Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 147

سورة الأنعام

فَاِنۡ کَذَّبُوۡکَ فَقُلۡ رَّبُّکُمۡ ذُوۡ رَحۡمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ ۚ وَ لَا یُرَدُّ بَاۡسُہٗ عَنِ الۡقَوۡمِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۱۴۷﴾

So if they deny you, [O Muhammad], say, "Your Lord is the possessor of vast mercy; but His punishment cannot be repelled from the people who are criminals."

پھر اگر یہ آپ کو کاذب کہیں تو آپ فرما دیجئے کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت والا ہے اور اس کا عذاب مجرم لوگوں سے نہ ٹلے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, فَإِن كَذَّبُوكَ ... If they deny you, Allah says, if your opponents among the idolators, Jews and their likes reject you, O Muhammad, ... قُل رَّبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ ... Say: "Your Lord is the Owner of vast mercy..." encouraging them to seek Allah's vast mercy and follow His Messenger, ... وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ and never will His wrath be turned back from the people who are criminals. discouraging them from defying the Messenger, the Final Prophet, Muhammad. Allah often joins encouragement with threats in the Qur'an. Allah said at the end of this Surah: إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ Surely, your Lord is swift in retribution, and certainly He is Oft-Forgiving, Most Merciful. (6:165) Allah also said, وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ But verily, your Lord is full of forgiveness for mankind in spite of their wrongdoing. And verily, your Lord is (also) severe in punishment. (13:6) and, نَبِّىءْ عِبَادِى أَنِّى أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَأَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الاٌّلِيمُ Declare unto My servants, that truly, I am the Oft-Forgiving, the Most Merciful. And that My torment is indeed the most painful torment. (15:49-50) and, غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ The Forgiver of sin, the Acceptor of repentance, the Severe in punishment. (40:3) and, إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ إِنَّهُ هُوَ يُبْدِىءُ وَيُعِيدُ وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ Verily, the punishment of your Lord is severe and painful. Verily, He it is Who begins and repeats. And He is Oft-Forgiving, full of love. (85:12-14) There are many other Ayat on this subject.

مشرک ہو یا کافر توبہ کر لے تو معاف! اب بھی اگر تیرے مخالف یہودی اور مشرک وغیرہ تجھے جھوٹا بتائیں تو بھی تو انہیں میری رحمت سے مایوس نہ کر بلکہ انہیں رب کی رحمت کی وسعت یاد دلاتا کہ انہیں اللہ کی رضا جوئی کی تبلیغ ہو جائے ، ساتھ ہی انہیں اللہ کے اٹل عذابوں سے بچنے کی طرف بھی متوجہ کر ۔ پس رغبت رہبت امید ڈر دونوں ہی ایک ساتھ سنا دے ۔ قرآن کریم میں امید کے ساتھ خوف اکثر بیان ہوتا ہے اسی سورت کے آخر میں فرمایا تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے اور غفور و رحیم بھی ہے اور آیت میں ہے ( اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِيْمٍ ) 43- فصلت:41 تیرا رب لوگوں کے گناہوں پر انہیں بخشنے والا بھی ہے اور وہ سخت تر عذاب کرنیوالا بھی ہے ایک آیت میں ارشاد ہے میرے بندوں کو میرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے بڑے ہی درد ناک ہونے کی خبر پہنچا دے اور جگہ ہے وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والاے نیز کئی آیتوں میں ہے تیرے رب کی پکڑ بڑی بھاری اور نہایت سخت ہے ۔ وہی ابتداء کرتا ہے اور وہی دوبارہ لوٹائے گا وہ غفور ہے ، ودود ہے ، بخشش کرنے والا ہے ، مہربان اور محبت کرنے والا ہے اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

147۔ 1 اس لئے تکذیب کے باوجود عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ 147۔ 2 یعنی مہلت دینے کا مطلب ہمیشہ کے لئے عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا نہیں ہے۔ وہ جب بھی عذاب دینے کا فیصلہ کرے گا تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ كَذَّبُوْكَ ۔۔ : یعنی اگر تم اب بھی نافرمانی کی روش چھوڑ کر حق کی سیدھی راہ اختیار کرلو تو اپنے رب کے دامن رحمت کو اپنے لیے کھلا پاؤ گے، لیکن اگر اپنی موجودہ روش پر اڑے رہے تو یہ مت سمجھو کہ اللہ کا عذاب تم پر سے ٹل گیا ہے، جب اس کا عذاب آتا ہے تو مجرموں اور سرکشوں کو کوئی چیز اس سے بچا نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ آیت کے پہلے حصے ” ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ۚ“ میں ترغیب (شوق دلانا) ہے اور آخری حصہ ” وَلَا يُرَدُّ بَاْسُهٗ “ میں ترہیب ( ڈرانا) ہے اور یہ قرآن کا خاص انداز نصیحت ہے۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ۝ ٠ ۚ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ۝ ١٤٧ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ بؤس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء/ 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام/ 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة/ 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف/ 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود/ 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن، ( ب ء س) البؤس والباس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے { وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا } ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے { فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ } ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے { وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ } ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ { بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ } ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ { بِعَذَابٍ بَئِيسٍ } ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ { فَلَا تَبْتَئِسْ } ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٧) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تحریم وتحلیل کے متعلق جو کچھ آپ نے ان سے بیان کیا ہے اگر آپ کی وہ تکذیب کریں تو فرمادیجئے کہ تمہارا رب رحمت والا ہے نیک وبد سے عذاب کو موخر کرتا ہے تاہم اس کا عذاب مشرکوں سے نہیں ٹلے گا ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٧ (فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَّبُّکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ ج) ۔ یعنی اس جرم کی پاداش میں وہ تمہیں فوراً نہیں پکڑ رہا اور نہ فوراً معجزہ دکھا کر تمہاری مدت یا مہلت عمل ختم کرنے جا رہا ہے ‘ بلکہ اس کی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ ابھی تمہیں مزید مہلت دی جائے ۔ (وَلاَ یُرَدُّ بَاْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ ) ۔ جب اس کی طرف سے گرفت ہوگی تو (اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ ) (البروج ) کے مصداق یقیناً بڑی سخت ہوگی اور پھر کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس گرفت کی سختی کو ٹال سکے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

123. If they could still give up their disobedience and return to the true service of God, they would find Him ready to embrace them with His mercy. But if they persisted, they should remember that no one could save them from His wrath.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :123 یعنی اگر تم اب بھی اپنی نافرمانی کی روش سے باز آجاؤ اور بندگی کے صحیح رویہ کی طرف پلٹ آؤ تو اپنے رب کے دامن رحمت کو اپنے لیے کشادہ پاؤ گے لیکن اگر اپنی اسی مجرمانہ و باغیانہ روش پر اڑے رہو گے تو خوب جان لو کہ اس کے غضب سے بھی پھر کوئی بچانے والا نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

78: جھٹلانے والوں سے یہاں براہ راست تو یہودی مراد ہیں، کیونکہ وہ اس بات کا انکار کرتے تھے کہ مذکورہ چیزیں ان پر ان کی سرکشی کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں۔ ضمنا اس میں مشرکین عرب بھی داخل ہیں جو قرآنِ کریم کی ہر بات کا انکار کرتے تھے جس میں یہ بات بھی شامل تھی۔ دونوں فریقوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اگر ان کے قرآن کو جھٹلانے کے باوجود ان پر کوئی فوری عذاب نہیں آرہا ہے، بلکہ دُنیا میں انہیں خوشحالی بھی میسر ہے، تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے عمل سے خوش ہے۔ اس کے بجائے حقیقت یہ ہے کہ اس دُنیا میں اﷲ تعالیٰ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ ہ اپنے باغیوں کو بھی رزق دیتا ہے، اور خوشحالی سے نوازتا ہے۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ ان مجرموں کو ایک نہ ایک دن عذاب ضرور ہوگا جسے کوئی ٹلا نہیں سکتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر کی آیت میں فرمایا تھا بعض حلال چیزیں یہود پر جو حرام ہوگئی ہیں وہ ان لوگوں کی سرکشی کی سزا میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے حرام ہوئی ہیں یعقوب (علیہ السلام) کے حرام ٹھہرانے سے حرام نہیں ہوئی اس آیت میں فرمایا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان لوگوں کے دل جانتے ہیں کہ جو بات اللہ تعالیٰ نے فرمائی وہی سچی ہے اس پر ضد سے یہ لوگ تم کو جھٹلاویں تو ان سے کہہ دیا جاوے کہ یہ اللہ کی مہربانی کی سمائی کا سبب ہے جو تم لوگ باوجود سرکشی اور طرح طرح کے گناہوں کے اب تک عذاب الٰہی سے بچے ہوئے ہو لیکن یہ عادت الٰہی ہے کہ کثرت گناہوں کے سبب سے جب کسی گنہگار قوم پر عذاب آجاتا ہے تو پھر وہ نہیں ملتا صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذرہ ذرہ سی بات پر جو عذاب الٰہی ہونے والا ہے اگر اس کا پورا حال لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو پھر کوئی شخص اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو آیت میں اللہ کی رحمت اور عذاب کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز آن کر راہ راست پر آنے کا قصد کریں تو اللہ کی رحمت بہت بڑی ہے ورنہ اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے کہ جس کی سختی کو کوئی کم کرسکتا ہے نہ اس کو کوئی ٹال سکتا ہے۔ اس مکی آیت میں قرآن کی پیشین گوئی کا یہ ایک معجزہ ہے جس کا ظہور ہجرت کے بعد ہوا کہ یہود کے تین قبیلے بنی قینقاع۔ بنی نضیر۔ بنی قریظہ جو مدینہ کے گرد و نواح میں رہتے تھے ان میں سے بنی قینقاع اور بنی نضیر کا اخراج ہوا اور بنی قریظہ کا قتل۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:147) یرد۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب رد مصدر (باب نصر) لا یرد۔ نہیں لوٹا یا جائے گا۔ باسہ۔ اس کا عذاب۔ مضاف مضاف الیہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اگر تم اب بھی نافرمانی کی روز چھوڑ کر حق کی سیدھی راہ اختیار کرلو تو اپنے رب کے دامن رحمت کو اپنے لیے کشادہ پاو گے لیکن اگر اپنی موجودہ روش پر اڑے رہے تو یہ مت سمجھو کہ اللہ کا عذاب تم پر سے ٹل گیا ہے۔ جب اس کا عذاب آتا ہے تو مجرموں اروسر کشوں کو کوئی چیز اس سے نہیں بچاسکتی، یہ اللہ تعالیٰ کی ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ آیت کے حصہ ذو رحمتہ واسعتہ میں تر غیب ہے۔ اور آخری حصہ میں تر ہیب ہے اور یہ خا ص قرآن کا انداز نصیحت ہے۔ ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اس لیے بعض حکمتوں سے جلدی مواخذہ نہیں فرماتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١٤٧۔ اس کا دامن رحمت بہت وسیع ہے اور یہ رحمت ہمارے لئے بھی وسیع ہے اور اس سے پہلے کے مومنین کے لئے بھی وسیع تھی اور مومنین کے علاوہ تمام مخلوقات کے لئے بھی اس میں وسعت ہے کیونکہ وہ تو محسن ہے ۔ دوست کے لئے بھی رحیم ہے اور دشمن کے لئے بھی رحیم ہے ۔ اگر مجرم عذاب کے مستحق ہوں تو بھی وہ نفاذ عذاب میں جلدی نہیں کرتا اور یہ اس کی شان کریمی ہے اور اس ڈھیل کے عرصہ میں کئی لوگ توبہ کرلیتے ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن ان کا عذاب نہایت ہی سخت ہے ۔ صرف اس کا حلم ہی اسے اہل ایمان سے رد کرسکتا ہے ۔ اللہ کے نظام فضا وقدر میں جو وقت متعین ہے اس وقت تک ہی وہ مؤخر ہو سکتا ہے ۔ اس آیت میں اگرچہ شمع امید کو بھی روشن رکھا گیا ہے اور انسان کو مایوس نہیں کیا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں بھی تنبیہ بھی موجود ہے کہ وہ حد سے نہ گزرے اور اللہ وہ ذات ہے جس نے لوگوں کے دل و دماغ کو پیدا کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان کے لئے یہ دونوں باتیں ضروری ہیں تاکہ وہ ڈر جائیں ‘ اپنے رویے پر غور کریں اور دعوت اسلامی کو قبول کرلیں ۔ جب بات یہاں تک پہنچتی ہے اور اہل ضلالت کے لئے کوئی مفر نہیں رہتا ۔ جب ان کے پاس کوئی استدلال نہیں رہتا اور تمام بھاگنے کے راستے بند ہوجاتے ہیں تو قرآن کریم ان کے فرار کے آخری راستے کو بھی بند کردیتا ہے ۔ ان کے گمراہانہ تصورات ‘ شرکیہ عقائد اور بےمعنی اعمال کے لئے ایک راہ موجود تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ وہ اپنا کوئی اختیار نہیں رکھتے ‘ وہ تو مجبور ہیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ نہ ایسے تصورات رکھتے ‘ نہ غلط عقائد ان کے ہوتے اور نہ وہ بداعمالیوں میں مبتلا ہوتے ۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ ہمیں ان باتوں سے روک دیتا ۔ وہ تو قادر مطلق ہے اور اس کی قدرت پر کوئی قید نہیں ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا۔ (فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَّبُّکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ ) یعنی اگر وہ آپ کی تکذیب کریں اور تکذیب کے لیے بہانہ بنائیں کہ اگر آپ سچے ہیں اور ہم مجرم ہیں تو ہم پر اللہ کا عذاب کیوں نہیں آتا تو آپ ان کو جواب دیں کہ تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے وہ اپنی حکمت کے مطابق جب چاہتا ہے عذاب بھیجتا ہے اس کی طرف سے سزا دینے میں ڈھیل دیے جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ تمہارا مواخذہ نہ ہوگا۔ جب اس کا عذاب آتا ہے تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا۔ مجرمین جب گرفتار عذاب ہوتے ہیں تو ان کا چھٹکارا نہیں ہوتا۔ ١ ؂ قیل جمع حاویۃ کزاویۃ وزاویۃ وزاویا ووزنہ فواعل۔ و اصلہ حواوی فقلبت الواو التیھی عین الکلمۃ ھمزۃ لانھا ثانی حرفی لین۔ اکتنفا مدۃ مفاعل ثم قلبت الھمزۃ المکسورۃ یاء ثم فتحت لثقل الکسرۃ علی الیاء فقلبت الیاء الاخیرۃ القًا لتحرکھا بعد فتحۃ فصارت حوایا اوقلبت الواو ھمزۃ مفتوحۃ ثم الیاء الاخیرۃ الفاثم المھزۃ یاء لوقوعھا بین الفین کمافعل بخطایا۔ (ذکرہ صاحب الروح ص ٤٨: ج ٨)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

164 یہ لوگ اللہ کے حکم پر مغرور ہیں اور تکذیب پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ آپ فرما دیں بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ لیکن اس کا عذاب بھی بڑا سخت اور اٹل ہوتا ہے جو کسی مجرم سرکش و معاند سے ٹل نہیں سکتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

147 پھر اے پیغمبر اگر اس تحلیل و تحریم کو بیان کرنے کے بعد بھی یہ یہود اور مشرکین آپ کی تکذیب کریں اور آپ کو جھٹلائیں تو آپ فرما دیجیے کہ تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت کا مالک ہے یعنی یہ اس کی وسعت رحمت ہے کہ نافرن اور گناہ گار بھی اس کی رحمت سے محروم نہیں ہیں اور باوجود تکذیب رسل کے عذاب میں جلدی نہیں ہوتی ہاں ! جو وقت عذاب کا مقرر ہے اسی وقت آئے گا اور گناہگار لوگوں سے اس کا عذاب جب آجائے گا تو ٹالے سے نہیں ٹلے گا اور آئے پیچھے واپس نہیں ہوگا۔