تفسیر سورۃ الانعام یہ سورت مکے میں اتری ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ پوری سورت ایک ہی مرتبہ ایک ساتھ ہی ایک ہی رات میں مکہ شریف میں نازل ہوئی ہے ، اس کے اردگرد ستر ہزار فرشتے تھے جو تسبیح پڑھ رہے تھے ایک روایت میں ہے کہ اس وقت حضور کہیں جا رہے تھے فرشتوں کی کثرت زمین سے آسمان تک تھی ، یہ... ستر ہزار فرشتے اس سورت کے پہنچانے کے لئے آئے تھے ، مستدرک حاکم میں ہے ، اس سورت کے نازل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس مبارک سورت کو پہنچانے کیلئے اس قدر فرشتے آئے تھے کہ آسمان کے کنارے دکھائی نہیں دیتے تھے ، ابن مردویہ میں یہ بھی ہے کہ فرشتوں کی اس وقت کی تسبیح نے ایک گونج پیدا کر دی تھی زمین گونج رہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ العظیم سبحان اللہ العظیم پڑھ رہے تھے ۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ مجھ پر سورہ انعام ایک دفعہ ہی اتری ۔ اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے تھے جو تسبیح و حمد بیان کر رہے تھے ۔ Show more
حافظ عماد الدین ابن کثیر۔
نام نسب : اسماعیل کنیت : ابوالفداء لقب : عماد الدین اور ابن کثیر عرف ہے
سلسلہ نسب یہ ہے : اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن ذرع القیسی البصروی ثم الدمشقی
آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کے والد شیخ ابوحفص شہاب الدین عمر اپنی بستی خطیب تھے آپ کے بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہ تھے۔
ولادت و تعلیم و تربیت : آپ کی ولادت ٧٠٠ ھ میں بمقام مجدل ہوئی جو ملک شام کے مشہور بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے ، اس وقت آپ کے والد یہاں کے خطیب تھے ، ابھی آپ تیسرے یا چوتھے برس میں ہی تھے کہ والد بزرگوار نے ٧٠٣ ھ میں وفات پائی اور نہایت ہی کم سنی میں آپ یتیمی کا داغ اٹھانا پڑا، باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو بڑے نے اپنی آغوش تربیت میں لے لیا ۔ والد کی وفات کے تین سال بعد یعنی ٧٠٦ ھ میں آپ اپنے برادر بزرگوار کے ساتھ دمشق چلے آئے اور پھر یہیں آپ کی نشو و نما ہوئی ، ابتدا میں اپنے بڑے بھائی سے فقہ کی تعلیم پائی بعد کو شیخ برھان الدین ابراہیم بن عبدالرحمن فرازی معروف بہ ابن فرکاح شارخ تنبیہ المتوفی ٧٢٩ ھ اور شیخ کمال الدین قاضی شہبہ سے اس فن کی تکمیل کی ، اس زمانہ میں دستور تھا کہ طالب علم جس فن کو حاصل کرتا اس فن کی کوئی مختصر کتاب زبانی یاد کرلیتا۔ چناچہ آپ نے بھی فقہ کی التنبیہ فی فروع الشافعیہ ، مصنفہ شیخ ابواسحاق شیرازی المتوفی ٤٧٦ ھ کو حفظ کرکے ٧١٨ ھ میں سنادیا اور اصول فقہ میں علامہ ابن حاجب مالکی المتوفی ٧٤٦ ھ کی مختصر کو زبانی یاد کیا۔ اصول کی کتابیں آپ نے علامہ شمس الدین محمود بن عبدالرحمن اصفہانی شارح مختصر ابن حاجب المتوفی ٧٤٩ ھ سے پڑھی تھیں۔
فن حدیث کی تکمیل آپ نے اس عہد کے مشہور اساتذہ فن سے کی تھی ، علامہ سیوطی ، ذیل تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں ۔ سمع الحجازوالطبقۃ یعنی حجاز اور اس طبقہ کے علماء سے آپ نے سماع حدیث کیا۔
حجاز کے ہم طبقہ وہ علماء جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا اور جن کا ذکر خصوصیت سے آپ کے تذکرہ میں علماء نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں (١) عیسیٰ بن المعطعم ّ (٢) بہاؤالدین قاسم بن عساکر المتوفی ٧٢٣ ھ (٣) عفیف الدین اسحاق بن یحییٰ الامدی المتوفی ٧٢٥ ھ (٤) محمد بن زراد (٥) بدرالدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی المتوفی ٧١١ ھ (٦) ابن الرضی (٧) حافظ مزی (٨) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (٩) حافظ ذہبی (١٠) عمادالدین محمد بن الشیرازی المتوفی ٧٤٩ ھ۔
لیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفاد ہ کا موقع ملا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبدالرحمن مزی شافعی مصنف تہذیب الکمال المتوفی ٧٤٢ ھ ہیں ۔ حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بناء پر اپنی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کردیا تھا ۔ اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کردیا۔ سعادت مند شاگرد نے اپنے محترم استاذ کی شفقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ، مدت مدید تک حاضر خدمت رہے اور ان کی اکثر تصانیف کا جس میں تہذیب الکمال بھی داخل ہے بھی داخل ہے ، خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کر کی
چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں وتخرج بالمزی ولازمہ وبرع۔ اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مصر سے آپ کو دیوسی ، وانی اور ختنی وغیرہ نے حدیث کی اجازت دی تھی۔
منزلت علمی : امام ابن کثیر کو علم حدیث کے علاوہ فقہ ، تفسیر ، تاریخ اور عربیت میں بھی کمال حاصل تھا ، چناچہ علامہ ابن العماد حنبلی ، ابن حبیب سے ناقل ہیں ۔ انتھت الیہ ریاستہ العلم فی التاریخ و الحدیث والتفسیر (ان پر تاریخ ، حدیث اور تفسیر میں ریاست علمی ختم ہوگئی۔
درس وافتاء ، ذکر الٰہی شگفتہ مزاجی :۔ حافظ ابن کثیر کی تمام عمر درس وافتاء اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی ۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ (جو اس زمانہ میں علم حدیث کے مشہور مدرسے تھے ) میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے ، بڑے ذاکر شاغل تھے ، چناچہ ابن حبیب نے آپ کے متعلق لکھا کہ امام ذی التسبیح والتھلیل طبیعت بڑی شگفتہ پائی تھی ۔ لطیفہ گو اور بذلہ سنج تھے ، حافظ ابن حجر نے آپ کے اوصاف میں حسن الفاکہۃ کے الفاظ استعمال کئے ہیں ، یعنی بڑا پر لطف مزاح کیا کرتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق : اخیر میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ حافظ ابن کثیر کو اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق تھا ، جس نے آپ کی علمی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ بعض ان مسائل میں بھی امام ابن تیمیہ سے متاثر تھے جن میں وہ جمہور سلف سے متفرد ہیں ، چناچہ ابن قاضی شہبہ اپنے طبقات میں لکھتے ہیں
'' کانت لہ خصوصیۃ بابن تیمیہ مناضلتہ عنہ و اتباع لہ فی کثیر من ارایئہ وکان یفتی برایہ فی مسئلتہ الطلاق وامتحن بسبب ذالک واوذی ''۔
ان کو ابن تیمیہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور ان کی طرف سے لڑا کرتے تھے اور بہت سی آراء میں ان کی اتباع کرتے تھے چناچہ طلاق کے مسئلہ میں بھی انہی کی رائے پر فتوی دیتے تھے جس کے نتیجے میں آزمائش میں پڑے اور ستائے گئے۔
وفات :
اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی ، جمعرات کے دن شعبان کی چھبیس تاریخ ٧٧٤ ھ میں وفات پائی (رحمتہ اللہ ) اور مقبرہ صوفیہ میں اپنے محبوب استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے پہلو میں دفن کئے گئے ، آپ کے کسی شاگرد نے آپ کی وفات پر بڑا درد انگیز مرثیہ لکھا ہے، جس کے دو شعر یہ ہیں
لفقدک طلاب العلوم تاسفوا وجادوابدمع لایبیدغزیر
ومزجواماء المدامع بالدما لکان قلیلا فیک یا ابن کثیر
ترجمہ (شائقین علوم تمہارے اٹھ جانے پر متاسف ہیں ، اس کثرت سے آنسو بہا رہے ہیں کہ تھمنے ہی کو نہیں آتے اور اگر وہ آنسوؤں کے ساتھ لہو بھی ملا دیتے تب بھی اے ابن کثیر تمہارے لئے تھوڑے تھے)
پسماندگان
پسماندگان میں دو صاحبزادے بڑے نامور چھوڑے تھے ، ایک زین الدین عبدالرحمن جن کی وفات ٧٩٢ ھ میں ہوئی اور دوسرے بدرالدین ابوالبقاء محمد۔ یہ بڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں ۔ انہوں نے ٨٠٣ ھ میں بمقام رملہ وفات پائی ، ان دونوں کا ذکر حافظ بن فہد نے اپنے ذیل میں بسلسلہ وفیات کیا ہے۔
تصنیفات :
آپ نے تفسیر ، حدیث ، سیر ت اور تاریخ میں بڑی بلند پایہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، یہ آپ کے اخلاص کا ثمرہ اور حسن نیت کی برکت تھی کہ بارگاہ ایزدی سے ان کو قبول عام اور شہرت دوام کی مسند عطا ہوئی، مورخین نے آپ کے تصانیف کی افادیت اور ان کی قبولیت کا ذکر خاص طور سے کیا ہے ، ذہبی لکھتے ہیں ، ولہ تصانیف مفیدۃ ابن حجر کہتے ہیں ۔
'' سادت تصانیفہ فی البلادفی حیاتہ وانتفع الناس بھا بعد وفاتہ ''
ان کی زندگی میں ان کی تصانیف شہر شہر جا پہنچیں اور ان کی وفات کے بعد لوگ ان سے نفع اندوز ہوتے رہے۔
آپ کی جن تصانیف پر ہمیں اطلاع ملی ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
(١) تفسیر القرآن العظیم : جس کے متعلق حافظ سیوطی تصریح کرتے ہیں کہ اس طرز پر دوسری تفسیر نہیں لکھی گئی ، یہ تفسیر بالروایہ میں سب سے زیادہ مفید ہے۔
(٢) البدایہ والنہایہ : یہ فن تاریخ میں ان کی بیش بہا تصانیف ہیں اور مصر سے طبع ہو کر شائع ہوچکی ہے اس میں ابتدائے کائنات سے لے کر احوال آخرت تک درج ہیں۔
(٣) التکمیل فی معرفتہ الثقات والضعفاء والمجاہیل :
(٤) الہدی والسنن فی احادیث المسانید والسنن : یہی کتاب ہے جو جامع المسانید کے نام سے مشہور ہے۔
(٥) طبقات الشافعیہ : اس میں فقہاء شافعیہ کا تذکرہ ہے ۔
(٦) مناقب الشافعی : یہ رسالہ امام شافعی کے حالات میں ہے ۔
(٧) تخریج احادیث ادلتہ التنبیہ۔
(٨) تخریج احادیث مختصر ابن حاجب ، التنبیہ اور مختصر یہ دونوں کتابیں وہی ہیں جن کو مصنف نے عہد طالب علمی میں حفظ کیا تھا، ان دونوں کتابوں میں کتب حدیث سے تخریج بھی لکھی ہے۔
(٩) شرح صحیح بخاری ک : اسکی تصنیف بھی شروع کی تھی مگر ناتمام رہ گئی ' کشف الطنون میں ہے کہ صرف ابتدائی ٹکڑے کی شرح ہے۔ مصنف نے اس کا ذکر اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٠) الاحکام الکبیر : یہ کتاب بہت بڑے پیمانہ پر احادیث احکام میں لکھنی شروع کی تھی ' مگر کتاب الحج تک لکھ سکے تمام نہ کرسکے ' مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اس کتاب کا بھی ذکر کیا ہے۔
(١١) اختصار علوم الحدیث : نواب صدیق حسن خاں نے منہج الوصول فی اصطلاح احادیث الرسول میں اس کا نام الباعث الحثیث علی معرفتہ علوم الحدیث لکھا ہے ' یہ علامہ ابن صلاح المتوفی ٦٤٣ ھ کی مشہور کتاب '' علوم الحدیث '' معروف بہ مقدمہ ابن صلاح کا جو اصول حدیث میں ہے ' اختصار ہے ' مصنف نے اس میں جابجا مفید اضافے کئے ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں ولہ فیہ فوائد (اس کتاب میں حافظ ابن کثیر کے بہت سے افادات ہیں ۔ )
(١٢) مسند الشیخین : اس میں شیخین یعنی حضرت ابوبکر و عمر (رض) سے جو حدیثیں مروی ہیں انکو جمع کیا گیا ہے۔ مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اپنی ایک تصنیف مسند عمر (رض) کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آیا وہ مستقل علیحدہ کتاب ہے یا اسی کا حصہ ثانی ہے۔
(١٣) السیرۃ النبویہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : یہ سیرت پر بڑی طویل کتاب ہے۔
(١٤) الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول : یہ سیرت پر ایک مختصر کتاب ہے ۔ مصنف نے اس کا ذکر اپنی تفسیر میں سورة احزاب کے اندر غزوہ خندق کے بیان میں کیا ہے ۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں کتب خانہ شیخ الاسلام میں موجود ہے۔
(١٥) کتاب المقدمات : اس کا ذکر مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٦) مختصر کتاب المدخل للبیہقی : اس کا ذکر بھی اختصار الحدیث کے مقدمہ میں کیا ہے۔
(١٧) الاجتہاد فی طلب الجہاد : جب فرنگیوں نے قلعہ ایاس کا محاصرہ کیا اس وقت آپ نے یہ رسالہ امیر منجک کے لئے لکھا ' یہ رسالہ مصر سے چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔
(١٨) رسالتہ فی فضائل القرآن : یہ رسالہ بھی تفسیر ابن کثیر کیساتھ مطبع المنار مصر میں طبع ہوچکا ہے۔
(١٩) مسند امام احمد بن حنبل کو بھی حروف پر مرتب کیا تھا اور اسکے ساتھ طبرانی کی معجم اور ابو یعلی کی مسند سے زوائد بھی درج کئے تھے ۔ امام ابن کثیر کی تمام تصانیف میں یہ خوبی عیاں ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں نہایت تحقیق کیساتھ لکھتے ہیں اور مفصل لکھتے ہیں ' عبارت سہل اور پیرایہ بیان دلکش ہوتا ہے۔
مقدمہ
ازقلم معالی اشیخ صالح بن عبدالعزیزبن محمد آل الشیخ
وزیر اسلامی امور اوقاف اور دعوت وارشاد
نگران اعلٰی مجمع الملک فہد
خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ نے کتاب الہٰی کی خدمت کے سلسلہ میں جو ہدایات دی ہیں ان میں قرآن مجید کی طباعت ، وسیع پیمانے پر مسلمانان عالم میں اس کی تقسیم کے اہتمام اور دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کی اشاعت پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔
وزارۃالشؤون الاسلامیۃ والأوقاف والدعوۃ والارشاد
کی نظرمیں عربی زبان سے ناواقف مسلمانوں کےلئےقرآن فہمی کی راہ ہموارکرنے اور تبلیغ کی اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونےکےلئےجورسول اکرم ﷺ کےارشادگرامی : بلغوا عنی ولوآیۃ : (میری جانب سے لوگوں تک پنچاؤخواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ) میں بیان کی گئی ہے، دنیا کے تمام اہم زبانوں میں قرآن مجید کے مطا لب کو منتقل کیا جانا انتہائ ضروری ہے۔
مفسر مرحوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی (رح)
مولانا عبدالرحمان کیلانی مرحوم بہت ہی سادہ اور دویش صفت انسان تھے انہوں نے گھر اور باہر جب بھی انہیں دیکھا سفید لباس میں دیکھا سفید لباس ' تہبند اور قمیص پر مشتمل ہو یا شلوار قمیض پر سر پر ہمیشہ سفید رومال رکھتے اور بازار جاتے وقت سیاہ رنگ کی جناح کیپ استعمال کرتے لکھنے کے لئے ہمیشہ کوئی بھی معمولی سا قلم اور سواری کے لئے سائیکل ہی استعمال کی۔ مالی طور پر خوب مستحکم تھے مگر اس کے باوجود کبھی تصنع یا بڑائی کا اظہار نہیں کیا ۔
والد مرحوم چار بھائی تھے۔ ان چار بھائیوں میں چار چار سال کا فرق تھا اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ پہلے تینوں بھائی اسی ترتیب سے چار چار سال وقفے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھا کرتے اور کبھی دکان کے ذریعہ اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹایا ۔ ان حالات میں ہمیشہ ہر امتحان میں اعلی کامیابی اور وظیفہ حاصل کیا۔ بی اے۔ کا امتحان گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے نہ دے سکے ۔
محترم ابا جان نے فوج میں ملازمت کی اور فوج سے صرف اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ یہ ملازمت داڑھی رکھنے سے مانع تھی جب کہ انہیں داڑھی منڈوانا منظور نہ تھا۔ حالانکہ محکمہ نے انہیں پر وموشن اور تنخواہ میں اضافے کا بھی لالچ دیا مگر یہ چیزیں سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔
استعفی کے بعد کتابت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ ١٩٤٧ ء سے ١٩٦٥ ء تک اردو کتابت کی اور اس وقت کے سب سے بہتر ادارے ، فیروز سنز سے منسلک رہے ۔ ١٩٦٥ ے میں قرآن مجید کی کتابت شروع کی اور تاج کمپنی کے لئے کام کرتے رہے ۔ غالبا ٥٠ کے قریب قرآن مجید کی کتابت کی سعادت حاصل کی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ١٩٧٢ ء میں حج کرنے گئے تو مکی سورتوں کی کتابت باب بلال (مسجد حرام ) میں بیٹھ کر کی اور مدنی سورتوں کی کتابت مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر بیٹھ کر کی ۔ الحمد للہ اس تفسیر میں قرآن مجید کی اسی بابرکت کتابت کو ہی بطور متن قرآن شائع کیا جارہا ہے۔ (ایں سعادت بزور بازو نیست ! )
١٩٨٠ ء کے بعد جب انہیں فکر معاش سے قدرے آزادی نصیب ہوئی تو تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اس میدان میں بھی ماشاء اللہ علماء و مصنفین حضرات کی صف میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ مرحوم نے معاشرت ' معیشت ' سیاست ' عقائد اور جدید دینی مسائل پر تحقیق و تنقید کی اور علمی حلقوں میں داد تحسین پائی۔ ابا جان مرحوم کی تصانیف میں سے مترادفات القرآن ' آئینہ پرویزیت ' شریعت و طریقت ' خلافت و جمہوریت ' تجارت اور لین دین کے مسائل ' عقل پرستی اور انکار معجزات ' روح ' عذاب قبر اور سماع موتی ' احکام ستر و حجاب ' اسلام میں دولت کے مصارف اور الشمس والقمر بحسبان ہیں ۔ انکی وفات کے بعد جب ان کے مسودات وغیرہ دیکھے گئے تو کئی ایک غیر مطبوعہ کتب بھی ملیں جو وہ مکمل کرچکے تھے ۔ ان میں سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت سپہ سالار طبع ہوچکی ہے ۔ '' محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر و ثبات کے پیکر اعظم اور ایک مجلس کی تین طلاقیں اور انکا شرعی حل ' بھی زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی ان کے مفصل علمی مقالہ جات موجود ہیں۔
آخری عمر میں وہ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھ رہے تھے ۔ انکی خواہش تھی کہ ا سکوخود طبع کروائیں مگر عمر نے وفا نہ کی انکی وفات کے بعد الحمد للہ اس تفسیر کو چھپوانے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا ہے '' تیسیرالقرآن '' نے چند ہی سالوں میں دوسری متداول تفاسیر میں اپنی امتیازی حیثیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔ اس تفسیر میں انہوں نے آیت کے ساتھ مطابقت رکھنے والی احادیث کا با حوالہ ذکر کیا ہے اور صحاح ستہ سے ہی احادیث لی ہیں۔ مروجہ اردو تفاسیر کے انداز میں لکھی جانے والی اس تفسیر کی اضافی خوبی یہ ہے کہ حاشیہ میں ذیلی سرخیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر ٤ جلدوں میں ہے۔
محترم ابا جان نے دو دفعہ قومی سیرت کانفرنس میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ مقالے '' اصلاح معاشرہ '' اور '' پیغمبراسلام داعی امن و اخوت '' کے موضوعات پر تھے۔ مرحوم اپنی زندگی میں اتنا کام کرگئے کہ جید علماء جن کے پاس مستقل ادارے اور ملازمین ہیں حیران ہوتے ہیں کہ مرحوم کس طرح اکیلے یہ سارے کام کرتے ۔ ساتھ ہی ساتھ اتنی تحقیق اور معلوماتی کتب تصنیف کیں کہ جن سے آج تک علمی حلقے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
١٨ دسمبر ١٩٩٥ ء کو رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ نماز عشاء کا وقت ہوگیا۔ وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دئیے۔ جاکر پہلی صف میں دائیں طرف جگہ ملی پہلے سجدہ کے دوران روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ ساتھ والے نمازی نے اپنی نماز توڑ کر انکو پانی پلانے کی کوشش کی ۔ مگر بےسود۔۔۔۔۔ ایسی پرسکون ' اطمینان بخش موت کہ جس کی ہر مسلمان بجا طور تمنا کرسکتا ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی
( تفسیر تیسیر القرآن مفصل کو مولانا عبدالرحمن کیلانی مرحوم کے چاروں بیٹوں اور چاروں بیٹوں اور ان کی دوسری زوجہ محترمہ کی طرف سے اجازت کے بعد ہم CD پر لا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی اور ان کی پہلی زوجہ محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
اس تفسیر کو محترم والد صاحب ، والدہ صاحبہ، اور ہم سب بہن بھائیوں اور ہماری دوسری والدہ محترمہ کیلئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ عامۃ الناس کے لئے اس تفسیر کو نافع بنائے۔ آمین )
ترجمہ و تفسیر القرآن الکریم
تفسیر القرآن الکریم۔ حافظ عبدالسلام بھٹوی
مصنف کا تعارف :
حافظ عبدالسلام علوم القرآن اور علوم الحدیث میں ایک مقام کے حامل ہیں۔ موصوف کا مکمل نام ابوعبدالرحمن حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی ہے۔ حافظ صاحب اگست 1946 کو گوہڑ چک نمبر 8 ضلع قصور میں پیدا ہوئے۔
تعلیم :
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ابتدائی علوم دینیہ کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔ پھر آپ نے میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا۔ موصوف نے میٹرک کے بعد درس نظامی، فاضل عربی، فاضل فارسی اور فاضل طب کی تعلیم حاصل کی۔
اساتذہ :
مترجم نے ابتدائی و اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ مثلاً محمد گوندلوی، مولانا محمد عبدہ الفلاح، مولانا صادق خلیل، قاری اسلم اور مولانا شریف اللہ سواتی وغیر۔ حافظ صاحب نے ترجمہ قرآن کے علاوہ اور بھی کتابیں لکھیں ہیں۔ مثلاً ایک دین چار مذہب۔ چوری کے متعلق قانون الہی، مقالات طیبہ۔ احکام زکوۃ و عشر و صدقہ فطر۔ ترجمۃ القرآن الکریم۔ شرح کتاب الطہارہ من بلوغ المرا۔ شرح کتاب الجامع من بلوغ المرا وغیرہ۔
حافظ صاحب نے 17 سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1966 سے 1992 تک جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں پڑھایا۔ اس وقت سے لے کر تاحال تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیںَ
خصوصیات ترجمہ وتفسیر :
1 ۔ تاکید کے الفاظ کا ترجمہ بھی تاکید سے کیا گیا ہے۔
2 ۔ مبالغہ کے صیغوں کا ترجمہ بھی اضافہ سے کیا گیا ہے۔
3 ۔ صیغوں کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
4 ترجمہ کمی و بیشی کے بغیر بامحاورہ اردو زبان میں ہے۔
5 ۔ آسان فہم اور رائج اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
6 ۔ صرف و نحو کے اصول و قواعد کو مد نظر رکھتے ہوئے عربی میں استعمال ہونے والے حروف ربط، حروف جر، وغیرہ کا بھی موقع کی مناسبت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
نام : معارف القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد شفیع
تفسیر کا تعارف :
معارف القرآن جو پہلے ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئی پھر بعد میں کتابی صورت میں مرتب ہوئی، اس تفسیر کے لیے قلم اٹھانے کی وجہ مولانا مفتی شفیع صاحب (رح) نے اپنے مقدمہ میں خود تحریر فرمائی ہے، چناچہ لکھتے ہیں :
" ریڈیو پاکستان کے ذمہ دار حضرات نے مجھ سے درس قرآن ریڈیو پاکستان سے نشر کرنے کی فرمائش کی؛ لیکن میں چند اعذار کی بناء پر قبول نہ کرسکا، ان کے مزید اصرار کی وجہ سے انھیں کی ایک دوسری تجویز کو بنام خدا منظور کرلیا، وہ تجویز یہی معارف القرآن کی کہ ہفتہ میں ایک روز جمعہ کے دن تفسیر نشر ہوا کرے اور اس میں پورے قرآن کی تفسیر پیش نظر نہ ہو بلکہ عام مسلمانوں کے موجودہ ضرورت کے پیش نظر خاص خاص آیات کا انتخاب کرکے ان کی تفسیر اور اس سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہوا کرے "۔
پھر آگے لکھتے ہیں :
" اطراف دنیا سے مسلمانوں کے خطوط اور آنے جانے والوں سے یہ معلوم ہوا کہ عام مسلمان اور خصوصاً تعلیم یافتہ حضرات اس درس سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں؛ لیکن اس سلسلہ کی دس سالہ پابندی نے ایک طرف تو ایک ضخیم جلد معارف القرآن کی غیرارادی طور پر تیار کرادی، دوسری طرف ریڈیو پر سننے والے حضرات کی طرف سے بیشمار تقاضے آنے شروع ہوئے کہ اس کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے "۔
لوگوں کی اس قدر دلچسپی اور ان کے تقاضے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی تفسیریں منظرعام پر آئیں تھیں، ان میں یا تو علمی اور تحقیقی موشگافیاں زیادہ تھیں جن سے عوام پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتی تھی، دوسرے یہ کہ اردو زبان کے اسلوب میں پہلے کے مقابلہ کافی تبدیلی آچکی تھی، اس لیے بھی پہلے کی اردو تفاسیر کا سمجھنا عام لوگوں کے لیے دشوار تھا؛ نیزبعض تفاسیر سرسری اور بہت مختصر تھیں جن سے پڑھنے والوں کی پیاس نہیں بجھ پاتی تھی۔
تفسیر معارف القرآن کی چند خصوصیات یہ ہیں :
چونکہ مصنف موصوف کے پیش نظر یہ تھا کہ عوام جو علمی اصلاحات سے واقف اور دقیق مضامین کے متحمل نہیں ہیں وہ بھی قرآن کریم کو اپنے حوصلے کے مطابق سمجھ سکیں، اس لیے تفسیر کو لکھتے ہوئے اس کی پوری رعایت کی گئی ہے کہ فنی اصطلاحات، دقیق بحثیں اور غیر معروف ومشکل الفاظ سے گریز کیا جائے، تفسیر میں سلف صالحین کی تفسیروں پر اعتماد کیا گیا ہے اور بےسندباتوں سے احتراز کیا گیا ہے؛ چناچہ جگہ بہ جگہ صحابہ وتابعین کے تفسیری اقوال اور متقدمین کی تفسیری کتب سے استفادہ کرکے ان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
لطائف و معارف کے ضمن میں متاخرین میں سے مستند مفسرین کے مضامین بھی لیے گئے ہیں، خصوصاً ایسے مضامین جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت ومحبت کو بڑھاتے ہوں اور ان کی وجہ سے اعمال صالحہ انجام دینے کی تحریک ہوتی ہو، متن قرآن کے ترجمہ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) اور حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے ترجموں پر اعتماد کیا گیا ہے، ترجمہ کے بعد مکمل تفسیر و تشریح سے پہلے خلاصہ تفسیر لکھ دیا گیا ہے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی تفسیر بیان القرآن سے ماخوذ ہے، اسے آیات پر مختصر نوٹ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مشغول آدمی اتنا ہی دیکھ لے تو فہم قرآن کے لیے ایک حد تک کافی ہوجائے، آخر میں آیات مندرجہ سے متعلق احکام و مسائل لکھے گئے ہیں، اس میں اس کا التزام کیا گیا ہے کہ صرف وہ احکام و مسائل لئے جائیں جو کسی نہ کسی طرح الفاظ قرآن کے تحت آتے ہوں، احکام و مسائل کا بڑا حصہ تفسیر قرطبی، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن لابن العربی، تفسیرات احمدیہ، تفسیر محیط، روح المعانی، روح البیان اور بیان القرآن وغیرہ سے لیا گیا ہے، جن کے حوالہ جات بھی مذکور ہیں، تاہم نئے عہد کے بعض نئے مسائل کا بھی ذکر ہے، قرآن وحدیث اور مجتہدین کرام کے اصول کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور جس طرح مسائل واحکام میں متقدمین نے اپنے اپنے عہد کے فرقوں اور اس زمانہ کے مسائل کو اہمیت دی ہے، مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے بھی اس کو ملحوظ رکھا ہے۔
مصنف کا تعارف :
مفتی محمد شفیع صاحب (رح) ۔ مصنف معار ف القرآن
ولادت : 25 جنوری 1897، دیوبند (موجودہ یو۔ پی) بھارت
وفات : 6 اکتوبر 1976 ۔ کراچی پاکستان
مکمل تعلیم دیوبند میں حاصل کی
خدمات :
مفتی صاحب برصغیر پاک وہند کے متاز سنی حنفی دیوبندی عالم تھے۔
قیام پاکستان سے پہلے دار العلوم دیوبند میں مدرس رہے۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کراچی تشریف لے آئے اور ایک عظیم الشان مدرسہ دارالعلوم کراچی کے نام سے قائم کیا
مفتی صاحب کی تقریبا 100 سے زائد تصانیف ہیں۔ جن میں سب سے مشہور معارف القرآن ہے ۔ جو آپ کی وفات سے چار سال پہلے ، آپ ریڈیو پاکستان پر ہفتہ وار قرآن کے لیکچرز کی صورت میں نشر ہونا شروع ہوا ۔ بعد ازاں اسے کتابی شکل دی گئی۔
نام : مفردات القرآن فی غریب القرآن
مصنف : امام راغب اصفہانی
اردو مترجم : مولانا محمد عبدہ فیروز پوری
مطبوعہ : اسلامی اکیڈیمی، الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور
کتاب اور مصنف کا تعارف :
مفردات القرآن ابوالقاسم حسن بن محمد المعروف علامہ راغب اصفہانی (متوفی 502 ھ - 1108 ء) کی تصنیف ہے اس کا پورا نام " المفردات فی تحقیق مواد لغات العرب المتعلقہ بالقرآن " ہے جبکہ مطبوعہ نسخوں پر " المفردات فی غریب القرآن " کا عنوان مرقوم ہے اردو میں اسے " مفردات القرآن " سے شہرت ہے۔
مفردات القرآن کے نام سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن جو شہرت و دوام اس کتاب کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔
یہ کتاب حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق ہے اس میں ہر کلمہ کے حروف اصلیہ میں اول حرف کی رعایت کی گئی ہے اور قرآن میں استعمال ہونے والے تمام الفاظ کی لغوی تشریح کی گئی ہے ۔
طریق بیان بڑا فلسفیانہ ہے جس میں پہلے ہر مادہ کے جوہری معنی متعین کئے جاتے ہیں پھر انہیں قرآنی آیات پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شرح الفاظ کیلئے یہ طریقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس سے صحیح معنی تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور تمام اشتباہ دور ہوجاتے ہیں۔
بہت سے مصنفین اور آئمہ لغت نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
مصنف کا تعارف :
یہ کتاب امام راغب اصفہانی (رح) کی تصنیف ہے، امام راغب پانچویں اور چھٹی صدی کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔۔
ان کا پورا نام ابو القاسم حسین بن محمد بن مفضل بن محمد ہے اور راغب اصفہانی کے نام سے مشہور ہیں،
امام راغب علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے، مؤلفِ جامع علوم و فنون ہونے کے ساتھ بلند پایہ صوفی بھی تھے، اور ادب و فلسفہ ، جملہ علوم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا اور انہوں نے قرآن پاک کی ایک بہت بڑی تفسیر بھی لکھی ہے۔
علامہ ذہبی (رح) نے ان کا تذکرہ “ طبقات المفسرین ” میں کیا ہے اور امام سیوطی (رح) ان کو لغت و نحو کے ائمہ میں شمار کرتے ہیں، مختلف تذکروں میں حکیم، ادیب ، مفسر، کی حیثیت سے ان کا تعارف کروایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ہمہ فنی امام تھے اور بیک تفسیر و لغت کے امام ہونے کے ساتھ بہت بڑے حکیم اور صوفی تھے۔
امام راغب کی وفات 502 ہجری میں ہوئی۔
تالیفات :
امام راغب کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :
1 ۔ محاضرات الادباء :
2 ۔ حل متشابہات القرآن
3 ۔ حل متشابہات القرآن
4 ۔ الذریعہ الی مکارم الشریعہ
5 ۔ درۃ التاویل فی غرۃ التنزیل
6 ۔ تحقیق البیان فی تاویل القرآن
7 ۔ افانین البلاغۃ۔
8 ۔ کتاب الایمان والکفر
9 ۔ تفصیل النشاتین :
10 ۔ المفردات فی غریب القرآن
11 ۔ کتاب المعانی الاکبر
12 ۔ کتاب احتجاج القراء۔
مترجم کا تعارف۔
امام راغب افہانی کی مفردات القرآن اصل کتاب عربی میں ہے ۔ جبکہ ایزی قرآن و حدیث میں اس کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔
مترجم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبدہٗ فیروز پوری ہیں۔ جو عبدہ الفلاح کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ جولائی 1917 کو موضع وٹواں ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ وٹو برادری سے تعلق تھا۔ ابتدائی تعلیم جس میں سکول اور دینیات اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر بڈھیمال میں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی کی معروف مسجد فتح پوری میں تحصیل علم کیا۔ اور آخر میں حضرت حافظ محمد گوندلوی مرحوم سے گوجرانوالہ میں بخاری شریف پڑھی۔ فراغت کے بعد تدریس کے میدان میں آگے۔ آپ نے گوجرانوالہ ، اوڈانوالہ ، اوکاڑہ ، فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے۔ خصوصاًجامعہ سلفہ میں بڑی کتب کے علاوہ بخاری شریف پڑھاتے تھے۔ آپ کو تفہیم کا ملکہ حاصل تھا۔ مختصر مگر جامع گفتگو کرتے۔ اور تدریس کا حق ادا کردیتے۔ مشکل سے مشکل بحث کو آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے۔ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا عمدہ ذوق پایا تھا۔ آپ نے کئی یادگار تصا نیف چھوڑی ہیں۔ جن میں معروف ترین اشرف الحواشی ہے۔ جو کہ قرآن حکیم پر مختصر تفسیر ہے۔ آپ دو مرتبہ جامعہ سلفیہ میں بطور شیخ الحدیث رہے ہیں۔ دوسری مرتبہ جب آپ اس منصب پر فائز ہوئے۔ تو آپ گلے کے مریض بن گئے۔ زیادہ بلند آواز میں بات نہ کرسکتے تھے۔ جس سے طلبہ آپ کی گفتگو نہ سن سکتے تھے۔ مائیک کا ا نتظام کرنے کے باوجود بات نہ بنی۔ تو پھر خود ہی مستعفی ہوگئے۔ لیکن جامعہ کی انتظامیہ نے آپ کا وظیفہ برابر جاری رکھا ۔ حاجی آباد فیصل آباد میں رحلت فرمائی۔ جامعہ سلفیہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ اور گاؤں نز د تاندلیانوالہ میں سپرد خاک کئے گئے۔
احکام القرآن للجصاص
نام و کنیت
نام احمد بن على الرازى اوركنيت الجصاص: ابوبكراحمد بن على الرازى الجصاص سے مشہور ہیں۔
ولاد ت
امام جصاص کی ولادت رے شہر میں ہو ئی اسی نسبت سے رازى کہلاتے ہیں ولادت کا سال 305ھ بمطابق 917ء بیس سال کی عمر میں بغداد منتقل ہو گئے۔
علمی سفر
ابوبکر جصاص نے بہت سے علمی سفر کئےاور اکابر علماء سے علم حاصل کیابالخصوص علمائے احناف سے بہت استفادہ کیا اہواز نیشاپورکے سفر کئے اور اس علمی سفر کی انتہاء بغداد میں ہوئی امام کرخی کے پاس نیشا پور میں تھے کہ ان کا انتقال ہوا۔
شيوخ
ان کے مشائخ میں
ابو الحسن الكرخی جن سے زہد و ورع حاصل کیا
ابو سہل الزجاج
عبد الباقی بن قانع حديث کا علم حاصل کیا
ابوحاتم الرازی
ابوسعيد الدارمی عثمان بن سعيد الدارمي صاحب المسند
تصنیفات
شرح الجامع الكبير محمد بن الحسن الشيبانی
شرح الجامع الصغير محمد بن الحسن الشيبانى
شرح المناسك لمحمد بن الحسن الشيبانى
شرح مختصر الفقہ للطحاوی
شرح آثار الطحاوى
مختصر اختلاف الفقہاء طحاوى
شرح ادب القاضی خصاف
شرح مختصر الكرخی
شرح الاسماء الحسنى
جوابات المسائل
احكام القرآن
الفصول فی الاصول
وفات
انکی وفات 370ھ بمطابق 980ء میں بغداد میں ہوئ
تفسیر ابن عباس (تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس)
تعارف کتاب و امتیازی خصوصیات :
یہ تفسیر در اصل ایک عربی تفسیر " تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس " کا اردو ترجمہ ہے :
اصل عربی تفسیر کے مصنف ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن بن ابراہیم نجد الدین الشیرازی الشافعی ہیں۔ اور یہ تفسیر تفسیر قرآن سے متعلق حضرت ابن عباس (رض) کی روایات کا مجموعہ ہے :
ہمارے سوفٹ ویئر " ایزی قرآن و حدیث " میں اس تفسیر کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے اردو ترجمہ کا کام پر وفسیر حافظ محمد سعید احمد عاطف نے سر انجام دیا ہے۔ اور ہمارے سوفٹ ویئر میں جو نسخہ شامل کیا گیا ہے وہ " مکی دار الکتب " 37 مزنگ روڈ بک سٹریٹ، لاہور، پاکستان سے طبع شدہ ہے۔
ذیل میں ، اس کتاب کا مختصر تعارف، پیش ہے :
عربی تفسیر " تنویر المقب اس "
اس تفسیر " تنویر المقب اس " کے حوالے سے اسلاف کی آراء مختلف فیہ ہیں۔ اس کی اسناد کے متعلق بھی گفتگو کی خاصی گنجائش ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد روایات صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث مثلا : مسند احمد بن حنبل، مسند ابی داود الطیالسی، مسند الشافعی، مسند الحمیدی، معجم طبرانی، المنتقی لابن جارود، سنن دارمی، سنن الدارقطنی میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کے اقوال و آثار بھی ہیں۔ لغتِ عرب، تاریخ عرب، ایام العرب سے استشہاد و استناد بھی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی روایات سے مزین ہیں۔ ان تمام شواہد اور قرائن کی موجودگی میں اس مجموعہ روایات ابن عباس سے بےاعتنائی، قرینِ انصاف نہیں۔ پھر یہ تفسیر ایک طویل عرصے سے ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف حصوں میں زیور طبع سے آراستہ ہورہی ہے اور اہل علم اس سے استفادہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اور ہمارے پاس ابن عباس (رض) جیسے مفسر اعظم کی تفسیری آراء کا اس کے علاوہ کوئی اور مجموعہ نہیں ہے۔ اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے۔ یہ تفسیر 1314 ھ کو امام سیوطی کی تفسیر در منثور کے حواشی پر مصر سے شائع ہوئی اور مستقل طور پر 1316 ھ کو مصر سے چھپی اور برصغیر میں کئی مرتبہ شائع ہوئی، 1285 ھ کو شاہ ولی اللہ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ اور پھر شاہ رفیع الدین کے اردو ترجمہ کے حاشیہ پر بھی شائع ہوئی ۔ اردو ترجمہ پہلی بار 1926 ء میں آگرہ سے شائع ہوا اور 1970 میں مولانا عابد الرحمن صدیقی کے ترجمہ کو کلام کمپنی کراچی نے شائع کیا۔
تعارف مفسر :
نام و نسب
آپ کا نام عبداللہ، ابوالعباس کنیت تھا۔ آپ کے والد کا نام حضرت عباس (رض) اور والدہ کا نام امالفضل لبابہ (رض) عنہا تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
عبداللہ بن العباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
آپ کے والد حضرت عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا تھے۔ اس طرح آپ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابن عم تھے۔ آپ (رض) ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کے خواہرزادہ تھے کیونکہ آپ (رض) کی والدہ ام الفضل (رض) اور حضرت میمونہ (رض) حقیقی بہنیں تھیں۔
پیدائش
حضرت عبداللہ ابن عباس کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران ہوئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد حضرت عباس (رض) آپ کے بارگاہِ رسالت میں لے کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال کر آپ کے حق میں دعا فرمائی۔
قبولِ اسلام
آپ کے والد محترم حضرت عباس (رض) نے اگرچہ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا، لیکن آپ کی والدہ حضرت ام الفضل (رض) نے ابتدا میں ہی داعی توحید کو لبیک کہا تھا۔ اس لئے آپ کی پرورش توحید کے سائے میں ہوئی۔
ہجرت
حضرت عباس (رض) 8 ہجری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ آپ اپنے والد کے حکم سے بیشتر اوقات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے۔
عہد طفویلیت میں مصاحبتِ رسول
آپ کی مصاحبت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو زمانہ پایا، دراصل وہ آپ کے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ تاہم آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں اکثر رہتے۔ ام المومینین حضرت میمونہ (رض) آپ کی خالہ تھی اور آپ سے بہت شفقت رکھتیں تھیں اس لیے آپ اکثر انے خدمت میں حاضر رہتے تھے اور کئی دفع رات میں انکے گھر پر ہی سو جاتے تھے۔ اس طرح انکو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بہترین موقع میسر تھا۔ آپ ایسے ہی ایک رات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
” ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے پاس سو رہا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر استراحت فرما ہوئے، پھر کچھ رات باقی تھی کے آپ بیدار ہوئے اور مشکیزہ کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں بھی اٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے داہنی طوف کھڑا کرلیا۔ “
آپ کے حق میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا
اسی طرح ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لئے بیدار ہوئے تو آپ (رض) نے وضو کے لئے پنی لا کر رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو سے فراخت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔ حضرت میمونہ (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہو کر یہ دعا دی۔
” اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل
یعنی اے اللہ اس کو مذہب کا فقیہ بنا اور تاویل کا طریقہ سکھا “
وفات : آپ (رض) کی وفات : 68 ہجری بمطابق 687 ء میں ہوئی۔
تعارف مصنف :
1. اس تفسیری مجموعہ کے مؤلف و مرتب کا مکمل نام ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجد الدین بن الشیرازی الشافعی ہے۔
پیدائش : آپ شیراز شہر کے قریب ایک گاؤں " کا زشرون " میں 749 ہجری بمطابق 1339 ء کو پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم :
آپ کی تعلیم کا علاقہ اور اساتذہ کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ابتداء شیراز ہی سے تعلیم حاصل بعد ازیں بغداد کا رخ کیا جو اس وقت علم و فن کا مرکز تھا۔ ازاں بعد امام ابن قیم اور امام السبکی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر بیت المقدس تشریف لے گئے اور تقریبا دس سال تک تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ بیت المقدس میں قریباً دس سال تک چلتا رہا۔ اس کے علاوہ آپ نے حرمین شریفین، ترکی، قاہری اور ہندوستان کے شیوخ و اکابر سے بھی علم حاصل کیا۔
مقام ومرتبہ : آپ اپنے وقت کے جلیل القدر، مفسر، محدث، ماہر لغت اور اعلی پائے کے ادیب تھے۔ شخصی اعتبار سے بڑے غیرت مند، خود دار اور متقی تھے۔ زندگی کا انداز سادہ و پروقار تھا۔ ۔
آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں :
تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس
بصائر ذوالتمیز فی لطائف الکتاب العزیز کے نام سے آپ نے قرآن مجید کی چھ جلدوں پر مشتمل تفسیر لکھی۔ یہ تفسیر قاہرہ و بیرت سے بار ہا چھپ چکی ہے۔
علامہ زمخشری کی کشات کے خطبہ کی ایک مستقل شرح لکھی۔
سیرت النبی پر مختصر کتاب سفر السعادۃ یا الصراط المستقیم کے نام سے لکھی۔
بخاری شریف کی ایک شرح بھی لکھی۔
آپ کی اہم اور مشہور ترین تالیف، القاموس، ہے۔ یہ جامع ترین عربی لغات میں شمار ہوتی ہے۔
البلغہ فی تاریخ ائمۃ اللغۃ۔
کتاب تحبیر الموشین فیما نقال بالسین والشین۔
1. بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
ڈاکٹر اسرار احمد ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ آپ بھارت کے ضلعہریانہ میں مؤرخہ 26 اپریل 1932 ء کو پیدا ہوئے۔
آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ تنظیم اسلامی کا مرکزی ہیڈکوارٹر لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
تعلیمی پس منظر
قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا . 1954 میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971 تک میڈیکل پریکٹس کی .
سیاسی زندگی[ترمیم ]
دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے . تملیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا اور 1975 میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے . 1981 میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شورئ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا . آپ مروجہ انتخابی سیاست کے کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے . آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصا امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے .
بحیثیت اسلامی اسکالر
تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو ، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا .
وفات
ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010 ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
سورة الْاَنْعَام نام : اس سورہ کے رکوع ۱٦ و ۱۷ میں بعض اَنعام ( مویشیوں ) کی حرمت اور بعض کی حلت کے متعلق اہل عرب کے توہمات کی تردید کی گئی ہے ۔ اسی مناسبت سے اس کا نام ”اَلانعام“ رکھا گیا ہے ۔ زمانہ نزول : ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ پوری سورہ مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی ۔ حضرت معاذ... بن جَبَل کی چچازاد بہن اَسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ ”جب یہ سورۃ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی تھی اس وقت آپ اونٹنی پر سوار تھے ، میں اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھی اور بوجھ کے مارے اونٹنی کا یہ حال ہو رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ہڈیاں اب ٹوٹ جائیں گی“ ۔ روایات میں اس کی بھی تصریح ہے کہ جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات کو آپ نے اسے قلمبند کرا دیا ۔ اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مکی دور کے آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہو گی ۔ حضرت اَسماء بنت یزید کی روایت بھی اسی کی تصدیق کرتی ہے ۔ کیونکہ موصوفہ انصار میں سے تھیں اور ہجرت کے بعد ایمان لائیں ۔ اگر قبول اسلام سے پہلے محض بر بناء عقیدت وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکہ حاضر ہوئی ہوں گی تو یقینًا یہ حاضری آپ کی مکی زندگی کے آخری سال ہی میں ہوئی ہو گی ۔ اس سے پہلے اہل یثرب کے ساتھ آپ کے تعلقات اتنے بڑھے ہی نہ تھے کہ وہاں سے کسی عورت کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ممکن ہوتا ۔ شان نزول : ”زمانہ نزول متعین ہو جانے کے بعد ہم بآسانی اس پس منظر کو دیکھ سکتے ہیں جس میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے ۔ اس وقت اللہ کے رسول کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے بارہ سال گزر چکے تھے ۔ قریش کی مزاحمت اور ستم گری و جفاکاری انتہا کو پہنچ چکی تھی ۔ اسلام قبول کر نے والوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ظلم و ستم سے عاجز آکر ملک چھوڑ چکی تھی اور حَبَش میں مقیم تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائد و حمایت کے لیے نہ ابو طالب باقی رہے تھے اور نہ حضرت خَدِیجہ ، اس لیے ہر دنیوی سہارے سے محروم ہو کر آپ شدید مزاحمتوں کے مقابلہ میں تبلیغ رسالت کا فرض انجام دے رہے تھے ۔ آپ کی تبلیغ کے اثر سے مکہ میں اور گرد و نواح کے قبائل میں بھی صالح افراد پے در پے اسلام قبول کر تے جا رہے تھے ، لیکن قوم بحییثیت مجموعی ردو انکار پر تلی ہوئی تھی ۔ جہاں کوئی شخص اسلام کی طرف ادنیٰ میلان بھی ظاہر کرتا تھا اسے طعن و ملامت ، جسمانی اذیت اور معاشی و معاشرتی مقاطعہ کا ہدف بننا پڑتا تھا ۔ اس تاریک ماحول میں صرف ایک ہلکی سی شعاع یثرب کی طرف نمودار ہوئی تھی جہاں سے اوس اور خزرج کے بااثر لوگ آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے اور جہاں کسی اندرونی مزاحمت کے بغیر اسلام پھیلنا شروع ہو گیا تھا ۔ مگر اس حقیر سی ابتداء میں مستقبل کے جو امکانات پوشیدہ تھے انہیں کوئی ظاہر بیں آنکھ نہ دیکھ سکتی تھی ۔ بظاہر دیکھنے والوں کو جو کچھ نظر آتا تھا وہ بس یہ تھا کہ اسلام ایک کمزور سی تحریک ہے جس کی پشت پر کوئی مادی طاقت نہیں ، جس کا داعی اپنے خاندان کی ضعیف سی حمایت کے سوا کوئی زور نہیں رکھتا ، اور جسے قبول کرنے والے چند مٹھی بھر بے بس اور منتشر افراد اپنی قوم کے عقیدہ و مسلک سے منحرف ہو کر اس طرح سوسائیٹی سے نکال پھینکے گئے ہیں جیسے پتے اپنے درخت سے جھڑ کر زمین پر پھیل جائیں ۔ مباحث : ان حالات میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے اور اس کے مضامین کو سات بڑے بڑے عنوانات پر تقسیم کیا جا سکتا ہے: ( ۱ ) شرک کا ابطال اور عقیدہ توحید کی طرف دعوت ، ( ۲ ) عقیدہ آخرت کی تبلیغ اور اس غلط خیال کی تردید کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے ، ( ۳ ) جاہلیت کے ان توہمات کی تردید جن میں لوگ مبتلا تھے ، ( ٤ ) ان بڑے بڑے اصول اخلاق کی تلقین جن پر اسلام سوسائیٹی کی تعمیر کرنا چاہتا تھا ، ( ۵ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کےخلاف لوگوں کے اعتراضات کا جواب ، ( ٦ ) طویل جدوجہد کے باوجود دعوت کے نتیجہ خیز نہ ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمانوں کے اندر اضطراب اور دل شکستگی کی جو کیفیت پیدا ہو رہی تھی اس پر تسلی ، ( ۷ ) منکرین اور مخالفین کو ان کی غفلت و سرشاری اور نادانستہ خود کشی پر نصیحت ، تنبیہ اور تہدید ۔ لیکن خطبہ کا انداز یہ نہیں ہے کہ ایک ایک عنوان پر الگ الگ یکجا گفتگو کی گئی ہو ۔ بلکہ خطبہ ایک دریا کی سی روانی کے ساتھ چلتا جاتا ہے اور اس کے دوران میں یہ عنوانات مختلف طریقوں سے بار بار چھڑتے ہیں اور ہر بار ایک نئے انداز سے ان پر گفتگو کی جاتی ہے ۔ مکی زندگی کے ادوار : یہاں چونکہ پہلی مرتبہ ناظرین کے سامنے ایک مفصل مکی سورہ آرہی ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر ہم مکی سورتوں کے تاریخی پس منظر کی ایک جامع تشریح کردیں تاکہ آئندہ تمام مکی سورتوں کو ، اور ان کی تفسیر کے سلسلہ میں ہمارے اشارات کو سمجھنا آسان ہو جائے ۔ جہاں تک مدنی سورتوں کا تعلق ہے ، ان میں سے تو قریب قریب ہر ایک کا زمانہ نزول معلوم ہے یا تھوڑی سی کاوش سے متعین کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ان کی تو بکثرت آیتوں کی انفرادی شان نزول تک معتبر روایات میں مل جاتی ہے ۔ لیکن مکی سورتوں کے متعلق ہمارے پاس اتنے مفصل ذرائع معلومات موجود نہیں ہیں ۔ بہت کم سورتیں یا آیتیں ایسی ہیں جن کے زمانہ نزول اور موقع نزول کے بارے میں کوئی صحیح و معتبر روایت ملتی ہو ۔ کیونکہ اس زمانہ کی تاریخ اس قدر جزئی تفصیلات کے ساتھ مرتب نہیں ہوئی ہے جیسی کہ مدنی دور کی تاریخ ہے ۔ اس وجہ سے مکی سورتوں کے معاملہ میں ہم کو تاریخی شہادتوں کے بجائے زیادہ تر ان اندرونی شہادتوں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جو مختلف سورتوں کے موضوع ، مضمون اور انداز بیان میں ، اور اپنے پس منظر کی طرف ان کے جلی یا خفی اشارات میں پائی جاتی ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی شہادتوں سے مدد لے کر ایک ایک سورة اور ایک ایک آیت کے متعلق یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فلاں تاریخ کو ، یا فلاں سنہ میں فلاں موقع پر نازل ہو ئی ہے ۔ زیادہ صحت کے ساتھ جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک طرف ہم مکی سورتوں کی اندرونی شہادتوں کو ، اور دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کی تاریخ کو آمنے سامنے رکھیں اور پھر دونوں کا تقابل کرتے ہوئے یہ رائے قائم کریں کہ کون سی سورۃ کس دور سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس طرز تحقیق کو ذہن میں رکھ کر جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ دعوت اسلامی کے نقطہ نظر سے ہم کو چار بڑے بڑے نمایاں ادوار پر منقسم نظر آتی ہے: پہلا دور ، آغاز بعثت سے لے کر اعلان نبوت تک ، تقریبًا ۳ سال ، جس میں دعوت خفیہ طور سے خاص خاص آدمیوں کو دی جارہی تھی اور عام اہل مکہ کو اس کا علم نہ تھا ۔ دوسرا دور ، اعلان نبوت سے لے کر ظلم و ستم اور فتنہ ( Persecution ) کے آغاز تک ، تقریبًا ۲ سال ، جس میں پہلے مخالفت شروع ہوئی ، پھر اس نے مزاحمت کی شکل اختیار کی ، پھر تضحیک ، استہزاء ، الزامات ، سب و شتم ، جھوٹے پروپیگنڈا اور مخالفانہ جتھہ بندی تک نوبت پہنچی ، اور بالآخر ان مسلمانوں پر زیادتیاں شروع ہو گئیں جو نسبتًہ زیادہ غریب ، کمزور اور بے یار و مددگار تھے ۔ تیسرا دور ، آغاز فتنہ ( سن ۵ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لے کر ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ( سن۱۰ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) تک ، تقریبًا پانچ چھ سال ۔ اس میں مخالفت انتہائی شدت اختیار کرتی چلی گئی ، بہت سے مسلمان کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبش کی طرف ہجرت کر گئے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان اور باقی ماندہ مسلمانوں کا معاشی و معاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور آپ اپنے حامیوں اور ساتھیوں سمیت شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے ۔ چوتھا دور ، سن ۱۰ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر سن ۱۳ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک تقریبًا ۳ سال ۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے لیے انتہائی سختی و مصیبت کا زمانہ تھا ۔ مکہ میں آپ کے لیے زندگی دوبھر کر دی گئی تھی ، طائف گئے تو وہاں بھی پناہ نہ ملی ، حج کے موقع پر عرب کے ایک ایک قبیلہ سے آپ اپیل کرتے رہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے مگر ہر طرف سے کورا جواب ہی ملتا رہا ۔ اور ادھر اہل مکہ بار بار یہ مشورے کرتے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں یا قید کردیں یا اپنی بستی سے نکال دیں ۔ آخر کار اللہ کے فضل سے انصار کے دل اسلام کے لیے کھل گئے اور انکی دعوت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ ان میں سے ہر دور میں قرآن مجید کی سورتیں نازل ہوئی ہیں ۔ وہ اپنے مضامین اور انداز بیان میں دوسرے دور کی سورتوں سے مختلف ہیں ۔ ان میں بکثرت مقامات پر ایسے اشارات بھی پائے جاتے ہیں جن سے پس منظر کے حالات اور واقعات پر صاف روشنی پڑتی ہے ۔ ہر دور کی خصوصیات کا اثر اس دور کے نازل شدہ کلام میں بہت بڑی حد تک نمایاں نظر آتا ہے ۔ انہی علامات پر اعتماد کر کے ہم آئندہ ہر مکی سورہ کے دیباچہ میں یہ بتائیں گے کہ وہ مکہ کے کس دور میں نازل ہوئی ہے ۔ Show more
1. ترجمہ و تفسیر تفہیم القرآن
تفہیم القرآن
یہ مشہور زمانہ تفسیر تحریک اسلامی کے قائد وموسس مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے جو پہلی بار ١٩٤٩ ء میں اشاعت پذیر ہوئی، یہ تفسیر چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور ہندوپاک میں اس کے درجنوں ایڈیشن نکل چکے ہیں، اس تفسیر کے لکھنے کے محرکات کیا ہوئے ؟ ان کو خود مصنف نے اس طرح لکھا ہے : " اس کام میں میرے پیش نظر علماء اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے ، میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے انہی کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے "۔
مصنف کو انشاء پردازی پر بڑی قدرت اور مشکل مضامین کو بھی آسان زبان اور جچے تلے انداز میں لکھنے کا ملکہ ہے؛ چناچہ اس تفسیر میں بھی یہ وصف نمایاں ہے، قرآن کی جو آیات کائناتی حقائق سے متعلق ہیں ان پر بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے، اسی طرح قصص و واقعات جن کی تحقیق کے لیے علم الآثار اور تاریخی حقائق سے واقفیت مطلوب ہے، بہت اچھی بحثیں ہیں، مستشرقین کے اعتراضات وشبہات کے رد پر بھی شافی وکافی کلام ہے اور اس کو اس تفسیر کا نقطۂ امتیاز قرار دیا جاسکتا ہے، اسی طرح قرآن کا بائبل اور مذہبی صحائف سے تقابلی مطالعہ کی جہاں کہیں ضرورت ہے، وہاں بھی نہایت محققانہ اور فاضلانہ مباحث ہیں، یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ مصنف نے پہلی دوجلدوں میں اختصار کی راہ اختیار کی ہے اور تفسیر وحدیث کے مراجع کی طرف کم التفات کیا ہے، تیسری سے چھٹی جلد تک احادیث وآثار بکثرت نقل کئے گئے ہیں۔
بہت سی خوبیوں کے باوجود اس تفسیر میں بعض ایسی خامیاں بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے اہل تحقیق علماء کو مصنف سے اختلاف ہے، ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرات انبیاء کے تذکرہ میں بعض مواقع پر ایسی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو حدِ ادب سے متجاوز محسوس ہوتی ہیں، مثلاً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں رقمطراز ہیں :
" جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا "۔
(تفہیم القرآن : ٤/٣٢٧)
اس طرح کی بعض اور تعبیرات بھی اس تفسیر اور مصنف کی بعض دیگر کتب میں بھی موجود ہیں اگر یہ تفسیر اس طرح کی باتوں سے خالی ہوتی اور مصنف نے علماء کے توجہ دلانے کے بعد اہل حق کی شان کے مطابق ایسی باتوں سے علی الاعلان رجوع کرلیا ہوتا تو یقینا یہ بہت بہتر بات ہوتی، زبان سہل اور عام فہم ہے اور قدیم مآخذ کے ساتھ جدید تحقیقات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
تعارف مصنف :
سید ابوالاعلٰی مودودی (پیدائش :1903 ء، انتقال :1979 ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
ابتدائی زندگی
سید ابوالاعلٰی مودودی 1903 ء بمطابق 1321 ھ میں اور نگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اور نگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہ راست داخل کیا گیا۔
1914 ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اور نگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہوگئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔
سورۃ الانعام تعارف یہ سورت چونکہ مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اسلام اپنے ابتدائی دور میں تھی، اس لیے اس میں اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کو مختلف دلائل کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے اور ان عقائد پر جو اعتراضات کفار کی طرف سے اٹھائ... ے جاتے تھے، ان کا جواب دیا گیا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں پر کفار مکہ کی طرف سے طرح طرح کے ظلم توڑے جارہے تھے، اس لیے ان کو تسلی بھی دی گئی ہے۔ کفار مکہ اپنے مشرکانہ عقائد کے نتیجے میں جن بے ہود رسموں اور بے بنیاد خیالات میں مبتلا تھے، ان کی تردید فرمائی گئی ہے۔ عربی زبان میں انعام چوپایوں کو کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین مویشیوں کے بارے میں بہت سے غلط عقیدے رکھتے تھے، مثلا ان کو بتوں کے نام پر وقف کر کے ان کا کھانا حرام سمجھتے تھے۔ چونکہ اس سورت میں ان بے بنیادی عقائد کی تردید کی گئی ہے۔ (دیکھیے آیات ١٣٦ تا ١٤٦) اس لیے اس کا نام سورۃ الانعام رکھا گیا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چند آیتوں کو چھوڑ کر یہ پوری سورت ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی تھی، لیکن علامہ آلوسہ (رح) نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ان روایتوں پر تنقید کی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم یہ سورت مکی ہے، اور اس میں ایک سو پینسٹھ آیتیں اور بیس رکوع ہیں Show more
نام : توضیح القرآن ترجمہ آسان قرآن
مترجم و مفسر : مولانا مفتی تقی عثمانی
ناشر : مکتبہ معارف القرآن کراچی
زیر نظر نسخہ : طبع جدید جمادی الاول 1430 ۔ مئی 2009 ء
مختصر تعارف :
مصنف تفسیر ھذا کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں :
آج سے چند سال پہلے تک میرا خیال یہ تھا کہ اردو میں مستند علمائے کرام کے اتنے ترجمے موجود ہیں کہ ان کے بعد کسی نئے ترجمے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چناچہ جب کچھ حضرات مجھ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کرتے تو اس خدمت کو عظیم سعادت سمجھنے کے باوجود اول تو اپنی نااہلی کا احساس آڑے آتا، اور دوسرے کسی نئے ترجمے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
لیکن پھر مختلف اطراف سے احباب نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اردو کے جو مستند ترجمے اس وقت موجود ہیں وہ عام مسلمانوں کی سمجھ سے بالا تر ہوگئے ہیں، اور ایسے آسان ترجمے کی واقعی ضرورت ہے جو معمولی پڑھے لکھے افراد کی سمجھ میں بھی آسکے۔ یہ مطالبہ اتنی کثرت سے ہوا کہ موجودہ ترجموں کا باقاعدہ جائزہ لینے کے بعد مجھے بھی اس مطالبے میں وزن نظر آنے لگا، اور جب میرا انگریزی ترجمہ مکمل ہوکر شائع ہوا تو یہ مطالبہ اور زیادہ زور پکڑ گیا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر میں نے ترجمہ شروع کیا۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال تھا کہ عام مسلمانوں کو قرآن کریم کا مطلب سمجھنے کے لیے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحات کی بھی ضرورت ہوگی، اس خیال کے پیش نظر میں نے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحی حواشی بھی لکھنے کا اہتمام کیا۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو بذات خود ایک عظیم معجزہ ہے، اس لیے اس کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ جو قرآن کریم کی بلاغت اور اس کے بےمثال اسلوب اور تاثیر کو کسی دوسری زبان میں منتقل کردے، بالکل ناممکن ہے۔ لیکن اپنی بساط کی حد تک بندہ نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کا مطلب آسان، بامحاورہ اور رواں انداز میں واضح ہوجائے۔ یہ ترجمہ بالکل لفظی ترجمہ بھی نہیں ہے، اور اتنا آزاد بھی نہیں ہے جو قرآن کریم کے الفاظ سے دور چلا جائے۔ وضاحت کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ حتی الوسع قرآن کریم کے الفاظ سے بھی قریب رہنے کی کوشش کی گئی ہے اور جہاں قرآن کریم کے الفاظ میں ایک سے زیادہ تفسیروں کا احتمال ہے، وہاں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ ترجمے کے الفاظ میں بھی وہ احتمالات باقی رہیں۔ اور جہاں ایسا ممکن نہ ہوسکا، وہاں سلف کے مطابق جو تفسیر زیادہ راجح معلوم ہوئی، اس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
تشریحی حواشی میں صرف اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ پڑھنے والے کو جہاں مطلب سمجھنے میں کچھ دشواری ہو، وہاں وہ حاشیہ کی تشریح سے مدد لے سکے، لمبے تفسیری مباحث اور علمی تحقیقات کو نہیں چھیڑا گیا، کیونکہ اس کے لیے بفضلہٖ تعالیٰ مفصل تفسیریں موجود ہیں۔ البہ ان مختصر حواشی میں چھنی چھنائی بات عرض کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بہت سی کتابوں کے مطالعے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔
تعارف مصنف :
مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثت مشیر کام کررہے ہیں۔
•
پیدائش
مفتی محمد تقی احمد عثمانی تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش سن 1943 میں ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔
تعلیم
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔
اجازت
آپ نے اپنے وقت کے تقریبا تمام جید علماء سے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ان علماء میں خود انکے والد مفتی محمد شفیع عثمانی کے علاوہ مولانا ادریس کاندھلوی اور مولانا زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔
تصوف و معرفت
مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ اور عارف بااللہ ڈاکٹر عبدالحئی کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے انکی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحئی کے انتقال کے بعد آپ انکے خلیفہ مجاز ہیں۔
تدریس
مفتی تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ چند سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درس بخاری دے رہے، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے آپ کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔
رکن اسلامی نطریاتی کونسل
جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی باڈی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد رکھی، مفتی تقی احمد عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ اللہ کی حدود اور انکی سزاؤوں پر عملد درآمد کے لئے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لئے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
بحثیت جج
مفتی تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لئے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہوگئے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ بحثیت جج کئی اہم فیصلے کئے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دیکر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
اسلامی بینکاری
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجدادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔
اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کررہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب خود آٹھ اسلامی بینکوں کے مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اور گنائزیشن کے چیر مین بھی ہیں۔
ملی و سیاسی کردار
مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبه اس وقت سامنے آیا جب آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف بنوری کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔ 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے زریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اسلامی ریاست پر آمری کہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے مما لک کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا اور حکومتی موقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ٹیوی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتوا دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔
کتابیں
• آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں
• آسان نیکیاں
• اندلس میں چند روز
• اسلام اور سیاست حاضره
• اسلام اور جدت پسندی
• اکابر دیوبند کیا تھے
• تقلید کی شرعی حیثیت
• پرنور دین
• تراشے
• بائبل کیا ہے
• جہاں دیدہ
• دنیا میرے آگے
• حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق
• حجت حدیث
• حضور نے فرمایا
• فرد کی اصلاح
• علوم القرآن
• ہمارا معاشی نظام
• نمازیں سنت کے مطابق پڑہیں
• عدالتی فیصلے
• عیسائیت کیا ہے
• درسِ ترمذی
احسن التفاسیر
احسن التفاسیر تفسیر بالاحادیث کا بہترین مجموعہ ہے، کئی بار چھپ چکی ہے، آخر میں پاکستان میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی توجہ اور مولانا عبدالرحمٰن گوہڑوی کی تعلیقات سے چھپی ہے۔ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ پر مشتمل ہے، سید احمد حسن دہلوی (المتوفی ١٣٣٨ھ) تلمیذ سید نذیر حسین محدث دہلوی (المتوفی ١٣٢٠ ھ) عظیم علمی شخصیت کے مالک تھے، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ ان کی مشہور تصنیف ہے جو ان کی علمی شان و مہارت تامہ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں المکتبہ السلفیہ لاہور نے چھاپی ہے۔
سید احمد حسن احسن التفاسیر کی تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قرآن شریف عربی زبان میں ہے۔ اور ہر شخص کو عربی زبان کے سمجھنے کی طاقت نہیں، اس واسطے شاہ عبدالقادر صاحب مرحوم کے عام فہم اردو کے ترجمہ کے زیادہ عام فہم ہوجانے کی غرض سے اسی ترجمہ کی سلیس اردو کے ڈھنگ پر پہلے چیدہ چیدہ آیتوں کے فوائد احسن الفوائد کے نام سے تین ترجمے کے قرآن مطبوعہ مطبع فاروقی کے حاشیہ پر چھاپ دیے گئے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان فوائد سے مسلمان بھائیوں کو بہت فائدہ پہنچا جس کے سبب سے اس قرآنی ترجمہ مع فوائد کے اب بہت لوگ خواہش مند ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ملتا۔ ان فوائد میں چیدہ چیدہ آیتوں کا مطلب تھا، اس واسطے ان فوائد سے پورے قرآن شریف کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا تھا، اسی لیے ان فوائد کا یہ نقصان رفع کردینے کی غرض جسے شاہ عبدالقادر مرحوم کے ترجمہ کا یہ قرآن اس ڈھنگ سے چھاپا گیا کہ اوپر قرآن شریف کی آیتیں اور ان کا ترجمہ ہے اور نیچے احسن التفاسیر کے طور پر تمام قرآن شریف کی مختصر صحیح تفسیر ہے تاکہ ترجمہ اور اس تفسیر کی مدد سے اردو دان مسلمان مرد اور عورتیں قرآن شریف کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
مصنف کے احوال :
مؤلف احسن التفاسیر اللہ تعالیٰ
١٢٥٨۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٨ ھ
مولدومسکن : آپ کا خاندان قدیم الایام سے دہلی کا رہنے والا تھا۔ ١٢٥٨ ھ میں آپ دہلی میں پیدا ہوئے قلعہ معلّٰی میں اچھے حاصے خاندانی تعلقات کے باعث بچپن قلعہ معلّٰی میں گذرا۔
حفظ قرآن : وہی قاری امیدعلی صاحب سے جن کا وطن ڈھا کہ تھا لیکن عرصہ دراز سے دہلی میں رہ رہے تھے۔ قرآن مجید حفظ شروع کیا۔ اور گیارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
فارسی کی ابتدائی کتابیں : چودہ سال کی عمر تک اس قدر پڑھ ڈالیں کہ فارسی کی عبارت سمجھنے کی اچھی استعداد پیدا ہوگئی۔ عام قابلیت بھی اتنی ہوچکی تھی کہ وہ خط و کتابت بخوبی کرسکتے تھے۔
ترک وطن : انہی ایام میں ١٨٥٧ ء کا ہنگامہ ہوگیا۔ اس طوفانِ رست خیز میں آپ کے والد بال بچوں سمیت پٹیالہ (حال مشرقی پنجاب ) چلے آئے۔ وہاں پہنچ کر آپ کے والد ماجدنے فارسی کتابوں کی خود تعلیم دینی شروع کی، نیز آپ کو مرزرا احمد بیگ کے بھی سپرد کردیا گیا۔ غالباً اس لئے کہ دفتر کاموں کی واقفیت پیدا ہو سکے۔ چناچہ تین ساڑھے تین سال کے عرصے میں فارسی کی تحصیل کے ساتھ ساتھ دفتری امور میں بھی مہارت حاصل ہوگئی ۔ جو حید آباد کی ملازمت کے دوران میں خوب کام آئی۔
علوم آلیہ کی تحصیل : بعدہٗ ٹونک چلے گئے جو ان دنوں صرف و نحود وغیرہ کامرکز تھا۔ صرف دنحو کی تمام کتابوں کی تکمیل یہاں کرلی اتنے میں دہلی ک حالت معمول پر آئی تو آپ کے والد ماجد پٹیالہ سے دہلی واپس آگئے۔
آپ بھی والدین کی اوقات کے لئے ٹونک سے دہلی آئے اور والد کے اصرار پر ٹونک کا ارادہ ترک کر کے دہلی میں ہی تعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد اپنے ایک ہم سبق مولوی عبد الغفور ١ جو بڑے لائق اور قابل آدمی تھے۔ کی معیت میں جناب مولانا محمد حسین ٢ خاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کا فیض تدریس نحبی طور پر خواجہ ضلع بلند شہر (ہند) میں جاری تھا اور علوم میں اعلیٰ قابلیت کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے ہاں صرف ونحو کو اچھی طرح ضبط کرنے کے علاوہ منطق کی ابتدائی اور وفقہ و ا صولِ فقہ کی کتابیں خوب پڑھیں۔
اس کے بعد علی گڑھ جا کر مولانا فیض الحسن صاحب سہارن پوری سے اکتسابِ علوم کیا فقہ و اصول اور منطق وغیرہ کی بقیہ کتابوں کے ساتھ ہی تفسیر بھی ان سے پڑھی۔
تفسیر و حدیث کی تکمیل : پھر واپس آکر حضرت شیخ الکل فی الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث قدس اللہ سرہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ طے کیا اور حضرت سے اکتساب فیض کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں تفسیر و صحاح کی تکمیل کر ڈالی۔ چناچہ حضرت میاں صاحب a نے سند حدیث عنایت فرمائی ۔
طب : تکمیل علوم شرعیہ کے بعد حکیم امام الدین صاحب مرحوم سے پوری طب پڑھی اور حکیم حسام الدین خاں صاحب مرحوم (عرف منجھلے میاں) کے مطب میں ایک عرصے تک بفرض تجربہ حاضر رہ کر طبابت کی بھی سند حاصل کرلی۔
سند فراغت کے بعد : حضرت میاں صاحب کی خدمت میں کچھ م دت تدریس و فتویٰ میں مصروف رہے پھر حضرت ہی کے مشورہ سے جناب مولوی ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرحوم ۔ مصنف ترجمۃ القرآن کے ہاں شادی قرار پائی۔
ان دنوں ڈپی نذیر احمد صاحب (رح) کا گورکھ پور (ہند) میں قیام تھا۔ شادی وہیں عمل میں آئی۔ پھر ٹونک چلے گئے لیکن کچھ مدت بعد ڈپٹی صاحب موصوف آپ کو حیدر آباد دکن لے گئے اور ضلع نانذیر میں آٹھ سو روپے مشاہرہ پر ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر لگوایا۔ جس پر سالہا سال تک سرفراز رہے اور وہیں سے پنشن پائی۔
١٣٠٨ ھ میں حج بیت اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ وہاں آپ کو بھی حوادث و مصائب سے دو چار ہونا پڑا مگر آپ نے بخندہ پیشانی ان سب کو جھیلا اور ١٣٩٠ ھ کو بخیریت واپس تشریف لائے۔
علمی شغف : علمی ذوق کا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ڈپٹی کلکٹر کی ملازمت کے دوران میں آپ نے تین ترجموں والا قرآن مجید مرتب کیا پہلا ترجمہ فارسی فتح الرحمن از شاہ ولی اللہ صاحب (رح) دوسراؔ اردو تحت اللفظ از شاہ رفیع الدین ، تیسیرا اردو با محاورہ از شاہ عبد القادر صاحب۔ پھر اس پر ” احسن الفوائد “ کے نام سے بہترین ملحض تفسیر ی حواشی خود لکھے۔ اس قرآن مجید کو آپ نے اپنے خرچ پر طبع کرایا۔
تصانیف : احسن ١ الفوئد (اردو تفسیر ) جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ دو دفعہ دہلی میں طبع ہوا۔ (با ر اوّل ١٣١٥ ھ بار دوم ١٣٤٧ ھ) ٢ تفسیر احسن التفاسیر (اردوض ہزاروں صفحات پر مشتمل بہترین اردو تفسیر ١٣٢٥ ھ میں مطبع فاروق دہلی سے سات بڑی جلدوں میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر بڑی قابلیت سے مرتب کی گئی ہے جس میں بہت سی تفاسیر کا خلاصہ آسان اور عام فہم انداز میں کردیا گیا ہے۔
٣ مقدمہ تفسیر احسن التفاسیر جو اعلیٰ تفسیری فوائد اور علمی نکات و مباحث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ ١٣٣٠ ھ ، ١٩١٢ ء میں طبع ہوا۔
٤ تفسیر آیات الاحکام من کلام رب الانام (اردو) صرف سورة بقرہ کا حصہ کانفرنس اہلحدیث دہلی نے شائع کیا تھا، پور ی ہوجاتی، تو اردو میں آیات احکام کی تفسیر میں اپنی نظیر آپ ہوتی۔ ٤٢٤ صفحات پر ١٩٢١ ء میں بمقام دہلی طبع ہوئی۔
٥ حاشیہ بلوغ المرام (عربی ) فقہی اور محدثانہ انداز کا جامع حاشیہ ، متن کے ساتھ کم و بیش ٥٠ ٣ صفحات پر مطبع فاروقی دہلی سے ١٣٢٥ ھ میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ١٩٧٨ ء میں سرگودھا سے شائع ہوا۔
٦ تنفتح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ کامل محدثانہ طریق پر مشکوٰۃ کا جامع اور بےنظیر حاشیہ ، پہلی جلد خود لکھی باقی اپنی نگرانی میں اور ہدایت کے تحت استاد محترم مولانا محمد شرف الدین محدث دہلوی (متوفی ٰ ١٣٨١ ھ ) سے لکھوائی۔ پہلا ربع ١٣٢٥ ھ میں مطب انصاری دہلی سے اور دوسرا ربع ١٣٣٣ ھ میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا۔ دوسرا نصف مجتبائی والوں ک سر د مہری کی نذر ہوگیا تھ ا۔ تا ہم تلاش بسیار کے بعد مبطع مجتبائی والوں کے ورثاء سے اس کا کرم خوردو مسودہ دستیاب ہوگیا اور اس کا تیسیرا ربع راقم کی تصحیح و تحقیق اورا ضافوں کے ساتھ ١٤٠٤ ھ میں دار لدعوۃ السلفیہ لاہور کے اہتمام میں چھپا اور آخری ربع (جو بہت زیادہ خرا بکو کرم خوردہ ہے ) اس کی تصحیح و تحقیق اور استدراکات کا کام جاری ہے۔
٧ بحر ذخار بجوا انتصار ، مولانا انتشار حسین رام پوری نے حضرت میاں صاحب (رح) کی معرکۃ الآرا کتاب ” معیار الحق “ کے جواب میں ” انتصار الحق “ بڑی ضخیم کتاب لکھی ” بخر زخار “ کم بیش تین سوصفحات پر مشتمل اسی کتا ب کا مدلل ، معقول اور سنجیدہ جواب ہے۔
٨ صراط الاھتداء فی بیان الاقتدارء اہلحدیث کے امتیازی مسائل کی تحقیق اور اہل حدیث کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے جواز میں مدلل یہ کتاب ١٢٨٩ میں مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوئی۔
٩ عمر کے آخری دور میں مسند احمد کی احادیث کی تخریج شروع کی تھی لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کام کتنا کیا تھا ؟ اور وہ کہیں محفوظ ہے یا نہیں ؟
وفات : ١٧؍جمادی الاولیٰ ١٣٣٨ ھ (٩ مارچ ١٩٢٠ ء ) تقریباً اسی ٨٠ اسی سال کی عمر میں انتقال فرمایا :
یہ کتاب قرآن حکیم کے ان طالب علموں کے لیے لکھی گئی ہے جو زبان عربی کا کم از کم ابتدائی علم رکھتے ہوں اور صرف و نحو کی مبادیات سے واقف ہوں اور اس سلسلہ میں مزید معلومات کے خواہشمند ہوں۔ یہ کتاب نہ صرف ان کو قرآنی عبارت کے مختلف الفاظ اور جملوں کی تعلیل صرفی اور ترکیب نحوی میں مدد گار ثابت ہوگی بلکہ ربط الفاظ و آیات میں بھی معاونت کرے گی۔
عام لغات (ڈکشنری) کی کتابوں میں الفاظ کے مواخذ و معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے اور ان کے صرفی و نحوی پہلو کو چھوڑ دیا گیا ہے اس طرح طالب علم، نہج عبارت اور نشست الفاظ کی اصولی وجوہ سے ناواقف رہ جاتا ہے، بقول مولانا محمد نذیر عرشی مصنف مفتاح العلوم شرح مثنوی مولانا روم :
" ترکیب نحوی نہ جاننے والے لوگوں کی زباندانی کی مثال اس کوتاہ نظر راہرو کی سی ہے جس کی نظر پگڈنڈی کے صرف اتنے ہی حصے پر ہے جو اس کے پاؤں کے سامنے ہے اور وہ اس تسلسل نظر کے ساتھ اپنی مسافت طے کرتا جارہا ہے بخلاف اس شخص کے جو جانتا ہے کہ یہ کلمہ فعل ہے یہ فاعل ہے یہ اسم موصول ہے یہ جملہ اس کا صلہ ہے ، یہ کلمہ مقدم آنا واجب ہے اور یہ موخر ہونا چاہیے اس کلمہ میں ضمیر کا ہونا ضروری ہے اس کا مرجع یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر عبارت کا مطلب و مدعا خود بخود آئینہ ہوجاتا ہے اور جب وہ عبارت کا ترجمہ کرتا ہے تو ایک مبصر کی حیثیت سے کرتا ہے اس کی مثال اس وسیع النظر اور دور بین راہرو کی سی ہے جس نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے نقشہ کے ذریعہ، سفر ناموں کے مطالعہ سے اور واقفان راہ سے گفتگو کر کے تمام منازل سفر پر نظر ڈال لی ہو۔ خلاصہ یہ کہ اس کا سفر خطرات سے محفوظ ہوگا "۔
ایسی ہی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری الفاظ، جملوں اور آیات کی صرفی و نحوی لحاظ سے وضاحت کردی گئی ہے اس طرح اصطلاحا یہ کتاب نہ تو ایک لغات ( ڈکشنری) ہے نہ تفسیر نہ ترجمہ، اسی بناء پر اس کا نام " انوار البیان فی حل لغۃ القرآن " رکھا گیا ہے ۔
سورت اور اس کی آیات کو یا آیات میں مندرجہ جملوں یا الفاظ کو اس ترتیب سے لکھا گیا ہے کہ پہلے سورت کا نمبر دیا ہے اس کے بعد آیت کا نمبر ہے ۔ ازاں بعد جملہ یا الفاظ کا حوالہ ہے ۔ مثلا ١١٩: ٣ میں ٣ سورة آل عمران کو ظاہر کرتا ہے اور ١١٩ سورة آل عمران کی آیت ١١٩ کو، اور اس آیت میں مندرج مشکل الفاظ کو اس آیت کے محاظ درج کیا ہے ۔
چونکہ اس کتاب میں صرف مشکل الفاظ کی تشریح کی گئی ہے لہذا ضروری نہیں کہ ہر سورة یا ہر پارہ اس کے انہی الفاظ سے شروع ہو جو قرآن میں ہیں۔
کتاب ہذا کا مقصد طالب علم کو قرآن حکیم کے سمجھنے میں معاونت کرنا ہے لہذا ان کتب سے دل کھول کر مدد لی گئی ہے۔ مؤلف کتاب ہذا کو اپنی کوتاہی علم کا شدت سے احساس ہے۔ لہذا کتاب ہذا میں جو محاسن نظر آئیں ان کے لئے سزاوار تحسین وہ ہستیاں ہیں جن کے گلستان تصنیف سے خوشہ چینی کی گئی ہے البتہ جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کے لئے ذمہ دار وہ خود مؤلف ہے جس کے لئے وہ بارگاہ ایزدی سے معافی کا خواستگار ہے۔
نام : اشرف الحواشی
ترجمہ اول : حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی (رح)
ترجمہ دوم : نواب وحید الزمان خان حیدر آبادی
مرتب و مؤلف : ابوالقاسم محمد عبدہ الفلاح
ناشر : شیخ محمد اشرف ناشران قرآن مجید و تاجران کتب
مختصر تعارف و خصوصیات :
مؤلف اور ناشر تفسیر کے اخیر میں لکھتے ہیں :
1 ۔ تاریخ کے ہر دور میں علماء نے قرآن کی تشریح و تفسیر کا فریضہ ادا کیا۔ اور علماء کی ان خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ انکا احصاء ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ برصغیر میں خاندان ولی اللہی کی خدمات کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ ان میں شاہ رفیع الدین دہلوی (رح) کا ترجمہ اپنی سہولت اور اختصار کے سبب نہایت مقبول ہے اور یہ ترجمہ جو مسلک سلف کا مظہر ہے۔ اس پر خود حضرت النواب نے تفسیری حواشی مرتب فرمائے مگر وہ نہایت مختصر تھے۔ اس بناء پر کسی ایسے تفسیری حواشی کی ضرورت عرصہ سے محسوس ہورہی تھی جو اس ترجمہ سے ہم آہنگ ہو، اور احادیث صحیحہ، دورِ آثار صحابہ و تابعین پر حاوی ہو تاکہ سلف کے طرز پر قرآن سمجھنے والے اس سے اپنا شوق پورا کرسکیں۔ ان تفسیری حواشی میں مندرجہ ذیل اصول کو سامنے رکھا گیا ہے۔
2 ۔ کتب تفسیر میں ابن کثیر، فتح القدیر اور فتح البیان کو اصل قرار دیا گیا ہے اور ان سے تفسیر بالماثور کا حصہ نہایت اختصار کے ساتھ اخذ کیا گیا ہے۔
3 ۔ بلا واسطہ کتب حدیث سے استفادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں صحاح ستہ اور ان کے شروح کو سامنے رکھا گیا ہے۔
4 ۔ جن عقل پسندوں نے قرآن کی ترجمانی کے زعم میں بعض صحیح احادیث کا انکار کیا ہے، فوائد میں ان پر بھی بالاختصار تنقید کردی گئی ہے۔
5 ۔ اس تفسیر میں دوترمے ہیں۔ پہلا ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی کا ہے اور دوسرا ترجمہ علامہ نواب وحید الزماں کا۔ نواب صاحب مشہور عالم اور صحاح ستہ کے مترجم ہیں۔ حواشی میں اس امر کا خاص طور پر التزام کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی متعلقہ آیات کی تائید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث درج کی جائے جو مضمون آیات کے عین مطابق ہو۔ حواشی کو اشرف الحواشی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جسے آپ تفسیر قرآن بالحدیث کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
مصنف : امیر محمد اکرم اعوان
۔۔۔
امیر محمد اکرم اعوان مفسر قرآن اور مذہبی پیشوا ہیں جو تنظیم الاخوان کے امیر ہیں۔
آپ کا تعلق کوہسار کے خوبصورت علاقہ ونہار کے ایک معروف زمیندار خاندان سے ہے آپ نے علاّمہ مو لانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی صحبت کی بھٹی میں پچیس سال کا عرصہ گزارا اور کندن بن کر نکلے۔ حضرت العلاّم مولانا اللہ یار خان نوّر اللہ مرقدہ نے اپنے شاگرد رشید کے سینے میں برکاتِ نبوّت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےکراں سمندر انڈیلا اور اپنے بعد سلسلے کا شیخ نامزد فرمایا۔
حضرت امیر مکرّم مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ العالی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ کے فی زمانہ شیخ ہیں ۔ آپ نے اصلی حقیقی تصوّف کو واضح کرنے کے لیے ارشاد السالکین ، کنز الطّالبین، طریقِ نسبتِ اویسیہ، رموزِدلِ ، کنوزِ دل جیسی قریباً چالیس کتب سالکین کی رہنمائی کے لیے تصنیف فرمائیں۔
آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی " مسائل السلو ک من کلام الملوک " کی شرح فرمائی اور اپنے عطیم المرتبت شیخ ضرت العلام مولانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی کتاب دلائل السلوک کی بھی شرح فرمائی۔
آپ عصرِ حاضر کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں
آپ نے تعلیمِ بالغاں کا با قا عدہ سلیبس مقرر کر رکھا ہے۔ مختلف کو رسز کے ذریعے لوگ قرآن حدیث ، فقہ اور عربی سیکھتے ہیں۔ جن میں ایمانیات، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی بنیادی تعلیم کے ساتھ معاشیات، عدالت اور معاشرت کی رہنمائی ملتی ہے۔ مَردوں کی طرح خواتین کی تربیت کا نتظام ہے۔ " الا خوات " کا نام سے ان کی بھی تنظیم ہے۔
آپ نے گزشتہ ادوار ِ حکومت میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو نفاذِ اسلام کے لیے تحریری مسوّدہ پیش کیا۔ شومٔی قسمت کہ ان حکومتوں کو توفیقِ عمل نہ ہوئی۔
آپ مفسِّر قرآن ہیں۔ اللہ کریم نے آپ کو علم لَدُنّی سے نوازا ہے۔ اور قرآن پاک کا خص فہم عطا فرمایا ہے۔ یہ اسی علم لدنی کی برکت ہے کہ آپ نے ایک تفسیر " اسرار التنزیل " تحریر فرمائی ہے۔ جس میں آپ نے موقع بہ موقع تسوّف کے رموز کو آشکار کیا ہے ۔ یہ تفسیر صاحب دل حضرات کے لیے کسی نایاب تحفے سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں زبان و بیا ن کی خوبیوں سے آراستہ اور خاص و عا م میں پسندیدہ ہے۔ آپ کی دوسری بیانیہ تفسیر " اکرم التفاسیر " ہے جو نصف سے زا ئد یعنی سولہ پا روں میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔ یہ تفسیر " وَلَقَد یَسَّرنَا القُر آنَ لِلذِّکرِ " آسان قرآن " کا اظہر من الشمس ثبوت ہے۔ آسان زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے حالات کے مطابق ہونے کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ قرآن کریم شاید موجودہ زمانے کے لیے ہی نازل ہوا ہے۔ آپ کی ایک اور پنجابی تفسیر " رب دیاں گلاّں " " اپنا ٹیوی چینل سے ٹیلی کا سٹ ہوتی رہی ہے۔ اس کی سی ڈی اور ڈیوی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں اور انشاء اللہ طباعت کے بعد منظر عام پر آ جائے گی۔
آپ مترجمِ قران بھی ہیں۔ آپ کا قرآن پاک کا سلیس ترجمہ " اکرم التراجم " قدرت اللہ کمپنی کی طرف سے شائع ہو کر کتب خانوں، مساجد اور گھروں کی زینت بن چکا ہے اور اپنی روانی، سلاست اور شستگی کے باعث علماء اور عوام میں یکساں مقبول ہے۔
آپ صوفی شاعر، محقق اور اور اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں دلی کیفیات زباں پر آئیں تو گردسفر، دیدۂ تر، متاعِ فقیر، نشانِ منزل، آس جزیرہ، کونسی ایسی بات ہوئی ہے اور دِل دروازہجی سے مجموعہ ہائے کلام معرض وجود میں آئے۔
آپ کے ہزاروں بیانات آڈیو، وڈیو ریکارڈ شدہ ہیں۔ سی ڈیز وغیرہ دستیاب ہیں۔ کتب کے علاوہ بیشمار پمفلٹ ہیں کسی چیز پر رائلٹی نہیں لیتے۔
آپ الفلاح فاؤنڈیشن کے بانی ہیں جو پورے ملک میں عموماً اور شمالی علاقہ جات میں خصوصاً رفاہِ عامہ کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
آپ صقارہ ایجو کیشن سسٹم کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ صقارہ اکیڈمی جس کا افتتاح صدر جنرل ضیاء الحق صاحب نے کیا وہاں اقبال کے شاہینوں کی تربیت کی جاتی ہے ۔ صقارہ اکیڈمی دین اور علوم جدیدہ کا حسین امتزاج ہے۔
العلم علمان : علم الادیان وعلم الابدان کے مصداق spirtual ، نارمیٹو سائنسز کے علم اور فزیکل سائنسز کے علم کا شاہکار عملی نمونہ ہے۔
اس اکیڈمی کا " راولپنڈی بورڈ " میں ایک خاص مقام ہے۔ اکیڈمی کے تعلیم و تربیت یافتہ سول و آرمی کے اعلیٰ عہدوں پر ہیں نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قابل تقلید نمونہ کے حامل ہیں۔
تعارف سورة الانعام بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ نمبر 6 رکوع 20 آیات 165 الفاظ وکلمات 3100 حروف 12935 مقام نزول مکہ مکرم ٰ 60 آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ ٭خصوصیت : یہ سورة ایک ہی رات میں ستر ہزار فرشتے لے کر نازل ہوئے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم انعام ” نعم “ کی جمع ہے (یعنی جانور) مویشی ‘ چوپا... ئے جانوروں کو کہا جاتا ہے۔ اس سورة کے سولہویں ستر ھویں رکوع میں بعض جانوروں کے حلال و حرام ہونے کو بیان کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں کفار کہ کے بعض توہمات کو بھی دور کیا گیا ہے جو عرب میں عا م تھے۔ اسی لیے اس سورة کا نام ” الانعام “ رکھا گیا ہے۔ اگرچہ یہ سوۃ مکی کلاتی ہے مگر اس میں وہ ساٹھ آیتیں بھی شامل ہیں جو مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں بقیہ ایک سو پانچ آیتیں ہجرت سے کچھ پہلے مکہ مکرمہ نازل ہوئیں۔ اس سورة کی ایک خصویت یہ ہے کہ اس سورة کی ایک سو پانچ آیتیں ایک ہی رات میں نازل ہوئیں جنہیں اسی رات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھنے کا حکم دیا۔ متعدد احادیث میں اس سورة کے نازل ہونے کی ایک بہت بڑی شان بیان فرمائی گئی ہے۔ احدیث میں آتا ہے کہ جس رات پر سورة نازل ہوئی اس رات زمین سے آسمان تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا۔ تمام فرشتے اللہ کی حمد وثناء کررہے تھے۔ ان کی تسبیحات کی گونج سے زمین و آسمان میں ایک عجیب سا سماں تھا۔ اسی دوران ستر ہزار فرشتے اس سورة کو لے کر نازل ہوئے۔ وہ اللہ کی تسبیح کررہے تھے اور اللہ کو سجدے کررہے تھے۔ فرشتوں کی تسبیح اور سجدوں سے زمین و آسمان منور تھے۔ یہاں تک کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ کی تسبیح کرتے ہوئے سجدے میں چلے گئے۔ احادیث میں اس سورة کی بہت سی فضیلتیں آئی ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص سورة الانعام کی پہلی تین آیتوں کی تلاوت کرے گا اللہ تعالیٰ ایسے چالیس فرشتوں کو نازل فرمائے گا جو عبادت کریں گے جس کا ثواب اس شخص کو بھی عطا کیا جاتا رہے گا جو اس کی تلاوت کرے گا فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے اللہ کی رحمتوں کو اس شخص پر نازل کرتے رہیں گے۔ جو شخص اس سورة کو پڑھتا ہے تو ایک فرشتہ آسمان سے اترتا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے۔ شیطان اگر پڑھنے والے کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو فرشتہ اس گرز سے شیطان کی خبر لیتا ہے اور شیطان اور اس کے درمیان ستر حجاب (پردے) ڈال دیئے جاتے ہیں۔ اس سورة کو پڑھنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ اے میرے بندے تو میرے نور کے سائے میں چل ‘ جنت کے پھلوں سے لذت حاصل کر ‘ حوض کوثر سے پانی پی ‘ اور نہر سلسبیل میں غسل کر تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا پروردگار ہوں۔ اس سورة کا مرکزی مضمون توحید و رسالت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دور جہالت میں کفار ایسے تو ہمات اور فضولیات میں مبتلا تھے جن توہمات کی تردید کی گئی ہے جن کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔ اہل ایمان کو کفار کے ظلم و ستم کے مقابلے میں تلی اور جنت کی بشاری دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ زندگی کے ان بنیادی اصولوں کو بیان فرمایا گیا جو انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ ٭کفار نے بہت سی چیزوں کو خود ہی حرام اور حلال کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقیقت میں جو چیزیں حرام اور ناجائز ہیں ان پر تم غور نہیں کرتے اور دوسری فضول بحثوں میں الجھے ہوئے ہو۔ فرمایا کہ اللہ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے (١) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک قرار دینا (٢) والدین سے بد سلوکی کرنا۔ (مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنا حرام ہے کیونکہ رازق تو اللہ ہے۔ (٤) چھپے ہوئے یا ظاہری گناہ کے کام کرنا (٥) کسی کو ناحق قتل کرنا (٦) یتیم بچے کے مال کو کھاجانا (٧) ماپ تول میں کمی کرنا (٨) وعدے کا پورا نہ کرنا۔ (٩) جب گواہی دینے کا وقت آجائے تو اس سے پیچھے ہٹ جانا (١٠) اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے ہٹ کر غلط اور گمراہی کے راستے پر چلنا یہ سب ناجائز باتیں ہیں ان سے بچنا ہر صاحب ایمان کے لیے ضروری ہے۔ Show more
نام : بصیرت قرآن
مترجم و مفسر : مولانا محمد آصف قاسمی
ناشر : مکتبہ بصیرت قرآن کراچی
مختصر تعارف :
زیر نظر تفسیر مولانا محمد آصف قاسمی مدظلہ کی تصنیف ہے، مولانا محمد آصف قاسمی، حضرت مولانا قاسم نانوتوی (رح) کے پڑپوتے ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اور یہ تفسیری مجموعہ در اصل ان کے دروس قرآن ہیں۔ جنہیں بعد ازیں کیسٹوں سے سن کر تحریری شکل دی گئی۔ تفسیر کی خصوصیات خود مصنف کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہیں :
تفسیر بصیرت قرآن کی چند خصوصیات
1 ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ترجمہ و تفسیر کے لکھنے میں میرا بنیادی جذبہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائیں اور اس کے صدقے میں میری مغفرت فرما دیں۔ اس سلسلہ میں میری حیثیت اس بڑھیا جیسی ہے جو مصر کے بازار میں سوت کا ایک گولہ لے کر اس جذبہ کے ساتھ آ گئی تھی کہ اس کا نام بھی یوسف کے خریداروں میں آجائے۔ کیا خبر کہ میری یہ ادنی سی کاوش و کوشش کل قیامت کے دن جب صحابہ کرام، علماء عظام اور بزرگان دین اپنا اپنا انعام حاصل کرے رہے ہوں تو ان کے صدقے میں مجھے بھی مغفرت و نجات کا پروانہ مل جائے۔
2 ۔ اس پوری تفسیر میں لفظ " خدا " نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ خدا کہنے میں اللہ کی طرف سے کسی اجر و ثواب کا وعدہ نہیں ہے جب کہ لفظ اللہ قرآن کریم کا لفظ ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے پوری تفسیر میں لفظ خدا لکھنے سے گریز کیا ہے۔
3 ۔ تفسیر میں اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ آسان زبان میں بات کو سمجھایا جائے کیونکہ عام مسلمانوں کو شکوہ یہ ہے کہ تفسیروں میں اتنے مشکل الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے سمجھنے میں بڑی دشواری ور مشکل پیش آتی ہے لہذا میں نے زیادہ سے زیادہ سادہ الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کا صحیح فیصلہ تو قارئین ہی کرسکتے ہیں۔
4 ۔ اس بات کی ممکن حد تک کوشش کی گئی ہے کہ فقہ حنفیہ کے مطابق بیان کیا جائے کیونکہ جب ہم مختلف فقہا کا مسلک بیان کرتے ہیں تو آسان پسند لوگ ہر فقہ سے اپنے مطلب کے مسائل نکال کر خود ہی فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ اس کی وجہ سے کافی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں اس لیے میں نے عام طور پر اسی قول کو نقل کیا ہے جو فقہ حنفی کے مطابق ہے۔
5 ۔ تفسیر کرنے میں میری کوشش یہ رہی ہے کہ جو آیت سامنے ہے اس کے مفہوم کو واضح کرکے بتادیا جائے تا کہ بات مختصر بھی ہو اور سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
6 ۔ ترجمہ کے ساتھ الفاظ قرآن کا الگ الگ ترجمہ بھی کردیا ہے تاکہ جو شخص قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ خود بھی ترجمہ سیکھنا چاہتا ہو وہ لغات القرآن اور تفسیر کے مطالعہ سے قرآن کریم کو با ترجمہ سیکھ سکے۔
7 ۔ پوری تفسیر میں میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اپنی رائے سے کوئی بات نہ لکھوں جہاں کوئی اختلافی مسئلہ ہوتا ہے اس میں مختلف مفسرین کی رائے پیش کردیتا ہوں کیونکہ ہمارے اکابر نے پوری زندگیاں لگا کر حق و صداقت کی باتوں پر تحقیق فرمائی ہے اور اس کو امت کے سامنے پیش کیا ہے۔ میں نے بھی ان ہی بزرگوں کے فیض سے روشنی حاصل کرکے ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ۔ آمین۔
ترجمہ و تفسیر بیان القرآن
سوفٹ وئیر میں شامل نسخہ تاج کمپنی کا ہی ہے۔
یہ ترجمہ وتفسیر مشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی المتوفی ١٩٤٣ء کا ہے جس کا پہلا ایڈیشن ١٩٠٨ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے بارہ جلدوں میں طبع ہوا تب سے برابر چھپتا رہتا ہے۔ بعض ایڈیشن میں صرف ترجمہ ہی چھپتا ہے۔ قرآن شریف کے جو تراجم سب سے زیادہ چھپتے ہیں ان میں اس کا بہت اونچا مقام ہے۔ ترجمہ سلیس، سہل اور آسان ہے۔ تفسیر میں جن نواحی کو شامل کیا ہے اس سے عوام کم علماء زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بعد ازاں انڈ و پاک میں لا تعداد مکاتب نے شائع کیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کا نام کم سے کم برصغیر میں کسی صاحب علم کے لیے محتاجِ تعارف نہیں، آپ بلند پایہ فقہیہ، حدیث کے ذوق آشنا اور تصوف میں اپنے عہد کے گویا امام تھے، ایک خلقت کی اللہ نے آپ کے ذریعہ اصلاح فرمائی اور بڑے بڑے اہل علم وفضل آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے، یہ تفسیر آپ ہی کی ہے اور آپ کی عمیق فکرونظر اور گہری بصیرت کی شاہد عدل ہے، آپ نے احباب کے بہت اصرار پر یہ تفسیر لکھی، جو تقریباً چھ سال کی مدت میں مکمل ہوئی اور پہلی بار ١٣٢٦ ھ میں " اشرف المطابع " تھا نہ بھون سے طبع ہوئی، اس تفسیر کی خصوصیات یہ ہیں : قرآن مجید کا نسبۃ آسان اور سلیس ترجمہ کیا ہے جو بامحاورہ ہونے کے باوجود الفاظِ قرآنی سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے، دوسرے یہ کہ ترجمہ میں خالص محاورات استعمال نہیں کئے گئے ہیں؛ کیونکہ محاورات ہر جگہ ومقام کے الگ الگ ہوتے ہیں، ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب (رح) کے ترجمہ کے قریب ہے، تیسرے یہ کہ نفس ترجمہ کے علاوہ جس مضمون پر توضیح کی ضرورت تھی یا کوئی شبہ خود قرآن کے مضمون سے بظاہر پیدا ہوتا ہے اس جگہ " ف " بناکر اس کی تحقیق و وضاحت کردی گئی ہے، لطائف ونکات یاطویل وعریض حکایات وفضائل اور فقہی احکام کی تفصیلات سے تفسیر کو طویل نہیں کیا گیا ہے، چوتھے جس آیت کی تفسیر میں بہت سے اقوال مفسرین کے ہیں، ان میں جس کو ترجیح معلوم ہوئی صرف اس کو نقل کیا گیا ہے، پانچویں خلافیات کی تفسیر میں صرف مذہب حنفی کو لیا گیا ہے اور دوسرے مذاہب بشرط ضرورت حاشیہ میں لکھ دیئے گئے ہیں، چھٹے نفعِ عوام کے ساتھ افادہ خواص کا خیال کرتے ہوئے ایک حاشیہ عربی میں بڑھادیا گیا ہے، جس میں غیر مشہور لغات، وجوہ بلاغت، مغلق تراکیب، خفی استنباط، فقہیات وکلامیات اور اسباب نزول وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے، یہ نہایت ہی عالمانہ تفسیر ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے بہت ہی نفع بخش ہے؛ بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اردو کی " جلالین " ہے۔
مصنف کا تعارف :
نام نامی ولقب گرامی
نام نامی ” اشرف علی “ ہے، یہ نام اس زمانہ کے مقبول و مشہور مجذوب و بزرگ حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تجویز فرمایا تھا۔ أپ کالقب ” حکیم الامت “ ہے، جسے عرصہ دراز سے حق تعالیٰ نے خواص و عوام میں القا فرمادیا ہے اور جو بلاد و اَمصار میں عام طور پر شائع و ذائع ہے۔
شرف نسب
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ والد کی طرف سے فاروقی اور والدہ کی طرف سے علوی النسب ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ والد ماجد کا نام ” عبدالحق “ تھا، آپ قصبہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر کے ایک مقتدر رئیس ، صاحب نقد و جائیدا د تھے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ محترمہ بھی ایک باخدا اور صاحب نسبت بی بی تھیں، نیز ان کی عقل و فراست اور فہم و بصیرت کی تصدیق حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔
وطن مالوف
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کا وطن مالوف قصبہ تھا نہ بھون ہے، جو ضلع مظفر نگر ہندوستان میں واقع ہے، اس کا اصل نام ” تھا نہ بھیم “ تھا، کیوں کہ یہ کسی زمانہ میں راجا بھیم کا تھا نہ تھا، کثرت استعمال سے تھا نہ بھون ہوگیا، البتہ جب مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے تو شرفائے قصبہ کے بعض اجداد نے اپنے ایک فرزند ” فتح محمد “ کے نام سے اس کا نام ” محمد پور “ رکھا، جو کاغذات شاہی میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن عام طور پر پرانا نام ” تھا نہ بھون “ ہی مشہور ہے۔
ولادت باسعادت
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 15 ربیع الثانی 1280 ھجری کو چار شنبہ کے دن بوقت صبح صادق ہوئی۔
بچپن کے حالات
حضرت رحمة اللہ علیہ بچپن ہی سے اعزہ و اقارب ، اپنوں اور بیگانوں سب میں محبوب رہے، بچپن میں شوخیاں بہت فرمائیں، مگر ایسی کوئی شرارت نہیں کی جس سے دوسروں کو تکلیف وایذا پہنچے ، شروع ہی سے نماز کا بہت شوق تھا، فرائض کے اہتمام کے علاوہ صرف 13-12 برس ہی کی عمر سے رات تہجد میں اٹھتے اور نوافل و وظائف پڑھا کرتے تھے۔
تحصیل علوم
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے قرآن شریف زیادہ تر دہلی کے حافظ حسین علی رحمة اللہ علیہ سے حفظ کیا، البتہ شروع کے چند پارے ضلع میرٹھ کے آخون جی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھے تھے۔
ابتدائی فارسی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھی، پھر تھا نہ بھون میں فارسی کی متوسطات حضرت مولانافتح محمد صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں اور انتہائی کتب اپنے ماموں واحد علی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں، جو ادب فارسی کے استاد کامل تھے۔ تحصیل عربی کے لیے دیوبند تشریف لیے گئے، وہاں بقیہ کتب فارسی مولانا منفعت علی صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں۔ عربی کی پوری تکمیل دیوبند ہی میں فرمائی اور صرف 19 یا 20 سال کی عمر میں بفضلہ تعالیٰ فارغ التحصیل ہوگئے ۔
اساتذہ کرام
آپ کے تمام اساتذہ ہر فن ماہر ہونے کے ساتھ بڑے صاحب باطن اور کامل بھی تھے ، گویا ان میں ہر ایک غزالی اور رازی وقت تھا۔ اساتذہ کرام میں حضرت مولانا یعقوب صاحب، مولانا سید احمد صاحب، مولانا محمود صاحب، مولانا عبدالعلی صاحب اور حضرت شیخ الہند محمود حسن صاحب رحمھم اللہ شامل ہیں۔ قراءت کی مشق شہرہ آفاق قاری ، جناب قاری محمد عبداللہ صاحب مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بمقام مکہ معظمہ فرمائی۔
درس و تدریس
مروجہ علوم سے فراغت کے بعد حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ صفر 1301 ھ سے 1315 ھ تقریبا 14 سال تک کان پور میں مدرسہ فیض عام میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور اپنے مواعظ حسنہ اور تصانیف مفیدہ سے وہاں کے مسلمانوں کو مستفید فرماتے رہے، علاوہ بریں افتاء کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا، 14 سال کے بعد اپنے پیرو مرشد کے حکم سے دوبارہ اپنے وطن تھا نہ بھون میں قیام پذیر ہوگئے۔
تلامذہ
قیام کان پور کے زمانہ میں نزدیک و دور کے صدہا طلبہ نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے علوم فاضلہ حاصل کیے ، سب کا استقصا تو ممکن نہیں ، البتہ چند مخصوص حضرات قابل ذکر یہ ہیں : مولانا قاری محمد اسحاق صاحب برودانی، مولانا محمد رشید صاحب کان پوری ، مولانا احمد علی صاحب فتح پوری، مولانا صادق الیقین صاحب کرسوی، مولانا فضل حق صاحب الہ آبادی ، مولانا شاہ لطف رسول صاحب فتح پوری، مولانا حکیم محمد مصطفیٰ صاحب بجنوری، مولانا اسحاق علی صاحب کان پوری ، مولانامظہر الحق چاٹ گامی، مولانا سعید احمد اٹاوی ، حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی ، مولانا سعید صاحب، مولانا مظہر علی صاحب تھانوی وغیرہ رحمھم اللہ کے علاوہ پاک ہند کے بیشمار حضرات نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے فیض پایا ہے۔
حضرت حاجی صاحب سے بیعت اور خلافت و اجازت
1301 ھ میں حضرت حج کے لیے تشریف لیے گئے تو آپ کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، 1310 ھجری میں دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کی منشا اور ان کی خواہش کے مطابق وہاں چھ ماہ قیام فرمایا۔ حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ تمام علوم باطنی اور اسرار و رموز روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب پاک پر وارد و القا فرمائے تھے حضرت کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے ؛نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہات خاص سے حضرت کا سینہ مبارک معارف و حقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ اور محبت نبی الرحمہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوزو گداز رگ و پے میں سرایت کرگئے۔
بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہو کر حضرت حاجی صاحب نے خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی راہ نمائی کے لیے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا : ” میاں اشرف علی ! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ہی “ ،” ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء “․
تھانہ بھون میں مستقل قیام
1310 ھجری میں کان پور سے سبک دوشی اختیار کرکے اپنے وطن تھا نہ بھون تشریف لائے اور اپنے شیخ کو اطلاع دی ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا : ” بہتر ہوا آپ تھا نہ بھون تشریف لیے گئے ، امید ہے کہ آپ سے خلق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو ازسر نو آباد کریں گے، میں ہر وقت آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے “۔
چناں چہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمھم اللہ کی خانقاہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور خلق خدا کو مستفید فرمانے لگے۔
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے چند مشہور خلفاء
(1) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ (2) حضرت ڈاکٹر عبدالحئ صاحب عارفی رحمة اللہ علیہ (3) حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمة اللہ علیہ (4) حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ (5) مولانا ولی محمد صاحب بٹالوی رحمة اللہ علیہ (6) مولانا ابرارالحق صاحب حقی رحمة اللہ علیہ (7) حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمة اللہ علیہ (8) حضرت مولانا کفایت اللہ شاہ جہان پوری رحمة اللہ علیہ (9) حضرت مولاناشیر محمد صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ (10) حضرت مولانا شاہ وصی اللہ رحمة اللہ علیہ (11) حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ (12) حضرت مولانا علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ (13) حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوری رحمة اللہ علیہ (14) حضرت مولانا محمد انوار الحسن صاحب کا کو روی رحمة اللہ علیہ (15) حضرت مولانا محمد موسیٰ سرحدی رحمة اللہ علیہ (16) حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمة اللہ علیہ (17) حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب کیمبل پوری رحمة اللہ علیہ (18) حضرت مولانا عبدالرحمن کان پوری رحمة اللہ علیہ (19) حضرت مولانا عبدالکریم گھمتھلوی رحمة اللہ علیہ (20) حضرت مولانا عبدالباری ندوی رحمة اللہ علیہ (21 ) حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ۔
علوم دینیہ میں خدمات اور تصانیف
علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں، فقہ کی توجیہات میں، تصوف کی غایات میں ، جہاں عوام و خواص غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے تھے، وہاں اس مجدّد عصر کی نظر اصلاح کار فرما نظر آتی ہے اور ان علوم کے ہر باب میں مفصل تصانیف موجود ہیں۔
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار سے متجاوز ہے، حضرت رحمة اللہ علیہ کی تمام تصانیف و تالیفات ، تمام مواعظ و ملفوظات ، تحریری و تقریری کارناموں کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات نمایاں طور سے آشکار ا ہوتی ہے کہ دین مبین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو حکیم الامت ، مصلح شریعت و طریقت کی اصلاحی و تجدید ی جدوجہد کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔
وفات وتدفین
آخر عمر میں کئی ماہ علیل رہ کر 16 رجب المرجب 1362 بمطابق 20 جو لاائی 1943 ء کی شب آپ رحلت فرماگئے اور تھا نہ بھون میں آپ ہی کی وقف کردہ زمین ” قبرستان عشق بازاں “ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون !
سورة الانعام کا تعارف اس سورة مبارکہ کا نام آیت ١٣٦ سے لیا گیا ہے۔ الانعام کا لفظ پورے قرآن میں ٣٠ مرتبہ اور اس سورة میں ٦ مرتبہ آیا ہے۔ اس کی آیات ١٦٥ اور بیس ٢٠ رکوع ہیں۔ چند آیات کے سوا پوری کی پوری سورة مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس سورة مبارکہ کا مرکزی مضمون اللہ تعالیٰ کی توحید ہے مکہ اور اس ک... ے گرد ونواح کا وسیع ترین علاقہ بلکہ پورا حجاز شرک کی غلاظت میں کلی طور پر ملوث تھا جس بناء پر اس میں اللہ کی توحید کے ایسے دلائل دیے گئے ہیں جن کا انکار کرنا کسی عقلمند اور شریف آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ سورة کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش سے ہوتی ہے کیونکہ وہ ایسی ذات ہے جس نے زمین و آسمان، ظلمت اور روشنی پیدا فرمائی۔ وہی ذات ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر انسان کی زندگی کا تعین فرمایا وہ زمین و آسمان کی ہر چیز اور انسانوں کی جلوت و خلوت کی حرکات سے ہر لمحہ مکمل آگاہی رکھنے والا ہے۔ لیکن مشرکین اس عقیدہ کو تسلیم کرنے کی بجائے دعوت توحید دینے والی شخصیات کا ہمیشہ سے مذاق اڑاتے آرہے ہیں۔ اگر یہ لوگ دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ پر توجہ کریں تو انھیں معلوم ہوجائے گا کہ عقیدہ توحید کی مخالفت کرنے والوں کا دنیا میں کیا انجام ہوا۔ توجہ دلاتے ہوئے یہ بھی بتادیا گیا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے اب تک انھیں نہیں پکڑا تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس نے اپنی ذات پر لوگوں پر شفقت و مہربانی کرنا لازم قرار دے لیا ہے اس کے بعد درج ذیل توحید کے دلائل دیے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان پیدا کرنے والا اور لوگوں کو کھلانے، پلانے والا ہے جبکہ وہ خود کھانے پینے کا محتاج نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کو تکلیف پہنچانا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے بچا نہیں سکتی اگر وہ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما لے تو اس خیر کو کوئی روک نہیں سکتا۔ ٣۔ توحید کا اقرار سب سے بڑی گواہی اور شہادت ہے جس پر ایک داعی کو ہر حال میں قائم رہنا چاہیے۔ ٤۔ توحید کا منکر حقیقتاً آخرت کا انکاری ہوتا ہے۔ ٥۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کی بصیرت و بصارت اور سماعت کو کلیتاً ختم کر دے تو زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ان صلاحیتوں کو واپس لوٹا سکے۔ ( ٤٦) ٦۔ اللہ کے خزانوں اور زمین و آسمان کے غائب کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ( ٥٠) ٧۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اور وہ بحر و بر کی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ یہاں تک کہ دنیا میں بیک وقت کھربوں کی تعداد میں درختوں سے گرنے والے پتے بھی اس کے علم اور شمار میں ہوتے ہیں۔ ( ٦٠) ٨۔ وہ ہر اعتبار سے اپنے بندوں پر غالب ہے۔ (٦١) ٩۔ ان دلائل کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ مکالمہ ذکر کیا ہے جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے شمس و قمر اور ستاروں کے حوالے سے توحید کے وہ دلائل دیے کہ نمرود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے ششدر اور خاموش ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چیلنج کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے بےدھڑک ہو کر فرمایا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارے شریکوں سے ذرہ کے برابر بھی ڈرنے کے لیے تیار نہیں، اور یا درکھو حقیقی امن مواحد کو حاصل ہوتا ہے۔ اس گفتگو کی تائید میں اٹھارہ انبیاء کا نام لے کر ذکر کیا ہے کہ وہ سب کے سب اللہ کی توحید کے داعی اور شرک کے خلاف بر سر پیکار رہنے والے تھے وضاحت فرمائی کہ شرک اتنا سنگین جرم ہے کہ اگر یہ عظیم شخصیات شرک کا ارتکاب کرتی تو ان کے اعمال بھی ضائع کردیے جاتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نباتات، صبح وشام، رات دن، شمس وقمر اور کا ئنات کی بڑی بڑی چیزوں کو اپنی وحدت کی تائید میں دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں فرمایا ہے کہ اللہ کی ذات ہر اعتبار سے وحدہ لا شریک ہے وہ لوگوں کو براہ راست دیکھتا ہے لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اس کے بعد آیت ١٥٧ میں سرور دوعالم کو تسلی دی کہ آپ اپنا کام ایک مبلغ کی حیثیت سے کرتے جائیں اور یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منکرین پر چوکیدار بنا کر نہیں بھیجا۔ ان لوگوں کی حالت تو ہے کہ اگر ان پر فرشتے نازل کردیے جائیں اور ان کے مدفون آباو اجداد زندہ ہو کر انہیں سمجھائیں یہاں تک کہ ہر چیز ان کے سامنے اللہ کی توحید کی گواہی دے پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ یہ اپنی جہالت پر ڈٹ چکے ہیں۔ (١١١) توحید کے دلائل دینے کے بعد حلال و حرام کے مسائل کا ذکر کیا گیا ہے اور حلال و حرام کے سلسلے میں مشرکین کے خود ساختہ اصولوں کی حقیقت بیان کی کہ ان لوگوں نے اپنی طرف سے طے کرلیا کہ فلاں فلاں جانور کا کھانا ان کے مردوں کے لیے جائز مگر ان کی عورتوں کے لیے حرام ہے۔ پھر مشرکین سے ان کے حلال و حرام کے قواعد کے بارے میں سوالات کرتے ہوئے انہیں چیلنج دیا کہ اگر تمہارے پاس ان کے حق میں کوئی علمی دلائل ہیں تو پیش کرو۔ (١٤٨) اس کے بعد آیت ١٥١ تا ١٥٤ میں توحیدو شرک کا بیان، والدین سے حسن سلوک، اولاد کے حقوق، ہر قسم کی بےحیائی سے اجتناب، قتل و غارت سے روکتے ہوئے یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، لین دین اور ہر معاملے میں عدل و انصاف کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی صراط مستقیم ہے لوگوں کو اسی کی اتباع کرنا چاہیے۔ سورة کا اختتام ان مسائل پر فرمایا کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ یہ اعلان فرمائیں کہ اللہ کی توحید پر قائم رہنا، اس کی دعوت دینا، غیر اللہ کا انکار کرنا اور نماز، قربانی، موت وحیات کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے کا نام ہی دین اور صراط مستقیم ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ ہی تمہیں ایک دوسرے کا خلیفہ بناتا ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم اپنے اپنے مقام پر کس قسم کا کردار ادا کرتے ہو۔ اور یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد تمہارا حساب چکا دینے والا ہے اور حساب لیتے ہوئے ظلم کی بجائے وہ معافی اور شفقت کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ Show more
فہم القرآن
ہمارے سوفٹ وئیر میں ایک تفسیر " فہم القرآن " بھی شامل ہے جو ابوہریرہ اکیڈمی 37 ۔ کمرشل کریم بلاک اقبال ٹاؤن لاہور والوں کی شائع کردہ ہے اور اس کے مصنف میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم ہیں۔ تفسیر کا مختصر تعارف پیش ہے۔۔
مصنف تفسیر کے آغاز میں " فہم القران اور اعتراف حقیقت " کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں :
رسولِ محترم e کی بعثت کے مقاصد میں سے مرکزی مقصد یہ بھی تھا کہ آپ قرآن کے مطابق لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کریں اور اپنی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تشریح اور تفسیر فرمائیں۔ جس کو صحابہ کرام y نے آپ سے براہ راست سیکھا ‘ سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ جہاں تک تفسیر قرآن کا تعلق ہے آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس w کو قرآن فہمی کی دعا سے سرفراز فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس w اور صحابہ کرام y نے اپنی اولاد اور شاگردوں کو قرآن پڑھایا اور سمجھایا۔ اس طرح قرآن مجید کی تبلیغ تحریر ، تقریر اور تدریس کے ذریعے نسل در نسل جاری رہی تاآنکہ 270 ہجری میں جامع البیان کے نام پر علامہ ابو جعفر بن جریر طبری نے چالیس سال کی جدوجہد سے کتبات ‘ مسوّدات اور مختلف اہل علم سے استفادہ فرما کر تیس جلدوں پر محیط تفسیر جامع البیان لکھی جو تفسیر ابن جریر کے نام سے معروف ہے۔ ان کے بعد حافظ عماد الدین ابو الفداء اسمعیل بن کثیر المعروف امام ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر رقم فرمائی جو تمام مسالک کے نزدیک ممتاز اور منفرد تفسیر سمجھی جاتی ہے۔ بعد ازاں ہر دور اور ہر زبان میں قرآن مجید کی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ برصغیر میں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں تراجم اور تفاسیر کا بیشمار ذخیرہ اردو زبان میں پیش کیا گیا جو علمی اور اسنادی اعتبار سے عربی کے سوا تمام زبانوں میں لکھی جانے والی تفاسیر پر حاوی ہے۔ ماضی قریب میں تفہیم القرآن ‘ تدبر قرآن ‘ معارف القرآن ‘ تفسیر ثنائی ‘ تیسیرالقرآن ‘ ضیاء القرآن کے مؤلفین نے اپنے اپنے انداز اور نقطۂ نگاہ سے فرقانِ حمید کی تفسیریں لکھیں جو اردو زبان میں ممتاز تفاسیر شمار ہوتی ہیں۔
فہم القرآن اور اعترافِ حقیقت
تفسیر کا نام سورة الانبیاء کی آیت 79{ فَفَھَّمْنٰـھَا سُلَیْمٰنَ } سے لیا گیا ہے ۔ میں اس سچائی کا محض روایتی اور عاجزانہ نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ اعتراف کرتا ہوں کہ خدمت قرآن کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مجھ سے کم علم آدمی کوئی نہیں گزرا ہوگا کہ جس نے قرآن مجدی کے کسی پہلو پر قلم اٹھایا ہو۔ میں نے بزرگوں کی خوشہ چینی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ میرے کام میں حسن و خوبی کا کوئی پہلو دکھائی دے تو وہ اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ اور متقدمین کی پر خلوص کوششوں کا ثمرہ ہے۔ کوتاہی اور کمزوری کو میری کم علمی اور کوتاہ فہمی تصور کرتے ہوئے آگاہ کیا جائے تاکہ اس کی تصحیح کی جائے ۔ اپنے مختصر تدریسی تجربہ اور تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے چند باتوں کی ضرورت محسوس کی جس بنا پر ضروری سمجھا کہ اگر درج ذیل باتیں تفسیر میں جمع کردی جائیں تو عوام الناس ‘ طلبہ اور مبتدی خطباء کے لیے نہایت مفید اور بہتر ہوگا۔
(١) ۔ لفظی اور بامحاورہ ترجمہ (٢) ربطِ کلام (٣) ۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کا بیان
(٤) ۔ تفسیر بالقرآن کے حوالے سے ہر آیت کے مرکزی مضمون سے متعلقہ چند آیات جمع کرنا۔
اللہ تعالیٰ اسے قبولیت کے شرف سے نوازے اور تعاون کرنے والوں کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
نوٹ : (قاری حضرات سے گزارش ہے کہ وہ لفظی ترجمہ کی بجائے رواں ترجمہ سے استفادہ کریں کیونکہ لفظی ترجمہ میں باہم ربط نہ ہونے کی وجہ سے الجھن پیش آسکتی ہے ۔ لفظی ترجمہ تعلیم و تعلم کے لیے زیادہ مفید ہوتا ہے ۔ )
مفسّر کا تعارف
میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم گوہڑ چک 8 پتو کی (قصور) اپریل 1947 ء آرائیں فیملی میں پیدا ہوئے۔ حفظِ قرآن اور سکول کی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی۔ تجویدِ قرآن جامعہ محمدیہ اور درس نظامی کی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے پائی بعد ازاں وفاق المدارس کیا اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایم۔ اے اسلامیات اور فاضل اردو کی ڈگریاں حاصل کیں۔ فراغت ِ تعلیم کے بعد لاہور میں کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ جون 1986 ء میں جامع مسجد ابوہریرہ (رض) کی بنیاد کریم بلاک اقبال ٹائون میں رکھی اور اعزازی خطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1997 ء میں ابوہریرہ (رض) شریعہ کالج کا آغاز کیا جو اب تک ملک میں واحد ادارہ ہے جس میں طلبہ کو چار سال میں درس نظامی اور بی ۔ اے (Compulsoy) کروایا جاتا ہے۔ 1987 ء میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات اور 1996 ء سے لے کر 2002 تک مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل رہے۔ سیکرٹری شپ کا دوسرا ٹینور پورا ہونے پر آئندہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کی اور اپنے آپ کو تعلیم و تصنیف کے لیے وقف کیا۔ دیگر کتب تحریک کے بارے میں تالیف کرنے کے بعد 2005 ء میں تفسیر فہم القرآن لکھنے کا آغاز کیا۔ ہر سال پانچ پاروں پر مشتمل منظر عام پر منظر عام پر آتی رہی اور الحمدللہ 6 سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی اور زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ۔ اس تفسیر کی اہم خصوصیات یہ ہیں۔
١۔ تفسیر رازی، ابن کثیر ، تفہیم القرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اس کے علاوہ دیگر عربی تفاسیر کے اہم نکات پر مشتمل ہے۔
٢۔ لفظی ترجمہ کے ساتھ ساتھ سلیس بامحاورہ ترجمہ جو دل میں اتر جائے۔
٣۔ علم وادب کا مرقع اور ہر آیت کی تفسیر حدیث رسول e کے ساتھ ہے۔
٤۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کی نشاندہی جو ذہن پر منقش ہوجائیں۔
٥۔ آیت کے مرکزی مضمون کی تفسیر دیگر آیات کے ساتھ ایک مکمل تقریر جو علماء اور لیکچرار حضرات کے لیے عظیم تحفہ ہے۔
سورة انعام ایک نظر میں : یہ سورة مکی سورتوں میں سے ہے اور یہ قرآن کا وہ حصہ ہے جو مکہ میں نازل ہوا ۔ قرآن کا وہ حصہ ہے جو مکہ میں نازل ہوا ۔ قرآن مجید کا جو حصہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوا ۔ اس کا زمانہ نزول تیرہ سال ہے ۔ اس پورے عرصے میں وحی کا محور اور مرکزی مضمون ایک ہی رہا اور کسی وقت اس میں تبدیل... ی نہ ہوئی ‘ البتہ بیان میں تبدیلی برابر ہوتی رہی ۔ مضامین کو بار بار دہرایا گیا لیکن ہر مرتبہ نئے نئے اسلوب سے بات کی گئی اور سامعین کو یوں محسوس ہوا کہ گویا یہ بات آج ہی پہلی مرتبہ بیان ہو رہی ہے ۔ یہ وہ دور تھا جب قرآن کریم ایک نہایت ہی اہم اور اساسی مسئلے کو حل کر رہا تھا ۔ اس مسئلے پر اس نئے دین کی نیو اٹھنے والی تھی اور اس کا اظہار اس کے اساسی نظریات میں ہونے والا تھا ۔ یعنی ” حقیقت الوہیت ‘ حقیقت عبودیت اور ان کا باہمی تعلق “۔ اس قضیہ کا حل بھی خالص انسانی نقطہ نظر سے مطلوب تھا ۔ یہ کوئی وقتی حل نہ تھا بلکہ اس وقت کے عرب اور آج کے عرب یا اس وقت کے انسان اور آج کے انسان سب کے سب ‘ اس کی رو سے ایک ہی حقیقت اور حیثیت کے حامل ہیں ۔ چونکہ اس بحث کا محور اساسی سوالات یہ تھے کہ اس کائنات میں وجود انسانی کی کیا حقیقت ہے ۔ اس کائنات کی کیا اصلیت ہے اور انسان اور کائنات اور انسان اور موجودات کے درمیان روابط کی کیا نوعیت ہے ؟ اور پھر ان دونوں یعنی انسان اور موجودات اور ان کے خالق کے درمیان کیا تعلق ہے ؟ اس لئے نہ تو یہ مسائل وقتی نوعیت کے حامل تھے اور نہ ہی ان کا یہ حل وقتی نوعیت کا حامل ہو سکتا تھا بلکہ یہ خالص انسانی مسائل تھے اور یہ ان کا دائمی حل تھا ۔ نزول قرآن کے مکی دور میں ‘ جن سوالات کو چھیڑا گیا ان کا تعلق انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی پوری کائنات سے تھا ۔ یہ تفصیلات کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ آخر کار اسے کہاں جانا ہے ؟ کون ہے جو اسے ایک نام معلوم عدم سے لایا ؟ کون ہے جو اسے یہاں سے لے چلے گا ؟ پھر اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اس دور میں قرآن نے انسان کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ اس کائنات کی حقیقت پر غور کرے جسے وہ دیکھ رہا ہے وہ محسوس کر رہا ہے ۔ اس کے سامنے ایک مستور غیب ہے ۔ وہ کائنات کو دیکھ بھی رہا ہے لیکن وہ اس کی کوئی معقول تعبیر نہیں کرسکتا کہ اس پر اسرار رکائنات کا خالق کون ہے ؟ کون اس حیرت انگیز نظم کو چلا رہا ہے ؟ اس کا مدبر کون ہے ؟ اور اس میں جو تغیرات رونما ہوتے رہتے ہیں ان کے پیچھے کس طاقت کا ہاتھ کام کر رہا ہے ؟ مکہ مکرمہ میں قرآنی تعلیمات نے انسان کو بالتفصیل بتایا کہ اس کا تعلق اپنے رب سے کیا ہے ؟ اس کا تعلق اس مخلوقات سے کیا ہے ؟ اور یہ کہ انسانوں کے باہمی تعلقات کا مدار کس پر رکھنا ہے ؟ یہ مسئلہ چونکہ نہایت اہم ‘ اساسی اور انسان کی پوری تاریخ اور حیات سے لے کر موت تک کی پوری زندگی سے تعلق رکھتا تھا ‘ اس لئے اس کی وضاحت اور بیان وتشریح میں قرآن کریم نے پورے تیرہ سال صرف کئے ‘ کیونکہ یہ ایک ایسا اہم قضیہ تھا جس کے حال ہونے کے بعد انسانی زندگی میں کوئی ایسا مسئلہ ہی نہیں رہتا جو حل طلب ہو ۔ اس تیرہ سالہ دور میں قرآن نے کبھی بھی ان بنیادی مسائل کو چھوڑ کر اسلامی نظام حیات کی تفصیلات بیان نہیں کیں ۔ جب یہ بالکل واضح ہوگیا تو کہ تحریک اسلامی کے کارکنوں کے دل و دماغ میں اسلامی نظام کے اساسی تصورات اچھی طرح جاگزیں ہوگئے ہیں ‘ تو اس کے بعد تفصیلی تعلیمات شروع ہوئیں اور اس سے قبل ‘ اس پورے عرصے میں صرف اس ممتاز گروہ یعنی صحابہ کرام کی تربیت ہوتی رہی جس نے آگے جا کر اقامت دین کا کام سنبھالنا تھا۔ اقامت دین کا طریق کار : ہماردور میں جو لوگ اسلامی نظام حیات کے قیام اور احیاء کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ‘ میں ان کی توجہ قرآن کریم کے اس خاص اسلوب کی طرف مبذول کراؤں گا۔ انہیں غور کرنا چاہئے کہ قرآن کریم نے پورے تیرہ سال تک کیوں صرف عقائد ونظریات اور دین کے صرف اساسی مسائل سے بحث کی اور اس پورے عرصے میں کبھی بھی اسلامی نظام حیات کی تفصیلات کو نہ چھیڑا گیا ‘ نہ ہی وہ احکام اور قوانین بیان کئے گئے جنہیں آگے جا کر اسلامی معاشرے میں نافذ ہونا تھا ۔ اس طریق کار کی تہ میں یہ حکمت کار فرما تھی کہ اللہ تعالیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے مخالفین کے درمیان سب سے پہلے نظریاتی جنگ کا فیصلہ کرانا چاہتے تھے ۔ چناچہ آپ نے اپنی دعوت کا آغاز (لا الہ الا اللہ) سے کیا جس کے مفہوم کو عرب اچھی طرح جانتے تھے ۔ اس کا اعلان ہوتے ہیں ایک نظریاتی جنگ چھڑگئی اور حضور نے لوگوں کے سامنے یہ دعوت پیش کرنا شروع کردی کہ وہ تمام الہوں ‘ ارباب اور دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رب کی عبادت کریں۔ عرب اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی زبان میں (الہ) کے کیا معنی ہیں ؟ اور (لا الہ الا اللہ) کے کیا معنی ہوتے ہیں ۔ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ الہ تو وہ ہوتا ہے جو انسان کی تکوینی زندگی پر بھی حاکم ہو اور تشریعی زندگی بھی اسی کے زیر نگیں ہو ۔ اگر ہم اس کا اقرار کرلیتے ہیں تو اس کا اولین اثر یہ ہوگا کہ ہمارے ہاتھ سے امارتیں اور سیادتیں سب چلی جائیں گی اور اس کے بعد قلب وضمیر ‘ دل و دماغ ‘ احساس و شعور ‘ عدالت وامارت ‘ تجارت ومعیشت غرض روح وبدن سب پر صرف ایک خدا اور حاکم مطلق کی فرمان روائی ہوگی ۔ چناچہ کلمہ طیبہ کو سنتے ہی وہ تاڑ گئے کہ یہ کلمہ نہ صرف یہ کہ ان کے اختیارات حاکمیت کے خلاف اعلان جنگ ہے بلکہ وہ مستقبل قریب میں ان کی عادات اطوار اور رسم و رواج کو بھی یکسر بدل کر رکھ دے گا ۔ بہرحال وہ عرب تھے اور اہل لسان ہونے کی حیثیت سے یہ اچھی طرح محسوس کر رہے تھے کہ (لا الہ الا اللہ) ان کے لئے کیا کیا مشکلات پیدا کرنے والا ہے ۔ انہوں نے اس کلمہ کو سنتے ہی اس کا سخت ترین نوٹس لیا جس سے تاریخ کا ہر طالب علم خوف واقف ہے ۔ یہاں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ کفر واسلام کی اس جنگ کا آغاز اس قدر پیچیدہ نظریاتی جنگ سے کیوں کیا گیا جب کہ بظاہر یہ بات ذہن میں نہیں آتی تھی کہ یہ نظریات عربوں کو اپیل کریں گے ۔ قومی تحریک کا راستہ : یہ سوال اور بھی قابل توجہ ہوجاتا ہے ‘ جب ہم غور کریں کہ دعوت اسلامی کے آغاز کے وقت جریرہ عرب کے مخصوص سیاسی حالات کیا تھے ؟ جس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت اسلامی کا آغاز کیا تو سرزمین عرب کے سب سے آباد اور شاداب علاقے ‘ عربوں کے بجائے دوسری اقوام کے قبضے میں تھے ۔ شمال میں شام سے متصل علاقوں پر رومیوں کا قبضہ تھا اور ان کی جانب سے ان پر عرب حکمران حکومت کر رہے تھے جنوب میں یمن پر ایرانیوں کی حکومت تھی اور عربوں کے اس صرف حجاز تہامہ اور نجد کے علاقے تھے ۔ ان کے علاوہ ان کے پاس فقط صحرائے عرب کی چند متفرق سرسبز پٹیاں تھیں ۔ ان حالات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے مقبول اور قابل اعتماد شخص کے لئے مناسب یہ تھا کہ وہ ان حالات میں عربی قومیت کا نعرہ بلند کرتے ‘ عرب کے منتشر قبائل کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے ‘ ان کی خانہ جنگیاں ختم کرتے ‘ جنہوں نے انہوں ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا تھا ۔ اس طرح آپ کے لئے بسہولت یہ ممکن تھا کہ آپ شمال کی جانب رومی اور جنوب کی طرف سے ایرانی استعمار کے خلاف صف آراء ہوجاتے عرب کے خونی رشتوں سے اپیل کرتے اور پورے جزیرۃ العرب کو ایک قومی وحدت میں جمع کردیتے ۔ یہ کام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس وجہ سے بھی آسان تھا کہ آپ قریش جیسے معزز قبیلے کے چشم وچراغ تھا ۔ آپ کے پورے قبیلے نے حجر اسود کے جھگڑے میں آپ کو فیصل بھی مقرر کردیا تھا اور پندرہ سال تک آپ کو ثالث بھی مان چکے تھے ۔ اگر آپ اپنی تحریک کا آغاز اس طرح کرتے تو تمام عرب فی الفور آپ کی دعوت پر لبیک کہہ دیتے ‘ اور اس طرح آپ کو پورے تیرہ سال تک خود غرض حکمرانوں اور شیوخ وامراء کا جانکا مقابلہ نہ کرنا پڑتا اور جس وقت پورا جزیرۃ العرب آپ کے زیرنگیں ہوجاتا اور اقتدار اعلی آپ کے ہاتھوں میں آجاتا تو آپ اپنی پوری طاقت سے لوگوں کو وہ تعلیم دینا شروع کردیتے ‘ جس کے ساتھ باری تعالیٰ نے آپ کو ہدایت بشریت کے لئے بھیجا تھا ‘ اور آپ بسہولت لوگوں کو بتا سکتے کہ لوگو ! انسانوں کی اطاعت اور بندگی کے بجائے صرف اللہ کی بندگی کرو اور شرک سے باز آجاؤ۔ لیکن اللہ تعالیٰ علیم وخبیر تھا ‘ اس کا منصوبہ کچھ اور ہی تھا ‘ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ (لا الہ الا اللہ) کا اعلان کر دین ‘ اسلامی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں نے کس طرح باطل کے خلاف واضح نظریاتی جنگ کا اعلان کیا اور اس کے نتیجے میں ‘ بےحد و حساب مصائب برداشت کئے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب نہ تھا کہ خواہ مخواہ ‘ حضور اور آپ کے مٹھی بھر ساتھیوں کو مصیبت میں مبتلا کریں بلکہ یہی ایک صحیح مستقیم اور متین طریق کار تھا جسے اپنانا ضروری تھا ۔ نیز اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب نہ تھا کہ انسانیت کو رومی طاغوت یا فارسی طاغوت کے چنگل سے چھڑا کر عربی طاغوت کے زیرنگیں کردیا جائے ۔ طاغوت خواہ جس قوم ونسل سے بھی تعلق رکھتا ہو وہ بہرحال طاغوت ہے ۔ مقصود یہ سمجھانا تھا کہ کائنات کا مالک صرف اللہ ہے اور اس پر اسی کی حکمرانی ہونا چاہئے ۔ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہونا چاہئے اور یہ کام صرف اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب اس سرزمین پر صرف (لا الہ الا اللہ) کا علم بلند کیا جائے ۔ اور خداوند کریم کی بادشاہت کے مقابلے میں قائم ہونے والی تمام ایرانی ‘ رومی اور عربی بادشاہتوں کو ختم کردیا جائے ۔ اس کلمے کی بنیاد پر جو اجتماعیت اور جو قومیت وجود میں آتی ہے وہ ایک نظریاتی قومیت ہوتی ہے اور اسے عربی ‘ رومی اور ایرانی قومیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ یہ تھا وہ راز جس کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی قومیت کا نعرہ بلند کرنے کے بجائے نظریاتی کشمکش کے طریق کار کو اختیار کرنے کا حکم ہوا یاد رکھئے آج بھی ہمارے لئے بہترین طریق کار یہی ہے ۔ معاشی مساوات کا راستہ : جس دور میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اس وقت معاشی لحاظ سے دنیا کی حالت ناگفتہ بہ تھی ۔ دولت کی مساوی تقسیم اور عدل و انصاف کا نام ونشان تک نہ تھا ۔ دولت اور تجارت پر ایک چھوٹی سی اقلیت نے قبضہ کر رکھا تھا اور یہ اقلیت اپنا پورا کاروبار سودی نظام کے مطابق چلا رہی تھی ‘ اس لئے اس کی دولت میں بڑی تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا تھا۔ اس کے برعکس ایک عظیم اکثریت تھی جو فقر وفاقہ اور غربت و افلاس کا شکار تھی ۔ جو لوگ دولت و ثروت پر قبضہ جمائے ہوئے تھے ‘ وہی سوسائٹی میں اونچے مناصب پر بھی براجمان تھے اور عام لوگوں کی حالت یہ تھی کہ نہ مایہ اور نہ سرمایہ ۔ ان حالات کے پیش نظریہ ممکن تھا کہ حضور معاشی مساوات کا نعرہ بلند فرماتے ۔ مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان طبقاتی کشمکش قائم ہوجاتی اور ایک عوامی تحریک برپا ہوجاتی ۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف اعلان جنگ کردیا جاتا اور لوگ موجودہ معاشی ناہمواریوں کو حل کرنے کے لئے ‘ آپ کے ساتھ ہوجاتے تاکہ امراء کی دولت فقراء میں بانٹ دی جائے ۔ یہ راستہ دوسرے راستوں سے نسبتا سہل بھی ہوتا کیونکہ اس نعرے سے پورا معاشرہ فی الفور دو گروہوں میں بٹ جاتا ۔ ایک طرف دولت ‘ شرف اور اقتدار کی دست درازیوں سے نالاں ایک عظیم اکثریت ہوتی اور دوسری جانب ان برائیوں کی حامل ایک حقیر سی اقلیت ۔ پھر وہ صورت حال پیش نہ آتی جو نظریاتی اعلان جنگ کی صورت میں پیش آئی کہ (لا الہ الا اللہ) کا اقرار کرنے والی ایک کمتر سی اقلیت کے مقابلے میں پورا معاشرہ صف آرا ہوگیا ۔ نیز یہ معاشی انقلاب برپا کرنے کے بعد جب اقتداراعلی آپ کے ہاتھ میں آجاتا اور آپ اکثریت کے بل بوتے پر حکمران ہوجاتے تو آپ اقتدار اور اکثریت کے زور سے پوری آبادی سے اپنے وہ عقائد منوا لیتے ‘ جو بحیثیت رسول خدا آپ لے کر آئے تھے اور اس طرح لوگ انسانوں کی غلامی سے نکل کر ایک خدا کی بندگی میں داخل ہوجاتے ۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انقلاب کے لئے یہ راہ اختیار کرنے کی ہدایت نہیں کی ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تحریک اسلامی کے انقلابی کام کا طریق کار یہ نہ تھا اور اللہ تعالیٰ کو اس بات کا خوب علم تھا کہ صحیح معاشی نظام وہی ہوتا ہے جس کی کونپلیں صحیح نظریات سے پھوٹتی ہیں ۔ صحیح نظریہ حیات صرف یہی ہے کہ ہر قسم کی حاکمیت کو صرف اللہ کے لئے مخصوص کردیا جائے ۔ اس نظریہ کے مطابق ایک معاشرہ وجود میں آئے اور اس کا ہر رکن رضا کارانہ اور اطاعت گذارانہ طور پر اللہ جل شانہ کے ان احکام کیپابندی کرے تو اس نے اجتماعی انصاف ‘ معاشی کفالت اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے بارے میں دیئے ہیں اور اس معاشرے میں کاروبار کرنے والے دونوں فریق یہ خیال کرتے ہوں کہ اس لین دین میں وہ اللہ کے احکامات نافذ کر رہے ہیں اور پھر یہ کہ ان احکامات کی اطاعت کر کے وہ دنیا وآخرت کی سرخروئی حاصل کر رہے ہیں ۔ یہی ایک ایسی صورت ہے جس میں سے کوئی بھی حرص وآزارکا شکار نہ ہوگا ‘ نہ کسی کے دل میں کسی کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوں گے ۔ ایسے معاشرے میں ہر کام کے لئے قوت اور طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہ ہوگی اور لوگ اس معاشرے میں وہ گھٹن محسوس نہ کریں گے جو ہر اس معاشرے میں پائی جاتی ہے جس کی اساس (لا الہ الا اللہ) پر نہ رکھی گئی ہو ۔ اخلاقی اصلاح کا راستہ : جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ‘ تو عرب سوسائٹی ‘ اخلاقی لحاظ سے قعرمذلت میں گری ہوئی تھی ۔ چند بدویانہ فضائل اخلاق کو چھوڑ کر وہ کسی ضابطے کے پابند نہ تھے ۔ زہیر بن ابی سلمی اخلاقی صورت حال کی عکاسی یوں کرتے ہیں۔ ومن لم یذوعن حوضہ بسلاحہ یھدم ومن لا یظلم الناس یظلم : (اور جو اپنے حوض کی حفاظت ‘ اپنے اسلحہ کی ذریعے نہیں کریں گے ‘ ان کے حوض کو منہدم کردیا جائے گا اور جو لوگوں پر ظلم نہیں کرے گا ‘ مظلوم بنے گا) ” جاہلیت کا یہ متعارف قول تھا کہ ” اپنے بھائی کی مدد کرو ‘ خواہ ظالم ہو یا مظلوم ہو ۔ “ (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عربوں کی زندگی میں جو انقلاب برپا کیا ‘ وہ اخلاق و عادات اور قواعد وقوانین تک ہی محدود نہ تھا بلکہ آپ نے عربوں کے ادب کی اصلاح بھی فرمائی ۔ اس جملے کا مفہوم آپ نے یوں بدل دیا کہ مظلوم کی حمایت کرنا تو واضح ہے ‘ لیکن ظالم بھائی کی مددیوں ہو سکتی کہ اسے ظلم سے باز رکھا جائے ۔ چناچہ اس قول کو اس معنوی ترمیم کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ادا فرمایا اور دور جاہلیت کا یہ قول ذخیرہ احادیث کا جزوبن گیا) یہ شعر اس معاشرے کی اخلاقی صورت حال کی صحیح تعبیر تھا ۔ شراب نوشی اور قمار بازی دونوں ان کی زندگی کا لازمہ تھیں اور یہ لوگ ان پر فخر کیا کرتے تھے ۔ جاہلیت کی پوری شاعری عربوں کے ان اخلاق کی عکاسی کرتی ہے ۔ بطور مثال طرفہ بن العبد کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ فلولا ثلاث ھن من عیشہ الفتی ، وجدک لم احفل متی قام عودی : (اگر تین چیزیں نہ ہوتیں جو ایک نوجوان کے لئے سامان عیش ہیں تو تیرے سر کی قسم میں اپنی پوری زندگی میں کسی محفل میں شریک نہ ہوتا) فمنھن سبقی العاذلات بشربہ کمیت متی ماتعل بالماء تزبد : (ان میں سے ایک یہ ہے کہ شرمسار کنندہ عورتوں سے بھی آگے بڑھ کر کلیجی رنگ کی شراب کا جام اٹھا لیتا ہوں جس میں اگر پانی ڈالا جائے تو کف آجائے ۔ فمالذال تشرابی الحمور ولذتی وبذلی وانفاقی طریفی وتالدی : (میں ہمیشہ شراب نوشی اور لذت کوشی کا عادی ہوں اور مسلسل اپنی جدی دولت اور تازہ جمع کردہ دولت کو خرچ کرتا رہتا ہوں ۔ الا ان تحامتنی العشیرۃ کلھا وافودت افراد البعید المنعبد : (یہاں تک کہ میرا قبیلہ میری دشمنی پر اتر آیا اور میں اس طرح اکیلا ہوگیا کہ جس خارش زدہ اونٹ علیحدہ کردیا جاتا ہے۔ فسق وفجور اپنی مختلف شکلوں کے ساتھ اس معاشرے میں وبا کی طرح پھیلا ہوا تھا ۔ عرب کیا بلکہ ہر قدیم وجدید جاہلی معاشرے کی یہ امتیازی خصوصیت رہی ہے کہ اخلاقی لحاظ سے وہ ایک فاجر اور فاسد معاشرہ ہوتا ہے ۔ اس کا اندازہ حضرت عائشہ (رض) کی اس حدیث سے اچھی طرح ہوتا ہے جس میں آپ جاہلیت کی عائلی زندگی کی تفصیلات بتاتی ہیں : جاہلیت میں نکاح چار قسم کا ہوا کرتا تھا ۔ (١) ایک تو وہ نکاح جو آج ہمارے اندر رائج ہے ۔ ایک آدمی کسی کی بیٹی زیر دست کو پیغام دیتا تھا ‘ اس کو مہر ادا کرتا اور وہ اس سے نکاح کرلیتا ۔ (٢) دوسرا مرد اپنی بیوی سے کہتا جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجاتی کہ تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے ہم بستری کر۔ مرد عورت سے علیحدہ رہتا ‘ اور اسے چھوتا بھی نہ ‘ یہاں تک کہ اس کا حمل اس شخص سے ٹھہر جاتا تو پھر یہ اس کے پاس جاتا جب چاہتا ۔ یہ حرکت اس لئے کی جاتی تھی کہ نجیب النسب اولاد حاصل کی جائے ۔ اس نکاح کو ” نکاح استبضاع “ کہتے تھے ۔ (٣) اس کے علاوہ ایک تیسرا نکاح بھی ہوتا تھا ۔ دس سے کم افراد جمع ہوتے ‘ اور سب ایک عورت کے ہاں آتے جاتے ‘ اور سب کے سب جماع کرتے جب اس کا حمل ٹھہرتا اور وہ بچہ جن دیتی تو چند دن گزرنے کے بعد وہ سب کو بلا لیتی ۔ قانون کے مطابق ہر ایک کو حاضر ہونا پڑتا ۔ جب سب آجاتے تو وہ انہیں کہتی ” تم جانتے ہی ہو میرے ساتھ جو تمہارا معاملہ تھا ۔ اب چونکہ میں نے بچہ جن دیا ہے تو اے فلاں ! یہ تیرا بیٹا ہے ۔ “ تو یہ جسے چاہتی اس کا نام لے لیتی اور بچہ اس کی نسل سے ملحق ہوجاتا ۔ کسی شخص کو اختیار نہ ہوتا تھا کہ وہ انکار کرسکے ۔ (٤) چوتھا نکاح اس طرح ہوتا کہ بیشمار لوگ جمع ہوجاتے وہ سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے یہ فاحشہ عورتیں ہوا کرتی تھیں اور کسی کو ہم بستری سے نہ روکتی تھیں ۔ اپنے دروازوں پر خاص قسم کے جھنڈے نصب کردیتی تھیں جو ان کی خاص علامت ہوتے تھے ۔ جو چاہتا وہاں جاتا ۔ جب ان میں سے کوئی حاملہ ہوجاتی تو سب لوگ وہاں جمع ہوتے اور قیافہ دان کو بلایا جاتا ۔ قیافہ دان بچے کو جس سے ملادیتے وہ اسے اٹھا لیتا اور اسے اپنا بیٹا پکارتا ۔ ١۔ بخاری کتاب النکاح : عربوں کی اس اخلاقی صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر اپنی دعوت کا آغاز اصلاح معاشرہ اور تزکیہ نفس کے پروگرام سے کرتے تو زیادہ مناسب تھا ۔ اس صورت میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بسہولت آپ کی تحریک میں شامل ہوجاتی ۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جو اپنے اردگرد پھیلی ہوئی برائیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور جو بھی ان کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے اپنی تائید میں ایسے لوگوں کی ایک کثیر تعداد مل جاتی ہے ۔ اس طریق کار کا اثر یہ ہوتا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد حضور کے ساتھ ہوجاتی ‘ ان کے اخلاق درست ہوجاتے ‘ ان کی روحیں پاکیزہ ہوجاتیں اور وہ اس قابل ہوجاتے کہ بسہولت صحیح عقیدہ اپنا لیں اور یہ صورت حال پیش نہ آتی جو ابتداء ہی سے (لاالہ الا اللہ) کی نظریاتی جنگ چھیڑ دینے کی صورت میں پیش آئی کہ تمام عالم عرب کلمہ حق کے سامنے سینہ سپر ہوگیا ۔ لیکن میں یہی کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جاننے والا تھا کہ انقلابی عمل کا صحیح راستہ کون سا ہے ۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ صحیح اخلاق اور ٹھوس کردار کی تعمیر صرف عقیدہ اور نظریے ہی کی اساس پر ہو سکتی ہے ۔ یہ نظریہ ہی ہوتا ہے جو انسانوں کے لئے اخلاقی پیمانے وضع کرتا ہے ۔ عقیدہ ہی انسان کو اس ذات سے متعارف کراتا ہے جو اخلاقی قدروں اور اخلاقی اصول کا ماخذ ومصدر ہوتی ہے اور اس کی طرف سے جزاوسزا کا تعین بھی ہوتا ہے جو ان اصولوں کی نافرمانی کی صورت میں دی جائے گی اگر اس عقیدے کا تعین نہ ہو اور نظریات واضح نہ ہوں تو اس صورت میں جو اصلاحی کام بھی ہوگا ‘ جو اخلاقی بھی تعمیر ہوں گے وہ خام ہوں گے ۔ ان کا کوئی ضابطہ نہ ہوگا ‘ کوئی قوت نافذہ نہ ہوگی اور نہ ہی خلاف ورزی کی صورت میں جزاوسزا کا کوئی معقول انتظام ہوگا ۔ اس کے برعکس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو طریق کار اختیار کیا وہ کس قدر کامیاب ثابت ہوا ؟ اس کا اندازہ تحریک اسلامی کی تاریخ سے بخوبی ہوسکتا ہے ۔ آپ نے نظریات کا اعلان فرمایا ان کے لئے ان تھک جدوجہد کی ‘ لوگوں کے دل و دماغ میں اسلامی نظریات بیٹھ گئے ۔ ان نظریات کے خطوط پر ایک ریاست تشکیل پا گئی اور اس کا اقتدار مضبوط ہوگیا ۔ لوگوں نے اپنے رب کو پہچان لیا اور صرف اسی کی بندگی کرنے لگے ۔ انسان انسان کی بندگی سے آزاد ہوگیا اور ہر طرف (لاالہ الا اللہ) کی حکمرانی شروع ہوگئی ۔ اس نظریہ کے قائلین کی وہ پوری تربیت ہوگئی جو اللہ کو مطلوب تھی تو اس طریق کار کے عظیم الشان نتائج سامنے آگئے ۔ اس زمین کو رومیوں اور فارسیوں کے ناپاک نظاموں سے پاک کردیا گیا اور یہ کام اس لئے نہ کیا گیا تھا کہ وہاں رومیوں اور فارسیوں کی جگہ عربوں کی سلطنت قائم ہوجائے بلکہ صرف اس لئے کہ پورے کرہ ارض پر صرف اللہ تعالیٰ کی حکمرانی ہو اور اسے ان تمام طاقتوں سے ‘ علی السواء پاک کردیا جائے خواہ یہ رومی ہوں ‘ فارسی ہوں یا عربی ہوں۔ اس طریق کار کے مطابق جو انقلاب رونما ہوا اس کے اثرات یہ ہوئے کہ معاشرے کو ہر قسم کے ظلم وستم سے پاک کردیا گیا ۔ ایک خالص اسلامی نظام زندگی قائم ہوا جس کی اساس عدل و انصاف اور کلی مساوات پر تھی ۔ اس میں تمام انسانوں کے ساتھ یکساں سلوک ہونے لگا ۔ اجتماعی انصاف کا جھنڈا صرف خدائے واحد و برتر کے نام کا بلند ہوا اور اس میں اس کے ساتھ کوئی دوسرا نعرہ شریک نہ تھا ۔ اسلامی نظام کے علم پر صرف (لاالہ الا اللہ) لکھا ہوا تھا ۔ لوگوں کے اخلاق درست ہوگئے نفوس پاک ہوگئے ان کے دل اور روح آئینہ بن گئے ۔ وہ یوں پاک ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود وتعزیرات کے نفاذ کی ضرورت ہی پیش نہ آئی کیونکہ خود ہر فرد کے دل و دماغ میں کچھ چوکیدار بیٹھ گئے تھے ۔ یعنی اللہ کی رحمت کی امیدواری ‘ اس کی رضا جوئی اور عذاب آخرت کا ڈر ۔ یہ تھے وہ محافظ جو ہر وقت اس گروہ کے ہر فرد کے ساتھ لگے رہتے تھے ۔ اسلامی نظام کا اثر صرف عرب اور مسلم معاشرے تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس سے پوری انسانیت کو فائدہ پہنچا ۔ اس کی تنظیم اور اس کے اجتماعی نظم ونسق کو ترقی نصیب ہوئی اور اس نے وہ کمال حاصل کیا جو اس سے پہلے کبھی حاصل نہ کیا تھا ۔ یہ انقلاب اس خوش اسلوبی سے محض اس لئے وقوع پذیر ہوا کہ جن لوگوں نے اسلامی نظام حیات کو ایک ریاست ایک نظام ایک قانون اور ایک حکومت کی شکل میں قائم کرنے سے قبل اسے خود اپنی زندگیوں میں نافذ کر دیا تھا ‘ یہ دین ان کی زندگیوں میں رچ بس گیا تھا ۔ یہی ان کا عقیدہ تھا ‘ یہی ان کا اخلاق تھا ‘ یہی ان کی عبادت اور عام طرز عمل تھا۔ پھر ان لوگوں نے یہ کام کسی دنیاوی غرض کے لئے نہ کیا تھا بلکہ ان کے پیش نظر فلاح اخروی اور جنت الماوی تھی ۔ یہ تک مطلوب نہ تھا کہ انہیں یہاں غلبہ نصیب ہو یا انہی کے ہاتھوں سے نظام اسلامی کا قیام عمل میں آجائے بلکہ ان تمام کوششوں ان تمام ناقابل برداشت ابتلاؤں اور حق و باطل اور اسلام وجاہلیت کی اس طویل کشمکش کے صلے میں ان کی صرف ایک تمنا تھی ۔۔۔۔۔۔ یعنی رضائے الہی اور فلاح اخروی اور ان سب حقائق کے بالمقابل انہوں نے یہ کام اس عنوان سے کیا جو تاریخ انسانی کا معروف عنوان تھا یعنی (لاالہ الا اللہ) ہمیشہ اس نعرے کو خطرناک قرار دیا گیا خصوصا ان لوگوں کی طرف جو مناصب حکومت پر براجمان ہوتے تھے ۔ اقتدار کب ملتا ہے ؟ قرن اول کے ان لوگوں کو جب اللہ نے آزمایا تو وہ اس میں پورے اترے ۔ ان کے نفوس ہر قسم کی نفسیاتی آلائشوں سے پاک ہوگئے اور جب اللہ نے دیکھ لیا کہ وہ اس دنیائے فانی کے کسی ذلیل و حقیر مقصد کے لئے نہیں لڑ رہے ‘ یہاں تک کہ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ صرف انہی کے ہاتھوں اس دعوت کو کامیابی حاصل ہو اور اسلامی نظام حیات کا قیام عمل میں آجائے ۔ نیز ان کے دل قومیت اور وطنیت اور نسل پرستی ‘ کنبہ پروری اور قبائلی عصبیت جیسے فرو تر جذبات سے پاک ہوگئے اور انہیں ان روابط سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رہا ۔ ان میں وہ تمام مطلوب خوبیاں اور کمالات پید اہو گئے جو اللہ کو مطلوب تھے تو پھر خود اللہ نے فیصلہ کرلیا کہ یہ لوگ اب اس امانت کو سنبھالنے کے قابل ہوگئے ہیں ۔ یہ اس عقیدے اور نظریہ حیات کے امین ہوسکتے ہیں جس میں حاکمیت اور اقتدار اعلی صرف اللہ وحدہ لا شریک کا ہو کیونکہ یہ عقیدہ انکے دل وجاں میں جاگزیں ہوچکا ہے ۔ ان کے شعور و عمل کا جزو بن چکا ہے اور انکے جان ومال پر حاکم ہے وہ اس قابل ہوگئے ہیں کہ اقتدار اعلی ان کے سپرد کردیا جائے ۔ جس کے ذریعے وہ اللہ کی شریعت کو اس دنیا میں چلائیں اور خالص خدائی عدل و انصاف جاری کریں ‘ جو کچھ کریں وہ رضائے الہی کے حصول کیلئے کریں کیونکہ اسی نے یہ امانت ان کے سپرد کی ہے اور ان کے پیش نظر اپنی ذات اپنا خاندان اور اپنی قوم یا اپنا قبیلہ ہر گز نہ ہو ۔ غرض اسلامی نظام حیات کا قیام اور اس کی سربلندی صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ہم اس کے قیام کے لئے وہی طریق کار اختیار کریں جو حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں اختیار فرمایا یعنی (لاالہ الا اللہ) کا علم بلند کرنا اور اس کلمے کے ساتھ کسی اور کلمے ‘ نعرے اور نظرئیے کو شریک نہ کرنا ۔ اگرچہ بظاہر یہ طریق کار نہایت مشکل اور پر خطر تھا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہی حقیقت پسندانہ اور مناسب تھا اس لئے اسی کو اختیار کیا گیا ۔ اگر دعوت اسلامی کو ایک قومی تحریک ‘ وطنی تحریک یا کسی اجتماعی تحریک یا اخلاقی اور اصلاح معاشرہ کی تحریک کی شکل میں اٹھایا جاتا تو اس کے نتیجے میں بپا ہونے والا نظام حیات خالص خدائی نظام حیات نہ ہوتا اور اس تحریک کا علم وہ نہ ہوتا جو تحریک اسلامی کا تھا (لاالہ الا اللہ) یہ طریق کار کیوں ؟ پورے مکی دور میں قرآن کریم نے اسلام کی نظریاتی اساس (لاالہ الا اللہ) کو دل و دماغ میں بٹھائے کی کوشش کی اور اس کے لئے وہ پر آشوب طریق کار اختیار کیا گیا جس کا ذکر اوپر ہوا اور کسی وقت بھی اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا طریق کار اختیار نہ کیا گیا بلکہ ہمیشہ اس پر اصرار کیا گیا ۔ نیز قرآن مجید نے دعوت کے آغاز میں اور مکی دور میں صرف عقائد ونظریات ہی پر زور دیا اور نظام اسلامی کی فقہی اور شرعی تفصیلات کو نہ چھیڑا ۔ یہ طریق کار محض اتفاق طور پر نہیں اختیار کیا گیا بلکہ اس میں گہری حکمت کار فرما تھی ۔ دعوت اسلامی کے ہر کارکن کا یہ فرض ہے کہ وہ گہری سوچ بچار کر کے معلوم کرے کہ وہ حکمت کیا تھی ؟ حکمت یہ ہے کہ اس نظام حیات کے مزاج کا تقاضا ہی یہی تھا ۔ کیونکہ پورے نظام کی تشکیل اور تمام تر فقہی اور تشریعی ضوابط کی تعمیر وتدوین صرف اسی ایک اساس پر ہونی تھی یعنی عقیدہ توحید اسلامی نظام حیات کا اساسی نظریہ ۔ یوں سمجھئے کہ یہ دین گویا ایک تناور درخت ہے جو دور تک پھیلا ہوا ہے جس کی شاخیں لمبی اور گھنی ہیں ۔ اس کے بیشمار سایہ دار پتے ہیں اور وہ دور تک فضاء میں بلند ہوگیا ہے ‘ لیکن اس کے باوجود اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس تن اوری اور طول وعرض اور بلندی وضخامت کے لحاظ سے زمین کے اندر دور تک اس کی جڑیں گہری ہوں اور دور تک پھیلی ہوئی ہوں ۔ یہی مثال اسلامی نظام حیات کی بھی ہے ۔ وہ زندگی کا جو نظم پیش کرتا ہے وہ جامع و شامل ہے ۔ زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے ۔ ہر چھوٹے اور بڑے امر کے بارے میں فیصلے کرتا ہے ۔ یہ زندگی کے صرف دنیاوی دائرے تک محدود نہیں ہے بلکہ فلاح اخروی کا بھی ضامن ہے ۔ صرف دنیائے بینی وگوش ہی سے سروکار نہیں رکھتا بلکہ پردہ ہائے غیب کے اندر مستور ایک ” بڑے جہاں “ سے بھی گہری دلچسپی رکھتا ہے پھر اسے انسان کے صرف ظاہری اور مادی معاملات ہی سے دلچسپی نہیں بلکہ اس کا تعلق انسانی ضمیر کی گہرائیوں سے بھی ہے اور وہ انسان کے ” راز ہائے سینہ “ اور ” دنیائے نیات “ سے بھی گہرا ربط رکھتا ہے ۔ ہاں تو جب وہ ایک عظیم درخت ہے جس کی شاخیں حیات انسانی کے ایک وسیع تر خطے میں پھیلی ہوئی ہیں تو یہ امر نہایت ضروری ہوجاتا ہے کہ اس وسعت ’ اس ضخامت اور اس عمق اور پھیلاؤ کے مطابق ‘ اس کی جڑیں بھی کشت زار دل و دماغ میں نہایت ہی گہری ہوں ۔ (آیت) ” اصلھا ثابت فی الارض وفرعھا فی السمائ “ اسلامی نظام حیات کے مزاج اور اس کی تعمیری باریکیوں کا یہ ایک خاص پہلو ہے کہ وہ اپنی تعمیر اور پھیلاؤ میں ایک خاص طریق کار اختیار کرتا ہے ۔ وہ اس بات کو حد درجہ اہمیت دیتا ہے کہ اس کی نشوونما اور تعمیر جن عقائد ونظریات پر ہو رہی ہے وہ دل و دماغ میں غایت درجہ متمکن ہوجائیں ۔ نفس انسانی اور انسانی فکر وعمل کو پورے طور پر اپنے رنگ میں رنگ دیں ‘ اس کی جڑوں اور تناور شاخوں کے درمیان ایک خاص تناسب ہو اور جڑیں اس قدر مضبوط اور طاقتور ہوں کہ فضا میں پھیلی ہوئی بلند شاخوں اور بھاری تنوں کا بوجھ بسہولت سہار سکیں ۔ اس طریق کار کے مطابق جب کسی فرد اور گروہ کے دل و دماغ کی گہرائیوں تک (لاالہ الا اللہ) اتر جاتا ہے تو اس کی زندگی میں اس نظام حیات کی بنیاد پڑجاتی ہے جسے اس کلمہ پر تعمیر ہونا ہوتا ہے اور اس کی جھلک اس میں نظر آتی ہے جوں جوں اس نظام کی تفصیلات سامنے آتی جاتی ہیں لوگ برضا ورغبت انہیں اپناتے جاتے ہیں کیونکہ ان کی جڑیں پہلے سے ان کے دل میں ہوتی ہیں ۔ یہی معاملہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کا تھا کہ مکی دور کی اس فکری تطہیر اور صالح عقائد کی وجہ سے ان کے ذہن نہ صرف یہ کہ اسلامی احکام کے لئے آمادہ تھے بلکہ طالب تھے حالانکہ احکام کی تفصیلات ابھی تک پردہ اخفا میں تھیں ۔ دور اول میں ہمیں جو معجزانہ تسلیم وانقیاد نظر آتا ہے وہ فقط ایمان راسخ اور صالح نظریات کی تشکیل کا رہین منت ہے ۔ اس ایمان کے بعد حالت یہ تھی کہ شرعی احکامات آرہی ہیں ‘ نظم ونسق کے بارے میں ہدایات آرہی ہیں اور ان پر بےچوں وچرا اور کامل تسلیم ورضا کے ساتھ عمل ہو رہا ہے ۔ وہ موجودہ احکامات کے متنفر ہوجاتے ہیں اور جو حکم آجاتا ہے اس کی تعمیل پل بھر کی دیر نہیں کرتے ۔ یہی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے شراب نوشی ختم ہوئی ‘ سودی کاروبار کا نام ونشان تک نہ رہا ۔ قماربازی کا وجود ناپید ہوگیا اور تمام جاہلی عادات اور اوضاع واطوار یوں مٹے کہ گویا کبھی تھے ہی نہیں ‘ اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تمام کام چند احکام خداوندی نازل ہوتے ہی سرانجام پاگئے ‘ بس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے احکامات سننے کی دیر تھی ۔ اس کے برعکس ان نظاموں کا حال دیکھ لیجئے جن کی تعمیر اس طریق کار کے برعکس متعارف دنیاوی طریقوں کے مطابق ہوتی ہے ۔ آج کل اگر کوئی حکومت ان منکرات کو بند کرنا چاہتی ہے تو وہ قانون سازی کے ساتھ مقننہ ‘ انتظامیہ کے تمام محکمہ جات ‘ پولیس اور فوج اور نشرواشاعت کے تمام ذرائع کو پوری جدوجہد کے ساتھ کام میں لاتی ہے ‘ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پھر بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ چند ظاہری اور خلاف قانون چیزوں پر ہی کنٹرول کرسکتی ہیں جب کہ معاشرے کی اندرونی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ منہیات اور منکرات سے اٹا پڑا ہوتا ۔ (تحریم شراب کے سلسلے میں ملاحظہ ہو میری تفسیر فی ظلال القرآن جلد ٥ از ص ٨٧ تا ص ١٠٨ منقح ایڈیشن نیز ملاحظہ ہو الاستاذ المودودی کی کتاب ” تنقیحات “ بحوالہ ماذا حسرالعالم بانحطاط المسلمین ۔ از ابو الحسن علی الندوی) نظریہ اور تحریک ساتھ ساتھ : اس مضبوط طریق کار کا سمجھ لینے سے ‘ اس دین کے مزاج اور خصوصیات کا ایک اور پہلو بھی روشن ہو کر سامنے آجاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ یہ دین درحقیقت ایک بہترین عملی اور متحرک پروگرام ہے اور یہ آیا ہی اس لئے ہے کہ زندگی کے تمام واقعات حقائق پر حکمران ہو ۔ یہ زندگی کے حقائق کا سامنا اس حیثیت سے کرتا ہے کہ ان پر اپنے اوامر نافذ کرے ۔ انہیں برقرار رکھے ‘ یا بدل دے یا سرے سے منسوخ کردے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس دین میں قانون سازی صرف انہیں امور کے متعلق ہوتی ہے جو واقع ہوچکے ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جس نے ابتدائی طور پر صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اقرار کرلیا ہو۔ یہ دین کوئی ایسا ” نظریہ “ نہیں ہے جو محض مفروضات سے دلچسپی رکھتا ہو ‘ بلکہ یہ ایک ایسا نصب العین اور پروگرام ہے جس کا معاملہ تمام ترواقعات حیات سے ہے ۔ لہذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پہلے ایک ایسا معاشرہ موجود ہو جو (لاالہ الا اللہ) کا اقرار کرے ۔ یعنی کہ حاکمیت اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے اور اس کے ساتھ اللہ کے سوا تمام دوسرے لوگوں کی حاکمیت کا انکار کرے ۔ ایسے تمام طور طریقوں کو ترک کردے جو اس قاعدے کے خلاف ہوں اور نہ ہی انہیں جائز سمجھے ۔ جب ایسے معاشرے کا قیام فعلا ہوجائے تو اس وقت محض ایک خیالی معاشرے کے بجائے وہ ایک حقیقی اور زندہ معاشرہ ہوگا جسے تنظیم اور قانون سازی کی ضرورت پڑے گی ۔ ایسے حالات میں پھر یہ دین اس معاشرے کی اجتماعی زندگی کی تنظیم شروع کردیتا ہے اور قانون سازی کا کام شروع ہوجاتا ہے ۔ یہ قانون سازی اس قوم کے لئے ہوتی ہے جو دل وجان سے نظم و قانون کی مطیع ہوچکی ہے اور جس نے تمام غیر دینی نظاموں اور قوانین کو سرے سے ترک کردیا ہے ۔ اس صورت حال کے پیش نظر ضروری ہوجاتا ہے کہ جو لوگ ایسے نظریات و عقائد کے حامل ہوں ‘ انہیں خود اپنے آپ اور اپنے معاشرے پر خود مختاری حاصل ہو ‘ جو اس معاشرے میں اس نظام حیات کے نافذ کرنے کی ضامن ہو ‘ تاکہ لوگوں کے دل میں اس نظام کا احترام ہو ۔ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ شریعت ایک حقیقت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایسے حالات بھی موجود ہوں جو فوری نظم ونسق اور قانون سازی کے متقاضی ہوں ۔ اقامت دین کے لئے حکومت کی ضروت : جب مسلمان مکہ میں تھے تو انہیں اپنے امور میں خود مختاری حاصل نہ تھی ۔ نہ معاشرے پر انہیں کوئی اختیار حاصل تھا اور نہ ہی ان کی زندگی اس طرح مستقل اور آزاد تھی کہ وہ خود ہی اسے اللہ کی شریعت کے مطابق چلا سکتے ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس لئے زندگی کے اس دور میں صرف عقائد نازل ہوئے ۔ عقائد کی مضبوطی اور پختگی کے بعد ایسے اخلاقی احکامات آئے جو ان عقائد پر مبنی تھے ‘ لیکن جس وقت مدینہ طیبہ میں انہوں نے اپنی ایک مستقل حکومت قائم کرلی جس میں وہ بالکل خود مختار تھے ‘ تو اس وقت اسلامی معاشرتی قوانین کا نزول شروع ہوا ‘ مسلم معاشرے کے لئے ایک ایسا نظام متعین ہوا جو اس کی تمام حقیقی ضروریات کا متکفل تھا ۔ یہ ایسا نظام تھا جس کی پشت پر ایک حکومت اور ایک قوت نافذہ بھی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ نہ تھی کہ وہ مکہ مکرمہ ہی میں قوانین اتار دیں تاکہ وہ خزانہ قوانین میں تیار رکھے ہوں اور مدینہ طیبہ میں حکومت بنتے ہی نافذ کردیئے جائیں ۔ یہ طریق کار اس دین کے مزاج کے خلاف ہے ۔ یہدین ایک نہایت ہی حقیقت پسندانہ اور واقعیت جویانہ دین ہے ۔۔۔۔۔ وہ از خود مشکلات فرض کرکے ان کے لئے حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتا ، بلکہ وہ صرف ان امور کی طرف متوجہہوتا ہے جو حقائق ہوں ۔ ایسے حقیقی مسلم معاشرے کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس نے اللہ کی شریعت کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ہو اور اس کے سوا تمام دینوں سے منہ پھیر لای ہو ۔ اس کا سلوک بعینہ اس معاشرے کی وسعت ‘ اس کی نوعیت اور اس کے ظروف واحوال کے مطابق ہوتا ہے تاکہ قوانین ‘ معاشرے کی نوعیت ‘ وسعت اور حالات و ضروریات کے مطابق ہوں۔ لوگ اس وقت اسلام سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ نظریات وضع کرے ‘ مجوزہ نظام حیات کے طور طریقے اور شکلیں متعین کرے اور زندگی کے لئے مفصل قوانین واضع کرے ‘ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت کرہ ارض پر کوئی ایسا معاشرہ موجود نہیں ہے جس نے عملا اس بات کا اقرار کرلیا ہو کہ اس میں صرف خدا کی شریعت کی حکمرانی ہوگی اور اس نے تمام غیر اسلامی وقوانین کو ترک کردیا ہو یا اس کے پاس اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے قوت نافذہ بھی ہو ۔ جو لوگ اسلام سے ایسی توقعات رکھتے ہیں انہوں نے درحقیقت اس دین کے مزاج ہی کو نہیں پایا ۔ بدقسمتی سے وہ نہیں جانتے کہ یہ دین اللہ کے پسندیدہ طریق کار کے مطابق کس طرح عملی شکل اختیار کیا کرتا ہے ۔ اس طرز پر سوچنے والے لوگوں کا اصل منشاء درحقیقت یہ ہوتا ہے کہ وہ اس دین کے مزاج ‘ اس کے طریق کار اور اس کی تاریخ کو بدل دیں تاکہ وہ انسانی نظریات اور انسانی طریق ہائے حیات کے مطابق ہوجائے ۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ دین ‘ اپنے طریق کار اور اقدامات کو چھوڑ کر ان کی وقتی خواہشات اور نفسانی تقاضوں کو پورا کرے ۔ یہ ایسی خواہشات ہیں جو انسان کے وضع کردہ چھوٹے بڑے نظامہائے حیات کے مقابلے میں ان کی روحانی اور اندرونی شکست خوردگی کی آئینہ دار ہیں ۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ دین اپنے آپ کو جدید نظریات اور مفروضات کی شکل میں ڈھال لے اور ایسے مستقبل کی طرف متوجہ ہو جو سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ لیکن اللہ نے اس دین کے لئے وہی طریق کار مقرر فرمایا ہے جو اسے پسند ہے یعنی یہ کہ وہ ایک عقیدہ ہو جو دل دماغ پرچھا جائے ۔ انسانی ضمیر پر اس کی حکومت ہو۔ اس عقیدے کا لازمی تقاضا یہ ہو کہ اس کا ماننے والا اللہ کے سوا کسی کے آگے نہ جھکے اور یہی عقیدہ قانون و شریعت کا ماخذ بھی ہو اور اس کے سوا کوئی دوسرا ماخذ نہ ہو ۔ جب اس عقیدے کے حاملین موجود ہوں اور انہیں اپنے معاشرے پر اقتدار بھی حاصل ہو تو پھر ان کی واقعی ضروریات کے لئے قانون سازی کا کام شروع ہو اور اس کے مطابق ان کی واقعی زندگی کی تنظیم وتشکیل کی جائے ۔ یہ ہے وہ طریق کار جسے اللہ نے اس دین کی اقامت کے لئے منتخب فرمایا ہے ۔ آپ یقین کریں کہ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے رہیں لوگون کی نفسانی خواہشات سو جو ہوتی ہیں ہوا کریں ۔ دعوت اسلامی کے حاملین کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس طریق کار کے مطابق جب بھی وہ لوگوں کو دین کی طرف بلائیں ‘ انہیں سب سے پہلے اسلامی نظریہ حیات سے روشناس کرائیں ۔ یہ بات صرف غیر مسلموں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جو لوگ اپنے آپ کو مسلم کہلاتے ہیں اور مردم شماری کا ریکارڈ بھی گواہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں ‘ ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ (لاالہ الا اللہ) کانٹے سرے سے اقرار کریں ‘ اس کے مفہوم اور مراد کو سمجھیں ۔ حاکمیت کو خاصہ خدا سمجھیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور یہ بھی زندگی کے ایک محدود دائرے میں نہیں بلکہ پوری زندگی میں اس کے ساتھ ساتھ وہ ان لوگوں کی حاکمیت کا بھی صاف صاف انکار کردیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حق حاکمیت کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے ۔ یہ اقرار دل کی گہرائیوں سے پورے شعور کے ساتھ ہو اور اس کا اظہار انسانی زندگی کے عملی طور طریقوں اور حقائق میں بھی ہو رہا ہو ۔ پہلے فکری اصلاح اور پھر قانونی اصلاح : لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیئے کی اساس یہی نظریاتی اقرار ہونا چاہئے ۔ یہی اقرار اول روز سے دعوت اسلامی کی بنیاد رہا ہے ۔ مکہ مکرمہ میں پورے تیرہ سال تک قرآن مجید اسی کی طرف بلاتا رہا ۔ جب (لاالہ الا اللہ) کا یہ مفہوم سامنے رکھتے ہوئے ایک اچھی خاصی جمعیت دین اسلام میں داخل ہوگئے ‘ تو اس گروہ پر اسلامی معاشرے کا اطلاق ہونے لگا ‘ یعنی وہ معاشرے نے فیصلہ کرلیا ہوتا ہے کہ آئندہ اس کی پوری زندگی کا ارتقاء اس عقیدے کی بنیاد پر ہوگا اور یہ کہ وہ اپنی پوری زندگی میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حکمران تسلیم کرے گا ۔ جب اسلامی نظام حیات کی اساس مستحکم ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اسلامی نظام کے تفصیلی منصوبے کا نفاذ شروع ہوجاتا ہے ۔ معاشرے کی فعال طاقتیں خود بخود ایسے اسلامی قوانین کا اجراء شروع کردیتی ہیں ‘ جن کا تعلق معاشرتی زندگی کی حقیقی ضروریات سے ہوتا ہے ۔ نظریاتی اساس کی پختگی کے بعد جو تفصیلی قوانین وضع ہوتے ہیں وہ اسلامی نظام کے نظریاتی اصولوں کی روشنی میں ہوتے ہیں ۔ غرض اسلامی نظام کے نفاذ اور قیام کا یہی صحیح اور متوازن طریق کار کے ذریعے ان زریں ‘ عملی اور واقعیت پسند اصولوں کا نفاذ ممکن نہیں ہے ۔ تحریک اسلامی کے بعض مخلص لیکن جلد باز کارکنوں کا خیال یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے نظام اسلامی کے بنیادی تصورات ہی نہیں بلکہ تفصیلی تشریعات Show more
مصنف کے حالات :
سید قطب 1902 ء میں مصر کے ایک صوبہ اسیوط کے ایک گاؤں موشاء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حاجی قطب ابراہیم اور والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ دونوں عربی النسل تھے۔ سید قطب اپنے والدین کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔
آپ نے ثانوی تعلیم تجہیزیہ دار العلوم نامی ایک اسکول میں حاصل کی۔ اس اسکول میں طلباء کو دار العلوم میں داخلہ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ وہاں سے فارغ ہوکر آپ 1929 میں قاہرہ کے دار العلوم میں داخل ہوئے۔ 1933 میں آپ نے بی۔ اے کی ڈگری اور ڈپلومہ ان ایجوکیشن حاصل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے محکمہ تعلیم میں بحیثیت انسپکٹر تعلیم ملازمت اختیار کرلی اور 1952 ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران 1954 ء میں آپ اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے۔ اور 2 جولائی 1954 ء میں آپ کو اخوان کے شعبہ نشر و اشاعت نے اخبار الاخوان المسلمون کا ایڈیٹر مقرر کیا۔
شہید اسلام سید قطب 1954 سے لے کر 1964 تک جیل میں رہے اور اگست 1964 ء میں مرحوم عبدالسلام عارف صدر عراق کی کوششوں سے رہا ہوئے۔ رہا ہوتے ہی پوری دنیا کے نوجوانوں نے آپ کی طرف رجوع کیا اور آپ کا لٹریچر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلنے لگا۔ چناچہ لادین مغرب پرست کمیونسٹ اور سوشلسٹ عناصر چیخ اٹھے اور بیک وقت ماسکو اور واشنگٹن سے ان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ چناچہ آپ کو ایک سال بعد اگست 1965 ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور ایک سال بعد 29 اگست 1966 ء میں آپ کو شہید کردیا گیا۔ اللہ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
نام : انوار البیان فی کشف اسرار القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الہی مہاجر مدنی (رح)
ناشر : نوید احمد خاں۔ مکتبہ زکریا۔ رحمان پلازہ مچھلی منڈی اردو بازار لاہور۔
زیر نظر نسخہ : اشاعت اول۔ 2009 ء۔ 1430 ھ
کتاب کا مختصر تعارف :
" ایزی قرآن و حدیث " میں شامل چھ جلدوں پر مشتمل ایک اہم اردو تفسیر حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری (رح) کی بھی ہے۔ اس کا مختصر تعارف ، امتیازی خصوصیات اور سبب تالیف انہی کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے :
" اما بعد ! 1374 ھ یا 1375 ھ کی بات ہے کہ راقم الحروف کلکتہ میں مقیم تھا۔ وہاں میعادی بخار میں مبتلا ہوگیا اور شدت تکلیف کے باعث ایک رات ایسی گزری کہ صبح تک زندہ رہ جانے کی امید نہ تھی، میں نے اللہ جل شانہ سے ناز کے انداز میں عرض کردیا کہ اے اللہ ! میں ابھی مر رہا ہوں حالانکہ میں نے ابھی تفسیر بھی نہیں لکھی، اللہ جل شانہ کا فضل ہوا کہ میں اچھا ہوگیا، اور اس کے بعد سے کبھی شدید بیماری میں بھی مبتلا نہیں ہوا، لیکن تدریسی مشاگل کے باعث اور دوسری چھوٹی موٹی تالیفات میں لگنے کی وجہ سے تفسیر لکھنے کا موقعہ نہیں آیا، اب جبکہ عمر ستر سال کے قریب پہنچ گئی تو موت کا ڈر لاحق ہوا، اور ساتھ یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ تفسیر لکھنے کا وعدہ جو اللہ جل شانہ سے کیا تھا وہ پورا کرنا چاہیے، تفسیر لکھنا شروع کردیا، مجھے علم بھی زیادہ نہیں ہے، جگہ جگہ مشکلات پیش آئیں اللہ جل شانہ سے دعائیں کی، مشکلات حل ہوتی گئیں اور برابر شرح صدر ہوتا گیا اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اردو میں اکابر کی متعدد تفسیریں موجود ہیں تجھے نئی تفسیر لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو میں اس کا جواب دینے سے قاصر ہوں البتہ مجھے اپنے طور پر اس بات کی خوشی ہے کہ میری عمر کے آخری چند سال قرآن کریم کی خدمت میں خرچ ہوگئے، عام فہم اردو زبان میں شرح اور بسط کے ساتھ قرآن مجید کے معانی اور مطالب بیان کردئیے ہیں اور ساتھ ہی مسلمانوں کو جگہ جگہ جھنجھوڑا بھی ہے کہ قرآن مجید کا تم سے کیا مطالبہ ہے اور تمہاری اجتماعی وانفرادی زندگی کس رخ پر ہے، کوشش کی ہے کہ تفسیر و حدیث کے اصل ماخذ کی طرف رجوع کیا جائے، اور تفسیر القرآن بالقرآن، اور تفسیر القرآن بالحدیث کو اختیار کیا جائے۔ یہ تفسیر انشاء اللہ ہر طبقہ کے مسلمانوں کے لیے مفید ہوگی۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ ترجمہ اور تفسیر پڑھنے والے طلبہ کی زیادہ رعایت کی گئی ہے۔ سبب نزول لکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ اور کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ تحت اللفظ ہو اور بامحاورہ بھی، میری کوشش انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہے۔ اللہ جل شانہ سے امید کرتا ہوں کہ اس تفسیر کو شرف قبولیت بخشے، اور اپنے بندوں میں بھی قبولیت عامہ عطا فرمائے ۔ آمین
کچھ مصنف کے بارے میں
حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی ، اتر پر دیش، انڈیا کے ایک شہر بلند شہر میں ، 1343 ھجری میں پیدا ہوئے ۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ امدادیہ مرادآباد اور جامی مسجد علی گڑھ میں مکمل کی۔
مکمل دینی تعلیم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے حاصل کی۔
آپ نے مدرسہ حیات العلوم فیروز پور اور کلکتہ کے کئی مدارس میں تدریس کی خدمت سر انجام دی۔
بعد ازاں ، مفتی محمد شفیع (رح) کی درخواست پر دارالعلوم کراچی تشریف لے آئے ۔ اور یہاں کئی سال تک شیخ الحدیث ، شیخ التفسیر کے طور پر تدریس کی، اور دارالافتاء میں بھی نمایاں کام کیا۔
چند سال بعد آپ مدینہ منورہ منتقل ہوگئے جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال گزارے ۔
آپ کی وفات 1999 میں ہوئی اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
آپ کی متعدد تصانیف ہیں جن میں سے مشہور کتب ۔ انوار البیان، زاد الطالبین ، فوائد الثنیہ فی شرح علوم النبویہ اور تسہیل الضروری شرح قدوری ہیں۔
حضرت مولانا غلام اللہ خان
حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب (رح)
خاندان : آپ 1909 ء کو جناب فیروزخان صاحب کے گھر ” وریہ “ متصل حضرو ضلع کمیلپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدصاحب دیندار اورگاؤں کے نمبردار تھے ۔ قومیت کے لحاظ سے ” اعوان “ ہیں۔ تعلیم : حضروہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سے ابتدائی فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر شاہ محمد ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی صاحب اور انکے بڑے بھائی مولانا محمداسماعیل صاحب ساکن کو کل ، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لے، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھو اورمولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ ، جلالین ، بیضاوی اور ترجمہ قرآن کریم بھی یہیں پڑھا۔ بعدا زاں حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) ساکن واں بچھراں ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے ۔ ان سے تفسیر قرآن کریم کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی (رح) نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933 ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمدانور شاہ کشمیری (رح) کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ” برکات الاسلام “ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے۔ پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939 ء میں وزیرآباد سے راولپنڈی لے آئے ۔ یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا ، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا ۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا ۔ پہلی مرتبہ جب دورۂ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے ۔
نام : کشف الرحمن فی تفسیر القرآن
مصنف : حضرت مولانا احمد سعید دہلوی (رح)
ناشر : مکتبہ رشیدیہ۔ کراچی
یہ تفسیر مصنف کی اٹھارہ سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کے مصنف پاک و ہند کے مشہور عالم سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی (رح) ہیں۔ ترجمہ کا نام کشف الرحمن اور تفسیر کا نام تیسیر القرآن ہے۔ موصوف کی یہ تفسیر شستہ زبان، عام فہم طرز اداء اور اپنی خصوصیات کے اعتبار سے نہایت قابل قدر ہے، اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے اس ترجمہ اور تفسیر کی تالیف میں بہت محنت کی ہے اور بڑی بڑی معتبر کتابوں کی زمانہ دراز تک ورق گردانی کرکے یہ ذخیرہ جمع کیا ہے اور اس کو ایسے طریقے پر مرتب کیا ہے کہ ہر طقبہ کے لوگ اس سے مستفید ہوسکیں، یہ اہل علم کے لیے بھی مفید ہے اور عوام کے لیے بھی، بڑی خوبی اس میں یہ ہے کہ زبان کو آسان اور سہل کرنے کے ساتھ ساتھ سلفِ صالحین کے مسلک کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور زبان کی شگفتگی کو بھی برقرار رکھا۔
مصنف کا تعارف :
سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی ربیع الثانی 1306 ہجری بمطابق دسمبر 1888 ہجری میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مولانا عبدالمجید مصطفیٰ آبادی مرحوم سے حاصل کی، اور تکمیل حفظِ قرآن کی دستار بندی مدرسہ حسینیہ دلی میں ہوئی۔
اعلی تعلیم مدرسہ امینیہ میں حاصل کی۔ اور اس کے بعد مدرسہ امینیہ میں کئی برس تک تدریس کی خدمات سر انجام دیں۔ اور دین کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ۔
آپ جمعیت العلماء ہند کے صدر ، عالم دین اور ایک محب وطن شخصیت تھے۔
1920 ء سے قومی تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا اور آٹھ مرتبہ جیل گئے۔ خوش بیان مقرر تھے اور سبحان الہند کہلاتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد جمعیت العلماء ہند کے صدر مقرر ہوئے۔ اس سے قبل آپ اس جماعت کے ناظم اعلٰی تھے۔ دینی اور علمی موضوعات پر تقریباً بیس کتابیں یادگار چھوڑیں۔
آپ کی تصنیفات و تالیفات میں ١۔ کشف الرحمن فی ترجمۃ القرآن۔ ٢۔ تقاریر سیرت۔ ٣۔ خدا کی باتیں۔ ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں۔ ٥، معجزاتِ رسول۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
آپ کو وفات 3 جمادی الثانی 1379 ہجری بمطابق دسمبر 1959 ء میں ہوئی۔