Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 157

سورة الأنعام

اَوۡ تَقُوۡلُوۡا لَوۡ اَنَّاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا الۡکِتٰبُ لَکُنَّاۤ اَہۡدٰی مِنۡہُمۡ ۚ فَقَدۡ جَآءَکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ ۚ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ صَدَفَ عَنۡہَا ؕ سَنَجۡزِی الَّذِیۡنَ یَصۡدِفُوۡنَ عَنۡ اٰیٰتِنَا سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ بِمَا کَانُوۡا یَصۡدِفُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾

Or lest you say, "If only the Scripture had been revealed to us, we would have been better guided than they." So there has [now] come to you a clear evidence from your Lord and a guidance and mercy. Then who is more unjust than one who denies the verses of Allah and turns away from them? We will recompense those who turn away from Our verses with the worst of punishment for their having turned away.

یا یوں نہ کہو کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان سے بھی زیادہ راہ راست پر ہوتے ۔ سو اب تمہارے پاس تمہارے رب کے پاس سے ایک کتاب واضح اور رہنمائی کا ذریعہ اور رحمت آچکی ہے اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو ہماری ان آیتوں کو جھوٹا بتائے اور اس سے روکے ہم جلد ہی ان لوگوں کو جو کہ ہماری آیتوں سے روکتے ہیں ان کے اس روکنے کے سبب سخت سزا دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ ... Or lest you should say: "If only the Book had been sent down to us, we would surely, have been better guided than they." meaning: We also refuted this excuse, had you used it, lest you say, "If a Book was revealed to us, just as they received a Book, we would have been better guided than they are." Allah also said. وَأَقْسَمُواْ بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَـنِهِمْ لَيِن جَأءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الاٍّمَمِ And they swore by Allah their most binding oath that if a warner came to them, they would be more guided than any of the nations (before them). (35:42) Allah replied here, ... فَقَدْ جَاءكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ ... So now has come unto you a clear proof from your Lord, and a guidance and a mercy. Allah says, there has come to you from Allah a Glorious Qur'an revealed to Muhammad, the Arab Prophet. In it is the explanation of the lawful and unlawful matters, guidance for the hearts and mercy from Allah to His servants who follow and implement it. Allah said; ... فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِأيَاتِ اللّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ... Who then does more wrong than one who rejects the Ayat of Allah and Sadafa away therefrom, This refers to the one who neither benefited from what the Messenger brought, nor followed what he was sent with by abandoning all other ways. Rather, he Sadafa from following the Ayat of Allah, meaning, he discouraged and hindered people from following it. This is the explanation of As-Suddi for Sadafa, while Ibn Abbas, Mujahid and Qatadah said that Sadafa means, he turned away from it. ... سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ ايَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يَصْدِفُونَ We shall requite those who turn away from Our Ayat with an evil torment, because of their turning away.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

157۔ 1 گویا یہ عذر بھی تم نہیں کرسکتے۔ 157۔ 2 یعنی کتاب ہدایت و رحمت کے نزول کے بعد اب جو شخص ہدایت (اسلام) کا راستہ اختیار کرکے رحمت الٰہی کا مستحق نہیں بنتا، بلکہ تکذیب و اعراض کا راستہ اپناتا ہے تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟ صَدَفَ کے معنی اعراض کرنے کے بھی کئے گئے ہیں اور دوسروں کو روکنے کے بھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٠] ایسی بابرکت اور عظیم الشان کتاب کے نزول کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ کی آیات سے اعراض کرتا ہے تو یہ انتہائی بدبختی کی بات ہے اور ایسے اعراض کرنے والے یقینا بدترین سزا کے مستحق ہیں۔ اس آیت میں خطاب کفار مکہ کو ہے لیکن جب ان کے اعراض اور اس کی سزا کا ذکر کیا تو خطاب کو عام کردیا تاکہ چڑ اور ضد نہ پیدا ہوجائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ ۔۔ : یعنی یہ عذر بھی نہ کرسکو۔ ” بَيِّنَةٌ“ روشن دلیل سے مراد قرآن مجید ہے، جو صرف ہدایت اور رحمت ہی نہیں بلکہ اپنے سچے ہونے کی واضح اور روشن دلیل بھی ہے اور جو صرف عربوں کے لیے ہی نہیں بلکہ قیامت تک کے تمام لوگوں اور تمام اقوام کے لیے ہے اور وہ کسی سے عربی پڑھ کر اللہ کے احکام معلوم کرسکتے ہیں، جیسا کہ اللہ کے فضل سے تمام اقوام میں اسلام پھیل چکا ہے۔ صَدَفَ عَنْهَا ۭ: اس کے معنی کنارہ کرنے کے بھی ہیں اور دوسروں کو روکنے کے بھی۔ کفار خود بھی ایمان نہیں لاتے تھے اور دوسروں کو بھی روکتے تھے۔ دیکھیے سورة انعام (٢٦، ٢٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَہْدٰي مِنْہُمْ۝ ٠ ۚ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ۝ ٠ ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَصَدَفَ عَنْہَا۝ ٠ ۭ سَنَجْزِي الَّذِيْنَ يَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰيٰتِنَا سُوْۗءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يَصْدِفُوْنَ۝ ١٥٧ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ بَيِّنَة والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . ( ب ی ن ) البَيِّنَة کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے صدف صَدَفَ عنه : أعرض إعراضا شدیدا يجري مجری الصَّدَفِ ، أي : المیل في أرجل البعیر، أو في الصّلابة كَصَدَفِ الجبل أي : جانبه، أو الصَّدَفِ الذي يخرج من البحر . قال تعالی: فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِآياتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْها[ الأنعام/ 157] ، سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ الآية إلى بِما کانُوا يَصْدِفُونَ [ الأنعام/ 157] «3» . ( ص د ف ) صدف عنہ کے معنی سخت اعراض برتنے کے ہیں اور الصدف اصل میں (1) پہاڑ کے کنارہ (2) سیپ اور (3) اونٹ کی ٹانگوں میں کجی کو کہتے ہیں ۔ پھر ٹانگوں کے ٹیڑھے پن یا پہاڑ اور سیپ کی سختی کے اعتبار سے شدت اعراض کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِآياتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْها[ الأنعام/ 157] تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا کی آیتوں کی تکذیب کرے اور ان سے منہ پھیر لے جو ہماری آیتوں سے اعراض برتتے ہیں اس اعراض کے سبب ہم ان کو ۔۔۔۔ سزادیں گے ۔ ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٧) یا قیامت کے دن یوں نہ کہنے لگو کہ جیسا کہ یہود و نصاری پر کتاب نازل ہوئی اگر ہماری طرف نازل کی جاتی تو ہم بہت جلد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک کہتے اور ان سے زیادہ راہ راست پر ہوتے، لہٰذا تمہارے پاس کتاب اور رسول دونوں چیزیں آچکی ہیں جو ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہیں۔ سو اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور جھوٹا کون ہوگا جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو جھٹلائے اور ان سے اعراض (بےتوجہی) کرے ہم ایسے آدمیوں کو جو قرآن کریم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعراض کرتے ہیں ان کے اس اعراض کی وجہ سے سخت ترین سزادیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٧ (اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْکِتٰبُ لَکُنَّآ اَہْدٰی مِنْہُمْ ج ۔ یعنی تم روز قیامت یہ دعویٰ لے کر نہ بیٹھ جاؤ کہ ان بیوقوفوں نے تو اللہ کی کتابوں (تورات اور انجیل) کی قدر ہی نہیں کی۔ ہمیں اللہ نے کتاب دی ہوتی تو پھر ہم بتاتے کہ کتاب اللہ کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ (فَقَدْ جَآءَ کُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ ج) ۔ یعنی تمہارے پاس اللہ کا رسول اس کی کتاب لے کر آچکا ہے جس میں واضح اور مستحکم احکام موجود ہیں۔ اس بَیِّنَۃ کی وضاحت سورة البیّنہ کی آیت ٢ اور ٣ میں اس طرح کی گئی ہے : (رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً ۔ فِیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ) اللہ کی طرف سے ایک رسول جو مقدس صحیفے پڑھ کر سناتا ہے ‘ جن میں بالکل درست احکام ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

138. 'Signs of Allah' include the teachings embodied in the Qur'an. They are also manifest in the noble life of the Prophet (peace be on him), and the pure lives of those who believed in him. Tley also include the natural phenomena to which the Qur'an refers in support of its message.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :138 اللہ کی آیات سے مراد اس کے وہ ارشادات بھی ہیں جو قرآن کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیے جارہے تھے ، اور وہ نشانیاں بھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگی میں نمایاں نظر آرہی تھیں ، اور وہ آثار کائنات بھی جنھیں قرآن اپنی دعوت کی تائید میں شہادت کے طور پر پیش کررہا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:157) او تقولوا۔ قبل الذکر ان تقولوا پر عطف ہے ای۔ او ان تقولوا۔ یا تم یہ نہ کہہ سکو۔ بینۃ۔ کھلی دلیل۔ واضح دلیل۔ روشن نشانی۔ واحد ۔ بینت جمع۔ صدق عنھا۔ صدق یصدق (ضرب) سے ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے اس سے منہ پھیرلیا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب راجع۔ الی ایات اللہ۔ صدف۔ روگردانی کرنا۔ منہ موڑنا ۔ کترانا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 بینتہ سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں تو معنی یہ ہو ن گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے لے موجب و رحمت میں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرینگے یا بینہ سے خود قرآن مجید مراد ہے جو کہ ہدایت اور رحمت پر مشتمل ہے۔ ( قر طبی، ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے بعد اہل مکہ کو خطاب۔ سابقہ آیات میں اہل کتاب سے خطاب تھا اور اب اہل مکہ کے حوالے سے پوری دنیا کو مخاطب کیا گیا ہے تاکہ اہل مکہ اور باقی لوگوں کے لیے یہ بہانہ نہ رہے کہ یہود و نصاریٰ کی ہدایت کے لیے تو کتاب نازل کی گئی تھی۔ ہمیں کتاب سے کیوں محروم رکھا گیا۔ یہاں ان دو گروہوں کے لیے تورات اور انجیل کا الگ الگ ذکر کرنے کے بجائے ” الکتاب “ فرما کر صرف ایک کتاب یعنی تورات کا ذکر کیا گیا ہے یہ اس لیے کہ انجیل تورات ہی کے احکام کا تتمہ اور تفصیل ہے۔ اس بنا پر عیسائیوں، یہودیوں کے لیے ” الکتاب “ لا یا گیا ہے۔ پھر اہل مکہ اور قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کو مخاطب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید جیسی مفصل اور مبارک کتاب اس لیے نازل فرمائی ہے کہ تمہیں یہ بات کہنے کا جواز نہ مل سکے کہ ہمارے پاس براہ راست کوئی کتاب نہیں آئی۔ جس سے ہم ہدایت حاصل کرتے۔ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ تمہیں یہ کہنے کا موقع نہ مل پائے کہ اگر ہم پر اللہ کی کتاب نازل ہوتی تو ہم یہود و نصاریٰ کی طرح گمراہ ہونے کے بجائے ہدایت یافتہ ثابت ہوتے۔ اس بہانے کو رفع کرنے اور اتمام حجت کے لیے تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔ جو سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا سر چشمہ اور اس کی رحمت کا ذریعہ ہے جو شخص اس کتاب کی ہدایت، دلائل اور بینات کو جھٹلاتا اور ان سے منہ پھیرتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا۔ ایسا شخص گمراہی میں پڑ کر اپنے آپ پر ہی ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی نسل اور لوگوں کے لیے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلائیں، ان سے انحراف کریں اور ہدایت کے راستہ میں رکاوٹ بنیں انھیں بد ترین عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے سے مراد زبان سے ان کی تکذیب کرنا یا جان بوجھ کر ان سے اعراض کرنا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا تاکہ لوگوں کو اپنی گمراہی کا بہانہ نہ رہے۔ ٢۔ قرآن مجید مفصل، جامع اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور رحمت کا پیغام ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا یا اس سے انحراف کرنے والا ظالم انسان ہے۔ تفسیر بالقرآن ظالم لوگ : ١۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٤٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا اور اس کی آیات کو جھٹلانے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ٢١) ٣۔ جو اللہ کی آیات سن کر اعراض کرتا ہے وہ ظالم ہے۔ (الکہف : ٥٧) ٤۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا اور سچائی کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (العنکبوت : ٦٨) ٥۔ اسلام کی دعوت پہنچ جانے کے باوجودجو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ ظالم ہے۔ (الصف : ٧) ٦۔ گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ : ١٤٠) ٧۔ مسجدوں سے روکنے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ : ١١٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ جل شانہٗ نے فرمایا (فَقَدْ جَآءَ کُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ) کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے۔ یعنی قرآن کریم اور وہ ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی (اب اس پر عمل کرنا اور ہدایت پر چلنا تمہارا کام ہے) ۔ اس کے بعد فرمایا (فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ صَدَفَ عَنْھَا) کہ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور جو شخص اس پر عمل کرنا چاہے اس کو عمل سے روکے اور باز رکھے اللہ کی کتاب نازل ہونے کے بعد اس پر عمل کرنے کی بجائے تکذیب کرنا خود بھی عمل نہ کرنا اور دوسروں کو روکنا یہ خود کو ہلاکت اور عذاب میں ڈالنے کا سبب ہے۔ (سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰتِنَا سُوْٓءَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوْا یَصْدِفُوْنَ ) جو لوگ ہماری آیات سے روکتے ہیں ہم ان کے اس عمل کی وجہ سے انہیں برا عذاب دیں گے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اہل عرب کی اس کٹ حجتی کو ختم فرما دیا کہ ہم سے پہلے اہل کتاب کو کتاب دی گئی تھی ہم ان کی لغت کو نہیں جانتے تھے۔ اب جب اہل عرب کی لغت میں کتاب نازل ہوگئی تو یہ عذر ختم ہوگیا۔ اسی طرح یہ بات کہ ہم پر کتاب نازل ہوتی تو ہم ایسا ایسا کرتے اور یوں عمل کر کے دکھاتے اور خوب بڑھ چڑھ کر ہدایت میں آگے بڑھتے اس بارے میں بھی ان پر حجت پوری ہوگئی، شاید کوئی شخص یہ اشکال پیش کرے کہ قرآن تو عربی زبان میں نازل ہوا جو قومیں عربی زبان نہیں جانتیں ان کی حجت کا کیا جواب ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل عرب کی زبان میں نازل فرمانا یہ ان کے ساتھ خصوصی انعام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی اور زبان میں نازل فرما دیتا اور سارے انسانوں کو اس کے اتباع کا حکم دیتا جن میں اہل عرب بھی تھے تو یہ بھی صحیح ہوتا، ساری مخلوق اس کی مملوک ہے وہ کسی کا پابند نہیں اس نے عربی میں قرآن مجید نازل فرمایا اور خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرب میں مبعوث فرمایا اور سارے عالم کے انسانوں کو اپنے آخری رسول اور آخری کتاب پر ایمان لانے کا مکلف فرمایا۔ قرآن مجید کو (ھُدًی لِّلنَّاسِ ) (سب لوگوں کے لیے ہدایت) فرمایا، اور سید المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں فرمایا (وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا) (اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر) اس سے آپ کی عمومی بعثت کا اعلان فرما دیا۔ سارے انسانوں کو آپ کی دعوت پہنچ چکی ہے۔ اب جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر ایمان نہ لائے اپنا برا خود کرے گا۔ اس لیے کہ تم یوں کہنے لگتے کہ ہم سے پہلے دو فرقوں پر کتاب نازل کی گئی تھی اور اگر اللہ تعالیٰ عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں اپنی آخری کتاب نازل فرماتا اور عربوں کو حکم دیتا کہ تم اس کا اتباع کرو تو اس پر بھی کسی کو کچھ اعتراض کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ جب اللہ جل شانہٗ نے سارے انسانوں کو قرآن کے اتباع کا حکم دیدیا تو سب پر لازم ہے کہ اس کے احکام کو سیکھیں۔ قرآن مجید کو پڑھیں اور پڑھائیں پورے عالم میں بیسوں زبانیں ہیں جس جس نے اسلام قبول کرلیا وہ سب پڑھتے پڑھاتے ہیں اور اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ بلکہ قرآن مجید کی تفسیریں زیادہ تر غیر عرب ہی نے لکھی ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

178 یہ زجر ہے۔ فاء تفریعیہ ہے۔ لہذا اب سب سے بڑا ظالم وہ ہوگا جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرے اور ان سے منہ موڑے۔ سَیَجْزِیْ الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ الخ یہ تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

157 اور کتاب آجانے کے بعد تم یہ عذر بھی نہیں کرسکتے اور قیامت میں یہ بھی نہیں سکتے کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم یقینا امم سابقہ سے زیادہ راہ یافتہ ہوتے یعنی جب کتاب والوں کوا ن کے اعمال کا ثواب ملتا تو تم یہ کہتے کہ اگر ہم کو بھی کتاب ملتی تو ہم اعمال و عقائد میں یہود و نصاریٰ سے بہت زیادہ راہ یافتہ ہوتے اور پانی کتاب پر عمل کر کے بہت زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے ۔ سو بلاشبہ اب تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک ایسی کتاب جس کے دلائل روشن اور احکام واضح ہیں اور وہ ہدایت کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے پہونچ چکی ہے لہٰذا اس قدر صاف اور واضح کتاب آجانے کے بعد اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو آیات الٰہی کی تکذیب کرے اور لوگوں کو ان آیات پر ایمان لانے سے روکے اور ہم عنقریب ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں سے لوگوں کو روکتے ہیں اس روکنے کی پاداش میں بہت برا عذاب کریں گے اور سخت بری سزا دیں گے یعنی خود بھی نہ مانا اور دوسروں کو ماننے سے روکا اس لئے بری مار کے مستحق ٹھہرے۔