Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 16

سورة الأنعام

مَنۡ یُّصۡرَفۡ عَنۡہُ یَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمَہٗ ؕ وَ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۶﴾

He from whom it is averted that Day - [ Allah ] has granted him mercy. And that is the clear attainment.

جس شخص سے اس روز وہ عذاب ہٹا دیا جائے تو اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہ صریح کامیابی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَّن يُصْرَفْ عَنْهُ ... Who is averted from, such a torment, .... يَوْمَيِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ ... on that Day, He has surely been Merciful to him, meaning, Allah will have been merciful to him, ... وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ And that would be the obvious success. Allah also said, فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ And whoever is moved away from the Fire and admitted to Paradise, he indeed is successful. (3:185) success here indicates acquiring profit and negates loss.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کردیا گیا، وہ کامیاب ہوگیا اس لئے کامیابی، خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کرلینے کا نام ہے۔ جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہوگا ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] یعنی جنت میں اعلیٰ درجات تو دور کی بات ہے اگر کوئی شخص اس دن دوزخ کے عذاب سے نجات بھی پا جائے تو سمجھے کہ اس نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اللہ نے اس پر اپنا خاص فضل و کرم کیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَنْ يُّصْرَفْ عَنْهُ ۔۔ : یعنی بلند مقام حاصل کرنا تو بہت بڑی بات ہے، اگر کسی سے آخرت کا عذاب ہی ٹل جائے تو اپنی جگہ یہی بہت واضح کامیابی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, it was said: مَّن يُصْرَ‌فْ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَ‌حِمَهُ (Whoever is spared from it that day is, indeed, blessed with His mercy). It means that the pun¬ishment of the day of Resurrection (al-Mahshar) is extremely horren¬dous and harsh. Whoever finds this removed from him or her should know that it was great mercy from Allah. This has been further strengthened by saying:& وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ that is success, open and clear). The word, اَلفَوزُ : ` al-fawz& (success) means being admitted in Jan¬nah (Paradise). This tells us that deliverance from punishment and admittance into the Paradise are inseparable from each other.

اس کے بعد فرمایا مَنْ يُّصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمَهٗ ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ یعنی روز محشر کا عذاب انتہائی ہولناک اور سخت ہے، جس شخص سے یہ عذاب ٹل گیا تو سمجھئے کہ اس پر اللہ کی بڑی رحمت ہوگئی، وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ یعنی یہی بڑی اور کھلی کامیابی ہے، یہاں کامیابی سے مراد دخول جنت ہے، اس سے معلوم ہوا کہ عذاب سے نجات اور جنت کا داخلہ لازم و ملزوم ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ يُّصْرَفْ عَنْہُ يَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمَہٗ۝ ٠ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ۝ ١٦ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) اور قیامت کے دن جس شخص سے عذاب ہٹا دیا جائے گا تو وہ محفوظ ہوجائے گا اور اس کی مغفرت ہوجائے گی اور مغفرت انسان کی اعلی کامیابی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (مَنْ یُّصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَءِذٍ فَقَدْ رَحِمَہٗ ط وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ ۔ ) ۔ دُنیا کی بڑی سے بڑی کامیابیاں اس دن کی کامیابی کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس کامیابی کے سامنے دنیوی دولت ‘ وجاہت ‘ عزت ‘ شہرت ‘ اقتدار وغیرہ ساری چیزیں عارضی اور فانی ہیں۔ اصل الْفَوْزُ الْمُبِیْن تو آخرت کی کامیابی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:16) یصرف (ضرب) صرف۔ مصدر۔ مضارع مجہول مجزوم واحد مذکر غائب۔ صرف یصرف صرف۔ وہ ہٹا لیا جائے گا۔ وہ بچا لیا جائے گا۔ اس سے تال دیا جائیگا۔ عنہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ عذاب کی طرف راجع ہے۔ فقد رحمۃ۔ تو یقینا رحم فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس پر ہ کی ضمیر من کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی مراتب عالیہ کا حصول تربہت اونچا مقام ہے اگر کسی سے آخرت کا عذاب ہی ٹل جائے تو یہی اپنی جگہ بڑی کامیابی ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس دن کا عذاب بہت بڑا ہے (مَنْ یُّصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَءِذٍ فَقَدْ رَحِمَہٗ ) جس سے اس دن عذاب ٹل گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرما دیا (وَ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ ) اور اس دن عذاب کا ٹل جانا واضح اور کھلی کامیابی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16 اس دن جس کے سر سے وہ عذاب ٹ گیا تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بڑا رحم اور اس پر بڑی مہربانی فرمائی اور یہ کھلی اور نمایاں کامیابی ہے یعنی جس پر سے اس دن عذاب ٹل گیا اور وہ اس دن کے عذاب سے محفوظ رہا تو اس کو حقیقت کامیابی نصیب ہوئی۔