Surat ul Mujadala

Surah: 58

Verse: 4

سورة المجادلة

فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ فَاِطۡعَامُ سِتِّیۡنَ مِسۡکِیۡنًا ؕ ذٰلِکَ لِتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۴﴾

And he who does not find [a slave] - then a fast for two months consecutively before they touch one another; and he who is unable - then the feeding of sixty poor persons. That is for you to believe [completely] in Allah and His Messenger; and those are the limits [set by] Allah . And for the disbelievers is a painful punishment.

ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمہ دو مہینوں کے لگا تار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے ۔ یہ اس لئے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی حکم برداری کرو یہ اللہ تعالٰی کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور کفار ہی کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ... And he who finds not must fast two successive months before they both touch each other. And he who is unable to do so, should feed sixty of the poor. is explained by the Hadiths that prescribe these punishments in this order, just as in the Hadith collected in the Two Sahihs about the man who had sexual intercourse with his wife during the day, in Ramadan. Allah said, ... ذَلِكَ لِتُوْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ... That is in order that you may have perfect faith in Allah and His Messenger. meaning, `We legislated this punishment so that you acquire this trait,' ... وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ... These are the limits set by Allah. meaning, the things that He has forbidden, so do not transgress them, ... وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ And for disbelievers, there is a painful torment. meaning, those who do not believe and do not abide by the rulings of Islamic legislation should never think they will be saved from the torment. Rather theirs will be a painful torment in this life and the Hereafter.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] ظہار کرنا گناہ کبیرہ ہے :۔ آیت نمبر ٣ اور ٤ میں ظھار کا کفارہ یا ایسے معاملات کا حل شرعی بتایا جارہا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ظہار سے اگرچہ طلاق واقع نہیں ہوجاتی تاہم یہ ایک گناہ کبیرہ ہے۔ پھر کفارہ کے طور پر اس گناہ کی تین سزائیں بتادیں۔ کہ ان میں سے جو سزا کسی کے حالات کے مطابق ہو وہ اسے دی جائے۔ ان کی ترتیب یہ ہے۔ ظہار کا کفارہ :۔ (١) ایک غلام آزاد کرنا، (٢) مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا یا (٣) ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ ان آیات میں درج ذیل امور قابل ذکر ہیں۔ ظہار سے متعلق احکام : ١۔ لڑائی جھگڑا زوجین کے درمیان ہوتا ہے لیکن ظہار کے لفظ خاوند بولتا ہے۔ اس لیے سزا صرف خاوند کے لئے ہے۔ بیوی کے لیے کوئی کفارہ یا سزا نہیں۔ ٢۔ ان تمام سزاؤں کی نوعیت عبادات کی ہے۔ غلام آزاد کرنا اور مسکینوں کو کھانا کھلانا یہ مالی نفلی عبادتیں ہیں۔ اور روزے رکھنا بدنی عبادت، گویا کفارہ بھی عبادات کی شکل میں تجویز ہوا ہے۔ تاکہ انسان کے نفس میں پاکیزگی اور تقویٰ پیدا ہو۔ کفارہ میں حدی جرائم کی طرح کوئی بدنی سزا نہیں ہوتی۔ ٣۔ یہ کفارہ اس شخص کے لیے ہے جو اپنے قول سے رجوع کرنا چاہے اور زوجین مل بیٹھنا چاہیں اور مرد رجوع نہ کرنا چاہے تو پھر سیدھی طرح طلاق دے دے۔ جو شرعی ہدایات کے مطابق ہو۔ ظہار تو بالکل بےہودہ اور ہیرا پھیری کی بات ہے۔ اس سے توبہ کرے اور طلاق دے دے۔ ٤۔ آج کل غلامی کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ لہذا آج اگر کوئی ظہار کرے تو کفارہ کی دوسری یا تیسری صورت سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا۔ ٥۔ یہ اختیار ظہار کرنے والے کے حالات کے مطابق ہوگا۔ مثلاً ایک امیر شخص نے ظہار کیا تو اس کے لیے دو ماہ مسلسل روزے رکھنے کی سزا تجویز کی جائے گی۔ کیونکہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا اس کے لیے کوئی سزا نہیں۔ اسی طرح غریب کے لیے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا مشکل ہے۔ اور روزے رکھنے میں وہ کوئی سزا محسوس نہیں کرے گا۔ ٦۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر کسی عذر شرعی مثلاً مرض یا ضروری سفر وغیرہ کی بنا پر روزوں کے تسلسل میں انقطاع واقع ہوجائے تو وہ انقطاع شمار نہ ہوگا۔ انقطاع اسی وقت شمار ہوگا جب وہ دیدہ دانستہ بغیر کسی عذر شرعی کے روزہ چھوڑ دے۔ ٧۔ مسکینوں کو کھانا کھلانے سے مراد دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھلانا یا اس کا ہم قیمت غلہ ہے۔ جو غلہ کی صورت میں بھی دیا جاسکتا ہے۔ اور اس کی نقد قیمت کی صورت میں بھی۔ بعض علماء کے نزدیک ایک ہی مسکین کو ساٹھ دنوں کا غلہ یا اس کی قیمت ادا کرنے سے بھی کفارہ ادا ہوجاتا ہے۔ بہرحال اس معاملہ میں شریعت نے کفارہ ادا کرنے والے کی سہولت کو ملحوظ رکھا ہے۔ ٨۔ صحبت سے پہلے کفارہ کی ادائیگی لازمی ہے۔ ادائیگی سے قبل بیوی مرد پر حلال نہ ہوگی۔ کفارہ دینے والے کے حالات ملحوظ رکھنا ضروری ہے :۔ اب خولہ بنت ثعلبہ کا قصہ یہ ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ نے اسے پڑھ کر سنائیں اور فرمایا کہ اپنے خاوند سے کہو کہ ایک غلام آزاد کرے۔ خولہ نے جواب دیا : یارسول اللہ وہ تو نادار ہے۔ آپ نے فرمایا : اچھا : اس سے کہو : دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے۔ خولہ نے کہا : وہ تو بوڑھاو ناتوان ہے۔ اسے یہ طاقت بھی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : اچھا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔ خولہ کہنے لگی۔ اسے تو اتنا بھی مقدور نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : میں ایک عرق (ایک پیمانہ) کھجوریں دے کر اس کی مدد کروں گا۔ اس پر خولہ نے کہا۔ میں بھی ایک وسق کھجور دے کر اس کی مدد کروں گی۔ آپ نے فرمایا : یہ بہت بہتر ہے۔ جا اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ سلوک کر۔ چناچہ خولہ نے ایسا ہی کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تیسری صورت میں، نادار کفارہ دینے والے کی صدقہ وغیرہ کی صورت میں مدد بھی کی جاسکتی ہے اور کرنا چاہیے۔ [٤] ظہار کی آیات کن کن چیزوں پر ثبوت فراہم کرتی ہیں ؟۔ یعنی اللہ کی حدود یا ضابطے یہ ہیں کہ ظہار سے طلاق واقع نہیں ہوتی، دوسرا یہ کہ ظہار کرنا کوئی ایسی معمولی بات نہیں جس پر کچھ بھی مواخذہ نہ ہو۔ بلکہ فی الواقع یہ ایک گناہ کا کام ہے۔ تیسرا یہ کہ اس گناہ کا ازالہ صرف کفارہ ادا کرنے سے ہوسکتا ہے۔ اور انکار سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کفارہ ادا کئے بغیر ہی اپنی بیوی سے صحبت شروع کردے یا اللہ تعالیٰ کی اس وضاحت کے باوجود بھی اپنی بیوی سے صحبت کرنا حرام ہی سمجھتا رہے۔ واضح رہے کہ ان آیات سے مندرجہ ذیل باتوں کا ثبوت فراہم ہوتا ہے (١) اللہ تعالیٰ کے وجود پر اور اس کے بندوں کے حالات سے ہر وقت مطلع ہونے پر، (٢) رسول اللہ کے اللہ کا رسول ہونے پر، (٣) قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے پر اور (٤) اس بات پر کہ تمام تر احکام الٰہی بندوں کے مصالح پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس قانون نے جہاں ایک طرف جاہلیت کے دستور کے مطابق جدائی سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کردیا، وہاں اس رواج کو ایسا بےلگام بھی نہیں چھوڑا کہ جو چاہے ظہار کرتا پھرے اور اس پر کوئی پابندی نہ ہو۔ بلکہ اعتدال کی راہ اختیار کرکے ہر حال میں بندوں کے مصالح کو ملحوظ رکھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا ج : اس سے معلوم ہوا کہ اگر گردن آزاد کرنے کی طاقت ہے تو روزوں سے کھانا کھلاناے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا ۔ ٢۔ فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ : پھر جو شخص ہاتھ لگانے سے پہلے دو ماہ کے پے در پے روزے رکھنے کی طاقت نہ رکھے وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ ظہار کرنے والا خود کمزوری کی وجہ سے پے در پے اتنے روزے نہ رکھ سکتا ہو یا شدت شہوت کی وجہ سے اتنے دن صبر نہ کرسکتا ہو ، ” فمن لم یسطع “ میں دونوں شامل ہیں ، جیسا کہ سلمہ بن صخر بیاضی (رض) نے اپنی بیوی کو ماہ رمضان گزرنے تک کے لیے ماں کہہ دیا ، پھر کسی رات اس سے جماع کر بیٹھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( حررقبۃ) ایک گردن آزاد کرو “۔ انہوں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا :” اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! میرے پاس اس گردن کے سوا کوئی گردن نہیں “۔ فرمایا :( فصم شھرین متتابعین) ” پھر وہ ماہ پے در پے روزے رکھ “۔ انہوں نے کہا :” مجھ پر روزوں ہی کی توجہ سے تو یہ مصیبت آئی ہے۔ “ فرمایا :( فاطعم وسفا من تمر بین ستین مسکینا) (ابو داؤد ، کتاب الطلاق ، باب فی الظھار : ٢٢١٣)” پھر ساتھ مسکینوں میں ایک و سق کھجور تقسیم کر دو “۔ ٣۔ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ط : اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن کھانا کھلانے سے یا ساٹھ دنوں کا کھانا دینے سے یہ کفار ادا نہیں ہوگا ، بلکہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا پڑے گا ، خواہ ایک وقت میں کھلا دے یا مختلف وقتوں میں ۔ آیت کے الفاظ کے مطابق اس کا بلا تکلف مطلب یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک دفعہ پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے۔ ( شوکانی) ۔ ٤۔ ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ ط : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان سے مراد ان کے احکام کے سچا ہونے پر یقین رکھنا اور ان پر عمل کرنا ہے ، کیونکہ ایمان میں تصدیق ، اقرار اور عمل تینوں چیزیں شامل ہیں۔ ٥۔ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللہ ِ ط : یعنی ظہار کا حرام ہونا اور اس سے رجوع کی صورت میں اس پر کفارہ لازم ہونا اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، جن سے تجاوز حرام ہے۔ ٦۔ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ :” الکافرین “ انکار کرنے والے ۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ کے حکموں کو نہیں مانتے وہ حقیقت میں کافر ہیں ، چاہے دنیوی احکام میں اور مرد م شماری کی رو سے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ وَلِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (...This is [ laid down ] so that you believe in Allah and His Messenger. And these are the limits set by Allah. And for the disbelievers there is a painful chastisement. 58:4) This part of the verse contains the phrase &so that you believe&. Belief here implies &to act upon the sacred laws, ordinances and injunctions or obey the commandments of Allah and His Messenger&. Then the verse says that the laws of expiation are limits set by Allah. It is prohibited to exceed them. It indicates that in matters of marriage, divorce, incestuous comparison and so on, Islam has abolished all traces of pre-Islamic pagan elements of customs and practices, and set down the just and approved code of conduct. Man is required to stick strictly to the parameters of Islam. Those who oppose and deny the Divine limits will be tormented most severely.

(آیت) ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ اس آیت میں لتومنوا فرمایا اور مراد ایمان سے شرائع و احکام پر عمل کرنا اور پھر فرمایا کہ یہ کفارہ وغیرہ کے احکام اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان میں تجاویز کرنا حرام ہے، اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اسلام نے نکاح، طلاق، ظہار اور دوسرے سب معاملات میں جاہلیت کی رسوم کو مٹا کر ان کی جگہ معتدل اور صحیح طریقوں کی تعلیم دی ہے، تم اس پر قائم رہو اور جو لوگ ان حدود شرعیہ کے منکر اور کافر ہیں ان کو درد ناک سزا ملے گی ،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَـاۗسَّا۝ ٠ ۚ فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِـتِّيْنَ مِسْكِيْنًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ۝ ٠ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ۝ ٠ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٤ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ صوم الصَّوْمُ في الأصل : الإمساک عن الفعل مطعما کان، أو کلاما، أو مشیا، ولذلک قيل للفرس الممسک عن السّير، أو العلف : صَائِمٌ. قال الشاعر :۔ خيل صِيَامٌ وأخری غير صَائِمَةٍ «1» وقیل للرّيح الرّاكدة : صَوْمٌ ، ولاستواء النهار : صَوْمٌ ، تصوّرا لوقوف الشمس في كبد السماء، ولذلک قيل : قام قائم الظّهيرة . ومَصَامُ الفرسِ ، ومَصَامَتُهُ : موقفُهُ. والصَّوْمُ في الشّرع : إمساک المکلّف بالنّية من الخیط الأبيض إلى الخیط الأسود عن تناول الأطيبين، والاستمناء والاستقاء، وقوله : إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] ، فقد قيل : عني به الإمساک عن الکلام بدلالة قوله تعالی: فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم/ 26] . ( ص و م ) الصوم ( ن ) کے اصل معنی کسی کام سے رک جانا اور باز رہنا کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور یا گفتگو کرنے سے اس بنا پر گھوڑا چلنے سے رک جائے یا چارہ نہ کھائے اسے بھی صائم کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ( البیط ) ( 280 ) خیل صیام واخرٰ ی غیر صائیمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہوں ۔ اور ہوا کے ساکن ہونے اور دوپہر کے وقت پر بھی صوم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس تصور پر کہ اس وقت آفتاب وسط آسمان میں ٹہھر جاتا ہے اسی اعتبار سے قام قائم الظھیرۃ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت سورج کے خط نصف النہار پر ہونا کے ہیں مصمام الفرس او مصامتہ گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ ۔ اصطلاحی شریعت میں کسی مکلف کا روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے منی خارج کرنے اور ۔ عمدا قے کرنے سے رک جانے کا نام صوم ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صوم سے مراد کلام سے رکنے یعنی خاموش رہنا کے ہیں ۔ جیسا کہ بعد میں فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم/ 26] تو آج میں کسی آدمی سے ہر گز کلام نہ کروں گی ) سے اسکی تفسیر کی گئی ہے ۔ شهر الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة/ 185] ، فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [ البقرة/ 185] ، الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة/ 197] ، إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة/ 36] ، فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة/ 2] ، والْمُشَاهَرَةُ : المعاملة بالشّهور کالمسانهة والمیاومة، وأَشْهَرْتُ بالمکان : أقمت به شهرا، وشُهِرَ فلان واشْتُهِرَ يقال في الخیر والشّرّ. ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة/ 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں ۔۔۔ الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة/ 197] حج کے مہینے معین ہیں جو معلوم ہیں ۔ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة/ 36] خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة/ 2] تو مشرکوا زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ المشاھرۃ کے معنی ہیں مہینوں کے حساب سے معاملہ کرنا ۔ جیسے مسانھۃ ( سال وار معاملہ کرنا ) اور میاومۃ ( دنوں کے حساب سے معاملہ کرنا ) اشھرت بالمکان کسی جگہ مہینہ بھر قیا م کرنا شھر فلان واشتھر کے معنی مشہور ہونے کے ہیں خواہ وہ شہرت نیک ہو یا بد ۔ متتابعین : اسم فاعل تثنیہ مذکر تتابع ( تفاعل) مصدر سے بمعنی پے در پے لگاتار «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا [ الأحزاب/ 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا [ المائدة/ 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام : «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ. ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة/ 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔ مِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین . المسکین المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ ) هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ حدَّ الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا : جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه : - إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض . - وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه . - وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . والحدید معروف، قال عزّ وجل : وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید/ 25] ، وحَدَّدْتُ السکّين : رقّقت حدّه، وأَحْدَدْتُهُ : جعلت له حدّا، ثم يقال لكلّ ما دقّ في نفسه من حيث الخلقة أو من حيث المعنی کالبصر والبصیرة حَدِيد، فيقال : هو حدید النظر، وحدید الفهم، قال عزّ وجل : فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ويقال : لسان حدید، نحو : لسان صارم، وماض، وذلک إذا کان يؤثّر تأثير الحدید، قال تعالی: سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] ، ولتصوّر المنع سمّي البوّاب حَدَّاداً ، وقیل : رجل محدود : ممنوع الرزق والحظّ. ( ح د د ) الحد جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے حدید لوہا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید/ 25] اور لوہا پیدا کیا اس میں ( اسلحہ جنگ کے لحاظ سے ) خطر بھی شدید ہے ۔ حددت السکین میں نے چھری کی دھار تیز کی ۔ اور احد دتہ اس کے لئے حد مقرر کردی پھر ہر وہ چیز جو بلحاظ خلقت یا بلحاظ معنی کے ایک ہو ۔ جیسے نگاہ اور بصیرۃ اس کی صفت میں الحدید کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ جیسے ھو حدید النظر ( وہ تیزنظر ہے ) ھو حدید الفھم ( وہ تیز فہم ہے) قرآن میں ہے :۔ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور جب زبان بلحاظ تیزی کے لوہے کی سی تاثیر رکھتی ہو تو صادم وماض کی طرح اس کی صفت حدید بھی آجاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے باری میں تیز زبانی کریں ۔ اور روکنے کے معنی کے پیش نظر دربان کو حداد کہا جاتا ہے اور بدنصیب اور حجردم آدمی کو رجل محدود کہہ دیتے ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور پھر جو شخص غلام یا لونڈی آزاد کرنے کے قابل نہ ہو تو اس کے ذمہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنے ہیں اس سے پہلے کہ دونوں باہم اختلاف کریں اور پھر کسی کمزوری کی وجہ سے روزے بھی نہ رکھے جاسکیں تو اس کے ذمہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے کہ ہر ایک مسکین کو آدھا صاع گیہوں کا یا ایک صاع جو کا یا کھجور کا دے۔ اور یہ کفارہ ظہار کا حکم اس لیے ہے تاکہ فرائض خداوندی اور سنن نبوی پر ثابت قدم رہو یہ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرائض ظہار ہیں۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی حدود کا انکار کرتے ہیں ان کو سخت دردناک عذاب ہوگا کہ اس درد کی شدت ان کے دلوں تک سرایت کرجائے گی ابتدا سورت سے لیکر یہاں تک یہ آیات حضرت خولہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ ان کے خاوند حضرت اوس نے کسی چیز پر ان سے ناراض ہو کر ان سے ظہار کرلیا تھا پھر اس پر نادم ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کفارہ ظہار کا حکم دیا۔ چناچہ حضور نے حضرت اوس سے فرمایا ایک غلام آزاد کردو تو انہوں نے عرض کیا اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ اگر میں دن میں ایک دو مرتبہ نہ کھاؤں تو میری نگاہ بھی جاتی رہے اور ممکن ہے کہ میں مرجاؤں حضور نے فرمایا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو انہوں نے فرمایا اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ سن کر حضور نے ان کو ایک کھجور کا ٹوکرا دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس کو مساکین میں تقسیم کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں تو مدینہ منورہ کے دونوں کناروں کے درمیان خود سے زیادہ اور کسی کو محتاج نہیں سمجھتا۔ چناچہ آپ نے ان ہی کو اس کے کھانے کا حکم دے دیا اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادیا، چناچہ جس چیز کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اس کی طرف انہوں نے رجوع فرمایا اس بات میں ان کی رسول اکرم اور ایک اور شخص نے مدد فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا } ” تو جو کوئی (غلام) نہ پائے وہ دو مہینوں کے روزے رکھے لگاتار ‘ اس سے پہلے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں۔ “ یعنی دو ماہ کے روزے اس طرح متواتر رکھے جائیں کہ درمیان میں کسی دن کا روزہ چھوٹنے نہ پائے۔ { فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا } ” تو جو کوئی یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ “ اگر کوئی شخص کمزور ہے ‘ ضعیف العمر ہے یا ایسا مریض ہے کہ دو ماہ کے لگاتار روزے رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں تو وہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ اس کے لیے اوسط معیار وہی ہوگا جو سورة المائدۃ کی آیت ٨٩ میں قسم کے کفارے کے ضمن میں بیان ہوا ہے : { مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ } یعنی جس معیار کا کھانا متعلقہ شخص اپنے اہل و عیال کو معمول کے مطابق کھلاتا ہے ‘ ویسا ہی کھانا وہ ساٹھ مسکینوں کو کھلائے۔ { ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } ” یہ اس لیے تاکہ تم ایمان رکھو اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر۔ “ اس فقرے پر میں بہت عرصہ سوچ بچار کرتا رہا ‘ بالآخر مجھے اس بارے میں یہ نکتہ سمجھ میں آیا کہ جب کوئی شخص کفارہ کو اللہ کا قانون سمجھتے ہوئے اس کی سختی برداشت کرتا ہے تو اس کے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح ایمان سے عمل صالح پیدا ہوتا ہے ‘ اسی طرح عمل صالح سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ‘ جیسے کہ سورة الحجرات میں فرمایا گیا : { یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) یہ لوگ آپ پر احسان دھر رہے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں ! ان سے کہیے کہ مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ دھرو ‘ بلکہ اللہ تم پر احسان دھرتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کے راستے پر ڈال دیا ہے ‘ اگر تم سچے ہو۔ “ یعنی تم لوگ اسلام میں داخل ہو کر گویا ایمان کے راستے پر چل پڑے ہو۔ اس بارے میں تم اللہ کا احسان مانو کہ وہ تمہیں ایمان کے راستے پر لے آیا ہے۔ اگر تم اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلتے ہوئے اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرتے رہو گے تو تم ایمان تک بھی ضرور پہنچ جائو گے۔ یہاں { ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص غلطی کے بعد توبہ کرتے ہوئے کفارہ ادا کرے گا تو اللہ کے قانون پر عمل درآمد کرنے کی وجہ سے اس کے دل میں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول مزید راسخ اور پختہ ہوجائے گا۔ { وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ } ” اور یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں ‘ اور کافروں کے لیے بہت دردناک عذاب ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 This is the Divine commandment in respect of zihar. The following arc the details of the law that the Jurists of Islam have derived from the words of this verse, the judgements of the Holy Messenger of Allah (upon whom be Allah's peace and blessings) and the general principles of Islam. (1) This law of zahir abrogates the Arabian custom of ignorance according to which the marriage contract stood annulled and the woman became permanently forbidden to the husband. Likewise, this law annuls all those laws and customs which regard zihar as a meaningless custom, which is of no legal effect, and permit man to continue having marital relations with his wife as usual even after having compared her to his mother and other prohibited relations. For in the sight of Islam the sanctity of the mother and other prohibited relations is not such an ordinary thing that a man may even think of the comparison between them and his wife, not W speak of uttering it with the tongue. Between the two extremes the position adopted by the Islamic law in this regard is based on three principles: (a) That the marriage contract is not annulled by zihar, but the woman continues to be the hasban's wife as usual, (b) that the woman becomes only temporarily prohibited to the man by zihar, and (c) that this prohibition operates till the time that the husband makes the expiation, and that the expiation only can remove the prohibition (2) As for the person pronouncing zihar, it is agreed that the zihar of that husband is only reliable, who is of sound mind and mature age and pronounces the words of zihar in his right senses; the ,zihar of the child or of the insane person is not reliable. Moreover, the zihar of the person who might not be in his right senses at the time of pronouncing its words is also not reliable, e.g. if he mutters words during sleep, or is senseless, due to any reason. However, the jurists have differed on the following points: (a) About -the person who pronounces zihar in the state of intoxication a great majority of them including the four Imams have given the verdict that since he has intentionally used the intoxicant, his zihar, like his divorce, will be regarded as valid legally, for he has undergone this state deliberately. However, if he has taken a medicine on account of illness and has been intoxicated, or has been compelled to take wine in intense thirst in order to save life, his zihar and divorce pronounced in that state will not be enforced. This very view is held by the Hanafis and the Shafe`is and the Hanbalis and the same also was the view commonly held by the Companions of the Holy Prophet. Contrary to it, Hadrat `Uthman held the view that the zihar and divorce pronounced in the state of intoxication are not reliable. Imam Tahawi and Karkhi from among the Hanafis hold this view as preferable and a statement of Imam Shafa' i also supports it. According to the MalikIs the zihar pronounced in the state of intoxication will be reliable in case the person concerned has not wholly lost his senses, but talks sensibly and coherently and knows what he is saying. (b) According to Imam Abu Hanifah and Imam Malik, only the zihar of the husband who is a Muslim is reliable. These injunctions do not apply to the non-Muslim subjects of the Islamic state, for the Qur'anic words: Alladhina yazahiruna minkum: "those from among you who put away their wives by zihar, have been addressed to the Muslims, and the fasting, which is one of the three kinds of the expiations prescribed in the Qur'an, obviously cannot be applicable to the non-Muslim subjects. According to Imam Shafe`i and Imam Ahmad, these injunctions will be applicable both to the Muslims and to the non-Muslims; however, there is no fasting for the non-Muslim subject: he may only free a slave or feed 60 poor. (c) Can a woman also, like a man, pronounce zihar? For instance will it be zihar if she says to her husband: `You are'for me as my father, or I am for you like your mother? " The four Imams say that this is not ,zihar and , the legal injunctions of zihar do not apply to it at all. For the Qur'an in express words has laid down these injunctions in respect of the cases , where the husbands pronounce zihar on their wives, and the authority to pronounce zihar, can be held only by him who holds the authority to pronounce divorce. Just as the Shari'ah not given the woman the power to divorce the husband, so also it has not given her the power to make her own self unlawful to her husband. This same is the view of Sufyan Thauri, Ishaq bin Rahawaiyh, Abu Thaur and Laith bin Sa'd. They regard such a pronouncement by a woman as meaningless and without effect Imam Abu Yusuf. says that though this is not ,zihar, it will entail for the woman the atonement of the oath, for the pronouncement of such words by the woman means that she has sworn not to have marital relations with her husband. This same is the view of Imam Ahmad bin Hanbal as cited by Ibn Qadamah. Imam Auza'i says that if before marriage the woman said that if she marred a particular man he would be for her as her father, it would be .zihar, and if she says such a thing after marriage it would be in the nature of an oath, which would entail the atonement for the oath. Contrary to it, Hasan Basri, Zuhri, Ibrahim Nakha'i and Hasan bin Ziyad Lu'lu'i say that this is zihar and will entail the expiation prescribed for zihar by the woman; however, the woman will not have the right to prevent the husband from coming in to her before making the expiation. Ibrahim Nakha`i has cited this incident in support of this view. Mus'ab, son of Hadrat Zubair, sent a proposal of marriage to 'A'ishah bint Talhah. She turned down the proposal, saying: "If I marred him, he would be for me as the back of my father (huwa `alayya ka-zahr-i abi). " After some time, she became willing to marry him. When the jurists of Madinah were asked for their ruling on it, many jurists including several Companions of the Holy Prophet ruled that 'A'ishah would have to make an expiation for the zihar. After citing this incident Ibrahim Nakha'i has expressed his own opinion, saying that if 'A'ishah had said this thing after the marriage it would not have entailed the expiation. But since she said this before marriage when she had the option to marry, or not to marry, the expiation became obligatory on her. (3) The excuse of a sensible and mature person, who pronounces the express words of zihar in his full senses, cannot be acceptable that he uttered the words in a state of anger, or in jest, or in lout, or that he had no intention of the zihar. However, in respect of the.words which are not express in this regard, and which can give different meanings, the injunction will vary according to their nature. Below we shall tell what words of zihar arc express and what words are not express. (4) It is agreed upon by all that zihar can be pronounced on the woman who is a wedded wife of the man. However, there is a difference of opinion whether zihar can be pronounced on the other woman also or not. In this matter, the following are the different viewpoints: The Hanafis say that if a man says to the other woman: "If I marry you, you will be for me as the back of my mother," then whenever he marries her, he will not be allowed to touch her without first making the expiation. This same is the verdict of Hadrat 'Umar. During his caliphate a man said such words to a woman and afterwards married her. Hadrat 'Umar ruled that he would have to make the expiation for the zihar. The Malikis and the Hanbalis also have expressed the same opinion, and they add this to it: If the woman was not specified, but the man said words to the effect that all women were for him like that, then whichever woman he married, he would have to make the expiation before touching her. The same is the opinion of Sa'id bin al-Musayyab, 'Urwah bin Zubair, 'Ata' bin Abi Rabah, Hasan Basri and Ishaq bin Rahawaiyh. The Shafe'is say that zihar before marriage is meaningless. Ibn 'Abbas and Qatadah also hold the same opinion. (5) Can zihar be pronounced for a fixed term? The Hanafis and the Shafe`is say that if a man has pronounced zihar for a certain period of time, he will have to make the expiation if he touches the wife before the expiry of that time; however, the zihar will become ineffective when the time has elapsed. Its argument is the incident concerning Salamah bin Sakhr Bayadi, who had pronounced zihar upon his wifc for the month of Ramadan, and the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) did not tell him that the fixation of the time limit was meaningless. On the contrary, Imam Malik and Ibn Abi Laila say that whenever zihar is pronounced it will be for ever and the specification of time will be of no effect, for the prohibition that has occurred cannot become void of its own accord on the expiry of the time. (6) If the zihar is conditional, expiation will become incumbent whenever the condition is violated. For instance, if a man says to his wife: "If I enter the houses you will be to me as the back of my mother," then whenever he enters his house, it will be unlawful for him to touch his wife without first making-the expiation. (7) In case the words of zihar, arc repeated several times to a wifc, the Hanafis ant the Shafe`is say that whether this is done in one sitting or in several sittings, it will entail as many expiations as the number of the times the word were repeated, unless the man might have repeated the words only to stress what he had said before. Contrary to this, Imam Malik and lmam Ahmad bin Hanbal say that no matter how often the wards are repeated, it will entail only one expiation. The same is the view of Sha`bi, Ta'us, `Ata`bin Abi Rabah Hasan Basri and Auza`i (may Allah show mercy to all of them). Hadrat 'All's ruling is that if the repetition is made in one sitting, there will be only one expiation, and if in different sittings, then there will be as many expiations as the number of the sittings in which the repetition was made. The same is the view of Qatadah ant 'Amr bin Dinar. (8) If zihar is pronounced upon two or more wives simultaneously in one and the same set of words, e.g. if addressing them the husband says: °You are to me as the back of my mother," the Hanafis and the Shafe`is say that separate expiations will have to be made to make each of them lawful. The same is the opinion of Hadrat `Umar, Hadrat `Ali, `Urwah bin Zubair, Ta'us, `Ata, Hasan Basri, Ibrahim Nakha`i, Sufyan Thauri and Ibn Shihab Zuhri. Imam Malik and Imam Ahmad say that in this case one and the same expiation will suffice for all. Rabi`ah, Auza`i, Ishaq bin Riihawaiyh and Abu Thaur also have expressed the same opinion. (9) It is agreed upon by all that if a man repeats ,zihar, again after making expiation for it once, the wife will not be lawful to him unless he makes another expiation (10) Although it is sinful, according to the four Imams, to establish marital relations with the wife before malting the expiation, and the man should ask for Allah's forgiveness for it, and should refrain from repeating such a thing, yet it will entail only one expiation. The Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) had exhorted the people who had committed such an offence in his time to implore Allah for forgiveness and not to touch the wife unless they had made the expiation, but he did not enjoin any additional expiation besides the expiation for zihar Hadrat `Amr bin `As, Qabisah bin Dhu'aib, Sa'id bin Jubair, Zuhri and Qatadah say that it will entail two expiations, and Hasan Basri and Ibrahim Nakha'i have given the opinion that this will entail three expiations, Probably the Ahadith in which the Holy Prophet gave his ruling on this matter did not reach these scholars. (11) As to comparison of the wife to whom would be zihar, the jurists have expressed different views: 'Amir Sha'bi says that her comparison to the mother only is zihar, and the Zahiriyyah say that her comparison only to the mother's back is zihar, for the injunction dces not supply to anything else. No section of the Islamic jurists, however; agrees with them in this regard, for the reason given by the Qur'an of the wife's comparison to the mother being sinful is that it is absurd and a lie. Now, obviously comparison of the wife to the women whose sanctity is just like the mother's would be as absurd as it is in the case of the mother Therefore, there is no reason why the commandment in that case should not be the same as in the can of the comparison to the mother. The Hanafis say that in this command are included all those women, who are permanently prohibited to man on the basis of lineage, fosterage, or marital relationship, but the women who may only be temporarily prohibited and can become lawful at any time, are not included in this, e.g. the wife's sister, her maternal and paternal aunts, or another woman, who is not the men's wedded wife. It will be zihar if comparison is made with such a part of the permanently prohibited woman's body as is forbidden for men to look at. However, it will not be ,zihar if comparison is made of the wife's hand, foot, head, hair, tooth, etc. to the back of a permanently prohibited woman, or of the wife to her head, hand, foot, etc. for it is not unlawful to look at these parts of the mother's or sister's body. Likewise, to say to the wife: "Your hand is like my mother's hand, or your foot is like my mother's foot," is not zihar. The Shafe`is say that in this command are included only those women, who were, and are, permanently prohibited, i.e. mother, sister, daughter etc. but this does not include those women, who may have been lawful at some time, e.g.. the foster-mother, foster-sister, mother-in-law and daughter-in-law, or those who may become lawful at nay time, e.g. the wife's the wife's sister. Apart from these temporarily prohibited women, it will be zihar to compare the wife to such parts of the permanently prohibited woman's body as are not normally mentioned out of reverence and respect, As for those parts which are mentioned out of reverence and respect, it will be zihar to make a comparison with them only in case this is done with the intention of zihar; for instance, if a man says to his wife: "Your are to me like my mother's eye or life, or like my mother's hand, foot or belly," or he compares the wife's belly, or breast, with the mother's belly, or breast, or says that the wife's head, back or hand is to him as his mother," it will be zihar if said with the intention of zihar and reverence if said with the intention of reverence. The Malikis say that to compare the wife to any of the prohibited women is zihar. so much so that even if a man says to his wife, "You are to me like the back of such and such other woman," it. would be zihar . Furthermore, they say that it would be zihar to compare any part of the mother's body, or of an eternally prohibited woman's body, to the wife, or to any part of the wife's body, without any condition that the parts thus compared be such as may look at any part of the mother's body as he looks at the wife's. The Hanbalis include in this command all those women, who may be eternally prohibited, though they may have been lawful before, e.g. the mother-in law, or foster-mother. As for the women who may become lawful at any time later (e.g. the wife's sister), Imam Ahmad's one statement concerning them is that comparison to them is not zihar . Moreover, according to the Hanbalis to compare any part of the wife's body to any part of the prohibited woman's comes under ,zihar. However, the non-permanent parts like the hair, nails, teeth, etc. are excluded from this command. (12) 'The jurists are agreed that to say w the wife: "You are to me like the back of my mother," is expressly zihar, for the Arabs used this very formula for zihar, and the Qur'anic command also was sent down only concerning this. However, the jurists have disputed as to which of the other words are such as clearly come under zihar, and which are such whose amounting or not amounting to zihar will be dependent upon the speake's intention. With the Hanafis the express words of zihar are those in which a lawful woman (the wife) may have been clearly compared to an unlawful woman (i.e. any woman from among the eternally prohibited women), or compared to such part of the body which is forbidden for a man to look at, like saying: "You are to me like the belly or the thigh of my mother, or of such and such prohibited woman. " Apart from these, the other words are disputed. According to Imam Abu Hanifah, if the man says: "You are forbidden to me like the back of my mother," it is expressly zihar, but according to Imams Abu Yusuf and Muhammad it would be zihar if there was the intention of zihar and divorce if there was the intention of divorce, The view generally held by-the Hanafis is that if the man says: "You arc as my mother, or like my mother," it is zihar if said with the intention of zihar and irrevocable divorce if said with the intention of divorce, and meaningless if there was no such intention at alI However, according to Imam Muhammad this is express zihar. If the man calls his wife his mother or sister or daughter, it is an absurdity upon which the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) had expressed great anger, but he did not regard it as zihar. If the man says "You are forbidden to me like my mother", it would be zihar if said with the intention of zihar and divorce if said with the intention of divorce, and zihar if there was no intention at all. If he says: "You are to me like my mother, or as my mother," his intention will be questioned: if he said this out of respect and reverence, it would be respect and reverence, if with the intention of divorce, it would be divorce: if there was no intention whatever, it would be meaningless according to Imam Abu Hanifah, but would entail the atonement of the oath, though not of zihar according to Imam Abu Yusuf and would be zihar according to Imam Muhammad. With the Shafe'is the express words of zihar are that a man should say to his wife: "You are to me, or with me, or for me, like the back of my mother, or you are like the back of my mother, or your body, or your self, is to me like the body or self of my mother. " Apart from these, in respect of all other words the decision will be dependent on the speaker's intention According to the Hanbalis, every such word by which a man may have compared his wife, or a part from among the permanent parts of her body, to a prohibited woman, or to a part from among the permanent parts of the prohibited woman's body clearly, would be regarded as express in the matter of zihar The Malikis' viewpoint also is almost the same. However, in the details they have given different rulings For instance, according to them, a man's saying to his wife: "You are to me as my mother, or like my mother," is zihar, if said with the intention, of zihar, divorce if said with the intention of divorce, and zihar if there was no intention at all. According to the Hanbalis, it may be regarded only as ,zihar provided there was the intention. If a man says to his wife: "You are my mother," this is zIhar according to the MalikIs, but according to the Hanbalis it would be zihar if said in a state of anger on account of a quarrel, and it would not be zihar if it was said out of lout and affection, although it is wrong. If a man says: "You have divorce on you: you are like my mother," according to the Hanbalis this is divorce, not zihar, and if he says: "You arc like my mother: you have divorce on you," both ,zihar and divorce will take place. To say: you are forbidden to me as the back of my mother," is zihar according to both the Malikis and the Hanbalis, whether the words were said with the intention of divorce, or without any intention. In this discussion about the words of zihar one should clearly understand that aII the disputes of the jurists in this regard relate to the words and usage of the Arabic language. Obviously the people who speak other languages will neither pronounce zihar in Arabic nor will utter an exact and accurate translation of the Arabic words and sentences at the time they pronounce zihar. Therefore, if one has to decide whether a word or a sentence comes under the definition of zihar, or not, one should not examine it from the point of view of its being an exact translation of the words given by the jurists, but one should only see whether the speaker had compared his wife in the sexual context clearly to any of the women in the prohibited degrees, or whether there was the probability of other meanings also in his words. Its most conspicuous example is the Arabic sentence itself about which all the jurists and commentators are agreed that this very sentence was used for zihar in Arabic, i.e. Ant-i alayya ka-zahr-i ummi("You are to me like the back of my mother"). Probably in no other language of the world can the man pronouncing zihar use words that may be a literal translation of this Arabic sentence. However, he can certainly use words of his own language, which may have precisely the same meaning for which an Arab used this sentence. The meaning of this sentence was: "To have sexual intercourse"with you would be like having sexual intercourse with my mother," or as some foolish person might say to his wife: "If I come in to you, I would be going in to my mother." (13) In the Holy Qur'an what has been mentioned as entailing the expiation is not the mere zihar but one's and (returning) after the zihar. That is, if a man only pronounces the zihar and dces not `return", he dces not incur any expiation. Now, the question is: What is this and {returning) that entails the expiation? In this regard, the jurists have held the following viewpoints: The Hanafis say that and is the intention to have the sexual intercourse, but it does not mean that the mere intention should entail the expiation; so much so that the man may have to make the expiation even if he does not take any practical step after the intention. But its correct meaning is that the man who wishes to remove the prohibition that he had imposed on him by by pronouncing zihar of severing marital relations with his wife, should first make the expiation, for this prohibition cannot be removed without the expiation. Three statements have been cited from Imam Malik in this regard, but his most well known and authentic statement, according to the MalikIs, is in full agreement with the Hanafi view point, as stated above. He says that what the man had made unlawful for himself by ,zihar was the sexual relation with his wife. Now, and means that he should return to establish the same relation with her. Imam Ahmad bin Hanbal's view as cited by Ibn Qadamah is almost the same as of the two Imams as noted above. He says that after the zihar expiation has necessarily to be made to make the sexual intercourse law ful. The man who wants to make it lawful after having pronounced zihar, in fact, wants to return from the prohibition. Therefore, ho has been enjoined to make the expiation before making it lawful for himself, precisely like the man who wants to make the other woman lawful for himself and has to marry her before she could be law ful for him. Imam Shafe`is viewpoint is quite different. He says that a man's keeping his wife as usual and detaining her in wedlock as before after having pronounced zihar, is aud, for as soon as he pronounced zihar he in fact, forbade himself to keep her as wife. Therefore, if he did not divorce her immediately on pronouncing zihar and kept her back for so long that he could utter the words of divorce, he committed and and the expiation became incumbent upon him. This means that if after pronouncing zIhar the man did not pronounce divorce in the next breath, expiation would become incumbent, whether after wards he might decide not to keep the woman as wife and might have no intention of having marital relations with her. So much so that even if he divorced his wife after a few moments' thought, according to Imam Shafe`i, he would still have to make the expiation. (14) The Qur'anic injunction is that the pronounces of zihar must make the expiation before the two (the husband and the wife) "touch" each other. All the four Imams are agreed that according to this verse not only is the sexual intercourse prohibited before the expiation but it is also prohibited that the husband touch the wife in any way. The Shafe'i's regard' only touching with desist as prohibited. The Hanbalis regArd every kind of pleasure-seeking as forbidden; and the Malikis regard even casting of the look at the wife's body for the sake of pleasure as unlawful. According to them only casting of the look at the face and hands is an exception. (15) If after zihar a man divorces his wife, he cannot touch her without first making the expiation in case it is a revocable divorce. If it is an irrevocable divorce, and he re-marries her, he still will have to make the expiation before he could touch her. So much so that even if he has divorced her thrice, and the woman after marrying another man becomes a widow, or is divorced, and then the pronounces of zihar re-marries her, she will not be lawful to him unless he first makes the cxpiation. For he has forbidden her to himself by comparing her to his mother or other prohibited woman, and. this prohibition cannot be removed without the expiation. All the four Imams agree about this. (16) It is incumbent upon the woman that she should not allow the husband who has pronounced zihar on her to touch her until he makes the expiation. And since the marital relationship is a right of the woman of which the husband has deprived her by zihar, she can go to the court of law if he does not make the expiation. The court will compel the husband to make the expiation to remove the barrier ht has raised between himself and her. And if he does not comply, the court can award him lashes or imprisonment or both. This also is agreed upon by alI the four schools of law. However, the difference is that in the Hanafi Fiqh this is the only way out for the woman; if the court does not help her out of the situation, she will remain suspended under zihar indefinitely. For zihar does not dissolve the marriage contract, it only forbids the husband to have marital relations with the wife. According to the Malikl school if the husband pronounces .zihar and keeps the wife suspended with a vices to punish her, the law of ila' will be applied against him, which means that he cannot keep her suspended for more than four months. (For the law of ila, ste E.N.'s 245 to 247 of Al-Baqarah). According to the Shafe'is, although in zihar the law of ila' can be applied only if the husband might have pronounced ,zihar for a specific period, which does not exceed four months, yet since according to them the cxpiation becomes incumbent upon the husband from the very moment he keeps back the woman as wife, it is not possible that he may keep her suspended for along period indefinitely. (17) The express commandment of the Qur'an and the Sunnah is that the first expiation for zihar is to free a slave. If a man cannot afford this, he can expiate by fasting two months consecutivety; and if he cannot do even this, then he can feed 60 poor. But if a man cannot expiate in any of the three ways, he will have to wait till he has the means to act in one or the other way, because the Shari'ah has not prescribed any other form of expiation. However, the sunnah confirms that such a person should be helped out so that he can make the third kind Of the expiation. The Holy Prophet helped such people out of the public treasury, who were caught in this awkward situation by a mistake of their own, and were helpless to expiate in any of the three prescribed ways. (18 ) The Qur'an enjoins to release a neck (raqabah) as expiation, which applies both to a male and a female slave, and there is no restriction of the age in it. It would be sufficient to release a suckling child who may be in the state of slavery. However, the jurists have disputed whether both the believing and the unbelieving slaves can be released, or whether only the believing slave will have to be released. the Hanafis and the Zahiriyyah say that it is enough to release a slave, whether a believer or an unbeliever, as cxpiation for zihar for the Qur an only mentions raqabah (the neck); it does not say that it has to be a believer. On the contrary; the Shafe'is, the MalikIs and the Hanbalis impost the condition that it has to be a believing slave. They have held this iNjunction as analogous to the other expiations in which release of raqabah has been made conditional upon his being a believer. (19) If the pronouncer of zihar cannot afford to release a slave, the Qur'an enjoins him to fast for two successive months before the two can touch each other. As for the details of acting on this Divine Command, the viewpoints of the different juristic schools are as follows: (a) AII are agreed that the months imply the lunar months. If fasting is begun with the sighting of the new moon,.one will have to complete two months' un-interrupted fasting. If fasting is begun on another date in the month, according to the Hanafis and the Hanbalis, one will have to fast for 60 days consecutively; and according to the Shafe'is, one will observe a total of 30 fasts in the first and the third months and observe the whole of the middle lunar month, whether it is of 29 days or 30 days. (b) The Hanafis and the Shafe'is say that fasting should be begun at a time when within the next two months there should neither fall the month of Ramadan nor the two `Id days, nor the day of sacrifice, nor the Tashriq days (10th to 13th of Dhil-Hajj) for the observance of the Ramadan fast and its abandonment on the `Id days and the day of Sacrifice ant Tashriq days, in the course of the expiation fasting, would break the succession of the fasting, and the pronouncer of zihar would have to start fasting afresh. The Hanbalis say that abservance of the Ramadan fast and its abandoment on the forbibben days do not break the succession. (c) In the course of the two months whether one abandons a fast on account of a valid excuse, or without a valid excuse, in both cases the succession will break according to the Hanafis and the Shafe`is, and one will have to start fasting afresh. The same is the opinion of Imam Muhammad Baqir, Ibrahim Nahka`i, Sa'id bin Jubair, and Sufyan Thauri. According to Imam Malik and Imam Ahmad, fasting can be abandoned on account of illness or a journey and this does not break the succession; however, succession does break if the fast is abandoned without a valid reason. Their reasoning is that the nature of the expiation fast is not obligatory as of the Ramadan fast: when that fast can be abandoned on account of an excuse, there is no reason why this cannot be. The same is the viewpoint of Hadrat `Abdullah bin `Abbas, Hasan Basri, `Ata' bin Abi Rabah, Sa`id bin al-Masayyab, 'Amr bin Dinar, Sha`bi, Ta'us, Mujahid, Ishaq bin Rahawaiyh, Abu Ubaid and Abu Thaur. (d) If the man commits sexual intercourse with the wife undo zihar within the two months of fasting, according to all the Imams, the succession will break, and he will have to begin fasting anew, for he has been enjoined to fast for two successive months before he could touch the wife. (20) According to the Qur'an and the Sunnah, the third kind of expiation (feeding the 60 poor) can be made only by him who does not have the power to make the second expiation (fasting for two months successively). The . details of acting on this command as worked out by the jurists are as follows: (a) According to all the four Imams, being powerless to observe the fast means that one should either he powerless due to old age, or due to illness, or due to the reason that one may not be able to abstain from sexual intercourse for two successive months, and may become impatient at any time in the course of fasting. The validity of aII these three excuses is confirmed by the Ahadith that have been cited in connection with the cases of Aus bin Samit Ansari and Salamah bin Sakhr Bayadi; . However, about illness there is a little difference of opinion among the jurists. The Hanafis say that the excuse of illness will be valid only in case there is no hope of recovery, or there is the fear that the disease may worsen on account of fasting. The Shafe`is say that if fasting is likely to cause a severe hardship by which the man may feel the danger of its being interrupted, this excuse also can be valid. The Malikis say that if the man strongly feels that he will be able to observe the fast in the future, he may wait till then, and if he has no such feeling, he should feed the poor. The Hanbalis say that the apprehension that the disease will worsen by fasting is a sufficient excuse for not fasting. (b) Food can be given only to those poor people whose maintenance is not the obligatory responsibility of the man concerned. (c) The Hanafis say that food can be given to both the Muslim and the nonMuslim subjects of the Islamic State, but not to the belligerent disbelievers and to those who have been given protection. The MMalikis, the Shafe`is and the Hanbalis say that the Muslim needy ones only can be fed. (d) There is full agreement that feeding implies to feed two times a day to fill. However, there is a difference of opinion about the meaning of feeding. The Hanafis say that it is equally valid to feed with cooked food two times a day or to give away grain sufficiient to meet the food requirements of a needy person two times a day, For the Qur'an has used the word it am, which means both to provide food and to feed. But the Malikis, the Shafe`is and the Hanbalis do not regard feeding with cooked food as correct; they think it is necessary to give away grain. In case grain is given, there is full agreement that the grain should be the staple food in the city or area, and all the poor people should be given it equally . (e) According to the Hanafis, it is also valid if one and the same poor person is fed or given food for 60 days, though it is not cornet to give him food for 60 days on one and the same day. However, the other three schools do not think it is valid to provide food to one and the same poor man; it is necessary to give food to 60 pesons. It is not permissible in any of the four school to provide food to 60 men at one time and to another 60 at another time. (f) This also is not permissible according to any of the four schools that one may fast for 30 days and then feed 30 poor ones, for two different expiations cannot be combined. If one has to fast one should fast for two months successively, and if one has to feed, one should feed 60 poor once. (g) Although in connection with the cxpiation of feeding the Qur'an' does not use words to the effect that this cxpiation also should be made before the husband and the wife can touch each other yet the context demands that this restriction will apply to this third kind of expiation as well. That is why the four Imams do not regard it as permissible that the man should go to his wife during the time the expiation of feeding is being performed. However, the difference i6 that according to the Hanbalis the man who commits this offence, will have to feed the poor afresh, but the Hanafis show leniency, for in respect of this third expiation there-is no mention of "before the two touch each other" in the Qur'an, and this provides a basis for the concession. Bibliography: Hanafi Fiqh: Hadaya6; Fath al-Qadir; Badai ur-Sanat Al-Jassas Ahkam al-Qur'an. shafe i Fiqh.' An-Nawawi, Al-Minhaj together with Sharh Mughni alMuhtaj Tafsir Kabir. Maliki Fiqh.' Hashah ad-Dusuqi ala-sh-Sharh al-Kabir; Hedayet alMujtahid; Ibn al-'Arabi Ahkam al-Qur an. Hanbali Fiqh.' Ibn Qadamah, Al-Mughni. zahiryyah Fiqh: Ibn Hazm A!-Muhalla.

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :11 یہ ہے ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ۔ فقہائے اسلام نے اس آیت کے الفاظ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلوں ، اور اسلام کے اصولِ عامہّ سے اس مسئلے میں جو قانون اخذ کیا ہے اس کی تفصیلات یہ ہیں : ( 1 ) ظہار کا یہ قانون عرب جاہلیت کے اس رواج کو منسوخ کرتا ہے جس کی رو سے یہ فعل نکاح کے رشتے کو توڑ دیتا تھا اور عورت شوہر کے لیے ابداً حرام ہو جاتی تھی ۔ اسی طرح یہ قانون ان تمام قوانین اور رواجوں کو بھی منسوخ کرتا ہے جو ظہار کو بے معنی اور بے اثر سمجھتے ہوں اور آدمی کے لیے اس بات کو جائز رکھتے ہوں کہ وہ اپنی بیوی کا ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر بھی اس کے ساتھ حسب سابق زن و شَو کا تعلق جاری رکھے ، کیونکہ اسلام کی نگاہ میں ماں اور دوسری محرمات کی حرمت ایسی معمولی چیز نہیں ہے کہ انسان ان کے اور بیوی کے درمیان مشابہت کا خیال بھی کرے ، کجا کہ اس کے زبان پر لائے ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلامی قانون نے اس معاملہ میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ تین بنیادوں پر قائم ہے ۔ ایک یہ کہ ظہار سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ عورت بدستور شوہر کی بیوی رہتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ ظہار سے عورت وقتی طور پر شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے ۔ تیسرے یہ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے ، اور یہ کہ صرف کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کر سکتا ہے ۔ ( 2 ) ظہار کرنے والے شخص کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس شوہر کا ظہار معتبر ہے جو عاقل و بالغ ہو اور بحالت ہوش و حواس ظہار کے الفاظ زبان سے ادا کرے ۔ بچے اور مجنون کا ظہار معتبر نہیں ہے ۔ نیز ایسے شخص کا ظہار بھی معتبر نہیں جو ان الفاظ کو ادا کرتے وقت اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو ، مثلاً سوتے میں بڑبڑائے ، یا کسی نوعیت کی بیہوشی میں مبتلا ہو گیا ہو ۔ اس کے بعد حسب ذیل امور میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے : الف ۔ نشے کی حالت میں ظہار کرنے والے کے متعلق ائمہ اربعہ سمیت فقہاء کی عظیم اکثریت یہ کہتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی نشہ آور چیز جان بوجھ کر استعمال کی ہو تو اس کا ظہار اس کی طلاق کی طرح قانوناً صحیح مانا جائے گا ، کیونکہ اس نے یہ حالت اپنے اوپر خود طاری کی ہے ۔ البتہ اگر مرض کی وجہ سے اس نے کوئی دوا پی ہو اور اس سے نشہ لاحق ہو گیا ہو ، یا پیاس کی شدت میں وہ جان بچانے کے لیے شراب پینے پر مجبور ہوا ہو تو اس طرح کے نشے کی حالت میں اس کے ظہار و طلاق کو نافذ نہیں کیا جائے گا ۔ احناف اور شوافع اور حنابلہ کی رائے یہی ہے اور صحابہ کا عام مسلک بھی یہی تھا ۔ بخلاف اس کے حضرت عثمان کا قول یہ ہے کہ نشے کی حالت میں طلاق و ظہار معتبر نہیں ہے ۔ احناف میں سے امام طحاوی اور کَرْخی اس قول کو ترجیح دیتے ہیں اور امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے ۔ مالکیہ کے نزدیک ایسے نشے کی حالت میں ظہار معتبر ہو گا جس میں آدمی بالکل بہک نہ گیا ہو ، بلکہ وہ مربوط اور مرتب کلام کر رہا ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ ب ۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے نزدیک ظہار صرف اس شوہر کا معتبر ہے جو مسلمان ہو ۔ ذمیوں پر ان احکام کا اطلاق نہیں ہوتا ، کیونکہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْکُمْ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کا خطاب مسلمانوں سے ہے ، اور تین قسم کے کفاروں میں سے ایک کفارہ قرآن میں روزہ بھی تجویز کیا گیا ہے جو ظاہر ہے کہ ذمیوں کے لیے نہیں ہو سکتا ۔ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک یہ احکام ذمی اور مسلمان ، دونوں کے ظہار پر نافذ ہوں گے ، البتہ ذمی کے لیے روزہ نہیں ہے ۔ وہ یا غلام آزاد کرے یا 60 مسکینوں کو کھانا کھلائے ۔ ج ۔ کیا مرد کی طرح عورت بھی ظہار کر سکتی ہے؟ مثلاً اگر وہ شوہر سے کہے کہ تو میرے لیے میرے باپ کی طرح ہے ، یا میں تیرے لیے تیری ماں کی طرح ہوں ، تو کیا یہ بھی ہو گا ؟ ائمہ اربعہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار نہیں ہے اور اس پر ظہار کے قانونی احکام کا سرے سے اطلاق نہیں ہوتا ۔ کیونکہ قرآن مجید نے صریح الفاظ میں یہ احکام صرف اس صورت کے لیے بیان کیے ہیں جبکہ شوہر بیویوں سے ظہار کریں ( اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآءِھِمْ ) اور ظہار کرنے کے اختیارات اسی کو حاصل ہو سکتے ہیں جسے طلاق دینے کا اختیار ہے ۔ عورت کو شریعت نے جس طرح یہ اختیار نہیں دیا کہ شوہر کو طلاق دیدے اسی طرح اسے یہ اختیار بھی نہیں دیا کہ اپنے آپ کو شوہر کے لیے حرام کر لے ۔ یہی رائے سفیان ثوری ، اسحٰق بن راہویہ ، ابو ثور اور لَیث بن سعد کی ہے کہ عورت کا ایسا قول بالکل بے معنی اور بے اثر ہے ۔ امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ یہ ظہار تو نہیں ہے ۔ مگر اس سے عورت پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا ، کیونکہ عورت کا ایسے الفاظ کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے اپنے شوہر سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی ہے ۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی ابن قدامہ نے یہی نقل کیا ہے ۔ امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اگر شادی سے پہلے عورت نے یہ بات کہی ہو کہ میں اس شخص سے شادی کروں تو وہ میرے لیے ایسا ہے جیسے میرا باپ ، تو یہ ظہار ہو گا ، اور اگر شادی کے بعد کہے تو یہ قَسم کے معنی میں ہو گا جس سے کفارۂ یمین لازم آئے گا ۔ بخلاف اس کے حسن بصری ، زہری ، ابراہیم نخعی ، اور حسن بن زیاد لُؤْلُئِ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور ایسا کہنے سے عورت پر کفارہ ظہار لازم آئے گا ، البتہ عورت کو یہ حق نہ ہو گا کہ کفارہ دینے سے پہلے شوہر کو اپنے پاس آنے سے روک دے ۔ ابراہیم نخعی اسکی تائید میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ کی صاحبزادی عائشہ سے حضرت زبیر کے صاحبزادے مصعب نے نکاح کا پیغام دیا ۔ انہوں نے اسے رد کرتے ہوئے یہ الفاظ کہہ دیے کہ اگر میں ان سے نکاح کروں تو ھُوَ عَلَیَّ کَظَھْرِ اَبِیْ ۔ ( وہ میرے اوپر ایسے ہوں جیسے میرے باپ کی پیٹھ ) ۔ کچھ مدت بعد وہ ان سے شادی کرنے پر راضی ہو گئیں ۔ مدینہ کے علماء سے اس کے متعلق فتویٰ لیا گیا تو بہت سے فقہاء نے جن میں متعدد صحابہ بھی شامل تھے ، یہ فتویٰ دیا کہ عائشہ پر کفارہ ظہار لازم ہے ۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد ابراہیم نخعی اپنی یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ اگر عائشہ یہ بات شادی کے بعد کہتیں تو کفارہ لازم نہ آتا ، مگر انہوں نے شادی سے پہلے یہ کہا تھا جب انہیں نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل تھا اس لیے کفارہ ان پر واجب ہو گیا ۔ ( 3 ) جو عاقل و بالغ آدمی ظہار کے صریح الفاظ بحالت ہوش و حواس زبان سے ادا کرے اس کا یہ عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ اس نے غصے میں ، یا مذاق مذاق میں ، یا پیار سے ایسا کہا ، یا یہ کہ اس کی نیت ظہار کی نہ تھی ۔ البتہ جو الفاظ اس معاملہ میں صریح نہیں ہیں ، اور جن میں مختلف معنوں کا احتمال ہے ، ان کا حکم الفاظ کی نوعیت پر منحصر ہے ۔ آگے چل کر ہم بتائیں گے کہ ظہار کے صریح الفاظ کون سے ہیں اور غیر صریح کون سے ۔ ( 4 ) ۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ ظہار اس عورت سے کیا جا سکتا ہے جو آدمی کے نکاح میں ہو ۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا غیر عورت سے بھی ظہار ہو سکتا ہے ۔ اس معاملہ میں مختلف مسالک یہ ہیں : حنفیہ کہتے ہیں کہ غیر عورت سے اگر آدمی یہ کہے کہ میں تجھ سے نکاح کروں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ ، تو جب بھی وہ اس سے نکاح کرے گا کفارہ ادا کیے بغیر اسے ہاتھ نہ لگا سکے گا ۔ یہی حضرت عمر کا فتویٰ ہے ۔ ان کے زمانہ میں ایک شخص نے ایک عورت سے یہ بات کہی اور بعد میں اس سے نکاح کر لیا ۔ حضرت عمرنے فرمایا اسے کفارہ ظہار دینا ہو گا ۔ مالکیہ اور حنابلہ بھی یہی بات کہتے ہیں ، اور وہ اس پر یہ اضافہ کرتے ہیں کہ اگر عورت کی تخصیص نہ کی گئی ہو بلکہ کہنے والے نے یوں کہا ہو کہ تمام عورتیں میرے اوپر ایسی ہیں ، تو جس سے بھی وہ نکاح کرے گا اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہو گا ۔ یہی رائے سعید بن المسیب ، عروہ بن زبیر ، عطاء بن ابی رباح ، حسن نصری اور اسحاق بن راہویہ کی ہے ۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ نکاح سے پہلے ظہار بالکل بے معنی ہے ۔ ابن عباس اور قتادہ کی بھی یہی رائے ہے ۔ ( 5 ) ۔ کیا ظہار ایک خاص وقت تک کے لیے ہو سکتا ہے؟ حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ اگر آدمی نے کسی خاص وقت کی تعیین کر کے ظہار کیا ہو تو جب تک و وقت باقی ہے ، بیوی کو ہاتھ لگانے سے کفارہ لازم آئے گا ، اور اس وقت کے گزر جانے پر ظہار غیر مؤثر ہو جائے گا ۔ اس کی دلیل سلمہ بن صخر بیاضی کا واقعہ ہے جس میں انہوں نے اپنی بیوی سے رمضان کے لیے ظہار کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ وقت کی تعیین بے معنی ہے ۔ بخلاف اس کے امام مالک اور ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ظہار جب بھی کیا جائے گا ، ہمیشہ کے لیے ہو گا اور وقت کی تخصیص غیر مؤثر ہو گی ، کیونکہ جو حرمت واقع ہو چکی ہے وہ وقت گزر جانے پر آپ سے آپ ختم نہیں ہو سکتی ۔ ( 6 ) ۔ مشروط ظہار کیا گیا ہو تو جس وقت بھی شرط کی خلاف ورزی ہو گی ، کفارہ لازم آ جائے گا ۔ مثلاً آدمی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ اگر میں گھر میں آؤں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی بیٹھ ۔ اس صورت میں وہ جب بھی گھر میں داخل ہو گا ۔ کفارہ ادا کیے بغیر بیوی کو ہاتھ نہ لگا سکے گا ۔ ( 7 ) ۔ ایک بیوی سے کئی مرتبہ ظہار کے الفاظ کہے گئے ہوں تو حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ خواہ ایک ہی نشست میں ایسا کیا گیا ہو یا متعدد نشستوں میں ، بہر حال جتنی مرتبہ یہ الفاظ کہے گئے ہوں اتنے ہی کفارے لازم آئیں گے ، الا یہ کہ کہنے والے نے ایک دفعہ کہنے کے بعد اس قول کی تکرار محض اپنے پہلے قول کی تاکید کے لیے کی ہو ۔ بخلاف اس کے امام مالک اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ خواہ کتنی ہی مرتبہ اس قول کی تکرار کی گئی ہو ، قطع نظر اس سے کہ اعادہ کی نیت ہو یا تاکید کی ، کفارہ ایک ہی لازم ہو گا ۔ یہی قول شعبی ، طاؤس ، عطاء بن ابی رباح ، حسن بصری ، اور اوزاعی رحمہم اللہ کا ہے حضرت علی کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر تکرار ایک نشست میں کی گئی ہو تو ایک ہی کفارہ ہو گا ، اور مختلف نشستوں میں ہو تو جتنی نشستوں میں کی گئی ہو اتنے ہی کفارے دینے ہوں گے ۔ قتادہ اور عمرو بن دینار کی رائے بھی یہی ہے ۔ ( 8 ) دو یا زائد بیویوں سے بیک وقت اور بیک لفظ ظہار کیا جائے ، مثلاً ان کو مخاطب کر کے شوہر کہے کہ تم میرے اوپر ایسی ہو جیسے میری ماں کی پیٹھ ، تو حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ ہر ایک کو حلال مرنے کے لیے الگ الگ کفارے دینے ہونگے ۔ یہی رائے حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ ، عروہ بن زبیر ، طاؤس ، عطاء ، حسن بصری ، ابراہیم نخعی ، سفیان ثوری ، اور ابن شہاب زہری کی ہے ۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کہتے ہیں کہ اس صورت میں سب سے کے لیے ایک ہی کفارہ لازم ہو گا ۔ ربیعہ ، اوزاعی ، اسحاق بن راہویہ اور ابوٹور کی بھی یہی رائے ہے ۔ ( 9 ) ایک ظہار کا کفارہ دینے کے بعد اگر آدمی پھر ظہار کر بیٹھے تو یہ امر متفق علیہ ہے کہ پھر کفارہ دیے بغیر بیوی اس کے لیے حلال نہ ہو گی ۔ ( 10 ) ۔ کفارہ ادا کرنے سے پہلے اگر بیوی سے تعلق زن و شو قائم کر بیٹھا ہو تو ائمہ اربعہ کے نزدیک اگر چہ یہ گناہ ہے ، اور آدمی کو اس پر استغفار کرنا چاہیے ، اور پھر اس کا اعادہ نہ کرنا چاہیے ، مگر کفارہ اسے ایک ہی دینا ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جن لوگوں نے ایسا کیا تھا ان سے آپ نے نہیں دیا تھا کہ کفارہ ظہار کے علاوہ اس پر انہیں کوئی اور کفارہ بھی دینا ہو گا ۔ حضرت عمرو بن عاص ، قبیصہبن ذؤَیب سعید بن جبیر ، زہری اور قتادہ کہتے ہیں کہ اس پر دو کفارے لازم ہوں گے ۔ اور حسن بصری اور ابراہیم نخعی کی رائے یہ ہے کہ تین کفارے دینے ہوں گے ۔ غالباً ان حضرات کو وہ احادیث نہ پہنچی ہوں گی جن میں اس مسئلہ پر حضورؐ کا فیصلہ بیان ہوا ہے ۔ ( 11 ) ۔ بیوی کس کس سے تشبیہ دینا ظہار ہے؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے : عامر شعبی کہتے ہیں کہ صرف ماں سے تشبیہ ظہار ہے ، باقی اور کسی بات پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ مگ فقہاء امت میں سے کسی گروہ بے بھی ان سے اس معاملہ میں اتفاق نہیں کیا ہے ، کیونکہ قرآن نے ماں سے تشبیہ کو گناہ قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ نہایت بیہودہ اور جھوٹی بات ہے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن عورتوں کی حرمت ماں جیسی ہے ان کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا بیہودگی اور جھوٹ میں اس سے کچھ مختلف نہیں ہے ، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کا حکم وہی نہ ہو جو ماں سے تشبیہ کا حکم ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں تمام وہ عورتیں داخل ہیں جو نسب یا رضاعت ، یا ازدواجی رشتہ کی بنا پر آدمی کے لیے ابداً حرام ہیں مگر وقتی طور پر جو عورتیں حرام ہوں اور کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں وہ اس میں داخل نہیں ہیں ۔ جیسے بیوی کی بہن ، اس کی خالہ ، اس کی پھوپھی ، یا غیر عورت جو آدمی کے نکاح میں نہ ہو ۔ ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دینا جس پر نظر ڈالنا آدمی کے لیے حلال نہ ہو ، ظہار ہو گا ۔ البتہ بیوی کے ہاتھ ، پاؤں ، سر ، بال ، دانت وغیرہ کو ابداً حرام عورت کی پیٹھ سے ، یا بیوی کو اس کے سر ، ہاتھ ، پاؤں جیسے اجزائے جسم سے تشبیہ دینا ظہار نہ ہو گا کیونکہ ماں بہن کے ان اعضاء پر نگاہ ڈالنا حرام نہیں ہے ۔ اسی طرح یہ کہنا کہ تیرا ہاتھ میری ماں کے ہاتھ جیسا ہے ، یا تیرا پاؤں میری ماں کے پاؤں جیسا ہے ، ظہار نہیں ہے ۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں صرف وہی عورتیں داخل ہیں جوق ہمیشہ حرام تھیں اور ہمیشہ حرام رہیں ، یعنی ماں ، بہن ، بیٹی وغیرہ مگر وہ عورتیں اس میں داخل نہیں ہیں جو کبھی حلال رہ چکی ہوں ، جیسے رضاعی ماں ، بہن ، ساس اور بہو ، یا کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں ، جیسے سالی ۔ ان عارضی یا وقتی حرام عورتوں کے ماسوا ابدی حرمت رکھنے والی عورتوں میں سے کسی کے ان اعضا کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہو گا جن کا ذکر بغرض اظہار اکرام و توقیر عادۃً نہیں کیا جاتا ۔ رہے وہ اعضاء جن کا اظہار اکرام و توقیر کے کیا جاتا ہے تو ان تشبیہ صرف اس صورت میں ظہار ہو گی جبکہ یہ بات ظہار کی نیت سے کہی جائے ۔ مثلاً بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی آنکھ یا جان کی طرح ہے ، یا ماں کے ہاتھ ، پاؤں یا پیٹ کی طرح ہے ، یا ماں کے پیٹ یا سینے سے بیوی کے پیٹ یا سینے کو تشبیہ دینا ، یا بیوی کے سر ، پیٹھ یا ہاتھ کو اپنے لیے ماں کی پیٹھ جیسا قرار دینا ، یا بیوی کو یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں جیسی ہے ، ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے اور عزت کی نیت سے ہو تو عزت ہے ۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ ہر عورت جو آدمی کے لیے حرام ہو ، اس سے بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہے ، حتی کہ بیوی سے یہ کہنا بھی ظہار کی تعریف میں آتا ہے کہ تو میرے اوپر فلاں غیر عورت کی بیٹھ جیسی ہے ، نیز وہ کہتے ہیں کہ ماں اور ابدی محرمات کے کسی عضو سے بیوی کو یا بیوی کے کسی عضو کو تشبیہ دینا ظہار ہے ، اور اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اعضاء ایسے ہوں جن پر نظر ڈالنا حلال نہ ہو ، کیونکہ مان کے کسی عضو پر بھی اس طرح کی نظر ڈالنا جیسی بیوی پر ڈالی جاتی ہے ، حلال نہیں ہے ۔ حنابلہ اس حکم میں تمام ان عورتوں کو داخل سمجھتے ہیں جو ابداً حرام ہوں ، خواہ وہ پہلے کبھی حلال رہ چکی ہوں ، مثلاً ساس ، یا دودھ پلانے والی ماں رہیں وہ عورتیں جو بعد میں کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں ، ( مثلاً سالی ) ، تو ان کے معاملہ میں امام احمد کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ بھی ظہار ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ دینا ظہار کی تعریف میں آ جاتا ہے ۔ البتہ بال ، ناخن ، دانت جیسے غیر مستقل اجزاء جسم اس حکم سے خارج ہیں ۔ ( 12 ) ۔ اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے اوپر میری ماں کی بیٹھ جیسی ہے صریح ظہار ہے کیونکہ اہل عرب میں یہی ظہار کا طریقہ تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔ البتہ اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ دوسرے الفاظ میں سے کون سے ایسے ہیں جو صریح ظہار کے حکم میں ہیں ، اور کون سے ایسے ہیں جن کے ظہار ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ قائل کی نیت پر کیا جائے گا ۔ حنفیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ وہ ہیں جن میں صاف طور پر حلال عورت ( بیوی ) کو حرام عورت ( یعنی محرمات ابدیہ میں سے کسی عورت ) سے تشبیہ دی گئی ہو ، یا تشبیہ ایسے عضو سے دی گئی ہو جس پر نظر ڈالنا حلال نہیں ہے ، جیسے یہ کہنا کہ تو میرے اوپر ماں یا فلاں حرام عورت کے پیٹ یا ران جیسی ہے ۔ ان کے سوا دوسرے الفاظ میں اختلاف کی گنجائش ہے ۔ اگر کہے کہ تو میرے اوپر حرام ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ صریح ظہار ہے ، لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک ظہار کی نیت ہو تو ظہار ہے اور طلاق کی نیت ہو تو طلاق ۔ اگر کہے کہ تو میری ماں جیسی ہے یا میری ماں کی طرح ہے تو حنیفہ کا عام فتویٰ یہ ہے کہ یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے ، طلاق کی نیت سے طلاق بائن ، اور اگر کوئی نیت نہ ہو تو بے معنی ہے ۔ لیکن امام محمد کے نزدیک یہ قطعی ہے ۔ اگر بیوی کو ماں یا بہن یا بیٹی کہہ کر پکارے تو یہ سخت بیہودہ بات ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غصے کا اظہار فرمایا تھا ، مگر اسے ظہار نہیں قرار دیا ۔ اگر کہے کہ تو میرے اوپر ماں کی طرح حرام ہے تو یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے ، طلاق کی نیت سے طلاق ، اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے ۔ اگر کہے کہ تو میرے لیے ماں کی طرح یا ماں جیسی ہے تو نیت پوچھی جائے گی ۔ عزت اور توقیر کی نیت سے کہا ہو تو عزت اور توقیر ہے ۔ ظہار کی نیت سے کہا ہو تو ظہار ہے ۔ طلاق کی نیت سے کہا ہو تو طلاق ہے ۔ کوئی نیت نہ ہو اور یونہی یہ بات کہہ دی ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک بے معنی ہے ، امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر ظہار کا تو نہیں مگر قسم کا کفارہ لازم آئے گا ، اور امام محمد کے نزدیک یہ ظہار ہے ۔ شافعیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تو میرے نزدیک ، یا میرے ساتھ ، یا میرے لیے ایسی ہے جیسی میری ماں کی پیٹھ ۔ یا تو میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے ۔ یا تیرا جسم ، یا تیرا بدن ، یا تیرا نفس میرے لیے میری ماں کے جسم یا بدن یا جنس کی طرح ہے ۔ ان کے سوا باقی تمام الفاظ میں قائل کی نیت پر فیصلہ ہو گا ۔ حنابلہ کے نزدیک ہر وہ لفظ جس سے کسی شخص نے بیوی کو یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو کو کسی ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام ہے ، یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو سے صاف صاف تشبیہ دی ہو ، ظہار کے معاملہ میں صریح مانا جائے گا ۔ مالکیہ کا مسلک بھی قریب قریب یہی ہے ، البتہ تفصیلات میں ان کے فتوے الگ الگ ہیں ۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی سے یہ کہنا کہ میرے لیے میری ماں جیسی ہے ، یا میری ماں کی طرح ہے مالکیوں کے نزدیک ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے ، طلاق کی نیت سے ہو تو طلاق اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے ۔ حنبلیوں کے نزدیک یہ بشرط نیت صرف ظہار قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اگر کوئی شخص بیوی سے کہے کہ تو میری ماں ہے تو مالکیہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور حنابلہ کہتے ہیں کہ یہ بات اگر جھگڑے اور غصے کی حالت میں کہی گئی ہو تو ظہار ہے ، اور پیار محبت کی بات چیت میں کہی گئی ہو تو کو یہ بہت ہی بری بات ہے لیکن ظہار نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص کہے تجھے طلاق ہے تو میری ماں کی طرح ہے تو حنابلہ کے نزدیک یہ طلاق ہے نہ کہ ظہار ، اور اگر کہے تو میری ماں کی طرح ہے تجھے طلاق ہے تو ظہار اور طلاق دونوں واقع ہو جائیں گے ۔ یہ کہنا کہ تو میرے اوپر ایسی حرام ہے جیسی میری ماں کی بیٹھ مالکیہ اور حنابلہ دونوں کے نزدیک ظہار ہے خواہ طلاق ہی کی نیت سے یہ لفاظ کہے گئے ہوں ، یا نیت کچھ بھی نہ ہو ۔ الفاظ ظہار کی اس بحث میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فقہاء نے اس باب میں جتنی بحثیں کی ہیں وہ سب عربی زبان کی الفاظ اور محاورات سے تعلق رکھتی ہیں ، اور ظاہر ہے کہ دنیا کی دوسری زبانیں بولنے والے نہ عربی زبان میں ظہار کریں گے ، نہ ظہار کرتے وقت عربی الفاظ اور فقروں کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ زبان سے ادا کریں گے ۔ اس لیے کسی لفظ یا فقرے کے متعلق اگر یہ فیصلہ کرنا ہو کہ وہ ظہار کی تعریف میں آتا ہے یا نہیں ، تو اسے اس لحاظ سے نہیں جانچنا چاہیے کہ وہ فقہاء کے بیان کردہ الفاظ میں سے کس کا صحیح ترجمہ ہے ، بلکہ صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا قائل نے بیوی کو جنسی ( Sexual ) تعلق کے لحاظ سے محرمات میں سے کسی کے ساتھ صاف صاف تشبیہ دی ہے ، یا اس کے الفاظ میں دوسرے مفہومات کا بھی احتمال ہے؟ اس کی نمایاں ترین مثال خود وہ فقرہ ہے جس کے متعلق تمام فقہاء اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ عرب میں ظہار کے لیے وہی بولا جاتا تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے ، یعنی اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ ( تو میرے اوپر میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے ) ۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں ، اور کم از کم اردو کی حد تک تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس زبان میں کوئی ظہار کرنے والا ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتا جو اس عربی فقرے کا لفظی ترجمہ ہوں ۔ البتہ وہ اپنی زبان کے ایسے الفاظ ضرور استعمال کر سکتا ہے جن کا مفہوم ٹھیک وہی ہو جسے ادا کرنے کے لیے ایک عرب یہ فقرہ بولا کرتا تھا ۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ تجھ سے مباشرت میرے لیے ایسی ہے جیسے اپنی ماں سے مباشرت ، یا جیسے بعض جہلا بیوی سے کہہ بیٹھتے ہیں کہ تیرے پاس آؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں ۔ ( 13 ) قرآن مجید میں جس چیز کو کفارہ لازم آنے کا سبب قرار دیا گیا ہے وہ محض ظہار نہیں ہے بلکہ ظہار کے بعد غور ہے ۔ یعنی اگر آدمی صرف ظہار کر کے رہ جائے اور عَود نہ کرے تو اس پر کفارہ لازم نہیں آتا ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ عَود کیا ہے جو کفارہ کا موجب ہے؟ اس بارے میں فقہاء کے مالک یہ ہیں : حنفیہ کہتے ہیں کہ عَود سے مراد مباشرت کا ارادہ ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض ارادے اور خواہش پر کفارہ لازم آ جائے ، حتیٰ کیہ اگر آدمی ارادہ کر کے رہ جائے اور عملی اقدام نہ کرے تب بھی اسے کفارہ دینا پڑے ۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس حرمت کو رفع کرنا چاہے جو اس نے ظہار کر کے بیوی کے ساتھ تعلق زن و شو کے معاملہ میں اپنے اوپر عائد کر لی تھی وہ پہلے کفارہ دے ، کیونکہ یہ حرمت کفارہ کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی ۔ امام مالکؒ کے اس معاملہ میں تین قول ہیں ، مگر مالکیہ کے ہاں ان کا مشہور ترین اور صحیح ترین قول اس مسلک کے مطابق ہے جو اوپر حنفیہ کا بیان ہوا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار سے جس چیز کو اس نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا ۔ وہ بیوی کے ساتھ مباشرت کا تعلق تھا ۔ اس کے بعد عَودیہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ یہی تعلق رکھنے کے لیے پلٹے ۔ امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک بھی ابن قدامہ نے قریب قریب وہی نقل کیا ہے جو اوپر دونوں اماموں کا بیانکیا گیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد مباشرت کے حلال ہونے کے لیے کفارہ شرط ہے ۔ ظہار کرنے والا جو شخص اسے حلال کرنا چاہے وہ گویا تحریم سے پلٹنا چاہتا ہے ۔ اس لیے اسے حکم دیا گیا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے کفارہ دے ، ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی شخص ایک غیر عورت کو اپنے لیے حلال کرنا چاہے تو اس سے کہا جائے گا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے نکاح کرے ۔ امام شافعؒی کا مسلک ان تینوں سے مختلف ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کا اپنی بیوی سے ظہار کرنے کے بعد اسے حسب سابق بیوی بنائے رکھنا ، یا بالفاظ دیگر اسے بیوی کی حیثیت سے روکے رکھنا عَود ہے ۔ کیونکہ جس وقت اس نے ظہار کیا اسی وقت گویا اس نے اپنے لیے یہ بات حرام کر لی کہ اسے بیوی بنا کر رکھے ۔ لہٰذا اگر اس نے ظہار کرتے ہی فوراً اسے طلاق نہ دی اور اتنی دیر تک اسے روکے رکھا جس میں وہ طلاق کے الفاظ زبان سے نکال سکتا تھا ، تو اس نے عَود کر لیا اور اس پر کفارہ واجب ہو گیا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک سانس میں ظہار کرنے کے بعد اگر آدمی دوسرے ہی سانس میں طلاق نہ دے دے تو کفارہ لازم آ جائے گا ، خواہ بعد میں اس کا فیصلہ یہی ہو کہ اس عورت کو بیوی بنا کر نہیں رکھنا ہے ، اور اس کا کوئی ارادہ اس کے ساتھ تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو ۔ حتیٰ کہ چند منٹ غور کر کے وہ بیوی کو طلاق بھی دے ڈالے تو امام شافعیؒ کے مسلک کی رو سے کفارہ اس کے ذمہ لازم رہے گا ۔ ( 14 ) قرآن کا حکم ہے کہ ظہار کرنے والا کفارہ دے قبل اس کے کہ زوجین ایک دوسرے کو مَس کریں ۔ ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں مس سے مراد چھونا ہے ، اس لیے کفارہ سے پہلے صرف مباشرت ہی حرام نہیں ہے بلکہ شوہر کسی طرح بھی بیوی کو چھو نہیں سکتا ۔ شافعیہ شہوت کے ساتھ چھونے کو حرام کہتے ہیں ، حنابلہ ہر طرح کے تلذذ کو حرام قرار دیتے ہیں ، اور مالکہ لذت کے لیے بیوی کے جسم پر بھی نظر ڈالنے کو ناجائز ٹھیراتے ہیں اور ان کے نزدیک صرف چہرے اور ہاتھوں پر نظر ڈالنا اس سے مستثنیٰ ہے ۔ ( 15 ) ظہار کے بعد اگر آدمی بیوی کو طلاق دے دے تو رجعی طلاق ہونے کی صورت میں رجوع کر کے بھی وہ کفارہ دیے بغیر اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا ۔ بائن ہونے کی صورت میں اگر اس سے دوبارہ نکاح کرے تب بھی اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہو گا ۔ حتیٰ کہ اگر تین طلاق دے چکا ہو ، اور عورت دوسرے آدمی نکاح کرنے کے بعد بیوہ یا مطلقہ ہو چکی ہو ، اور اس کے بعد ظہار کرنے والا شوہر اس سے از سر نو نکاح کر لے ، پھر بھی کفارے کے بغیر وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی ۔ کیونکہ وہ اسے ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر اپنے اوپر ایک دفعہ حرام کر چکا ہے ، اور یہ حرمت کفارے کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی ۔ اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے ۔ ( 16 ) عورت کے لیے لازم ہے کہ جس شوہر نے اس کے ساتھ ظہار کیا ہے اسے ہاتھ نہ لگانے دے جب تک وہ کفارہ ادا نہ کرے ۔ اور چونکہ تعلق زن و شو عورت کا حق ہے جس سے ظہار کر کے شوہر نے اسے محروم کیا ہے ، اس لیے اگر وہ کفارہ نہ عے تو بیوی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے ۔ عدالت اس کے شوہر کو مجبور کرے گی کہ وہ کفارہ دے کر حرمت وہ دیوار ہٹائے جو اس نے اپنے اور اس کے درمیان حائل کر لی ہے ۔ اور اگر وہ نہ مانے تو عدالت اسے ضرب یا قید یا دونوں طرح کی سزائیں دے سکتی ہے ۔ یہ بات بھی چاروں مذاہب فقہ میں متفق علیہ ہے ۔ البتہ فرق یہ ہے کہ مذہب حنفی میں عورت کے لیے صرف یہی ایک چارہ کار ہے ، ورنہ ظہار پر خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے ، عورت کو اگر عدالت اس مشکل سے نہ نکالے تو وہ تمام عمر معلق رہے گی ، کیونکہ ظہار سے نکاح ختم نہیں ہوتا ، صرف شوہر کا حق تمتّع سلب ہوتا ہے ۔ ملکی مذہب میں اگر شورہ عورت کو ستانے کے لیے ظہار کر کے معلق چھوڑ دے تو اس پر ایلاء کے احکام جاری ہوں گے ، یعنی وہ چار مہینے سے زیادہ عورت کو روک کر نہیں رکھ سکتا ( احکام اِیلاء کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حواشی 245 تا 247 ) ۔ شافعیہ کے نزدیک اگر چہ ظہار میں احکام ایلاء تو صرف اس وقت جاری ہو سکتے ہیں جبکہ شوہر نے ایک مدت خاص کے لیے ظہار کیا ہو اور وہ مدت چار مہینے سے زیادہ ہو ، لیکن چونکہ مذہب شافعی کی رو سے شوہر پر اسی وقت کفارہ واجب ہو جاتا ہے جب وہ عورت کو بیوی بنا کر رکھے رہے ، اس لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ کسی طویل مدت تک اس کو معلق رکھے ۔ ( 17 ) قرآن اور سنت میں تصریح ہے کہ ظہار کا پہلا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے ۔ اس سے آدمی عاجز ہو تب دو مہینے کے روزوں کی شکل میں کفارہ دے سکتا ہے ۔ اور اس سے بھی عاجز ہو تب 60 مسکینوں کو کھانا کھال سکتا ہے ۔ لیکن اگر تینوں کفاروں سے کوئی شخص عاجز ہو تو چونکہ شریعت میں کفارے کی کوئی اور شکل نہیں رکھی گئی ہے اس لیے اسے اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا جب تک وہ ان میں سے کسی ایک پر قادر نہ ہو جائے ۔ البتہ سبت سے یہ ثابت ہے کہ ایسے شخص کی مدد کی جانی چاہیے تاکہ وہ تیسرا کفارہ ادا کر سکے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت المال سے ایسے لوگوں کی مدد فرمائی ہے جو اپنی غلطی سے اس مشکل میں پھنس گئے تھے اور تینوں کفاروں سے عاجز تھے ۔ ( 18 ) قرآن مجید کفارہ میں رَقَبہ آزاد کرنے کا حکم دیتا ہے جس کا اطلاق لونڈی اور غلام دونوں پر ہوتا ہے اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے ۔ شیر خوار بچہ بھی اگر غلامی کی حالت میں ہو تو اسے آزاد کیے جا سکتے ہیں یا صرف مومن غلام ہی آزاد کرنا ہو گا ۔ حنفیہ اور ظاہریہ کہتے ہیں غلام خواہ مومن ہو یا کافر ، اس کا آزاد کر دینا کفارہ ظہار کے لیے کافی ہے ، کیونکہ قرآن میں مطلق رَقَبہ کا ذکر ہے ، یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ مومن ہی ہونا چاہیے ۔ بخلاف اس کے شافعیہ ، مالکیہ اور حنابلہ اس کے لیے مومن کی شرط لگاتے ہیں ، اور انہوں نے اس حکم کو ان دوسرے کفاروں پر قیاس کیا ہے جن میں رقبہ کے ساتھ قرآن مجید میں مومن کی قید لگائی گئی ہے ۔ ( 19 ) غلام نہ پانے کی صورت میں قرآن کا حکم ہے کہ ظہار کرنے والا مسلسل دو مہینے کے روزے رکھے قبل اس کے کہ زوجین ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ۔ اس فرمان الٰہی پر عمل کرنے کی تفصیلات مختلف فقہی مذاہب میں حسب ذیل ہیں : الف ۔ اس امر پر اتفاق ہے کہ مہینوں سے مراد ہلالی مہینے ہیں ۔ اگر طلوع بلال سے روزوں کا آغاز کیا جائے تو دو مہینے پورے کرنے ہوں گے ۔ اگر بیچ میں کسی تاریخ سے شروع کیا جائے تو حنفیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ 60 روزے رکھنے چاہئیں ۔ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ پہلے اور تیسرے مہینے میں مجموعی طور پر 30 روزے رکھ اور بیچ کا ہلالی مہینہ خواہ 29 کا ہو یا 30 کا ، اس کے روزے رکھ لینے کافی ہیں ۔ ب ۔ حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ روزے ایسے وقت شروع کرنے چاہییں جب کہ بیچ میں نہ رمضان آئے نہ عیدین نہ یوم النحر اور ایام تشریق ، کیونکہ کفارہ کے روزے رکھنے کے دوران میں رمضان کے روزے رکھنے اور عیدین اور یوم الجحر اور ایام تشریق کے روزے چھڑنے سے دو مہینے کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے چھڑنے سے دو مہینے کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے پڑیں گے ۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ بیچ میں رمضان کے روزے رکھنے اور حرام دنوں کے روزے نہ رکھنے سے تسلسل نہیں ٹوٹتا ۔ ج ۔ دو مہینوں کے دوران میں خواہ آدمی کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑے یا بلا عذر ، دونوں صورتوں میں حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے رکھنے ہوں گے ۔ یہی رائے امام محمد باقر ، ابراہیم نخعی ، سعید بن جبیر اور سفیان ثوری کی ہے ۔ امام مالک اور امام احمد کے نزدیک مرض یا سفر کے عذر سے بیچ میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے اور اس سے تسلسل نہیں ٹوٹتا ، البتہ بلا عذر روزہ چھوڑ دینے سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ کفارہ کے روزے رمضان کے فرض روزوں زیادہ موکد نہیں ہیں ۔ جب ان کو عذر کی بنا پر چھوڑا جا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں یکہ ان کو نہ چھوڑا جا سکے ۔ یہی قول حضرت عبداللہ بن عباس ، حسن بصری ، عطاء بن ابی رَبَاح ، سعید بن المسیب ، عمرو بن دینار ، شعبی طاؤس ، مجاہر ، اسحاق بن راہویہ ، ابر عبید اور ابو ثور ہے ۔ د ۔ دومہینوں کے دوران میں اگر آدمی اس بیوی سے مباشرت کر بیٹھے جس سے اس نے ظہار کیا ہو ، تو تمام ائمہ کے نزدیک اس کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے رکھنے ہوں گے کیونکہ ہاتھ لگانے سے پہلے دو مہینے کے مسلسل روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ( 20 ) قرآن اور سنت کی رو سے تیسرا کفارہ ( یعنی 60 مسکینوں کا کھانا ) وہ شخص دے سکتا ہے جو دوسرے کرنے ( دو مہینے کے مسلسل روزوں ) کی قدرت نہ رکھتا ہو ۔ اس حکم پر عمل درآمد کرنے کے لیے فقہاء نے جو تفصیلی احکام مرتب کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں : الف ۔ ائمہ اربعہ کے نزدیک روزوں پر قادر نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی یا تو بڑھاپے کی وجہ سے قادر نہ ہو ، یا مرض کے سبب سے ، یا اس سبب سے کہ وہ مسلسل دو مہینے تک مباشرت سے پرہیز نہ کر سکتا ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ اس دوران میں کہیں بے صبری نہ کر بیٹھے ۔ ان تینوں عذرات کا صحیح ہونا اس احادیث سے ثابت ہے جو اَوْس بن صامت انصاری اور سلمہ بن صخر بیاضی کے معاملہ میں وارد ہوئی ہیں ۔ البتہ مرض کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان تھوڑا سا اختلاف ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ مرض کا عذر اس صورت میں صحیح ہو گا جب کہ یا تو اس کے زائل ہونے کی امید نہ ہو ، یا روزوں سے مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو ۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر روزوں سے ایسی شدید مشقت لاحق ہوتی ہو جس سے آدمی کو یہ خطرہ ہو کہ دو مہینے کے دوران میں کہیں سلسلہ منقطع نہ کرنا پڑے ، تو یہ عذر بھی صحیح ہو سکتا ہے ۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ اگر آدمی کا گمان غالب یہ ہو کہ وہ مستقبل میں روزہ رکھنے کے قابل ہو سکے گا تو انتظار کر لے ، اور اگر گمان غالب اس قابل نہ ہو سکنے کاہو تو مسکینوں کو کھانا کھلا دے ۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ روزے سے مرض بڑھ جانے کا اندیشہ بالکل کافی عذر ہے ۔ ب ۔ کھانا صرف ان مساکین کو دیا جا سکتا ہے جن کا نفقہ آدمی کے ذمہ واجب نہ ہوتا ہو ۔ ج ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ کھانا مسلمان اور ذمی ، دونوں قسم کے مساکین کو دیا جا سکتا ہے ، البتہ حربی اور مستامن کفار کو نہیں دیا جا سکتا ۔ مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ صرف مسلمان مساکین ہی کو دیا جا سکتا ہے ۔ د ۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ کھانا دینے سے مراد دو وقت کا پیٹ بھر کھانا دینا ہے ۔ البتہ کھانا دینے کے مفہوم میں اختلاف ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ دو وقت کی شکم سیری کے قابل غلہ دے دینا ، یا کھانا پکا کر دو وقت کھلا دینا ، دونوں یکساں صحیح ہیں ، کیونکہ قرآن مجید میں اِطعام کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خوراک دینے کے بھی ہیں اور کھلانے کے بھی ۔ مگر مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ پکا کر کھلا نے کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ غلہ دے دینا ہی ضروری قرار دیتے ہیں غلہ دینے کی صورت میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ وہ غلہ دینا چاہیے جو اس شہر یا علاقے کے لوگوں کی عام غذا ہو ۔ اور سب مسکینوں کو برابر دینا چاہیے ۔ ھ ۔ حنفیہ کے نزدیک اگر ایک ہی مسکین کو 60 دن تک کھانا دیا جائے تو یہ بھی صحیح ہے ، البتہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ایک ہی دن اسے 60 دنوں کی خوراک دے دی جائے ۔ لیکن باقی تینوں مذاہب ایک مسکین کو دینا صحیح نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک 60 ہی مساکین کو دینا ضروری ہے ۔ اور یہ بات چاروں مذاہب میں جائز نہیں ہے کہ 60 آدمیوں کو ایک وقت کی خوراک اور دوسرے 60 آدمیوں کو دوسرے وقت کی خوراک دی جائے ۔ و ۔ یہ بات چاروں مذاہب میں سے کسی میں جائز نہیں ہے کہ آدمی 30 دن کے روزے رکھے اور 30 مسکینوں کو کھانا دے ۔ دو کفارے جمع نہیں کیے جا سکتے ۔ روزے رکھنے ہوں تو پورے دو مہینوں کے مسلسل رکھنے چاہییں ۔ کھانا کھلانا ہو تو 60 مسکینوں کو کھلایا جائے ۔ ز ۔ اگر چہ قرآن مجید میں کفارہ طعام کے متعلق یہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے ہیں کہ یہ کفارہ بھی زوجین کے ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے ادا ہونا چاہیے ، لیکن فحوائے کلام اس کا مقتضی ہے کہ اس تیسرے کفارے پر بھی اس قید کا اطلاق ہو گا ۔ اسی لیے ائمہ اربعہ نے اس کو جائز نہیں رکھا ہے کہ کفارہ طعام کے دوران میں آدمی بیوی کے پاس جائے ۔ البتہ فرق یہ ہے کہ جو شخص ایسا کر بیٹھے اس کے متعلق حنابلہ یہ حکم دیتے ہیں کہ اسے از سر جو کھانا دینا ہو گا ۔ اور حنفیہ اس معاملہ میں رعایت کرتے ہیں ، کیونکہ اس تیسرے کفارے کے معاملے میں مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَا سَّا کی صراحت نہیں ہے اور یہ چیز رعایت کی گنجائش دیتی ہے ۔ یہ احکام نقہ کی حسب ذیل کتابوں سے اخذ کیے گئے ہیں : فقہ حنفی: ہدایہ ۔ فتح اقدیر ۔ بدایع الصنائع ۔ احکام القرآن للجصاص ۔ فقہ شافعی: المنہاج للنوَوِی مع شرح مغنی المحتاج ۔ تفسیر کبیر ۔ فقہ مالکی: حادیۃ الد سَوقی علی اشرح الکبری ۔ ہدایۃ المجتہد ۔ احکام القرآن ابن عربی ۔ فقہ حنبلی: المغنی لابن قدامہ ۔ فقہ ظاہری: المحلّیٰ لا بن حزُم ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :12 یہاں ایمان لانے سے مراد سچے اور مخلص مومن کا سا رویہ اختیار کرنا ہے ۔ ظاہر ہے کہ آیت کے مخاطب کفار و مشرکین نہیں ہیں ، بلکہ مسلمان ہیں جو پہلے ہی ایمان لائے ہوئے تھے ان کو شریعت کا ایک حکم سنانے کے بعد یہ فرمانا کہ یہ حکم تم کو اس لیے دیا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ جو شخص خدا کے اس حکم کو سننے کے بعد بھی جاہلیت کے پرانے رواجی قانون کی پیروی کرتا رہے اس کا یہ طرز عمل ایمان کے منافی ہو گا ۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جب زندگی کے کسی معاملہ میں اس کے لیے ایک قانون مقرر کر دے تو وہ اس کو چھوڑ کر دنیا کے کسی دوسرے قانون کی پیروی کرے ، یا اپنے جنس کی خواہشات پر عمل کر تا رہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :13 یہاں کفر سے مراد منکر خدا و رسالت نہیں ہے ، بلکہ وہ شخص ہے جو خدا و رسول کو ماننے کا اقرار و اظہار کرنے کے بعد بھی وہ طرز عمل اختیار کرے جو ایک کافر کے کرنے کا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ دراصل کافروں کا کام ہے اللہ اور اس کے رسول کا حکم سننے کے بعد بھی اپنی مرضی چلاتے رہیں ، یا جاہلیت کے طریقوں ہی کی پیروی کرتے رہیں ۔ ورنہ سچے دل سے ایمان لانے والا تو کبھی یہ رویہ اختیار نہیں کر سکتا ۔ یہی بات سورہ آل عمران میں بھی حج کی فرضیت کا حکم دینے کے بعد فرمائی گئی ہے کہ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ العٰلَمِیْنَ ، اور جو کفر کرے ( یعنی اس حکم کی اطاعت نہ کرے ) تو اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۔ ان دونوں مقامات پر کفر کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے کہ جو شخص بھی ظہار کرنے کے بعد کفارہ ادا کیے بغیر بیوی سے تعلق رکھے ، یا یہ سمجھے کہ ظہار ہی سے بیوی کو طلاق ہو گئی ہے ، یا استطاعت کے باوجود حج نہ کرے ، اسے قاضی شرع کافر و مرتد ٹھہرا دے اور سب مسلمان اسے خارج از اسلام قرار دے دیں ۔ بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسے لوگوں کا شمار مومنین میں نہیں ہے جو اس کے احکام کو قول یا عمل سے رد کر دیں اور اس امر کی کوئی پروا نہ کریں کہ ان کے رب نے ان کے لیے کیا حدود مقرر کی ہیں ، کن چیزوں کو فرض کیا ہے ، کن چیزوں کو حلال کیا ہے اور کیا چیزیں حرام کر دی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(58:4) فمن لم یجد : ف تعقیب کا ہے من موصولہ، لم یجد صلہ۔ اس کا مفعول محذوف ہے ۔ ای فمن لم یجد رقبۃ۔ پھر جس جو غلام میسر نہ ہو۔ فصیام شھرین متتابعین ای فعلیہ صیام شھرین متتابعین۔ تو اس کے ذمہ لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں۔ ف تعقیب کا ہے صیام مضاف۔ شھرین متتابعین موصوف مل کر مضاف الیہ۔ متتابعین : اسم فاعل تثنیہ مذکر تتابع (تفاعل) مصدر سے بمعنی پے در پے لگاتار۔ شھرین : دو مہینے، شھر سے تثنیہ کا صیغہ۔ فمن لم یستطع۔ ای فمن لم یستطع صیام شھرین متتابعین۔ پھر جو طاقت نہ رکھے دو مہینوں کے لگاتار روزوں کی۔ فاطعام۔ ای فعلیہ اطعام ستین مسکینا۔ تو اس کے ذمہ ہے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ وللکفرین عذاب الیم : کفرین : ای الذین یتعدونھا ولا یعلمون بھا والطلق الکافر علی متعدی الحدود تغلیظا بزجرہ ونظیر ذلک قولہ تعالیٰ ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین (3:97) یعنی وہ لوگ جو حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور ان پر عمل نہیں کرتے ان لوگوں کو کافر اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کو سختی سے باز رکھا جائے جس طرح ومن کفر ۔۔ میں کفر سے مراد حقیقی کفر نہیں بلکہ زجرو توبیخ کے لئے انکار کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (روح المعانی، ضیاء القرآن) تلک اسم اشارہ ہے۔ واحد مذکر۔ یعنی یہ کفارہ کا متبادل حکم ۔ ومحلہ النصب بفعل معلل بقولہ لتومنوا ۔ اوالرفع علی الابتداء (تفسیر حقانی) لتؤمنوا۔ لام تعلیل کا ہے تؤمنوا اصل میں تؤمنون تھا۔ لام علت کے عمل سے نون غر گیا۔ (یہ حکم اس لئے بیان کیا گیا کہ اللہ اور اللہ کے رسول پر ایمان لے آؤ) ۔ یہاں ایمان سے مراد احکام شرعیہ پر عمل ہے جیسے کہ آیت وما کان اللہ لیضیع ایمانکم (2:143) میں ایمان سے مراد نماز ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اگر بلا عذر ایک روزہ بھی ناغہ کرے تواز سر نو دو مہینے کے روزے رکھے اور اگر عذر سے ناغہ کرے۔ (جیسے سفر یا بیماری کی وجہ سے) تو امام سعید بن مسیب حسن بصری مالک اور شافعی کہتے ہیں کہ صرف بقیہ روزے پورے اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ دوبارہ از سر نو دو مہینے کے روزے رکھے۔ (فتح القدیر)5 ضروری نہیں کہ سب کو ایک وقت میں کھانا کھلائے، بلکہ یہ جائز ہے کہ بعض کو ایک دن کھانا کھلائے اور بعض کو کسی اور دن۔ (فتح القدیر)6 اصل لفظ کافرین استعمال ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکموں کہو نہیں مانتے، وہ حقیقت میں کافر ہیں چاہے مردم شماری کی رو سے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہوں۔7 حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ جب ظہار کا یہ حکم نازل ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خولہ سے فرمایا :” جائو اپنے خاوند سے کہو کہ ایک غلام آزاد کرے۔ “ خولہ نے کہا ” یا رسول اللہ ! وہ غریب سے اور اس کے لئے غلام آزاد کرنا ممکن نہیں۔ “ فرمایا ” تو اسے چاہیے کہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے۔ خولہ نے کہا ” اللہ کی قسم وہ بہت بوڑھا ہے۔ روزے رکھنے کی اس میں طاقتن ہیں۔ فرمایا ” تو اسے چاہیے کہ ایک وسق کھجوریں ساٹھ مسکینوں کو کھلائے۔ “ خولہ نے کہا ” اس کے لئے ایسا کرن ابھی ممکن نہیں۔ “ فرمایا ” اچھا تو میں ایک عرق پیمانہ کھجوریں دے کر اس کی مدد کروں گا۔ “ خولہ نے کہا ایک عرق میں دونگی فرمایا تم نے بہت اچھا کیا جائو اتنی کھجوریں اس کی طرف سے صدقہ کردو اور اپنے چچا کے لڑکے یعنی اپنے شوہر سے اچھا برتائو کیا کرو۔ “ (فتح القدیر بحوالہ بہیقی ابن مردویہ وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ (مسئلہ 1) ظہار کے معنی ہیں اپنی بی بی کو کسی ایسی عورت کے جو اس شخص پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو (جیسے ماں، بہن، بیٹی وغیرہ) کسی ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کی طرف بلا ضرورت نظر کرنا حرام ہے، جیسے ظہر اور بطن اور فخذ وغیرہ۔ (مسئلہ 2) بدون کفارہ ادا کئے ہوئے صحبت اور دواعی صحبت حرام ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فمن لم ................ مسکینا (٨٥ : ٤) ” اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ “ اب اس قانون کے توضیحی بیان اور مسلمانوں کو ہدایت کے لئے تبصرہ آتا ہے۔ ذلک لتومنو باللہ ورسولہ (٨٥ : ٤) ” یہ حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ “ وہ تو پہلے سے مومن ہیں ؟ لیکن یہ بیان کہ یہ کفارات اور جرمانے اور ان کے حالات کو اللہ کے احکام وقوانین سے مربوط کرنے سے ایمان میں قوت اور اضافہ ہوتا ہے۔ عملی زندگی ایمان کے ساتھ مربوط ہوتی ہے اور عملی زندگی پر ایمان کا کنٹرول قائم ہوتا ہے۔ وتلک ........................ الیم (٨٥ : ٤) ” یہ اللہ کی مقرر کی گئی ہوئی حدیں ہیں ، اور کافروں کے لئے درد ناک سزا ہے۔ “ یہ حدیں اللہ نے اس لئے قائم کی ہیں کہ لوگ ان حدوں سے آگے نہ بڑھ جائیں۔ اور جو شخص ان کا خیال نہیں رکھتا اور ان سے ادھر ہی رک کر نہیں رہتا اس کے غضب کا مستحق ہوتا ہے۔ وللکفرین عذاب الیم (٨٥ : ٤) ” اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “ کیونکہ وہ ظلم کرتے ہیں ، اللہ کو چیلنج کرتے ہیں ، ایمان نہیں لاتے۔ اللہ کی حدود پر نہیں رکھتے ، جس طرح اہل ایمان رکتے ہیں۔ یہ آخری عبارت وللکفرین عذاب الیم (٨٥ : ٤) ” اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “ سابقہ آیت کے خاتمے کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور آنے والی آیت کا سابق آیت کے ساتھ رابطہ بھی قائم کردیتی ہے۔ جس کا موضوع یہ ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہیں وہ ذلیل ہوکر رہیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ﴿ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَآسَّا ﴾ (سو جو شخص غلام نہ پائے تو اس کے ذمہ لگا تار دو مہینے کے روزے رکھنا ہے اس سے پہلے کہ آپس میں ایک دوسرے کو چھوئیں) یہ کفارہ ظہار کا حکم نمبر ٢ ہے اور علی سبیل التنزیل ہے مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو غلام آزاد کرنے کی قدرت نہ ہو (مال ہی نہ ہو یا غلام ہی نہ ملتے ہوں جیسا کہ آج کل شرعی جہاد نہ کرنے کی وجہ سے مسلمان غلاموں اور باندیوں سے محروم ہیں) تو دو ماہ کے لگاتار روزے رکھے اور جب تک بلاناغہ پورے دو ماہ کے روزے نہ رکھ لے دونوں میاں بیوی الگ رہیں۔ پھر فرمایا ﴿ فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّيْنَ مِسْكِيْنًا ﴾ (سو جسے مذکورہ روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو اس کے ذمہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا باللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ١ؕ﴾۔ (یہ اس لئے ہے کہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ) یعنی اس کے سب احکام کی تصدیق کرو اور ایمان پر جمے رہو، (اور یہ اللہ کی حدود ہیں ان کے مطابق عمل کرو حد سے آگے مت بڑھو۔ اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے) جو اللہ کے احکام کی تصدیق نہیں کرتے۔ مسائل ضرور یہ متعلقہ ظہار مسئلہ : اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو اپنی ماں کے پیٹ ران یا شرم گاہ سے تشبیہ دیدی تب بھی ظہار ہوجائے گا۔ مسئلہ : اگر اپنی بہن یا پھوپھی یار ضاعی والدہ کے مذکورہ بالا اعضاء پشت، پیٹ، ران، شرم گاہ، سے تشبیہ دی تب بھی ظہار ہوجائے گا۔ مسئلہ : اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم میری ماں کی طرح سے ہو (کسی عضو سے تشبیہ نہیں دی) تو اس کے بارے میں اس سے دریافت کیا جائے گا کہ تیری نیت کیا تھی اگر یوں کہے کہ میں نے طلاق کی نیت سے کہا تھا تو طلاق بائن مانی جائے گی اور اگر یوں کہے کہ میری نیت ظہار کی تھی تو ظہار کا حکم نافذ ہوگا اور اگر یوں کہا کہ میری کچھ بھی نیت نہ تھی یا یوں کہا کہ میرا یہ مطلب تھا کہ جیسے میری والدہ محترم ہیں اسی طرح تم بھی قابل احترام ہو تو اس سے کچھ نہ ہوگا۔ مسئلہ : غلام آزاد کرنے میں غلام کا مرد اور بالغ ہونا ضروری نہیں ہے مرد ہو یا عورت، مسلمان ہو یا کافر بالغ ہو یا نا بالغ ہر ایک کے آزاد کرنے سے کفارہ ادا ہوجائے گا مگر اندھایا دونوں ہاتھ یا دونوں پیر کٹے ہوئے نہ ہوں۔ مسئلہ : جب دو مہینے کے روزے رکھے تو اس میں رمضان کے روزے حساب میں نہیں لگ سکتے کیونکہ وہ پہلے سے فرض ہیں، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ ان میں سے کوئی روزہ ان دنوں میں نہ ہو جن میں شرعاً روزہ رکھنا منع ہے۔ مسئلہ : اگر کسی نے کفارہ ظہار کے روزے رکھنے کے درمیان رات کو جماع کرلیا تو نئے سرے سے روزے رکھنا لازم ہوگا اور دن کو جماع کرنے سے تو روزہ ہی ٹوٹ جائے گا جس سے لگا تار والی شرط کا فوت ہوجانا ظاہر ہے اور چونکہ ﴿مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَآسَّا﴾ کا عموم رات کے جماع کرنے کو بھی شامل ہے اس لئے رات کو جماع کرنے سے بھی لگا تار والی شرط کی مخالفت ہوجائے گی۔ مسئلہ : کھانا کھلانے کی صورت میں اگر ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح شام پیٹ بھر کھانا کھلایا یا ساٹھ مسکینوں کو ایک دن میں صبح شام پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیا تو کفارہ ادا ہوجائے گا، اگر ساٹھ دن تک کسی مسکین کو آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع کھجوریا جو یا ان کی قیمت دیتا رہا تو ان صورتوں میں کفارہ ادا ہوجائے گا۔ مسئلہ : اگر ظہار کرنے کے بعد عورت کو طلاق دیدی یا مرگئی تو کفارہ ساقط ہوجائے گا لیکن توبہ کرنا پھر بھی لازم ہے۔ قال صاحب روح المعانی : والموصول مبتدا، وقولہ تعالیٰ ﴿فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ﴾ مبتدا آخر خبرہ مقدر ای فعلیھم تحریر رقبة او فاعل فعل مقدر ای فیلزمھم تحریر، او خبر مبتدا مقدر ای فالوا جب علیھم (تحریر) وعلی التقادیر الثلاثة الجملۃ خبر الموصول و دخلتہ الفاء لتضمن المبتدا معنی الشرط وما موصولة او مصدریة واللام متعلقة (یعودون) وھو یتعدی بھا کما یتعدی بالی وبفی۔ فلا حاجة الی تاویلہ باحدھما کمافعل البعض، والعود لما قالوا علی المشھور عند الحنفیة العزم علی الوطء کانہ حمل العود علی التدارک مجازا لان التدارک من اسباب العود الی الشیء والذین یقولون ذٰلک القول المنکر ثم یتدار کونہ بنقضہ وھو العزم علی الوطء فالوا جب علیھم اعتاق رقبة۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” فمن لم یجد “ کفارہ ظہار کی دوسری صورت، جس کی مالی حالت کمزور ہو اور وہ غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس پر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے لازم ہیں۔ اس میں ایک شرط تو وہی ہے کہ بیوی کے پاس جانے سے پہلے دو ماہ کے روزے رکھے دوسری شرط یہ ہے کہ روزے لگاتار رکھے اور درمیان میں ناغہ نہ کرے۔ اگر کسی شخص نے دو ماہ کے دوران ایک دن کا روزہ ناغہ کردیا، یا اس دوران میں رات کو اس بیوی سے صحبت کرلی جس سے ظہار کیا ہے تو دونوں صورتوں میں از سر نو دو ماہ کے متواتر روزے رکھنے لازم ہوں گے۔ ٖ 6:۔ ” فمن لم یستطع “ یہ کفارہ ظہار کی تیسری صورت ہے۔ اگر کوئی شخص بیماری یا بڑھاپے یا کسی دوسرے مانع کی وجہ سے روزے رکھنے سے قاصر ہو تو اس کے لیے کفارہ ظہار ادا کرنے کی صورت یہ ہے کہ وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے اس کی کئی صورتیں ہیں۔ اول ایک مسکین کو ساٹھ دن دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلا دے۔ دوم، ساٹھ مسکینوں کو ایک ہی دن میں دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلا دے۔ سوم، ساٹھ آدمیوں کو فی کس دو سیر گندم یا گندم کا آٹا فی کس چار سیر جو یا جو کا آٹا دیدے۔ ان صورتوں میں سے جو صورت چاہے اختیار کرے کفارہ ادا ہوجائیگا۔ کفارہ ظہار کی تیسری صورت میں مجامعت پر اس کی تقدیم شرط نہیں۔ اگر کسی شخص نے ایک مسکین کو ایک ماہ یا کم و بیش کھانا کھلانے کے بعد بیوی سے صحبت کرلی تو اس میں کوئی حرج نہیں کھانا کھلانا از سرِ نو لازم نہیں ہوگا۔ ” ذلک لتومنوا باللہ ورسولہ “ یہ حدود و احکام اس لیے بیان کیے گئے ہیں تاکہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنا ایمان قائم رکھو اور ان کے احکام کی تعمیل کرو۔ یہ احکام و شرائع اللہ کی حدود ہیں جن کی پابندی کرنا اہل ایمان کا شیوہ ہے۔ لیکن کفار جو اللہ کی حدود کو توڑتے اور شرائع الٰہیہ پر طعن کرتے ہیں ان کے لیے نہایت دردناک عذاب تیار ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) پھر جو بردہ یعنی غلا یا باندی آزاد کرنے کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اس کے ذمے اس سے پہلے کہ وہ میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں دو مہینے کے لگاتار اور پے درپے روزے ہیں پھر جو دو مہینے کے روزوں کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس کے ذمے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے یہ حکم اس لئے ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور یہ احکام اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور منکروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بردے کا مقدور ہو تو روزہ نہیں روزہ ہوسکے تو کھانا نہیں آخر کو کھانا ہے اگر پکار کر کھلادے تو سالن روٹی دو وقت کھلادے پیٹ بھر کر اور اگر اناج دے تو ہر ہر کو دوسیر گیہوں۔ خلاصہ : یہ کہ کفارے میں ترتیب ہے اگر کسی عاقل بالغ مسلمان نے اپنی بیوی سے ظہار کیا ظہار یہ کہ اپنی بیوی کے پیٹ یا پیٹھ کو یا سر کو یا اور کسی عضو کو جس کو چھپانا اور مستور رکھنا ضرور ی ہے اس عضو کو اپنی ماں بہن یا کسی ذی رحم محرم کے عضو سے تشبیہہ دے یہ ذی رحم محرم نسب سے ہو یا رضاعت سے یا مصاہرت سے یا جماع سے بہرحال یہ ظہار ہے مثلاً کوئی مسلمان اپنی بیوی سے یوں کہے۔ انت علی کظھر احتی من الرضاع اور عمتی من النسب اور امراۃ ابنی اوابی ادام امر اتی اوابن تھا یعنی تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری دود شریک بہن کی پیٹھ یا میری پھوپھی کی پیٹھ یا میرے بیٹے کی بیوی یا میرے باپ کی بیوی کی پیٹھ یا میری بیوی کی ماں کی پیٹھ یا میری مدخول بہا بیوی کی لڑکی کا پیٹ۔ غرض یہ تمام صورتیں ظہار کی ہیں ظہار کے بعد اگر عورت سے ملنے کا قصد کرے یعنی پھر اس کو بیوی بنا کر رکھنا چاہے تو ہاتھ لگانے سے قبل کفارہ ادا کرے کفارہ یہی پہلے غلام یا لونڈی آزاد کرے اگر اس کی توفیق نہ ہو یعنی قوت خرید نہ ہو یا اس کے ملک میں لونڈی غلام کا دستور نہ ہو تو پے درپے روزے رکھے اگر بیچ میں کوئی روزہ رہ گیا تو ازسر نو شروع کرے، دو مہینوں کے روزوں کی استطاعت نہ ہو تو پھر ساٹھ مساکین کو دو وقت کھانا کھلائے اگر کفارہ ادا کرنے کے درمیان عورت سے مل لیا تو کفارہ پھر سے ادا کرنا ہوگا، مثلاً نصف غلام آزاد کیا اور عورت کے پاس چلا گیا اور نصف غلام بعد میں آزاد کیا تو کفارہ بےکار ہوگیا یا ساٹھ روزے پورے کرنے سے پہلے عورت سے مل گیا تب بھی دوبارہ روزے رکھنے ہوں گے ۔ البتہ مساکین کو کھانا کھلانے میں یہ بات نہیں اگر مساکین کو کھانا کھلانے کے درمیان ایسی حرکت کی تو دوبارہ کفار ہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ مزید تفصیل مقامی علما سے دریافت کی جائے یا کتب فقہ کا مطالعہ کیا جائے۔ لتومنوا باللہ ورسولہ اس لئے فرمایا تاکہ تم اس کے حکم کی بجاآوری سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تصدیق کرنے والے بنو اور آسمانی شریعت کو اپنے باپ دادا کی رسموں کے مقابلے میں سچا سمجھو یہ اللہ تعالیٰ کے ضابطے اور اس کی باندھی ہوئی اور مقرر کی ہوئیں حدود ہیں۔ آخر میں منکروں کو تنبیہہ فرمائی کہ جو لوگ اللہ کی حدود کا انکار کرتے ہیں ان کو درد ناک عذاب ہونے والا ہے آگے اسی عذاب کا ذکر ہے دنیا میں بھی اس کا ہونا ممکن ہے اور آخرت میں تو اہل انکار کے لئے وہ عذاب یقینی ہے۔