیط علم ہونے والی ، ہو رہی ، ہو چکی ، ہو گی تمام چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے ہم نے تمہیں یہ خبر اس لئے دی ہے کہ تم یقین رکھو کہ جو تمہیں پہنچا وہ ہرگز کسی صورت ٹلنے والا نہ تھا ، پس مصیبت کے وقت صبر و شکر تحمل و ثابت قدمی مضبوط ولی اور روحانی طاقت تم میں موجود رہے ، ہائے وائے بےصبری اور بےضبطی تم سے دور رہے جزع فزع تم پر چھا نہ جائے تم اطمینان سے رہو کہ یہ تکلیف تو آنے والی تھی ہی ، اسی طرح اگر مال دولت غلبہ وغیرہ مل جائے تو اس وقت آپے سے باہر نہ ہو جاؤ اسے عطیہ الٰہی مانو تکبر اور غرور تم میں نہ آ جائے ایسا نہ ہو کہ دولت و مال وغیرہ کے نشے میں پھول جاؤ اور اللہ کو بھول جاؤ اس لئے کہ اس وقت بھی ماری یہ تعلیم تمہارے سامنے ہو گی کہ یہ میرے دست و بازو کا میری عقل و ہوش کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہے ۔ ایک قرأت اس کی آتکم ہے دوسری اتکم ہے اور دونوں میں تلازم ہے ، اسی لئے ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے جی میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے دوسروں پر فخر کرنے والے اللہ کے دشمن ہیں ، حضرت ابن عباس کا فرمان ہے کہ رنج و راحت خوشی و غم تو ہر شخص پر آتا ہے خوشی کو شکر میں اور غم کو صبر میں گذار دو ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود بھی بخیل اور خلاف شرع کام کرنے والے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی برا راستہ بتاتے ہیں ۔ جو شخص اللہ کی حکم برداری سے ہٹ جائے وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا کیونکہ وہ تمام مخلوق سے بےنیاز ہے اور ہر طرح سزا اور حمد ہے ۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یعنی اگر تم اور تمام روئے زمین کے انسان کافر ہو جائیں تو بھی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ ساری مخلوق سے غنی ہے اور مستحق حمد ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221مثلاً قحط، سیلاب اور دیگر آفات زمینی اور آسمانی۔ 222مثلاً بیماریاں، تعب و تکان اور تنگ دستی وغیرہ۔ 223یعنی اللہ نے اپنے علم کے مطابق تمام مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی باتیں لکھ دی ہیں جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار پہلے ہی ساری تقدیریں لکھ دی تھیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی وہ مخلص مسلمانوں کے لیے بڑے صبر آزما تھے۔ چار قسم کے دشمن مسلمانوں کی نوزائیدہ ریاست کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے تھے ایک قریش مکہ، دوسرے مدینہ کے اردگرد کے مشرک قبائل۔ تیسرے یہود مدینہ اور چوتھے منافقین جو ہر دشمن اسلام قوت سے اندرونی ساز باز ر... کھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے مار آستین بنے ہوئے تھے ان حالات میں جو ذہنی اور ظاہری پریشانیاں مسلمانوں کو لاحق ہوسکتی تھیں۔ ان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ ہم تمہاری ان مشکلات و مصائب سے بیخبر ہیں۔ بلکہ زمین میں جو بھی حادثہ پیش آتا ہے یا تمہیں کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے اسے ہم اس کے وقوع سے پہلے سے ہی جانتے ہیں کیونکہ نوشتہ تقدیر میں یہ سب کچھ لکھا ہوا موجود ہے۔ اور تمہیں ایسے حالات سے گزارنا اس لیے ضروری تھا کہ مومنوں اور منافقوں کا امتیاز کھل کر سامنے آجائے۔ عنقریب اسلام کو غلبہ حاصل ہونے والا ہے۔ اور تمہاری امت کو تمام دنیا کی قیادت کے لیے منتخب کیا جارہا ہے۔ لہذا منافقوں کو چھانٹ کر الگ کردینا ضروری تھا کہ وہ بھی اپنے آپ کو اس قیادت کے حقدار اور حصہ دار نہ سمجھ بیٹھیں اور ان کی صحیح قدر و قیمت انہیں خود بھی اور دوسروں کو بھی معلوم ہوجائے۔ [٣٩] اس آیت کی تشریح کے لیے سورة اعراف کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ ۔۔۔۔۔:” اصاب “ کا مفعول بہ محذوف ہے : ” ای ما اصابکم او ما اصاب اخذ من مصیبۃ۔۔۔۔ “ ” یعنی تمہیں یا کسی کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے خواہ زمین میں ہو یا تمہاری جانوں میں ۔۔۔۔۔ “ سورت کی ابتداء سے جہاد میں مال و جان خرچ کرنے کی تاکیدآ رہی ہے ، چونکہ اس راہ میں کئی طرح کی ج... سمانی و ذہنی اور مالی و جانی مصیبتیں پیش آتی ہیں ، مثلاً بھوک ، پیاس ، فقر ، خوف ، غم ، تھکاوٹ ، بیماری ، زخم ، چوٹ ، گرفتاری اور قتل وغیرہ ، اس لیے آدمی جہاد پر جانے سے گریز کرتا ہے اور اپنے آپ کو ان مصیبتوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر جہاد کے لیے چلا جائے تو ان مصائب کے پیش آنے پر پریشان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو مالی یا جانی مصیبت تمہیں پیش آنی ہے وہ ہر حال میں آکر رہے گی ، تم اس سے بچنے کی جتنی بھی کوشش کرلو اس سے بھا گ نہیں سکتے۔ ہر آنے والی مصیبت یا راحت اللہ تعالیٰ نے اس کے پیدا کرنے اور تمہاری جانوں کو پیدا کرنے ، بلکہ زمین کو پیدا کرنے سے بھی پہلے ایک کتاب میں لکھ دی ہے ، کسی کو طاقت نہیں کہ اس لکھے ہوئے کو مٹا دے یا بدل دے ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ قمر (٤٩) اور سورة ٔ توبہ ( ٥١) کی تفسیر۔ ٢۔ فی الارض : اس سے زمین پر آنے والی عام مصیبتیں مراد ہیں ، مثلاً قحط ، طوفان ، سیلاب ، زلزلے اور وبائیں وغیرہ ، جن سے انسان متاثر ہوتا ہے۔ ٣۔ ولا فی انفسکم : اس سے وہ مصیبتیں مراد ہیں جو انسان کی ذات پر آتی ہیں ، مثلاً بیماری ، زخم ، بھوک ، پیاس ، گرفتاری، فقر ، خوف ، غم ، پیاروں کی موت اور اپنی موت وغیرہ۔” ولا فی انفسکم “ میں حرف نافیہ ” لا “ کو دوبارہ ان مصیبتوں کی اہمیت کی وجہ سے ذکر فرمایا : کیونکہ آدمی اپنی جان پر آنے والی مصیبتوں سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ، دوسروں پر آنے والی مصیبتوں سے وہ ذہنی طور پر متاثر ہوتا ہے ، حسی طور پر نہیں۔ ٤۔ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا ط :” برایبرا براو بروا “ (ف) پیدا کرنا ۔ ” ھا “ ضمیر ” مصیبۃ “ کی طرف بھی جاسکتی ہے ، ” الارض “ کی طرف بھی اور ” انفسکم “ کی طرف بھی ۔ یہ کلام الٰہی کی بلاغت ہے کہ تینوں مراد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مصیبت کو اس مصیبت کے پیدا کرنے سے پہلے ، انسان کے پیدا کرنے سے پہلے اور زمین کے پیدا کرنے سے بھی پہلے لکھ دیا ہے۔ ٥۔ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہ ِ یَسِیْرٌ : یعنی انسان کو چونکہ آئندہ کا کچھ علم نہیں ، اس لیے اس کے لیے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ آئندہ کی بات پہلے لکھ دے ، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بالکل ہی معمولی بات ہے ، کیونکہ وہ گزشتہ اور موجودہ کی طرح آئندہ کی ہر بات کو بھی جانت ہے ، مزید دیکھئے سورة ٔ قمر (٤٩) کی تفسیر۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Factors affecting Mankind are duly measured and destined There are two sets of factors that make man unmindful of Allah and the Hereafter: [ 1] wealth, comfort and other luxuries of this world; one&s over-involvement in such luxuries makes him neglectful of Allah. The previous verses have warned against it. [ 2] calamities, problems and other hardships that cause one to be hopeless and in turn...  neglectful towards Allah. The current set of verses deal with this second cause of negligence. مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَ‌أَهَا (No calamity befalls the earth or your own selves, but it is [ pre-destined ] in a Book before We bring it into being ....57:22) The expression &Book& refers to &Preserved Tablet [ lawh mahfuz ] and the verse means that Allah had measured and decided the destiny of all things even before He created them. The expression &No affliction befalls in the earth& refers to famine, earthquake, destruction of crops, loss in business, loss of wealth and property and loss of friends and loved ones. The expression &in yourselves& refers to illnesses of all sorts, all kinds of wounds, hurt and injury.  Show more

خلاصہ تفسیر کوئی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے اور نہ خاص تمہاری جانوں میں مگر وہ (سب) ایک کتاب میں (یعنی لوح محفوظ میں) لکھی ہیں قبل اس کے کہ ہم ان جانوں کو پیدا کریں (یعنی تمام مصیبتیں خارجی ہوں یا داخلی، وہ سب مقدر ہیں اور) یہ اللہ کے نزدیک آسان کام ہے (کہ واقع ہونے سے پہلے لکھ دیا کیونکہ اس کو علم ... غیب حاصل ہے اور ہم نے یہ بات اس واسطے بتلا دی ہے) تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے (تندرستی یا اولاد یا مال) تم اس پر (اتنا) رنج نہ کرو (جو حق تعالیٰ کی مرضی کے طلب کرنے اور آخرت کے امور میں مشغول ہونے میں رکاوٹ ہوجاوے اور طبعی تکلیف کا مضائقہ نہیں) اور تاکہ جو چیز تم کو عطا فرمائی ہے (اس کی نسبت بھی یہی سمجھ کر کہ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت و فضل سے عطا فرمانا تجویز کردیا تھا اور اسی نے ہم کو دی ہے) اس پر اتراؤ نہیں (کیونکہ اتراوے تو وہ جس کا استحقاق ذاتی ہو اور جب دوسرے کی مشیت و حکم سے ایک چیز ملی ہے، اس پر اترانے کا کیا حق ہے) اور (آگے اس اترانے پر و عید ہے کہ) اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا (اختیال کا لفظ اکثر اندرونی فضائل پر اترانے کے لئے اور فخر اکثر خارجی اشیاء مال و مرتبہ وغیرہ پر اترانے کے لئے مستعمل ہوتا ہے، آگے بخل کی مذمت ہے کہ) جو ایسے ہیں کہ (دنیا کی محبت کی وجہ سے) خود بھی (خدا کے نزدیک پسندیدہ حقوق میں صرف کرنے سے) بخل کرتے ہیں (گو اپنی خواہشات و گناہوں میں کتنا ہی اسراف کریں) اور (اس گناہ کے مرتکب بھی ہوتے ہیں کہ) دوسرے لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم کرتے ہیں (الذین الخ سے جو ترکیب میں بدل ہے یہ مقصود نہیں کہ وعید ان افعال کے مجموعہ کے ساتھ متعلق ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ ہر بری خصلت پر وعید ہے، بلکہ اشارہ اس طرف ہے کہ دنیا کی محبت ایسی ہے جس سے اکثر بری صفات جمع ہو ہی جاتی ہے، اختیال اور افتخار بھی اور بخل بھی وغیر ذالک) اور (یہی دنیا کی محبت کبھی حق سے رو گردانی کرنے تک پہنچا دیتی ہے، جس کے حق میں یہ وعید ہے کہ) جو شخص (دین حق سے جس کی ایک فرع انفاق فی سبیل اللہ بھی ہے) اعراض کرے گا تو اللہ تعالیٰ (کا کوئی نقصان نہیں، کیونکہ وہ سب کی عبادت اور اموال سے) بےنیاز ہیں (اور اپنی ذات وصفات میں کامل اور) سزاوار حمد ہیں۔ معارف و مسائل دنیا کی دو چیزیں انسان کو اللہ کی یاد اور آخرت کی فکر سے غافل کرنے والی ہیں، ایک راحت و عیش جس میں مبتلا ہو کر انسان اللہ کو بھلا بیٹھتا ہے اس سے بچنے کی ہدایت سابقہ آیات میں آ چکی ہے دوسری چیز مصیبت و غم ہے، اس میں مبتلا ہو کر بھی بعض اوقات انسان مایوس اور خدا تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے، آیات مذکورہ میں اس کا بیان ہے۔ (آیت) مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا، یعنی جو کوئی مصیبت تم کو زمین میں یا اپنی جانوں میں پہنچتی ہے وہ سب ہم نے کتاب یعنی لوح محفوظ میں مخلوقات کو پیدا کرنے سے بھی پہلے لکھ دیا تھا، زمین کی مصیبت سے مراد قحط، زلزلہ، کھیت اور باغ میں نقصان، تجارت میں گھاٹا، مال و دولت کا ضائع ہوجانا، دوست احباب کی موت سب داخل ہیں اور اپنی جانوں کی مصیبت میں ہر طرح کے امراض اور زخم اور چوٹ وغیرہ شامل ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا۝ ٠ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ۝ ٢٢ ۚ ۖ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير ... لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] ، قال : الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل . مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ، ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ يسير واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کوئی مصیبت قحط خشکی بھوک گرانی وغیرہ جو دنیا میں آتی ہے اور نہ مرض و تکالیف اور اہل و عیال کے مرنے اور مال کے ختم ہونے جیسی مصیبیں خاص تمہاری جانوں میں آتی ہیں مگر ان سب چیزوں کا ہونا لوح محفوظ میں لکھا ہے قبل اس کے کہ ہم ان جانوں اور اس زمین کو پیدا کریں اور بغیر کسی کتاب کے ان تمام باتوں کی نگہداش... ت اللہ تعالیٰ کے نزدیک آسان کام ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢{ مَـآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَـبْلِ اَنْ نَّــبْرَاَھَا } ” نہیں پڑتی کوئی پڑنے والی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری اپنی جانوں میں مگر یہ کہ وہ ایک کتاب میں درج ہے ‘ اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کریں۔ “ اَصَابَ یُصِیْبُ (آپڑنا ‘ ... نازل ہونا) سے اسم الفاعل ” مُصِیْب “ ہے اور اس کی مونث ” مُصِیْبَۃ “ ہے ‘ جس کے معنی ہیں نازل ہونے یا آپڑنے والی شے۔ چناچہ لغوی اعتبار سے تمام حوادث ‘ واقعات ‘ کیفیات جو ہم پر وارد ہوتی ہیں ‘ وہ سب کی سب اس میں شامل ہوجائیں گی ‘ لیکن عام طور پر یہ لفظ تکلیف دہ ‘ ناگوار اور ناپسندیدہ چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت کی رو سے مصیبتیں دو قسم کی ہیں۔ یا تو آفاتِ ارضی و سماوی یعنی آفاقی مصیبتیں ‘ جو زمین پر بڑے پیمانے پر نازل ہوتی ہیں ‘ مثلاً سیلاب ‘ زلزلے ‘ طوفانِ باد و باراں وغیرہ ‘ یا انسانوں کی اپنی جانوں پر کوئی مصیبت آن پڑتی ہے ‘ مثلاً کوئی بیماری یا کوئی عارضہ لاحق ہوگیا یا کوئی حادثہ پیش آگیا۔ یہاں واضح فرما دیا گیا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانوں پر اجتماعی یا انفرادی طور پر کسی بھی شکل میں کوئی مصیبت ‘ آفت یا تکلیف آتی ہے اس کے معرض وجود میں آنے سے قبل اس کی پوری تفصیل اللہ کے علم قدیم میں پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ { اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ} ” یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ “ انسانوں کو یہ بات بیشک عجیب یا مشکل لگے ‘ مگر اللہ کا علم مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ پر محیط ہے۔ اس کے لیے کائنات کی ایک ایک چیز کا پوری تفصیل سے احاطہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ یہ بات تم لوگوں کو بھلا کیوں بتائی جا رہی ہے ؟ اس لیے :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39 "A Book": the Writ of destiny, 40 Here, "it" may be referring to the affliction as well as to the earth, or the self of man, or in view of the context, to all the creatures. 41 That is, it is not at all difficult for Allah to pre-ordain the destiny of each and every one of His creatures.

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :39 اس کو کا شارہ مصیبت کی طرف بھی ہو سکتا ہے ، زمین کی طرف بھی ، نفس کی طرف بھی ، اور فحوائے کلام کے لحاظ سے مخلوقات کی طرف بھی ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :40 کتاب سے مراد ہے نوشتہ تقدیر ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :41 یعنی اپنی مخلوقات میں سے ایک...  ایک کی تقدیر پہلے سے لکھ دینا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: کتاب سے مراد یہاں لوح محفوظ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک ہونے والے تمام واقعات پہلے سے لکھے ہوئے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢۔ ٢٤۔ اس آیت کی تفسیر میں علماء مفسرین ٣ ؎ کے چار قول ہیں پہلا قول تو یہ ہے کہ جو جانی یا مالی کوئی آفت یا مصیبت لوگوں پر دنیا میں آتی ہے اس مصیبت کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کے پہنچنے کا سارا حال لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جن لوگوں پر وہ مصیبت اور آفت آتی ہے ... ان کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کا حال لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ زمین کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کا حال لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے چوتھا قول یہ ہے کہ اس مصیبت کے اور مصیبت والوں کے اور تمام دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس مصیبتیں کا حال لوح محفوظ میں لکھ ہے۔ بعض مفسروں نے لکھا ہے کہ یہ آخری قول سب قولوں سے اچھا ہے۔ یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ صحیح ١ ؎ مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو کی حدیث کا مضمون یہ ہے کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کا حال لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سب سے آخری قول جو اوپر بیان کیا گیا ہے وہی قول اس صحیح حدیث کے مضمون کے موافق ہے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ ایسا آدمی تو دنیا میں کوئی نہیں ہے کہ راحت سے کسی قدر خوشی اور مصیبت سے کسی قدر رنج اس کے دل پر نہ ہوتا ہو اس لئے مطلب آیت کا یہ ہے ہے کہ رنج اور مصیبت کے وقت بالکل بےصبر ہوجانا اور راحت کے وقت اترانا نہیں چاہئے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر طرح کا رنج اور ہر طرح کی راحت تقدیر الٰہی کے موافق ہے۔ بندہ کی بےصبری اور بندہ کا اترانا بےفائدہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ن آیت آیت کے آگے اترانے والوں کی مذمت فرمائی ہے حضرت عبد اللہ ٣ ؎ بن عباس نے یہ بھی فرمایا کہ اس آیت میں آیت میں دنیا کی مصیبت اور برائی کا ذکر ہے۔ شیطان کے بہکانے سے دین کی کوئی برائی آدمی کو پیش آجائے تو اس پر ضرور بڑا قلق کرنا چاہئے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا یہ قول حضرت ابی امامہ کی اس حدیث کے موافق ہے جو مسند ٤ ؎ امام احمد کی روایت سے اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایمان دار شخص کی نشانی یہ ہے کہ اس کو دین کی بری بات بری اور بھلی بات بھلی معلوم ہونے لگتی ہے۔ فرقہ قدریہ کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ وہ لوگ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے سب چیزوں کا اندازہ ہونے اور لوح محفوظ میں لکھے جانے کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے وہ بیری کسی ازلی اندازہ اور علم الٰہی کے از سر نو ہوتا ہے اور ہر ایک چیز کے ہوجانے کے بعد اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہوجاتا ہے۔ مفسرین ٥ ؎ نے لکھا ہے کہ اس آیت سے فرقہ قدریہ مذہب کی پوری غلطی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لوح محفوظ میں علم ازلی الٰہی کے موافق پہلے سب کچھ لکھا جا چکا ہے اب دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اسی کے موافق ہوتا ہے۔ تمام ملک کی آفت جیسے عام قحط یا عام وبا جان کی آفت جیسے عزیز و اقارب کا مرجانا انسان کو آئندہ کا حال معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں انسان کو سمجھایا ہے کہ اللہ کا علم ایسا نہیں ہے۔ اس کے علم میں حال کی موجود چیزیں اور آئندہ کی موجود ہونے والی چیزیں دونوں برابر ہیں۔ اس واسطے اس کو دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے تمام دنیا کا حال لوح محفوظ میں لکھ لینا کچھ مشکل نہیں۔ اور یہ بھی سمجھایا کہ اس لوح محفوظ کے نوشتہ کے حال سے تم لوگوں کو اس لئے خبردار کیا ہے تاکہ تم آفت کے وقت بہت رنج اور بےصبری نہ کرو اور یہ سمجھ لو کہ جو آفت آئی وہ تقدیر کے نوشتہ کے موافق ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں معتبر سند سے ابوہریرہ ١ ؎ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کا درجہ عقبیٰ میں بڑھانا چاہتا اور جب ان بندوں کے عمل اس درجہ کے قابل نہیں ہوتے تو ان پر کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے جن پر ان کو صبر کی توفیق دیتا ہے جس صبر کے اجر میں وہ اس درجہ کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی اور بھی صحیح حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے نصیب میں جو مصیبت اور آفت لکھی گئی ہے وہ حکمت سے خالی نہیں۔ مصیبت کے بعد راحت کے باب میں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ راحت کے وقت اتراؤ نہیں کیونکہ دنیا کی راحت دنیا کی راحت والے سب ناپائیدار چیزیں ہیں۔ ایسی ناپائیدار حالت ہرگز اترانے کے قابل نہیں ہے۔ آگے فرمایا کہ دنیا کی چند روزہ راحت پر اترانے سے تکبر ‘ بخل ‘ غرض ایسی ایسی باتیں انسان میں پیدا ہوجاتی ہیں جو اللہ کو پسند نہیں۔ پھر فرمایا کہ جو شخص اللہ کی نصیحت پر عمل کرنے سے منہ موڑے گا تو اللہ کو اس کی کچھ پروا نہیں۔ لیکن اس کے سب کام حکمت سے بھرے ہوئے لائق حمد و ثنا کے ہیں جو کسی طرح منہ موڑنے کے قابل نہیں۔ معتبر سند سے طبرانی کبیر ٢ ؎ اور مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عمر کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اترانے والے لوگ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر بہت غصہ سے نگاہ ڈالے گا۔ ان آیتوں میں جو اترانے کی ممانعت ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں۔ (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣١٣ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب حجاج ادم و موسیٰ علیھما السلام ص ٣٣٥ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٧٦ ج ٦۔ ) (٤ ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب الایمان فصل ثالث ص ) (٥ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣١٤ ج ٤۔ ) (١ ؎ الترغیب و الترہیب فی الصبر ص ٥٢٧ ج ٤۔ ) (٢ ؎ الترغیب و الترہیب۔ الترغیب فی التواضع والترھیب من الکبر الخ ص ٨٢٣ ج ٣۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(57:22) ما اصاب من مصیبۃ : ما نافیہ۔ من تبعیضیہ ہے۔ اصاب ماضی واحد مذکر غائب اصابۃ (افعال) مصدر۔ بمعنی وہ آپڑا وہ آپہنچا۔ اس نے پالیا۔ مصیبۃ اسم فاعل واحد مؤنث۔ آپہنچنے والی۔ تکلیف۔ غم۔ مصیبت اس کی جمع مصائب ہے۔ ترجمہ : نہیں پہنچتی کوئی مصیبت۔۔ فی الارض زمین میں۔ زمین میں مصیبت مثلاً قحط یا کوئی د... وسری آفت۔ ولا فی انفسکم۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے اور نہ پڑتی ہے کوئی مصیبت تمہاری اپنی جانوں میں مثلا بیماری وغیرہ۔ ولا فی کتب : مگر وہ ایک میں لکھی ہوتی ہے۔ کتب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ من قبل ان نبراھا : من حرف جار قبل اسم ظرف زمان۔ مجرور، مضاف، ان مصدریہ۔ نبراھا ماضی جمع متکلم۔ برء (باب نصر) مصدر ۔ ھا مفعول واحد مؤنث غائب کا مرجع مصیبۃ ہے۔ مضاف الیہ۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور کوئی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر یہ کہ ہمارے پیدا کرنے سے پیشتر ہی وہ ایک کتاب (لوح محفوظ) میں لکھی ہوتی ہے۔ برء (باب نصر) بمعنی پیدا کرنا۔ نیست سے ہست میں لانا۔ اسی سے ہے الباری۔ پیدا کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی میں سے ہے۔ برء ۔ براء ۔ تبری۔ کسی مکر وہ شے سے چھٹکارا حاصل کرنا۔ خلاصی پانا۔ بیزار ہونا۔ ان ذلک۔ یعنی باوجود کثرت مصائب کے ان کو تفصیل کے ساتھ لوح محفوظ میں لکھ دینا اللہ کے لئے آسان ہے۔ یسیر۔ صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر۔ یسر مصدر۔ آسان۔ سہل۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یا زمین اور لم لوگوں کی پیدائش سے پہلے۔ “5 حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا۔ “ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر زمین و آسمان کی پیدائش ہے پچاس ہزا رسال پہلے لکھ دی تھی۔ (ابن کثیر بحو (صحیح مسلم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ سابقوا۔ دوڑو۔ عرض۔ پھیلائو۔ ان نبرا۔ یہ کہ ہم پیدا کریں۔ یسیر۔ آسان۔ لیکیلا۔ تاکہ نہ ہو۔ مختال۔ اترانے والا۔ فخور۔ بہت زیادہ گھمنڈ کرنے والا۔ تشریح : اس زمین پر یا کسی انسان پر جو بھی راحت و آرام اور مصیبت و عذاب آتا ہے وہ تقدیر الٰہی اور اللہ کے لکھے ہوئے فیصلے کے مطابق ہی آتا ہے۔ زمی... ن مصیبت سے مراد مال و دولت کا ضائع ہوجانا، تجارت اور لین دین میں گھاٹا اور نقصان ہوجانا، زلزلہ ، قحط اور کھیت کی تباہی وغیرہ زمینی مصیبت ہے اور کوئی اتفاقی حادثہ، زخم، چوٹ، بیماری بےآرامی، باہمی اختلافات، فتح اور شکست وغیرہ یہ انسانی نقصانات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ سب کا سب لوح محفوظ میں آدمی کے پیدا ہونے سے پہلے لکھ دیا گیا تھا۔ اب اس کی طرف اس لئے متوجہ کیا جا رہا ہے کہ دنیا میں کسی چیز کا ملنا یا چھن جانا دونوں ہی امتحان ہیں۔ آدمی کی تقدیر کے فیصلے پر صبرو شکر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی چیز ضائع ہوجائے چھن جائے، تہس نہس ہوجائے تو اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے اور اگر اس کو ہر طرح کی راحتوں اور آرام کے اسباب اور مال و دولت مل جائے تو اس کا اترانا نہیں چاہیے۔ اللہ کو نہ تو یہ بات پسند ہے کہ مومن ہوتے ہوئے کوئی اللہ کی رحمت اور کرم سے مایوس ہو کر ہاتھ پیر ڈال دے اور نہ فخر و غرور پسند ہے کہ وہ ذرا سے مال و دولت پر اس طرح اترانے لگے کہ اسے اپنے علاوہ ہر شخص حقیر و ذلیل نظر آنے لگے۔ جس وقت یہ آیات نازل ہوئین اس وقت مکہ مکرمہ میں اہل ایمان کے لئے شدید ترین حالات تھے۔ ہر طرف مصیبتیں گھر گھر کر آرہی تھیں اور کسی طرف سے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ ان حالات میں گبھرا جانا اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھنا ایک فطری بات ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں جو چیز ہاتھ نہ لگے اس پر رنجیدہ نہ ہوا کرو اور جب مل جائے تو اس کو اپنی ذاتی کوشش اور جدوجہد کا نتیجہ سمجھ کر اترایا نہ کرو کیونکہ اللہ کو ایسے لوگ سخت ناپسند ہیں جو فخرو غرور کرتے اور اتراتے ہیں۔ فرمایا کہ اسی طرح وہ لوگ جو بخل اور کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ سکھاتے ہیں کہ یہاں نیک باتوں میں کیا رکھا ہے کسی کارخیر میں ہم اپنا مال و دولت کیوں خرچ کریں۔ ہماری محنت کی کمائی ہے جس پر ہمارے بچوں کا حق ہے ہم کسی کو کیوں دیں وغیرہ وغیرہ ۔ فرمایا کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کا دیا ہوا مال ہے اگر تم اس کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اللہ کے بندوں پر خرچ کروں گے، مجبوری اور بےکسی میں کسی کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرو گے تو اللہ اس سے کہیں زیادہ تمہیں عطا کردے گا جو تم نے اللہ کے بندوں پر خرچ کیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ یہ بات لوگوں کو سکھائیے لیکن اگر وہ اس کو ماننے سے انکار کردیں اور اس سچائی سے منہ پھیر لیں تو ان کو بتا دیجئے کہ اللہ کو تمہارے مال و دولت کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ ان تمام چیزوں سے بےنیاز ہے اگر ساری دنیا مل کر بھی اس کی تعریف نہ کرے تب بھی وہی ذات تمام خوبیوں کی مالک ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی تمام مصیبتیں خارجی ہوں یا داخلی وہ سب مقدر ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنت کا حصول مشکلات کا سامنا کیے بغیر ممکن نہیں اس لیے مشکلات کی حقیقت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حقیقت حال بتانے اور اسے تسلی دینے کے لیے ارشاد فرمایا ہے کہ تم پر اور زمین پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر ” اللہ “ ہی اسے بھیجنے والا ہے۔ جسے اس نے اپنے ہاں لوح ... محفوظ پر ثبت کر رکھا ہے۔ مصیبت نازل کرنا اور اسے ٹالنا صرف اور صرف ” اللہ “ کے اختیار میں ہے اور اس نے انسان کی تخلیق سے پہلے اس کے مقدر میں لکھ رکھا ہے۔ مصیبت نازل کرنا اور اس کو ٹالنا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل نہیں اس کے لیے کسی کام کو مشکل خیال کرنا ہی بہت بڑا کفر ہے۔ کسی کو مصیبت میں مبتلا کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ جو تم سے کھو جائے اس پر حد سے زیادہ غم نہ کرو اور جو تمہیں عطا کیا جائے اس پر فخر و غرور نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ فخرو غرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفَِ والْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) (البقرۃ : ١٥٥، ١٥٦) ” اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے دشمن کے ڈر، بھوک، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے، ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دیجئے۔ انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یقیناً ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور بلاسبہ ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ “ (وَعَنْھَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ مُّسْلِمٍ تُصِےْبُہُ مُصِےْبَۃٌ فَےَقُوْلُ مَا اَمَرَہُ اللّٰہُ بِہٖ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَےْہِ رَاجِعُوْنَ ” اَللّٰھُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِےْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَےْرًا مِّنْھَا “ اِلَّا اَخْلِفَ اللّٰہُ لَہُ خَےْرًا مِّنْھَا فَلَمَّا مَاتَ اَبُوْ سَلَمَۃَ قُلْتُ اَیُّ الْمُسْلِمِےْنَ خَےْرٌ مِّنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ اَوَّلُ بَےْتٍ ھَاجَرَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثُمَّ اِنِّیْ قُلْتُھَا فَاَخْلَفَ اللّٰہُ لِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (رواہ مسلم : باب ما یقال عند المصیبۃ) حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو وہ وہی کلمے کہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ” بلاشبہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں آخراسی کی طرف جانے والے ہیں، بارِالہا ! میری اس مصیبت میں مجھے اجر سے نواز اور مجھے نعم البدل عطا فرما اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر بدلہ عطا کرے گا۔ آپ (رض) فرماتی ہیں جب میرے خاوند ابوسلمہ (رض) فوت ہوگئے تو میں نے سوچا کہ ابوسلمہ سے اچھا خاوند مسلمانوں میں کون ہوگا ؟ یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہجرت کی۔ اس سوچ کے باوجود میں یہ دعا پڑھتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے بدلے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا فرما دئیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے اِ ذن کے بغیر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات لوح محفوظ پر لکھ رکھی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر کام آسان ہے۔ ٤۔ مصیبت آنے پر واویلا اور بےصبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ٥۔ نعمت ملنے پر فخروغرور نہیں کرنا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ فخروغرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ فخر و غرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا : ١۔ اللہ تکبر کرنے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (لقمان : ١٨) ٢۔ جو ” اللہ “ نے تمہیں عطا کیا ہے، اس پر اتراؤ نہیں کیونکہ اللہ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٣۔ یقیناً اللہ تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٤۔ زمین میں اکڑ کر نہ چل ! نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) ٥۔ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو دنیا میں تکبر و فساد نہیں کرتے۔ (القصص : ٨٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ما اصاب .................... الحمید (٤٢) (٧٥ : ٢٢ تا ٤٢) ” کوئی مصیبت ایسی نہیں جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب ” یعنی نوشتہ تقدیر “ میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لئے بہت آسان کام ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہ... و اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں ، جو خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل کرنے پر اکساتے ہیں۔ اب اگر کوئی روگردانی کرتا ہے تو اللہ بےنیاز اور ستودہ صفات ہے۔ “ اس کائنات میں جو واقعہ بھی پیش آتا ہے ، وہ اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ اللہ نے پہلے سے قلم بند کرلیا ہے۔ اور اس کائنات کے منصوبے اور نقشے میں متعین اور محسوب ہے۔ اس میں محض بخت واتفاق کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس پوری کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل اور شامل علم کے ذریعے ایسا کرلیا ہے۔ اور بہت ہی تفصیل کے ساتھ سب کچھ قلم بند کردیا ہے ، یہ اللہ کے علم میں تھا۔ اللہ کے علم میں کوئی ماضی حال اور مستقبل نہیں ہے۔ یہ زمان ومکان کے فاصلے اور حدیں اللہ کے علم پر حاوی نہیں ہیں ، یہ تو ہم اپنے محدود علم کے ذریعے ان چیزوں کو اس طرح زمان ومکان کے قید میں دیکھتے ہیں ۔ ہم تو ان حدود وقیود کے بغیر نہیں دیکھ سکتے۔ پھر ہم حقیقت مطلقہ کا ادراک ہی نہیں کرسکتے ، ہاں بعض اوقات انسانوں کی قوت مدرکہ کو ایک ایسی چمک حاصل ہوجاتی ہے جس وقت ہماری روح حقیقت مطلقہ سے جڑ جائے ، ہم اشیاء کی حقیقت کو اس عادی طریقے سے جان سکتے ہیں یعنی بذریعہ حواس ، رہا اللہ تعالیٰ جو حقیقت مطلقہ ہے اور وہ اس کائنات کی ہر چیز کو بلا حدود وقیود جانتا ہے۔ یہ کائنات اور اس کے اندر واقعات اپنی آغاز سے انتہا تک اللہ کے علم میں ہیں۔ یہ علم مطلق ہے اور بلاحدود وقیود ہے۔ اور اللہ کے نقشے میں ہر ایک چیز اور واقعہ کا ایک مقام ہے جو اللہ کے علم میں ہے ، لہٰذا ہر واقعہ جسے انسان خیر سمجھتا ہے یا شر سمجھتا ہے ، زمین پر وہ واقع ہوتا ہے۔ اور انسانوں کی زندگیوں میں وہ پیش آتا ہے یہ اللہ کی کتاب میں ثبت ہے۔ ان ذلک علی اللہ یسیر (٧٥ : ٢٢) ” ایسا کرنا اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔ “ اس کا فائدہ کیا ہے ؟ اس حقیقت کا فائدہ یہ ہے کہ ایک انسان جسے اس دنیا کے واقعات پر خوشی بھی ہوتی ہے اور پریشانی بھی ہوتی ہے وہ اسے منجانب اللہ سمجھیں اور اس دنیا میں سکون اور اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ اگر کوئی ناگوار چیزیں دیکھیں تو حسرتوں سے اپنے آپ کو فنا نہ کردیں اور اگر کوئی فرحت بخش واقعات دیکھیں تو آپے سے باہر نہ ہوجائیں اور جس طرح حقیقت ہے یہ سمجھیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو بھی کوئی مصیبت پیش آتی ہے اس کا وجود میں آنا پہلے سے لکھا ہوا ہے دنیا میں انسان آیا ہے محض زندگی گزارنے کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ امتحان اور ابتلاء میں ڈالا گیا، سورة الملک میں فرمایا ﴿ا۟لَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (اللہ تعالیٰ نے زندگی اور مو... ت کو پیدا فرمایا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھے عمل والا ہے) جب امتحان میں ڈالے گئے ہیں تو ان چیزوں کا پیش آنا بھی ضروری ہے جو امتحان کا ذریعہ بن سکیں امتحان والی دو چیزیں ہیں۔ اول دولت اور نعمت اور آرام و راحت دوم مشکلات و مصائب اور ناگوار چیزیں، جب پہلی چیز یعنی خوش عیش زندگی ملتی ہے تو بہت سے انسان اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اعمال صالحہ چھوڑ کر دنیا ہی میں مست رہنے لگتے ہیں، گزشتہ آیات میں تنبیہ فرمائی کہ دنیا لہو ولعب ہے فخر بازی ہے اور مال و اولاد کی کثرت پر مقابلہ کرنے کا سبب ہے لیکن یہ ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے جیسے کھیتی ہری بھری ہوتی ہے کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ پیلی ہوتی ہے پھر خشک ہوجاتی ہے پھر بھوسہ بن جاتی ہے لہٰذا اس میں لگنا سمجھداری نہیں ہے آخرت کی فکر کرنا لازم ہے دوسری چیز مصیبت اور تکلیف ہے اس کے بارے میں ان آیات میں بتادیا کہ جو بھی کوئی مصیبت پہنچ جائے وہ واقع ہونی ہی ہے کیونکہ خالق کائنات جل مجدہ نے اس کے پیدا فرمانے سے پہلے ہی لکھ دیا تھا وہ ایک کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے یہ مصیبت خواہ زمین میں ہو مثلاً قحط پڑنا، زلزلہ آنا، کھیتوں میں پالا پڑجانا، ٹڈی کا کھا جانا، بارش کے بہاؤ میں بہہ جانا وغیرہ یا جو تمہاری جانوں میں مصیبت آتی ہو مثلا مرض لاحق ہوجانا خم ہوجانا لنگڑا لولا اندھا بہرہ ہوجانا وغیرہ وغیرہ یہ سب لکھا ہوا ہے لوح محفوظ میں محفوظ ہے ان کا وجود ہونا اور درپیش ہونا لازم ہے، خالق کائنات جل مجدہ نے جب قطعی طور پر طے فرما دیا ہے کہ ایسا ہونا ہی ہونا ہے تو ہو کر رہے گا اس کی وجہ سے اپنے پیدا کرنے والے سے غافل ہوجانا اور اس کے ذکر اور عبادت سے منہ موڑ لینا سمجھدار بندوں کا کام نہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ” ما اصاب “ یہ ترغیب انفاق کا پانچواں طریق ہے۔ یعنی اگر تم مال اس لیے خرچ نہیں کرتے ہو کہ مصیبتوں اور تکلیفوں میں کام آئے تو یہ بھی خام خیالی ہے۔ کیونکہ جو آفتیں زمین پر آنے والی ہیں مثلا قحط سالی، کھیتوں کی تباہی، زلزلے وغیرہ یا جو مصیبتیں انسانوں پر آنے ہیں مثلا بیماری تنگدستی وغیرہ یہ سب روز...  ازل میں مقدر ہوچکی ہیں۔ اور واقع ہونے سے پہلے ہی لوح محفوظ میں ثبت اور علم الٰہی میں موجود ہیں، اس لیے ان حوادث و بلیات کو مال و دولت یا کسی دوسرے وسائل سے روکنا ناممکن ہے اور ہر چیز کو مقدر کرلینا اللہ تعالیٰ کے لیے نہایت آسان ہے۔ کیونکہ اس کا علم کان ومایکون پر حاوی اور محیط ہے۔ ” لکیلا تاسوا “ جار مجرور کا متعلق محذوف ہے۔ ای اخبرناکم بذلک لئلا تحزنوا (روح ج 27 ص 178) ۔ یعنی ہم نے تمہیں اس حقیقت سے اس لیے باخبر کردیا ہے تاکہ تم اپنے نقصانات پر غم نہ کرو اور مناع حاصل پر آپے سے باہر نہ ہوجاؤ، کیونکہ سب کچھ اللہ کی طرف سے مقدر ہے اس میں تمہارے اختیار کو کچھ دخل نہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) کوئی آفت و مصیبت خواہ وہ دنیا میں واقع ہو یا خاص طور پر تم کو پہنچے الا یہ کہ وہ اس سے پہلے کہ ہم اس مصیبت کو پیدا کریں وہ ایک کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے بیشک یہ قبل از وقوع کتاب میں لکھ دینا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔ یعنی مصیبت کوئی داخلی ہو یا خارجی ہو عام ہو یا خاص ہو وہ دنیا میں...  واقع ہونے اور ظاہر ہونے سے پہلے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہوتی ہے اور یہ ہم پر لوح محفوظ کا انداراج بہت آسان ہے کیونکہ وہ علم غیب رکھتا ہے اور اس کا علم سب کو محیط ہے۔  Show more