Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 3

سورة الحشر

وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ کَتَبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمُ الۡجَلَآءَ لَعَذَّبَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا ؕ وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابُ النَّارِ ﴿۳﴾

And if not that Allah had decreed for them evacuation, He would have punished them in [this] world, and for them in the Hereafter is the punishment of the Fire.

اور اگر اللہ تعالٰی نے ان پر جلا وطنی کو مقدر نہ کر دیا ہوتا تو یقیناً انہیں دنیا ہی میں عذاب دیتا اور آخرت میں ( تو ) ان کے لئے آگ کا عذاب ہے ہی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْلاَ أَن كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَء لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا ... And had it not been that Allah had decreed exile for them, He would certainly have punished them in this world; meaning, if it was not for the fact that Allah had already decreed that they would evacuate Al-Madinah, leaving behind their homes and wealth, He would have sent another type of punishment upon them, such as being killed and captured. This was said by Az-Zuhri. `Urwah, As-Suddi. Ibn Zayd said that Allah decreed that the Jews would be punished in the life of this world and face the torment of the fire of Hell He prepared for them in the Hereafter. Allah said, ... وَلَهُمْ فِي الاْخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ and in the Hereafter theirs shall be the torment of the Fire. meaning, it is a matter ordained that they will surely face,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یعنی اللہ کی تقدیر میں پہلے سے ہی اس طرح ان کی جلاوطنی لکھی ہوئی نہ ہوتی تو ان کو دنیا میں ہی سخت عذاب سے دوچار کردیا جاتا جیسا کہ بعد میں ان کے بھائی یہود کے ایک دوسرے قبیلے بنو قریظہ کو ایسے ہی عذاب میں مبتلا کیا گیا کہ ان کے جوان مردوں کو قتل کردیا گیا دوسروں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کا مال مسلمانوں کے لیے غنیمت بنادیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَلَوْ لَآ اَنْ کَتَبَ اللہ ُ عَلَیْہِمُ الْجَلَآئَ ۔۔۔۔۔:” جلال یجلوجلائ “ (ن) ” الرجل “ آدمی کو اس کے شہر سے نکال دینا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ان کے متعلق پہلے سے فیصلہ انہیں جلا وطن کرنے پر اکتفا کا تھا ، تا کہ انہیں عبرت ہو اور وہ اپنی اصلاح کرسکیں ۔ اگر اس نے پہلے یہ نہ لکھا ہوتا تو انہیں دنیا ہی میں عذاب دیتا ، ان کے مرد قتل کیے جاتے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی اور غلام بنا لیا جاتا ، جیسے بعد میں بنو قریظہ کو عبرت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا گیا ۔ ( دیکھئے بخاری : ٤٠٣٢) یہاں ایک سوال ہے کہ جلا وطنی بھی تو عذاب ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ عذاب سے مراد جسمانی سزا ہے ، جس کا احساس واضح اور شدید ہوتا ہے۔ ٢۔ وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابُ النَّارِ : یعنی اگر وہ جلا وطنی کی وجہ سے دنیا کے عذاب ، قتل ، اسیری اور غلامی سے بچ گئے تو بےفکر نہ ہوں ، اگر وہ اسی طرح کفر پر قائم رہے تو ان کے لیے آخرت میں آگ کا عذاب تیار ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَآ اَنْ كَتَبَ اللہُ عَلَيْہِمُ الْجَلَاۗءَ لَعَذَّبَہُمْ فِي الدُّنْيَا۝ ٠ ۭ وَلَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابُ النَّارِ۝ ٣ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ كتب ( لکھنا) الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] . ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔ جلو أصل الجَلْو : الکشف الظاهر، يقال : أَجْلَيْتُ القوم عن منازلهم فَجَلَوْا عنها . أي : أبرزتهم عنها، ويقال : جلاه، نحو قول الشاعر : فلما جلاها بالأيام تحيّزت ... ثبات عليها ذلّها واكتئابهاوقال اللہ عزّ وجل : وَلَوْلا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيا [ الحشر/ 3] ، ومنه : جَلَا لي خَبَرٌ ، وخَبَرٌ جَلِيٌّ ، و قیاس جليّ ، ولم يسمع فيه جال . وجَلَوْتُ العروس جِلْوَة، وجَلَوْتُ السیف جَلَاءً ، والسماء جَلْوَاء أي : مصحية، ورجل أَجْلَى: انکشف بعض رأسه عن الشعر، والتَّجَلِّي قد يكون بالذات نحو : وَالنَّهارِ إِذا تَجَلَّى [ اللیل/ 2] ، وقد يكون بالأمر والفعل، نحو : فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ [ الأعراف/ 143] . وقیل : فلان ابن جلا أي : مشهور، وأَجْلَوْا عن قتیل إِجْلَاءً. ( ج ل و ) الجلود ( ن ) کے اصل ۔ معنی کسی چیز کے نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ ( یعنی میں نے انہیں جلا وطن کیا تو وہ چلے گئے اور حلاۃ ( متعدی ) بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) ( جب انگبین گیر ندہ نے شہد کی مکھیوں کو دھواں کے ذریعہ سے دور ہٹایا تو وہ ٹکٹیاں ہوکر غم وانددہ کے ساتھ ایک طرف سکڑ گئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْلا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيا[ الحشر/ 3] اور اگر خدا نے ان کے بارے میں جلا وطن کرنا نہ لکھ دیا ہوتا ۔ تو ان کو دنیا میں بھی عذاب دے دیتا ۔ اسی سے جلا لۃ خبر ( کسی خبر کا ظاہر ہونا ) وخبر جلی ( واضح خبر ) ( اور واضح قیاس کے محاورات ہیں اور صیغہ صفت ( فاعل ) جال سموع نہیں ہے ۔ دلہن کو بناؤ سنگار کرکے پیش کرنا ۔ جلوت السیف جلاۃ تلوار کو صیقل کیا السماء جلواء اسمان بےابر اور صاف ہے ( رجل اجلی وہ شخص جس کے سر کے بال اڑ گئے ہوں التجلی کے معنی ہیں ظاہر ہونا اور ہو یدار ہونا اور جلوہ بار ہونا اور یہ ( تجلی ) کبھی بالذات ہوتی ہے جیسے وَالنَّهارِ إِذا تَجَلَّى [ اللیل/ 2] اور دن کی جب نمایاں طور پر روشنی ہوجائے ۔ اور کبھی بذریعہ امر اور فعل کے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ [ الأعراف/ 143] جب ان کا پروردگار پہاڑ پر جلوہ افروز ہوا ۔ کہا جاتا ہے : یعنی فلاں مشہور ومعروف ہے وہ مقتول سے الگ ہوگئے اسے چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] ، وقوله : وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل/ 122] ، وتارة عن الأقرب، فيقابل بالأقصی نحو : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] ، وجمع الدّنيا الدّني، نحو الکبری والکبر، والصّغری والصّغر . وقوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة/ 108] ، أي : أقرب لنفوسهم أن تتحرّى العدالة في إقامة الشهادة، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب/ 51] ، وقوله تعالی: لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة/ 220] ، متناول للأحوال التي في النشأة الأولی، وما يكون في النشأة الآخرة، ويقال : دَانَيْتُ بين الأمرین، وأَدْنَيْتُ أحدهما من الآخر . قال تعالی: يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب/ 59] ، وأَدْنَتِ الفرسُ : دنا نتاجها . وخصّ الدّنيء بالحقیر القدر، ويقابل به السّيّئ، يقال : دنیء بيّن الدّناءة . وما روي «إذا أکلتم فدنّوا» من الدّون، أي : کلوا ممّا يليكم . دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی ۔ اور آیت کریمہ ؛وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل/ 122] اور ہم نے ان کو دینا بھی خوبی دی تھی اور آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی اقرب آنا ہے اوراقصی کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے کے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر ۔ الدنیا کی جمع الدنیٰ آتی ہے جیسے الکبریٰ کی جمع الکبر والصغریٰ کی جمع الصغر۔ اور آیت کریمہ ؛ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة/ 108] اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت ادا کریں ۔ میں ادنیٰ بمعنی اقرب ہے یعنی یہ اقرب ہے ۔ کہ شہادت ادا کرنے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھیں ۔ اور آیت کریمہ : ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب/ 51] یہ ( اجازت ) اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة/ 220] تا کہ تم سوچو ( یعنی ) دنای اور آخرت کی باتوں ) میں غور کرو ) دنیا اور آخرت کے تمام احوال کی شامل ہے کہا جاتا ہے ادنیت بین الامرین وادنیت احدھما من الاخر ۔ یعنی دوچیزوں کو باہم قریب کرنا ۔ یا ایک چیز کو دوسری کے قریب کرتا ۔ قرآن میں ہے : يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب/ 59] کہ باہر نکلاکریں تو اپنی چادریں اپنے اوپر ڈٖال لیا کریں َ ادنت الفرس ۔ گھوڑی کے وضع حمل کا وقت قریب آپہنچا ۔ الدنی خاص ک حقیر اور ذیل آدمی کو کہا جاتا ہے اور یہ سیئ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے کہا کاتا ہے :۔ ھودنی یعنی نہایت رزیل ہے ۔ اور حومروی ہے تو یہ دون سے ہیے یعنی جب کھانا کھاؤ تو اپنے سامنے سے کھاؤ ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣۔ ٤) اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ چکتا تو ان کو دنیا ہی میں قتل کی سزا دیتا اور قتل سے سخت ان کے لیے آخرت میں دوزخ کا عذاب ہے اور یہ جلا وطنی اور عذاب اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی دین میں مخالفت کی اور جو شخص دین میں اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں سخت سزا دینے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 That is, ”The destruction occurred in two ways: from outside the Muslims besieged them and started demolishing their fortifications, and from within, first they raised obstacles of stone and wood to stop the Muslims from advancing, and for this purpose broke their own houses for the material; then, when they became certain that they would have to vacate the place, they started pulling down their houses, which they had so fondly built and decorated, with their own hands, so as to render them useless for the Muslims Later, when they settled peace with the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) on the condition that they would be spared their lives but would havc the permission to carry away whatever they could, except the weapons and armour, they started removing the frames of the doors and windows, even pegs; so much so that some people removed the beams and wooden ceilings, which they put upon the back of their camels and left." 7 There arc many lessons which one can learn from this event, which have been alluded to in this brief but eloquent sentence These Jews were none other but the followers of the former Prophets: they believed in God, in the Book, in the former Prophets and the Hereafter. Accordingly, they were the former Muslims. But when they turned their back on religion and morality and adopted open hostility to the truth only for the sake of their selfish desires and worldly motives and interests, and showed scant regard for their treaties and agreements, Allah's grace was turned away from them, otherwise Allah had no personal enmity with than. Therefore, first of all, the Muslims themselves havc been admonished to heed their fate and Learn a lesson from it, lest they too should start behaving as if they were the beloved children of God, as the Jews did, and should be involved in the misunderstanding that their being included among the followers of the Last Prophet of God would by itself guarantee for them Allah's bounty and His support, apart from which they were not bound to adhere to any demand of religion and morality. Besides, those people of the world also havc been asked to learn a lesson from this event, who oppose the truth consciously, and then place reliance upon their wealth and power, their means and resources, thinking that these would save them from the Divine punishment. The Jews of Madinah were not unaware that the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) had not risen for the supremacy of a people or tribe, but he was presenting an ideological invitation the addressees of which were all men, and every man, no matter what race or country he belonged to, could join his Ummah by accepting the invitation, without discrimination or distinction. They were themselves witnessing that Bilal of Habash, Suhaib of Rome, and Salman of Persia enjoyed the same position and status in the Muslim community as was enjoyed by the people of the Holy Prophet's own house. Therefore, they were not feeling any danger that the Quraish and the Aus and the Khazrij would gain an upper hand over them. Nor were they unaware that the ideological invitation that he was presenting was precisely the same as their own Prophets had been presenting. The Holy Prophet never put forward the claim that he had come with a new religion, unknown to the people, and that the people should give up their former religion and accept his religion ' instead. But what he claimed was that the religion being presented by him was the same that the Prophets of God had been preaching and presenting since the beginning of creation. And from their Torah they could themselves confirm that it was actually the same religion, the principles of which were not any different from the principles of the religion of the Prophets. On the same basis they were told in the Qur'an: Affirm faith in the teaching sent down by Me, which confirms the teaching that you already possess, and you should not be its first deniers." They were also witnessing what character and morals the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) possessed, and what revolution had taken place in the lives of those who had accepted his message. For a long time the Ansar of Madinah had been their closest neighbours. They knew what kind of people they had been before embracing Islam and what they became after their conversion to Islam. Thus, they were well aware of the invitation, of the inviter and of the results of accepting the invitation. But in spite of witnessing and knowing all this, only on account of their racial prejudice and worldly interests, they expended aII their energy against the message of truth about which there was no room for doubt at least in their minds. After such an obvious and open hostility to the trnth they expected that their strongholds would save them from Allah, whereas the whole human history bears evidence that the one who is resisted by the power of God, cannot save and protect himself by any weapon, means or device.

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :8 دنیا کے عذاب سے مراد ہے ان کا نام و نشان مٹا دینا ۔ اگر وہ صلح کر کے اپنی جانیں بچانے کے بجائے لڑتے تو ان کا پوری طرح قلع قمع ہو جاتا ۔ ان کے مرد مارے جاتے اور ان کی عورتیں اور ان کے بچے لونڈی غلام بنا لیے جاتے جنہیں فدیہ دے کر چھڑانے والا بھی کوئی نہ ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یعنی انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کروا دیتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:3) لولا مرکب ہے لو شرطیہ اور لا نافیہ سے۔ اگر نہ ہوتا۔ ان مصدریہ ہے۔ کہ۔ کتب اللہ علیہم (کہ) لکھ دیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے خلاف۔ کتب علی۔ کسی چیز کو کسی چیز پر فرض کرنا۔ واجب کردینا۔ ضروری کردینا۔ جیسے اور جگہ فرمایا :۔ کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ (6:54) تمہارے رب نے اپنی ذات (مبارک) پر رحمت کو لازم کرلیا ہے۔ الجلائ : جلا وطنی، جلا وطن ہونا۔ اجڑنا۔ ملک بدر ہونا۔ جلا یخلو (باب نصر) کا مصدر ہے منصوب بوجہ مفعول ہے۔ مادہ جلو ہے۔ الجلو کے اصل معنی ہیں کسی چیز کا نمایاں طور پر ظاہر ہونا۔ جلوہ دکھانا۔ جملہ لولا ۔۔ الجلاء شرطیہ ہے۔ اگلا جملہ جواب شرط ہے لعذبھم : لام جواب شرط کا ہے۔ عذب ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ تو ان کو ضرور عذاب دیتا۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جلاوطنی نہ لکھ دی ہوتی تو وہ انہیں دنیا میں کسی اور طریقہ سے عذاب دیتا۔ مثلاً قتل وقید کی سزا جیسا کہ بنی قریظہ کے ساتھ کیا۔ ولہم فی الاخرۃ عذاب النار۔ یہ ایک الگ جملہ ہے اس کا تعلق لولا کے جواب سے نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ عذاب دنیا (قتل و قید) سے بچ بھی گئے تو آخرت کے عذاب دوزخ سے نہیں بچیں گے۔ جو اس عذاب دنیا کے سو ان کو ملے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 جن قتل ہوتے یا قید ہوتے یا بیماری وغیرہ سے ہلاک ہوتے جیسا کہ بنو قریظہ کا یہی حشر ہوا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولولا .................... النار (٩٥ : ٣) ” اگر اللہ نے ان کے حق میں جلاوطنی نہ لکھ دی ہوتی تو دنیا ہی میں وہ انہیں عذاب دے ڈالتا ، اور آخرت میں تو ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے ہی “۔ لہٰذا اللہ کا عذاب ان پر آنا ہی تھا۔ جس طرح کہ ان پر آگیا اگر یہ صورت اللہ نے لکھ نہ دی ہوتی تو دوسری صورت میں آتا۔ یہ عذاب دنیا بھی ان کے لئے طے تھا اور قیامت کا عذاب تو بہرحال مقدر ہے ، کیوں ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان لوگوں کا ایمان قبول کرنے سے منکر ہونا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے کے لیے تیار ہوجانا ایسا عمل تھا کہ ان کو دنیا میں عذاب دے دیا جاتا جیسا کہ قریش مکہ بدر میں قتل کیے گئے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ دیا تھا کہ ان کو دنیا میں جلا وطنی کا عذاب دیا جائے گا (جس میں ذلت بھی ہے اور اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے توڑنا بھی ہے اور اپنے مالوں کو چھوڑ کر جانا بھی ہے) اس لیے دنیا میں اس وقت جلاوطنی کی سزا دی گئی اور آخرت میں بہرحال ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔ اس مضمون کو ﴿ وَ لَوْ لَاۤ اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَآءَ ﴾ میں بیان کیا گیا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” ولولا ان کتب “ یہود کو جلا وطن ہونا پڑا اگر دنیا میں جلا وطنی کی ذلت ورسوائی ان کے لیے مقدر نہ ہوتی تو دنیا میں ان کو کسی دوسری نوح کے ذلت آمیز عذاب میں مبتلا کردیا جاتا اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔ ذالک بانہم، دنیا اور آخرت میں ان یہودیوں کے لیے ذلت آمیز اور دردناک عذاب اس لیے مقدر کیا گیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری پوری مخالفت کی ہے، دعوت اسلام کو ٹھکرادیا ہے، اسلام، پیغمبر (علیہ السلام) اور مسلمانوں کے خلاف خطرناک سازشیں کی ہیں اور ایسے سرکش لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا عذاب نہایت سخت ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے جلاوطن مقدر نہ کردیتا اور ان کی قسمت میں جلاوطن نہ ہوتی تو ان کی دنیا ہی میں سزا دیتا اور آخرت میں تو بہرحال ان کے لئے عذاب ہے۔ یعنی اگر ان کے لئے جلاوطن ہوجانا مقدر نہ ہوتا اور اللہ تعالیٰ ان کی قسمت میں جلاوطن نہ لکھ دیتا مدعا یہ ہے کہ اگر یہ ترک وطن نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں عذاب کرتا اور قتل ہوتے اور قید کئے جاتے اور اس جلاوطنی نہ لکھ دیتا مدعا یہ ہے کہ اگر یہ ترک وطن نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں عذاب کرتا اور قتل ہوتے اور قید کئے جاتے اور اس جلاوطنی کے باوجود آخرت میں ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔