Surat ul Anaam

The Cattle

Surah: 6

Verses: 165

Ruku: 20

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تفسیر سورۃ الانعام یہ سورت مکے میں اتری ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ پوری سورت ایک ہی مرتبہ ایک ساتھ ہی ایک ہی رات میں مکہ شریف میں نازل ہوئی ہے ، اس کے اردگرد ستر ہزار فرشتے تھے جو تسبیح پڑھ رہے تھے ایک روایت میں ہے کہ اس وقت حضور کہیں جا رہے تھے فرشتوں کی کثرت زمین سے آسمان تک تھی ، یہ...  ستر ہزار فرشتے اس سورت کے پہنچانے کے لئے آئے تھے ، مستدرک حاکم میں ہے ، اس سورت کے نازل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس مبارک سورت کو پہنچانے کیلئے اس قدر فرشتے آئے تھے کہ آسمان کے کنارے دکھائی نہیں دیتے تھے ، ابن مردویہ میں یہ بھی ہے کہ فرشتوں کی اس وقت کی تسبیح نے ایک گونج پیدا کر دی تھی زمین گونج رہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ العظیم سبحان اللہ العظیم پڑھ رہے تھے ۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ مجھ پر سورہ انعام ایک دفعہ ہی اتری ۔ اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے تھے جو تسبیح و حمد بیان کر رہے تھے ۔  Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام نام : اس سورہ کے رکوع ۱٦ و ۱۷ میں بعض اَنعام ( مویشیوں ) کی حرمت اور بعض کی حلت کے متعلق اہل عرب کے توہمات کی تردید کی گئی ہے ۔ اسی مناسبت سے اس کا نام ”اَلانعام“ رکھا گیا ہے ۔ زمانہ نزول : ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ پوری سورہ مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی ۔ حضرت معاذ...  بن جَبَل کی چچازاد بہن اَسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ ”جب یہ سورۃ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی تھی اس وقت آپ اونٹنی پر سوار تھے ، میں اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھی اور بوجھ کے مارے اونٹنی کا یہ حال ہو رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ہڈیاں اب ٹوٹ جائیں گی“ ۔ روایات میں اس کی بھی تصریح ہے کہ جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات کو آپ نے اسے قلمبند کرا دیا ۔ اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مکی دور کے آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہو گی ۔ حضرت اَسماء بنت یزید کی روایت بھی اسی کی تصدیق کرتی ہے ۔ کیونکہ موصوفہ انصار میں سے تھیں اور ہجرت کے بعد ایمان لائیں ۔ اگر قبول اسلام سے پہلے محض بر بناء عقیدت وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکہ حاضر ہوئی ہوں گی تو یقینًا یہ حاضری آپ کی مکی زندگی کے آخری سال ہی میں ہوئی ہو گی ۔ اس سے پہلے اہل یثرب کے ساتھ آپ کے تعلقات اتنے بڑھے ہی نہ تھے کہ وہاں سے کسی عورت کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ممکن ہوتا ۔ شان نزول : ”زمانہ نزول متعین ہو جانے کے بعد ہم بآسانی اس پس منظر کو دیکھ سکتے ہیں جس میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے ۔ اس وقت اللہ کے رسول کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے بارہ سال گزر چکے تھے ۔ قریش کی مزاحمت اور ستم گری و جفاکاری انتہا کو پہنچ چکی تھی ۔ اسلام قبول کر نے والوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ظلم و ستم سے عاجز آکر ملک چھوڑ چکی تھی اور حَبَش میں مقیم تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائد و حمایت کے لیے نہ ابو طالب باقی رہے تھے اور نہ حضرت خَدِیجہ ، اس لیے ہر دنیوی سہارے سے محروم ہو کر آپ شدید مزاحمتوں کے مقابلہ میں تبلیغ رسالت کا فرض انجام دے رہے تھے ۔ آپ کی تبلیغ کے اثر سے مکہ میں اور گرد و نواح کے قبائل میں بھی صالح افراد پے در پے اسلام قبول کر تے جا رہے تھے ، لیکن قوم بحییثیت مجموعی ردو انکار پر تلی ہوئی تھی ۔ جہاں کوئی شخص اسلام کی طرف ادنیٰ میلان بھی ظاہر کرتا تھا اسے طعن و ملامت ، جسمانی اذیت اور معاشی و معاشرتی مقاطعہ کا ہدف بننا پڑتا تھا ۔ اس تاریک ماحول میں صرف ایک ہلکی سی شعاع یثرب کی طرف نمودار ہوئی تھی جہاں سے اوس اور خزرج کے بااثر لوگ آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے اور جہاں کسی اندرونی مزاحمت کے بغیر اسلام پھیلنا شروع ہو گیا تھا ۔ مگر اس حقیر سی ابتداء میں مستقبل کے جو امکانات پوشیدہ تھے انہیں کوئی ظاہر بیں آنکھ نہ دیکھ سکتی تھی ۔ بظاہر دیکھنے والوں کو جو کچھ نظر آتا تھا وہ بس یہ تھا کہ اسلام ایک کمزور سی تحریک ہے جس کی پشت پر کوئی مادی طاقت نہیں ، جس کا داعی اپنے خاندان کی ضعیف سی حمایت کے سوا کوئی زور نہیں رکھتا ، اور جسے قبول کرنے والے چند مٹھی بھر بے بس اور منتشر افراد اپنی قوم کے عقیدہ و مسلک سے منحرف ہو کر اس طرح سوسائیٹی سے نکال پھینکے گئے ہیں جیسے پتے اپنے درخت سے جھڑ کر زمین پر پھیل جائیں ۔ مباحث : ان حالات میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے اور اس کے مضامین کو سات بڑے بڑے عنوانات پر تقسیم کیا جا سکتا ہے: ( ۱ ) شرک کا ابطال اور عقیدہ توحید کی طرف دعوت ، ( ۲ ) عقیدہ آخرت کی تبلیغ اور اس غلط خیال کی تردید کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے ، ( ۳ ) جاہلیت کے ان توہمات کی تردید جن میں لوگ مبتلا تھے ، ( ٤ ) ان بڑے بڑے اصول اخلاق کی تلقین جن پر اسلام سوسائیٹی کی تعمیر کرنا چاہتا تھا ، ( ۵ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کےخلاف لوگوں کے اعتراضات کا جواب ، ( ٦ ) طویل جدوجہد کے باوجود دعوت کے نتیجہ خیز نہ ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمانوں کے اندر اضطراب اور دل شکستگی کی جو کیفیت پیدا ہو رہی تھی اس پر تسلی ، ( ۷ ) منکرین اور مخالفین کو ان کی غفلت و سرشاری اور نادانستہ خود کشی پر نصیحت ، تنبیہ اور تہدید ۔ لیکن خطبہ کا انداز یہ نہیں ہے کہ ایک ایک عنوان پر الگ الگ یکجا گفتگو کی گئی ہو ۔ بلکہ خطبہ ایک دریا کی سی روانی کے ساتھ چلتا جاتا ہے اور اس کے دوران میں یہ عنوانات مختلف طریقوں سے بار بار چھڑتے ہیں اور ہر بار ایک نئے انداز سے ان پر گفتگو کی جاتی ہے ۔ مکی زندگی کے ادوار : یہاں چونکہ پہلی مرتبہ ناظرین کے سامنے ایک مفصل مکی سورہ آرہی ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر ہم مکی سورتوں کے تاریخی پس منظر کی ایک جامع تشریح کردیں تاکہ آئندہ تمام مکی سورتوں کو ، اور ان کی تفسیر کے سلسلہ میں ہمارے اشارات کو سمجھنا آسان ہو جائے ۔ جہاں تک مدنی سورتوں کا تعلق ہے ، ان میں سے تو قریب قریب ہر ایک کا زمانہ نزول معلوم ہے یا تھوڑی سی کاوش سے متعین کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ان کی تو بکثرت آیتوں کی انفرادی شان نزول تک معتبر روایات میں مل جاتی ہے ۔ لیکن مکی سورتوں کے متعلق ہمارے پاس اتنے مفصل ذرائع معلومات موجود نہیں ہیں ۔ بہت کم سورتیں یا آیتیں ایسی ہیں جن کے زمانہ نزول اور موقع نزول کے بارے میں کوئی صحیح و معتبر روایت ملتی ہو ۔ کیونکہ اس زمانہ کی تاریخ اس قدر جزئی تفصیلات کے ساتھ مرتب نہیں ہوئی ہے جیسی کہ مدنی دور کی تاریخ ہے ۔ اس وجہ سے مکی سورتوں کے معاملہ میں ہم کو تاریخی شہادتوں کے بجائے زیادہ تر ان اندرونی شہادتوں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جو مختلف سورتوں کے موضوع ، مضمون اور انداز بیان میں ، اور اپنے پس منظر کی طرف ان کے جلی یا خفی اشارات میں پائی جاتی ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی شہادتوں سے مدد لے کر ایک ایک سورة اور ایک ایک آیت کے متعلق یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فلاں تاریخ کو ، یا فلاں سنہ میں فلاں موقع پر نازل ہو ئی ہے ۔ زیادہ صحت کے ساتھ جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک طرف ہم مکی سورتوں کی اندرونی شہادتوں کو ، اور دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کی تاریخ کو آمنے سامنے رکھیں اور پھر دونوں کا تقابل کرتے ہوئے یہ رائے قائم کریں کہ کون سی سورۃ کس دور سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس طرز تحقیق کو ذہن میں رکھ کر جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ دعوت اسلامی کے نقطہ نظر سے ہم کو چار بڑے بڑے نمایاں ادوار پر منقسم نظر آتی ہے: پہلا دور ، آغاز بعثت سے لے کر اعلان نبوت تک ، تقریبًا ۳ سال ، جس میں دعوت خفیہ طور سے خاص خاص آدمیوں کو دی جارہی تھی اور عام اہل مکہ کو اس کا علم نہ تھا ۔ دوسرا دور ، اعلان نبوت سے لے کر ظلم و ستم اور فتنہ ( Persecution ) کے آغاز تک ، تقریبًا ۲ سال ، جس میں پہلے مخالفت شروع ہوئی ، پھر اس نے مزاحمت کی شکل اختیار کی ، پھر تضحیک ، استہزاء ، الزامات ، سب و شتم ، جھوٹے پروپیگنڈا اور مخالفانہ جتھہ بندی تک نوبت پہنچی ، اور بالآخر ان مسلمانوں پر زیادتیاں شروع ہو گئیں جو نسبتًہ زیادہ غریب ، کمزور اور بے یار و مددگار تھے ۔ تیسرا دور ، آغاز فتنہ ( سن ۵ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لے کر ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ( سن۱۰ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) تک ، تقریبًا پانچ چھ سال ۔ اس میں مخالفت انتہائی شدت اختیار کرتی چلی گئی ، بہت سے مسلمان کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبش کی طرف ہجرت کر گئے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان اور باقی ماندہ مسلمانوں کا معاشی و معاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور آپ اپنے حامیوں اور ساتھیوں سمیت شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے ۔ چوتھا دور ، سن ۱۰ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر سن ۱۳ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک تقریبًا ۳ سال ۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے لیے انتہائی سختی و مصیبت کا زمانہ تھا ۔ مکہ میں آپ کے لیے زندگی دوبھر کر دی گئی تھی ، طائف گئے تو وہاں بھی پناہ نہ ملی ، حج کے موقع پر عرب کے ایک ایک قبیلہ سے آپ اپیل کرتے رہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے مگر ہر طرف سے کورا جواب ہی ملتا رہا ۔ اور ادھر اہل مکہ بار بار یہ مشورے کرتے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں یا قید کردیں یا اپنی بستی سے نکال دیں ۔ آخر کار اللہ کے فضل سے انصار کے دل اسلام کے لیے کھل گئے اور انکی دعوت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ ان میں سے ہر دور میں قرآن مجید کی سورتیں نازل ہوئی ہیں ۔ وہ اپنے مضامین اور انداز بیان میں دوسرے دور کی سورتوں سے مختلف ہیں ۔ ان میں بکثرت مقامات پر ایسے اشارات بھی پائے جاتے ہیں جن سے پس منظر کے حالات اور واقعات پر صاف روشنی پڑتی ہے ۔ ہر دور کی خصوصیات کا اثر اس دور کے نازل شدہ کلام میں بہت بڑی حد تک نمایاں نظر آتا ہے ۔ انہی علامات پر اعتماد کر کے ہم آئندہ ہر مکی سورہ کے دیباچہ میں یہ بتائیں گے کہ وہ مکہ کے کس دور میں نازل ہوئی ہے ۔  Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ الانعام تعارف یہ سورت چونکہ مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اسلام اپنے ابتدائی دور میں تھی، اس لیے اس میں اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کو مختلف دلائل کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے اور ان عقائد پر جو اعتراضات کفار کی طرف سے اٹھائ... ے جاتے تھے، ان کا جواب دیا گیا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں پر کفار مکہ کی طرف سے طرح طرح کے ظلم توڑے جارہے تھے، اس لیے ان کو تسلی بھی دی گئی ہے۔ کفار مکہ اپنے مشرکانہ عقائد کے نتیجے میں جن بے ہود رسموں اور بے بنیاد خیالات میں مبتلا تھے، ان کی تردید فرمائی گئی ہے۔ عربی زبان میں انعام چوپایوں کو کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین مویشیوں کے بارے میں بہت سے غلط عقیدے رکھتے تھے، مثلا ان کو بتوں کے نام پر وقف کر کے ان کا کھانا حرام سمجھتے تھے۔ چونکہ اس سورت میں ان بے بنیادی عقائد کی تردید کی گئی ہے۔ (دیکھیے آیات ١٣٦ تا ١٤٦) اس لیے اس کا نام سورۃ الانعام رکھا گیا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چند آیتوں کو چھوڑ کر یہ پوری سورت ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی تھی، لیکن علامہ آلوسہ (رح) نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ان روایتوں پر تنقید کی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم یہ سورت مکی ہے، اور اس میں ایک سو پینسٹھ آیتیں اور بیس رکوع ہیں  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف سورة الانعام بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ نمبر 6 رکوع 20 آیات 165 الفاظ وکلمات 3100 حروف 12935 مقام نزول مکہ مکرم ٰ 60 آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ ٭خصوصیت : یہ سورة ایک ہی رات میں ستر ہزار فرشتے لے کر نازل ہوئے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم انعام ” نعم “ کی جمع ہے (یعنی جانور) مویشی ‘ چوپا... ئے جانوروں کو کہا جاتا ہے۔ اس سورة کے سولہویں ستر ھویں رکوع میں بعض جانوروں کے حلال و حرام ہونے کو بیان کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں کفار کہ کے بعض توہمات کو بھی دور کیا گیا ہے جو عرب میں عا م تھے۔ اسی لیے اس سورة کا نام ” الانعام “ رکھا گیا ہے۔ اگرچہ یہ سوۃ مکی کلاتی ہے مگر اس میں وہ ساٹھ آیتیں بھی شامل ہیں جو مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں بقیہ ایک سو پانچ آیتیں ہجرت سے کچھ پہلے مکہ مکرمہ نازل ہوئیں۔ اس سورة کی ایک خصویت یہ ہے کہ اس سورة کی ایک سو پانچ آیتیں ایک ہی رات میں نازل ہوئیں جنہیں اسی رات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھنے کا حکم دیا۔ متعدد احادیث میں اس سورة کے نازل ہونے کی ایک بہت بڑی شان بیان فرمائی گئی ہے۔ احدیث میں آتا ہے کہ جس رات پر سورة نازل ہوئی اس رات زمین سے آسمان تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا۔ تمام فرشتے اللہ کی حمد وثناء کررہے تھے۔ ان کی تسبیحات کی گونج سے زمین و آسمان میں ایک عجیب سا سماں تھا۔ اسی دوران ستر ہزار فرشتے اس سورة کو لے کر نازل ہوئے۔ وہ اللہ کی تسبیح کررہے تھے اور اللہ کو سجدے کررہے تھے۔ فرشتوں کی تسبیح اور سجدوں سے زمین و آسمان منور تھے۔ یہاں تک کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ کی تسبیح کرتے ہوئے سجدے میں چلے گئے۔ احادیث میں اس سورة کی بہت سی فضیلتیں آئی ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص سورة الانعام کی پہلی تین آیتوں کی تلاوت کرے گا اللہ تعالیٰ ایسے چالیس فرشتوں کو نازل فرمائے گا جو عبادت کریں گے جس کا ثواب اس شخص کو بھی عطا کیا جاتا رہے گا جو اس کی تلاوت کرے گا فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے اللہ کی رحمتوں کو اس شخص پر نازل کرتے رہیں گے۔ جو شخص اس سورة کو پڑھتا ہے تو ایک فرشتہ آسمان سے اترتا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے۔ شیطان اگر پڑھنے والے کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو فرشتہ اس گرز سے شیطان کی خبر لیتا ہے اور شیطان اور اس کے درمیان ستر حجاب (پردے) ڈال دیئے جاتے ہیں۔ اس سورة کو پڑھنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ اے میرے بندے تو میرے نور کے سائے میں چل ‘ جنت کے پھلوں سے لذت حاصل کر ‘ حوض کوثر سے پانی پی ‘ اور نہر سلسبیل میں غسل کر تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا پروردگار ہوں۔ اس سورة کا مرکزی مضمون توحید و رسالت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دور جہالت میں کفار ایسے تو ہمات اور فضولیات میں مبتلا تھے جن توہمات کی تردید کی گئی ہے جن کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔ اہل ایمان کو کفار کے ظلم و ستم کے مقابلے میں تلی اور جنت کی بشاری دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ زندگی کے ان بنیادی اصولوں کو بیان فرمایا گیا جو انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ ٭کفار نے بہت سی چیزوں کو خود ہی حرام اور حلال کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقیقت میں جو چیزیں حرام اور ناجائز ہیں ان پر تم غور نہیں کرتے اور دوسری فضول بحثوں میں الجھے ہوئے ہو۔ فرمایا کہ اللہ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے (١) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک قرار دینا (٢) والدین سے بد سلوکی کرنا۔ (مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنا حرام ہے کیونکہ رازق تو اللہ ہے۔ (٤) چھپے ہوئے یا ظاہری گناہ کے کام کرنا (٥) کسی کو ناحق قتل کرنا (٦) یتیم بچے کے مال کو کھاجانا (٧) ماپ تول میں کمی کرنا (٨) وعدے کا پورا نہ کرنا۔ (٩) جب گواہی دینے کا وقت آجائے تو اس سے پیچھے ہٹ جانا (١٠) اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے ہٹ کر غلط اور گمراہی کے راستے پر چلنا یہ سب ناجائز باتیں ہیں ان سے بچنا ہر صاحب ایمان کے لیے ضروری ہے۔   Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة الانعام کا تعارف اس سورة مبارکہ کا نام آیت ١٣٦ سے لیا گیا ہے۔ الانعام کا لفظ پورے قرآن میں ٣٠ مرتبہ اور اس سورة میں ٦ مرتبہ آیا ہے۔ اس کی آیات ١٦٥ اور بیس ٢٠ رکوع ہیں۔ چند آیات کے سوا پوری کی پوری سورة مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس سورة مبارکہ کا مرکزی مضمون اللہ تعالیٰ کی توحید ہے مکہ اور اس ک... ے گرد ونواح کا وسیع ترین علاقہ بلکہ پورا حجاز شرک کی غلاظت میں کلی طور پر ملوث تھا جس بناء پر اس میں اللہ کی توحید کے ایسے دلائل دیے گئے ہیں جن کا انکار کرنا کسی عقلمند اور شریف آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ سورة کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش سے ہوتی ہے کیونکہ وہ ایسی ذات ہے جس نے زمین و آسمان، ظلمت اور روشنی پیدا فرمائی۔ وہی ذات ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر انسان کی زندگی کا تعین فرمایا وہ زمین و آسمان کی ہر چیز اور انسانوں کی جلوت و خلوت کی حرکات سے ہر لمحہ مکمل آگاہی رکھنے والا ہے۔ لیکن مشرکین اس عقیدہ کو تسلیم کرنے کی بجائے دعوت توحید دینے والی شخصیات کا ہمیشہ سے مذاق اڑاتے آرہے ہیں۔ اگر یہ لوگ دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ پر توجہ کریں تو انھیں معلوم ہوجائے گا کہ عقیدہ توحید کی مخالفت کرنے والوں کا دنیا میں کیا انجام ہوا۔ توجہ دلاتے ہوئے یہ بھی بتادیا گیا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے اب تک انھیں نہیں پکڑا تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس نے اپنی ذات پر لوگوں پر شفقت و مہربانی کرنا لازم قرار دے لیا ہے اس کے بعد درج ذیل توحید کے دلائل دیے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان پیدا کرنے والا اور لوگوں کو کھلانے، پلانے والا ہے جبکہ وہ خود کھانے پینے کا محتاج نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کو تکلیف پہنچانا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے بچا نہیں سکتی اگر وہ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما لے تو اس خیر کو کوئی روک نہیں سکتا۔ ٣۔ توحید کا اقرار سب سے بڑی گواہی اور شہادت ہے جس پر ایک داعی کو ہر حال میں قائم رہنا چاہیے۔ ٤۔ توحید کا منکر حقیقتاً آخرت کا انکاری ہوتا ہے۔ ٥۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کی بصیرت و بصارت اور سماعت کو کلیتاً ختم کر دے تو زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ان صلاحیتوں کو واپس لوٹا سکے۔ ( ٤٦) ٦۔ اللہ کے خزانوں اور زمین و آسمان کے غائب کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ( ٥٠) ٧۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اور وہ بحر و بر کی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ یہاں تک کہ دنیا میں بیک وقت کھربوں کی تعداد میں درختوں سے گرنے والے پتے بھی اس کے علم اور شمار میں ہوتے ہیں۔ ( ٦٠) ٨۔ وہ ہر اعتبار سے اپنے بندوں پر غالب ہے۔ (٦١) ٩۔ ان دلائل کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ مکالمہ ذکر کیا ہے جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے شمس و قمر اور ستاروں کے حوالے سے توحید کے وہ دلائل دیے کہ نمرود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے ششدر اور خاموش ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چیلنج کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے بےدھڑک ہو کر فرمایا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارے شریکوں سے ذرہ کے برابر بھی ڈرنے کے لیے تیار نہیں، اور یا درکھو حقیقی امن مواحد کو حاصل ہوتا ہے۔ اس گفتگو کی تائید میں اٹھارہ انبیاء کا نام لے کر ذکر کیا ہے کہ وہ سب کے سب اللہ کی توحید کے داعی اور شرک کے خلاف بر سر پیکار رہنے والے تھے وضاحت فرمائی کہ شرک اتنا سنگین جرم ہے کہ اگر یہ عظیم شخصیات شرک کا ارتکاب کرتی تو ان کے اعمال بھی ضائع کردیے جاتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نباتات، صبح وشام، رات دن، شمس وقمر اور کا ئنات کی بڑی بڑی چیزوں کو اپنی وحدت کی تائید میں دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں فرمایا ہے کہ اللہ کی ذات ہر اعتبار سے وحدہ لا شریک ہے وہ لوگوں کو براہ راست دیکھتا ہے لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اس کے بعد آیت ١٥٧ میں سرور دوعالم کو تسلی دی کہ آپ اپنا کام ایک مبلغ کی حیثیت سے کرتے جائیں اور یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منکرین پر چوکیدار بنا کر نہیں بھیجا۔ ان لوگوں کی حالت تو ہے کہ اگر ان پر فرشتے نازل کردیے جائیں اور ان کے مدفون آباو اجداد زندہ ہو کر انہیں سمجھائیں یہاں تک کہ ہر چیز ان کے سامنے اللہ کی توحید کی گواہی دے پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ یہ اپنی جہالت پر ڈٹ چکے ہیں۔ (١١١) توحید کے دلائل دینے کے بعد حلال و حرام کے مسائل کا ذکر کیا گیا ہے اور حلال و حرام کے سلسلے میں مشرکین کے خود ساختہ اصولوں کی حقیقت بیان کی کہ ان لوگوں نے اپنی طرف سے طے کرلیا کہ فلاں فلاں جانور کا کھانا ان کے مردوں کے لیے جائز مگر ان کی عورتوں کے لیے حرام ہے۔ پھر مشرکین سے ان کے حلال و حرام کے قواعد کے بارے میں سوالات کرتے ہوئے انہیں چیلنج دیا کہ اگر تمہارے پاس ان کے حق میں کوئی علمی دلائل ہیں تو پیش کرو۔ (١٤٨) اس کے بعد آیت ١٥١ تا ١٥٤ میں توحیدو شرک کا بیان، والدین سے حسن سلوک، اولاد کے حقوق، ہر قسم کی بےحیائی سے اجتناب، قتل و غارت سے روکتے ہوئے یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، لین دین اور ہر معاملے میں عدل و انصاف کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی صراط مستقیم ہے لوگوں کو اسی کی اتباع کرنا چاہیے۔ سورة کا اختتام ان مسائل پر فرمایا کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ یہ اعلان فرمائیں کہ اللہ کی توحید پر قائم رہنا، اس کی دعوت دینا، غیر اللہ کا انکار کرنا اور نماز، قربانی، موت وحیات کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے کا نام ہی دین اور صراط مستقیم ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ ہی تمہیں ایک دوسرے کا خلیفہ بناتا ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم اپنے اپنے مقام پر کس قسم کا کردار ادا کرتے ہو۔ اور یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد تمہارا حساب چکا دینے والا ہے اور حساب لیتے ہوئے ظلم کی بجائے وہ معافی اور شفقت کو زیادہ پسند کرتا ہے۔   Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة انعام ایک نظر میں : یہ سورة مکی سورتوں میں سے ہے اور یہ قرآن کا وہ حصہ ہے جو مکہ میں نازل ہوا ۔ قرآن کا وہ حصہ ہے جو مکہ میں نازل ہوا ۔ قرآن مجید کا جو حصہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوا ۔ اس کا زمانہ نزول تیرہ سال ہے ۔ اس پورے عرصے میں وحی کا محور اور مرکزی مضمون ایک ہی رہا اور کسی وقت اس میں تبدیل... ی نہ ہوئی ‘ البتہ بیان میں تبدیلی برابر ہوتی رہی ۔ مضامین کو بار بار دہرایا گیا لیکن ہر مرتبہ نئے نئے اسلوب سے بات کی گئی اور سامعین کو یوں محسوس ہوا کہ گویا یہ بات آج ہی پہلی مرتبہ بیان ہو رہی ہے ۔ یہ وہ دور تھا جب قرآن کریم ایک نہایت ہی اہم اور اساسی مسئلے کو حل کر رہا تھا ۔ اس مسئلے پر اس نئے دین کی نیو اٹھنے والی تھی اور اس کا اظہار اس کے اساسی نظریات میں ہونے والا تھا ۔ یعنی ” حقیقت الوہیت ‘ حقیقت عبودیت اور ان کا باہمی تعلق “۔ اس قضیہ کا حل بھی خالص انسانی نقطہ نظر سے مطلوب تھا ۔ یہ کوئی وقتی حل نہ تھا بلکہ اس وقت کے عرب اور آج کے عرب یا اس وقت کے انسان اور آج کے انسان سب کے سب ‘ اس کی رو سے ایک ہی حقیقت اور حیثیت کے حامل ہیں ۔ چونکہ اس بحث کا محور اساسی سوالات یہ تھے کہ اس کائنات میں وجود انسانی کی کیا حقیقت ہے ۔ اس کائنات کی کیا اصلیت ہے اور انسان اور کائنات اور انسان اور موجودات کے درمیان روابط کی کیا نوعیت ہے ؟ اور پھر ان دونوں یعنی انسان اور موجودات اور ان کے خالق کے درمیان کیا تعلق ہے ؟ اس لئے نہ تو یہ مسائل وقتی نوعیت کے حامل تھے اور نہ ہی ان کا یہ حل وقتی نوعیت کا حامل ہو سکتا تھا بلکہ یہ خالص انسانی مسائل تھے اور یہ ان کا دائمی حل تھا ۔ نزول قرآن کے مکی دور میں ‘ جن سوالات کو چھیڑا گیا ان کا تعلق انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی پوری کائنات سے تھا ۔ یہ تفصیلات کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ آخر کار اسے کہاں جانا ہے ؟ کون ہے جو اسے ایک نام معلوم عدم سے لایا ؟ کون ہے جو اسے یہاں سے لے چلے گا ؟ پھر اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اس دور میں قرآن نے انسان کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ اس کائنات کی حقیقت پر غور کرے جسے وہ دیکھ رہا ہے وہ محسوس کر رہا ہے ۔ اس کے سامنے ایک مستور غیب ہے ۔ وہ کائنات کو دیکھ بھی رہا ہے لیکن وہ اس کی کوئی معقول تعبیر نہیں کرسکتا کہ اس پر اسرار رکائنات کا خالق کون ہے ؟ کون اس حیرت انگیز نظم کو چلا رہا ہے ؟ اس کا مدبر کون ہے ؟ اور اس میں جو تغیرات رونما ہوتے رہتے ہیں ان کے پیچھے کس طاقت کا ہاتھ کام کر رہا ہے ؟ مکہ مکرمہ میں قرآنی تعلیمات نے انسان کو بالتفصیل بتایا کہ اس کا تعلق اپنے رب سے کیا ہے ؟ اس کا تعلق اس مخلوقات سے کیا ہے ؟ اور یہ کہ انسانوں کے باہمی تعلقات کا مدار کس پر رکھنا ہے ؟ یہ مسئلہ چونکہ نہایت اہم ‘ اساسی اور انسان کی پوری تاریخ اور حیات سے لے کر موت تک کی پوری زندگی سے تعلق رکھتا تھا ‘ اس لئے اس کی وضاحت اور بیان وتشریح میں قرآن کریم نے پورے تیرہ سال صرف کئے ‘ کیونکہ یہ ایک ایسا اہم قضیہ تھا جس کے حال ہونے کے بعد انسانی زندگی میں کوئی ایسا مسئلہ ہی نہیں رہتا جو حل طلب ہو ۔ اس تیرہ سالہ دور میں قرآن نے کبھی بھی ان بنیادی مسائل کو چھوڑ کر اسلامی نظام حیات کی تفصیلات بیان نہیں کیں ۔ جب یہ بالکل واضح ہوگیا تو کہ تحریک اسلامی کے کارکنوں کے دل و دماغ میں اسلامی نظام کے اساسی تصورات اچھی طرح جاگزیں ہوگئے ہیں ‘ تو اس کے بعد تفصیلی تعلیمات شروع ہوئیں اور اس سے قبل ‘ اس پورے عرصے میں صرف اس ممتاز گروہ یعنی صحابہ کرام کی تربیت ہوتی رہی جس نے آگے جا کر اقامت دین کا کام سنبھالنا تھا۔ اقامت دین کا طریق کار : ہماردور میں جو لوگ اسلامی نظام حیات کے قیام اور احیاء کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ‘ میں ان کی توجہ قرآن کریم کے اس خاص اسلوب کی طرف مبذول کراؤں گا۔ انہیں غور کرنا چاہئے کہ قرآن کریم نے پورے تیرہ سال تک کیوں صرف عقائد ونظریات اور دین کے صرف اساسی مسائل سے بحث کی اور اس پورے عرصے میں کبھی بھی اسلامی نظام حیات کی تفصیلات کو نہ چھیڑا گیا ‘ نہ ہی وہ احکام اور قوانین بیان کئے گئے جنہیں آگے جا کر اسلامی معاشرے میں نافذ ہونا تھا ۔ اس طریق کار کی تہ میں یہ حکمت کار فرما تھی کہ اللہ تعالیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے مخالفین کے درمیان سب سے پہلے نظریاتی جنگ کا فیصلہ کرانا چاہتے تھے ۔ چناچہ آپ نے اپنی دعوت کا آغاز (لا الہ الا اللہ) سے کیا جس کے مفہوم کو عرب اچھی طرح جانتے تھے ۔ اس کا اعلان ہوتے ہیں ایک نظریاتی جنگ چھڑگئی اور حضور نے لوگوں کے سامنے یہ دعوت پیش کرنا شروع کردی کہ وہ تمام الہوں ‘ ارباب اور دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رب کی عبادت کریں۔ عرب اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی زبان میں (الہ) کے کیا معنی ہیں ؟ اور (لا الہ الا اللہ) کے کیا معنی ہوتے ہیں ۔ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ الہ تو وہ ہوتا ہے جو انسان کی تکوینی زندگی پر بھی حاکم ہو اور تشریعی زندگی بھی اسی کے زیر نگیں ہو ۔ اگر ہم اس کا اقرار کرلیتے ہیں تو اس کا اولین اثر یہ ہوگا کہ ہمارے ہاتھ سے امارتیں اور سیادتیں سب چلی جائیں گی اور اس کے بعد قلب وضمیر ‘ دل و دماغ ‘ احساس و شعور ‘ عدالت وامارت ‘ تجارت ومعیشت غرض روح وبدن سب پر صرف ایک خدا اور حاکم مطلق کی فرمان روائی ہوگی ۔ چناچہ کلمہ طیبہ کو سنتے ہی وہ تاڑ گئے کہ یہ کلمہ نہ صرف یہ کہ ان کے اختیارات حاکمیت کے خلاف اعلان جنگ ہے بلکہ وہ مستقبل قریب میں ان کی عادات اطوار اور رسم و رواج کو بھی یکسر بدل کر رکھ دے گا ۔ بہرحال وہ عرب تھے اور اہل لسان ہونے کی حیثیت سے یہ اچھی طرح محسوس کر رہے تھے کہ (لا الہ الا اللہ) ان کے لئے کیا کیا مشکلات پیدا کرنے والا ہے ۔ انہوں نے اس کلمہ کو سنتے ہی اس کا سخت ترین نوٹس لیا جس سے تاریخ کا ہر طالب علم خوف واقف ہے ۔ یہاں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ کفر واسلام کی اس جنگ کا آغاز اس قدر پیچیدہ نظریاتی جنگ سے کیوں کیا گیا جب کہ بظاہر یہ بات ذہن میں نہیں آتی تھی کہ یہ نظریات عربوں کو اپیل کریں گے ۔ قومی تحریک کا راستہ : یہ سوال اور بھی قابل توجہ ہوجاتا ہے ‘ جب ہم غور کریں کہ دعوت اسلامی کے آغاز کے وقت جریرہ عرب کے مخصوص سیاسی حالات کیا تھے ؟ جس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت اسلامی کا آغاز کیا تو سرزمین عرب کے سب سے آباد اور شاداب علاقے ‘ عربوں کے بجائے دوسری اقوام کے قبضے میں تھے ۔ شمال میں شام سے متصل علاقوں پر رومیوں کا قبضہ تھا اور ان کی جانب سے ان پر عرب حکمران حکومت کر رہے تھے جنوب میں یمن پر ایرانیوں کی حکومت تھی اور عربوں کے اس صرف حجاز تہامہ اور نجد کے علاقے تھے ۔ ان کے علاوہ ان کے پاس فقط صحرائے عرب کی چند متفرق سرسبز پٹیاں تھیں ۔ ان حالات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے مقبول اور قابل اعتماد شخص کے لئے مناسب یہ تھا کہ وہ ان حالات میں عربی قومیت کا نعرہ بلند کرتے ‘ عرب کے منتشر قبائل کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے ‘ ان کی خانہ جنگیاں ختم کرتے ‘ جنہوں نے انہوں ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا تھا ۔ اس طرح آپ کے لئے بسہولت یہ ممکن تھا کہ آپ شمال کی جانب رومی اور جنوب کی طرف سے ایرانی استعمار کے خلاف صف آراء ہوجاتے عرب کے خونی رشتوں سے اپیل کرتے اور پورے جزیرۃ العرب کو ایک قومی وحدت میں جمع کردیتے ۔ یہ کام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس وجہ سے بھی آسان تھا کہ آپ قریش جیسے معزز قبیلے کے چشم وچراغ تھا ۔ آپ کے پورے قبیلے نے حجر اسود کے جھگڑے میں آپ کو فیصل بھی مقرر کردیا تھا اور پندرہ سال تک آپ کو ثالث بھی مان چکے تھے ۔ اگر آپ اپنی تحریک کا آغاز اس طرح کرتے تو تمام عرب فی الفور آپ کی دعوت پر لبیک کہہ دیتے ‘ اور اس طرح آپ کو پورے تیرہ سال تک خود غرض حکمرانوں اور شیوخ وامراء کا جانکا مقابلہ نہ کرنا پڑتا اور جس وقت پورا جزیرۃ العرب آپ کے زیرنگیں ہوجاتا اور اقتدار اعلی آپ کے ہاتھوں میں آجاتا تو آپ اپنی پوری طاقت سے لوگوں کو وہ تعلیم دینا شروع کردیتے ‘ جس کے ساتھ باری تعالیٰ نے آپ کو ہدایت بشریت کے لئے بھیجا تھا ‘ اور آپ بسہولت لوگوں کو بتا سکتے کہ لوگو ! انسانوں کی اطاعت اور بندگی کے بجائے صرف اللہ کی بندگی کرو اور شرک سے باز آجاؤ۔ لیکن اللہ تعالیٰ علیم وخبیر تھا ‘ اس کا منصوبہ کچھ اور ہی تھا ‘ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ (لا الہ الا اللہ) کا اعلان کر دین ‘ اسلامی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں نے کس طرح باطل کے خلاف واضح نظریاتی جنگ کا اعلان کیا اور اس کے نتیجے میں ‘ بےحد و حساب مصائب برداشت کئے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب نہ تھا کہ خواہ مخواہ ‘ حضور اور آپ کے مٹھی بھر ساتھیوں کو مصیبت میں مبتلا کریں بلکہ یہی ایک صحیح مستقیم اور متین طریق کار تھا جسے اپنانا ضروری تھا ۔ نیز اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب نہ تھا کہ انسانیت کو رومی طاغوت یا فارسی طاغوت کے چنگل سے چھڑا کر عربی طاغوت کے زیرنگیں کردیا جائے ۔ طاغوت خواہ جس قوم ونسل سے بھی تعلق رکھتا ہو وہ بہرحال طاغوت ہے ۔ مقصود یہ سمجھانا تھا کہ کائنات کا مالک صرف اللہ ہے اور اس پر اسی کی حکمرانی ہونا چاہئے ۔ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہونا چاہئے اور یہ کام صرف اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب اس سرزمین پر صرف (لا الہ الا اللہ) کا علم بلند کیا جائے ۔ اور خداوند کریم کی بادشاہت کے مقابلے میں قائم ہونے والی تمام ایرانی ‘ رومی اور عربی بادشاہتوں کو ختم کردیا جائے ۔ اس کلمے کی بنیاد پر جو اجتماعیت اور جو قومیت وجود میں آتی ہے وہ ایک نظریاتی قومیت ہوتی ہے اور اسے عربی ‘ رومی اور ایرانی قومیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ یہ تھا وہ راز جس کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی قومیت کا نعرہ بلند کرنے کے بجائے نظریاتی کشمکش کے طریق کار کو اختیار کرنے کا حکم ہوا یاد رکھئے آج بھی ہمارے لئے بہترین طریق کار یہی ہے ۔ معاشی مساوات کا راستہ : جس دور میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اس وقت معاشی لحاظ سے دنیا کی حالت ناگفتہ بہ تھی ۔ دولت کی مساوی تقسیم اور عدل و انصاف کا نام ونشان تک نہ تھا ۔ دولت اور تجارت پر ایک چھوٹی سی اقلیت نے قبضہ کر رکھا تھا اور یہ اقلیت اپنا پورا کاروبار سودی نظام کے مطابق چلا رہی تھی ‘ اس لئے اس کی دولت میں بڑی تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا تھا۔ اس کے برعکس ایک عظیم اکثریت تھی جو فقر وفاقہ اور غربت و افلاس کا شکار تھی ۔ جو لوگ دولت و ثروت پر قبضہ جمائے ہوئے تھے ‘ وہی سوسائٹی میں اونچے مناصب پر بھی براجمان تھے اور عام لوگوں کی حالت یہ تھی کہ نہ مایہ اور نہ سرمایہ ۔ ان حالات کے پیش نظریہ ممکن تھا کہ حضور معاشی مساوات کا نعرہ بلند فرماتے ۔ مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان طبقاتی کشمکش قائم ہوجاتی اور ایک عوامی تحریک برپا ہوجاتی ۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف اعلان جنگ کردیا جاتا اور لوگ موجودہ معاشی ناہمواریوں کو حل کرنے کے لئے ‘ آپ کے ساتھ ہوجاتے تاکہ امراء کی دولت فقراء میں بانٹ دی جائے ۔ یہ راستہ دوسرے راستوں سے نسبتا سہل بھی ہوتا کیونکہ اس نعرے سے پورا معاشرہ فی الفور دو گروہوں میں بٹ جاتا ۔ ایک طرف دولت ‘ شرف اور اقتدار کی دست درازیوں سے نالاں ایک عظیم اکثریت ہوتی اور دوسری جانب ان برائیوں کی حامل ایک حقیر سی اقلیت ۔ پھر وہ صورت حال پیش نہ آتی جو نظریاتی اعلان جنگ کی صورت میں پیش آئی کہ (لا الہ الا اللہ) کا اقرار کرنے والی ایک کمتر سی اقلیت کے مقابلے میں پورا معاشرہ صف آرا ہوگیا ۔ نیز یہ معاشی انقلاب برپا کرنے کے بعد جب اقتداراعلی آپ کے ہاتھ میں آجاتا اور آپ اکثریت کے بل بوتے پر حکمران ہوجاتے تو آپ اقتدار اور اکثریت کے زور سے پوری آبادی سے اپنے وہ عقائد منوا لیتے ‘ جو بحیثیت رسول خدا آپ لے کر آئے تھے اور اس طرح لوگ انسانوں کی غلامی سے نکل کر ایک خدا کی بندگی میں داخل ہوجاتے ۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انقلاب کے لئے یہ راہ اختیار کرنے کی ہدایت نہیں کی ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تحریک اسلامی کے انقلابی کام کا طریق کار یہ نہ تھا اور اللہ تعالیٰ کو اس بات کا خوب علم تھا کہ صحیح معاشی نظام وہی ہوتا ہے جس کی کونپلیں صحیح نظریات سے پھوٹتی ہیں ۔ صحیح نظریہ حیات صرف یہی ہے کہ ہر قسم کی حاکمیت کو صرف اللہ کے لئے مخصوص کردیا جائے ۔ اس نظریہ کے مطابق ایک معاشرہ وجود میں آئے اور اس کا ہر رکن رضا کارانہ اور اطاعت گذارانہ طور پر اللہ جل شانہ کے ان احکام کیپابندی کرے تو اس نے اجتماعی انصاف ‘ معاشی کفالت اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے بارے میں دیئے ہیں اور اس معاشرے میں کاروبار کرنے والے دونوں فریق یہ خیال کرتے ہوں کہ اس لین دین میں وہ اللہ کے احکامات نافذ کر رہے ہیں اور پھر یہ کہ ان احکامات کی اطاعت کر کے وہ دنیا وآخرت کی سرخروئی حاصل کر رہے ہیں ۔ یہی ایک ایسی صورت ہے جس میں سے کوئی بھی حرص وآزارکا شکار نہ ہوگا ‘ نہ کسی کے دل میں کسی کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوں گے ۔ ایسے معاشرے میں ہر کام کے لئے قوت اور طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہ ہوگی اور لوگ اس معاشرے میں وہ گھٹن محسوس نہ کریں گے جو ہر اس معاشرے میں پائی جاتی ہے جس کی اساس (لا الہ الا اللہ) پر نہ رکھی گئی ہو ۔ اخلاقی اصلاح کا راستہ : جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ‘ تو عرب سوسائٹی ‘ اخلاقی لحاظ سے قعرمذلت میں گری ہوئی تھی ۔ چند بدویانہ فضائل اخلاق کو چھوڑ کر وہ کسی ضابطے کے پابند نہ تھے ۔ زہیر بن ابی سلمی اخلاقی صورت حال کی عکاسی یوں کرتے ہیں۔ ومن لم یذوعن حوضہ بسلاحہ یھدم ومن لا یظلم الناس یظلم : (اور جو اپنے حوض کی حفاظت ‘ اپنے اسلحہ کی ذریعے نہیں کریں گے ‘ ان کے حوض کو منہدم کردیا جائے گا اور جو لوگوں پر ظلم نہیں کرے گا ‘ مظلوم بنے گا) ” جاہلیت کا یہ متعارف قول تھا کہ ” اپنے بھائی کی مدد کرو ‘ خواہ ظالم ہو یا مظلوم ہو ۔ “ (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عربوں کی زندگی میں جو انقلاب برپا کیا ‘ وہ اخلاق و عادات اور قواعد وقوانین تک ہی محدود نہ تھا بلکہ آپ نے عربوں کے ادب کی اصلاح بھی فرمائی ۔ اس جملے کا مفہوم آپ نے یوں بدل دیا کہ مظلوم کی حمایت کرنا تو واضح ہے ‘ لیکن ظالم بھائی کی مددیوں ہو سکتی کہ اسے ظلم سے باز رکھا جائے ۔ چناچہ اس قول کو اس معنوی ترمیم کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ادا فرمایا اور دور جاہلیت کا یہ قول ذخیرہ احادیث کا جزوبن گیا) یہ شعر اس معاشرے کی اخلاقی صورت حال کی صحیح تعبیر تھا ۔ شراب نوشی اور قمار بازی دونوں ان کی زندگی کا لازمہ تھیں اور یہ لوگ ان پر فخر کیا کرتے تھے ۔ جاہلیت کی پوری شاعری عربوں کے ان اخلاق کی عکاسی کرتی ہے ۔ بطور مثال طرفہ بن العبد کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ فلولا ثلاث ھن من عیشہ الفتی ، وجدک لم احفل متی قام عودی : (اگر تین چیزیں نہ ہوتیں جو ایک نوجوان کے لئے سامان عیش ہیں تو تیرے سر کی قسم میں اپنی پوری زندگی میں کسی محفل میں شریک نہ ہوتا) فمنھن سبقی العاذلات بشربہ کمیت متی ماتعل بالماء تزبد : (ان میں سے ایک یہ ہے کہ شرمسار کنندہ عورتوں سے بھی آگے بڑھ کر کلیجی رنگ کی شراب کا جام اٹھا لیتا ہوں جس میں اگر پانی ڈالا جائے تو کف آجائے ۔ فمالذال تشرابی الحمور ولذتی وبذلی وانفاقی طریفی وتالدی : (میں ہمیشہ شراب نوشی اور لذت کوشی کا عادی ہوں اور مسلسل اپنی جدی دولت اور تازہ جمع کردہ دولت کو خرچ کرتا رہتا ہوں ۔ الا ان تحامتنی العشیرۃ کلھا وافودت افراد البعید المنعبد : (یہاں تک کہ میرا قبیلہ میری دشمنی پر اتر آیا اور میں اس طرح اکیلا ہوگیا کہ جس خارش زدہ اونٹ علیحدہ کردیا جاتا ہے۔ فسق وفجور اپنی مختلف شکلوں کے ساتھ اس معاشرے میں وبا کی طرح پھیلا ہوا تھا ۔ عرب کیا بلکہ ہر قدیم وجدید جاہلی معاشرے کی یہ امتیازی خصوصیت رہی ہے کہ اخلاقی لحاظ سے وہ ایک فاجر اور فاسد معاشرہ ہوتا ہے ۔ اس کا اندازہ حضرت عائشہ (رض) کی اس حدیث سے اچھی طرح ہوتا ہے جس میں آپ جاہلیت کی عائلی زندگی کی تفصیلات بتاتی ہیں : جاہلیت میں نکاح چار قسم کا ہوا کرتا تھا ۔ (١) ایک تو وہ نکاح جو آج ہمارے اندر رائج ہے ۔ ایک آدمی کسی کی بیٹی زیر دست کو پیغام دیتا تھا ‘ اس کو مہر ادا کرتا اور وہ اس سے نکاح کرلیتا ۔ (٢) دوسرا مرد اپنی بیوی سے کہتا جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجاتی کہ تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے ہم بستری کر۔ مرد عورت سے علیحدہ رہتا ‘ اور اسے چھوتا بھی نہ ‘ یہاں تک کہ اس کا حمل اس شخص سے ٹھہر جاتا تو پھر یہ اس کے پاس جاتا جب چاہتا ۔ یہ حرکت اس لئے کی جاتی تھی کہ نجیب النسب اولاد حاصل کی جائے ۔ اس نکاح کو ” نکاح استبضاع “ کہتے تھے ۔ (٣) اس کے علاوہ ایک تیسرا نکاح بھی ہوتا تھا ۔ دس سے کم افراد جمع ہوتے ‘ اور سب ایک عورت کے ہاں آتے جاتے ‘ اور سب کے سب جماع کرتے جب اس کا حمل ٹھہرتا اور وہ بچہ جن دیتی تو چند دن گزرنے کے بعد وہ سب کو بلا لیتی ۔ قانون کے مطابق ہر ایک کو حاضر ہونا پڑتا ۔ جب سب آجاتے تو وہ انہیں کہتی ” تم جانتے ہی ہو میرے ساتھ جو تمہارا معاملہ تھا ۔ اب چونکہ میں نے بچہ جن دیا ہے تو اے فلاں ! یہ تیرا بیٹا ہے ۔ “ تو یہ جسے چاہتی اس کا نام لے لیتی اور بچہ اس کی نسل سے ملحق ہوجاتا ۔ کسی شخص کو اختیار نہ ہوتا تھا کہ وہ انکار کرسکے ۔ (٤) چوتھا نکاح اس طرح ہوتا کہ بیشمار لوگ جمع ہوجاتے وہ سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے یہ فاحشہ عورتیں ہوا کرتی تھیں اور کسی کو ہم بستری سے نہ روکتی تھیں ۔ اپنے دروازوں پر خاص قسم کے جھنڈے نصب کردیتی تھیں جو ان کی خاص علامت ہوتے تھے ۔ جو چاہتا وہاں جاتا ۔ جب ان میں سے کوئی حاملہ ہوجاتی تو سب لوگ وہاں جمع ہوتے اور قیافہ دان کو بلایا جاتا ۔ قیافہ دان بچے کو جس سے ملادیتے وہ اسے اٹھا لیتا اور اسے اپنا بیٹا پکارتا ۔ ١۔ بخاری کتاب النکاح : عربوں کی اس اخلاقی صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر اپنی دعوت کا آغاز اصلاح معاشرہ اور تزکیہ نفس کے پروگرام سے کرتے تو زیادہ مناسب تھا ۔ اس صورت میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بسہولت آپ کی تحریک میں شامل ہوجاتی ۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جو اپنے اردگرد پھیلی ہوئی برائیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور جو بھی ان کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے اپنی تائید میں ایسے لوگوں کی ایک کثیر تعداد مل جاتی ہے ۔ اس طریق کار کا اثر یہ ہوتا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد حضور کے ساتھ ہوجاتی ‘ ان کے اخلاق درست ہوجاتے ‘ ان کی روحیں پاکیزہ ہوجاتیں اور وہ اس قابل ہوجاتے کہ بسہولت صحیح عقیدہ اپنا لیں اور یہ صورت حال پیش نہ آتی جو ابتداء ہی سے (لاالہ الا اللہ) کی نظریاتی جنگ چھیڑ دینے کی صورت میں پیش آئی کہ تمام عالم عرب کلمہ حق کے سامنے سینہ سپر ہوگیا ۔ لیکن میں یہی کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جاننے والا تھا کہ انقلابی عمل کا صحیح راستہ کون سا ہے ۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ صحیح اخلاق اور ٹھوس کردار کی تعمیر صرف عقیدہ اور نظریے ہی کی اساس پر ہو سکتی ہے ۔ یہ نظریہ ہی ہوتا ہے جو انسانوں کے لئے اخلاقی پیمانے وضع کرتا ہے ۔ عقیدہ ہی انسان کو اس ذات سے متعارف کراتا ہے جو اخلاقی قدروں اور اخلاقی اصول کا ماخذ ومصدر ہوتی ہے اور اس کی طرف سے جزاوسزا کا تعین بھی ہوتا ہے جو ان اصولوں کی نافرمانی کی صورت میں دی جائے گی اگر اس عقیدے کا تعین نہ ہو اور نظریات واضح نہ ہوں تو اس صورت میں جو اصلاحی کام بھی ہوگا ‘ جو اخلاقی بھی تعمیر ہوں گے وہ خام ہوں گے ۔ ان کا کوئی ضابطہ نہ ہوگا ‘ کوئی قوت نافذہ نہ ہوگی اور نہ ہی خلاف ورزی کی صورت میں جزاوسزا کا کوئی معقول انتظام ہوگا ۔ اس کے برعکس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو طریق کار اختیار کیا وہ کس قدر کامیاب ثابت ہوا ؟ اس کا اندازہ تحریک اسلامی کی تاریخ سے بخوبی ہوسکتا ہے ۔ آپ نے نظریات کا اعلان فرمایا ان کے لئے ان تھک جدوجہد کی ‘ لوگوں کے دل و دماغ میں اسلامی نظریات بیٹھ گئے ۔ ان نظریات کے خطوط پر ایک ریاست تشکیل پا گئی اور اس کا اقتدار مضبوط ہوگیا ۔ لوگوں نے اپنے رب کو پہچان لیا اور صرف اسی کی بندگی کرنے لگے ۔ انسان انسان کی بندگی سے آزاد ہوگیا اور ہر طرف (لاالہ الا اللہ) کی حکمرانی شروع ہوگئی ۔ اس نظریہ کے قائلین کی وہ پوری تربیت ہوگئی جو اللہ کو مطلوب تھی تو اس طریق کار کے عظیم الشان نتائج سامنے آگئے ۔ اس زمین کو رومیوں اور فارسیوں کے ناپاک نظاموں سے پاک کردیا گیا اور یہ کام اس لئے نہ کیا گیا تھا کہ وہاں رومیوں اور فارسیوں کی جگہ عربوں کی سلطنت قائم ہوجائے بلکہ صرف اس لئے کہ پورے کرہ ارض پر صرف اللہ تعالیٰ کی حکمرانی ہو اور اسے ان تمام طاقتوں سے ‘ علی السواء پاک کردیا جائے خواہ یہ رومی ہوں ‘ فارسی ہوں یا عربی ہوں۔ اس طریق کار کے مطابق جو انقلاب رونما ہوا اس کے اثرات یہ ہوئے کہ معاشرے کو ہر قسم کے ظلم وستم سے پاک کردیا گیا ۔ ایک خالص اسلامی نظام زندگی قائم ہوا جس کی اساس عدل و انصاف اور کلی مساوات پر تھی ۔ اس میں تمام انسانوں کے ساتھ یکساں سلوک ہونے لگا ۔ اجتماعی انصاف کا جھنڈا صرف خدائے واحد و برتر کے نام کا بلند ہوا اور اس میں اس کے ساتھ کوئی دوسرا نعرہ شریک نہ تھا ۔ اسلامی نظام کے علم پر صرف (لاالہ الا اللہ) لکھا ہوا تھا ۔ لوگوں کے اخلاق درست ہوگئے نفوس پاک ہوگئے ان کے دل اور روح آئینہ بن گئے ۔ وہ یوں پاک ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود وتعزیرات کے نفاذ کی ضرورت ہی پیش نہ آئی کیونکہ خود ہر فرد کے دل و دماغ میں کچھ چوکیدار بیٹھ گئے تھے ۔ یعنی اللہ کی رحمت کی امیدواری ‘ اس کی رضا جوئی اور عذاب آخرت کا ڈر ۔ یہ تھے وہ محافظ جو ہر وقت اس گروہ کے ہر فرد کے ساتھ لگے رہتے تھے ۔ اسلامی نظام کا اثر صرف عرب اور مسلم معاشرے تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس سے پوری انسانیت کو فائدہ پہنچا ۔ اس کی تنظیم اور اس کے اجتماعی نظم ونسق کو ترقی نصیب ہوئی اور اس نے وہ کمال حاصل کیا جو اس سے پہلے کبھی حاصل نہ کیا تھا ۔ یہ انقلاب اس خوش اسلوبی سے محض اس لئے وقوع پذیر ہوا کہ جن لوگوں نے اسلامی نظام حیات کو ایک ریاست ایک نظام ایک قانون اور ایک حکومت کی شکل میں قائم کرنے سے قبل اسے خود اپنی زندگیوں میں نافذ کر دیا تھا ‘ یہ دین ان کی زندگیوں میں رچ بس گیا تھا ۔ یہی ان کا عقیدہ تھا ‘ یہی ان کا اخلاق تھا ‘ یہی ان کی عبادت اور عام طرز عمل تھا۔ پھر ان لوگوں نے یہ کام کسی دنیاوی غرض کے لئے نہ کیا تھا بلکہ ان کے پیش نظر فلاح اخروی اور جنت الماوی تھی ۔ یہ تک مطلوب نہ تھا کہ انہیں یہاں غلبہ نصیب ہو یا انہی کے ہاتھوں سے نظام اسلامی کا قیام عمل میں آجائے بلکہ ان تمام کوششوں ان تمام ناقابل برداشت ابتلاؤں اور حق و باطل اور اسلام وجاہلیت کی اس طویل کشمکش کے صلے میں ان کی صرف ایک تمنا تھی ۔۔۔۔۔۔ یعنی رضائے الہی اور فلاح اخروی اور ان سب حقائق کے بالمقابل انہوں نے یہ کام اس عنوان سے کیا جو تاریخ انسانی کا معروف عنوان تھا یعنی (لاالہ الا اللہ) ہمیشہ اس نعرے کو خطرناک قرار دیا گیا خصوصا ان لوگوں کی طرف جو مناصب حکومت پر براجمان ہوتے تھے ۔ اقتدار کب ملتا ہے ؟ قرن اول کے ان لوگوں کو جب اللہ نے آزمایا تو وہ اس میں پورے اترے ۔ ان کے نفوس ہر قسم کی نفسیاتی آلائشوں سے پاک ہوگئے اور جب اللہ نے دیکھ لیا کہ وہ اس دنیائے فانی کے کسی ذلیل و حقیر مقصد کے لئے نہیں لڑ رہے ‘ یہاں تک کہ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ صرف انہی کے ہاتھوں اس دعوت کو کامیابی حاصل ہو اور اسلامی نظام حیات کا قیام عمل میں آجائے ۔ نیز ان کے دل قومیت اور وطنیت اور نسل پرستی ‘ کنبہ پروری اور قبائلی عصبیت جیسے فرو تر جذبات سے پاک ہوگئے اور انہیں ان روابط سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رہا ۔ ان میں وہ تمام مطلوب خوبیاں اور کمالات پید اہو گئے جو اللہ کو مطلوب تھے تو پھر خود اللہ نے فیصلہ کرلیا کہ یہ لوگ اب اس امانت کو سنبھالنے کے قابل ہوگئے ہیں ۔ یہ اس عقیدے اور نظریہ حیات کے امین ہوسکتے ہیں جس میں حاکمیت اور اقتدار اعلی صرف اللہ وحدہ لا شریک کا ہو کیونکہ یہ عقیدہ انکے دل وجاں میں جاگزیں ہوچکا ہے ۔ ان کے شعور و عمل کا جزو بن چکا ہے اور انکے جان ومال پر حاکم ہے وہ اس قابل ہوگئے ہیں کہ اقتدار اعلی ان کے سپرد کردیا جائے ۔ جس کے ذریعے وہ اللہ کی شریعت کو اس دنیا میں چلائیں اور خالص خدائی عدل و انصاف جاری کریں ‘ جو کچھ کریں وہ رضائے الہی کے حصول کیلئے کریں کیونکہ اسی نے یہ امانت ان کے سپرد کی ہے اور ان کے پیش نظر اپنی ذات اپنا خاندان اور اپنی قوم یا اپنا قبیلہ ہر گز نہ ہو ۔ غرض اسلامی نظام حیات کا قیام اور اس کی سربلندی صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ہم اس کے قیام کے لئے وہی طریق کار اختیار کریں جو حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں اختیار فرمایا یعنی (لاالہ الا اللہ) کا علم بلند کرنا اور اس کلمے کے ساتھ کسی اور کلمے ‘ نعرے اور نظرئیے کو شریک نہ کرنا ۔ اگرچہ بظاہر یہ طریق کار نہایت مشکل اور پر خطر تھا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہی حقیقت پسندانہ اور مناسب تھا اس لئے اسی کو اختیار کیا گیا ۔ اگر دعوت اسلامی کو ایک قومی تحریک ‘ وطنی تحریک یا کسی اجتماعی تحریک یا اخلاقی اور اصلاح معاشرہ کی تحریک کی شکل میں اٹھایا جاتا تو اس کے نتیجے میں بپا ہونے والا نظام حیات خالص خدائی نظام حیات نہ ہوتا اور اس تحریک کا علم وہ نہ ہوتا جو تحریک اسلامی کا تھا (لاالہ الا اللہ) یہ طریق کار کیوں ؟ پورے مکی دور میں قرآن کریم نے اسلام کی نظریاتی اساس (لاالہ الا اللہ) کو دل و دماغ میں بٹھائے کی کوشش کی اور اس کے لئے وہ پر آشوب طریق کار اختیار کیا گیا جس کا ذکر اوپر ہوا اور کسی وقت بھی اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا طریق کار اختیار نہ کیا گیا بلکہ ہمیشہ اس پر اصرار کیا گیا ۔ نیز قرآن مجید نے دعوت کے آغاز میں اور مکی دور میں صرف عقائد ونظریات ہی پر زور دیا اور نظام اسلامی کی فقہی اور شرعی تفصیلات کو نہ چھیڑا ۔ یہ طریق کار محض اتفاق طور پر نہیں اختیار کیا گیا بلکہ اس میں گہری حکمت کار فرما تھی ۔ دعوت اسلامی کے ہر کارکن کا یہ فرض ہے کہ وہ گہری سوچ بچار کر کے معلوم کرے کہ وہ حکمت کیا تھی ؟ حکمت یہ ہے کہ اس نظام حیات کے مزاج کا تقاضا ہی یہی تھا ۔ کیونکہ پورے نظام کی تشکیل اور تمام تر فقہی اور تشریعی ضوابط کی تعمیر وتدوین صرف اسی ایک اساس پر ہونی تھی یعنی عقیدہ توحید اسلامی نظام حیات کا اساسی نظریہ ۔ یوں سمجھئے کہ یہ دین گویا ایک تناور درخت ہے جو دور تک پھیلا ہوا ہے جس کی شاخیں لمبی اور گھنی ہیں ۔ اس کے بیشمار سایہ دار پتے ہیں اور وہ دور تک فضاء میں بلند ہوگیا ہے ‘ لیکن اس کے باوجود اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس تن اوری اور طول وعرض اور بلندی وضخامت کے لحاظ سے زمین کے اندر دور تک اس کی جڑیں گہری ہوں اور دور تک پھیلی ہوئی ہوں ۔ یہی مثال اسلامی نظام حیات کی بھی ہے ۔ وہ زندگی کا جو نظم پیش کرتا ہے وہ جامع و شامل ہے ۔ زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے ۔ ہر چھوٹے اور بڑے امر کے بارے میں فیصلے کرتا ہے ۔ یہ زندگی کے صرف دنیاوی دائرے تک محدود نہیں ہے بلکہ فلاح اخروی کا بھی ضامن ہے ۔ صرف دنیائے بینی وگوش ہی سے سروکار نہیں رکھتا بلکہ پردہ ہائے غیب کے اندر مستور ایک ” بڑے جہاں “ سے بھی گہری دلچسپی رکھتا ہے پھر اسے انسان کے صرف ظاہری اور مادی معاملات ہی سے دلچسپی نہیں بلکہ اس کا تعلق انسانی ضمیر کی گہرائیوں سے بھی ہے اور وہ انسان کے ” راز ہائے سینہ “ اور ” دنیائے نیات “ سے بھی گہرا ربط رکھتا ہے ۔ ہاں تو جب وہ ایک عظیم درخت ہے جس کی شاخیں حیات انسانی کے ایک وسیع تر خطے میں پھیلی ہوئی ہیں تو یہ امر نہایت ضروری ہوجاتا ہے کہ اس وسعت ’ اس ضخامت اور اس عمق اور پھیلاؤ کے مطابق ‘ اس کی جڑیں بھی کشت زار دل و دماغ میں نہایت ہی گہری ہوں ۔ (آیت) ” اصلھا ثابت فی الارض وفرعھا فی السمائ “ اسلامی نظام حیات کے مزاج اور اس کی تعمیری باریکیوں کا یہ ایک خاص پہلو ہے کہ وہ اپنی تعمیر اور پھیلاؤ میں ایک خاص طریق کار اختیار کرتا ہے ۔ وہ اس بات کو حد درجہ اہمیت دیتا ہے کہ اس کی نشوونما اور تعمیر جن عقائد ونظریات پر ہو رہی ہے وہ دل و دماغ میں غایت درجہ متمکن ہوجائیں ۔ نفس انسانی اور انسانی فکر وعمل کو پورے طور پر اپنے رنگ میں رنگ دیں ‘ اس کی جڑوں اور تناور شاخوں کے درمیان ایک خاص تناسب ہو اور جڑیں اس قدر مضبوط اور طاقتور ہوں کہ فضا میں پھیلی ہوئی بلند شاخوں اور بھاری تنوں کا بوجھ بسہولت سہار سکیں ۔ اس طریق کار کے مطابق جب کسی فرد اور گروہ کے دل و دماغ کی گہرائیوں تک (لاالہ الا اللہ) اتر جاتا ہے تو اس کی زندگی میں اس نظام حیات کی بنیاد پڑجاتی ہے جسے اس کلمہ پر تعمیر ہونا ہوتا ہے اور اس کی جھلک اس میں نظر آتی ہے جوں جوں اس نظام کی تفصیلات سامنے آتی جاتی ہیں لوگ برضا ورغبت انہیں اپناتے جاتے ہیں کیونکہ ان کی جڑیں پہلے سے ان کے دل میں ہوتی ہیں ۔ یہی معاملہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کا تھا کہ مکی دور کی اس فکری تطہیر اور صالح عقائد کی وجہ سے ان کے ذہن نہ صرف یہ کہ اسلامی احکام کے لئے آمادہ تھے بلکہ طالب تھے حالانکہ احکام کی تفصیلات ابھی تک پردہ اخفا میں تھیں ۔ دور اول میں ہمیں جو معجزانہ تسلیم وانقیاد نظر آتا ہے وہ فقط ایمان راسخ اور صالح نظریات کی تشکیل کا رہین منت ہے ۔ اس ایمان کے بعد حالت یہ تھی کہ شرعی احکامات آرہی ہیں ‘ نظم ونسق کے بارے میں ہدایات آرہی ہیں اور ان پر بےچوں وچرا اور کامل تسلیم ورضا کے ساتھ عمل ہو رہا ہے ۔ وہ موجودہ احکامات کے متنفر ہوجاتے ہیں اور جو حکم آجاتا ہے اس کی تعمیل پل بھر کی دیر نہیں کرتے ۔ یہی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے شراب نوشی ختم ہوئی ‘ سودی کاروبار کا نام ونشان تک نہ رہا ۔ قماربازی کا وجود ناپید ہوگیا اور تمام جاہلی عادات اور اوضاع واطوار یوں مٹے کہ گویا کبھی تھے ہی نہیں ‘ اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تمام کام چند احکام خداوندی نازل ہوتے ہی سرانجام پاگئے ‘ بس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے احکامات سننے کی دیر تھی ۔ اس کے برعکس ان نظاموں کا حال دیکھ لیجئے جن کی تعمیر اس طریق کار کے برعکس متعارف دنیاوی طریقوں کے مطابق ہوتی ہے ۔ آج کل اگر کوئی حکومت ان منکرات کو بند کرنا چاہتی ہے تو وہ قانون سازی کے ساتھ مقننہ ‘ انتظامیہ کے تمام محکمہ جات ‘ پولیس اور فوج اور نشرواشاعت کے تمام ذرائع کو پوری جدوجہد کے ساتھ کام میں لاتی ہے ‘ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پھر بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ چند ظاہری اور خلاف قانون چیزوں پر ہی کنٹرول کرسکتی ہیں جب کہ معاشرے کی اندرونی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ منہیات اور منکرات سے اٹا پڑا ہوتا ۔ (تحریم شراب کے سلسلے میں ملاحظہ ہو میری تفسیر فی ظلال القرآن جلد ٥ از ص ٨٧ تا ص ١٠٨ منقح ایڈیشن نیز ملاحظہ ہو الاستاذ المودودی کی کتاب ” تنقیحات “ بحوالہ ماذا حسرالعالم بانحطاط المسلمین ۔ از ابو الحسن علی الندوی) نظریہ اور تحریک ساتھ ساتھ : اس مضبوط طریق کار کا سمجھ لینے سے ‘ اس دین کے مزاج اور خصوصیات کا ایک اور پہلو بھی روشن ہو کر سامنے آجاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ یہ دین درحقیقت ایک بہترین عملی اور متحرک پروگرام ہے اور یہ آیا ہی اس لئے ہے کہ زندگی کے تمام واقعات حقائق پر حکمران ہو ۔ یہ زندگی کے حقائق کا سامنا اس حیثیت سے کرتا ہے کہ ان پر اپنے اوامر نافذ کرے ۔ انہیں برقرار رکھے ‘ یا بدل دے یا سرے سے منسوخ کردے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس دین میں قانون سازی صرف انہیں امور کے متعلق ہوتی ہے جو واقع ہوچکے ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جس نے ابتدائی طور پر صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اقرار کرلیا ہو۔ یہ دین کوئی ایسا ” نظریہ “ نہیں ہے جو محض مفروضات سے دلچسپی رکھتا ہو ‘ بلکہ یہ ایک ایسا نصب العین اور پروگرام ہے جس کا معاملہ تمام ترواقعات حیات سے ہے ۔ لہذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پہلے ایک ایسا معاشرہ موجود ہو جو (لاالہ الا اللہ) کا اقرار کرے ۔ یعنی کہ حاکمیت اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے اور اس کے ساتھ اللہ کے سوا تمام دوسرے لوگوں کی حاکمیت کا انکار کرے ۔ ایسے تمام طور طریقوں کو ترک کردے جو اس قاعدے کے خلاف ہوں اور نہ ہی انہیں جائز سمجھے ۔ جب ایسے معاشرے کا قیام فعلا ہوجائے تو اس وقت محض ایک خیالی معاشرے کے بجائے وہ ایک حقیقی اور زندہ معاشرہ ہوگا جسے تنظیم اور قانون سازی کی ضرورت پڑے گی ۔ ایسے حالات میں پھر یہ دین اس معاشرے کی اجتماعی زندگی کی تنظیم شروع کردیتا ہے اور قانون سازی کا کام شروع ہوجاتا ہے ۔ یہ قانون سازی اس قوم کے لئے ہوتی ہے جو دل وجان سے نظم و قانون کی مطیع ہوچکی ہے اور جس نے تمام غیر دینی نظاموں اور قوانین کو سرے سے ترک کردیا ہے ۔ اس صورت حال کے پیش نظر ضروری ہوجاتا ہے کہ جو لوگ ایسے نظریات و عقائد کے حامل ہوں ‘ انہیں خود اپنے آپ اور اپنے معاشرے پر خود مختاری حاصل ہو ‘ جو اس معاشرے میں اس نظام حیات کے نافذ کرنے کی ضامن ہو ‘ تاکہ لوگوں کے دل میں اس نظام کا احترام ہو ۔ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ شریعت ایک حقیقت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایسے حالات بھی موجود ہوں جو فوری نظم ونسق اور قانون سازی کے متقاضی ہوں ۔ اقامت دین کے لئے حکومت کی ضروت : جب مسلمان مکہ میں تھے تو انہیں اپنے امور میں خود مختاری حاصل نہ تھی ۔ نہ معاشرے پر انہیں کوئی اختیار حاصل تھا اور نہ ہی ان کی زندگی اس طرح مستقل اور آزاد تھی کہ وہ خود ہی اسے اللہ کی شریعت کے مطابق چلا سکتے ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس لئے زندگی کے اس دور میں صرف عقائد نازل ہوئے ۔ عقائد کی مضبوطی اور پختگی کے بعد ایسے اخلاقی احکامات آئے جو ان عقائد پر مبنی تھے ‘ لیکن جس وقت مدینہ طیبہ میں انہوں نے اپنی ایک مستقل حکومت قائم کرلی جس میں وہ بالکل خود مختار تھے ‘ تو اس وقت اسلامی معاشرتی قوانین کا نزول شروع ہوا ‘ مسلم معاشرے کے لئے ایک ایسا نظام متعین ہوا جو اس کی تمام حقیقی ضروریات کا متکفل تھا ۔ یہ ایسا نظام تھا جس کی پشت پر ایک حکومت اور ایک قوت نافذہ بھی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ نہ تھی کہ وہ مکہ مکرمہ ہی میں قوانین اتار دیں تاکہ وہ خزانہ قوانین میں تیار رکھے ہوں اور مدینہ طیبہ میں حکومت بنتے ہی نافذ کردیئے جائیں ۔ یہ طریق کار اس دین کے مزاج کے خلاف ہے ۔ یہدین ایک نہایت ہی حقیقت پسندانہ اور واقعیت جویانہ دین ہے ۔۔۔۔۔ وہ از خود مشکلات فرض کرکے ان کے لئے حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتا ، بلکہ وہ صرف ان امور کی طرف متوجہہوتا ہے جو حقائق ہوں ۔ ایسے حقیقی مسلم معاشرے کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس نے اللہ کی شریعت کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ہو اور اس کے سوا تمام دینوں سے منہ پھیر لای ہو ۔ اس کا سلوک بعینہ اس معاشرے کی وسعت ‘ اس کی نوعیت اور اس کے ظروف واحوال کے مطابق ہوتا ہے تاکہ قوانین ‘ معاشرے کی نوعیت ‘ وسعت اور حالات و ضروریات کے مطابق ہوں۔ لوگ اس وقت اسلام سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ نظریات وضع کرے ‘ مجوزہ نظام حیات کے طور طریقے اور شکلیں متعین کرے اور زندگی کے لئے مفصل قوانین واضع کرے ‘ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت کرہ ارض پر کوئی ایسا معاشرہ موجود نہیں ہے جس نے عملا اس بات کا اقرار کرلیا ہو کہ اس میں صرف خدا کی شریعت کی حکمرانی ہوگی اور اس نے تمام غیر اسلامی وقوانین کو ترک کردیا ہو یا اس کے پاس اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے قوت نافذہ بھی ہو ۔ جو لوگ اسلام سے ایسی توقعات رکھتے ہیں انہوں نے درحقیقت اس دین کے مزاج ہی کو نہیں پایا ۔ بدقسمتی سے وہ نہیں جانتے کہ یہ دین اللہ کے پسندیدہ طریق کار کے مطابق کس طرح عملی شکل اختیار کیا کرتا ہے ۔ اس طرز پر سوچنے والے لوگوں کا اصل منشاء درحقیقت یہ ہوتا ہے کہ وہ اس دین کے مزاج ‘ اس کے طریق کار اور اس کی تاریخ کو بدل دیں تاکہ وہ انسانی نظریات اور انسانی طریق ہائے حیات کے مطابق ہوجائے ۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ دین ‘ اپنے طریق کار اور اقدامات کو چھوڑ کر ان کی وقتی خواہشات اور نفسانی تقاضوں کو پورا کرے ۔ یہ ایسی خواہشات ہیں جو انسان کے وضع کردہ چھوٹے بڑے نظامہائے حیات کے مقابلے میں ان کی روحانی اور اندرونی شکست خوردگی کی آئینہ دار ہیں ۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ دین اپنے آپ کو جدید نظریات اور مفروضات کی شکل میں ڈھال لے اور ایسے مستقبل کی طرف متوجہ ہو جو سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ لیکن اللہ نے اس دین کے لئے وہی طریق کار مقرر فرمایا ہے جو اسے پسند ہے یعنی یہ کہ وہ ایک عقیدہ ہو جو دل دماغ پرچھا جائے ۔ انسانی ضمیر پر اس کی حکومت ہو۔ اس عقیدے کا لازمی تقاضا یہ ہو کہ اس کا ماننے والا اللہ کے سوا کسی کے آگے نہ جھکے اور یہی عقیدہ قانون و شریعت کا ماخذ بھی ہو اور اس کے سوا کوئی دوسرا ماخذ نہ ہو ۔ جب اس عقیدے کے حاملین موجود ہوں اور انہیں اپنے معاشرے پر اقتدار بھی حاصل ہو تو پھر ان کی واقعی ضروریات کے لئے قانون سازی کا کام شروع ہو اور اس کے مطابق ان کی واقعی زندگی کی تنظیم وتشکیل کی جائے ۔ یہ ہے وہ طریق کار جسے اللہ نے اس دین کی اقامت کے لئے منتخب فرمایا ہے ۔ آپ یقین کریں کہ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے رہیں لوگون کی نفسانی خواہشات سو جو ہوتی ہیں ہوا کریں ۔ دعوت اسلامی کے حاملین کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس طریق کار کے مطابق جب بھی وہ لوگوں کو دین کی طرف بلائیں ‘ انہیں سب سے پہلے اسلامی نظریہ حیات سے روشناس کرائیں ۔ یہ بات صرف غیر مسلموں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جو لوگ اپنے آپ کو مسلم کہلاتے ہیں اور مردم شماری کا ریکارڈ بھی گواہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں ‘ ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ (لاالہ الا اللہ) کانٹے سرے سے اقرار کریں ‘ اس کے مفہوم اور مراد کو سمجھیں ۔ حاکمیت کو خاصہ خدا سمجھیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور یہ بھی زندگی کے ایک محدود دائرے میں نہیں بلکہ پوری زندگی میں اس کے ساتھ ساتھ وہ ان لوگوں کی حاکمیت کا بھی صاف صاف انکار کردیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حق حاکمیت کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے ۔ یہ اقرار دل کی گہرائیوں سے پورے شعور کے ساتھ ہو اور اس کا اظہار انسانی زندگی کے عملی طور طریقوں اور حقائق میں بھی ہو رہا ہو ۔ پہلے فکری اصلاح اور پھر قانونی اصلاح : لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیئے کی اساس یہی نظریاتی اقرار ہونا چاہئے ۔ یہی اقرار اول روز سے دعوت اسلامی کی بنیاد رہا ہے ۔ مکہ مکرمہ میں پورے تیرہ سال تک قرآن مجید اسی کی طرف بلاتا رہا ۔ جب (لاالہ الا اللہ) کا یہ مفہوم سامنے رکھتے ہوئے ایک اچھی خاصی جمعیت دین اسلام میں داخل ہوگئے ‘ تو اس گروہ پر اسلامی معاشرے کا اطلاق ہونے لگا ‘ یعنی وہ معاشرے نے فیصلہ کرلیا ہوتا ہے کہ آئندہ اس کی پوری زندگی کا ارتقاء اس عقیدے کی بنیاد پر ہوگا اور یہ کہ وہ اپنی پوری زندگی میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حکمران تسلیم کرے گا ۔ جب اسلامی نظام حیات کی اساس مستحکم ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اسلامی نظام کے تفصیلی منصوبے کا نفاذ شروع ہوجاتا ہے ۔ معاشرے کی فعال طاقتیں خود بخود ایسے اسلامی قوانین کا اجراء شروع کردیتی ہیں ‘ جن کا تعلق معاشرتی زندگی کی حقیقی ضروریات سے ہوتا ہے ۔ نظریاتی اساس کی پختگی کے بعد جو تفصیلی قوانین وضع ہوتے ہیں وہ اسلامی نظام کے نظریاتی اصولوں کی روشنی میں ہوتے ہیں ۔ غرض اسلامی نظام کے نفاذ اور قیام کا یہی صحیح اور متوازن طریق کار کے ذریعے ان زریں ‘ عملی اور واقعیت پسند اصولوں کا نفاذ ممکن نہیں ہے ۔ تحریک اسلامی کے بعض مخلص لیکن جلد باز کارکنوں کا خیال یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے نظام اسلامی کے بنیادی تصورات ہی نہیں بلکہ تفصیلی تشریعات   Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi