Surat ul Mujadala

Surah: 58

Verse: 3

سورة المجادلة

وَ الَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا قَالُوۡا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ؕ ذٰلِکُمۡ تُوۡعَظُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۳﴾

And those who pronounce thihar from their wives and then [wish to] go back on what they said - then [there must be] the freeing of a slave before they touch one another. That is what you are admonished thereby; and Allah is Acquainted with what you do.

جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں تو ان کے ذمہ آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے ، اس کے ذریعہ تم نصیحت کئے جاتے ہو اور اللہ تعالٰی تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِن نِّسَايِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا ... And those who make unlawful to them (their wives) by Zihar and wish to free themselves from what they uttered, Ash-Shafi`i said, "It means to keep her for a while after the Zihar, without divorcing her, even though his is able to do so." Ahmad bin Hanbal said, "To return to having sexual relations with her or to merely intend to do so, but only after he pays the expiation mentioned in the Ayah for his statement." It has been quoted from Malik that it is the intention to have sexual relations or to keep her or actually having sexual intercourse. Sa`id bin Jubayr said that this Ayah, ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا (and wish to free themselves from what they uttered), meaning, if they want to return to having sexual intercourse which was forbidden between them. Al-Hasan Al-Basri said that it is to utilize her sexual organ, and he did not see any harm in doing what is less than that before paying the expiation. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas about Allah's statemen, ... مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ... before they touch each other. "The `touching' refers here to sexual intercourse." Similar was said by Ata', Az-Zuhri, Qatadah and Muqatil bin Hayyan. Az-Zuhri added, "He is not to kiss or touch her until he pays the expiation." The Sunan compilers recorded from Ikrimah, from Ibn Abbas that a man said, "O Allah's Messenger! I pronounced Zihar on my wife, but then had sexual intercourse with her before I paid the expiation." The Messenger said, مَا حَمَلَكَ عَلى ذَلِكَ يَرْحَمُكَ الله May Allah grant you His mercy, what made you do that? He said, "I saw the adornment she was wearing shining in the moon's light." The Prophet said, فَلَ تَقْرَبْهَا حَتْى تَفْعَلَ مَا أَمَرَكَ اللهُ عَزَّ وَجَل Then do not touch her until you do what Allah the Exalted and Most Honored has ordered you to do. At-Tirmidhi said, "Hasan Gharib Sahih." Abu Dawud and An-Nasa'i also recorded it. Allah said, ... فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ... (the penalty) in that case is the freeing of a slave, indicating the necessity of freeing a slave before they touch each other. This Ayah mentions any slave, not only believing servants as in the case of the expiation for (unintentional) killing, ... ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ ... That is an admonition to you. meaning, a warning to threaten you in this case. ... وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ And Allah is All-Aware of what you do. meaning, He is All-Knower in what brings you benefit. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اب اس حکم کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ رجوع کا مطلب، بیوی سے ہم بستری کرنا چاہیں۔ 3۔ 2 یعنی ہم بستری سے پہلے وہ کفارہ ادا کریں 1۔ ایک غلام آزاد کرنا 2۔ اس کی طاقت نہ ہو تو پے درپے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے۔ عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر مسکین کو دو مد نصف صاع یعنی سوا کلو اور بعض کہتے ہیں ایک مد کافی ہے لیکن قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا اس طرح کھلایا جائے کہ وہ شکم سیر ہوجائیں یا اتنی مقدار میں ان کو کھانا دیا جائے ایک مرتبہ ہی سب کو کھلانا بھی ضروری نہیں بلکہ متعدد اقساط میں یہ تعداد پوری کی جاسکتی ہے۔ فتح القدیر۔ تاہم یہ ضروری ہے جب تک یہ تعداد پوری نہ ہوجائے اس وقت تک بیوی سے ہم بستری جائز نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَالَّذِیْنَ یُظٰھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِ ھِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔:” ثم یعودون لما قالوا “ کی تفسیر میں بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں ان پر پہلی بار کوئی مؤاخذہ نہیں ، البتہ اگر یہی بات دوبارہ کریں تو ان پر یہ کفار ہے ، مگر یہ بات اس لیے درست نہیں کہ آیت جس واقعہ پر نازل ہوئی اس میں خاوند نے خولہ (رض) کو ایک ہی بار ” انت علی کظھر امی “ کہا تھا۔ دوسری مرتبہ یا بار با ایسا کہنے کا کہیں ذکر نہیں ، اس لیے آیت کا وہی مطلب درست ہوگا جو صحیح حدیث کے مطابق ہو ، چناچہ ” یعودن لما قالوا “ کا مطلب فراء اور بعض مفسرین نے تو یہ لیا ہے کہ یہاں ” لام “ بمعنی ” عن “ ہے ، یعنی پھر وہ اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی ہے ، تو ان پر یہ کفارہ ہے اور بعض نے فرمایا کہ یہاں ’ ’ لام ‘ ‘” الیٰ “ کے معنی میں ہے ، کلام میں کچھ عبارت حذف بھی ہے اور ” ما قالوا “ کا مطلب ” ما حرموا “ ہے : ” ای ثم یعودون الی تحلیل ما حرموا “ یعنی پھر دوبارہ لوٹیں اس کو حلال کرنے کی طرف جسے انہوں نے حرام کہا ہے “۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں الفاظ میں ابہام کیوں رکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ماں کہنے کے بعد پھر اس سے بیو ی والا معاملہ کرنا ایک قسم کی کراہت رکھتا ہے ، اس لیے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے صراحت کے بجائے کنایہ سے کام لیا ہے۔ ٢۔ ظہار کا کفارہ مقرر کرنے سے ظاہر ہے کہ یہ طلاق نہیں بلکہ بیوی کو اپنے آپ پر حرام قرار دینے کے قبیل سے ہے ۔ عام معاملات میں حلال کو اپنے آپ پر حرام کرنے کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ( دیکھئے تحریم : ١، ٢) مگر منکر و زور بات ہونے کی وجہ سے ظہار کا کفارہ سخت ہے۔ اب ظہار کرنے والے کے سامنے دو ہی صورتیں ہیں ، اگر وہ بیوی سے قطع تعلق پر مبصر ہے تو زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک اس کا انتظار کیا جائے گا کہ کفار ادا کر کے دوبارہ تعلق استوار کرلے ( دیکھئے بقرہ : ٢٢٦) پھر اسے کہا جائے گا کہ یا اسے طلاق دو یا کفارہ ادا کر کے اسے بیوی بنا کر رکھو ۔ پھر اگر وہ اپنی بات سے رجوع پر تیار ہو تو کفارو بالترتیب تین چیزوں میں سے ایک چیز ہے ، اگر آدمی کے پاس طاقت ہو تو ہاتھ لگانے یعنی جماع سے پہلے ایک گردن آزاد کرے۔ یہ شرط اس لیے لگائی ہے کہ بیوی کے پاس جانے کی رغبت میں اس کے لیے اتنا بھاری جرمانہ آسان ہوجائے گا ۔ ٣۔ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا ط :” رقبۃ “ کا معنی گردن ہے ، مراد لونڈی یا غلام ہے، یعنی جزبول کر کل مراد لیا گیا ہے ، تو ظہار کا کفارہ یہ ہے کہ اگر آدمی کے پاس طاقت ہو تو ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک لونڈی یا غلام آزاد کرے۔ پہلے کی شرط اس لیے لگائی ہے کہ بیوی کے پاس جانے کی رغبت میں اس کے لیے اتنا بھاری جرمانہ آسان ہوجائے اگ ۔ ٤۔ ذٰلِکُمْ تُوْ عَظُوْنَ بِہٖ ط : یعنی ہاتھ لگانے سے پہلے گردن آزاد کرنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اس سے تمہیں آئندہ کے لیے نصیحت ہوگی کہ ایسا کام نہیں کیا کرتے۔ ٥۔ وَ اللہ ُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ : یعنی اگر تم ظہار کے بعد گردن آزاد کیے بغیر ایک دوسرے کو ہاتھ لگاؤ گے تو کسی اور کو خبر ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ تمہارے ہر کام سے پوری طرح با خبر ہے ، تم نہ اس سے چھپ سکتے ہو اور نہ اس کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔ ٦۔ بیوی کو ماں کی طرح اپنے آپ پر حرام ٹھہرانے پر جو کفارہ ہے اگر اسے بہن یا بیٹی یا کسی بھی ایسی عورت کی طرح حرام کہہ دے جس سے نکاح حرام ہے تو اس پر بھی وہی کفارہ ہے ، کیونکہ نکاح کی حرمت میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ، اس لیے جو حکم ماں کہنے کا ہے وہی سب کا ہوگا ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Expiation for Zihar وَالَّذِينَ يُظَاهِرُ‌ونَ مِن نِّسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا (And those who declare zihar against their wives, then retract what they said, ...58:3). The preposition lam in the phrase يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا |"...retract what they said...|" is used in the sense of ` an [ from ]. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) interprets &retract& in the sense of ®ret&: &they regret what they said and wish to be intimate or cohabit with their wives&. [ Mazhari ] The verse shows that the penalty has been imposed on the husband for the purpose of making the wife lawful - without it she cannot become lawful to him. zihar per se is not the cause of the expiation. In fact, zihar is a heinous sin for which repentance and seeking pardon and forgiveness is absolutely necessary. The concluding part of verse [ 2] وَإِنَّ اللَّـهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ‌ |"...Allah is surely Most-forgiving, Very-Merciful.|" points to this fact. In other words, Allah in His great mercy has made allowance for man&s weaknesses and He is always ready to forgive his lapses, provided he comes to Allah with a penitent heart and makes amends. However, if a person did commit zihar and does not wish to take back his wife and enjoy intimacy with her, expiation is not obligatory on him. However, destroying a wife&s conjugal rights is unlawful. If she demands, it is obligatory for him to pay the expiation and take her back, should he wish to do so; or if she demands, he must divorce her and set her free from the bond of marriage. If he does not divorce her and set her free, then she has the right to apply to a Qadi or an Islamic court to compel him to either pay the expiation and take her back or to divorce her and set her free so that she could contract a second marriage. Islamic works on jurisprudence set down details of the laws pertaining to zihar. The penalty for zihar is obligatory, which is given in this and the next verse. There are three options: [ 1] فَتَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ (...obligated on them is to free the neck [ of a slave ]...) [ 2] If a person cannot afford to do that, he must keep fast for two consecutive months; and [ 3] if he is so weak or ill that he cannot fast, then he must feed sixty poor people. The expiation will be fulfilled if one poor person is given two meals for sixty days. Alternatively, it is possible to give two meals to sixty poor persons on a single day. In each case, the poor should be fed to their fill. Another possible alternative is to give to a poor person about 1.6 kg wheat or 2.12 kg dates or barley for sixty days or the equivalent price of these food items may be given. The details of the law appertaining to zihar and its expiation are available in the texts of Islamic jurisprudence. It is recorded in Traditions that when Sayyidah Khaulah (رض) complained to Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about her husband and pleaded her case to Allah, verses relating to zihar and its expiation were revealed. So, Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called for the husband. When he came, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) noticed that he was a weak-sighted old man. He recited to him the verses resolving his case, and commanded him to emancipate a slave, he said that he does not have the means to do that. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) then asked him to fast two successive months, to which he replied: |"By Him Who has sent you as the true Messenger, if I do not have two or three meals a day, I lose my sight completely.|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said &Then feed sixty poor people&. He said &I do not have the ability for that either, unless you help me&. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) gave him some food grain, and also other people gathered more food grain for him, which amounted to the measure of sadaqatul-fitr for sixty poor men, and in this way the expiation was made. [ Ibn Kathir ]

اگلی آیت میں (آیت) وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا کا یہی مطلب ہے، یعودون لما قالوا میں حرف لام کو عن کے معنی میں لیا گیا، یعنی رجوع کرتے ہیں وہ اپنے قول سے اور حضرت ابن عباس سے یعودون کی تفسیر بلفظ یندمون بھی منقول ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قول کہنے کے بعد وہ اپنے قول پر نادم ہوجائیں اور پھر بیوی سے اختلاط کرنا چاہیں (مظہری) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کفارہ کا وجوب بیوی کے ساتھ اختلاط حلال ہونے کی غرض سے ہے اس کے بغیر حلال نہیں، خود ظہار اس کفارہ کی علت نہیں، بلکہ ظہار کرنا ایک گناہ ہے جس کا کفارہ توبہ و استغفار ہے، جس کی طرف آیت کے آخر میں وَاِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ سے اشارہ کردیا گیا ہے، اس لئے اگر کوئی شخص ظہار کر بیٹھے اور اب بیوی سے اختلاط نہیں رکھنا چاہتا تو کوئی کفارہ لازم نہیں، البتہ بیوی کی حق تلفی ناجائز ہے، اگر وہ مطالبہ کرے تو کفارہ ادا کر کے اختلاط کرنا یا پھر طلاق دے کر آزاد کرنا واجب ہے، اگر یہ شخص خود نہ کرے تو بیوی حاکم اسلام کی طرف مراجعت کر کے شوہر کو اس پر مجبور کرسکتی ہے، یہ سب مسائل کتب فقہ میں مفصل لکھے گئے ہیں فتحریر رقبة الایة، یعنی کفارہ ظہار کا یہ ہے کہ ایک غلام یا لونڈی آزاد کرے، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو دو مہینے کے لگار تار مسلسل روزے رکھے اور کسی بیماری یا ضعف کے سبب اتنے روزوں پر بھی قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے، یعنی دونوں وقت پیٹ بھرائی کھانا ساٹھ مسکینوں کو کھلاوے اور کھانا کھلانے کے قائم مقام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو فی کس ایک فطرہ کی مقدار گندم یا اس کی قیمت دیدے، فطرہ کی مقدار ہمارے موجودہ وزن کے اعتبار سے پونے دو سیر گندم ہیں اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔ ظہار سے متعلقہ احکام اور اس کے کفارہ کے مفصل مسائل کتب فقہ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ کی واویلا اور فریاد پر جب آیات مذکورہ اور کفارہ ظہار کے احکام نازل ہوئے اور شوہر سے دائمی مفارقت و حرمت سے بچنے کا راستہ نکل آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے شوہر کو بلایا، دیکھا کہ ضعیف البصر بوڑھا آدمی ہے، آپ نے اس کو نازل شدہ آیات اور کفارہ کا حکم سنایا کہ ایک غلام یا لونڈی آزاد کردو، اس نے کہا کہ یہ میری قدرت میں نہیں کہ غلام خرید کر آزاد کروں آپ نے فرمایا کہ پھر دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو، اس نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول برحق بنایا، میری حالت یہ ہے کہ اگر دن میں دو تین مرتبہ کھانا نہ کھاؤں تو میری نگاہ بالکل ہی جاتی رہتی ہے، آپ نے فرمایا کہ پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ، اس نے عرض کیا کہ یہ بھی میری قدرت میں نہیں بجز اس کے آپ ہی کچھ مدد کریں، آپ نے اس کو کچھ غلہ عطا فرمایا، پھر کچھ دوسرے لوگوں نے جمع کردیا اس طرح ساٹھ مسکینوں کو فطرے کی مقدار دے کر کفارہ ادا ہوگیا (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕہِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّـتَـمَاۗسَّا۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝ ٣ ظِّهَارُ : أن يقول الرّجل لامرأته : أنت عليّ كَظَهْرِ أمّي، يقال : ظَاهَرَ من امرأته . قال تعالی: وَالَّذِينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ [ المجادلة/ 3] ، وقرئ : يظاهرون أي : يَتَظَاهَرُونَ ، فأدغم، الظھار کے معنی ہیں خاوند کا بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لئے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پشت کہا جاتا ہے ظاھر من امرء تہ اس نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ [ المجادلة/ 3] اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرلیں ۔ ایک قرات میں یظاھرون ہے جو اصل میں یتظاھرون ہے اور تاء ظاء میں مدغم ہے اور ایک قرات یظھرون ہے نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ تحریرُ : جعل الإنسان حرّا، فمن الأول : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] ، ومن الثاني : نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران/ 35] ، قيل : هو أنه جعل ولده بحیث لا ينتفع به الانتفاع الدنیوي المذکور في قوله عزّ وجل : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، بل جعله مخلصا للعبادة، ولهذا قال الشعبي : معناه مخلصا، وقال مجاهد : خادما للبیعة وقال جعفر : معتقا من أمر الدنیا، وكلّ ذلك إشارة إلى معنی واحد، وحَرَّرْتُ القوم : أطلقتهم وأعتقتهم عن أسر الحبس، وحُرُّ الوجه : ما لم تسترقّه الحاجة، وحُرُّ الدّار : وسطها، وأحرار البقل معروف، وقول الشاعر : جادت عليه كلّ بکر حرّةوباتت المرأة بلیلة حرّة كلّ ذلک استعارة، والحَريرُ من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر/ 33] . التحریرُ کے معنی کسی انسان کو آزاد کرنا کے ہیں چناچہ کریت کے معنی کے پیش نظر فرمایا : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] تو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران/ 35] جو بچہ ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نزر کرتی ہوں ۔ چناچہ بعض نے اس کے معنی کئے میں کہ وہ اپنے اس لڑکے سے کسی قسم کا دنیوی فائدہ حاصل نہیں کریں گی جس کی طرف آیت : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اس میں اشارہ پایاجاتا ہے بلکہ یہ خالص عبادت الٰی کے لئے وقف رہے گا ۔ اسی بناء پر شعبی نے محررا کے معنی خادم معبار کئے ہیں امام جعفر نے کہا ہے / کہ امور دنیوی سے آزاد ہوگا لیکن مآں کے لحا ظ سے سب کا ماحصل ایک ہی ہے ۔ حررت القوم میں نے انہیں قید خانہ سے رہا کردیا ۔ جرالوجہ وہ شخص جو احتیاج کے پنجہ میں گرفتار نہ ہوا ہو ۔ حرالدار البقل وہ ترکاریاں جو کچی کھائی جاتی ہیں ۔ اور شاعر کا قول ع ( کامل ) (103) جارت علیہ کل بکر حرۃ موسم بہار کی پہلی موسلا دھا ر بارش نے اس پر سخاوت کی ہے ۔ باتت المرءۃ بنیلۃ حرۃ ( سب زفاف کہ شوہر درآں بکارت نتواں لوائل کرو ) یہ سب استعارات ہیں ۔ الحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر/ 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔ رقب الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة/ 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ : أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . ( ر ق ب ) الرقبۃ اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة/ 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة/ 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اب اللہ تعالیٰ ظہار کے کفارے کے بارے میں بیان فرماتے ہیں جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر کے ان کو خود حرام کرلیتے ہیں اور پھر اپنی اس کہی ہوئی بات کی تلافی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ذمہ ایک غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے اس سے پہلے کہ دونوں میاں بیوی باہم اختلاط کریں اس آزادی سے تمہیں ظہار کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو کفارہ ظہار کی ادائیگی اور عدم ادائیگی کی پوری خبر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ { وَالَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُـوْا } ” اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کربیٹھیں ‘ پھر وہ اپنی کہی ہوئی بات سے واپس لوٹنا چاہیں “ { فَتَحْرِیْرُ رَقَـبَۃٍ مِّنْ قَـبْلِ اَنْ یَّـتَمَآسَّا } ” تو ایک غلام کا آزاد کرنا ہوگا ‘ اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے کو مس کریں۔ “ یعنی اس معاملے کا کفارہ ادا کرو اور پھر سے میاں بیوی کی طرح رہو ! { ذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۔ } ” یہ بات ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جا رہی ہے۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 From here begins the statement of the legal injunctions concerning zihar. To understand this, it is necessary that one should keep in mind the incidents of zihar that took place in the time of the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace), for the code of law pertaining to zihar is derived from the verses and the judgements that the Holy Prophet gave after the revelation of these verses in the cases of zihar brought before him. According to Hadrat `Abdullah bin `Abbas, the first case of zihar in Islam was the one relating to Aus bin Samit Ansari, on whose wife Khaulah's complaint Allah aeM down these verse:. Although the details of this case that the traditionists have cited from several reporters contain minor differences, yet the elements of legal import and significance are almost agreed upon. A resume of these traditions is as follows: Hadrat Aus bin Samit had grown a little peevish in old age and according to Some traditions, had also developed an ailment resembling insanity. The reporters have described it by the word lamam which is not exactly madness in Arabic but a state resembling it. In this state he had also pronounced zihar on his wife several times before, but in Islam this was the first occasion that he pronounced it as the result of a quarrel with her. Thereupon, his wife appeared before the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) and relating the whole story to him, said: "O Messenger of Allah: Is there any way out of this situation that could save me and my children from ruin?" The Holy Prophet's reply has been reported in different words by different reporters. In some traditions the words are to the effect: "No command has been given to me so far in this regard," and in some others the words are: "In my opinion you have become unlawful to him," and in still others: "You arc unlawful to him." At this, she began to cry and complain and told the Holy Prophet over and over again that her husband had not pronounced the words of divorce; therefore, he should suggest a way by which she and her children and her old husband's life could be saved from ruin. But the Holy Prophet gave her the same reply every time. In the meantime he underwent the state of receiving revelation and these verses were revealed. After this, he said to her (and according to other traditions, he called her husband and told him) to free a slave. When they expressed their inability to do so, he said that the husband would have to observe two months' fast consecutively. She said: "Aus is such a man that unless he cats and drinks three times a day, his sight starts failing him. " The Holy Prophet said, "Then, you will have to feed 60 poor people. " They submitted that they did not have the means for that unless they were helped out by him. Thereupon the Holy Prophct gave them food articles that could suffice 60 men for two meals. Different quantities of it have been mentioned in different traditions. According to some traditions Hadrat Khaulah herself gave to her husband food articles equal in quantity to those given by the Holy Prophct so that he may perform the expiation. (Ibn Jarir, Musnad Ahmad Abu Da'ud, Ibn Abi Hatim). The second incident of zihar relates to Salamah bin Sakhr Bayadi. He had a somewhat abnormal appetite for sex. When the fasting month of Ramadan came, he, fearing that he might lose self-control in daytime in the state of fasting, pronounced zihar on his wife till the end of Ramadan. Hut he could not adhere to his pledge and went in to his wife one night. Penitent he appeared before the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) and told him what he had done. He told him to release a slave. He said he had no one else beside his wife, whom he could release. The Holy Prophct then told him to observe two months' consecutive fast. He replied that it was during obligatory fasting itself that he had been unable to control himself and had become involved in trouble. The Holy Prophct then said that he should feed t50 poor people, He replied that they were poor themselves and had gone to bed at night without food. Thereupon the Holy Prophet got him a sufficient quantity of food articles from the colloctor of the zihar of Bani Zurayq so that he may feed 60 persons and may also save some thing for his children. (Musnad Ahmad, Abu Da'ud. Tirmadhi The third incident that has been related without any reference to the name is that a man pronounced zihar on his wife and then had sexal intercourse with her even before making the expiation Then, when he came to the Holy Prophet to ask for the legal verdict, he commanded him to abstain from her till he had made the expiation. (Abu Da'ud, Tirmidhi, Nasa i Ibn Majah). The fourth incident is that the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) himself heard a man calling his wife as sister. Thereupon he said to him angrily: "Is she your sister?" But he did not regard it as ,zihar,. (Abu Da'ud). These four are the reliable incidents that have been related in the Hadith through authentic channels, and through them only can one adequately understand the Qur'anic injunctions that have been laid down in the following verses. 8 Literally: "that they return to that which they said," but in view of the Arabic language and idiom great differences have octurred in determining the meaning of these words: Their one meaning can be: "If they repeat the words of zihar after they have uttered them once. " The Zahiriyyah and Bukair bin al-Ashajj and Yahya bin Ziyad al-Farm' hold this very view, and a saying from `Ata' bin Abi Rabah also has been reported in support of the same. According to-them, the pronouncement of zihar once is forgiven; however, if a person repeats it, he becomes liable to make the expiation. Hut this commentary is expressly wrong for two reasons: first, that Allah has condemned zihar as an absurd thing and a falsehood and then prescribed a penalty for it. Now, it is not conceivable that if a man utters falsehood or absurdities oncc he should be excused and if he utters it the second time he should make himself liable to punishment. The second reason of its being wrong is that the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) never asked the man pronouncing zihrir whether he had pronounced it once or twice. Its second meaning is "If the people who were used to uttering zihar in the pre islamic days of ignorance, repeat it in Islam, they will incur this punishment." This would mean that zihar should by itself be liable to punishment, and who ever utters the words of zihar for his wife, should become liable to make the expiation whether he may divorce the wife after it, or his wife may die; or he may have no intention of resuming conjugal relations with his wife. This view is hold by Ta-us Mujahid, Sha'bi, Zuhri, Sufyan Thauri and Qatadah from among the jurstis They say that if the woman dies after the zihar, the husband cannot inherit her unless he made: the expiation. The third meaning is: "If after uttering the words of zihar the man may wish to go back on his words and makr amends for what he said " In other words, 'ada lima gala means that the man revoked what he had said. The fourth meaning is: "If the man may wish to make lawful what he had made unlawful for himself by pronouncing the zihar " In ocher words, it would mean that the person who had made a thing unlawful for himself has now returned to make it law ful views. Most of the jurists have preferred and adopted one of these last two 9 In other words: "This you are being enjoined for your own correction and admonition so that the members of Muslim society may give up this evil custom of ignorance and none of you may commit this folly. If you have to quarrel with your wife, you may quarrel with her like good people; if you intend to divorce her, then you should divorce her gracefully. It is absurd that you should compare her to your mother and sister whenever you have a quarrel with her. " 10 That is, "Allah will certainly know, even if nobody else does, if a person pronounces zihar, and then quietly resumes normal conjugal relations with his wife without first atoning for the offence. Such people cannot in any way escape Allah's punishment. "

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :7 یہاں سے ظہار کے قانونی حکم کا بیان شروع ہو رہا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ظہار کے وہ واقعات نگاہ میں رہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پیش آئے تھے ، کیونکہ اسلام میں ظہار کا مفصل قانون انہی آیات اور ان فیصلوں سے ماخوذ ہے جو ان آیات کے نزول کے بعد حضور نے پیش آمدہ واقعات میں صادر فرمائے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے بیان کے مطابق اسلام میں ظہار کا پہلا واقعہ اوس بن صامت انصاری کا ہے جن کی بیوی خَوْلَہ کی فریاد پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ۔ محدثین نے اس واقعہ کی جو تفصیلات متعدد راویوں سے نقل کی ہیں ان میں فروعی اختلافات تو بہت سے ہیں ، مگر قانونی اہمیت رکھنے والے ضروری اجزاء قریب قریب متفق علیہ ہیں ۔ خلاصہ ان روایات کا یہ ہے کہ حضرت اَوس بن صامت بڑھاپے میں کچھ چڑ چڑے بھی ہو گئے تھے اور بعض روایات کی رو سے ان کے اندر کچھ جنون کی سی لٹک بھی پیدا ہو گئی تھی جس کے لیے راویوں نے کَانَ بِہ لَمَمٌ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ لَممَ عربی زبان میں دیوانگی کو نہیں کہتے بلکہ اس طرح کی ایک کیفیت کو کہتے ہیں جسے ہم اردو زبان میں غصے میں پاگل ہو جانے کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اس حالت میں وہ پہلے بھی متعدد مرتبہ اپنی بیوی سے ظہار کر چکے تھے ، مگر اسلام میں یہ پہلا موقع تھا کہ بیوی سے لڑ کر ان سے پھر اس حرکت کا صدور ہو گیا ۔ اس پر ان کی اہلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سارا قصہ آپ سے بیان کر کے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ، کیا میری اور میرے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کے لیے رخصت کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے؟ حضور نے جو جواب دیا وہ مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے ۔ بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں کہ ابھی تک اس مسئلے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ اور بعض میں یہ الفاظ ہیں کہ میرا خیال یہ ہے کہ تم اس پر حرام ہو گئی ہو ۔ اور بعض میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا تم اس پر حرام ہو گئی ہو ۔ اس جواب کو سن کر وہ نالہ و فریاد کرنے لگیں ۔ بار بار انہوں حضور سے عرض کیا کہ انہوں نے طلاق کے الفاظ تو نہیں کہے ہیں ، آپ کوئی صورت ایسی بتائیں جس سے میں اور میرے بچے اور میرے بوڑھے شوہر کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے ۔ مگر ہر مرتبہ حضور ان کو وہی جواب دیتے رہے ۔ اتنے میں آپ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں ۔ اس کے بعد آپ نے ان سے کہا ( اور بعض روایات کی رو سے ان کے شوہر کو بلا کر ان سے فرمایا ) کہ ایک غلام آزاد کرنا ہو گا ۔ انہوں نے اس سے معذوری ظاہر کی ، تو فرمایا دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے ہوں گے ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اوس کا حال تو یہ ہے کہ دن میں تین مرتبہ کھائیں نہیں تو ان کی بینائی جواب دینے لگتی ہے ۔ آپ نے فرمایا پھر 60 مسکینوں کو کھانا دینا پڑے گا ۔ انہوں نے عرض کیا وہ اتنی مقدرت نہیں رکھتے ، الا یہ کہ آپ مدد فرمائیں تب آپ نے انہیں اتنی مقدار میں سامان خوراک عطا فرمایا جو 60 آدمیوں کی دو وقت کی غذا کے لیے کافی ہو ۔ اس کی مقدار مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے ، اور بعض روایات میں یہ ہے کہ جتنی مقدار حضور نے عطا فرمائی اتنی ہی خود حضرت خولہ نے اپنے شوہر کو دی تاکہ وہ کفا رہ ادا کر سکیں ( ابن جریر ، مسند احمد ، ابوداؤد ، ابن ابی حاتم ) ۔ ظہار کا دوسرا واقعہ سلمہ بن صخر بَیاضی کا ہے ۔ ان صاحب پر اعتدال سے کچھ زیادہ شہوت کا غلبہ تھا ۔ رمضان آیا تو انہوں نے اس اندیشہ سے کہ کہیں روزے کی حالت میں دن کے وقت بے صبری نہ کر بیٹھیں رمضان کے اختتام تک کے لیے بیوی سے ظہار کر لیا ۔ مگر اپنی اس بات پر قائم نہ رہ سکے اور ایک رات بیوی کے پاس چلے گئے ۔ پھر نادم ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماجرا عرض کیا ۔ آپ نے فرمایا ایک غلام آزاد کرو ۔ انہوں نے کہا میرے پاس تو اپنی بیوی کے سوا کوئی نہیں جسے آزاد کر دوں ۔ فرمایا دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو ۔ انہوں نے عرض کیا کہ روزوں ہی میں تو صبر نہ کر سکنے کی وجہ سے اس مصیبت میں پھنسا ہوں ۔ حضور نے فرمایا پھر 60 مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ۔ انہوں نے کہا ہم تو اس قدر غریب ہیں کہ رات بےکھائے سوئے ہیں ۔ اس پر آپ نے بنی زَرَیق کے محصلِ زکوٰۃ سے ان کو اتنا سامان خوراک دلوایا کہ 60 آدمیوں میں بانٹ دیں اور کچھ اپنے بال بچوں کی ضروریات کے لیے بھی رکھ لیں ( مسند احمد ، ابوداؤد ۔ ترمذی ) ۔ تیسرا واقعہ نام کی تصریح کے بغیر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اس سے مباشرت کر لی ۔ بعد میں حضور سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے حکم دیا کہ اس سے الگ رہو جب تک کفارہ ادا نہ کر دو ( ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ۔ ابن ماجہ ) ۔ چوتھا واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا کہ اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکار رہا ہے ۔ اس پر آپ نے غصہ سے فرمایا یہ تیری بہن ہے؟ مگر آپ نے اسے ظہار قرار نہیں دیا ( ابوداؤد ) ۔ یہ چار معتبر واقعات ہیں جو مستند ذرائع سے احادیث میں ملتے ہیں اور انہیں کی مدد سے قرآن مجید کے اس حکم کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جو آگے کی آیتوں میں بیان ہوا ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :8 اصل الفاظ ہیں یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا ۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ پلٹیں اس بات کی طرف جو انہوں نے کہی ۔ لیکن عربی زبان اور محاورے کے لحاظ سے ان الفاظ کے معنی میں بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے : ایک مفہوم ان کا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ ظہار کے الفاظ منہ سے نکل جانے کے بعد پھر ان کا اعادہ کریں ۔ ظاہریہ اور بکیر بن الاشج ، اور یحیٰ بن زیاد الْفَرّاء اسی کے قائل ہیں ، اور عطاء بن ابی رباح سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہوا ہے ۔ ان کے نزدیک ایک دفعہ کا ظہار تو معاف ہے ، البتہ آدمی اس کی تکرار کرے تب اس پر کفارہ لازم آتا ہے ۔ لیکن یہ تفسیر دو وجوہ سے صریحاً غلط ہے ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ظہار کو بیہودہ اور جھوٹی بات قرار دے کر اس کے لیے سزا تجویز فرمائی ہے ۔ اب کیا یہ بات قابل تصور ہے کہ ایک مرتبہ جھوٹی اور بیہودہ بات آدمی کہے تو معاف ہو اور دوسری مرتبہ کہے تو سزا کا مستحق ہو جائے؟ دوسری وجہ اس کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہار کرنے والے کسی شخص سے بھی یہ سوال نہیں کیا کہ آیا اس نے ایک بار ظہار کیا ہے یا دو بار ۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جو لوگ زمانہ جاہلیت میں یہ حرکت کرنے کے عادی تھے وہ اگر اسلام میں اس کا اعادہ کریں تو اس کی یہ سزا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ظہار کرنا بجائے خود مستوجب سزا ہو اور جو شخص بھی اپنی بیوی کے لیے ظہار کے الفاظ منہ سے نکالے اس پر کفارہ لازم آ جائے ، خواہ وہ اس کے بعد بیوی کو طلاق دے دے ، یا اس کی بیوی مر جائے ، یا اس کا کوئی ارادہ اپنی بیوی سے تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو ۔ فقہاء میں سے طاؤس ، مجاہد ، شعبی ، زہری ، سفیان ثوری اور قتادہ کا یہی مسلک ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد اگر عورت مر جائے تو شوہر اس وقت تک اس کی میراث نہیں پا سکتا جب تک کفارہ ادا نہ کر دے ۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ ظہار کے الفاظ زبان سے نکالنے کے بعد آدمی پلٹ کر اس بات کا تدارک کرنا چاہے جو اس نے کہی ہے ۔ بالفاظ دیگر عَادَ لِمَا قالَ کے معنی ہیں کہنے والے نے اپنی بات سے رجوع کر لیا ۔ چوتھا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو آدمی نے ظہار کر کے اپنے لیے حرام کیا تھا اسے پلٹ کر پھر اپنے لیے حلال کرنا چاہے ۔ بالفاظ دیگر عَادَ لِمَا قَالَ کے معنی یہ ہے کہ جو شخص تحریم کا قال ہو گیا تھا وہ اب تحلیل کی طرف پلٹ آیا ۔ اکثر و بیشتر فقہاء نے انہی دو مفہوموں میں سے کسی ایک کو ترجیح دی ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :9 بالفاظ دیگر یہ حکم تمہاری تادیب کے لیے دیا جا رہا ہے تاکہ مسلم معاشرے کے لوگ جاہلیت کی اس بری عادت کو چھوڑ دیں اور تم میں سے کوئی شخص اس بیہودہ حرکت کا ارتکاب نہ کرے ۔ بیوی سے لڑنا ہے تو بھلے آدمیوں کی طرح لڑو ۔ طلاق ہی دینا ہو تو سیدھی طرح طلاق دے دو ۔ یہ آخر کیا شرافت ہے کہ آدمی جب بیوی سے لڑے تو اسے ماں بہن بنا کر ہی چھوڑے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :10 یعنی اگر آدمی گھر میں چپکے سے بیوی کے ساتھ ظہار کر بیٹھے اور پھر کفارہ ادا کیے بغیر میاں اور بیوی کے درمیان جب سابق زوجیت کے تعلقات چلتے رہیں ، تو چاہے دنیا میں کسی کو بھی اس کی خبر نہ ہو ، اللہ کو تو بہرحال اس کی خبر ہو گی اللہ کے مواخذہ سے بچ نکلنا ان کے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یہاں سے ظہار کا حکم بیان فرمایا جارہا ہے، اور وہ یہ کہ ظہار کے بعد میاں بیوی کے لئے اپنے مخصوص تعلقات یعنی جماع، بوس وکنار وغیرہ جائز نہیں رہتے، البتہ ظہار سے رُجوع ہوسکتا ہے، جس کے بعد میاں بیوی والے تعلقات بحال ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے لئے کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ ان آیتوں میں کفارہ یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے لئے ایک غلام کو آزاد کرنا ممکن ہو تو اُس کے ذمے واجب ہے کہ وہ غلام آزاد کرنے کی صورت میں کفارہ ادا کرے ؛ لیکن اگر کسی کو غلام کی قدرت نہ ہو، (جیسے کہ آج کل غلاموں کا وجود ہی نہیں رہا) تو اس کو دو مہینے متواتر روزے رکھنے ہوں گے، اور اگر کوئی شخص بڑھاپے یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزے بھی نہ رکھ سکے تو وہ ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلادے، تو اس سے بھی کفارہ ادا ہوجاتا ہے۔ کفارہ ادا کرنے کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے حلال ہوجاتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(58:3) والذین یظھرون من نسائھم مبتداء ف تحریر رقبۃ۔ ای فعلیہم تحریر رقبۃ خبر۔ ثم۔ تراخی مدت کے لئے ۔ پھر۔ کچھ مدت کے بعد۔ یعودون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ عود (باب نصر) مصدر سے ۔ وہ لوٹیں۔ وہ رجوع کریں۔ عود لما قالوا کے علماء نے مختلف معانی لئے ہیں۔ (1) بعض کے نزدیک لام بمعنی عن ہے یعنی اپنے پہلے قول سے لوٹ جاتے ہیں ۔ یعنی حرام کرلینے کے قول سے لوٹ کر حلت کے خواستگار ہوتے ہیں۔ (2) بیضاوی (رح) نے لکھا ہے لام بمعنی الیٰ ہے یعنی اپنے قول کی تلافی کی طرف لوٹ آتے ہیں ۔ (3) فراء نے کہا ہے کہ لام بمعنی فی ہے۔ عاد فلان لما قال کے دو معنی ہیں۔ فلاں شخص اپنی کی ہوئی بات میں لوٹ آیا، یا کہی ہوئی بات کے خلاف کرنے لگا اور اس کو توڑنے لگا۔ (4) ثعلب نے کہا ہے کہ : جس کو انہوں نے حرام کرلیا تھا اس کو حلال کرنے کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ ماقالوا سے مرا ہوگی وہ بات جس کے لئے لفظ ظہار کہا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ونرثہ ما یقول (19:80) یہاں یقول سے مراد کہنا نہیں ہے بلکہ وہ مال مراد ہے جس کے متعلق وہ کہتا ہے۔ اس میں اور بھی اقوال ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جو کام انہوں نے کیا تھا اس پر پشیمان ہوکر پہلی حالت کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔ علامہ پانی پتی (رح) نے ترجمہ کیا ہے :۔ اور جو لوگ اپنی بیبیوں سے ظہار کرتے ہیں۔ پھر اپنی کی ہوئی بات کی تلافی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ذمے ایک بردہ آزاد کرنا ہے۔ تحریر رقبۃ مضاف مضاف الیہ۔ تحریر بروزن تفعیل مصدر ہے۔ آزاد کرنا۔ رقبۃ گردن۔ جان۔ فلام۔ رقبۃ اصل میں گردن کا نام ہے پھر جملہ بدن انسانی کے لئے استعمال ہونے لگا اور عرف عام میں یہ غلاموں کا نام پڑگیا۔ جس طرح کہ الفاظ راس ظھر کا استعمال سواریوں کے لئے کیا جانے لگا۔ رقبۃ کی جمع رقاب ہے۔ من قبل ان یتماسا۔ قبل مضاف ان مصدریہ یتماسا مضارع تثنیہ مذکر غائب۔ تم اس (تفاعل) مصدر۔ مس مادہ۔ دونوں کے ایک دوسرے کو مس کرنے سے پہلے۔ امام شافعی کے نزدیک یہاں مس کرنے سے مراد ہے جماع کرنا۔ اور امام اعظم کے نزدیک ہر قسم کا لگاؤ مراد ہے۔ جماع ہو یا صرف ہاتھ سے چھونا۔ یا باشتہاء صنفی شرمگاہ کو دیکھنا ۔ ذلکم : مبتدائ۔ ذا اسم اشارہ ہے کم ضمیر جمع مذکر حاضر خطاب کے لئے ہے بمعنی یہ۔ یہی۔ مراد ذلکم سے کفارہ کا حکم ہے۔ کم سے خطاب نزول آیت کے وقت حاضر مومنون سے ہے۔ یا ان سے اور امت کے سارے مؤمنین سے ہے۔ توعظون بہ : خبرہ واللام فی لما قالوا متعلق بیعودون وما مصدریۃ ویمکن ان تجعل بمعنی الذی ونکرۃ موصوفۃ، وقیل اللام بمعنی فی۔ وقیل بمعنی الیٰ وقیل فی الکلام تقدیم وتاکٰر۔ تقدیرہ ثم یعودون فعلیہم تحریر رقبۃ لما قالوا فصیام شھرین ای فعلیہ صیام شھرین۔ 12 (حقانی) توعظون مضارع جمع مذکر حاضر۔ وعظ (باب ضعب) مصدر۔ بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب حکم کفارہ کے لئے ہے۔ اس کی تم کو نصیحت کی جاتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ پس کفارہ میں دو حکمتیں ہوگئیں، ایک تکفیر سیئہ جس کی طرف اشارہ ہے لعفو غفور میں، دوسرے زجر جس کا تو عظون میں بیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ظہار کا کفارہ۔ جو شخص اپنی بیوی کو محرم رشتوں میں سے کسی ایک رشتہ کے برابرکہہ دے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی گویا کہ وہ اب اس کی بیوی نہیں رہی، البتہ جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظہار کرے اور پھر اس بات پر شرمندہ ہو کر اپنی بات سے رجوع کرنا چاہے تو بیوی کو چھونے سے پہلے اسے درج ذیل کاموں میں سے کوئی ایک کام کرنا ہوگا۔ 1 ۔ ایک غلام آزاد کرنا۔ اگر غلام آزاد کرنے کی طاقت نہ ہو یا غلامی کا رواج ختم ہوچکا ہو تو۔ 2 ۔ دومہینوں کے مسلسل روزے رکھے اگر شرعی عذر کے بغیر ناغہ کیا تو اسے ازسر نو دو مہینوں کے روزے پورے کرنے ہوں گے۔ 3 ۔ روزے رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ تو ساٹھ مسکینوں کو صبح شام کا کھانا کھلائے۔ یاد رہے کہ کسی ایک آدمی کو ساٹھ دن کھانا کھلانے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ صحابہ کی غالب اکثریت کا یہی خیال ہے کہ ظہار کرنے والے کو ساٹھ مسکینوں کو بیک وقت کھانا کھلانا چاہیے۔ جس سے لامحالہ یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ کھانا ظہار کے کفارہ میں کھلایا جارہا ہے۔ اس سے ظہار کرنے والے کو قدرے شرمندگی ہوگی جس بنا پر آئندہ ایسی بات کہنے سے پرہیز کرے گا۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو حکم دیتا ہے تاکہ لوگ اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان لائیں اور حدود اللہ کا خیال رکھیں۔ انکار کرنے والوں کو قیامت کے دن اذّیت ناک سزادی جائے گی۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ظہار کے کفارے کی تین صورتیں بتلانے کے بعد تین ار شاد ات فرمائے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت فرماتا ہے تاکہ مسلمان اس کی نصیحت کے مطابق عمل کریں اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے کردار اور اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے۔ ٢۔” اللہ “ کا فرمان ہے کہ تمہارے لیے ظہار کی سزا اس لیے مقرر کی گئی ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر پوری طرح ایمان لاؤ اور اس کے احکام کی پیروی کرو۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزائیں اس کی حدود ہیں جن کا ہر صورت خیال رکھنا چاہیے جو مسلمان حدود اللہ کا خیال نہیں رکھیں گے وہ عملاً کفر کا ارتکاب کریں گے اور ایسے لوگوں کو اذّیت ناک عذاب ہوگا۔ مسائل ١۔ ظہار کرنے والا اپنی بیوی کے ساتھ رجوع کرنا چاہے تو اسے ایک غلام آزاد کرنا چاہیے۔ ٢۔ غلام آزاد نہ کرنے کی صورت میں دومہینے بلاناغہ روزے رکھنے ہوں گے۔ ٣۔ روزے رکھنے کی ہمت نہ ہو تو اسے بیک وقت صبح وشام ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا چاہیے۔ ٤۔ مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے تقاضے پورے کرنے چاہیے۔ ٥۔ حدود اللہ کا احترام کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ٦۔ جو شخص حدود اللہ کا خیال نہیں رکھتا اسے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کی مقرر کردہ حدود : ١۔ چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔ (المائدۃ : ٣٨) ٢۔ شادی شدہ زانی مرد اور عورت کو رجم کرنے کا حکم۔ (النور : ٢) ٣۔ بہتان لگانے والے کو اسّی کوڑے لگائیں جائیں اور اس کے بعد اس کی گواہی قبول نہ کی جائے۔ (النور : ٤) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والے کو قتل کردینا چاہیے۔ (المائدہ : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذین .................... خبیر (٨٥ : ٣) ” جو لوگ اپنی بیویوں سے اظہار کریں پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی ، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے کئی کفاروں میں غلام کی آزادی کی تجویز رکھی ہے۔ یہ اسلام نے دنیا سے غلامی کو ختم کرنے کے لئے ایک تدبیر کی تھی۔ کیونکہ اس دور میں جنگ کے بین الاقوامی قوانین میں غلامی کو جائز رکھا گیا تھا۔ اسلام نے بہرحال اس کے ختم کرنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کیں۔ یہاں آیت۔ ثم یعودون لمام قالوا (٨٥ : ٣) ” پھر وہ اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی۔ “ کے مفہوم میں بہت سے اقوال وارد ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دوبارہ مجامعت کا ارادہ کرلیں جسے انہوں نے بذریعہ ظہار اپنے اوپر حرام کردیا ہے ، یہ مفہوم سیاق کلام کے زیادہ قریب ہے۔ لہٰذا غلام کا آزاد کرنا ، اس مجامعت سے قبل ہوگا۔ اس پر نصیحت۔ ذلکم توعظون بہ (٨٥ : ٣) ” اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے “۔ کفارہ ایک قسم کی یاد دہانی اور تازیانہ عبرت ہے کہ دوبارہ یہ حرکت نہ کرو ، کیونکہ یہ رسم نہ حق ہے اور نہ معروف طریقہ ہے۔ واللہ بما تعملون خبیر (٨٥ : ٣) ” اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “ اللہ کو اس کی حقیقت معلوم ہے۔ واقعات سے بھی وہ خبردار ہے اور تمہاری معاشرت سے بھی وہ خبردار ہے۔ یہ نصیحت اور عبرت آموزی قانون ظہار کی تکمیل سے پہلے آگئی۔ نفوس کی تربیت کے لئے اور اس لیے کہ اللہ جو قانون بنارہا ہے وہ اپنے علم اور اپنی حکمت کے مطابق بنارہا ہے۔ وہ ظاہر سے بھی خبردار ہے اور باطن سے بھی۔ اب اس کے بعد حکم کو مکمل کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کفارہ ظہار اس کے بعد ظہار کا کفارہ بیان فرمایا ﴿ وَ الَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآىِٕهِمْ (الی قولہ تعالیٰ ) فَاِطْعَامُ سِتِّيْنَ مِسْكِيْنًا ﴾ اس میں علی الترتیب تین چیزیں ذکر فرمائیں۔ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرلیتے ہیں پھر چاہتے ہیں کہ جو بات کہی ہے اس کی تلافی کریں سو جس کسی نے بھی ایسا کیا ہو وہ ایک غلام آزاد کرے اور غلام آزاد کرنے سے پہلے میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کو نہ چھوئیں، یہ ﴿ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَآسَّا ﴾ کا ترجمہ ہے یہ لفظ فرما کر یہ بتادیا کہ غلام آزاد کرنے سے پہلے نہ جماع کریں نہ دواعی جماع یعنی بوس و کنار اور مس وتقبیل کے ذریعہ استمتاع اور استلذ اذ کریں، ﴿ذٰلِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهٖ ١ؕ﴾۔ (یہ وہ چیز ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے) یعنی یہ کفارہ گناہ معاف کرانے کا ذریعہ بھی ہے اور آئندہ کے لئے ایسے الفاظ بولنے سے روکنے والا بھی ہے۔ ﴿وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ٠٠٣﴾ (اور اللہ تمہارے کاموں سے باخبر ہے) اگر کسی نے حکم کی خلاف ورزی کی کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کا ارتکاب کرلیا تو اس کی سزا مل سکتی ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” والذین یظاہرون “ یہ کفارہ ظہار کا بیان ہے کفارہ ظہار کی تین صورتیں ہیں۔ اس آیت میں پہلی صورت کا بیان ہے۔ قالوا ای لنقض ما قالوا (مدارک) ۔ ” فتحریر رقبۃ “ یہ خبر مقدر کا مبتدا ہے ای فعلیہم تحریر رقبۃ (مظہری) ۔ یعنی جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں لیکن اس کے بعد وہ اپنی کہی ہوئی بات کو کالعدم اور اس کی تلافی کرنا چاہیں تو ان پر بطور کفارہ ایک غلام کا آزاد کرنا لازم ہے لیکن اس کے شرط یہ ہے کہ ظہار کے بعد بیوی کے پاس جانے سے پہلے غلام آزاد کریں۔ یہ کفارہ ادا کرنے حکم تمہیں تنبیہ کے لیے کیا جارہا ہے تاکہ تم آئندہ اس فعل شنیع کا ارتکاب نہ کرو اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے وہ خوب جانتا ہے کون اس کی شریعت کا اتباع کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ ذلکم توعظون بہ ای تزجرون بہ (ابن کثیر ج 4 ص 321) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیں پھر وہ اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرنا اور کہی ہوئی بات کی تلافی کرنا چاہیں تو ان کے ذمے اس سے پہلے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ایک بردہ آزاد کرنا ہے یعنی ایک لونڈی یا غلام آزاد کرنا ہے اس حکم کفارہ سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے ان کاموں سے جو تم کرتے ہو پوری طرح باخب رہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پھر وہی کام جس کو کہا ہے یعنی یہ لفظ کہا ہے صحبت موقوف کرنے کو پھر چاہیں کہ صحبت کریں تو پہلے بردہ آزاد کرلیں۔ خلاصہ : یہ کہ بیوی کو ماں کہہ دینے کے بعد اگرچہ وہ ماں نہیں ہوجاتی لیکن ایک بیہودہ اور نامعقول بات کہنے کے لئے پھر اگر ان سے ملنا چاہیں اور اپنی بیویوں سے متمتع ہونا چاہیں اور میاں بیوی کا تعلق کرنا چاہیں یعنی جو کہہ چکے ہیں اس سے پلٹنا چاہیں تو آپس میں اختلاط کرنے اور صحبت کرنے یا دواعی صحبت مثلاً بوسہ اور مس وغیرہ کرنے سے پہلے ایک بردہ آزاد کرنا ضروری ہے یہ بردہ غلام ہو یا باندی خواہ وہ مومن ہو یا کافر یعنی لونڈی یا غلام کسی مذہب وملت کا ہو مومن ہونا شرط نہیں۔ ہاں ! مدبر مکاتب یا ام ولد نہ ہو بلکہ رقیت تام ہو یعنی پوراغلام ہو اس حکم سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے تاکہ تم اس سے نصیحت پکڑو یہ حکم تمہارے سیات اور خطائوں کی معافی کے ساتھ ساتھ ایک قسم کا زجر اور تنبیہہ ہے اور یہ کفارہ تمہارے لئے زاجر بھی ہے تاکہ آئندہ احتیاط کرو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی پوری طرح خبر ہے۔ یعنی کفارہ ادا کرنے میں کوئی کوتاہی کرو گے تو وہ اس سے باخبر ہے۔