Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 113

سورة الأنعام

وَ لِتَصۡغٰۤی اِلَیۡہِ اَفۡئِدَۃُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ وَ لِیَرۡضَوۡہُ وَ لِیَقۡتَرِفُوۡا مَا ہُمۡ مُّقۡتَرِفُوۡنَ ﴿۱۱۳﴾

And [it is] so the hearts of those who disbelieve in the Hereafter will incline toward it and that they will be satisfied with it and that they will commit that which they are committing.

اور تاکہ اس طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجائیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور تاکہ اس کو پسند کرلیں اور تاکہ مرتکب ہوجائیں ان امور کے جن کے وہ مرتکب ہوتے تھے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ ... And Tasgha to it. According to Ibn Abbas, means, "incline to it." ... أَفْيِدَةُ الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِالاخِرَةِ ... the hearts of those who do not believe in the Hereafter... their hearts, mind and hearing. As-Suddi said that; this Ayah refers to the hearts of the disbelievers. ... وَلِيَرْضَوْهُ ... And that they may remain pleased with it. they like and adore it. Only those who disbelieve in the Hereafter accept this evil speech, being enemies of the Prophets, etc., just as Allah said in other Ayat, فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مَأ أَنتُمْ عَلَيْهِ بِفَـتِنِينَ إِلاَّ مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ So, verily, you (pagans) and those whom you worship (idols). Cannot lead astray. Except those who are predestined to burn in Hell! (37:161-163) and, إِنَّكُمْ لَفِى قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ يُوْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ Certainly, you have different ideas. Turned aside therefrom is he who is turned aside. (51:8-9) Allah said; ... وَلِيَقْتَرِفُواْ مَا هُم مُّقْتَرِفُونَ And that they may commit what they are committing. According to Ali bin Abi Talhah who reported from Ibn Abbas that; meaning, "let them earn whatever they will earn," As-Suddi and Ibn Zayd also commented, "Let them do whatever they will do."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

113۔ 1 یعنی شیطانی وسوسہ کا شکار وہی لوگ ہوتے ہیں اور وہی اس کو پسند کرتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جو آخرت میں ایمان نہیں رکھتے۔ اور یہ حقیقت ہے کی جس حساب سے لوگوں کے اندر عقیدء آخرت کے بارے میں ضعف پیدا ہو رہا ہے، اسی حساب سے لوگ شیطانی جال میں پھنس رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٧] ایسی مکر و فریب والی تدابیر یہ شیاطین اس لیے کرتے ہیں کہ جن لوگوں کا ایمان لانے کا ارادہ ہو وہ ان کے بھرے میں آجائیں اور یہ سمجھ لیں کہ ہم پہلے سے جس دین پر قائم ہیں وہی حق اور درست ہے۔ پھر اپنی تمام مساعی اپنے اسی پرانے دین کی مدافعت میں صرف کرنے لگیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِتَصْغٰٓى اِلَيْهِ ۔۔ : اس کا عطف ” غُرُوْرًا “ پر ہے، یعنی ” لِیَغُرُّوْا بِذٰلِکَ وَ لِتَصْغٰی “ ” تاکہ وہ اس کے ساتھ دھوکا دیں اور تاکہ ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اس (جھوٹ) کی طرف مائل ہوں۔ “ یہ توجیہ ان تمام توجیہوں سے بہتر ہے جو یہاں کی گئی ہیں۔ (رازی) وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوْا۔۔ : ” اِکْتَسَبَ یَکْتَسِبُ “ اچھی یا بری دونوں کمائیوں کو کہتے ہیں، جبکہ ” اِقْتَرَفَ یَقْتَرِفُ “ برے اعمال کمانے کو کہتے ہیں، یعنی ان شیاطین کے پیش نظر اس وحی سے یہ سب مقاصد ہیں۔ (رازی) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ یہ کئی آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب کفار کہنے لگے کہ مسلمان اپنا مارا ہوا جانور کھاتے ہیں اور اللہ کے مارے ہوئے کو حرام سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسی فریب کی باتیں شیطان کرتے ہیں، تاکہ انسانوں کو شبہات میں ڈالا جائے۔ عقل کا حکم نہیں، حکم اللہ کا ہے۔ آگے پھر واضح طور پر سمجھایا گیا کہ ہر جانور کو مارنے والا اللہ ہی ہے اور اس کے نام میں برکت ہے، سو جو اس کے نام پر ذبح ہوا وہ حلال ہے اور جو اس کے نام کے بغیر مرگیا وہ مردار ہے۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِتَصْغٰٓى اِلَيْہِ اَفْـــِٕدَۃُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَلِيَرْضَوْہُ وَلِيَقْتَرِفُوْا مَا ہُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ۝ ١١٣ صغا الصَّغْوُ : المیل . يقال : صَغَتِ النّجومُ ، والشمس صَغْواً مالت للغروب، وصَغَيْتُ الإناءَ ، وأَصْغَيْتُهُ ، وأَصْغَيْتُ إلى فلان : ملت بسمعي نحوه، قال تعالی: وَلِتَصْغى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ [ الأنعام/ 113] ، وحكي : صَغَوْتُ إليه أَصْغُو، وأَصْغَى، صَغْواً وصُغِيّاً ، وقیل : صَغَيْتُ أَصْغَى، وأَصْغَيْتُ أُصْغِي وصَاغِيَةُ الرّجلِ : الذین يميلون إليه، وفلانٌ مُصْغًى إناؤُهُ أي : منقوص حظّه، وقديكنّى به عن الهلاك . وعینه صَغْوَاءُ إلى كذا، والصَّغْيُ : ميل في الحنک والعین . ( ص غ و ی ) الصغو ( ن ) کے معنی جھکنے اور مائل ہونے کے ہیں مثلا صغت النجوم والشمش ( ستاروں یا سورج کا مائل یہ غروب ہوتا ۔ صغیت الاناء و اصغیتۃ میں نے بر تن کو مائل کردیا ۔ جھکا دیا اصغیت الیٰ فلان میں نے اس کی طرف کان لگایا ۔ اس کی بات سننے کے لئے مائل ہوا قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَصْغى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ [ الأنعام/ 113] اور ( وہ ایسے کام ) اسلئے بھی ( کرتے تھے ) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ۔ ان کے دل اس کی طرف مائل رہیں ۔ اور کلام عرب میں صغوت الیہ اصغو صغوا وصغیت اصغی صغیا ( دونوں طرح ) منقول ہے اور بعض نے اصغیت اضغی یعنی باب افعال بھی استعمال کیا ہے اور جو لوگ کسی کے طر فداری اور حمایتی ہوں ۔ انہیں صاغیۃ الرجل کہا جاتا ہے فلان مضغی اناءہ فلاں بد نصیب ہے اور کبھی یہ ہلاکت سے بھی کنایہ ہوتا ہے ۔ عنیہ صغواء الیٰ کذا وہ فلاں چیز کی طرف مائل ہے اور اصغی کے معنی تالو یا آنکھ میں کجی کے ہیں ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. ( ف ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، قرف أصل القَرْفِ والِاقْتِرَافِ : قشر اللّحاء عن الشّجر، والجلدة عن الجرح، وما يؤخذ منه : قِرْفٌ ، واستعیر الِاقْتِرَافُ للاکتساب حسنا کان أو سوءا . قال تعالی: سَيُجْزَوْنَ بِما کانُوا يَقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 120] ، وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 113] وَأَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها [ التوبة/ 24] . والِاقْتِرَافُ في الإساءة أكثر استعمالا، ولهذا يقال : الاعتراف يزيل الاقتراف، وقَرَفْتُ فلانا بکذا : إذا عبته به أو اتّهمته، وقد حمل علی ذلک قوله : وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 113] ، وفلان قَرَفَنِي، ورجل مُقْرِفٌ: هجين، وقَارَفَ فلان أمرا : إذا تعاطی ما يعاب به . ( ق ر ف ) القعف والا اقترا ف کے اصل معنی در کت سے چھال اتار نے اور زخم سے چھلکا کرید نے کے ہیں اور جو چھال یا چھلکا اتارا جاتا ہے اسے قرف کہا جاتا ہے اور بطور استعار ہ اقراف ( افتعال کمات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہسب اچھا ہو یا برا جیسے فرمایا : ۔ سَيُجْزَوْنَ بِما کانُوا يَقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 120] وہ عنقریب اپنے کئے کی سزا پائیں گے ۔ وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 113] اور جو کام وہ کرتے تھے وہی کرنے لگیں ۔ وَأَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها[ التوبة/ 24] اور مال جو تم کماتے ہو ۔ لیکن اس کا بیشتر استعمال برے کام کرنے پر ہوتا ہے اسی بنا پر محاورہ ہے الا اعتراف یز یل الا قترا ف کہ اعتراف جرم جر م کو مٹا دیتا ہے میں نے فلاں پر تہمت لگائی اور آیت کریمہ : وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 113] کو بھی بعض نے اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ فلان قرفنی فلاں نے مجھ پر تہمت لگائی ۔ رجل مقرف دو غلا آدمی قارف فلان امرا اس نے برے کام کا ارتکاب کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٣) کفار یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان چکنی چپڑی باتوں کی طرف ان لوگوں کے دل مائل ہوجائیں جو بعث بعد الموت پر ایمان نہیں رکھتے اور شیاطین سے وہ باتوں کو قبول کرلیں تاکہ مرتکب ہوجائیں ان امور کے جن کے وہ پہلے کفار مرتکب ہوئے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلِیَرْضَوْہُ وَلِیَقْتَرِفُوْا مَا ہُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ ) ۔ اس فلسفے کو ایک مثال سے سمجھئے۔ پانی کا electrolysis کریں تو negative اور positive چارج والے آئنز (ions) الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں حق و باطل کی جو کشاکش رکھی ہے ‘ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کھرے اور کھوٹے کی ionization ہوجاتی ہے۔ اہل حق نکھر کر ایک طرف ہوجاتے ہیں اور اہل باطل دوسری طرف۔ اس طرح انسانی معاشرے میں اچھے اور برے کی تمیز ہوجاتی ہے۔ جیسے کہ ہم سورة آل عمران (آیت ١٧٩) میں پڑھ چکے ہیں : (حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ ط) تاکہ وہ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے۔ معاشرے کے اندر عام طور پر پاک اور ناپاک عناصرگڈ مڈ ہوئے ہوتے ہیں ‘ لیکن جب آزمائشیں اور تکلیفیں آتی ہیں ‘ امتحانات آتے ہیں تو یہ خبیث اور طیب عناصر واضح طور پر الگ الگ ہوجاتے ہیں ‘ منافق علیحدہ اور اہل ایمان علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں یہی فلسفہ بیان ہوا ہے کہ شیاطین انس و جن کو کھل کھیلنے کی مہلت اسی حکمت کے تحت فراہم کی جاتی ہے اور منکرین آخرت کو بھی پورا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ان شیاطین کی طرف سے پھیلائے ہوئے بےسروپا نظریات کی طرف مائل ہونا چاہیں تو بیشک ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:113) تصغی۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ وہ چھکتی ہے۔ وہ جھکتے ہیں۔ صغو اور صغی سے (باب سمع۔ نصر) اصغی الیٰ حدیثہ۔ کان لگانا۔ کان دھرنا۔ اصغی الیہ سننے کے لئے جھکنا۔ جھکنا۔ مائل کرنا۔ الیہ اور یرضوہ میں ہ ضمیر ان وسوسوں اور ملمع فریب کی باتوں کی طرف راجع ہے جو شیاطین جن و انس ایک دوسرے کو سکھاتے اور دوسرے لوگوں کے دلوں میں ڈالتے تھے۔ یقترفوا۔ مضارع جمع مذکر غائب اقتراف (افتعال) سے ۔ وہ کمائیں ۔ وہ کریں۔ اقتراف کے اصل معنی درخت سے چھال اتارنے کے ہیں اور زخم سے چھلکا کریدنے کے۔ جو چھال یا چھلکا اتارا جاتا ہے اسے قرب کہتے ہیں۔ اور بطور استعارہ اقترف کمانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہ کسب اچھا ہو یا برا جیسے قرآن پاک میں ہے سیجزون بما کانوا یفترفون (6:120) وہ عنقریب اپنے کئے کی سزا پائیں گے۔ اور و اموال ن اقترفتموھا (9:24) اور مال جو تم کماتے ہو۔ لیکن اس کا بیشتر استعمال برے کام کرنے پر ہوتا ہے۔ ولتصغی الیہ۔ معطوف ہے غرورا پر ۔ کہ دھوکہ میں رکھیں ۔۔ ان کو۔ اور یہ کہ مائل ہوجائیں اس کی طرف ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اسی طرح ولیرضوہ اور ولیقترفوا کا عطف بھی غرورا پر ہے۔ یعنی اس لئے کہ وہ ان ملمع باتوں کو پسند کرنے لگیں۔ اور جو گناہ وہ کر رہے ہیں وہ کرتے رہیں۔ (اور حق و صداقت کی طرف سے غافل اور دھوکہ میں رہیں)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یہ شیاطین ایک دوسرے کا چالبازیاں اور مکاریاں سکھاتے ہیں ( وحیدی) اس کا عطف غیر و دار ہے ای لیغرو ابذالک ولتصغی الیہ الخ۔ یہ توجیہ ان سب توجیہات سے ہتر ہے جو اس مقام پر ذکر کی گئی ہیں۔ ( رازی)8 یعنی اس وحی کے مطابق شیاطین کے پیش نظر یہ سب مقاصد ہیں۔ رازی) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ کئی آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب کفار کہنے لگا کہ مسلمان اپنا مارا ہو جانور کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مارے ہوئے جانور کو حرام سمجھتے ہیں فرمایا کہ ایسی فریب کی باتیں شیطان کرتے ہیں تاکہ انسان کو شبہات میں ڈا لا جائے عقل کا حکم اللہ کا ہے۔ آگے پھر واضح طورسمجھا یا گیا کہ ہر جانور کو مانے والا اللہ ہی ہے اور اس کے نام میں برکت ہے سو جو اس کے نام پر ذبح ہو وہ حلال ہے اور جو اس کے نام کے بغیر مرگیا وہ مردرار ہے۔ (از مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ لِتَصْغٰٓی اِلَیْہِ اَفْءِدَۃُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ ) اور وہ لوگ فریب دینے والی باتوں کے وسوسے اس لیے ڈالتے ہیں کہ ان کی طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجائیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ وَلِیَرْ ضَوْہُ تاکہ وہ اسے پسند کرلیں۔ (وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا ھُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ ) اور تاکہ ان کاموں کے مرتکب ہوتے رہیں جن کا ارتکاب کرتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

122:۔ یعنی مائل ہوجائیں اِلَیْہِ کی ضمیر زخرف القول کی طرف راجع ہے وَلِتَصْغیٰ جعلنا کے متعلق ہے ولیرضوہ ولیقترفو۔ لتصغی پر معطوف ہیں۔ یعنی تاکہ وہ اسی زخرف القو، جھوٹی بات کو پسند کریں اور بد اعمالیوں میں منہمک رہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

113 اور یہ لوگ اس لئے ایسا کرتے تھے تاکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی فریب آمیز باتوں کی طرف مائل ہوجائیں اور یہ کہ وہ ان باتوں کو پسند کریں اور جب پسند کرلیں تو جو کچھ کر رہے ہیں وہ کئے جائیں، ینی جب آخرت کا دھیان ہی نہیں آئے گا تو توبہ کی توفیق بھی نہ ہوگی اور جوبدکرداریاں کر رہے ہیں اسی میں مبتلا رہیں گے اول تو آخرت پر پورا ایمان نہیں پھر اس پر سے رنگ آمیز باتوں کے وسوسے سے تو لامحالہ ان کا نتیجہ وہی ہونا تھا جو ارشاد فرمایا۔