Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 101

سورة الأنعام

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۱﴾

[He is] Originator of the heavens and the earth. How could He have a son when He does not have a companion and He created all things? And He is, of all things, Knowing.

وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اللہ تعالٰی کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے حالانکہ اس کے کوئی بیوی تو ہے نہیں اور اللہ تعالٰی نے ہرچیز کو پیدا کیا اور وہ ہرچیز کو خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Meaning of Badi` Allah said; بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ ... He is the Badi` of the heavens and the earth, Meaning He originated, created, invented and brought them into existence without precedence, as Mujahid and As-Suddi said. This is why the word for innovation - Bid`ah - comes from it, because it is something that did not have a precedence. ... أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ ... How can He have children when He has no wife! for the child is the offspring of two compatible spouses. Allah does not have an equal, none of His creatures are similar to Him, for He alone created the entire creation. Allah said; وَقَالُواْ اتَّخَذَ الرَّحْمَـنُ وَلَداً لَقَدْ جِيْتُمْ شَيْياً إِدّاً And they say: "The Most Beneficent (Allah) has begotten a son." Indeed you have brought forth (said) a terrible evil thing. (19:88-89) until, وَكُلُّهُمْ اتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا (And everyone of them will come to Him alone on the Day of Resurrection. (19:95) ... وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ He created all things and He is the All-Knower of everything. He has created everything and He is All-Knower of all things. How can He have a wife from His creation who is suitable for His majesty, when there is none like Him! How can He have a child then! Verily, Allah is Glorified above having a son.

اللہ بےمثال ہے وحدہ لاشریک ہے زمیں و آسمان کا موجد بغیر کسی مثال اور نمونے کے انہیں عدم سے وجود میں لانے والا اللہ ہی ہے ۔ بدعت کو بھی بدعت اسی لئے کہتے ہیں کہ پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ہوتی ، بھلا اس کا صاحب اولاد ہونا کیسے ممکن ہے جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں ، اولاد کیلئے تو جہاں باپ کا ہونا ضروری ہے وہیں ماں کا وجود بھی لازمی ہے ، اللہ کے مشابہ جبکہ کوئی نہیں ہے اور جوڑا تو ساتھ کا اور جنس کا ہوتا ہے پھر اس کی بیوی کیسے؟ اور بیوی نہیں تو اولاد کہاں ؟ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور یہ بھی اس کے منافی ہے کہ اس کی اولاد اور زوجہ ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا ) 19 ۔ مریم:88 ) لوگ کہتے ہیں اللہ کی اولاد ہے ۔ ان کی بڑی فضول اور غلط افواہ ہے عجب نہیں کہ اس بات کو سن کر آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ رحمن اور اولاد؟ وہ تو ایسا ہے کہ آسمان و زمین کی کل مخلوق اس کی بندگی میں مصروف ہے ۔ سب پر اس کا علبہ سب پر اس کا علم سب اس کے سامنے فرداَ فرداً آنے والے ۔ وہ خالق کل ہے اور عالم کل ہے ۔ اس کی جوڑ کا کوئی نہیں وہ اولاد سے اور بیوی سے پاک ہے اور مشرکوں کے اس بیان سے بھی پاک ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے میں واحد ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اس طرح وہ اس لائق ہے اس اکیلے کی عبادت کی جائے، عبادت میں کسی اور کو شریک نہ بنایا جائے۔ لیکن لوگوں نے اس ذات واحد کو چھوڑ کر جنوں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے، حالانکہ وہ خود اللہ کے پیدا کردہ ہیں مشرکین عبادت تو بتوں کی یا قبروں میں مدفون اشخاص کی کرتے ہیں لیکن یہاں کہا گیا ہے کہ انہوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے، بات دراصل یہ ہے کہ جنات سے مراد شیاطین کے کہنے سے ہی شرک کیا جاتا ہے اس لئے گویا شیطان ہی کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورة نساء۔ 117 سورة مریم۔ 44 سورة یٰسین 60، سورة سبا۔ 41۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] اس نے زمین و آسمان کو بغیر کسی مادہ کے اور بغیر کسی سابقہ نقشہ یا نظیر کے وجود بخشا۔ اس سے مادہ پرستوں کا رد ہوا۔ اور چونکہ اس کی بیوی ہی نہیں لہذا اللہ کا کوئی بیٹا اور بیٹی بھی نہیں ہوسکتے۔ اس سے یہود و نصاریٰ اور مشرکین سب کا رد ہوا۔ یہود عزیر کو ابن اللہ کہتے تھے اور نصاریٰ سیدنا عیسیٰ کو اور مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور دوسرے ممالک کے مشرکوں نے تو اس قدر اللہ کے بیٹے بیٹیاں بنا ڈالے جن کا شمار بھی مشکل ہے۔ انہوں نے تو ایسے دیوی دیوتاؤں کی پوری نسل ہی چلا دی۔ حالانکہ یہ سب چیزیں اللہ کی مخلوق ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ: بدیع کا معنی ہے کسی چیز کو بغیر نمونے کے پیدا کرنے والا، یعنی ان کا پہلے کوئی نمونہ موجود نہ تھا، اس نے ان کو ایجاد فرمایا۔ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ ۔۔ : مشرکین کی تردید کے بعد اب ان کی تردید کی ہے جو اللہ کی اولاد مانتے تھے۔ فرمایا، اللہ کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے، جب کہ اولاد تو وہ ہوتی ہے جو بیوی کے ذریعے سے پیدا ہو اور اگر کسی کو بیوی کے بغیر بنایا جائے تو وہ مخلوق ہوتی ہے نہ کہ اولاد، جیسا کہ آسمان و زمین کی پیدائش یا آدم (علیہ السلام) کی پیدائش۔ (رازی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ۝ ٠ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ۝ ٠ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ ١٠١ بدع الإِبْدَاع : إنشاء صنعة بلا احتذاء واقتداء، ومنه قيل : ركيّة بَدِيع أي : جدیدة الحفروإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فهو إيجاد الشیء بغیر آلة ولا مادّة ولا زمان ولا مکان، ولیس ذلک إلا لله والبدیع يقال للمُبْدِعِ نحو قوله تعالی: بَدِيعُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ البقرة/ 117] ، ويقال للمبدع نحو : ركيّة بدیع، وکذلک البِدْعُ يقال لهما جمیعا بمعنی الفاعل والمفعول، وقوله تعالی: قُلْ ما كُنْتُ بِدْعاً مِنَ الرُّسُلِ [ الأحقاف/ 9] قيل : معناه : مبدعا لم يتقدّمني رسول، وقیل : مبدعا فيما أقوله . والبِدْعةُ في المذهب : إيراد قول لم يستنّ قائلها وفاعلها فيه بصاحب الشریعة وأماثلها المتقدمة وأصولها المتقنة، وروي : «كلّ محدثة بدعة، وكلّ بدعة ضلالة، وكلّ ضلالة في النّار» والإِبْدَاع بالرّجل : الانقطاع به لما ظهر من کلال راحلته وهزالها ( ب د ع ) الا بداع ۔ کسی کی تقلید اوراقتداء کے بغیر کسی چیز کو ایجاد کرنا ۔ اسی سے کھودے ہو ہوئے کنویں کو وکیہ بدیع کہا جاتا ہے ۔ جب ابداع کا لفظ اللہ عزوجل کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں بغیر آلہ بغیر مادہ اور بغیر زمان ومکان کے کسی شئے کو ایجاد کرنا اور یہ معنی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے ۔ اور البدیع بمعنی مبدع بھی آیا ہے جیسے فرمایا : بَدِيعُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ البقرة/ 117] وہی آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ( 2 ۔ 117 ) اور بمعنی مبدع ( اسم مفعول ) بھی آجاتا ہے جیسے زکیہ بدیع ( نیا کھودا ہوا کنواں ) اسی طرح بدعا کا لفظ بھی اسم فاعل اور اسم مفعول دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ما كُنْتُ بِدْعاً مِنَ الرُّسُلِ [ الأحقاف/ 9] کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں ہوں ( 942 ) میں بدعا بمعنی مبدع بھی ہوسکتا ہے یعنی پیغمبر ایسا کہ مجھ سے پہلے کوئی پیغمبر نہ آیا ہو اور بمعنی مدع کے بھی یعنی میں کوئی نئی بات نہیں کہتا ۔ البدعہ مزہب میں نئی بات داخل کرنا جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کی اقتدا نہ کرے اور نہ ہی سلف صالحین اور اصول شریعت سے اس کا ثبوت ملتا ہو ایک روایت میں ہے 25 ) کل محدثہ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار کہ ہر نئی رسم بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ۔ الابداع بالرجل سواری کے ماندہ اور دبلا ہونے کی وجہ سے رفقا د سے منقطع ہوجانا ؟ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ ( صاحبة) ، مؤنث صاحب، اسم فاعل من صحب الثلاثي، وزنه فاعلة . شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠١۔ ١٠٢) وہ ذات تو آسمان و زمین کو پیدا کرنے والی ہے، اللہ کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے، حالانکہ کہ اس کے کوئی بی بی تو ہے نہیں، تمہارا پروردگار یہ ہے جو ان تمام چیزوں کا خالق ہے اور وحدہ لاشریک ہے۔ اسی کی توحید بیان کرو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک مت ٹھہراؤ وہ تمام مخلوق کا کارساز ہے یا یہ کہ ان کی روزیوں کا کار ساز ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠١ (بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط) یہ لفظ (بدیع ) سورة البقرۃ کی آیت ١١٧ میں بھی آچکا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے اور اس کے معنی ہیں عدم محض سے کسی چیز کی تخلیق کرنے والا۔ (اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌط وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍج وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ) اللہ تعالیٰ کی اولاد بتانے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ جب اس کی کوئی شریک حیات ہی نہیں ہے تو اولاد کیسے ہوگی ؟ در اصل کائنات اور اس کے اندر ہرچیز کا تعلق اللہ کے ساتھ صرف یہ ہے کہ وہ ایک خالق ہے اور باقی سب مخلوق ہیں۔ اور وہ ایسی علیم اور خبیر ہستی ہے کہ اس کی مخلوقات میں سے کوئی شے اس کی نگاہوں سے ایک لمحے کے لیے بھی اوجھل نہیں ہو پاتی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(101 ۔ 102) ۔ اللہ تعالیٰ نے پانی قدرت کے ایک اور نمونہ کا یہ ذکر فرمایا کہ جس طرح دنیا میں لوگ کسی چیز کا نمونہ دیکھ کر اس کے موافق کوئی چیز بنالیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو اس طرح نہیں پیدا کیا بلکہ اس قادر مطلق نے بغیر کسی نمونے اور مثال کے اپنی قدرت سے آسمان زمین کو نیست سے ہمت کیا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر وبن العاض (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں یہ ہے کہ آسمان و زمین کو اس طرح نہیں پیدا کیا بلکہ اس قادر مطلق نے بغیر کسی نمونے اور مثال کے اپنی قدرت سے آسمان زمین کو نیست سے ہمت کیا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمروبن العاض (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں یہ ہے کہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ قیامت تک پیدا ہونے والا تھا اس سب کا اندازہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھا ہے اور اس اندازہ کے لکھنے کے وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اس سے معلوم ہوا کہ پانی عرش لوح محفوظ قلم ان چیزوں کی پیدائش آسمان اور زمین کی پیدائش سے پہلے ہے مسند امام احمد اور ترمذی میں عباوہ بن صامت (رض) کی حدیث ہے جس کو ترمذی نے صحیح کہا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم اور لوح محفوظ کو پیدا کیا ہے ٣ ؎ اس حدیث کا مطلب علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ پانی اور عرش کے بعد اور سب چیزوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ اور قلم کو پیدا کیا ہے یہ مطلب بالکل صحیح اور عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی صحیح حدیث کے موافق ہے حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ سب کچھ سلسلہ بہ سلسلہ اسی قدیم ذات کا پیدا کیا ہوا ہے اس سلسلہ سے پہلے سوا اس کی ذات کے اور کچھ نہ تھا پھر ان نیست سے ہست ہونے والی چیزوں کو نہ اس کی ذات کہ کے ساتھ کچھ مناسبت ہے نہ اس نامناسبتی کے سبب سے کسی کوس کی بی بی یا اولاد کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جس نے سب کچھ پیدا کیا عبادت کے قابل وہی ایک معبود ہے۔ جس کو ہر ایک کی فرمانبرداری اور نافرمانی کا ذرا ذرا حال معلوم ہے اور تمام عالم کی نگہبانی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ نہ آسمان کی مجال ہے کہ اس کے حکم کے بغیر زمین پر گر پڑے اور اہل زمین کو ہلاک کر دیوے نہ سمندر کو یہ طاقت کہ اپنی حد سے بڑھ کر دنیا کو ڈبو دیوے۔ غور کرنے سے لے گنتی مثالیں دنیا میں اس طرح کی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم کے پیدا کرنے کے بعد عالم کی ہر ایک چیز کی نگہبانی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے دنیا میں کسی کام کا انتظام کسی شخص کو سونپا جاوے تو اپنے سونے کے وقت وہ شخص اس انتظام کی نگہبانی سے بیخبر ہوجاتا ہے اس لیے ہر وقت کی نگہبانی کے ثبوت کی غرض سے صحیح مسلم کو ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ سوتا نہیں ہے اور سونا اس کو سزاوار بھی نہیں ہے کیونکہ رات دن کے تمام عالم کے انتظام کی نگہبانی اس کے ہاتھ ہے رات کہ لوگوں کے سب عمل دن سے پہلے اور دن کے رات سے پہلے اس کے روبر وہ پیش ہو کر ان کی سزا وجزا کی حد قائم ہوجاتی ہے اسی طرح لوگوں کے رات دن کے رزق اور روزی وغیرہ کا انتظام اس کے روبرو پیش رہتا ہے اس قسم کی اور بھی صحیح حدیثیں ہیں جس میں انسان کی پیدائش موت وحیات کے طرح کے انتظام کا ذکر ہے یہ حدیثیں آیت کے ٹکڑے وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَکِیْل کی گویا تفسیر ہیں :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:101) بدیع۔ الابداع۔ کسی کی تقلید اور اقتداء کے بغیر کسی چیز کو ایجاد کرنا۔ اسی سے نئے کھودے ہوئے کنویں کو وکیۃ بدیع کہتے ہیں۔ جب ابداع کا لفظ اللہ عزوجل کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں بغیر آلہ۔ بغیر مادہ اور بغیر زمان و مکان کے کسی شے کو ایجاد کرنا اور یہ معنی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے مختص ہیں۔ بدیع بمعنی مبدع یعنی اس چیز کا پیدا کرنے والا جس کی سابق میں کوئی مثال نہ ہو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ انی۔ کس طرح، کیونکر، کیسے، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ انی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا (2:259) اللہ تعالیٰ ان بستیوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعن ان کا پہلے کوئی نمونہ موجود نہ تھا اس نے ان کو ایجاد فرمایا مشرکین کی تردید کے بعد ان کی تردید کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی اولاد مانتے تھے۔ (رازی)10 اور بیٹا وہی ہوتا ہے جو بیوی کو ذریعے پیدا ہو اور اگر کسی کو بیوی کے بغیر بنایا جائے تو وہ مخلوق ہوتا ہے نہ بیٹا جیسا کہ آسمان زمین کی پیدائش یا آدم ( علیہ السلام) کی خلق (رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : توحید کے دلائل دیتے ہوئے مشرکوں کے عقیدہ کی بےثباتی ثابت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک قرار دیا ہے۔ آیت ٩٥ تا ٩٩ میں نباتات، آفاق، انسان کی پیدائش اور اس کی عارضی اور مستقل قیام گاہ کا حوالہ دے کر۔ غور وفکر کی کی دعوت دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بلا شرکت غیرے ایمان لانے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن شرک ایسا مہلک مرض ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ماؤف ہوجاتی ہیں جس کی بنا پر کسی شہادت اور دلیل کے بغیر لوگ جنات، ملائکہ، شمس وقمر، نباتات و جمادات یہاں تک کہ اپنے جیسے بلکہ اپنے سے بھی کم تر انسانوں، دیوانوں، مجذوبوں اور حو اس باختہ لوگوں کو کائنات کے نظام میں دخیل اور اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک سمجھ کر نہ صرف انھیں مشکل کشا اور حاجت روا خیال کرتے ہیں بلکہ ملائکہ، جنات کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں اور بعض شخصیات کو اللہ تعالیٰ کی اولاد تصور کرتے ہیں تاکہ خدا کی خدائی میں ان کی شراکت ثابت کی جاسکے۔ جیسا کہ یہودیوں نے جناب عزیر (علیہ السلام) اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور ان کی والدہ حضرت مریم [ کو خدا کی بیوی قرار دیا ہے۔ اللہ کی ذات کسی کی شراکت سے مبرا اور اولاد کی حاجت سے بےنیاز ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک ٹھہرانا مشرکوں کی ذہنی پستی اور فکری دیوانگی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے باطل تصور ات اور ہر قسم کی یاوا گوئی سے پاک اور مبرّا ہے کائنات کی تخلیق کے لیے بدیع کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا کہ جس اللہ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے اوپر نیچے سات آسماں اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کی ہیں۔ اسے اولاد کی کیا حاجت ہے ؟ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلبی سکون کا باعث، اس کی زندگی کا سہارا، معاملات میں اس کی معاون اور اس کے سلسلۂ نسب قائم رہنے کا وسیلہ ہے۔ اولاد ہونے کا منطقی نتیجہ ہے کہ اس کی بیوی ہو کیونکہ بیوی کے بغیر اولاد کا تصور محال ہے جبکہ فرشتوں اور جنات کو خدا کی بیٹیاں، بعض انبیاء (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دینے سے اللہ تعالیٰ کی بیوی ثابت کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اولاد کسی نہ کسی طرح باپ کے مشابہ اور اس کی ہم جنس اور ہم نسل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان حاجات اور تمثیلات سے پاک ہے۔ مشرک بتائیں کہ زمین و آسمانوں میں کون سی چیز اللہ تعالیٰ کی مشابہ اور ہم جنس ہے ؟ پھر کائنات کی ہر چیز کی ابتداء، انتہا اور اس کے لیے فنا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس وقت بھی تھی جب کچھ نہیں تھا اور وہ اس وقت بھی ہوگی جب ہر چیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی۔ کائنات کی ہر چیز پر حالات و واقعات کے منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ ایک ہی حالت پر قائم ودائم ہے۔ وہ ضعف و کمزوری اور نقص و نقصان سے پاک ہے۔ نہ اس کی ذات سے کوئی چیز پیدا ہوئی اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے وہ ہر چیز کا خالق ومالک اور ذمہ دار ہے۔ وہ زمین کے ذرّے ذرّے اور آسمانوں کے چپہ چپہ کو جاننے اور ہر انسان کے خیالات سے واقف ہے اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ مشرک کس بنا پر شرک کرتے ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ یُؤْذِینِی ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ بِیَدِی الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ )[ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران، باب ومایہلکنا الا الدہر ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے اس کا مجھے تکلیف دینا یہ ہے کہ وہ زمانے کو گا لیاں دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں۔ میرے ہاتھ میں ہی معاملات ہیں میں ہی رات دن کو پھیرتا ہوں۔ “ (عن أَنَس بن مالِکٍ (رض) یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَنْ یَبْرَحَ النَّاسُ یَتَسَاءَ لُونَ حَتّٰی یَقُولُوا ہَذَا اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَمَنْ خَلَقَ اللّٰہَ )[ رواہ البخاری : کتاب الإعتصام بالکتاب والسنۃ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگ باہم ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَزَال النَّاسُ یَتَسَاءَ لُونَ حَتّٰی یُقَالَ ہٰذَا خَلَقَ اللّٰہُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللّٰہَ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْءًا فَلْیَقُلْ آمَنْتُ باللّٰہِ ورسلہ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان الوسوسۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ کہا جائے گا مخلوق اللہ نے پیدا کی ہے لیکن اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ جو شخص اس قسم کے خیالات پائے اسے یہ کہنا چاہیے میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ کسی کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی قرار دینا بہت بڑا شرک ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے شرک سے پاک اور مبّرا ہے۔ ٣۔ آسمانوں اور زمین کو بنانے والا صرف اللہ ہے۔ ٤۔ ساری کائنات کو بنانے والا صرف اللہ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا بخوبی علم ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ بہترین کار ساز ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے : ١۔ اللہ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٢۔ آپ فرما دیں اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی واحدا ور قہار ہے۔ (الرعد : ١٦) ٣۔ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے۔ (الزمر : ٦٢) ٤۔ کیا اللہ کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں روزی دیتا ہے۔ (الفاطر : ٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” بَدِیْعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنَّی یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُن لَّہُ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْْء ٍ وہُوَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ(101) ” وہ تو آسمان اور زمین کا موجد ہے ‘ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس کی کوئی شریک زندگی ہی نہیں ہے ۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔ “ اللہ تو وہ ہے جو اس پوری کائنات کو عدم مطلق سے وجود میں لایا لہذا اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ کسی کو اپنا خلف تجویز کرے ۔ خلف اور پسماندگان تو اس ذات کے لئے ہوتے ہیں جو فانی ہو ۔ اور یا جو کمزور ہو اور اسے امداد کی ضرورت ہو ‘ یا جنہیں دیکھ کر وہ خوش ہوسکے ۔ پھر ان لوگوں کو معلوم ہے کہ توالد وتکاثر کا ضابطہ کیا ہوتا ہے ۔ کسی شخص کے لئے اس ہی کی جنس سے ایک مادہ جوڑ ہوتا ہے ۔ جب اللہ کی بیوی ہی نہیں ہے تو بیٹا کیسے ہوگا اور وہ ان چیزوں سے پاک بھی ہے ۔ اس جیسی تو کوئی چیز ہی نہیں ہے لہذا کس طرح ممکن ہے کہ بغیر شادی کے نسل چلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو حقیقت ہے لیکن قرآن کریم اس حقیقت کو ان کے لئے قریب الفہم بنا دیتا ہے اور ان کے ساتھ خطاب میں ان کی فہم کو ملحوظ رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے مشاہدات کے رنگ میں بات کو سمجھ سکیں۔ یہاں قرآن کریم ان کی تردید میں صرف حقیقت تخلیق کو پیش کرتا ہے تاکہ شرک کا کوئی سایہ تک باقی نہ رہے ۔ یوں کہ کسی صورت میں بھی مخلوق خالق کے ساتھ شریک نہیں بن سکتی ۔ کیونکہ خالق اور مخلوق کی حقیقت ہی جدا ہوتی ہے اور دوسری دلیل اللہ یہ دیتے ہیں کہ اللہ ہی حقائق کا علم رکھتا ہے اور ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے ۔ (آیت) ” وَخَلَقَ کُلَّ شَیْْء ٍ وہُوَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ(101) یعنی خلق بھی اس کا ہے اور علم بھی وہی رکھتا ہے ۔ جس طرح اس سے قبل قرآن کریم نے مشرکین مکہ کی تردید کرتے ہوئے یہ کہا کہ ” اللہ نے ہر چیز کی تخلیق کی ہے ۔ “ اور اس سے ان کے ان تصورات کی تردید کردی گئی اور بتادیا گیا کہ اللہ کے بیٹے بیٹیاں کیسے ہوسکتی ہیں جبکہ اللہ کی کوئی شریک زندگی ہی نہیں ہے یا اللہ کا کوئی شریک خود اس کی مخلوق سے کیسے بن سکتا ہے ‘ تو یہاں دوبارہ اللہ کی صفت تخلیق کو لایا جاتا ہے تاکہ یہ بات ثابت کی جاسکے کہ چونکہ وہ خالق ہے اس لئے وہی معبود ہوگا اور ہمیں چاہئے کہ ہم صرف اسی کی بندگی کریں اور اپنی زندگی میں پورا دین صرف اس کا نافذ کریں اسی لئے کہ خالق وہی ہے ۔ اس کے سوا کوئی اللہ اور حاکم نہیں ہو سکتا اور نہ ان کا اس کے سوا کوئی رب ہو سکتا ہے ۔۔۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کے عقائد شرکیہ اور اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنے والوں کی تردید فرماتے ہوئے مزید فرمایا (بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ) کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کا اور زمین کا بےمثال پیدا فرمانے والا ہے اس نے عالم سفلی اور عالم علوی کو پیدا فرمایا۔ آسمان و زمین کا مادہ پیدا فرمایا اور آسمان کو سات طبق بنا دیا اور زمین کو پھیلا دیا۔ ایسے خالق اور بےمثال صانع اور مبدع کو اولاد کی کچھ حاجت نہیں۔ کیونکہ اولاد کی ضرورت مدد کے لیے ہوتی ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ سورة سبا میں فرمایا۔ (مَا لَھُمْ فیھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّ مَالَہٗ مِنْھُمْ مِّنْ ظَھِیْرٍ ) مزید فرمایا (اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ) یعنی اس کی اولاد کیسے ہوگی حالانکہ اس کے ساتھ والی یعنی بیوی نہیں ہے۔ اولادبیوی سے پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی کوئی بیوی نہیں اور نہ ہوسکتی ہے کیونکہ اس میں احتیاج الی الغیر ہے جب اس کی بیوی نہیں اور نہ ہوسکتی ہے تو اولاد کیسے ہوسکتی ہے۔ (وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ ) اور اس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں وہ مخلوق بھی ہے جسے اللہ کی اولاد بتاتے ہیں۔ خالق مخلوق کے درمیان رشتہ ولادت کہاں ہوسکتا ہے اور مخلوق اپنے خالق کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے لوگوں نے جو اولاد تجویز کی ہے انہوں نے خالق کا مرتبہ نہیں پہچانا اور اپنی جہالت سے اللہ پاک کے لیے اولاد تجویز کر بیٹھے۔ (وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ) (اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے) اسے مشرکین کے عقائد شرکیہ کا علم ہے، اور وہ ان کے اعمال شرکیہ سے بھی باخبر ہے وہ ان سب کا مواخذہ فرمائے گا اور سزا دیگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

108 یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے نفی ولد پر چار دلیلیں ذکر فرمائی ہیں یہ پہلی دلیل ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے علم علوی اور عالم سفلی کو عجیب و غریب نظام کے ساتھ پیدا فرمایا ہے وہ فاعل علی الاطلاق ہے۔ اسے کسی ولد یا نائب کی ضرورت نہیں۔ دوسری دلیل اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ الخ یعنی اللہ تعالیٰ کے بیٹا کس طرح ہوسکتا ہے حالانکہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ مطلب یہ کہ تم اللہ کی طرف صاحبہ کی نسبت تو نہیں کرتے ہو لیکن ولد کی نسبت کیوں کرتے ہو حالانکہ ولد صاحبہ (بیوی) کے بغیر نہیں ہوسکتا یعنی اگرچہ تم حقیقی ولد کی نسبت نہیں کرتے ہو لیکن ولد کی طرح نائب تو کہتے ہو جو سراسر غلط ہے۔ تیسری دلیل وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ اس نے تو ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے۔ ہر چیز اس کی مخلوق ہے۔ جسے تم اللہ کا ولد کہتے ہو وہ بھی اللہ کی مخلوق ہے تو کس طرح ہوسکتا ہے کہ مخلوق اپنے خالق کی ولد ہو۔ چوتھی دلیل وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو اس کا ولد ہو۔ پہلی، تیسری اور چوتھی دلیل سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ولد یعنی نائب نہیں اور دوسری دلیل سے ولد حقیقی کی نفی کی گئی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

101 وہی آسمانوں اور زمین کا موجد اور ان کا ایجاد کرنے والا ہے اس کے لئے اولاد کس طرح ہوسکتی ہے حالانکہ اس کی کوئی بیوی اور زوجہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔