Asserting the Greatness of the Qur'an
Allah the Exalted emphasizes the greatness of the Qur'an, its high status and of being worthy of making hearts humble and rent asunder upon hearing it, because of the true promises and sure threats that it contains,
لَوْ أَنزَلْنَا هَذَا الْقُرْانَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ
...
Had We sent down this Qur'an on a mountain, you would surely have seen it humbling itself and rent asunder by the fear of Allah.
If this is the case with a mountain which is hard and huge, that if it was made able to comprehend and understand this Qur'an, will feel humble and crumble from fear of Allah the Exalted, then what about you -- O mankind Why do your hearts not feel softness and humbleness from the fear of Allah, even though you understand Allah's command and comprehend His Book
This is why Allah said,
...
وَتِلْكَ الاَْمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
Such are the parables which We put forward to mankind that they may reflect.
There is a Hadith of the Mutawatir grade that states,
The Messenger of Allah had someone make him a Minbar. Before that, he used to stand next to a tree trunk in the Masjid to deliver speeches. So, when the Minbar was made and placed in the Masjid, the Prophet came to deliver a speech and passed the tree trunk, headed towards the Minbar, the tree trunk started weeping, just like an infant. The tree trunk missed hearing the remembrance of Allah and the revelation that were being recited next to it.
In one of the narrations for this Hadith, Al-Hasan Al-Basri said after narrating the Hadith,
"You - mankind -- are more worthy to miss the Messenger of Allah than the tree trunk!"
Likewise, this honorable Ayah asks that if the solid mountains feel humble and are rent asunder from the fear of Allah, if it heard Allah's Speech and comprehended it, what about you -- O mankind -- who heard the Qur'an and understood it Allah the Exalted said in another Ayah,
وَلَوْ أَنَّ قُرْانًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الاٌّرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى
And if there had been a Qur'an with which mountains could be moved, or the earth could be cloven asunder, or the dead could be made to speak. (13:31)
We mentioned the meaning of this Ayah as stating that, if there were a Qur'an that has these qualities, it would be this Qur'an.
Allah the Exalted said in another Ayah,
وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الاَنْهَـرُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَأءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ
And indeed, there are stones out of which rivers gush forth, and indeed, there are of them (stones) which split asunder so that water flows from them, and indeed, there are of them which fall down for fear of Allah. (2:74)
Glorifying Allah the Exalted by mentioning His Names and Attributes
Allah the Exalted said,
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ
عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ
بلند و عظیم مرتبہ قرآن مجید
قرآن کریم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فی الواقع یہ پاک کتاب اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ دل اس کے سامنے جھک جائیں ، رونگٹے کھڑے ہو جائیں ، کلیجے کپکپائیں ، اس کے سچے وعدے اور اس کی حقانی ڈانٹ ڈپٹ ہر سننے والے کو بید کی طرح تھرادے ، اور دربار اللہ میں سریہ سجود کرا دے ، اگر یہ قرآن جناب باری کسی سخت بلند اور اونچے پہاڑ پر بھی نازل فرماتا اور اسے غور و فکر اور فہم و فراست کی حس بھی دیتا تو وہ بھی اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا ، پھر انسانوں کے دلوں پر جو نسبتاً بہت نرم اور چھوٹے ہیں ۔ جنہیں پوری سمجھ بوجھ ہے ، اس کا بہت بڑا اثر پڑنا چاہئے ، ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے ان کے غور و فکر کے لئے اللہ تالیٰ نے بیان فرما دیا ، مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو بھی ڈر اور عاجزی چاہئے ، متواتر حدیث میں ہے کہ منبر تیار ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بن گیا ، بچھ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور وہ تنادور ہو گیا ، تو اس میں سے رونے کی آواز آنے لگی اور اس طرح سسکیاں لے لے کر وہ رونے لگا جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر روتا ہو اور اسے چپ کرایا جا رہا ہو کیونکہ وہ ذکر وحی کے سننے سے کچھ دور ہو گیا تھا ۔ امام بصری اس حدیث کو بیان کر کے فرماتے تھے کہ لوگو ایک کھجور کا تنا اس قدر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شائق ہو تو تمہیں چاہئے کہ اس سے بہت زیادہ شوق اور چاہت تم رکھو ۔ اسی طرح کی یہ آیت ہے کہ جب ایک پہاڑ کا یہ حال ہو تو تمہیں چاہئے کہ تم تو اس حالت میں اس سے آگے رہو اور جگہ فرمان اللہ ہے ( ترجمہ ) یعنی اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ اس کے باعث پہاڑ چلا دیئے جائیں یا زمین کاٹ دی جائے یا مردے بول پڑیں ( تو اس کے قابل یہی قرآن تھا ) ( مگر پھر بھی ان کفار کو ایمان نصیب نہ ہوتا ) اور جگہ فرمان عالی شان ہے ( ترجمہ ) الخ ، یعنی بعض پتھر ایسے ہیں جن میں سے نہریں بہ نکلتی ہیں بعض وہ ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی نکلتا ہے بعض اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ تو کوئی پالنے اور پرورش کرنے والا ہے ، نہ اس کے سوا کسی کی ایسی نشانیاں ہیں کہ اس کی کسی قسم کی عبادت کوئی کرے اس کے سوا جن جن کی لوگ پرستش اور پوجا کرتے ہیں وہ سب باطل ہیں ، وہ تمام کائنات کا علم رکھنے والا ہے ، جو چیزیں ہم پر ظاہر ہیں اور جو چیزیں ہم سے پوشیدہ ہیں سب اس پر عیاں ہیں ، خواہ آسمان میں ہو خواہ زمین میں ہوں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ہوں یہاں تک کہ اندھیریوں کے ذرے بھی اس پر ظاہر ہیں ، وہ اتنی بڑی وسیع رحمت والا ہے کہ اس کی رحمت تمام مخلوق پر محیط ہے ، وہ دنیا اور آخرت میں رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے ، ہماری تفسیر کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گذر چکی ہے ، قرآن کریم میں اور جگہ ہے ۔ ( ترجمہ ) میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر لای ہے اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحم و رحمت لکھ لی ہے ۔ اور فرمان ہے ( ترجمہ ) کہدو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ساتھ ہی خوش ہونا چاہئے تمہاری جمع کردہ چیز سے بہتر یہی ہے ۔ اس مالک رب معبود کے سوا اور کوئی ان اوصاف والا نہیں ، تمام چیزوں کا تنا وہی مالک و مختار ہے ہر چیز کا ہیر پھیر کرنے والا سب پر قبضہ اور تصرف رکھنے والا بھی وہی ہے کوئی نہیں جو اس کی مزاحمت یا مدافعت کر سکے یا اسے ممانعت کر سکے ، وہ قدوس ہے یعنی طاہر ہے ، مبارک ہے ، ذاتی اور صفاتی نقصانات سے پاک ہے تمام بلند مرتبہفرشتے اور سب کی سب اعلیٰ مخلوق اس کی تسبیح و تقدیس میں علی الدوام مشغول ہے کل عیبوں اور نقصانوں سے مبرا اور منزہ ہے ، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اپنے افعال میں بھی اس کی ذات ہر طرح کے نقصان سے پاک ہے ، وہ مومن ہے یعنی تمام مخلوق کو اس نے اس بات سے بےخوف رکھا ہے کہ ان پر کسی طرح کا کسی وقت اپنی طرف سے ظلم ہو ، اس نے یہ فرما کر کہ یہ حق ہے سب کو امن دے رکھا ہے ، اپنے ایماندار بندوں کے ایمان کی تصدیق کرتا ہے ، وہ مہیمن ہے یعنی اپنی تمام مخلوق کے اعمال کا ہر وقت یکساں طور شاہد ہے اور نگہبان ہے ، جیسے فرمان ہے ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد ہے اور فرمان ہے ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال پر گواہ ہے اور جگہ فرمایا ( ترجمہ ) الخ مطلب یہ ہے کہ ہر نفس جو کچھ کر رہا ہے اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے ، وہ عزیز ہے ہر چیز اس کے تابع فرمان ہے کل مخلوق پر وہ غالب ہے پس اس کی عزت عظمت جبروت کبریائی کی وجہ سے اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ، وہ جبار اور متکبر ہے ، جبریت اور کبر صرف اسی کے شایان شان ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عظمت میرا تہمد ہے اور کبریائی میری چادر ہے جو مجھ سے ان دونوں میں سے کسی کو چھیننا چاہے گا میں اسے عذاب کروں گا ، اپنی مخلوق کو جس چیز پر چاہے وہ رکھ سکتا ہے ، کل کاموں کی اصلاح اسی کے ہاتھ ہے ، وہ ہر برائی سے نفرت اور دوری رکھنے والا ہے ، جو لوگ اپنی کم سمجھی کی وجہ سے دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرا رہے ہیں وہ ان سب سے بیزار ہے ، اس کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے ، اللہ تعالیٰ خالق ہے یعنی مقدر مقرر کرنے والا ، پھر باری ہے یعنی اسے جاری اور ظاہر کرنے والا ، کوئی ایسا نہیں کہ جو تقدیر اور تنقید دونوں پر قادر ہو جو چاہے اندازہ مقرر کرے اور پھر اسی کے مطابق اسے چلائے بھی کبھی بھی اس میں فرق نہ آنے دے ، بہت سے ترتیب دینے والے اور اندازہ کرنے والے ہیں جو پھر اسے جاری کرنے اور اسی کے مطابق برابر جاری رکھنے پر قادر نہیں ، تقدیر کے ساتھ ایجاد اور تنقید پر بھی قدرت رکھنے والی اللہ کی ہی ذات ہے ، پس خلق سے مراد تقدیر اور برء سے مراد تنفیذ ہے ، عرب میں یہ الفاظ ان معنوں میں برابر بطور مثال کے بھی مروج ہیں ، اسی کی شان ہے کہ جس چیز کو جب جس طرح کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی طرح اسی صورت میں ہو جاتی ہے جیسے فرمان ہے ( ترجمہ ) جس صورت میں اس نے چاہا تجھے ترکیب دی ، اسی لئے یہاں فرماتا ہے ہو مصور بےمثل ہے یعنی جس چیز کی ایجاد جس طرح کی چاہتا ہے کہ گذرتا ہے ۔ پیارے پیارے بہترین اور بزرگ تر ناموں والا وہی ہے ، سورہ اعراف میں اس جملہ کی تفسیر گذر چکی ہے ، نیز وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے جو بخاری مسلم میں بہ روایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں شمار کر لے یاد رکھ لے وہ جنت میں داخل ہو گا وہ وتر ہے یعنی واحد ہے اور اکائی کو دوست رکھتا ہے ، ترمذی میں ان ناموں کی صراحت بھی آئی ہے جو نام یہ ہیں ۔ اللہ کہ نہیں کوئی معبود مگر وہی ، رحمٰن ، رحمی ، ملک ، قدوس ، سلام ، مومن ، مہیمن ، عزیز ، جبار ، متکبر ، خالق ، باری ، مصور ، غفار ، قہار ، وہاب ، رزاق ، فتاح ، علیم ، قابض ، باسط ، خافض ، رافع معز ، ، سمیع ، بصیر ، حکم ، عدل ، لطیف ، خبیر ، حلیم ، عظیم ، غفور ، شکور ، علی ، کبیر ، حفیظ ، مقیت ، حسیب ، جلیل ، کریم ، رقیب ، مجیب ، واسع ، حکیم ، ودود ، مجید ، باعث ، شہید ، حق ، وکیل ، قوی ، متین ، ولی ، حمید ، محصی ، مبدی ، معید ، محی ، ممیت ، حی و قیوم ، واجد ، ماجد ، واحد ، صبر ، قادر ، مقتدر ، مقدم ، موخر ، اول ، آخر ، ظاہر ، باطن ، والی ، متعال ، بر ، تواب ، منتقم ، عفو ، رؤف ، مالک الملک ، ذوالجلا ، والا کرام ، مقسط ، جامع ، غنی ، مغنی ، معطی ، مانع ، ضار ، نافع ، نور ، ہادی ، بدیع ، باقی ، وارث ، رشید ، صبور ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں کچھ تقدیم تاخیر کمی زیادتی بھی ہے الغرض ان تمام احادیث وغیرہ کا بیان پوری طرح سورہ اعراف میں گذر چکا ہے اس لئے یہاں صرف اتنا لکھ دینا کافی ہے باقی سب کو دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ آسمان و زمین کی کل چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ، ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان میں جو مخلوق ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح حمد کے ساتھ بیان نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے بیشک وہ بردبار اور بخشش کرنے والا ہے ، وہ عزیز ہے اس کی حکمت والی سرکار اپنے احکام اور تقدیر کے تقدر میں ایسی نہیں کہ کسی طرح کی کمی نکالی جائے یا کوئی اعتراض قائم کیا جا سکے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص صبح کو تین مرتبہ ( ترجمہ ) پڑھ کر سورہ حشر کے آخر کی ( ان ) تین آیتوں کو پڑھ لے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے وہ بھی اسی حکم میں ہے ، ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے غریب بتاتے ہیں ۔ الحمد اللہ سورہ حشر کی تفسیر ختم ہوئی ۔