Everything that affects Mankind, is duly measured and destined
Allah reminds of His measuring and deciding the destiny of all things before He created the creation,
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الاْاَرْضِ وَلاَا فِي أَنفُسِكُمْ
...
No calamity occurs on the earth nor in yourselves,
meaning, `there is nothing that touches you or happens in existence,'
...
إِلاَّ فِي كِت... َابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا
...
but it is inscribed in the Book of Decrees before We bring it into existence.
meaning, `before We created the creation and started life.'
Qatadah commented on this Ayah,
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الاْاَرْضِ
(No calamity occurs on the earth) refers to famine,
while,
وَلاَ فِي أَنفُسِكُمْ
(or nor in yourselves) refers to suffering and diseases."
He also said,
"We were told that every person who suffers a prick of a thorn, a twisted ankle, or a bleeding vein, has it occur on account of his sins. What Allah forgives is even more."
This great, honorable Ayah provides clear evidence to the misguidance of the cursed Qadariyyah sect, who deny Allah's Preordainment and His knowledge of everything before it occurs.
Imam Ahmad recorded that Abdullah bin Amr bin Al-`As said,
"I heard the Messenger of Allah say,
قَدَّرَ اللهُ الْمَقَادِيرَ قَبلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّموَاتِ وَالاَْرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَة
Allah ordained the measures (of everything) fifty thousand years before He created the heavens and the earth."
Muslim collected this Hadith in his Sahih with the addition:
وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاء
And His Throne was over the water.
At-Tirmidhi also collected it and said, "Hasan Sahih."
Allah's statement,
...
إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
Verily, that is easy for Allah.
means that He knows all things before they occur, and He records them exactly as they will occur when they occur, and this is easy for Him.
Verily, Allah knows what happened, what will happen and what did not happen, and what shape and form it will take if it were to happen.
Ordering Patience and Gratitude
Allah said,
Show more
تنگی اور آسانی کی طرف سے ہے
اللہ تعالیٰ اپنی اس قدرت کی خبر دے رہا ہے جو اس نے مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی اپنی مخلوق کی تقدیر مقرر کی تھی ، فرمایا کہ زمین کے جس حصے میں کوئی برائی آئے یا جس کسی شخص کی جان پر کچھ آ پڑے اسے یقین رکھنا چاہئے کہ خلق کی پیدائش سے پہلے ہے ، لیکن زیادہ ٹھیک بات یہ ہے... کہ مخلوق کی پیدائش سے پہلے ہے ، امام حسن سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمانے لگے سبحان اللہ ہر مصیبت جو آسمان و زمین میں ہے وہ نفس کی پیدائش سے پہلے ہی رب کی کتاب میں موجود ہے اس میں کیا شک ہے؟ زمین کی مصیبتوں سے مراد خشک سالی ، قحط وغیرہ ہے اور جانوں کی مصیبت درد دکھ اور بیماری ہے ، جس کسی کو کوئی خراش لگتی ہے یا لغزش پا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کسی سخت محنت سے پسینہ آ جاتا ہے یہ سب اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے اور ابھی تو بہت سے گناہ ہیں جنہیں وہ غفور و رحیم اللہ بخش دیتا ہے ، یہ آیت بہترین اور بہت اعلیٰ دلیل ہے قدریہ کی تردید میں جس کا خیال ہے کہ سابق علم کوئی چیز نہیں اللہ انہیں ذلیل کرے ۔ صحیح مسلم شریف ہے اللہ تعالیٰ نے تقدیر مقرر آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے کی اور رویات میں ہے اس کا عرش پانی پر تھا ( ترمذی ) پھر فرماتا ہے کاموں کے وجود میں آنے سے پہلے ان کا اندازہ کر لینا ، ان کے ہونے کا علم حاصل کر لینا اور اسے لکھ دینا اللہ پر کچھ مشکل نہیں ۔ وہی تو ان کا پیدا کرنے والا ہے ۔ جس کا محیط علم ہونے والی ، ہو رہی ، ہو چکی ، ہو گی تمام چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے ہم نے تمہیں یہ خبر اس لئے دی ہے کہ تم یقین رکھو کہ جو تمہیں پہنچا وہ ہرگز کسی صورت ٹلنے والا نہ تھا ، پس مصیبت کے وقت صبر و شکر تحمل و ثابت قدمی مضبوط ولی اور روحانی طاقت تم میں موجود رہے ، ہائے وائے بےصبری اور بےضبطی تم سے دور رہے جزع فزع تم پر چھا نہ جائے تم اطمینان سے رہو کہ یہ تکلیف تو آنے والی تھی ہی ، اسی طرح اگر مال دولت غلبہ وغیرہ مل جائے تو اس وقت آپے سے باہر نہ ہو جاؤ اسے عطیہ الٰہی مانو تکبر اور غرور تم میں نہ آ جائے ایسا نہ ہو کہ دولت و مال وغیرہ کے نشے میں پھول جاؤ اور اللہ کو بھول جاؤ اس لئے کہ اس وقت بھی ماری یہ تعلیم تمہارے سامنے ہو گی کہ یہ میرے دست و بازو کا میری عقل و ہوش کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہے ۔ ایک قرأت اس کی آتکم ہے دوسری اتکم ہے اور دونوں میں تلازم ہے ، اسی لئے ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے جی میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے دوسروں پر فخر کرنے والے اللہ کے دشمن ہیں ، حضرت ابن عباس کا فرمان ہے کہ رنج و راحت خوشی و غم تو ہر شخص پر آتا ہے خوشی کو شکر میں اور غم کو صبر میں گذار دو ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود بھی بخیل اور خلاف شرع کام کرنے والے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی برا راستہ بتاتے ہیں ۔ جو شخص اللہ کی حکم برداری سے ہٹ جائے وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا کیونکہ وہ تمام مخلوق سے بےنیاز ہے اور ہر طرح سزا اور حمد ہے ۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یعنی اگر تم اور تمام روئے زمین کے انسان کافر ہو جائیں تو بھی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ ساری مخلوق سے غنی ہے اور مستحق حمد ہے ۔ Show more