Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 5

سورة الحشر

مَا قَطَعۡتُمۡ مِّنۡ لِّیۡنَۃٍ اَوۡ تَرَکۡتُمُوۡہَا قَآئِمَۃً عَلٰۤی اُصُوۡلِہَا فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ وَ لِیُخۡزِیَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۵﴾

Whatever you have cut down of [their] palm trees or left standing on their trunks - it was by permission of Allah and so He would disgrace the defiantly disobedient.

تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا ۔ یہ سب اللہ تعالٰی کے فرمان سے تھا اور اس لئے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالٰی رسوا کرے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

What you cut down of the Linah, or you left them standing on their stems, it was by leave of Allah, and in order that He might disgrace the rebellious. Linah is an especially good type of date tree. Abu Ubaydah said that Linah is a different kind of dates than Ajwah and Barni. Several others said that Linah refers to every type of date fru... its, except for the Ajwah (ripen dates), while Ibn Jarir said that it refers to all kinds of date trees. Ibn Jarir quoted Mujahid saying that it also includes the Buwayrah type. When the Messenger of Allah laid siege to Bani An-Nadir, to humiliate them and bring fear and terror to their hearts, he ordered their date trees to be cut down. Muhammad bin Ishaq narrated that Yazid bin Ruman, Qatadah and Muqatil bin Hayyan said, "Bani An-Nadir sent a message to the Messenger, saying that he used to outlaw mischief in the earth, so why did he order that their trees be cut down? Allah sent down this honorable Ayah stating that whatever Linah was felled or left intact by the Muslims, has been done by His permission, will, leave and pleasure to humiliate and disgrace the enemy and degrade them." Mujahid said, "Some of the emigrants discouraged others from chopping down the date trees of Jews, saying that they were war spoils for Muslims. The Qur'an approved of the actions of those who discouraged and those who approved of cutting these trees, stating that those who cut them or did not, did so only by Allah's leave." There is also a Hadith narrated from the Prophet with this meaning. An-Nasa'i recorded that Ibn `Abbas said about Allah's statement, مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَايِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ What you cut down of the Linah, or you left them standing on their stems, it was by leave of Allah, and in order that He might disgrace the rebellious. "They forced them to come down from their forts and were ordered to cut their trees cut down. So the Muslims hesitated, and some of them said, `We cut down some and left some. We must ask Allah's Messenger if we will earn a reward for what we cut and if we will be burdened for what we left intact.' Allah sent down this Ayah, مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَايِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ ... What you cut down of the Linah, or you left them standing on their stems, it was by leave of Allah." Imam Ahmad recorded that Ibn Umar said; the Messenger of Allah ordered that the date trees of Bani An-Nadir be cut down and burned. The Two Sahihs collected a similar narration. Al-Bukhari recorded that Abdullah bin Umar said, "Bani An-Nadir and Bani Qurayzah fought (against the Prophet), and the Prophet exiled Bani An-Nadir and allowed Bani Qurayzah to remain in their area until later, when the Prophet fought against Qurayzah. Their men were executed and their women, children and wealth were confiscated and divided among Muslims. Some of them, however, were saved because they returned to the Prophet's side, who granted them asylum, and they embraced Islam. All of the Jews of Al-Madinah, Bani Qaynuqa`, the tribe of Abdullah bin Salam, Bani Harithah and the rest of the Jewish tribes in Al-Madinah were exiled." The Two Sahihs also recorded from Ibn Umar; the Messenger of Allah burned down the date trees of Bani An-Nadir and had them cut down the date palms of Al-Buwayrah. Allah the Exalted and Most Honored revealed this Ayah, مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَايِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ What you cut down of the Linah, or you left them standing on their stems, it was by leave of Allah, and in order that He might disgrace the rebellious. Muhammad bin Ishaq reported that the battle of Bani An-Nadir occurred after the battles of Uhud and Bi'r Ma`unah.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 لینۃ۔ کھجور کی ایک قسم ہے جیسے عجوہ برنی وغیرہ کھجوروں کی قسمیں ہیں یا عام کھجور کا درخت مراد ہے۔ دوران محاصرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے مسلمانوں نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو آگ لگا دی، کچھ کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے۔ جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا۔ اور یہ واضح کرنا تھا...  کہ اب مسلمان تم پر غالب ہیں، وہ تمہارے اموال و جائیداد میں جس طرح چاہے، تصرف کرنے پر قادر ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی مسلمانوں کی اس حکمت عملی کی تصویب فرمائی اور اسے یہود کی رسوائی کا ذریعہ قرارا دیا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] محاصرہ کے وقت مسلمانوں کا درخت کاٹنا اور مخالفین کا شورو غوغا :۔ مدینہ کے گرد بنو نضیر کا ایک نہایت خوبصورت باغ تھا۔ جسے بویرہ کہتے تھے اس میں بہت سے کھجوروں کے درخت تھے۔ جب مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کرنا چاہا تو یہ درخت کام میں آڑے آرہے تھے۔ چناچہ جو جو درخت رکاوٹ بن سکتے تھے مسلمانوں نے ا... ن کو کاٹ کر اور جہاں زیادہ گنجان تھے وہاں انہیں آگ لگا کر محاصرہ کرنے کے لیے اپنی راہ صاف کرلی۔ جب آگ کے شعلوں نے اس باغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت سیدنا حسان بن ثابتص نے یہ شعر پڑھا۔ وَھَانَ عَلٰی سَرَاۃِ بَنِی لُؤیٍّ ۔۔ حَرِیْقٌ بالْبُوَیْرَۃِ مُسْتَطِیْرٌ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر) یعنی بنی لؤی (قریش) کے سردار یہ بات معمولی سمجھ کر برداشت کر رہے تھے کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آکر جل رہا ہے۔ جب راستہ صاف کرنے کی خاطر مسلمانوں نے یہ درخت کاٹے تو اس پر مخالفین نے ایک شور بپا کردیا کہ دیکھو مسلمان درختوں کو کاٹ کر فساد فی الارض کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ اصلاح فی الارض کے دعویدار بنے پھرتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم نے جو بھی کھجوروں کا درخت کاٹا یا اسے اپنی جڑوں پر برقرار رہنے دیا تو یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے تھا اور واقعہ بھی یہی تھا کہ رسول اللہ نے مسلمانوں کو جنگ کے موقعوں پر درخت کاٹنے سے منع کیا تھا اور اسے فساد فی الارض قرار دیا تھا۔ مگر بنو نضیر کی مسلسل بدعہدیوں کی وجہ سے ان کا استیصال ضروری ہوگیا۔ لہذا اس خاص موقعہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی تھی۔ اور چونکہ اس اجازت کا ذکر قرآن میں کہیں مذکور نہیں جس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی ہوتی تھی۔ جسے عموماً وحی خفی یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے اور دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے جو تخریبی کاروائی جنگی ضروریات کے لیے ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔ [٥] بنو نضیر کا اخراج :۔ بنوقینقاع کی جلاوطنی کے بعد بنو نضیر بھی مدینہ سے جلاوطن اور رسوا کرکے نکال دیئے گئے۔ رہے بنو قریظہ، تو ان کا جو حشر ہوا اس کی تفصیل سورة احزاب کی آیت نمبر ٢٦ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث میں بھی اجمالاً ان کا ذکر آگیا ہے۔ && سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بنونضیر اور بنو قریظہ نے جنگ کی تو آپ نے بنونضیر کو تو جلا وطن کیا اور بنوقریظہ کو وہیں رہنے دیا اور ان پر احسان کیا تاآنکہ بنوقریظہ نے جنگ کی (جنگ احزاب کے بعد) تو آپ نے ان کے مردوں کو قتل کردیا اور ان کی عورتوں، بچوں اور اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو پہلے ہی آکر آپ سے مل گئے تھے۔ آپ نے انہیں امن دیا اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اور آپ نے تمام یہود کو جلاوطن کیا۔ ان میں عبداللہ بن سلام کے قبیلہ بنوقینقاع کے یہود بھی شامل تھے اور بنو حارثہ بھی۔ غرض مدینہ کے سب یہودیوں کو جلا وطن کردیا۔ && (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر۔ مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب اجلاء الیہود من الحجاز)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ ۔۔۔۔:” لینۃ “ کے متعلق تین قول ہیں ، ایک یہ کہ اس سے مراد کھجور کا درخت ہے ۔ ابن جریر نے اسے ترجیح دی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ” لینۃ “ برنی اور عجوہ کے سوا کھجور کا درخت ہے اور تیسرا قول یہ کہ ہر درخت کو ” لینۃ “ کہا جاتا ہے ، کیونکہ جب تک وہ زندہ ہے اس میں ” لیونۃ “...  ( نرمی) پائی جاتی ہے۔ ( شنقیطی) بنو نضیر کی بستیوں کے ساتھ ان کا ایک نہایت خوب صورت باغ تھا جسے ” بویرہ “ کہتے تھے ، اس میں کھجوروں کے بہت سے درخت تھے (یہ آج کل بھی بویرہ کے نام سے معروف ہے جو مسجد قباء کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ شنقیطی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا محاصرہ کیا تو بعض ضرورتوں اور حکمتوں کے پیش نظر بعض درختوں کو کاٹنے کا اور بعض کو جلانے کا حکم دیا اور بعض اسی طرح رہنے دیے ، جیسا کہ ابن عمر (رض) نے فرمایا :( حرق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نخل بنی النضیر وقطع وھی البویرۃ فنزلت :(ما قطعتم من لینۃ او ترکتموھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ) (بخاری ، المغازی ، باب حدیث بنی النضیر۔۔۔۔: ٤٠٣١)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا دیئے اور کٹوا دیئے ۔ یہی بویرہ جگہ ہے (جس کا حسان (رض) نے ذکر کیا ہے ، جیسا کہ آگے آئے گا) تو یہ آیت اتری :(مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِھَا فَبِاِذْنِ اللہ ِ ) ( الحشر : ٦)” جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا یا اسے اس کی جڑوں پر کھڑا چھوڑا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا “۔ درختوں کے کاٹنے اور جلانے پر یہود اور منافقین نے شور مچایا کہ محمد (ﷺ) درختوں کو کاٹ کر ” فساد فی الارض “ کا ارتکاب کر رہے ہیں ، جب کہ ان کا دعویٰ اصلاح کا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دلائی کہ تم نے جو بھی درخت کاٹا اسے اس کی جڑوں پر قائم رہنے دیا تو یہ سب کچھ اللہ کے اذن سے تھا ، یعنی اگرچہ جنگ کے موقع پر عام حکم یہی ہے کہ درخت اور کھیت جلانے اور کاٹنے سے اجتناب کیا جائے ، مگر اس موقع پر جو درخت جلائے گئے یا کاٹے گئے یا باقی رہنے دیے گئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اذن سے ہوا ، اس لیے مخالفین کی باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ٢۔ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ :” الفسقین “ میں بنونضیر کے علاوہ انہیں عہد توڑنے اور لڑائی کے لیے ابھارنے والے یہودی ، مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے منافقین سبھی شامل ہیں ۔ یعنی کھجوروں کے درخت کاٹنے ، جلانے یا باقی رکھنے کا عمل دوسری بہت سی مصلحتوں کے علاوہ اس لیے بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ فاسقوں کو ذلیل کرے۔ کاٹنے اور جلانے میں ان کی تذلیل تو ظاہ رہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی زندگی بھر کی کمائی کو جلایا اور کاٹا گیا مگر وہ کاٹنے اور جلانے والوں کا ہاتھ نہ روک سکے۔ اس میں بنو نضیر، دوسرے یہودیوں ، منافقین مدینہ اور مشرکین مکہ سب کی ذلیل تھی کہ انہوں نے یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا اور اف تک نہ کرسکے ، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شاعر حسان بن ثابت (رض) نے مشرکین مکہ پر طنزو تشنیع کے تیر ب راستے ہوئے کہا : وھان علی سراۃ بنی لوی حریق بالبویرۃ مستطیر ” بنولوی (قریش) کے سرداروں نے وہ آگ آسانی سے برداشت کرلی جو بویرہ کے مقام پر پھیل رہی تھی ( یعنی انہیں اس پر کوئی غصہ آیا نہ غیرت اور نہ ہی وہ حسب وعدہ بنو نضیر کی مدد کو پہنچے) “۔ ( بخاری ، المغازی ، باب حدیث بنی التضیر۔۔۔: ٤٠٢٢) اور جو درخت باقی رہے ان میں ان سب کی تذلیل یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے قبضے میں آئے اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے قبضے سے چھڑا سکیں۔ ٣۔” وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ “ ( اور تا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے) میں حرف عطف واؤ سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کچھ عبادت محذوف ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ اذن اس لیے دیا تا کہ بنو نضیر کے محاصرے کے لیے راستہ صاف ہوجائے ، ان کے لیے کوئی چھپاؤ باقی نہ رہے ، محاصرے میں سختی پیدا کی جائے ، انہیں قلعوں سے نکل کر میدان میں آکر لڑنے پر ابھارا جائے اور تا کہ مسلمانوں کو عزت عطاء فرمائے اور تا کہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔ ٤۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر جنگی ضرورت کا تقاضا ہو تو درختوں اور کھیتوں کو کاٹا، جلایا اور عمارتوں کو گرایا جاسکتا ہے ، بلا ضرورت یہ کام جائز نہیں۔ ٥۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کے علاوہ اور احکام بھی دیئے گئے ، کیونکہ یہاں جس کے متعلق فرمایا کہ ” وہ اللہ کے اذن سے تھا “ وہ ” اذن “ قرآن میں نہیں بلکہ وحی خفی کے ذریعے سے دیا گیا ہے، جسے حدیث کہتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ وحی الٰہی صرف قرآن تک محدود نہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَ‌كْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ (Whatever palm-trees you have cut down, or have left them standing on their roots, it was with Allah&s permission, and so that He might disgrace the transgressors....59:5). The word linah refers to a &palm-tree&. Another opinion states that besides ` ajwah, all o... ther palm trees are referred to as linah. Banu Nadir&s orchards were comprised of palm trees. The reference in the verse is to the cutting, by the orders of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، of the palm trees of Banu Nadir who had shut themselves in their fortresses in defiance of the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) orders to surrender. So, some of the blessed Companions, in order to anger them or cast terror into their hearts, cut and burned down some of their date trees. Other Companions felt that the palm-trees should not be destroyed because soon, God willing, the Muslims will be victorious and the orchards will fall to their lot as booty. Thus they did not participate in the destruction of the trees. This was a difference of opinion. Later on when this disagreement was discussed, the Companions who participated in the destruction of the trees or orchards felt guilty. They asked the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) whether they were really guilty of a sin, in that they destroyed the property that was going to fall to the lot of the Muslims. Verse [ 5] was revealed on that occasion to assuage the guilt-feeling of the Muslims that whatever they have done, whether they cut the trees or left them uncut, was by Allah&s leave and it was done to degrade the ungodly Jews. Commandment of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is in fact the Commandment of Allah: A Warning for those who Refute the authority of the Ahadith In verse [ 5], the cutting down of the trees or leaving them uncut is called bi-idhni-llah [ with Allah&s permission ] whereas neither of the actions was the explicit command of Allah. Apparently, whatever each group did was on the basis of independent reasoning [ Ijtihad ]. At most, it is possible that they might have sought the permission of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which is a Hadith. The &Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) permission& is referred to as &Allah&s permission& in the Qur&an. Thus the Qur&an makes plain that Allah has given His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the right to legislate laws. The forthcoming verse [ 7] of this Surah puts it that believers need to hold fast to what the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) bids them and abstain from what he forbids them. This shows conclusively that the Sunnah is an independent source of the Islamic Law. Disagreement in ijtihad is not a sin Another important principle derived from this verse is that if those who are competent to undertake ijtihad disagree with another on a particular issue, so as one of them holds something as permissible, while the other takes it as impermissible, neither of them would be counted as sinners, nor will the principle of nahy ` anil-munkar (forbidding evil) be applied to this situation, because none of the two rulings is an &evil& in the sight of Allah. Under the concluding phrase of verse [ 5] لِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ (...and that he might disgrace the transgressors) it was explained that the act of cutting or burning down the trees cannot be construed as disorderliness. But it was done to degrade the unbelievers, and therefore it carries reward in the Hereafter. Ruling Is it legitimate to demolish or burn down the homes of the infidels, or cut or burn down their trees, or destroy their fields and farms? The leading authorities on Islamic Jurisprudence are not unanimous on this question. Imam A&zam Abu Hanifah (رح) rules that all of these actions are permitted. Shaikh Ibn Humam (رح) ، however, qualifies the ruling and restricts it. He rules that all of the above are permitted if and only if the enemies cannot be vanquished or overpowered without resorting to the above measures, or if the victory of Muslims is not probable or likely. The whole purpose of this ruling is to break the might and power of the enemy. In the case where Muslims do not win the struggle, destruction of their moveable and immovable properties may be included in weakening their might and main. [ Mazhari ]  Show more

(آیت) مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَاۗىِٕمَةً عَلٰٓي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ ، لفظ لینہ کجھور کے ہر درخت یا عجوہ کے علاوہ وہ باقی درختوں کے لئے بولا جاتا ہے، بنو نضیر کے باغات کجھور کے تھے جب قلعہ بند ہوگئے تو بعض صحابہ کرام نے ان لوگوں کو غ... یظ دلانے اور ان پر رعب ڈالنے کے لئے ان کی کھجوروں کے چند درختوں کو کاٹ کر جلا کر ختم کردیا اور بعض دوسرے صحابہ کرام نے خیال کیا کہ انشاء اللہ فتح ہماری ہوگی اور یہ درخت اور باغات مسلمانوں کے ہاتھ آئیں گے تو کیوں ان کو ضائع کیا جائے وہ ان کے کاٹنے جلانے سے باز رہے، یہ ایک رائے کا اختلاف تھا، بعد میں جب آپس میں گفتگو ہوئی تو جن حضرات نے کچھ درخت کاٹے یا جلائے تھے ان کو یہ فکر ہوئی کہ شاید ہم گناہ گار ہوگئے کہ جو مال مسلمانوں کو ملنے والا تھا اس کو نقصان پہنچایا، اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی جس نے دونوں فریق کے عمل کو جائز و درست فرمایا اور دونوں کو باذن اللہ میں داخل کر کے حکم الٰہی کی تعمیل قرار دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم درحقیقت اللہ ہی کا حکم ہوتا ہے، منکرین حدیث کیلئے تنبیہ : اس آیت میں ان درختوں کے کاٹنے جلانے یا ان کو باقی چھوڑنے کے دونوں مختلف عملوں کو باذن اللہ فرمایا ہے، حالانکہ قرآن کی کسی آیت میں دونوں میں سے کوئی بھی حکم مذکور نہیں، ظاہر تو یہ ہے کہ دونوں حضرات نے جو عمل کیا، وہ اپنے اجتہاد سے کیا، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لی ہو مگر قرآن نے اس اجازت کو جو کہ ایک حدیث تھی اذن اللہ قرار دے کر واضح کردیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق تعالیٰ کی طرف سے تشریع احکام کا اختیار دیا گیا ہے اور جو حکم آپ جاری فرما دیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے حکم میں داخل ہے اس کی تعمیل قرآنی آیات کی تعمیل کی طرح فرض ہے۔ اجتہادی اختلاف کی دونوں جانبوں میں کسی کو گناہ نہیں کہہ سکتے : دوسرا اہم اصول اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ اجتہاد شرعی کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر ان کا اجتہاد کسی مسئلے میں مختلف ہوجائے، ایک فریق جائز قرار دے اور دوسرا ناجائز، تو عنداللہ یہ دونوں حکم درست اور جائز ہوتے ہیں، ان میں سے کسی کو گناہ و معصیت نہیں کہہ سکتے اور اسی لئے اس پر نہی عن المنکر کا قانون جاری نہیں ہوتا کیونکہ ان میں سے کوئی جانب بھی منکر شرعی نہیں اور ولیخزی الفسقین میں درختوں کے کاٹنے یا جلانے والوں کے عمل کی توجیہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بھی فساد میں داخل نہیں بلکہ کفار کو ذلیل کرنے کے قصد سے موجب ثواب ہے۔ مسئلہ : بحالت جنگ کفار کے گھروں کو منہدم کرنا یا جلانا اسی طرح درختوں، کھیتوں کو برباد کرنا جائز ہے یا نہیں اس میں ائمہ فقہا کے مختلف اقوال ہیں، امام اعظم ابوحنیفہ سے بحالت جنگ ان سب کاموں کا جائز ہونا منقول ہے، مگر شیخ ابن ہمام نے فرمایا کہ یہ جواز اس وقت میں ہے جبکہ اس کے بغیر کفار پر غلبہ پانا مشکل ہو، یا اس صورت میں جبکہ مسلمانوں کی فتح کا گمان غالب نہ ہو، تو یہ سب کام اس لئے جائز ہیں کہ ان سے کفار کی طاقت و شوکت کو توڑنا مقصود ہے، یا عدم فتح کی صورت میں ان کے مال کو ضائع کرنا بھی ان کی قوت کو کمزور کردینے کے لئے اس میں داخل ہے (مظہری )   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَۃٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْہَا قَاۗىِٕمَۃً عَلٰٓي اُصُوْلِہَا فَبِـاِذْنِ اللہِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ۝ ٥ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع...  . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا لين اللِّينُ : ضدّ الخشونة، ويستعمل ذلک في الأجسام، ثمّ يستعار للخلق وغیره من المعاني، فيقال : فلان لَيِّنٌ ، وفلان خشن، وكلّ واحد منهما يمدح به طورا، ويذمّ به طورا بحسب اختلاف المواقع . قال تعالی: فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران/ 159] ، وقوله : ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] فإشارة إلى إذعانهم للحقّ وقبولهم له بعد تأبّيهم منه، وإنكارهم إيّاه، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر/ 5] أي : من نخلة ناعمة، ومخرجه مخرج فعلة نحو : حنطة، ولا يختصّ بنوع منه دون نوع . ( ل ی ن ) اللین کے معنی نر می کے ہیں اور یہ خشونت کی ضد ہے اصل میں تو یہ اجسام کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر استعارہ اخلاق وغیرہ یعنیمعافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ چناچہ فلان لین یا خشن کے معنی ہیں فلاں نرم یا د رشت مزاج ہے اور یہ دونوں لفظ حسب موقع ومحل کبھی مدح کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور کبھی مذمت کے لئے آتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران/ 159]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) خدا کی مہر بانی سے تمہاری افتاد ومزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل نرم ہو کر خدا کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ میں اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ اباء اور انکار کے بعد وہ حق کے سامنے سر نگوں ہوجاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر/ 5] مومنوں کجھور کے جو در خت تم نے کاٹ ڈالے میں لینۃ کے معنی نرم ونازک کھجور کا درخت ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جیسے حنطۃ تاہم یہ مخلتف انواع میں سے ایک نوع کے لئے مخصو ص نہیں ہے ۔ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ قائِمٌ وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] . وبناء قَيُّومٍ : ( ق و م ) قيام أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ أصل وأَصْلُ الشیء : قاعدته التي لو توهّمت مرتفعة لارتفع بارتفاعه سائره لذلک، قال تعالی: أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم/ 24] ، وقد تَأَصَّلَ كذا وأَصَّلَهُ ، ومجد أصيل، وفلان لا أصل له ولا فصل . بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] أي : العشایا، يقال للعشية : أَصِيل وأَصِيلَة، فجمع الأصيل أُصُل وآصَال، وجمع الأصيلة : أَصَائِل، وقال تعالی: بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفتح/ 9] . ( ا ص ل ) اصل الشئی ( جڑ ) کسی چیز کی اس بنیاد کو کہتے ہیں کہ اگر اس کا ارتفاع فرض کیا جائے تو اس شئے کا باقی حصہ بھی معلوم ہوجائے قرآن میں ہے : { أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء } [إبراهيم : 24] (14 ۔ 25) اس کی جڑ زمین میں ) پختگی سے جمی ہے اور شاخیں آسمان میں ۔ اور تاصل کذا کے معنی کسی چیز کے جڑ پکڑنا ہیں اس سے اصل اور خاندانی بزرگی مجد اصیل کہا جاتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لااصل لہ ولا فصل یعنی نیست اور احسب ونہ زبان ۔ الاصیل والاصیلۃ کے معنی ( عشیۃ ) عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ { وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا } [ الأحزاب : 42] اور صبح و شام کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ اصیل کی جمع اصل واٰصال اور اصیلۃ کی جمع اصائل ہے قرآن میں ہے ۔ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ خزی خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] ، ( خ ز ی ) خزی ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مجتہد اپنے اجتہاد سے دشمن کے باغوں کو اجاڑ دے یا باقی رکھے اسے اختیار ہے قول باری ہے (ما قطعتم من لیلۃ اوترکتموھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ کھجوروں کے جو درخت تم نے کاٹے یا انہیں ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا۔ سو یہ دونوں اللہ ہی کے اذن سے تھا) ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے کہ کھجور کا ہر درخت ... لینہ کہلاتا ہے البتہ عمدہ قسم کی عجوہ کھجور کا درخت اس میں داخل نہیں ہے۔ مجاہد اور عمرو بن میمون کا قول ہے کہ کھجور کا ہر درخت لینہ کہلاتا ہے ……ایک قول کے مطابق کھجور کے عمدہ قسم کے درخت لینہ کہلاتے ہیں۔ ابن جریج نے مجاہد سے آیت کی تفسیر روایت کی ہے کہ بعض مہاجرین نے کھجور کے درخت کاٹنے سے منع کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ یہ درخت اب مسلمانوں کے مال غنیمت ہیں ۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی اور اس نے روکنے والوں کی تصدیق کردی اور کاٹنے والوں کو گناہ سے آزاد کردیا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کاٹنے والوں اور کاٹنے سے انکار کرنے والے دونوں کی تصویب کردی۔ ان سب نے اجتہاد سے کام لے کر یہ طریق کار اختیار کیا تھا۔ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہر مجتہد مصیب یعنی درست کار ہوتا ہے۔ زہری سے مروی ہے انہوں نے عروہ اور انہوں نے حضرت اسامہ بن زید سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابنیٰ پر صبح کے وقت حملہ کرنے اور اسے آگ لگا دینے کا حکم دیا تھا۔ قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے جب مرتدین کے خلاف جنگجو کاروائی شروع کی تو آپ نے انہیں قتل بھی کیا، انہیں گرفتار بھی کیا اور اس کے ٹھکانوں کو آگ بھی لگا دی ۔ عبداللہ بن ابی بکر بن عمروبن حزم نے روایت کی ہے کہ بنو نضیر جب قلعہ بند ہوگئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے کھجوروں کو کاٹنے اور آگ لگا دینے کا حکم دیا۔ لوگوں نے عرض کیا۔” ابوالقاسم ! آپ تو تباہ کاری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (ما قطعتم من لینۃ او ترکتموھا) الی آخرہا نازل ہوئی۔ عثمان بن عطاء نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے شام کی طرف لشکر روانہ کیا تو اسے جو زبانی ہدایت دی گئی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پھل دار درخت نہ کاٹے جائیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن نے درج بالا روایت کی یہ توجیہ کی ہے کہ مسلمانوں کو یہ بات معلوم تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فتح شام کو جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہوگا اور وہاں کی زمینیں اور درخت سب مسلمانوں کو مال غنیمت کے طور پر مل جائیں گے اس لئے حضرت ابوبکر (رض) نے یہ چاہا کہ وہاں کے درخت وغیرہ مسلمانوں کے لئے باقی رہنے دیے جائیں۔ تاہم مسلمانوں کا لشکر جب دارالحرب پر حملہ آور ہوا اور جنگی کاروائیوں کے بعد وہاں سے واپس ہونے لگے تو بہتر یہی ہے کہ اہل حرب کے درختوں، فصلوں، گھروں کو آگ لگا کر تباہ کردے۔ اہل حرب کے مویشیوں کے متعلق بھی ہمارے اصحاب کا یہی وقل ہے کہ اگر ان مویشیوں کو ہانک کر ساتھ لانا ممکن نہ ہو تو انہیں ذبح کرکے جلا دیا جائے۔ جن چیزوں کے بارے میں لشکر اسلام کو توقع ہو کہ یہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن جائیں گی اگر وہ انہیں اس غرض سے چھوڑ دیں کہ یہ مسلمانوں کے ہاتھ آجائیں تو ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہے اور اگر وہ انہیں مشرکین کو غصہ دلانے کی خاطر آگ لگا دیں تو بھی جائز ہے۔ اس جواز کی دلیل آیت زیر بحث اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ طریق کار ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کے سلسلے میں اختیار کیا تھا۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور رسول اکرم نے ان لوگوں کا محاصرہ کرنے کے بعد اپنے صحابہ کرام کو عجوہ کھجور کے علاوہ ان کے اور کھجور کے درخت کاٹنے کا حکم دیا تو اس پر بنو نضیر نے طعن کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ جو کھجوروں کے درخت تم نے کاٹ ڈالے یا عجوہ کھجور کے رہنے دیے تو یہ دونوں باتیں اللہ ہی کے حکم سے ہیں تا... کہ بنو نضیر کو اللہ تعالیٰ ان کے درخت کٹوا کر ذلیل کرے۔ اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فتح کروا کر اموال بنو نضیر سے اپنے رسول کو دلوا دیے وہ رسول اکرم ہی کے ہیں تم نے نہ اس پر گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ کیوں کہ یہ جگہ مدینہ منورہ سے قریب تھی اس لیے پیادہ ہی چلے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے محمد کو یہود اور بنی نضیر پر مسلط کردیا اور وہ کامیاب کرنے اور غنیمت دلوانے پر قادر ہے۔ شان نزول : مَا قَطَعْتُمْ (الخ) امام بخاری نے ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے بنی نضیر کے نخلستان کو جلا دیا تھا اور وادی بویرہ کو کاٹ ڈالا تھا اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے۔ اور ابو یعلی نے سند ضعیف کے ساتھ حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے ان کو کھجوروں کے درخت کاٹنے کی اجازت دے دی تھی پھر ان پر سختی فرمائی تو یہ لوگ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم پر گناہ ہے ان درختوں کے بارے میں جن کو ہم کاٹ دیں یا چھوڑ دیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور ابن اسحاق نے یزید بن رومان سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے آپ سے بچ کر قلعوں میں پناہ لے لی رسول اکرم نے ان کے نخلستان کاٹنے اور جلا دینے کا حکم دیا تو ان لوگوں نے قلعوں میں سے پکارا محمد آپ فساد سے روکتے تھے اور اسے برا سمجھتے تھے تو پھر درختوں کو کاٹا اور جلایا کیوں جارہا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْتَرَکْتُمُوْہَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِہَا فَبِاِذْنِ اللّٰہِ } لِینہ ایک خاص قسم کی کھجور کے درخت کو کہتے ہیں۔ یہودیوں کی گڑھیوں اور حویلیوں کے گرد یہ درخت باڑ کی شکل میں کثرت سے موجود تھے۔ مسلمانوں نے جب ان کا محاصرہ کیا تو حملہ کے لیے راستے بنانے کی ... غرض سے حسب ِضرورت ان میں سے کچھ درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا۔ یہودیوں نے مسلمانوں کے اس عمل کو ہدفِ تنقید بنایا اور پروپیگنڈا کیا کہ یہ لوگ خود کو مومنین کہتے ہیں اور ان کے قائد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ‘ لیکن ان لوگوں کی اخلاقیات کا معیار یہ ہے کہ پھل دار درختوں کو بھی کاٹنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہودیوں کے اس پراپیگنڈے کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود دیا۔ چناچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے مذکورہ اقدام پر اپنی منظوری (sanction) کی مہر ثبت کرتے ہوئے واضح کردیا کہ مسلمانوں نے یہ درخت جنگی ضرورت کے تحت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں کاٹے ہیں۔ چناچہ جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کیا تو پھر سمجھ لو کہ اللہ کی طرف سے اس کی اجازت دی گئی تھی۔ { وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ ۔ } ’ اب اگلی آیات میں مال فے کا ذکر آ رہا ہے جو اس سورت کا اہم ترین مضمون ہے۔ چناچہ ان آیات کے مطالعہ سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ مال فے کیا ہے اور یہ مال غنیمت سے کس طرح مختلف ہے ۔ مالِ غنیمت تو وہ مال ہے جو باقاعدہ جنگ کے نتیجے میں حاصل ہو ۔ اس سے پہلے سورة الانفال کی آیت ٤١ میں مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں حکم آچکا ہے۔ اس حکم کے مطابق مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ ‘ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہوگا ‘ جبکہ باقی چار حصے اس جنگ میں حصہ لینے والے مجاہدین کے مابین تقسیم کردیے جائیں گے ‘ اور اس تقسیم میں سوار کو پیدل کے مقابلے میں دو حصے ملیں گے۔ اس کے برعکس ” مالِ فے “ وہ مال ہے جو مسلمانوں کو کسی جنگ کے بغیر ہی حاصل ہوجائے ‘ جیسے زیر مطالعہ واقعہ میں باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آئی تھی ‘ مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کیا اور انہوں نے مرعوب ہو کر ہتھیار ڈال دیے۔ چناچہ اس مہم کے نتیجے میں حاصل ہونے والی زمینیں اور دوسری تمام اشیاء مال فے قرار پائیں۔ آگے آیت ٧ میں مال فے کے بارے میں واضح کردیا گیا کہ یہ مال ُ کل کا کل اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے۔ اس میں سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مرضی سے غرباء و مساکین کو تو دیں گے لیکن عام مسلمانوں کو اس میں سے حصہ نہیں ملے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :9 یہ اشارہ ہے اس معاملہ کی طرف کہ مسلمانوں نے جب محاصرہ شروع کیا تو بنی نضیر کی بستی کے اطراف میں جو نخلستان واقع تھے ان کے بہت سے درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا یا جلا دیا تاکہ محاصرہ بآسانی کیا جا سکے ، اور جو درخت فوجی نقل و حرکت میں حائل نہ تھے ان کو کھڑا رہنے دیا ۔ اس ... پر مدینہ کے منافقین اور بنی قریظہ اور خود بنی نضیر نے شور مچا دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو فساد فی الارض سے منع کرتے ہیں ۔ مگر یہ دیکھ لو ، ہرے بھر ےپھل دار درخت کاٹے جارہے ہیں ، یہ آخر فساد فی الارض نہیں تو کیا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ تم لوگوں نے جو درخت کاٹے اور جن کو کھڑا رہنے دیا ، ان میں سے کوئی فعل بھی ناجائز نہیں ہے ، بلکہ دونوں کو اللہ کا اذن حاصل ہے ۔ اس سے یہ شرعی مسئلہ نکلتا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے جو تخریبی کارروائی ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی بلکہ فساد فی الارض یہ ہے کہ کسی فوج پر جنگ کا بھوت سوار ہو جائے اور وہ دشمن کے ملک میں گھس کر کھیت ، مویشی ، باغات ، عمارات ، ہر چیز کو خواہ مخواہ تباہ و برباد کرتی پھرے ۔ اس معاملہ میں عام حکم تو وہی ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے فوجوں کو شام کی طرف روانہ کرتے وقت دیا تھا کہ پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا ، فصلوں کو خراب نہ کرنا ، اور بستیوں کو ویران نہ کرنا ۔ یہ قرآن مجید کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا کہ اس نے مفسد انسانوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے اس فعل پر زجر و توبیخ کی ہے کہ جب وہ اقتدار پا لیتے ہیں تو فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرتے پھرتے ہیں ۔ ( البقرہ ۔ 205 ) ۔ لیکن جنگی ضروریات کے لیے خاص حکم یہ ہے کہ اگر دشمن کے خلاف لڑائی کو کامیاب کرنے کی خاطر کوئی تخریب ناگزیر ہو تو وہ کی جا سکتی ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت فرما دی ہے کہ قطعوا منھا ما کان موضعاً للقتال ، مسلمانوں نے بنی نضیر کے درختوں میں سے صرف وہ درخت کاٹے تھے جو جنگ کے مقام پر واقع تھے ( تفسیر نیسابوری ) ۔ فقہائے اسلام میں سے بعض نے معاملہ کے اس پہلو کو نظر انداز کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ بنی نضیر کے درخت کاٹنے کا جواز صرف اسی واقعہ کی حد تک مخصوص تھا ، اس سے یہ عام جواز نہیں نکلتا کہ جب کبھی جنگی ضروریات داعی ہوں ، دشمن کے درختوں کو کاٹا اور جلایا جا سکے ۔ امام اَوزاعی ، لیث اور ابوثور اسی طرف گئے ہیں ۔ لیکن جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اہم جنگی ضروریات کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ، البتہ محض تخریب و غارت گری کے لیے یہ فعل جائز نہیں ہے ۔ ایک شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیت مسلمانوں کو تو مطمئن کر سکتی تھی ، لیکن جو لوگ قرآن کو کلام اللہ نہیں مانتے تھے انہیں اپنے اعتراض کے جواب میں یہ سن کر کیا اطمینان ہو سکتا تھا کہ یہ دونوں فعل اللہ کے اِذن کی بنا پر جائز ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی یہ آیت مسلمانوں ہی کو مطمئن کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے ، کفار کو مطمئن کرنا سرے سے اس کا مقصود ہی نہیں ہے ۔ چونکہ یہود اور منافقین کے اعتراض کی وجہ سے ، یا بطور خود ، مسلمانوں کے دلوں میں یہ خلش پیدا ہو گئی تھی کہ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تو نہیں ہو گئے ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ محاصرے کی ضرورت کے لیے کچھ درختوں کو کاٹنا ، اور جو درخت محاصرے میں حائل نہ تھے ان کو نہ کاٹنا ، یہ دونوں ہی فعل قانون الٰہی کے مطابق درست تھے ۔ محدثین کی نقل کردہ روایات میں اس امر پر اختلاف ہے کہ آیا ان درختوں کے کاٹنے اور جلانے کا حکم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ، یا مسلمانوں نے بطور خود یہ کام کیا اور بعد میں اس کا شرعی مسئلہ حضور سے دریافت کیا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت یہ ہے کہ حضور نے خود اس کا حکم دیا تھا ( بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، ابن جریر ) ۔ یہی یزید بن رومان کی روایت بھی ہے ( ابن جریر ) ۔ بخلاف اس کے مجاہد اور قتادہ کی روایت یہ ہے کہ مسلمانوں نے بطور خود یہ درخت کاٹے تھے ، پھر ان میں اس مسئلے پر اختلاف ہوا کہ یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں ۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہوئے اور بعض نے اس سے منع کیا ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر دونوں کے فعل کی تصویب کر دی ( ابن جریر ) ۔ اسی کی تائید حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اس بات پر خلش پیدا ہوئی کہ ہم میں سے بعض نے درخت کاٹے ہیں اور بعض نے نہیں کاٹے ، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا چاہیے کہ ہم میں سے کس کا فعل اجر کا مستحق ہے اور کس کے فعل پر مواخذہ ہو گا ( نسائی ) ۔ فقہاء میں سے جن لوگوں نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا جس کی توثیق بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی جلی سے فرمائی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جن معاملات میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود نہ ہوتا تھا ۔ ان میں حضور اجتہاد پر عمل فرماتے تھے ۔ دوسری طرف جن فقہاء نے دوسری روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں نے اپنے اپنے اجتہاد سے دو مختلف رائیں اختیار کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کی توثیق فرما دی ، لہٰذا اگر نیک نیتی کے ساتھ اجتہاد کر کے اہل علم مختلف رائیں قائم کریں تو باوجود اس کے کہ ان کی آراء ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی ، مگر اللہ کی شریعت میں وہ سب حق پر ہوں گے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :10 یعنی اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ ان درختوں کو کاٹنے سے بھی ان کی ذلت و خواری ہو اور نہ کاٹنے سے بھی ۔ کاٹنے میں ان کی ذلت و خواری کا پہلو یہ تھا کہ جو باغ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے اور جن باغوں کے وہ مدت ہائے دراز سے مالک چلے آ رہے تھے ، ان کے درخت ان کی آنکھوں کے سامنے کاٹے جا رہے تھے اور وہ کاٹنے والوں کو کسی طرح نہ روک سکتے تھے ۔ ایک معمولی کسان اور باغبان بھی اپنے کھیت یا باغ میں کسی دوسرے کے تصرف کو برداشت نہیں کر سکتا ۔ اگر اس کے سامنے اس کا کھیت یا اس کا باغ کوئی برباد کر رہا ہو تو وہ اس پر کٹ مرے گا ۔ اور اگر وہ اپنی جائیداد میں دوسرے کی دست درازی نہ روک سکے تو یہ اس کی انتہائی ذلت اور کمزوری کی علامت ہو گی ۔ لیکن یہاں ایک پورا قبیلہ ، جو صدیوں سے بڑے دھڑلے کے ساتھ اس جگہ آباد تھا ، بے بسی کے ساتھ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے ہمسائے اس کے باغوں پر چڑھ آئے ہیں اور اس کے درختوں کو برباد کر رہے ہیں ، مگر وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔ اس کے بعد اگر وہ مدینے میں رہ بھی جاتے تو ان کی کوئی آبرو باقی نہ رہتی ۔ رہا درختوں کو نہ کاٹنے میں ذلت کا پہلو تو وہ یہ تھا کہ جب وہ مدینہ سے نکلے تو ان کی آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ کل تک جو ہرے بھرے باغ ان کی ملکیت تھے وہ آج مسلمانوں کے قبضے میں جا رہے ہیں ۔ ان کا بس چلتا تو وہ ان کو پوری طرح اجاڑ کر جاتے اور ایک سالم درخت بھی مسلمانوں کے قبضے میں نہ جانے دیتے ۔ مگر بے بسی کے ساتھ وہ سب کچھ جوں کا توں چھوڑ کر با حسرت و یاس نکل گئے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے قلعے کا محاصرہ فرمایا تو آس پاس کے کچھ کھجور کے درخت کاٹنے پڑے تھے، اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ پھل دار درخت کاٹنا مناسب نہیں تھا، اس کے جواب میں اس آیت نے فرمایا کہ جو درخت کاٹے گئے ہیں، اﷲ تعالیٰ کے حکم سے کاٹے گئے ہیں، اور جنگی حکمت عملی کے...  طور پر اگر کسی برحق جہاد میں ایسا کرنا پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:5) ما قطعتم من لینۃ : ما شرطیہ قطعتم۔ ماضٰ جمع مذکر حاضر قطع (باب فتح) مصدر۔ تم نے کاٹا۔ من لینۃ میں من بیانیہ ہے لینۃ لون سے مشتق ہے اس کی جمع الوان آتی ہے۔ بعض کے نزدیک لین سے مشتق ہے۔ علماء نے لینۃ کے مختلف معانی بیان کئے ہیں :۔ (1) بعض نے کہا کہ ہر قسم کے کھجور کے درختوں کو لینہ کہتے ہیں ... ۔ اس میں عجوہ کے درخت شامل نہیں ہیں۔ یہ قول عکرمہ اور قتادہ کا ہے۔ زاذان کی روایت میں حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول آیا ہے۔ (2) زہری نے کہا کہ :۔ عجوہ اور برنیہ کے علاوہ دوسرے تمام اقسام کے کھجور کے درختوں کو الوان کہا جاتا ہے۔ (3) مجاہد اور عطیہ نے کہا کہ :۔ بغیر تحقیق کے ہر کھجور کے درخت کو لینہ کہا جاتا ہے۔ (4) سفیان نے کہا کہ : کھجور کے اعلیٰ درختوں کو لینہ کہتے ہیں۔ (5) مقاتل نے کہا کہ :۔ لینہ ایک قسم کا کھجور کا درخت ہے جس کے پھل کو لون کہا جاتا ہے یہ رنگ میں بہت زرد (اور اتنا شفاف) ہوتا ہے کہ اندر کی گٹھلی باہر سے دکھائی دیتی ہے۔ ما قطعتم من لینۃ جملہ شرط ہے۔ او ترکتموھا قائمۃ علی اصولہا۔ جملہ ہذا کا عطف بھی جملہ سابقہ پر ہے اور یہ جملہ بھی شرطیہ ہے۔ ترکتموھا میں ترکتم ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے ۔ ترل (باب نصر) مصدر سے واؤ اشباع کا ہے۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب لینۃ کے لئے ہے۔ قائمۃ : بوجہ تمیز منصوب ہے۔ اصولہا مضاف مضاف الیہ، ان کی جڑیں۔ ترجمہ : یا ان کو ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا۔ فباذن اللہ یہ جملہ جواب شرط ہے۔ ولیجزی الفسقین۔ اس کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) واؤ کا عطف عبارت مقدرہ پر ہے :۔ ای لیعز المؤمنین ولیجزی الفسقین (یہ تمہارا اللہ کے اذن پر کھجوروں کے درختوں کو کاٹنا یا ان کو ان کی جڑوں پر قائم رہنے دینا اس لئے ہے کہ وہ مومنوں کی عزت افزائی کرے اور نافرمانوں کو رسوا کرے) (2) اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ یعنی تمارا درختوں کو کاٹنا یا ان کو کھڑا رہنے دینا اللہ کے حکم سے تھا۔ اس کا مقصد نافرمانوں کو رسوا کرنا تھا۔ لیخزی میں لام تعلیل کا ہے۔ مضارع منصوب بوجہ جواب شرط۔ اخزاء (افعال) مصدر۔ رسوا کرنا۔ ذلیل کرنا۔ (تاکہ وہ رسوا کر دے) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 جب اسلامی لشکر نے جنگی تدبیر کے طور پر بنی نضیر کے درخت کاٹے اور آگ بھی لگائی تو یہود نے یہ صورت حال دیکھ کر آنحضرت کو آواز دی اور کہا ” اے محمد آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ اللہ کے بنی ہیں اور اصلاح کرنی چاہتے ہیں۔ کیا ان درختوں کا کاٹنا اور جلانا بھی اصلاح ہے ؟ “ ان کی یہ بات آنحضرت اور مسلمانوں پر شا... ق گزری۔ ان کے جواب میں یہ آیت اتری (شوکانی) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت کو قرآن کے علاوہ اور احکام بھی دیئے گئے ہیں کیونکہ یہاں جس کے متعلق فرمایا ہے کہ ” انہوں نے اللہ کے حکم سے کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ قرآن میں نہیں ہے بلکہ وحی کے ذریعہ سے دیا گیا ہے جسے حدیث کہا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ وحی صرف قرآن تک محدود نہیں ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ (مسئلہ) اہل حرب کے اموال کا احراق یا افساد و قطع اشجار وغیرہ جب اس میں مصلحت ہو جائز ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مدینہ سے یہودیوں کے اخراج کا ذکرجاری ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنونضیر کا محاصرہ کرنے کے لیے کھجوروں کے کچھ درخت کاٹنے کا حکم دیا جس پر منافقین اور یہودیوں نے پراپیگنڈہ کیا کہ ” محمد “ نے جہاد کے نام پر فساد فی الارض شروع کردیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے درخت کاٹن... ے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے مومنو ! تم نے جو کھجور کے درخت کاٹے یا جنہیں اپنی حالت پر کھڑے رہنے دیا یہ اللہ کا حکم تھا اور یہ حکم اس لیے دیا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ناگزیر حالات میں دشمن کی جائیداد اور فصل کو تباہ کیا جاسکتا ہے البتہ اہم مجبوری کی صورت کے بغیر دشمن کی جائیداد اور فصل کو نقصان پہچانا جائز نہیں۔ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَمَرَاُمَرَاؤَہٗ اَن لَّا ےَقْتُلُوْا اِلَّامَنْ قَاتَلَھُمْ ) (فتح الباری : باب این رکز النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرایۃ یوم الفتح) ” رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوجی افسروں کو حکم دیا تھا کہ ان لوگوں سے جنگ نہیں کرنا جو تم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ “ (لَا تَقْتُلُوا شَےْخًا فَانِےًا وَّلَا طِفْلاً وَّلَا صَغِےْرًا وَّلَا اِمْرَاَۃً ) (مشکوٰۃ : باب القتال فی الجہاد) ” بوڑھوں، نو عمر لڑکوں، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔ “ (عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ وَہَذَا حَدِیثُ ابْنِ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ بَعَثَنَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی سَرِیَّۃٍ فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُہَیْنَۃَ فَأَدْرَکْتُ رَجُلاً فَقَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَطَعَنْتُہُ فَوَقَعَ فِی نَفْسِی مِنْ ذَلِکَ فَذَکَرْتُہُ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَقَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَقَتَلْتَہُ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّمَا قَالَہَا خَوْفًا مِنَ السِّلاَحِ قَالَ أَفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتَّی تَعْلَمَ أَقَالَہَا أَمْ لاَ فَمَازَالَ یُکَرِّرُہَا عَلَیَّ حَتَّی تَمَنَّیْتُ أَنِّی أَسْلَمْتُ یَوْمَءِذٍ قَالَ فَقَالَ سَعْدٌ وَأَنَا وَاللَّہِ لاَ أَقْتُلُ مُسْلِمًا حَتَّی یَقْتُلَہُ ذو الْبُطَیْنِ یَعْنِی أُسَامَۃَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ أَلَمْ یَقُلِ اللَّہُ (وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُون الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ ) فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَأَنْتَ وَأَصْحَابُکَ تُرِیدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّی تَکُونَ فِتْنَۃٌ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب تحریم قتل الکافر بعد أن قال لاإلہ إلا اللّٰہ) ” حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سریہ (جنگ) میں بھیجا ہم صبح صبح جہینہ کے علاقہ میں پہنچ گئے میں نے وہاں ایک دشمنوں کے آدمی کو پایا اس نے مجھے دیکھ کر لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ، کہا لیکن میں نے اسے قتل کردیا پھر میرے دل میں کچھ خلجان سا پیدا ہوا کہ میں نے مسلمان کو قتل کیا یا کافر کو ؟ میں نے اس کی خبر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا اس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ پڑھا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کردیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس نے دل سے کہا تھا یا نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باربار یہی کلمات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں یہ خواہش کرنے لگا کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا حضرت سعد (رض) نے کہا اللہ کی قسم میں مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک کہ اس کو اسامہ قتل کردیں ایک آدمی نے کہا کہ کیا اللہ عز وجل نے نہیں فرمایا کافروں سے اس وقت تک قتال کرو جب تک کہ فتنہ نہ رہے اور اللہ کا دین عام ہوجائے حضرت سعد (رض) نے کہا کہ ہم فتنہ مٹانے کے لئے جہاد کر رہے ہیں اور تمہارے ساتھی فتنہ پھیلانے کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بھی اس بات کا خیال رکھا کہ نہ صرف آبادی پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے بلکہ جانوروں اور کھیتوں کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچنے۔ شام پر فوج کشی کا ارادہ کیا تو فوج کو رخصت کرتے وقت سپہ سالارکو ہدایات فرمائیں : ” تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کر رکھا ہے ان کو چھوڑ دینا۔ میں تم کو دس وصیتیں کرتا ہوں کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا، آبادیوں کو ویران نہ کرنا، بکری اور اونٹ کو ذبح کرنے کے سوا بےوجہ نہ مارنا، باغات کو نہ جلانا، مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور بزدلی نہ دکھانا۔ “ (تاریخ الخلفاء : سیوطی) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تقریبا پوراجزیرۃ العرب زیر نگیں ہوچکا تھا۔ غیر مسلم رعایا کی حیثیت سے سب سے پہلے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کیا ان کو آپ نے جو حقوق دیے وہ اب تک تاریخ میں محفوظ ہیں جن کو من وعن نقل کیا جاتا ہے۔ اہل نجران کے ساتھمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ : (وَلِنَجْرَانَ وَحَاشِےَتِھَا جَوَار اللّٰہِ وَذِمَّۃُ مُحَمَّدِ النَّبِیِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَمِلَّتِھِمْ وَاَرْضِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ وَغَاءِبِھِمْ وَشَاھِدِھِمْ وَعِےْرِھِمْ وَبَعْثِھِمْ وَاَمْثِلَتِھِمْ لَا ےُغَیَّرُ مَا کَانُوْا عَلَےْہِ وَلَا ےُغَیَّرُ حَقٌ مِنْ حُقُوْقِھِمْ وَاَمْثِلَتِھِمْ وَلَا ےُفَتَّنَّ اُُسُقُّفٌ مِنْ اَسْقِفِیَّتِہٖ وَلَا رَاھِبٌ مِنْ رَھْبَانِیَّتِہَٖ ولاَ وَاقِہٌ مِنْ وَقَاھِےْنَتِۃٖ عَلٰی مَا تَحْتَ اَےْدِےْھِمْ مِنْ قَلِےْلٍ اَوْ کَثِےْرٍ وَّلَےْسَ عَلَےْھِمْ رَھْقٌ وَلَا دَمُّ جَاھِلِیَّۃٍ وَلَا ےُحْشَرُوْنَ وَلَا ےُعْشَرُوْنَ وَلَا ےَطَاءُ اَرْضَھُمْ جَےْشٌ مَنْ سَاَلَ مِنْھُمْ حَقًّافَبَےْنَھُمُ النِّصْفُ غَےْرَ ظَالِمِےْنَ وَلَا مَظْلُوْمِےْنَ بِنَجْرَانَ وَمَنْ اَکَلَ مِنْھُمْ رِبًا مِنْ ذِی قِبَلٍ فَذِمَّتِی مِنْہُ بَرِےْءَۃٌ وَلَا ےُؤْخَذُ مِنْھُمْ رَجُلٌ بِظُلْمِ اَخَرَ وَلَھمُْ عَلٰی مَا فِی ھَذٰہِ الصَّحِےْفَۃِ جَوَار اللّٰہِ وَذِمَّۃُ مُحَمَّدِالنّٰبِی اَبَدًا حَتَّی ےَاْتِی اَمَرُ اللّٰہِ مَا نَصَحُوا واصْلَحُوا فِےْمَا عَلَےْھِمْ غَےْرَ مُکَلِّفِےْنَ شَےْءًا بِظُلْمٍ ) (فتوح البلدان : کتاب الخراج، امام ابو یوسف) ” نجران اور اس کے رہنے والوں کی جانیں، ان کا مذہب، ان کی زمینیں، ان کا مال، ان کے حاضرو غائب، ان کی مورتیاں، ان کے قافلے اور قاصد، اللہ کی امان اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضمانت میں ہوں گے۔ ان کی موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ان کے حقوق میں سے کسی حق میں مداخلت نہیں کی جائے گی، کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی رہبانیت سے، کنیسہ کا کوئی منتظم اپنے عہدہ سے ہٹایانہ جائے گا، اور جو کچھ بھی ان کے قبضے میں ہے اسی طرح رہے گا۔ ان کے زمانۂ جاہلیت کے کسی جرم یا خون کا بدلہ نہ لیا جائے گا، نہ ان سے فوجی خدمت لی جائے گی اور نہ ان پر عشر لگایا جائے گا اور نہ اسلامی فوج ان کے علا قے کو پامال کرے گی۔ ان میں سے جو شخص اپنے کسی حق کا مطالبہ کرے گا تو اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ نہ انہیں ظلم کرنے دیا جائے گا اور نہ ان پر ظلم ہوگا۔ ان میں سے جو شخص سود کھائے گا وہ میری ضمانت سے بری ہے۔ اس صحیفہ میں جو لکھا گیا ہے اس کے ایفا کے بارے میں اللہ کی امان اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری ہے یہاں تک کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی دوسرا حکم نازل ہو۔ جب تک یہ لوگ مسلمانوں کے خیر خواہ رہیں گے ان کے ساتھ کیے ہوئے معاہدہ کی پابندی کریں گے ان کو جبراً کسی بات پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کے محاصرے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان کے درخت کاٹ دیئے جائیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو دنیا میں بھی ذلیل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں کو دنیا میں ذلیل کیا : ١۔ یہودی دنیا میں ذلیل اور آخرت میں سخت عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ (البقرۃ : ٨٥) ٢۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے والے دنیا وآخرت میں ذلیل ہوں گے۔ (البقرۃ : ١١٤) ٣۔ کفار کو دنیا وآخرت میں شدید عذاب ہوگا۔ (الرعد : ٣٤، آل عمران : ٥٦) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن اور فسادی دنیا وآخرت میں عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔ (المائدۃ : ٣٣) ٥۔ بچھڑے کے پجاری دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ (الاعراف : ١٥٢) ٦۔ منافقین کو دنیا وآخرت میں سزا ہوگی۔ (التوبہ : ٧٤) (النور : ١٩) (الزمر : ٢٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لینہ (٩٥ : ٥) کھجور کے بہترین درختوں کو کہتے ہیں۔ یہ اس وقت کی بہترین قسم تھے جسے سب جانتے تھے۔ مسلمانوں نے یہودیوں کے باغات میں سے بعض کو کاٹا تھا۔ بعض کو چھوڑدیا تھا۔ ان کے دلوں میں ایک خلجان تھا ، یعنی کاٹنے پر ، اور چھوڑنے پر۔ جبکہ اس سے قبل اور اس کے بعد مسلمانوں کے لئے جنگی ضابطہ یہی رہا کہ تح... ریق اور بربادی سے گریز کیا جائے۔ اس لئے اس واقعہ میں جو کچھ ہوا اس کی استثنائی حالت کے لئے یہ آیت آئی تاکہ مسلمانوں کے دل مطمئن ہوجائیں۔ آیت نے کہہ دیا کہ اگر باغات جلانے کو تم نے چھوڑا ہے اور اس سے اجتناب کیا ہے تو یہ بھی اللہ کا اذن تھا اور اگر کاٹ کر جلایا ہے تو یہ بھی اذن الٰہی تھا۔ کیونکہ اس مہم کی نگرانی اللہ براہ راست کررہا تھا۔ اس لئے اللہ نے مسلمان لشکروں سے ایسا کروایا۔ ان کے ہاتھوں تعذیر کو ظاہر کیا۔ لہٰذا یہ سب کاروائیاں اس کی مرضی سے ہوئیں۔ ان سے اللہ ان فاسقوں کو ذلیل کرنا چاہتا تھا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے پیارے باغات گر رہے تھے اور جل رہے تھے اور جو چھوڑے گئے تھے وہ بھی ان کے لئے باعث حسرت تھے کہ چھوڑ کر جارہے تھے۔ اللہ کی منشا تھی کہ دونوں طرح ان کو حسرت سے دو چار کرے۔ جن مومنین کے دل میں خلجان تھا کہ یہ تخریب وتحریق کیوں ہوئی ، ان کو اطمینان ہوا ، ان کو تسلی ہوگئی کہ یہ تو اللہ کی منشا تھی۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ تو دست قدرت کے آلات محض تھے۔ اس سورة کا یہ دوسرا پیراگراف بھی ایک نہایت ہی اہم مسئلے کو لیتا ہے کہ اس واقعہ میں جو اموال ہاتھ لگے اور حضور کی طرف پلٹے یا ایسے ہی واقعات بعد کے زمانے میں پیش آئیں تو ان کا حکم کیا ہے۔ یعنی وہ اموال جو جنگ اور قتال کے بغیر ہاتھ آجائیں۔ یا ایسے واقعات جن میں قدرت الٰہیہ نے مسلمانوں کے لئے اموال فراہم کیے۔ اور مسلمانوں نے اس میں کوئی زیادہ جنگی کاروائی نہ کی ہو۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کے متروکہ درختوں کو کاٹ دینا یا باقی رکھنا دونوں کام اللہ کے حکم سے ہوئے حضرات صحابہ (رض) نے جب یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیر کا محاصرہ کیا اور وہ لوگ اپنے قلعوں میں اپنے خیال میں محفوظ ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے کھجوروں کے درختوں کو کاٹنے اور جلانے کا حکم دے دیا اس ... پر یہودیوں نے کہا کہ اے ابو القاسم آپ تو زمین میں فساد سے منع کرتے ہیں کیا یہ درختوں کا کاٹنا فساد نہیں ہے اور بعض روایات میں یوں بھی ہے کہ بعض مہاجرین نے مسلمانوں کو منع کیا کہ کھجوروں کے درختوں کو نہ کاٹیں، کیونکہ یہ مسلمانوں کو بطور غنیمت مل جائیں گے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے کھجوروں کے درختوں کو کاٹنے کی اجازت دے دی تھی پھر منع فرمایا تھا اس پر صحابہ (رض) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا ان درختوں کو کاٹنے میں کوئی گناہ ہے یا ان کے چھوڑ دینے پر کوئی مواخذہ کی بات ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ (تفسیر ابن کثیر ص ٣٢٣ ج ٤) یعنی تم نے جو بھی کھجوروں کے درخت کاٹ دیے یا انہیں ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، سو یہ سب اللہ کی اجازت سے ہے۔ جو کام اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اور دینی ضرورت سے ہو اس میں گناہگار ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ان کھجوروں کے کاٹنے میں جو دینی ضرورت تھی اس کو ﴿ وَ لِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ ٠٠٥﴾ میں فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ ان درختوں کے جلانے میں بددین یہودیوں کا ذلیل کرنا بھی مقصود ہے اپنے باغوں کو جلتا ہوا دیکھ کر ان کے دل بھی جلیں گے اور ذلت بھی ہوگی اور اس کی وجہ سے قلعے چھوڑ کر ہار ماننے اور صلح کرنے پر راضی ہوں گے۔ چنانچہ یہودی یہ منظر دیکھ کر راضی ہوگئے کہ ہمیں مدینہ سے جانا منظور ہے پھر وہ مدینہ سے جلا وطن ہو کر خیبر چلے گئے جس کا قصہ اوپر گزرا ہے دنیاوی سامان کی حفاظت ہو، تخریب ہو اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہو تو اس میں ثواب ہی ثواب ہے گناہ کا احتمال ہی نہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” ماقطعتم “ جب بنی نضیر کا محاصرہ کیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ یہودیوں کے باغوں کو اجاڑ دیں چناچہ مسلمانوں نے کھجوروں کے درخت کاٹنے شروع کردئیے بعض صحابہ نے خراب خراب درخت کاٹے اور بعض نے اچھے اچھے یہودیوں نے اعتراض کیا کہ اے محمد تم تو فساد سے منع کرت... ے ہو اور باغوں کو اجاڑنا سراسر فساد ہے۔ ممکن ہے اس قسم کا وسوسہ بعض مسلمانوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوا ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے بطور تسلیہ فرمایا تم نے جو کچھ کیا ہے سب ٹھیک ہے۔ تم نے جو کھجور کے درخت کاٹے ہیں اور جو کھڑے چھوڑ دئیے ہیں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اس کی مشیت سے ہوا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے تم سے اس لیے کرایا ہے تاکہ اس سے مسلمانوں کو عزت عطا فرمائے اور ان بدکردار یہودیوں کو رسوا کرے ؟ ” لینۃ “ کھجور کا درخت، اللینۃ النخلۃ من الالوان (مدارک ج 4 ص 181) ۔ ولیخزی میں واؤ زائدہ ہے اور لیخزی، اذن مقدر کے متعلق ہے یا واؤ عاطفہ ہے اور لیخزی کا معطوف علیہ مقدر ہے جو اَذِنَ مقدر کے متعلق ہے (ولیخزی الفاسقین) متعلق بمقدر علی انہ علۃ لہ وذلک عطف علی مقدر اخر ای اذن لہم فی القطع والترک لیعز المؤمنین ولیخزی الفاسقین (روح) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اے مسلمانو ! کھجور کے جن درختوں کو تم نے کاٹ ڈالا یا جن درختوں کو تم نے ان کی جڑوں پر کھڑا ہوا چھوڑ دیا اور جڑوں پر ان کو کھڑا چھوڑے رکھا تو یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہوا اور اس لئے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ کافروں اور بےحکموں کو رسوا کرے۔ ہم نے اوپر عرض کیا ہے ک... ہ محاصرے کے زمانے میں بعض مسلمانوں نے پھل دار درخت کاٹ دیئے تھی اور اگرچہ پھل دار درختوں کا کٹنا معیوب سمجھا جاتا تھا بعض مسلمانوں نے محض اس بنا پر کہ یہود کو اس سے قلبی اذیت پہنچے گی کچھ درخت کاٹ دیئے اور بعض مسلمانوں نے یہ خیال کرکے کہ یہ درخت ان کو جلاوطنی کے بعد ہمارے ہی کام آئیں گے ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا۔ مدینے کے بعض یہود نے طعن بھی کیا کہ مسلمانوں نے پھل دار درخت کاٹ دیئے اور یہ فساد ہے اس لئے مسلمان مفسد ہیں حق تعالیٰ نے دونوں فریق کی تصویب فرما دی چونکہ دونوں کی نیت صحیح تھی اس لئے دونوں کو بری الذمہ فرمادیا۔ لینۃ کے معنی بعض لوگوں نے مطلق درخت یا کھجوروں کے درخت کئے ہیں اور بعض نے لیننہ خاص بیش قیمت کھجوروں کے درخت کر کہا ہے۔ غرض : یہ کام اس لئے ہوا تاکہ مسلمانوں کو عزت دے اور نافرمانوں کو رسوا کرے آگے اس مال غیر منقولہ کی تفصیل مذکور ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب وہ قلعے میں بند ہوئے حضرت نے حکم دیا کہ ان کے باغ کاٹو اور کھیت اجاڑو تاکہ اس کے درد سے باہر نکل کر لڑیں پھر کاٹنے لگے وہ طعن کرنے کو ہم کو تو کافر کہتے ہو اس سے مارتے ہو کیا درخت بھی کافر ہے جو کاٹتے ہو یعنی مسلمانوں کو شبہ آنے لگا یہ آیت اتری۔  Show more