Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 164

سورة الأنعام

قُلۡ اَغَیۡرَ اللّٰہِ اَبۡغِیۡ رَبًّا وَّ ہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ وَ لَا تَکۡسِبُ کُلُّ نَفۡسٍ اِلَّا عَلَیۡہَا ۚ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ۚ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ مَّرۡجِعُکُمۡ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾

Say, "Is it other than Allah I should desire as a lord while He is the Lord of all things? And every soul earns not [blame] except against itself, and no bearer of burdens will bear the burden of another. Then to your Lord is your return, and He will inform you concerning that over which you used to differ."

آپ فرما دیجئے کہ میں اللہ کے کیا سوا کسی اور کو رب بنانے کے لئے تلاش کروں حالانکہ وہ مالک ہے ہرچیز کا اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے اور وہ اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا پھر تم کو اپنے رب کے پاس جانا ہوگا ، پھر تم کو جتلا ئے گا جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to Sincerely Trust in Allah Allah said, قُلْ ... Say, O Muhammad, to those idolators, about worshipping Allah alone and trusting in Him, ... أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِي رَبًّا ... Shall I seek a lord other than Allah..., ... وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ ... while He is the Lord of all things. and Who protects and saves me and governs all my affairs But, I only trust in Him and go back to Him, because He is the Lord of everything, Owner of all things and His is the creation and the decision. This Ayah commands sincerely trusting Allah, while the Ayah before it commands sincerely worshipping Allah alone without partners. These two meanings are often mentioned together in the Qur'an. Allah directs His servants to proclaim, إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (You (alone) we worship, and You (alone) we ask for help (for each and every thing). (1:5) Allah said, فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ So worship Him and put your trust in Him. (11:123) and, قُلْ هُوَ الرَّحْمَـنُ ءَامَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا Say: "He is the Most Gracious (Allah), in Him we believe, and in Him we put our trust". (67:29) and, رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلً Lord of the east and the west; none has the right to be worshipped but He. So take Him a guardian. (73:9) There are similar Ayat on this subject. Every Person Carries His Own Burden Allah said, ... وَلاَ تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ... No person earns any (sin) except against himself (only), and no bearer of burdens shall bear the burden of another. thus emphasizing Allah's reckoning, decision and justice that will occur on the Day of Resurrection. The souls will only be recompensed for their deeds, good for good and evil for evil. No person shall carry the burden of another person, a fact that indicates Allah's perfect justice. Allah said in other Ayat, وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لاَ يُحْمَلْ مِنْهُ شَىْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى And if one heavily laden calls another to (bear) his load, nothing of it will be lifted even though he be near of kin. (35:18) and, فَلَ يَخَافُ ظُلْماً وَلاَ هَضْماً Then he will have no fear of injustice, nor of any curtailment (of his reward). (20:112) Scholars of Tafsir commented, "No person will be wronged by carrying the evil deeds of another person, nor will his own good deeds be curtailed or decreased." Allah also said; كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ إِلاَّ أَصْحَـبَ الْيَمِينِ Every person is a pledge for what he has earned. Except those on the Right. (74:38-39) meaning, every person will be tied to his evil deeds. But, for those on the right -- the believers -- the blessing of their good works will benefit their offspring and relatives, as well. Allah said in Surah At-Tur, وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَـنٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَأ أَلَتْنَـهُمْ مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَىْءٍ And those who believe and whose offspring follow them in faith, to them shall We join their offspring, and We shall not decrease the reward of their deeds in anything. (52:21) meaning, We shall elevate their offspring to their high grades in Paradise, even though the deeds of the offspring were less righteous, since they shared faith with them in its general form. Allah says, We did not decrease the grades of these righteous believers so that those (their offspring and relatives) who have lesser grades, can share the same grades as them. Rather Allah elevated the lesser believers to the grades of their parents by the blessing of their parents' good works, by His favor and bounty. Allah said next (in Surah At-Tur), كُلُّ امْرِىءٍ بِمَا كَسَبَ رَهَينٌ Every person is a pledge for that which he has earned. (52:21), meaning, of evil. Allah's statement here, ... ثُمَّ إِلَى رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّيُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ Then unto your Lord is your return, so He will tell you that wherein you have been differing. means, work you (disbelievers), and we will also work. Surely, both you and us will be gathered to Allah and He will inform us of our deeds and your deeds and the decision on what we used to dispute about in the life of this world. Allah said in other Ayat, قُل لاَّ تُسْـَلُونَ عَمَّأ أَجْرَمْنَا وَلاَ نُسْـَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ Say: "You will not be asked about our sins, nor shall we be asked of what you do." Say: "Our Lord will assemble us all together, then He will judge between us with truth. And He is the Just Judge, the All-Knower of the true state of affairs." (34:25-26)

جھوٹے معبود غلط سہارے کافروں کو نہ تو خلوص عبادت نصیب ہے نہ سچا توکل رب میسر ہے ان سے کہدے کہ کیا میں بھی تمہاری طرح اپنے اور سب کے سچے معبود کو چھوڑ کر جھوٹے معبود بنا لوں ؟ میری پرورش کرنے والا حفاظت کرنے والا مجھے بچانے والا میرے کام بنانے والا میری بگڑی کو سنوارنے والا تو اللہ ہی ہے پھر میں دوسرے کا سہارا کیوں لوں؟ مالک خالق کو چھوڑ کر بےبس اور محتاج کے پاس کیوں جاؤں؟ گویا اس آیت میں توکل علی اللہ اور عبادت رب کا حکم ہوتا ہے ۔ یہ دونوں چیزیں عموماً ایک ساتھ بیان ہوا کرتی ہیں جیسے آیت ( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) میں اور ( فاعبدہ و توکل علیہ ) میں اور ( قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِهٖ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا ۚ فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 29؀ ) 67- الملك:29 ) میں اور ( رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا Ḍ۝9-73 73 ۔ المزمل:9 ) میں اور دوسری آیتوں میں بھی ۔ پھر قیامت کے دن کی خبر دیتا ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ عدل و انصاف سے ملے گا ۔ نیکوں کو نیک بدوں کو بد ۔ ایک کے گناہ دوسرے پر نہیں جائیں گے ۔ کوئی قرابت دار دوسرے کے عوض پکڑا نہ جائے گا اس دن ظلم بالکل ہی نہ ہو گا ۔ نہ کسی کے گناہ بڑھائے جائیں گے نہ کسی کی نیکی گھٹائی جائے گی ، اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی ہاں جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامے ملے ہیں ان کے نیک اعمال کی برکت ان کی اولاد کو بھی پہنچے گی جیسے فرمان ہے آیت ( وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀ ) 52- الطور:21 ) یعنی جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کے ایمان میں ان کی تابعداری کی ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے بلند درجوں میں پہنچا دیں گے گو ان کے اعمال اس درجے کے نہ ہوں لیکن چونکہ ان کی ایمان میں شرکت ہے اس لئے درجات میں بھی بڑھا دیں گے اور یہ درجے ماں باپ کے درجے گھٹا کر نہ بڑھا دیں گے اور یہ درجے ماں باپ کے درجے گھٹا کر نہ بڑھیں گے بلکہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہو گا ۔ ہاں برے لوگ اپنے بد اعمال کے جھگڑے میں گھرے ہوں گے تم بھی عمل کئے جا رہے ہو ہم بھی کئے جا رہے ہیں اللہ کے ہاں سب کو جانا ہے وہاں اعمال کا حساب ہونا ہے پھر معلوم ہو جائے گا کہ اس اختلاف میں حق اور رضائے رب ، مرضی مولیٰ کس کے ساتھ تھی؟ ہمارے اعمال سے تم اور تمہارے اعمال سے ہم اللہ کے ہاں پوچھے نہ جائیں گے ۔ قیامت کے دن اللہ کے ہاں سچے فیصلے ہوں گے اور وہ باعلم اللہ ہمارے درمیان سچے فیصلے فرما دے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

164۔ 1 یہاں رب سے مراد وہی اللہ ماننا ہے جس کا انکار مشرکین کرتے رہے ہیں اور جو اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے۔ لیکن مشرکین اس کی ربوبیت کو تو مانتے تھے۔ اور اس میں کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے لیکن اس کی الوہیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔ 164۔ 2 یعنی اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا اور جس نے اچھا، یا برا، جو کچھ کیا ہوگا اس کے مطابق جزا اور سزا دے گا، نیکی پر اچھی جزا اور بدی پر سزا دے گا اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔ 164۔ 3 اس لئے اگر تم اس دعوت توحید کو نہیں مانتے جو تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت رہی ہے تو تم اپنا کام کئے جاؤ، ہم اپنا کئے جاتے ہیں۔ قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں ہی ہمارا تمہارا فیصلہ ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٧] یعنی کائنات کی ہر چیز کا پروردگار تو اللہ ہے اور میں بھی کائنات کا ایک حصہ ہوں تو پھر میرا پروردگار کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے۔ کائنات کی ایک ایک چیز اللہ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق چل رہی ہے اور میں بھی اضطراری امور میں انہی مقررہ قوانین کا پابند ہوں۔ پھر جن باتوں میں مجھے تھوڑا بہت اختیار دیا گیا ہے میں کیوں نہ ان اختیارات کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دوں اور پوری کائنات سے الگ الٹی روش کیوں اختیار کروں ؟ [١٨٨] یہ ناممکن ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی ! مشرکین مکہ میں سے اکثر جو روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ایسی توحید کو چھوڑ کر ہماری طرف آجاؤ، اگر قیامت آئی بھی تو پھر تمہارے اس گناہ کا بوجھ ہم اٹھا لیں گے جیسا کہ سورة عنکبوت کی آیت نمبر ١٢ میں ذکر ہوا ہے۔ اس آیت میں مشرکوں کے اسی قول کا جواب دیا گیا ہے کہ ناممکن ہے کہ گناہ تو زید کرے اور اس کی سزا بکر بھگتے۔ ہر ایک سے اس کے اپنے اعمال کا محاسبہ ہوگا۔ پھر اسے ہی سزا دی جائے گی۔ [١٨٩] اس دن تم پر سب کچھ واضح ہوجائے گا کہ جن ہستیوں کو تم اللہ کا شریک سمجھ رہے تھے ان سے فریادیں کرتے اور مشکل کشائی کے لیے پکارتے تھے ان کی اللہ کے سامنے کیا حیثیت ہے اور جن اختلافات پر تم نے اپنے اپنے فرقوں کی بنیاد رکھی تھی سب کھل کر تمہارے سامنے آجائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا۔۔ : مکہ کے مشرک اللہ تعالیٰ کو رب مانتے تھے، مگر معبود کئی بنا رکھے تھے جن سے وہ نفع و نقصان کی امید رکھتے اور انھی کی پوجا کرتے اور پکارتے تھے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے رب ہونے کو اپنی الوہیت، یعنی معبود ہونے کی دلیل کے طور پر بار بار پیش کیا ہے۔ دیکھیے سورة یونس (٣١) ، سورة سبا (٢٢) اور سورة فاطر (١٣) ۔ یہاں بھی مراد یہی ہے کہ عبادت تو صرف اسی کی ہوسکتی ہے جو رب ہو، اس لیے تمہارا غیر اللہ کو پکارنا، ان کی عبادت کرنا انھیں رب بنانا ہی ہے، اب اللہ کے سوا میں کسی اور کی عبادت کر کے اسے رب کیسے بناؤں، جب کہ ہر شے کا رب وہی ہے۔ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَا ۚ: کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے کہتے کہ تم آبائی دین میں ہماری پیروی اختیار کرو اور گناہ کی فکر مت کرو، اگر یہ گناہ ہوا تو ہم اٹھا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی نہیں اٹھائیں گے، بلکہ وہ صاف جھوٹے ہیں۔ [ العنکبوت : ١٢، ١٣ ] یہاں بھی ان کے اس فریب اور چکمے کا جواب دیا ہے، فرمایا، کوئی جان بھی کوئی گناہ کماتی ہے تو وہ اسی پر ہوتا ہے، کوئی دوسری جان کسی صورت اسے نہیں اٹھائے گی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے عدل ہی کے خلاف ہے، جس کے سامنے تم نے لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہارے اختلاف کا اور حق و ناحق ہونے کا فیصلہ تمہیں سنائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فیصلے کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (٣١) سورة فاطر (١٨) اور سورة نجم (٣٨، ٣٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

One&s Burden of Sin Cannot Be Borne By Another The disbelievers of Makkah al-Mukarramah, with Walid ibn Mughirah among them, used to say to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and to the Muslims in general that they should return to their faith and they will bear the burden of all their sins. This has been answered in the fourth verse (164). It was said: قُلْ أَغَيْرَ‌ اللَّـهِ أَبْغِي رَ‌بًّا وَهُوَ رَ‌بُّ كُلِّ شَيْءٍ Here, the address is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He is being asked to tell them: ` Do you want me that I too, like yourself, seek and find some other Rabb, other than Allah, when He is the Lord of everything?. This is error and straying which you should not expect me to accept. As for your saying that you will bear the burden of our sins, this is absurd in itself. A sin committed by a person will be written in that person&s record of deeds, and it will be he or she who will deserve its punishment. How can that sin be transferred to your account just by your saying so? And if the idea is that the sins will go in our account and in our Book of Deeds, but the punishment to be given against these will be borne by you, then, that idea is not valid either.& The next sentence in the verse rejects it. It was said: وَلَا تَزِرُ‌ وَازِرَ‌ةٌ وِزْرَ‌ أُخْرَ‌ىٰ that is, (on the day of Qiyamah) no bearer of burden (of sin) shall bear the burden of another). As for the disbelievers, this verse does answer their absurd saying in its own way. But, it also tells Muslims at large about the rule that they too should not take the matters of Qiyamah on the analogy of their ways in the mortal world where one person commits a crime and succeeds in putting it on someone else - especially when the other per-son is willing to accept it. But, in the great Court of Allah, there is no room for it. There, the other person can never be caught for the sin committed by someone else. It is based on the authority of this verse that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that the child born out of wedlock will not be affected by the sin of his or her parents. (This Hadith has been reported by Hakim from Sayyidah ` A&ishah (رض) عنہا based on sound authority). When Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) ، saw someone crying at the Janazah of a deceased person, he said that the crying of the liv¬ing causes punishment to the deceased. Ibn Abi Mulaykah says that, when he reported this saying to Sayyidah ` A&ishah (رض) she said: You are reporting the saying of a person who never lies, nor can there be any doubt in his integrity. But, there are occasions when one does not hear right. In this matter, the decisive verdict of the Qur&an is suf¬ficient for you: وَلَا تَزِرُ‌ وَازِرَ‌ةٌ وِزْرَ‌ أُخْرَ‌ىٰ , that is, the sin of one person cannot be applied to another. So, how can the crying of a living person cause punishment to descend on a dead person just for no reason? (Ad-burr A1 Manthur) At the conclusion of the verse, it was said that, finally they have to go to their Lord after all where they will find out the ultimate verdict on all their differences - which means that they would be better off keeping their verbal confrontation in check and devoting more to the end of things.

کسی کے گناہ کا بھار دوسرا نہیں اٹھا سکتا چوتھی آیت میں مشرکین مکہ ولید بن مغیرہ وغیرہ کی اس بات کا جواب ہے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ، تو تمہارے سارے گناہوں کا بھار ہم اٹھالیں گے، اس پر فرمایا (آیت) قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ ، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجئے کہ کیا تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ تمہاری طرح میں بھی اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کرلوں، حالانکہ وہی سارے جہان اور ساری کائنات کا رب ہے، اس گمراہی کی مجھ سے کوئی امید نہ رکھو، باقی تمہارا یہ کہنا کہ ہم تمہارے گناہوں کا بھار اٹھالیں گے یہ خود ایک حماقت ہے، گناہ تو جو شخص کرے گا اسی کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، اور وہی اس کی سزا کا مستحق ہوگا، تمہارے اس کہنے سے وہ گناہ تمہاری طرف کیسے منتقل ہوسکتا ہے، اور اگر خیال ہو کہ حساب اور نامہ اعمال میں تو انہی کے رہے گا لیکن میدان حشر میں اس پر جو سزا مرتب ہوگی وہ سزا ہم بھگت لیں گے، تو اس خیال کو بھی اس آیت کے اگلے جملہ نے رد کردیا، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي، ” یعنی قیامت کے روز کوئی شخص دوسرے کا بھار گناہ نہیں اٹھائے گا “۔ اس آیت نے مشرکین کے بیہودہ قول کا جواب تو دیا ہی ہے، عام مسلمانوں کو یہ ضابط بھی بتلا دیا کہ قیامت کے معاملہ کو دنیا پر قیاس نہ کرو کہ یہاں کوئی شخص جرم کرکے کسی دوسرے کے سر ڈال سکتا ہے، خصوصاً جب کہ دوسرا خود رضا مند بھی ہو، مگر عدالت الٓہیہ میں اس کی گنجائش نہیں، وہاں ایک کے گناہ میں دوسرا ہرگز نہیں پکڑا جاسکتا، اسی آیت سے استدلال فرما کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ولد الزنا پر والدین کے جرم کا کوئی اثر نہیں ہوگا، یہ حدیث حاکم نے بسند صحیح حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے۔ اور ایک میّت کے جنازہ پر حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے کسی کو روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ زندوں کے رونے سے مردہ کو عذاب ہوتا ہے، ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ قول حضرت عائشہ (رض) کے سامنے نقل کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ایک ایسے شخص کا یہ قول نقل کر رہے ہو جو نہ کبھی جھوٹ بولتا ہے اور نہ ان کی ثقاہت میں کوئی شبہ کیا جاسکتا ہے، مگر کبھی سننے میں بھی غلطی ہوجاتی ہے، اس معاملہ میں تو قرآن کا ناطق فیصلہ تمہارے لئے کافی ہے : (آیت) وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي، ” یعنی ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں پڑ سکتا، تو کسی زندہ آدمی کے رونے سے مردہ بےقصور کس طرح عذاب میں ہوسکتا ہے (درمنثور) آخر آیت میں ارشاد فرمایا کہ ” پھر تم سب کو بالآخر اپنے رب ہی کے پاس جانا ہے، جہاں تمہارے سارے اختلاف کا فیصلہ سنا دیا جائے گا “۔ مطلب یہ ہے کہ زبان آوری اور کج بحثی سے باز آؤ، اپنے انجام کی فکر کرو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَغَيْرَ اللہِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّہُوَرَبُّ كُلِّ شَيْءٍ۝ ٠ ۭ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْہَا۝ ٠ ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰي۝ ٠ ۚ ثُمَّ اِلٰي رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝ ١٦٤ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ وزر الوَزَرُ : الملجأ الذي يلتجأ إليه من الجبل . قال تعالی: كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة/ 11] والوِزْرُ : الثّقلُ تشبيها بِوَزْرِ الجبلِ ، ويعبّر بذلک عن الإثم کما يعبّر عنه بالثقل . قال تعالی: لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل/ 25] ، کقوله : وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت/ 13] وحمل وِزْر الغیرِ في الحقیقة هو علی نحو ما أشار إليه صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «من سنّ سنّة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجره شيء، ومن سنّ سنّة سيّئة کان له وِزْرُهَا ووِزْرُ من عمل بها» أي : مثل وِزْرِ مَن عمل بها . وقوله تعالی: وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى[ الأنعام/ 164] أي : لا يحمل وِزْرَهُ من حيث يتعرّى المحمول عنه، وقوله : وَوَضَعْنا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ [ الشرح/ 2- 3] ، أي : ما کنت فيه من أمر الجاهليّة، فأعفیت بما خصصت به عن تعاطي ما کان عليه قومک، والوَزِيرُ : المتحمِّلُ ثقل أميره وشغله، والوِزَارَةُ علی بناء الصّناعة . وأَوْزَارُ الحربِ واحدها وِزْرٌ: آلتُها من السّلاح، والمُوَازَرَةُ : المعاونةُ. يقال : وَازَرْتُ فلاناً مُوَازَرَةً : أعنته علی أمره . قال تعالی: وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه/ 29] ، وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه/ 87] . ( و ز ر ) الوزر ۔ پہاڑ میں جائے پناہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة/ 11] بیشک کہیں پناہ نہیں اس روز پروردگار ہی کے پاس جانا ہے ۔ الوزر ۔ کے معنی بار گراں کے ہیں اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں اور جس طرح مجازا اس کے معنی بوجھ کے آتے ہیں اسی طرح وزر بمعنی گناہ بھی آتا ہے ۔ ( اسی کی جمع اوزار ہے ) جیسے فرمایا : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل/ 25]( اے پیغمبر ان کو بکنے دو ) یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال کے ) پورے سے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی ( اٹھائیں گے ) جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت/ 13] اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی ۔ اور دوسروں کو بوجھ اٹھانے کے حقیقت کیطرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا من سن سنتہ حسنتہ کان لہ اجرھا واجر من عمل بھا من غیران ینقض من اجرہ شیئ ومن سن سنتہ سیئتہ کان لہ وزرھا ووزر من عمل بھا کی جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بدوں اس کے کہ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے بری رسم جاری کی اس کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔ تویہاں ان لوگوں کے اجر یا بوجھ سے ان کی مثل اجر یا بوجھ مراد ہے۔ اور آیت کریمہ : ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : ۔ وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى[ الأنعام/ 164] اور کوئی شخص کسی ( کے گناہ ) کا بوجھ نہیں اٹھائیگا ۔ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ محمول عنہ یعنی وہ دوسرا اس گناہ سے بری ہوجائے لہذا ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے اور آیت : ۔ وَوَضَعْنا عَنْكَوِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ [ الشرح/ 2- 3] اور تم پر سے بوجھ بھی اتار دیا ۔ میں وزر سے مراد وہ لغزشیں ہیں جو جاہلی معاشرہ کے رواج کے مطابق قبل از نبوت آنحضرت سے سر زد ہوئی تھیں ۔ الوزیر وہ ہے جو امیر کا بوجھ اور اس کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہو ۔ اور اس کے اس عہدہ کو وزارۃ کہا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه/ 29] اور میرے گھر والوں میں سے ( ایک کو ) میرا وزیر ( یعنی مدد گار امقر ر فرمایا ۔ ارزار الحرب اس کا مفرد ورر ہے اور اس سے مراد اسلحہ جنگ ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه/ 87] بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے ۔ میں زیورات کے بوجھ مراد ہیں ۔ الموزراۃ ( مفاعلۃ ) کے معنی ایک دوسرے کی مدد کرنے کے ہیں اور وازرت فلانا موازرۃ کے معنی ہیں میں نے اس کی مدد کی ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی معی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اعمال کی جوابدہی قول باری ہے ( ولا تکسب گل نفس الا علیھا، ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے) آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ کسی شخص کو دوسرے پر تصرف کرنے کا حق نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس کا جواز ہے۔ اِلا یہ کہ کوئی دلالت قائم ہوجائے جو اس تصرف کے جواز کی نشاندہی کرتی ہو اس لی کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں یہ بات بتائی ہے ک ہر شخص کے افعال کے احکامکا اس کی ذات ک ساتھ تعلق ہوتا ہے کسی اور کے ساتھ نہیں۔ ذاتی ملکیت پر پابندی ناروا ہے اس حکم کے عموم کے تحت یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ بالغ باکرہ لڑکی کا اس کی اجازت کے بغیر نکاح کرا دینے کا جواز ممتنع ہے، نیز ایک شخص پر اپنی املاک کی فروخت پر لگنے والی پابندی باطل ہے۔ اس طرح ایک عاقل بالغ انسان کا خواہ وہ نادان ہی کیوں نہ ہو اپنی ذات پر تصرف کرنا جائز ہے اس لیے کہ اللہ نے بتادیا ہے کہ ہر شخص اپنی کمائی کا خود ذمہ دار ہے۔ قول باری ہے ( ولا تزر وزرۃ وزر اخری، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص سے کسی اور کے گناہ اور جرم کی بنیاد پر مواخذہ نہیں کرے گا۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ باپ کے گناہ کی بیٹے کو سزا نہیں دے گا۔ میت پر رونے سے میت کو عذاب نہیں ہوتا حضرت عائشہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد ( ان المیت یعذب بیکاء اھلہ علیہ جب میت کے اہل و عیال اس پر آنسو بہاتے ہیں تو اس کی سزا کے طور پر میت کو عذاب دیا جاتا ہے) کے اس مفہوم کو رد کردیا تھا جو لوگوں نے اس ارشاد سے اخذ کیا تھا۔ حضرت عائشہ نے اس موقع پر درج بالا آیت کی تلاوت کی تھی اور فرمایا تھا کہ حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک یہودی خاندان کے پاس سے گزر ہوا جس کی موت پر اس کے اہل خانہ آنسو بہا رہے تھے یہ دیکھ کر فرمایا تھا کہ ” اس کے گھر والے اس پر آنسو بہا رہے ہیں اور ادھر وہ عذاب میں مبتلا ہے “ ہم نے اس حدیث کی توجیہ کسی اور جگہ بیان کردی ہے، ایک قول ہ کہ اس لفظ کے اصل معنی بوجھ اور پناہ کی جگہ کے ہیں۔ ارشاد باری ہے ( کلا لا وزر، ہرگز نہیں، کہیں پناہ کی جگہ نہیں) لیکن گناہ کے معنوں میں اس کا استعمال زیادہ ہے۔ اس میں اس شخص کے ساتھ تشبیہ ہے جو ایسی جگہ جا کر پناہ لے جو دراصل پناہ کی جگہ نہ ہو۔ کہا جاتا ہے ” وزر، یزر، ووزر، یوزر، فھو موزور “ ( فعل ” وزر “ کے ماضی اور مضارع معروف اور مجہول کی گردان کا ذکر کیا گیا ہے) ان تمام کے معنی گناہ کے ہیں۔ وزیر کے معنی ملجا کے ہیں اس لیے کہ بادشاہ ملکی امور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ واللہ اعلم ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٤) آپ یہ بھی فرمادیجیے کہ کیا اور کسی معبود کی عبادت کروں گناہوں کی سزا گناہ کرنے والے ہی پر رہتی ہے کوئی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا یا کسی کو دوسرے کے گناہوں کی سزا میں نہیں پکڑے جائے گا یا یہ کہ کسی پر بغیر گناہ کے عذاب نہیں ہوگا یا یہ کہ خوشی سے کوئی کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھاتا مگر مجبورا (یعنی کسی کا حق وغیرہ مارا ہوگا تو اس کا بوجھ مجبورا اٹھانا ہی پڑے گا) مرنے کے بعد دین میں جو تم مختلف الاعمال ہوگئے تھے وہ اس کی حقیقت بھی تمہیں روز قیامت بتلادے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٤ (قُلْ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ ط) (وَلاَ تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ الاَّ عَلَیْہَاج ولاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ج) ۔ اس دن ہر ایک کو اپنی اپنی گٹھڑی خود ہی اٹھانی ہوگی ‘ کوئی دوسرا وہاں مدد کو نہیں پہنچے گا۔ یہاں پر لفظ نفس جان کے معنی میں آیا ہے ‘ یعنی کوئی جان کسی دوسری جان کے بوجھ کو نہیں اٹھائے گی ‘ بلکہ ہر ایک کو اپنی ذمہ داری اور اپنے حساب کتاب کا سامنا بنفس نفیس خود کرنا ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

144. Since God is the Lord of the entire universe, how could anyone be His lord? Since the entire universe is yoked to obedience to God, man is an integral part of the universe, how can he reasonably, look for another lord in that area of his life in which he uses his own volition,ind judgement? Is it appropriate for him to move in diametrical opposition to the entire universe? 145. Every person is responsible for whatever he does; and no one is responsible for the deeds of others.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :144 یعنی کائنات کی ساری چیزوں کا رب تو اللہ ہے ، میرا رب کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے ؟ کس طرح یہ بات معقول ہو سکتی ہے کہ ساری کائنات تو اللہ کی اطاعت کے نظام پر چل رہی ہو ، اور کائنات کا ایک جزء ہونے کی حیثیت سے میرا اپنا وجود بھی اسی نظام پر عامل ہو ، مگر میں اپنی شعوری و اختیاری زندگی کے لیے کوئی اور رب تلاش کروں؟ کیا پوری کائنات کے خلاف میں اکیلا ایک دوسرے رخ پر چل پڑوں؟ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :145 یعنی ہر شخص خود ہی اپنے عمل کا ذمہ دار ہے ، اور ایک عمل کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

85: کفار کبھی کبھی مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ تم ہمارے مذہب کو اپنا لو، اگر کوئی عذاب ہوا تو تمہارے حصے کا عذاب بھی ہم اپنے سر لے لیں گے، جیسا کہ سورۂ عنکبوت (12:29) میں قرآنِ کریم نے ان کی یہ بات نقل فرمائی ہے۔ یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی۔ اور اس میں یہ عظیم سبق ہے کہ ہر شخص کو اپنے انجام کی خود فکر کرنی چاہئے، کوئی دوسرا شخص اسے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ یہی مضمون سورۂ بنی اسرائیل (15:17) سورۂ فاطر (18:35) سورۂ زمر (7:39) اور سورۂ نجم) (38:53) میں بھی آیا ہے۔ اس کی مزید تفصیل ان شا اللہ سورۂ نجم میں آئے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

سورة عنکبوت سورة اقرأ اور قل یا ایھا الکافرون کی تفسیر میں آویگا کہ مشرکین مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہتے تھے کہ آپ اور آپ کے ساتھ کے مسلمان ایک سال ہمارے بتوں کی پوجا کرلیا کریں پھر ایک سال ہم لوگ اللہ کی عبادت کرلیا کریں گے اور یہ بھی کہتے تھے کہ اگر قیامت قائم ہوئی اور اسی سال بھر کر بت پرستی کے جرم میں مسلمان کسی عذاب میں پکڑے گئے تو وہ عذاب ہم اپنے ذمہ لے لیویں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ جب سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں اور وہی ہر چیز کا رب ہے تو مخلوق الٰہی ہونے میں سب برابر ہیں پھر معبود قرار پانے کا کب مخلوق کو کیا حق ہے اور سوا اللہ کے میں کوئی دوسرا معبود کیونکر ڈھونڈ سکتا ہوں اور تم لوگوں نے دوسروں کا عذاب اپنے ذمہ لینے کا جو ذکر کیا تو ایک مجرم کی سزا دوسرے شخص کو کیونکر ہوسکتی ہے پھر فرمایا اس فہمائش پر بھی یہ لوگ اپنی نادانی کی باتوں سے باز نہ آویں تو مرنے کے بعد ایک دن سب کو اللہ کے روبرو حاضر ہونا بڑے گا اس وقت ان سب جھگڑے کی باتوں کی سزا ان لوگوں کے سامنے آجاوے گی۔ عبداللہ بن عمر وبن عاص (رض) اور ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیثیں اس آیت کی بھی گویا تفسیر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:164) ابغی۔ میں تلاش کروں۔ بغی یبغی (ضرب) بغی مصدر۔ الاعلیہا۔ مگر اس کا بوجھ (یعنی عمل کا) اس (نفس) پر ہوگا۔ اس کے ذمہ ہوگا۔ وہی اس کا ذمہ دار ہوگا یعنی کوئی شخص بھی ہو عمل کرتا ہے اس کی ذمہ دار اسی کی گردن پر ہوگی۔ تزر۔ وہ بوجھ اٹھاتی ہے یا بوجھ اٹھاوے گی۔ وزر۔ مصدر (باب ضرب ) یعنی بوجھ اٹھانا ۔ وازرۃ بوجھ اٹھانے والی۔ وزر بوجھ۔ وزیر بروزن (فعیل) بادشاہ کا مددگار۔ حکومت کا بوجھ اٹھانے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 اور اس کے سواتم جن جھوٹے معبودون کی بندگی کرتے ہو وہ کسی چیز کے مالک نہیں بلکہ خود دوسری کے محتاج ہیں۔ مروی ہے کہ کفار نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ اپنے آبائی دین کو اختیاکر لو اور ہمارے معبودوں کی عبادت کرو جس الہ کی تم عبادت کرتے ہو اسے تر کردو ہم دنیا و آخرت میں تمہارے ہر نقصان کے ذمہ دار ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، (قرطبی ) فوائد صفحہ ہذا1 یعنی اس پر کسی دوسرے عمل کی ذمہ داری نہ ہوگی یہ اس متعارض معبودوں کی آیت سے متعارض نہیں ہے جس میں ارشاد ہے کہ تم اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور انکے ساتھ کچھ دوسرے بو جھ بھی ( عنکبوت 13) اس لے کہ دوسرے بوجھوں سے مراد انہی لوگوں کے بو جھ ہیں جنہیں یہ گمراہ کریں گے (قر طبی) اور حدیث من سن سنتہ سیتہ الخ سے بھی اس کی تا ئید ہوتی ہے۔2 اس وقت معلوم ہوجائے گا کہ کون صحیح راستے پر تھا اور کون غلط راستے پر۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : کفار نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد سے تنگ آکر بالآخر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم بدل جاتے ہیں۔ اس کے لیے ان کی آخری تجویز یہ تھی کہ ہم آپ کے الٰہ کی عبادت آپ کے طریقہ کے مطابق کریں گے اور آپ ہمارے بتوں کی تعظیم بھی کریں۔ اس کے جواب میں آپ سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ صاف صاف فرما دیں کیا میں ذات کبریا کو چھوڑ کر ایسا رب تلاش کروں جو تمہارے ہاتھوں کے تراشے ہوئے ہیں جبکہ جس رب کی میں عبادت کرتا، اور دعوت دیتا ہوں وہ ہر چیز کا سچا اور حقیقی رب ہے۔ جن باطل معبودوں پر تم بھروسہ کرتے ہو جن کو تم اپناداتاو دستگیر اور مشکل کشا سمجھتے ہو وہ نہ کسی کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ کسی کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ بلکہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ہر نفس اپنا بوجھ خود اٹھائے گا اور اسے اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا ہے اور سب نے مالک حقیقی کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہی لوگوں کے اختلافات کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ نہ اس کے سامنے کوئی دم مار سکے گا اور نہ ہی اس کے فیصلہ سے انحراف کی کسی کو جرأت ہوگی۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو اس کے اعمال کا ذمہ دار بناتا اور اس میں جوابدہی کا تصور پیدا کرتا ہے۔ (عن أَبَی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِینَ أَنْزَلَ اللّٰہُ (وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا اشْتَرُوا أَنْفُسَکُمْ لَا أُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَا بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِی عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُول اللّٰہِ لَا أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِینِی مَا شِءْتِ مِنْ مَّالِی لَا أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب وانذر عشیرتک الاقربین ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی : ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے قریش کے لوگو ! تم اپنی ذمہ داری خود اٹھاؤ میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنو عبد مناف میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آؤں گا۔ اور اے صفیہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آؤں گا۔ اور اے فاطمہ بنت محمد میرے مال سے جو چاہتی ہے مجھ سے سوال کرلے میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔ “ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَہٗ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَلَا یَرٰی شَیْءًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍٍ ۔۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم ] ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام کریں گے، اللہ اور اس شخص کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، پھر وہ دیکھے گا اس نے کیا عمل کیے ہیں، وہ آدمی دیکھے گا تو سامنے آگ ہوگی جو بھی تم میں سے استطاعت رکھتا ہے آگ سے بچنے کی کوشش کرے چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ۔۔ جو یہ بھی نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے۔ ٢۔ آخرت میں ہر بندہ صرف اپنا ہی بوجھ اٹھائے گا۔ ٣۔ ہر کسی کو اللہ رب العالمین کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

میں اللہ کے سوا کوئی رب تلاش نہیں کرسکتا یہاں پھر مشرکین سے خطاب کرنے کا حکم فرمایا اور نہ صرف مشرکین بلکہ وہ تمام لوگ اس کے مخاطب ہیں جو اعتقادی یا عملی طور پر غیر اللہ کو رب بناتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ایسا معاملہ کرتے ہیں جو رب جل شانہٗ کے ساتھ ہونا چاہئے۔ ارشاد فرمایا۔ (قُلْ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ ھُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ ) (آپ فرما دیجیے کیا میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا رب تلاش کروں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے) یہ استفہام انکاری ہے اور مطلب یہ ہے کہ میں تو ایسا نہیں کرسکتا اور کر ہی کیسے سکتا ہوں جبکہ اللہ سب کا رب ہے، اپنی بےوقوفی سے تم جن چیزوں کو رب بنائے ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کا بھی رب ہے۔ اپنی جیسی مخلوق کو بلکہ اپنے سے بھی کمتر چیزوں کو معبود بناناحماقت اور سفاہت ہے میں تمہاری حماقت کا کیسے ساتھ دے سکتا ہوں ؟ پھر فرمایا۔ (وَ لَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْھَا وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی) یعنی جو شخص کوئی بھی عقیدہ رکھے گا یا کوئی بھی گناہ کرے گا تو اس کا و بال اسی پر ہوگا۔ کوئی دوسرا کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ جو لوگ دنیا میں کہتے ہیں کہ تم ہمارے ساتھ ہمارے گناہوں میں شریک ہوجاؤ اور ہمارے غیر اسلامی رسم و رواج میں شریک ہوجاؤ اس کا و بال ہم پر ہوگا۔ یہ اس لیے کہہ دیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی وعیدوں پر یقین نہیں ہے قیامت کے دن کوئی کسی کا و بال اپنے سر نہیں لے گا اور کوئی جان کسی کی طرف کچھ بدلہ نہیں دی گئی، پھر آخرت کی حضوری یاد دلائی اور فرمایا۔ (ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ ) پھر تم کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے سو وہ تمہیں جتلا دے گا جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے ہو۔ وہاں ان لوگوں کی نجات ہوجائے گی جو اللہ کے دین پر تھے اور سب پر عیاں ہوجائے گا کہ حق بات کون سی تھی اور کس کی تھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

186 یہ تیسرا اعلان ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے کیا اسے چھوڑ کر میں کسی اور کو اپنا رب اور کارساز بنا لوں۔ جب ہر چیز کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی ہستی اس کی شریک ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

164 آپ ان سے کہہ دیجئے کیا میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور اس کے سوا کوئی اور پروردگار اور مالک تلاش کروں حالانکہ وہی ہر چیز کا رب اور مالک ہے اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے اور کوئی گناہ کماتا ہے تو وہ اسی پر رہتا ہے اور اس کی ذمہ داری اسی پر ہوتی ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا پھر تم سب کی بازگشت اور تم سب کو اپنے پروردگار ہی کی طرف لوٹنا ہے اس وقت وہ تم کو ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کردے گا اور تم کو بتادے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ یعنی رب کے ہوتے ہوئے اور کس رب کی تلاش کروں وہی ہر چیز کا مالک ہے۔