Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 21

سورة الحشر

لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱﴾

If We had sent down this Qur'an upon a mountain, you would have seen it humbled and coming apart from fear of Allah . And these examples We present to the people that perhaps they will give thought.

اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تو دیکھتا کہ خوف الٰہی سے وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Asserting the Greatness of the Qur'an Allah the Exalted emphasizes the greatness of the Qur'an, its high status and of being worthy of making hearts humble and rent asunder upon hearing it, because of the true promises and sure threats that it contains, لَوْ أَنزَلْنَا هَذَا الْقُرْانَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ... Had We sent down this Qur'an on a mountain, you would surely have seen it humbling itself and rent asunder by the fear of Allah. If this is the case with a mountain which is hard and huge, that if it was made able to comprehend and understand this Qur'an, will feel humble and crumble from fear of Allah the Exalted, then what about you -- O mankind Why do your hearts not feel softness and humbleness from the fear of Allah, even though you understand Allah's command and comprehend His Book This is why Allah said, ... وَتِلْكَ الاَْمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ Such are the parables which We put forward to mankind that they may reflect. There is a Hadith of the Mutawatir grade that states, The Messenger of Allah had someone make him a Minbar. Before that, he used to stand next to a tree trunk in the Masjid to deliver speeches. So, when the Minbar was made and placed in the Masjid, the Prophet came to deliver a speech and passed the tree trunk, headed towards the Minbar, the tree trunk started weeping, just like an infant. The tree trunk missed hearing the remembrance of Allah and the revelation that were being recited next to it. In one of the narrations for this Hadith, Al-Hasan Al-Basri said after narrating the Hadith, "You - mankind -- are more worthy to miss the Messenger of Allah than the tree trunk!" Likewise, this honorable Ayah asks that if the solid mountains feel humble and are rent asunder from the fear of Allah, if it heard Allah's Speech and comprehended it, what about you -- O mankind -- who heard the Qur'an and understood it Allah the Exalted said in another Ayah, وَلَوْ أَنَّ قُرْانًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الاٌّرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى And if there had been a Qur'an with which mountains could be moved, or the earth could be cloven asunder, or the dead could be made to speak. (13:31) We mentioned the meaning of this Ayah as stating that, if there were a Qur'an that has these qualities, it would be this Qur'an. Allah the Exalted said in another Ayah, وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الاَنْهَـرُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَأءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ And indeed, there are stones out of which rivers gush forth, and indeed, there are of them (stones) which split asunder so that water flows from them, and indeed, there are of them which fall down for fear of Allah. (2:74) Glorifying Allah the Exalted by mentioning His Names and Attributes Allah the Exalted said, هُوَ اللَّهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ

بلند و عظیم مرتبہ قرآن مجید قرآن کریم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فی الواقع یہ پاک کتاب اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ دل اس کے سامنے جھک جائیں ، رونگٹے کھڑے ہو جائیں ، کلیجے کپکپائیں ، اس کے سچے وعدے اور اس کی حقانی ڈانٹ ڈپٹ ہر سننے والے کو بید کی طرح تھرادے ، اور دربار اللہ میں سریہ سجود کرا دے ، اگر یہ قرآن جناب باری کسی سخت بلند اور اونچے پہاڑ پر بھی نازل فرماتا اور اسے غور و فکر اور فہم و فراست کی حس بھی دیتا تو وہ بھی اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا ، پھر انسانوں کے دلوں پر جو نسبتاً بہت نرم اور چھوٹے ہیں ۔ جنہیں پوری سمجھ بوجھ ہے ، اس کا بہت بڑا اثر پڑنا چاہئے ، ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے ان کے غور و فکر کے لئے اللہ تالیٰ نے بیان فرما دیا ، مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو بھی ڈر اور عاجزی چاہئے ، متواتر حدیث میں ہے کہ منبر تیار ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بن گیا ، بچھ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور وہ تنادور ہو گیا ، تو اس میں سے رونے کی آواز آنے لگی اور اس طرح سسکیاں لے لے کر وہ رونے لگا جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر روتا ہو اور اسے چپ کرایا جا رہا ہو کیونکہ وہ ذکر وحی کے سننے سے کچھ دور ہو گیا تھا ۔ امام بصری اس حدیث کو بیان کر کے فرماتے تھے کہ لوگو ایک کھجور کا تنا اس قدر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شائق ہو تو تمہیں چاہئے کہ اس سے بہت زیادہ شوق اور چاہت تم رکھو ۔ اسی طرح کی یہ آیت ہے کہ جب ایک پہاڑ کا یہ حال ہو تو تمہیں چاہئے کہ تم تو اس حالت میں اس سے آگے رہو اور جگہ فرمان اللہ ہے ( ترجمہ ) یعنی اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ اس کے باعث پہاڑ چلا دیئے جائیں یا زمین کاٹ دی جائے یا مردے بول پڑیں ( تو اس کے قابل یہی قرآن تھا ) ( مگر پھر بھی ان کفار کو ایمان نصیب نہ ہوتا ) اور جگہ فرمان عالی شان ہے ( ترجمہ ) الخ ، یعنی بعض پتھر ایسے ہیں جن میں سے نہریں بہ نکلتی ہیں بعض وہ ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی نکلتا ہے بعض اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ تو کوئی پالنے اور پرورش کرنے والا ہے ، نہ اس کے سوا کسی کی ایسی نشانیاں ہیں کہ اس کی کسی قسم کی عبادت کوئی کرے اس کے سوا جن جن کی لوگ پرستش اور پوجا کرتے ہیں وہ سب باطل ہیں ، وہ تمام کائنات کا علم رکھنے والا ہے ، جو چیزیں ہم پر ظاہر ہیں اور جو چیزیں ہم سے پوشیدہ ہیں سب اس پر عیاں ہیں ، خواہ آسمان میں ہو خواہ زمین میں ہوں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ہوں یہاں تک کہ اندھیریوں کے ذرے بھی اس پر ظاہر ہیں ، وہ اتنی بڑی وسیع رحمت والا ہے کہ اس کی رحمت تمام مخلوق پر محیط ہے ، وہ دنیا اور آخرت میں رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے ، ہماری تفسیر کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گذر چکی ہے ، قرآن کریم میں اور جگہ ہے ۔ ( ترجمہ ) میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر لای ہے اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحم و رحمت لکھ لی ہے ۔ اور فرمان ہے ( ترجمہ ) کہدو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ساتھ ہی خوش ہونا چاہئے تمہاری جمع کردہ چیز سے بہتر یہی ہے ۔ اس مالک رب معبود کے سوا اور کوئی ان اوصاف والا نہیں ، تمام چیزوں کا تنا وہی مالک و مختار ہے ہر چیز کا ہیر پھیر کرنے والا سب پر قبضہ اور تصرف رکھنے والا بھی وہی ہے کوئی نہیں جو اس کی مزاحمت یا مدافعت کر سکے یا اسے ممانعت کر سکے ، وہ قدوس ہے یعنی طاہر ہے ، مبارک ہے ، ذاتی اور صفاتی نقصانات سے پاک ہے تمام بلند مرتبہفرشتے اور سب کی سب اعلیٰ مخلوق اس کی تسبیح و تقدیس میں علی الدوام مشغول ہے کل عیبوں اور نقصانوں سے مبرا اور منزہ ہے ، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اپنے افعال میں بھی اس کی ذات ہر طرح کے نقصان سے پاک ہے ، وہ مومن ہے یعنی تمام مخلوق کو اس نے اس بات سے بےخوف رکھا ہے کہ ان پر کسی طرح کا کسی وقت اپنی طرف سے ظلم ہو ، اس نے یہ فرما کر کہ یہ حق ہے سب کو امن دے رکھا ہے ، اپنے ایماندار بندوں کے ایمان کی تصدیق کرتا ہے ، وہ مہیمن ہے یعنی اپنی تمام مخلوق کے اعمال کا ہر وقت یکساں طور شاہد ہے اور نگہبان ہے ، جیسے فرمان ہے ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد ہے اور فرمان ہے ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال پر گواہ ہے اور جگہ فرمایا ( ترجمہ ) الخ مطلب یہ ہے کہ ہر نفس جو کچھ کر رہا ہے اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے ، وہ عزیز ہے ہر چیز اس کے تابع فرمان ہے کل مخلوق پر وہ غالب ہے پس اس کی عزت عظمت جبروت کبریائی کی وجہ سے اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ، وہ جبار اور متکبر ہے ، جبریت اور کبر صرف اسی کے شایان شان ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عظمت میرا تہمد ہے اور کبریائی میری چادر ہے جو مجھ سے ان دونوں میں سے کسی کو چھیننا چاہے گا میں اسے عذاب کروں گا ، اپنی مخلوق کو جس چیز پر چاہے وہ رکھ سکتا ہے ، کل کاموں کی اصلاح اسی کے ہاتھ ہے ، وہ ہر برائی سے نفرت اور دوری رکھنے والا ہے ، جو لوگ اپنی کم سمجھی کی وجہ سے دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرا رہے ہیں وہ ان سب سے بیزار ہے ، اس کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے ، اللہ تعالیٰ خالق ہے یعنی مقدر مقرر کرنے والا ، پھر باری ہے یعنی اسے جاری اور ظاہر کرنے والا ، کوئی ایسا نہیں کہ جو تقدیر اور تنقید دونوں پر قادر ہو جو چاہے اندازہ مقرر کرے اور پھر اسی کے مطابق اسے چلائے بھی کبھی بھی اس میں فرق نہ آنے دے ، بہت سے ترتیب دینے والے اور اندازہ کرنے والے ہیں جو پھر اسے جاری کرنے اور اسی کے مطابق برابر جاری رکھنے پر قادر نہیں ، تقدیر کے ساتھ ایجاد اور تنقید پر بھی قدرت رکھنے والی اللہ کی ہی ذات ہے ، پس خلق سے مراد تقدیر اور برء سے مراد تنفیذ ہے ، عرب میں یہ الفاظ ان معنوں میں برابر بطور مثال کے بھی مروج ہیں ، اسی کی شان ہے کہ جس چیز کو جب جس طرح کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی طرح اسی صورت میں ہو جاتی ہے جیسے فرمان ہے ( ترجمہ ) جس صورت میں اس نے چاہا تجھے ترکیب دی ، اسی لئے یہاں فرماتا ہے ہو مصور بےمثل ہے یعنی جس چیز کی ایجاد جس طرح کی چاہتا ہے کہ گذرتا ہے ۔ پیارے پیارے بہترین اور بزرگ تر ناموں والا وہی ہے ، سورہ اعراف میں اس جملہ کی تفسیر گذر چکی ہے ، نیز وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے جو بخاری مسلم میں بہ روایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں شمار کر لے یاد رکھ لے وہ جنت میں داخل ہو گا وہ وتر ہے یعنی واحد ہے اور اکائی کو دوست رکھتا ہے ، ترمذی میں ان ناموں کی صراحت بھی آئی ہے جو نام یہ ہیں ۔ اللہ کہ نہیں کوئی معبود مگر وہی ، رحمٰن ، رحمی ، ملک ، قدوس ، سلام ، مومن ، مہیمن ، عزیز ، جبار ، متکبر ، خالق ، باری ، مصور ، غفار ، قہار ، وہاب ، رزاق ، فتاح ، علیم ، قابض ، باسط ، خافض ، رافع معز ، ، سمیع ، بصیر ، حکم ، عدل ، لطیف ، خبیر ، حلیم ، عظیم ، غفور ، شکور ، علی ، کبیر ، حفیظ ، مقیت ، حسیب ، جلیل ، کریم ، رقیب ، مجیب ، واسع ، حکیم ، ودود ، مجید ، باعث ، شہید ، حق ، وکیل ، قوی ، متین ، ولی ، حمید ، محصی ، مبدی ، معید ، محی ، ممیت ، حی و قیوم ، واجد ، ماجد ، واحد ، صبر ، قادر ، مقتدر ، مقدم ، موخر ، اول ، آخر ، ظاہر ، باطن ، والی ، متعال ، بر ، تواب ، منتقم ، عفو ، رؤف ، مالک الملک ، ذوالجلا ، والا کرام ، مقسط ، جامع ، غنی ، مغنی ، معطی ، مانع ، ضار ، نافع ، نور ، ہادی ، بدیع ، باقی ، وارث ، رشید ، صبور ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں کچھ تقدیم تاخیر کمی زیادتی بھی ہے الغرض ان تمام احادیث وغیرہ کا بیان پوری طرح سورہ اعراف میں گذر چکا ہے اس لئے یہاں صرف اتنا لکھ دینا کافی ہے باقی سب کو دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ آسمان و زمین کی کل چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ، ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان میں جو مخلوق ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح حمد کے ساتھ بیان نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے بیشک وہ بردبار اور بخشش کرنے والا ہے ، وہ عزیز ہے اس کی حکمت والی سرکار اپنے احکام اور تقدیر کے تقدر میں ایسی نہیں کہ کسی طرح کی کمی نکالی جائے یا کوئی اعتراض قائم کیا جا سکے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص صبح کو تین مرتبہ ( ترجمہ ) پڑھ کر سورہ حشر کے آخر کی ( ان ) تین آیتوں کو پڑھ لے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے وہ بھی اسی حکم میں ہے ، ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے غریب بتاتے ہیں ۔ الحمد اللہ سورہ حشر کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 اور پہاڑ میں فہم و ادراک کی صلاحیت پیدا کردیتے جو ہم نے انسان کے اندر رکھی ہے۔ 21۔ 2 یعنی قرآن کریم میں ہم نے بلاغت و فصاحت، قوت و استدلال اور وعظ تذکرہ کے ایسے پہلو بیان کئے ہیں کہ انہیں سن کر پہاڑ بھی باوجود اتنی سختی اور وسعت و بلندی کے خوف الٰہی سے ریزہ ریزۃ ہوجاتا۔ یہ انسان کو سمجھایا اور ڈرایا جا رہا ہے کہ تجھے عقل و فہم کی صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ لیکن قرآن سن کر تیرا دل کوئی اثر قبول نہیں کرتا تو تیرا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ 21۔ 3 تاکہ قرآن کے مواعظ سے وہ نصحیت حاصل کریں اور زواجر کو سن کر نافرمانیوں سے اجتناب کریں بعض کہتے ہیں کہ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے کہ ہم نے آپ پر یہ قرآن مجید نازل کیا جو ایسی عظمت شان کا حامل ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا لیکن یہ آپ پر ہمارا احسان ہے کہ ہم نے آپ کو اتنا قوی اور مضبوط کردیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کو برداشت کرلیا جس کو برداشت کرنے کی طاقت پہاڑوں میں بھی نہیں ہے۔ فتح القدیر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی صفات بیان فرما رہا ہے جس سے مقصود توحید کا اثبات اور شرک کی تردید ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] قرآن کی عـظمت اور انسان کی غفلت :۔ یعنی اگر پہاڑوں جیسی عظیم الجثہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ وہ سمجھ، اختیار اور عقل و شعور عطا کردیتا، جو انسان کو عطا کی گئی ہے پھر انہیں یہ بتایا جاتا کہ تمہیں اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنا ہوگا اور پھر تمہارے اعمال کی تم سے باز پرس بھی ہوگی تو وہ بھی اس تصور سے کانپ اٹھتے لیکن انسان کی بےحسی کا یہ عالم ہے کہ اس بار امانت کو اٹھا لینے کے بعد بھی اس پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ ہی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اگر اس نے اپنی زندگی غفلت اور خدا فراموشی میں گزار دی تو آخرت میں اپنے پروردگار کے سامنے کیا جواب دے گا اور اس کی گرفت سے کیسے بچ سکے گا۔ بلکہ وہ قرآن سن کر اور تمام حقائق پر مطلع ہونے کے بعد بھی ایسے غیر متاثر رہتا ہے جیسے کوئی بےجان اور بےشعور پتھر ہو۔ جسے ان بےجان چیزوں کے علاوہ کوئی انسانی قوتیں دی ہی نہیں گئیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ ۔۔۔۔: یعنی یہ یہود اور منافقین قرآن مجید کی آیات سننے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے ، حالانکہ وہ تو ایسی عظیم الشان اور پر تاثیر کتاب ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ بھی اللہ کے ڈر سے دب جاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ، جیسا کہ فرمایا :(ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ) (البقرہ : ٧٤)” پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں یا سختی میں ان سے بھی بڑھ کر ہیں “۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہاڑوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ادراک اور سوجھ بوجھ رکھی ہے۔ ان کے سامنے امانت پیش کی گئی ، مگر وہ اس سے ڈر گئے اور انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا۔ ( دیکھئے احزاب : ٧٢) پہاڑوں اور جمادات میں ادراک کے وجود کے لیے سورة ٔ بقرہ (٧٣) بنی اسرائیل (٤٤) ، بخل (٤٨، ٤٩) اور سورة ٔ ص (١٨) کی تفاسیر پر نظر ڈال لیں۔ ٢۔ وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ ۔۔۔۔۔ یعنی ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور و فکر کریں کہ ایسی زبردست تاثیر والی چیز بھی ان کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہورہی تو اس کا سبب کیا ہے ، پھر اس سبب کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ عَلَىٰ جَبَلٍ (Had We sent down this Qur&an to a mountain, ....59:21) This is a parable that Allah is using to illustrate the fact that if the Holy Qur&an were to be revealed on such strong, firm and unmovable mountain and endowed with intelligence like man, it would have submitted to the greatness of the Qur&an, nay, it would have crushed to pieces. But man is too selfish and proud. As a result, he has lost his natural intelligence and remains unaffected by the powerful message of the Qur&an. This, it would appear, is a hypothetical example, that is &if mountains had sense or intelligence. Some scholars have stated that reason and revelation both bear testimony to the fact that everything in nature has sense, perception and intelligence, be it a mountain or a tree. Therefore, this is not a hypothetical example. It is a stark reality. [ Mazhari ]. And Allah knows best!

(آیت) لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ ، یہ ایک تمثیل ہے کہ اگر قرآن پہاڑوں جیسی سخت اور ثقیل چیز پر اتارا گیا ہوتا اور جس طرح انسان کو فہم و شعور دیا گیا ہے ان کو بھی دے دیا جاتا تو پہاڑ بھی اس قرآن کی عظمت کے سامنے جھک جاتے بلکہ ریزہ ریزہ ہوجاتے، مگر انسان اپنی خواہش پرستی اور خود غرضی میں مبتلا ہو کر اپنے فطری شعور کو کھو بیٹھا، وہ قرآن سے متاثر نہیں ہوتا، گویا یہ ایک فرضی مثال ہے کہ پہاڑوں میں شعور ہوتا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ پہاڑوں اور درختوں اور دنیا کی تمام چیزوں میں شعور و ادراک ہونا عقل و نقل سے ثابت ہے، اس لئے یہ کوئی فرضی مثال نہیں حقیقت ہے (مظہری) واللہ اعلم۔ انسان کو آخرت کی فکر اور قرآن کی عظمت بتلانے کے بعد آخر میں حق تعالیٰ کی چند صفات کمال کا ذکر کر کے سورت کو ختم کیا گیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْـيَۃِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ۝ ٢١ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ خشع الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم/ 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] . ( خ ش ع ) الخشوع ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر ) صدع الصَّدْعُ : الشّقّ في الأجسام الصّلبة کالزّجاج والحدید ونحوهما . يقال : صَدَعْتُهُ فَانْصَدَعَ ، وصَدَّعْتُهُ فَتَصَدَّعَ ، قال تعالی: يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ [ الروم/ 43] ، وعنه استعیر : صَدَعَ الأمرَ ، أي : فَصَلَهُ ، قال : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] ، وکذا استعیر منه الصُّدَاعُ ، وهو شبه الاشتقاق في الرّأس من الوجع . قال : لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة/ 19] ، ومنه الصَّدِيعُ للفجر «1» ، وصَدَعْتُ الفلاة : قطعتها «2» ، وتَصَدَّعَ القومُ أي : تفرّقوا . ( ص د ع ) الصدع کے معنی ٹھوس اجسام جیسے شیشہ لوہا وغیرہ میں شگاف ڈالنا کے ہیں ۔ صدع ( ف) وصدع متعدی ہے اور انصدع وتصدع لازم اسی سے استعارہ کے طور پر صدع الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے ظاہر اور واضح کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ) ملا ہے اسے کھول کر بیان کرو۔ اور اسی سے صداع کا لفظ مستعار ہے جس کے معنی دوسرے کے ہیں جس سے گویا سر پھٹا جارہا ہو۔ قرآن میں ہے ؛لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة/ 19] اس سے نہ تو دروسر ہوگا اور نہ ان کی عقلیں زائل ہوں گی ۔ اور اسی سے صدیع بمعنی فجر ہے ۔ اور صدعت الفلاۃ کے معنی بیاباں طے کرنے کے ہیں ۔ تصدع القوم لوگ منتشر ہوگئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ [ الروم/ 43] اس روز ( سب لوگ ) الگ الگ ہوجائیں گے ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ فكر الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف/ 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد/ 3] ( ف ک ر ) الفکرۃ اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر اس قرآن حکیم کو کسی بلند پہاڑ پر نازل کرتے کہ جس کی بلندی آسمان تک اور تہہ ساتویں زمین تک ہو اے مخاطب تو اس پہاڑ کو دیکھتا ہے کہ وہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا۔ اور ان مضامین میں عجیبہ کو ہم لوگوں کے فائدہ کے لیے قرآن کریم میں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١{ لَــوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْـتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ } ” اگر ہم اس قرآن کو اتار دیتے کسی پہاڑ پر تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کے خوف سے۔ “ یہ قرآن مجید کی عظمت کا بیان ہے۔ اس موضوع کے حوالے سے یہاں یہ اہم نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید کی عظمت اور قرآن مجید کی افادیت دو الگ الگ موضوعات ہیں۔ ان دوموضوعات کو آپس میں گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک قرآن مجید کی افادیت کا تعلق ہے ‘ قرآن کی متعدد آیات اس حوالے سے ہماری راہنمائی کرتی ہیں ‘ لیکن سورة یونس کی یہ دو آیات اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں : { یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ لا وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ - قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔ } ” اے لوگو ! آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں (کے اَمراض ) کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور (بہت بڑی) رحمت۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے ) کہہ دیجیے کہ یہ ( قرآن) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے ‘ تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں ! وہ کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ “ یہ تو قرآن مجید کی افادیت کا ذکر ہے ‘ لیکن قرآن مجید فی نفسہٖ کیا ہے ؟ انسان کا محدود ذہن اس موضوع کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر ہے ۔ چناچہ قرآن مجید کی عظمت کے تصور کو انسانی ذہن کے لیے کسی حد تک قابل فہم بنانے کے لیے آیت زیر مطالعہ میں ایک تمثیل بیان کی گئی ہے۔ اس تمثیل کو سمجھنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کو ہِ طور پر پیش آنے والے واقعہ کی یاد دہانی ضروری ہے۔ یہ واقعہ سورة الاعراف کی آیت ١٤٣ میں بیان ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب چالیس راتوں کے لیے کو ہِ طور پر گئے تو آپ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی : { رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَط } کہ اے میرے رب ! مجھے اپنا جلوہ دکھا ‘ میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ { قَالَ لَنْ تَرٰٹنِیْ } اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ { وَلٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ } البتہ تم اس پہاڑ کو دیکھو ‘ میں اپنی تجلی اس پر ڈالوں گا۔ { فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰٹنِیْج } تو اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ قائم رہ سکا تو پھر تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ { فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ } پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر ایک تجلی ڈالی ‘ یعنی نورکا پرتو جب پہاڑ پر پڑا تو { جَعَلَہٗ دَکًّا } اس نے اس پہاڑ کو ریزہ ریزہ کرکے رکھ دیا۔ { وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًاج } (الاعراف : ١٤٣) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس بالواسطہ تجلی کے مشاہدہ کی تاب نہ لاتے ہوئے بےہوش کر گرپڑے۔ اس واقعہ کے ساتھ آیت زیر مطالعہ میں بیان کی گئی تمثیل کی گہری مماثلت ہے۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ کو ہِ طور پر ” تجلی ذات “ کا معاملہ تھا اور یہاں اس تمثیل میں ” تجلی صفات “ کا ذکر ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کلام اپنے متکلم کی صفت ہوتا ہے ۔ اس لیے جو تاثیر ذات باری تعالیٰ کی تجلی کی ہے عین وہی تاثیر کلام اللہ کی تجلی کی ہے۔ علامہ اقبال اپنے انداز میں قرآن مجید کی عظمت کا بیان یوں کرتے ہیں : ؎ فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است ! کہ اگر میں اپنے دل کی بات کروں تو یہ کہوں گا کہ قرآن مجید محض ایک کتاب نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہی چیز ہے ۔ کیا چیز ہے ؟ اس کی مزید وضاحت علامہ یوں کرتے ہیں : مثل ِحق پنہاں و ہم پیدا ست ایں زندہ و پائندہ و گویا ست ایں ! یعنی یہ اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا حامل ہے اور اس حیثیت میں یہ پوشیدہ بھی ہے اور عیاں بھی ۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا بھی ہے اور گویا (بولتا ہوا) بھی ۔ قرآن حکیم کی عظمت کے حوالے سے سورة الواقعہ کی آیت { لَا یَمَسُّہٗٓ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ ۔ } کی تشریح کے تحت یہ نکتہ بھی زیر بحث آچکا ہے کہ قرآن مجید کی حقیقی معرفت ‘ اصل ہدایت اور روح باطنی تک رسائی کے لیے انسان کے باطن کا پاک ہونا ضروری ہے ۔ اگر کوئی شخص اپنے باطن کا تجزیہ کیے بغیر قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے گا تو وہ صرف اس کی عبارت اور لغت کے ظاہری مطالب و معانی تک ہی رسائی حاصل کر پائے گا۔ یہی بات مولانا روم نے تعلی میز الفاظ میں یوں بیان کی ہے : ما زِ قرآں مغزہا برداشتیم استخواں پیش ِسگاں انداختیم ! کہ ہم نے قرآن سے اس کا مغزلے لیا ہے اور ہڈیاں کتوں کے آگے ڈال دی ہیں۔ { وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَـعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ۔ } ” اور یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔ “ اب وہ تین عظیم آیات آرہی ہیں جن کا ذکر اس رکوع کے آغاز میں اسمائے حسنیٰ کے حوالے سے ہوا تھا۔ واضح رہے کہ صفات ِباری تعالیٰ کے موضوع پر سورة الحدید کی پہلی چھ آیات قرآن مجید کے ذروئہ سنام کا درجہ رکھتی ہیں۔ ( عربی میں اونٹ کی کو ہان کو سنام اور کسی چیز کی چوٹی یا بلند ترین حصے کو ذُروہ/ذِروہ کہتے ہیں۔ چناچہ ذروئہ سنام کا مطلب ہے کو ہان کی بھی چوٹی۔ یعنی سب سے اونچا مقام یا کسی چیز کا نمایاں ترین حصہ ! ) جبکہ اسمائے حسنیٰ کے ذکر کے اعتبار سے سورة الحشر کی آخری تین آیات پورے قرآن میں منفرد و ممتاز مقام کی حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے حوالے سے یہاں ” ایمانِ مجمل “ کے یہ الفاظ بھی اپنے حافظے میں تازہ کرلیں : آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء وصفات کے ساتھ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے تمام احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :31 اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس طرح خدا کی کبریائی اور اس کے حضور بندے کی ذمہ داری و جواب دہی کو صاف صاف بیان کر رہا ہے ، اس کا فہم اگر پہاڑ جیسی عظیم مخلوق کو بھی نصیب ہوتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کو کس رب قدیر کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو وہ بھی خوف سے کانپ اٹھتا ۔ لیکن حیرت کے لائق ہے اس انسان کی بے حسی اور بے فکری جو قرآن کو سمجھتا ہے اور اس کے ذریعہ سے حقیقت حال جان چکا ہے اور پھر بھی اس پر نہ کوئی خوف طاری ہوتا ہے ، نہ کبھی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جو ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں ان کے بارے میں وہ اپنے خدا کو کیا جواب دے گا ۔ بلکہ قرآن کو سن کر یا پڑھ کر وہ اس طرح غیر متاثر رہتا ہے کہ گویا وہ ایک بے جان و بے شعور پتھر ہے جس کا کام سننا اور دیکھنا اور سمجھنا ہے ہی نہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 120 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:21) لو۔ حرف شرط۔ اگر لرایتہ۔ لام جواب شرط کے لئے۔ رایت ماضی واحد مذکر حاضر ، ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع جبل ہے۔ خاشعا : دب جانے والا۔ عاجزی کرنے والا۔ فروتنی کرنے والا۔ خشوع (باب فتح) مصدر سے۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ متصدعا : اسم فاعل واحد مذکر منصوب ۔ تصدع (تفعل) مصدر۔ بمعنی ٹکڑے ٹکڑے۔ شگافتہ۔ صدع کا لفظ پجٹے ، کھلنے۔ شگافتہ ہونے اور الگ ہوجانے کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس لئے صدع شگاف کو اور آدمیوں کی ایک ٹکڑی اور گروہ کو کہتے ہیں زمین کو پھاڑ کر سبزہ نلتا ہے اس لئے سبزہ کو صدع کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :۔ والارض ذات الصدع (86:12) قسم ہے سبزہ والی زمین کی۔ یا قسم ہے زمین کی جو پھٹ جاتی ہے (کہ اس میں سے پھوٹ آتے ہیں درخت اور کھیتی۔ خاشعا متصدعا ہر دو حال ہیں :۔ یعنی تو دیکھتا ہے کہ وہ خدا کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ من خشیۃ اللہ : من حرف جار۔ خشیۃ اللہ مضاف مضاف الیہ۔ خشیۃ کو ف ڈر۔ ہیبت۔ خشیۃ اس خوف کو کہتے ہیں جس میں تعظیم بھی شامل ہو۔ یہ بات اکثر حالات میں جس کا ڈر ہو اس کے علم سے ہوتی ہے۔ اسی بناء پر آیت شریفہ انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا (35:28) اللہ سے ڈرتے وہی ہیں اس کے بندوں میں جو عالم ہیں ۔ میں علماء کی خشیت سے مخصوص کیا گیا ہے۔ تلک الامثال : تلک اسم اشارہ واحد مؤنث الامثال مشار الیہ، بمعنی مثالیں۔ نضربھا مضارع جمع متکلم۔ ضرب مصدر سے ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب کا مرجع الامثال ہے۔ ہم بیان کرتے ہیں ان کو۔ ضرب کے اصل معنی ہیں مارنا۔ ہاتھ سے ہو یا پاؤں سے ہو یا کسی آلہ سے ۔ ضرب الدراہم پھٹہ لگانا۔ ضرب فی الارض : زمین پر چلنا۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا۔ ضرب الذلۃ والمئکۃ ذلت اور فقیری کو خیمہ کی طرح محیط اور مسلط کردینا۔ ضرب المثل ماضوذ ہے ضرب الدراہم سے یعنی کسی چیز کو اس طرح بیان کرنا کہ دوسرے پر اس کا اثر پڑ سکے۔ لعلہم : لعل حرف مشبہ بالفعل ہم ضمیر جمع مذکر غائب اس کا اسم ۔ شاید وہ سب لوگ۔ تتفکرون ۔ مضارع جمع مذکر غائب تفکر (تفعل) مصدر ۔ بمعنی غور کرنا۔ لعل کی خبر۔ شاید کہ وہ غور کریں۔ امید ہے کہ وہ گور کریں گے۔ تاکہ وہ غور کریں۔ آیت ہذا کی تشریح میں صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں :۔ لو انزلنا ھذا القران ۔۔ الخ۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک آیت میں ایک تمثیل ہے یعنی اللہ اگر پہاڑ میں قوت تمیز پیدا کردیتا اور پھر اس وقت اس پر قرآن اتارتا۔ تو پہاڑ عاجزی سے دب جاتا۔ اور خوف سے پھٹ جاتا اور عظمت قرآن سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا وان منھا لما یہبط من خشیۃ اللہ (2:74) باوجود یکہ پہاڑ نہایت سخت اور ٹھوس یا وزن ہیں۔ لیکن ان کو خوف ہوتا کہ وہ تعظیم قرآن پوری طرح جیسا کہ حق ہے ادا نہ کر پائے اس وجہ سے پارہ پارہ ہوجاتے لیکن کافر انسان جو صاحب علم و عرفان ہے قرآن کے اندر جو نصیحتیں اور عبرتیں ہیں ان کو جانتا پہچانتا ہے پھر بھی سنی ان سنی کردیتا ہے۔ (بالکل اثر نہیں ہوتا) ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جمادات اور نباتات بظاہر بےشعور اور عدیم الحس ہیں لیکن وہ اپنے کالق کا شعوررکھتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :۔ کہ ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ سے دریافت کرتا ہے کہ :۔ کیا تیرے اوپر کوئی بندہ خدا اللہ کو یاد کرتا ہوا گزرا ؟ نوٹ از مترجم تفسیر مظہری :۔ صحیح تحقیق یہ ہے کہ ودمائے یونان جو جمادات و نباتات کو بےحس اور بےشعور کہتے ہیں وہ غلط ہے موجودہ سائش نے نباتات میں تو شعور شابت کردیا اور عنقریب جمادات کا حساس ہونا بھی ظاہر ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرما دیا ہے کہ وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم (17:44) یہ تسبیح مقالی ہے حالی نہیں ہے یہ مراد نہیں کہ ہر شے تخلیقا اپنے خالق کے بےعیب ہونے پر دلالت کر رہی ہے ہر مصنوع اپنے صانع پر دال ہے یہ مطلب صراحت آیت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ آیت کا آخری جزے بتارہا ہے کہ انسان تسبیح اشیاء کو نہیں سمجھتا۔ اب اگر تسبیح سے تسبیح حال مراد لی جائے اور اس کا یہ مطلب مراد لیا جائے کہ ہر مخلوق اپنے کالق و فاطر کے بےعیب ہونے پر فطرۃ دلالت کر رہی ہے تو اس تسبیح اشیاء سے تو یونانی کافر بلکہ جاہل بےعلم بھی واقف تھے اور ہیں۔۔ پھر نفیء تفقہ کے کچھ معنی ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ تسبیح مقالی ہی مراد ہے مگر ہر ثیز کی نوعی زبان جدا جدا ہے جس کو ہر نوع کے افراد ہی سمجھتے ہیں۔ پہاڑ پہاڑ کی بولی سمجھتا ہے اور پانی پانی کی بات سمجھتا ہے اور انسان ان کی بولی نہیں سمجھتے۔ معجزہ نبوت اس سے مستثنیٰ ہے۔ عام انسان اسی بولی کو سمجھتے ہیں جو مخارج حروف اور اوتاد الصوت کی مرہون ہے اور اسی کو کلام اور مقال کہتے ہیں۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد فرمانا بالکل صحیح ہے کہ ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ سے کہتا ہے کہ ۔۔ وغیرہ اور سچ فرمایا اللہ نے :۔ یسبح لہ ما فی السموت والارض (59:24)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی افسوس کا مقام ہے کہ آدمی کے دل پر قرآن کا اثر نہیں ہوتا حالانکہ قرآن اپنی تاثیر قوت بیان اور مواعظ و نصائح پر مشتمل ہونے کے اعتبار سے اس قدر عظیم اللہ کتاب ہے کہ اگر پہاڑ جیسی سخت چیز بھی اترا جاتا اور اس میں سمجھا کا مادہ ہوتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جاتا اور خوف کے مارے پھٹ کر پارہ پارہ ہوجاتا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں جبھی کافروں کے دل بڑے سخت ہیں کہ یہ کلا اس کو ایمان نہیں لاتے اگر پہاڑ سمجھے تو وہ بھی دب جائے۔ صموضع)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنم کی آگ سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس کے قرآن پر غور کرکے اپنے آپ کو سنوار لے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے کے لیے قرآن مجید جیسی عظیم اور مؤثر کتاب نازل فرمائی ہے۔ اس کی عظمت اور تاثیر کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کردیتے تو آپ دیکھتے کہ پہاڑ بھی اللہ کے خوف سے دب اور پھٹ جاتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ارشادات لوگوں کے سامنے اس لیے بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ ان پر غور کریں اور اپنے کردار اور انجام کے بارے میں فکر کریں۔ قرآن مجید کی عظمت اور تاثیر کا ذکر کرتے ہوئے ” لَوْ “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اگر ہم قرآن مجید پہاڑ پر نازل کردیتے تو پہاڑ بھی اس کی عظمت اور تاثیر سے پھٹ جاتا۔ کچھ اہل علم نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ پہاڑ بھی خلافت کے بار گراں سے پھٹ جاتا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں یوں کیا گیا ہے۔ ہم نے بار امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے معذرت کی وہ اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھالیا، بیشک انسان ظالم اور جاہل ہے۔ (الاحزاب : ٧٢) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَرَأَ طٰہٰ وَیٰس قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ ، فَلَمَّا سَمِعْتِ الْمَلاَءِکَۃُ الْقُرْآنَ قَالَتْ طُوبَی لأُمَّۃٍ یَنْزِلُ ہَذَا عَلَیْہَا، وَطُوبَی لأَجْوَافٍ تَحْمِلُ ہَذَا، وَطُوبَی لأَلْسِنَۃٍ تَتَکَلَّمُ بِہَذَا) (رواہ الدارمی : باب فِی فَضْلِ سُورَۃِ طہ ویس (لم تتم دراستہ) قال النسائی ضعیف) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کی تخلیق سے ہزار سال پہلے سورة طٰہ اور یٰس کی تلاوت فرمائی۔ فرشتوں نے قرآن کی تلاوت سنی تو کہنے لگے اس امت کے لیے خوشخبری ہو جس پر قرآن نازل ہوگا، ان سینوں کے لیے مبارک ہو جو اس قرآن کو اٹھائیں گے اور ان زبانوں کو خوش آمدید ہو جو قرآن کی تلاوت کریں گی۔ “ قرآن مجید کی بےانتہا تاثیر : (عَنْ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَالْکِتَابِ اَقْوَامًاوَیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ ) (رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن) ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو جو اس پر عمل کریں گی بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو جو اس کو چھوڑ دیں گی انہیں ذلیل کر دے گا۔ “ جس طرح ” اللہ “ کی ذات وصفات اور اس کے جمال و کمال کی انتہا نہیں اسی طرح اس کے کلام کی عظمت اور تاثیر کی بھی انتہا نہیں ہے۔ قرآن مجید کو جو بھی اخلاص اور توجہ سے پڑھتا اور سنتا ہے وہ اس پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمر (رض) نے اپنی بہن سے سورة طٰہٰ کی ابتدائی آیات سنیں تو ایمان لانے پر مجبور ہوئے۔ ثمامہ بن اثال نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کعبہ میں قرآن پڑھتے ہوئے دیکھا تو اس قدر متاثر ہوا کہ اپنے کانوں سے روئی نکال دی اور قرآن مجید سنتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا۔ ” حضرت ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ ایک آدمی اپنے گھر میں سورة الکہف کی تلاوت کر رہا تھا تو اس کے گھوڑے نے بدکنا شروع کردیا۔ اس نے سلام پھیر کر آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے بادلوں کا ایک ٹکڑا نظر آیا جو اسے ڈھانپے ہوئے تھا اس نے اس کا تذکرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کیا آپ نے فرمایا اے فلاں پڑھتے رہو یہ سکینت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہوئی تھی یا قرآن کی وجہ سے نازل ہو رہی تھی۔ “ (رواہ البخاری : باب علاَمَات النُّبُوَّۃِ فِی الإِسْلاَمِ ) مسائل ١۔ اگر اللہ تعالیٰ قرآن مجید پہاڑ پر نازل کردیتا تو قرآن کی عظمت اور تاثیر سے پہاڑ دب اور پھٹ جاتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنے احکام اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ان پر غور کریں۔ تفسیر بالقرآن قرآن کی عظمت اور فضیلت : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ ( البقرہ : ٢) ٢۔ قرآن مجید سرا پارحمت اور کتاب ہدایت ہے۔ (لقمان : ٣) ٣۔ قرآن مجید بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ (الانعام : ٩٣) ٤۔ قرآن مجید میں ہدایت کے متعلقہ ہر چیز واضح کی گئی ہے۔ (النحل : ٨٩) (المائدۃ : ١٥) (المائدۃ : ٤٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایک تمثیل ہے لیکن ایک حقیقت کو بطول مثال پیش کیا گیا ہے۔ یہ قرآن ایک عظیم وزن رکھتا ہے۔ اس کے اندر بہت بڑی قوت ہے ، بےپناہ اثر کا مالک ہے ، اور اس کے مقابلے میں کوئی چیز ثابت قدم نہیں رہ سکتی۔ جس پر اس کا وزن پڑے تو متزلزل ہوجاتا ہے ، پاش پاش ہوجاتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے جب پہلی مرتبہ اسے پڑھا تو وہ پاش پاش ہوگئے اور جب وہ ایک رات سننے والے سے سن رہے تھے۔ والطور ........................ ربک لواقع (٧) (٢٥ : ١ تا ٧) ” قسم ہے طور کی اور ایک ایسی کھلی کتاب کی جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے اور آباد گھر کی ، اور اونچی چھت کی ، اور موجزن سمندر کی ، کہ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں “۔ تو حضرت عمر (رض) دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد وہ گھر کو واپس آئے اور اس قدر غم زدہ ہوگئے کہ لوگ ایک ماہ تک ان کی عبادت کرتے رہے۔ بعض ایسے لمحات آتے ہیں کہ انسان کا دل قرآنی معارف کے لئے کھل جاتا ہے تو قرآن کا اثر اس قدر تیز ہوتا ہے کہ انسان ہلامارا جاتا ہے اور اس پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور انسان کے اندر اس قدر تغیرات اور تبدیلیاں آجاتی ہیں جس طرح مقناطیس اور بجلی کا اثر لوہے اور جسم پر ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی شدید اثر ہوتا ہے۔ اللہ خالق الجبال بھی ہے اور منزل القرآن بھی۔ اللہ کا فرمان ہے۔ لو انزلنا ................ خشیة اللہ (٩٥ : ١٢) ” اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتاردیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے “۔ جن لوگوں نے قرآن کریم کی اس نوعیت کے اثرات کو اپنے جسم میں محسوس کیا ہے وہی اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں لیکن ان کا ذوق اور ان کا احساس الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس سورت کے آخر میں خدائے رحمن ورحیم کی تعریف اور تسبیح آتی ہے ، جب انسان کی ذات پر قرآن کریم کا کسی قدر اثر ہوجاتا ہے تو وہ تسبیح کرنے لگتا ہے اور یہ اسمائے حسنیٰ ایسے ہیں جن کے آثار کائنات میں واضح نظر آتے ہیں کیونکہ اللہ کے اسمائے صفات کائنات کے مظاہر اور اس کی حرکت میں نظر آتے ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قرآن مجید کی صفت جلیلہ : اس کے بعد فرمایا ﴿ لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ ﴾ (الآیۃ) اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو اے مخاطب تو اسے اس حال میں دیکھتا کہ یہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا) صاحب روح المعانی (صفحہ ٦١: ج ٢٨) اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے انسان کی قساوت قلبی اور تلاوت قرآن کے وقت خشوع و تدبر کی کمی پر متنبہ کیا ہے قرآن میں جو جھنجھوڑنے والی آیات ہیں انسان ان کی طرف دھیان نہیں دیتا حالانکہ اگر یہی قرآن کسی پہاڑ پر اتارا جاتا اور اسے عقل دے دی جاتی تو وہ خشوع اختیار کرتا اور پھٹ جاتا۔ صاحب معالم التنزیل (صفحہ ٢٣٦: ج ٤) نے یہ بات بھی لکھی ہے اور یہ بات بڑھادی ہے کہ پہاڑ اپنی سختی کے باوجود اس ڈر سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا کہ قرآن کریم کا جو حق اللہ تعالیٰ نے لازم فرمایا ہے وہ مجھ سے ادا نہ ہو سکے گا۔ یہ انسان ہی ہے جو قرآن کو پڑھتا ہے اور سنتا ہے اور اس کی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتا حالانکہ یہ مضامین عجیبہ اللہ تعالیٰ اس لئے بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ فکر کریں۔ ولا حاجة ان یفرض ترکب العقل فیہ لان الجبال فیھا ادراک کما ذکر اللہ تعالیٰ فی آخر سورة الاحزاب ” فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ “ وقال تعالیٰ فی سورة البقرة : ” وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ ١ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ۔ “

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” لو انزلنا “ یہ قرآن مجید میں فکر و تامل کی ترغیب ہے اور پہاڑوں پر قرآن نازل کرنے سے یا تمثیل مراد ہے یا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم پہاڑوں ایسی سخت چیز کو عقل دے کر ان پر اس قرآن کو نازل کردیتے تو قرآن کی اثر انگیزی سے وہ اس قدر متاثر ہوتے کہ خوف سے لرز اٹھتے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے لیکن ان منافقین کے دل اس قدر سخت ہیں کہ قرآنی مواعظ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ حث علی تامل مواعظ القران و بین انہ لا عذر فی ترک التدبر، فانہ لو خوطب بھذا القران الجبال مع ترکیب العقل فیھا لانقادت لمواعظہ ولرای تھا علی صلاب تھا ورزانتہا خاشعۃ متصدعۃ (قرطبی ج 18 ص 144) ۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ ان میں غور و فکر کر کے عبرت و نصیحت حاصل کریں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) اور اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو اے مخاطب یقینا تو اس پہاڑ کو دیکھتا کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے اور ہم اس لئے ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سوچیں اور فکروتامل سے کام لیں۔ یعنی قرآن اپنی عظمت و جلال کی وجہ سے ایسی شان رکھتا ہے کہ اگر اس کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے اور پہاڑ کو فہم اور شعور دیا جاتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیتہ سے دب جاتا اور پھٹ جاتا اور اے مخاطب تو اس کو دیکھتا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا لیکن ان منکروں کے دل پہاڑ کے پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں کہ یہ قرآن سنتے ہیں اور متاثر نہیں ہوتے۔ یہ مثالیں اس لئے بیان کی جاتی ہیں تاکہ لوگ سمجھیں اور غور کریں آیت میں کافروں کی قلبی قساوت کا اظہار ہے ۔