Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 19

سورة الأنعام

قُلۡ اَیُّ شَیۡءٍ اَکۡبَرُ شَہَادَۃً ؕ قُلِ اللّٰہُ ۟ ۙ شَہِیۡدٌۢ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۟ وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ ؕ اَئِنَّکُمۡ لَتَشۡہَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخۡرٰی ؕ قُلۡ لَّاۤ اَشۡہَدُ ۚ قُلۡ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۘ۱۹﴾

Say, "What thing is greatest in testimony?" Say, " Allah is witness between me and you. And this Qur'an was revealed to me that I may warn you thereby and whomever it reaches. Do you [truly] testify that with Allah there are other deities?" Say, "I will not testify [with you]." Say, "Indeed, He is but one God, and indeed, I am free of what you associate [with Him]."

آپ کہیئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے ، آپ کہیئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا ۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے اور بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادةً ... Say: "What thing is the most great in witness!" or what is the greatest witness, ... قُلِ اللّهِ شَهِيدٌ بِيْنِي وَبَيْنَكُمْ ... Say: "Allah (the Most Great!) is Witness between you and I." for He knows what I brought you and what you will answer me with, ... وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْانُ لاُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ... this Qur'an has been revealed to me that I may therewith warn you and whomsoever it may reach. Therefore, this Qur'an is a warner for all those who hear of it. In another Ayah, Allah said, وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاٌّحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ But those of the sects that reject it, the Fire will be their promised meeting place. (11:17) Ar-Rabi bin Anas said, "Those who follow the Messenger of Allah ought to call to what the Messenger of Allah called to and warn against what he warned against." Allah said next, ... أَيِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ ... "Can you verily bear witness..." (O idolators), ... أَنَّ مَعَ اللّهِ الِهَةً أُخْرَى قُل لاَّ أَشْهَدُ ... "that besides Allah there are other gods!" Say, "I bear no (such) witness!" Similarly, in another Ayah, Allah said; فَإِن شَهِدُواْ فَلَ تَشْهَدْ مَعَهُمْ Then if they testify, testify not you with them. (6:150) Allah said next, ... قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ Say: "Only He is God, alone, and truly I am innocent of what you join in worship with Him." People of the Book Recognize the Prophet Just as They Recognize Their Own Children Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی اللہ ہی اپنی واحدنیت اور ربوبیت کا سب سے بڑا گواہ ہے اس سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں۔ 19۔ 2 ربیع بن انس کہتے ہیں اب جس کے پاس بھی قرآن پہنچ جائے اگر وہ سچا مطیع رسول ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف اسی طرح بلائے جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو دعوت دی اور اسطرح ڈرائے جس طرح آپ نے لوگوں کو ڈرایا (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] اللہ کی شہادت سب سے بڑھ کر کیسے ؟ شہادت دو طرح سے ہوتی ہے ایک آنکھوں دیکھا حال کسی قاضی، جج یا حکم کے سامنے بیان کرنا جسے انگریزی میں (WITNESS) کہتے ہیں۔ دوسرے یقین کامل کی بنا پر شہادت جسے انگریزی میں (E VIDENCE) کہتے ہیں۔ ہم مسلمان اپنے یقین کامل کی بنا پر یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ تو یہ شہادت آنکھوں دیکھی شہادت نہیں۔ نہ ہم عینی شاہد یا چشم دید گواہ ہیں کیونکہ ہم نے اللہ کو دیکھا ہے اور نہ رسول کو بلکہ ہم یہ گواہی اپنے یقین کامل یا ایمان کی بنا پر دیتے ہیں اور اللہ کی گواہی اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر سچی ہے کہ اس میں شہادت کے دونوں پہلو پائے جاتے ہیں وہ چونکہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اس لحاظ سے یہ آنکھوں دیکھی شہادت ہے پھر وہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق ومالک اور اس کا مربی بھی ہے لہذا اس جیسا یقین کامل بلکہ حقیقی علم کسی کو نہیں ہوسکتا۔ [٢١] آپ کی رسالت تا قیامت اور سب کے لئے ہے :۔ کفار مکہ کے بعد جب یہود و نصاریٰ کی اکثریت نے بھی آپ کو جھٹلا دیا تو کفار کہنے لگے کہ بتاؤ اب تمہاری رسالت کی گواہی کون دیتا ہے ؟ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اللہ میرے اور تمہارے درمیان اس بات پر گواہ ہے کہ میں فی الواقع اس کا رسول ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہوں اسی کے حکم سے کہہ رہا ہوں اور وہ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ یہ قرآن اسی نے مجھ پر نازل کیا ہے اور مجھے رسول بنانے اور قرآن نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو بھی آخرت کے عذاب سے بروقت متنبہ کر دوں اور اس قرآن کے ذریعے ان لوگوں کو بھی ڈراؤں جن جن تک یہ آواز پہنچے۔ اس آیت سے رسول اللہ کی رسالت تمام اقوام عالم کے لیے اور قیامت تک کے لیے ثابت ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امت مسلمہ کا یہ فرض ہے کہ قرآن کی آواز کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دے۔ [٢٢] یعنی گواہی محض قیاس اور ظن وتخمین کی بنا پر نہیں دی جاسکتی جب تک اس کے متعلق یقین کامل یا حقیقی علم نہ ہو یا اسے واضح دلائل سے ثابت نہ کیا جاسکتا ہو۔ سو ائے مشرکین مکہ ! بتاؤ تم اپنے ان معبودوں کے متعلق ایسی گواہی دے سکتے ہو ؟ اور اگر تم ایسی گواہی دے بھی دو تو کم از کم میں ایسی گواہی دینے کو تیار نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً ۭ۔۔ : کفار مکہ کے بعد جب یہود و نصاریٰ کی اکثریت نے بھی آپ کو جھٹلا دیا تو کفار کہنے لگے، بتاؤ اب تمہاری رسالت کی گواہی کون دیتا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان کافروں سے کہیے کہ اللہ کی ہستی سے بڑی ہستی کون سی ہے ؟ جب کوئی نہیں تو بتاؤ سب سے بڑا شہادت دینے والا کون ہوگا ؟ آپ خود ہی ان کے سامنے واضح فرما دیجیے کہ وہ تو اللہ ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی گواہی یہ ہے کہ اس نے مجھ پر قرآن اتارا، جو قیامت تک کے لیے زندہ معجزہ ہے کہ کوئی بھی اس کی کسی ایک سورت جیسی کوئی سورت نہیں لاسکا اور نہ لاسکے گا۔ یہ قرآن معجزہ ہونے کے اعتبار سے میرے سچے نبی ہونے کی صریح دلیل ہے، اسی کے پیش نظر فرمایا : ( ۣوَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ )” اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے۔ “ (رازی ) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ یہاں گواہی فرمایا قسم کو، یعنی میں قسم کھاتا ہوں اللہ کی، اس سے زیادہ کیا قسم ہوگی۔ (موضح) اس آیت میں اللہ کے لیے ” شَيْءٍ “ ہونے کو ثابت کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک موجود، زندۂ جاوید ہستی ہے، محض ایک خیال و تصوراتی ہستی نہیں ہے۔ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ۭ: یعنی میری طرف یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اس سے ڈراؤں اور اسے بھی جس تک یہ پہنچے۔ اس سے مراد قیامت تک آنے والے تمام عرب و عجم اور جن و انس ہیں اور مقصد یہ ہے کہ میری رسالت عالم گیر اور قیامت تک کے لیے ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے مطابق روم، ایران، حبشہ اور کئی ممالک کو دین اسلام کی دعوت دی اور اپنی امت کے ہر فرد کو حکم دیا : ( بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً )” میری طرف سے پہنچا دو خواہ ایک آیت ( مسئلہ) ہو۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بنی إسرائیل : ٣٤٦١، عن عبداللہ بن عمرو (رض) ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میری بات سننے والوں میں سے ہر شخص اسے پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں۔ “ [ بخاری، الحج، باب الخطبۃ أیام منًی : ١٧٤١ ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ ہر اس بندے ( کے چہرے) کو تروتازہ رکھے جو میری بات یاد رکھے اور آگے پہنچا دے۔ “ [ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع : ٢٦٥٦ تا ٢٦٥٨ ] ان احادیث اور آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے احکام تمام لوگوں کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہیں، ان میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ ہر زمانے کے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اسے اگلے زمانے کے لوگوں تک پہنچائیں۔ قرآن کے احکام کو صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے تک محدود رکھنا اور حالات کی تبدیلی کے بہانے قرآن و حدیث کے احکام میں تبدیلی کرنا قرآن کے احکام سے جان چھڑانے کی کوشش ہے اور صریح تحریف ہے، جس کی وجہ سے یہودی ملعون ٹھہرے۔ اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ ۔۔ : یعنی قرآن میں مذکور توحید کے واضح اور قطعی دلائل کے باوجود کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہیں۔ آپ کہہ دیجیے تم جو چاہو کہو، میں یہ شہادت کبھی نہیں دے سکتا۔ کہہ دیجیے کہ معبود تو صرف ایک اللہ ہے، میں کسی اور کو معبود نہیں مانتا اور صاف کہتا ہوں کہ میں ان تمام ہستیوں سے جنھیں تم شریک ٹھہراتے ہو، بری ہوں ” مَا “ مصدریہ ہو تو معنی ہوگا، میں تمہارے شرک سے جو تم کرتے ہو، بری ہوں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

A particular event which is the cause of the revelation of this verse has been generally reported by commentators. It is said that once a deputation of the people of Makkah came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . They said: ` You claim to be a Messenger of Allah. Who is your witness on this? We have yet to see a man who attests to its truth, although we have tried our best to confirm it from the Jews and Christians.& Thereupon, the verse: قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ‌ شَهَادَةً which means: You tell them whose witness could be greater than that of Allah, within whose power lies the gain and loss of everyone in the world? Then, you tell them that Allah is the witness between me and you The witness of Allah refers to those miracles and signs which Allah Ta` ala made manifest to confirm the veracity of the prophethood of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Therefore, addressing the people of Makkah, it was said: أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَ‌ىٰ. It means: Do you, even after the witness of Allah Ta` ala Himself, stand to witness against Him by saying that there are other gods too along with Allah? If that is so, you are responsible for your fate. As for me, I bear no such witness. Then, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، is asked to tell them: قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ that is, He is one God, the only one worthy of worship who has no partners, sharers or associates in His pristine Divinity. This proves that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is the Last Prophet and the Qur’ an will keep reaching until the day of Qiyamah. It will continue to be recited and taugh right through the day of Qyiamah, and people will remain obliged to follow it. Sayyidna Said ibn Jubayr (رض) said: To Whomever the Qur&an has reached, he has become like one who has visited Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . And it appears in another Hadith: To whomever the Qur&an has reached, I am his warner (` nadhir& ). Therefore, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had asked his Compan¬ions emphatically : بَلِّغُوا عَنِّی وَ لَو آیَۃً &that is, convey my instructions and teachings to people, even if it be one &Ayah. And Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: May Allah keep that person hale and hearty who heard a saying of mine, committed it to his memory and then con¬veyed it to my Ummah. This is important because it generally happens that a person may not himself appreciate the sense of what is said but which would be understood much better by a person of later times to whom the first person has conveyed it.

پانچویں آیت کا ایک خاص واقعہ نزول عامہ مفسرین نے نقل کیا ہے، کہ ایک مرتبہ اہل مکہ کا ایک وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، اور کہنے لگا کہ آپ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس پر آپ کا گواہ کون ہے ؟ کیونکہ ہمیں کوئی آدمی ایسا نہیں ملا جو آپ کی تصدیق کرتا ہو، حالانکہ ہم نے یہود سے نصاریٰ سے اس کی تحقیق میں پوری کوشش کی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اللہ سے بڑھ کر کس کی شہادت ہوگی، جس کے قبضہ میں کل جہان اور سب کا نفع و ضرر ہے، پھر آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے، اور اللہ تعالیٰ کی گواہی سے مراد وہ معجزات اور آیات بینات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے کے متعلق ظاہر فرمائی اسی لئے اس کے بعد اہل مکہ کو خطاب کرکے یہ ارشاد فرمایا : اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰي یعنی کیا اللہ تعالیٰ کی اس گواہی کے بعد بھی تم اس کے خلاف اس کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہیں، اگر ایسا ہے تو اپنے انجام کو تم سمجھو، میں تو ایسی گواہی نہیں دے سکتا، قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ یکتا معبود ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اور ارشاد فرمای آوَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ ، یعنی مجھ پر بطور وحی قرآن بھیجا گیا، تاکہ اس کے ذریعہ میں تم کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤ ں، اور ان لوگوں کو ڈراؤں جن کو قیامت تک یہ قرآن پہنچے گا۔ حضرت سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس شخص کو قرآن پہنچ گیا وہ ایسا ہوگیا جیسے اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کرلی، اور ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص کو قرآن پہنچ گیا میں اس کا نذیر ہوں۔ اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو تاکید فرمائی : بلغوا عنی ولو ایة، یعنی میرے احکام وتعلیمات لوگوں تک پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ اور صحت مند رکھے جس نے میرا کوئی مقالہ سنا پھر اس کو یاد رکھا پھر اس کو امت تک پہنچا دیا، کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی خود کسی کلام کے مفہوم کو اتنا نہیں سمجھتا جتنا بعد میں آنے والا سمجھتا ہے جس کو یہ کلام اس نے پہنچایا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَہَادَۃً۝ ٠ۭ قُلِ اللہُ۝ ٠ۣۙ شَہِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ۝ ٠ۣ وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۝ ٠ۭ اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْہَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللہِ اٰلِہَۃً اُخْرٰي۝ ٠ۭ قُلْ لَّآ اَشْہَدُ۝ ٠ۚ قُلْ اِنَّمَا ہُوَاِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِيْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۝ ١٩ۘ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ تَّكْبِيرُ ، اکبر، کبار والتَّكْبِيرُ يقال لذلک، ولتعظیم اللہ تعالیٰ بقولهم : اللہ أَكْبَرُ ، ولعبادته واستشعار تعظیمه، وعلی ذلك : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة/ 185] ، وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء/ 111] ، وقوله : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر/ 57] فهي إشارة إلى ما خصّهما اللہ تعالیٰ به من عجائب صنعه، وحکمته التي لا يعلمها إلّا قلیل ممّن وصفهم بقوله : وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران/ 191] فأمّا عظم جثّتهما فأكثرهم يعلمونه . وقوله : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] فتنبيه أنّ كلّ ما ينال الکافر من العذاب قبل ذلک في الدّنيا وفي البرزخ صغیر في جنب عذاب ذلک الیوم . والْكُبَارُ أبلغ من الْكَبِيرُ ، والْكُبَّارُ أبلغ من ذلك . قال تعالی: وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح/ 22] . التکبیر ( تفعیل ) اس کے ) ایک معنی تو کسی کو بڑا سمجھنے کے ہیں ۔ اور دوم اللہ اکبر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عظمت کا احساس ر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة/ 185] اور اس احسان کے بدلے کو خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو ۔۔ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء/ 111] اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو ۔ اور آیت : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر/ 57] آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کر نا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ میں اکبر کا لفظ سے قدرت الہی کی کاریگری اور حکمت کے ان عجائب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ جو آسمان اور زمین کی خلق میں پائے جاتے ہیں ۔ اور جن کو کہ وہ خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں ۔ جن کی وصف میں فرمایا ۔ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران/ 191] اور آسمان اور زمین پیدا ئش میں غور کرتے ہیں ۔ ور نہ ان کی ظاہری عظمت کو تو عوام الناس بھی سمجھتے ہیں ( اس لئے یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں ) اور آیت : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ روز قیامت سے پہلے دنیا یا علم برزخ میں کافر کو جس قد ر بھی عذاب ہوتا ہے عذاب آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔ الکبار ۔ اس میں کبیر کے لفظ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور کبار ( بتشدید یاء ) اس سے بھی زیادہ بلیغ ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح/ 22] اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ أحد أَحَدٌ يستعمل علی ضربین : أحدهما : في النفي فقط والثاني : في الإثبات . فأمّا المختص بالنفي فلاستغراق جنس الناطقین، ويتناول القلیل والکثير علی طریق الاجتماع والافتراق، نحو : ما في الدار أحد، أي : لا واحد ولا اثنان فصاعدا لا مجتمعین ولا مفترقین، ولهذا المعنی لم يصحّ استعماله في الإثبات، لأنّ نفي المتضادین يصح، ولا يصحّ إثباتهما، فلو قيل : في الدار واحد لکان فيه إثبات واحدٍ منفرد مع إثبات ما فوق الواحد مجتمعین ومفترقین، وذلک ظاهر الإحالة، ولتناول ذلک ما فوق الواحد يصح أن يقال : ما من أحدٍ فاضلین «1» ، کقوله تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة/ 47] . وأمّا المستعمل في الإثبات فعلی ثلاثة أوجه : الأول : في الواحد المضموم إلى العشرات نحو : أحد عشر وأحد وعشرین . والثاني : أن يستعمل مضافا أو مضافا إليه بمعنی الأول، کقوله تعالی: أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً [يوسف/ 41] ، وقولهم : يوم الأحد . أي : يوم الأول، ويوم الاثنین . والثالث : أن يستعمل مطلقا وصفا، ولیس ذلک إلا في وصف اللہ تعالیٰ بقوله : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [ الإخلاص/ 1] ، وأصله : وحد ولکن وحد يستعمل في غيره نحو قول النابغة : كأنّ رحلي وقد زال النهار بنا ... بذي الجلیل علی مستأنس وحد ( ا ح د ) احد کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے کبھی صرف نفی میں اور کبھی صرف اثبات میں ۔ نفی کی صورت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور استغراق جنس کے معنی دیتا ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر مجتمع ہو یا متفرق جیسے ما فی الدار احد ( گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ) یعنی نہ ایک ہے اور نہ دو یا دو سے زیادہ نہ مجتمع اور نہ ہی متفرق طور پر اس معنی کی بنا پر کلام مثبت میں اس استعمال درست نہیں ہے کیونکہ دو متضاد چیزوں کی نفی تو صحیح ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا اثبات نہیں ہوتا جب فی الدار واحد کہا جائے تو ظاہر ہی کہ ایک اکیلے کا گھر میں ہونا تو ثابت ہوگا ہی مگر ساتھ ہی دو یا دو سے زیادہ کا بھی اجتماعا و افتراقا اثبات ہوجائے گا پھر احد کا لفظ چونکہ مافوق الواحد کی بھی نفی کرتا ہے اس لئے ما من احد فاضلین ۔ کہناصحیح ہوگا ۔ چناچہ قرآن میں ہے { فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ } ( سورة الحاقة 47) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوگا ۔ کلام مثبت میں احد کا استعمال تین طرح پر ہوتا ہے (1) عشرات کے ساتھ ضم ہوکر جیسے احد عشر ( گیارہ ) احد وعشرون ( اکیس ) وغیرہ (2) مضاف یا مضاف الیہ ہوکر اس صورت میں یہ اول ( یعنی پہلا کے معنی میں ہوگا جیسے فرمایا : { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا } ( سورة يوسف 41) یعنی تم میں سے جو پہلا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا ۔ یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوار (3) مطلقا بطور وصف ہی ہوگا ( اور اس کے معنی ہوں گے یکتا ، یگانہ بےنظیر ، بےمثل ) جیسے فرمایا :۔ { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } ( سورة الإِخلَاص 1) کہو کہ وہ ( ذات پاک ہے جس کا نام ) اللہ ہے ۔ ایک ہے ۔ احد اصل میں وحد ہے لیکن وحد کا لفظ غیر باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ نابغہ نے کہا ہے ع ( بسیط) (10) کان رجلی وقد زال النھار بنا بذی الجلیل علی مستأنس وحددن ڈھلے وادی ذی الجلیل میں میری اونٹنی کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرا پالان بجائے اونٹنی کے اس گورخر پر کسا ہوا ہو جو تنہا ہو اور انسان کی آہٹ پاکر ڈر کے مارے تیز بھاگ رہا ہو ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) اب آگلی آیت کفار کے مقولہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر کہا کہ اگر آپ نبی ہیں تو اپنی نبوت پر کوئی گواہ لائیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آپ ان سے فرما دیجیے کہ سب سے بڑھ کر اور پسندیدہ چیز گواہ کے لیے کون سی ہے اگر یہ آپ کی بات کا جواب دیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان سے فرمائیے کہ بس اللہ تعالیٰ اس بات کا گواہ ہے کہ میں اس کا رسول ہوں اور قرآن کریم اس کا کلام برحق ہے۔ اور جبریل امین کے ذریعے یہ قرآن حکیم مجھ پر نازل کیا گیا تاکہ میں تمہیں اور جس کو یہ قرآن کی خبر پہنچے اس کو برے انجام سے ڈراؤں۔ اے اہل مکہ کیا تم پھر بھی بتوں کے متعلق گواہی دو گے ؟ اور ان کو خدا کی العیاذباللہ بیٹیاں کہوگے ؟ اگر یہ لوگ پھر بھی اس کی گواہی دیں تو آپ فرما دیجیے کہ میں تو اس شرکیہ چیز کو تمہارے ساتھ گواہی نہیں دیتا، آپ فرما دیجیے بیشک اللہ تعالیٰ ہی ایک معبود حقیقی ہے اور تم ان بتوں کو پوجتے ہو، میں ان سے بری ہوں۔ شان نزول : (آیت) ” قل ای شیء اکبر “۔ (الخ) ابن اسحاق (رح) اور ابن جریر (رح) نے سعید (رح) یا عکرمہ (رح) کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ نمام بن زید اور قروم بن کعب اور حجری بن عمرو آئے اور کہنے لگے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہے، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، مجھے اسی توحید حق پر مبعوث کیا گیا اور میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی یعنی آپ فرما دیجیے کہ سب سے بڑھ کر گواہی کے لیے کون سی چیز ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَکْبَرُ شَہَادَۃً ط قُلِ اللّٰہُ قف شَہِیْدٌم بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ قف ) یہ گویا اس سورة کے عمود کا عکس ہے۔ میں پہلے بتاچکا ہوں کہ اس سورة کا عمود یہ مضمون ہے کہ مشرکین کے مطالبے پر ہم کسی قسم کا حسی معجزہ نہیں دکھائیں گے ‘ کیونکہ اصل معجزہ یہ قرآن ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ پر یہ قرآن اتار دیا ‘ آپ تبشیر ‘ انذار اور تذکیر کے فرائض اسی قرآن کے ذریعے سے سر انجام دیں۔ جس کے اندر صلاحیت ہے ‘ جو طالب حق ہے ‘ جو ہدایت چاہتا ہے ‘ وہ ہدایت پالے گا۔ باقی جس کے دل میں کجی ہے ‘ ٹیڑھ ہے ‘ تعصب ‘ ضد اور ہٹ دھرمی ہے ‘ حسد اور تکبر ہے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو دس لاکھ معجزے دکھا دیجیے وہ نہیں مانے گا۔ کیا علماء یہود حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معجزے دیکھ کر آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے ؟ کیسے کیسے معجزے تھے جو انہیں دکھائے گئے ! آپ ( علیہ السلام) گارے سے پرندے کی شکل بنا کر پھونک مارتے اور وہ اڑتا ہوا پرندہ بن جاتا۔ یہ احیائے موتیٰ اور خلق حیات تو وہ چیزیں ہیں جو بالخصوص اللہ تعالیٰ کے اپنے (exclusive) اَفعال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ہاتھ پر یہ نشانیاں بھی ظاہر کردیں ‘ لیکن انہیں دیکھ کر کتنے لوگوں نے مانا ؟ لہٰذاہم ایسا کوئی معجزہ نہیں دکھائیں گے۔ البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محنت اور کوشش کرتے جایئے ‘ دعوت و تبلیغ کرتے جایئے۔ یہاں پر لفظ بِہٖ خاص پر نوٹ کیجیے۔ فرمایا کہ یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ میں خبردار کر دوں تمہیں اس کے ذریعے سے ( بِہٖ ) یعنی میرا انذار قرآن کے ذریعے سے ہے۔ مزید فرمایا : (وَمَنْم بَلَغَ ط) اور جس تک یہ پہنچ جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تو تمہیں پہنچا رہا ہوں ‘ اب جو امت بنے گی وہ آگے پہنچائے گی۔ جس تک یہ قرآن پہنچ گیا اس تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انداز پہنچ گیا ‘ اور یہ سلسلہ تا قیامت چلے گا ‘ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہی زمانے کے لیے رسول بن کر نہیں آئے تھے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو تا قیامت رسول ہیں۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی رسالت کا دور چل رہا ہے۔ جو انسان بھی قیامت تک دنیا میں آئے گا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت دعوت میں شامل ہے ‘ اس تک قرآن کا پیغام پہنچانا اب امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ ہے۔ اب آ رہا ہے ایک متجسسانہ سوال (searching question) ۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا ‘ جب آپ کو معلوم ہو کہ آپ کا مخالف جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اپنے دل کے یقین سے نہیں کہہ رہا ہے ‘ بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر کہہ رہا ہے ‘ تو پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر متجسسانہ (searching) انداز میں اس سے سوال کیا جاتا ہے۔ یہی انداز یہاں اختیار کیا گیا ہے۔ فرمایا : ( اَءِنَّکُمْ لَتَشْہَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخْرٰی ط) (قُلْ لَّآ اَشْہَدُ ج) تم ایسا کہو تو کہو ‘ لیکن میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایسی خلاف عقل اور خلاف فطرت بات کہہ سکوں۔ (قُلْ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ ) واضح رہے کہ اس سورة کا زمانۂ نزول مکی دور کا آخری زمانہ ہے۔ اس وقت تک مدینہ میں بھی خبریں پہنچ چکی تھیں کہ مکہ کے اندر ایک نئی دعوت بڑے زور و شور اور شدو مد کے ساتھ اٹھ رہی ہے۔ چناچہ مدینہ کے یہودیوں کی طرف سے سکھائے ہوئے سوالات بھی مکہ کے لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امتحاناً کرتے تھے۔ مثلاً آپ ذرا بتائیے کہ ذو القرنین کون تھا ؟ اگر آپ نبی ہیں تو بتائیے کہ اصحاب کہف کا قصہ کیا تھا ؟ اور یہ بھی بتائیے کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ سب سوالات اور ان کے جوابات سورة بنی اسرائیل اور سورة الکہف میں آئیں گے۔ مدینہ کے یہودیوں تک ان کے سوالات کے جوابات سے متعلق تمام خبریں بھی پہنچ چکی تھیں اور ان کے سمجھ دار اور اہل علم لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہ وہی نبی ہیں جن کے ہم منتظر تھے۔ مگر یہ لوگ یہ سب کچھ سمجھنے اور جان لینے کے باوجود محروم رہ گئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11. God Himself witnesses that the Prophet (peace be on him) has been designated by Him and that what he communicated was by His command. 12. In order to bear witness to something, mere guesswork and imagination are not sufficient. What is required is knowledge on the basis of which a person can state something with full conviction. Hence. the question means: Did they really have knowledge of anyone other than God who could lay claim to man's worship and absolute service by dint of being the omnipotent sovereign, the one whose will prevailed throughout the universe? 13. The interlocutor is instructed to tell people that if they wanted to bear false witness and testify without knowledge, they could do so, but that he himself could not do something so unreasonable.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :11 یعنی اس بات پر گواہ ہے کہ میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہوں اسی کے حکم سے کہہ رہا ہوں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :12 کسی چیز کی شہادت دینے کے لیے محض قیاس و گمان کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے علم ہونا ضروری ہے جس کی بنا پر آدمی یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ ایسا ہے ۔ پس سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تمہیں یہ علم ہے کہ اس جہان ہست و بود میں خدا کے سوا اور بھی کوئی کار فرما حاکم ذی اختیار ہے جو بندگی و پرستش کا مستحق ہو؟ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :13 یعنی اگر تم علم کے بغیر محض جھوٹی شہادت دینا چاہتے ہو تو دو ، میں تو ایسی شہادت نہیں دے سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(19 ۔ 21) ۔ معتبر سند سے ابن جریر اسن اسحاق اور کلبی نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ چند مشرکین جمع ہو کر آنحضرت کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کون سی گواہی پر ہم آپ کو اللہ کا رسول جانیں ہم نے یہود و نصاریٰ سے پوچھا تو وہ کہتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں بھی آپ کی نبوت کی کوئی تصدیق نہیں ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٢ ؎۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ ان منکرین نبوت سے پوچھا جاوے کہ کونسی گواہی تم کو تصدیق نبوت کی درکار ہے اگر وہ کچھ جواب دیویں تو خیر ورنہ اللہ سے بڑھ کر کوئی گواہی نہیں ہے اللہ اپنے نبی کی نبوت کا گواہ ہے اور اللہ کی گواہ کی نشانی یہ ہے کہ اس نے اپنے نبی پر اپنا کلام اتارا ہے اور اس بات کا ثبوت کہ یہ کلام اللہ کا ہے یہ ہے کہ باوجود دعویٰ فصاحت اور بلاغت کے تم لوگوں سے ایسا کلام نہیں بن سکتا اور یہ کلام اللہ نے اس واسطے اپنے نبی پر اتارا ہے کہ اس زمانہ کے حاضرین اور قیامت تک جو لوگ پیدا ہوں گے یہ کلام ان کو پہنچ جاوے اور وہ اس سے نصیحت پکڑیں تفسیر ابن ابی حاتم میں محمد بن کعب سے روایت ہے کہ قیامت تک جس کسی کو قرآن شریف کا کوئی حکم پہنچا وہ ایسا ہے کہ اس شخص نے گویا آنحضرت سے بالمشافہ وہ حکم حاصل کیا ١ ؎ اور تفسیر عبد الرزاق میں قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ قرآن شریف کا جو حکم جس کو پہنچا وہ گویا اللہ تعالیٰ سے اس کو پہنچا ٢ ؎۔ اس واسطے آپ نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی بخاری کی راویت میں تاکید فرمائی ہے کہ اگر قرآن کی ایک آیت بھی کسی کو پہنچی تو وہ دوسروں کو پہنچا دیوے ٣ ؎ اب آگے فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان مشرکوں سے پوچھو کہ تم لوگ اللہ کے رسول کی نبوت پر تو گواہ چاہتے ہو لیکن تم نے جو بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے تمہارے پاس اس کی کیا گواہی ہے وہ پیش کرو اس پر یہ لوگ گواہی کے پیش کرنے سے عاجز ہوجاویں گے تو تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں تمہارے ان شرک کی باتوں کی غلط ہونے کی گواہی دیتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ ملت ابراہیمی کے موافق اللہ وحدہ لا شریک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور تم لوگ ملت ابراہیمی کے برخلاف ان شرک کی باتوں پر اڑے ہوئے ہو تو میں تمہاری ان شرک کی باتوں سے بیزار ہوں۔ آدمی کی گواہی میں بھول چوک جھوٹ ممکن ہے اللہ تعالیٰ کی گواہ میں ان باتوں میں سے کسی بات کا شبہ نہیں ہوسکتا اس لئے اللہ کی گواہی بڑی گواہی ہے۔ پھر فرمایا اہل کتاب کی کتابوں میں تو نبی آخر الزمان کی ایسی نشانیاں ہیں جن کے سبب سے وہ لوگ نبی آخر الزمان کو ایسا پہچانتے ہیں جس طرح ہر ایک شخص اپنی اولاد کو پہچانتا ہے لیکن علم الٰہی کے موافق ان لوگوں کی قسمت میں عقبیٰ کا ٹوٹا لکھا ہوا ہے اس واسطے ان لوگوں نے اپنی کتابوں کو بدل ڈالا اور خود بھی نبی آخر الزمان کی نبوت کا کہیں پتہ نہیں ہے آخر کو فرمایا مشرکوں کا یہ شرک اور اہل کتاب کا یہ نبی آخر الزمان کی نبوت کا انکار اللہ پر ایک جھوٹ باندھنا ہے جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں وہ اپنی جان پر ایسا ظلم کر رہے جس کے سبب سے وہ دین و دنیا میں کبھی فلاح کو نہ پہنچیں گے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عمران بن حصین (رض) کی حدیث ٤ ؎ اوپر گذرچ کی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ علم ازلی کے موافق جو شخص دوزخ میں جانے کے قابل پیدا ہوا ہے باوجود ہر طرح کی فہمائش کے وہ اپنی نافرمانی سے کبھی باز نہ آئے گا یہ حدیث گویا ان آیتوں کی تفسیر ہے جس سے ان لوگوں کے راہ راست پر نہ آنے کا سبب معلوم ہوتا ہے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے اسی واسطے فرمایا کہ ایسے لوگ کبھی فلاح کو نہیں پہنچ سکتے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:19) قل ای شیء اکبر شھادۃ۔ ای شیء مبتدا اکبر خبر شھادۃ تمیز (اے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کہہ کہ گواہی کے لحاظ سے کونسی چیز سب سے بڑی (معتبر) ہے۔ یہ اس سوال کے جواب میں ہے کو کلبی کی روایت کے مطابق کفار مکہ نے کیا تھا۔ ارنا من تشھد انک رسول اللہ۔ آپ نے ان سے پوچھا جواب میں کہ کونسی شہادت سب سے معتبر ہے اور پھر فرمان خداوندی کے مطابق ان کو بتایا۔ اللہ شھید بینی وبینکم میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے۔ بعض کے نزدیک اللہ پر وقف ہے اور یہ پہلے سوال ای شیء اکبر شھادۃ کا جواب ہے اور شھید بینی وبینکم نیا جملہ ہے۔ اور اس سے پہلے وھو محذوف سمجھا جائیگا۔ لانذرکم۔ انذر۔ انذار سے مضارع ہے اور بوجہ عمل لام منصوب ہے۔ یہ لام لام کی کہلاتا ہے۔ لام کی کے بعد ان مقدرہ ہے جو مضارع کو نصب دیتا ہے۔ صیغہ واحد متکلم کم ضمیر مفعول ۔ جمع مذکر حاضر تاکہ میں تم کو ڈراؤں۔ من بلغ۔ لا نذر من بلغ ھذا القرآن۔ تاکہ جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان کو متنبہ کروں۔ ائنکم۔ الف استفہامیہ ان حرف مشبہ بالفعل کم ضمیر جمع مذکر حاضر کیا واقعی تم لتشھدون۔ لام تاکید تشھدون مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم گواہی دیتے ہو۔ ائنکم لتشھدون کیا تم واقعی یہ شہادت دیتے ہو۔ الھۃ اخری۔ الہۃ بہت سے معبود الہ کی جمع ۔ اخری۔ الہۃ کی صفت ہے۔ اگر موصوف جمع غیر ذوی العقول ہو تو صفت واحد مؤنث آتی ہے ۔ جیسے ولی فیہا ماریب اخری (20:18) اور اس میں اور بھی بہت سی ضرورتیں پوری کرتا ہوں۔ آیۃ ہذا میں پتھروں اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کو الہۃ کہنے کی وجہ سے تحقیر کے طور پر ان غیر ذوی العقول الہۃ کی صفت بجائے جمع کے واحد مؤنث لائی گئی ہے۔ بری۔ بیزار۔ بےتعلق ۔ بےگناہ۔ بروزن فعیل براء ۃ سے بمعنی اسم فاعل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت روسا اہل مکہ کے جواب میں ہے انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صدق بنوت کی شہادت پیش کریں کیونکہ اہل کتاب کہتے ہیں کہ توراۃ میں تمہارے آخری رسول ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس بات کا اللہ گواہ ہے کہ اس نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اللہ تعالی، کی گواہی یہ ہے کہ اس نے مجھ پر قرآن اتارا ہے جو اپنے معجز ہونے کے اعتبار سے میرے سچے نبی ہونے کی صریح دلیل ہے اسی کے پیش نظر فرمایا واوحی الی ھذالقرآن الخ (رازی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں گواہی فرمایا قسم کو یعنی میں قسم کھاتا ہوں اللہ کی اس سے زیادہ کیا قسم ہوگی۔ ( موضح)11 ومن بلغ سے جمیع عرب عجم یا جن وانس مراد ہیں اور اس سے مقصد یہ ہے کہ میری رسالت عالمگیر اور قیامت تک کے لیے ہے۔ (رازی) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روم وایران و حبشہ تمام ممالک کو دین اسلام کی دعوت دی۔ (ابن مرودیہ) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جسے قرآن پہنچ گیا اسے گو یا میں نے اپنی زبان سے پہنچا یا (ابن جریر وغیرہ) قرآن مجید اور حدیث پاک کے احکام عالمگیر اور ناقبل تغیر اور قیامت تک کے لیے ہیں قرآن کے احکام کو عہد نبوع تک محدود رکھنا اور تفییر احوال کے ساتھ تغییر فتویٰ کی آڑ میں قرآن کے نصوص سے گلو خلاصی کرانے کی بہانے ڈھو نڈنا تحریف کے مترادف ہے تغییر احوال سے تغییر فتویٰ کا اصول صرف اجتہادی مسائل تک محدود ہے اور ائمہ کی فقہ اور ان کے قتادیٰ اس بات کی کھلی شہادت ہیں پھر جو لوگ فقہ ائمہ کو دائمی احکام کی حیثیت سے پرانی تقلید کے قائل ہیں بھی غلطی پر ہیں صحیح یہ ہے ائمہ نے اپنے زمانہ کے احوال وظرف کو سامنے رکھکر اجتہادی مسائل مسئبظ اور مرتب کئے تھے ( م، ع)12 یا جن کو تم اللہ کا شریک قراردیتے ہو میں انے بیزار ہوں۔ (وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر کفار کے اعتراضات کا جواب، اس کے دلائل اور اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور قوت وسطوت ثابت کرنے کے آفاقی اور طبعی دلائل دیے ہیں۔ جو شہادت کا درجہ رکھتے ہیں یاد رہے اللہ تعالیٰ کی شہادت سے بڑھ کر کسی کی شہادت نہیں ہوسکتی۔ توحید کی گواہی سب سے پہلی اور سب سے بڑی گواہی ہے۔ اب ان دلائل پر شہادت قائم کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت سے بڑھ کر کوئی شہادت نہیں ہوسکتی۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ وہی اس کی ابتدا اور انتہا کو جانتا ہے۔ وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور اس پر اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اس کی شہادت سے بڑھ کر کسی اور کی شہادت ٹھوس اور بڑی نہیں ہوسکتی۔ یاد رہے شہادت کی دو بڑی اقسام ہیں۔ عینی اور یقینی شہادت : عینی شہادت کا معنی ہے کہ واقعہ شہادت دینے والے کے سامنے پیش ہوا ہو اور یقینی شہادت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے اتنے ٹھوس دلائل ہوں کہ کوئی اس کی تردید نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ کی شہادت ان دونوں اصولوں کی بنیاد پر کامل اور اکمل حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی شہادت کو شہادت اکبر کا درجہ حاصل ہے۔ لہٰذا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ اپنے اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کو شاہد کے طور پر پیش فرمائیں کہ اسی نے آپ پر یہ قرآن وحی فرمایا تاکہ آپ ہر اس شخص کو اس کے برے اعمال کے انجام سے ڈرائیں جس تک قرآن کا پیغام پہنچجائے۔ پھر فرمایا کہ ان سے پوچھیے کیا تم ان دلائل کے باوجود شہادت دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہوسکتا ہے ؟ اس سوال کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ میں یہ کہنے اور شہادت دینے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہوسکتا ہے۔ بلکہ آپ یہ اعلان فرمائیں کہ وہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ اس آیت میں توحید کے اثبات کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ کا پیغام یعنی قرآن مجید لوگوں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ غیر مسلموں پر توحید و رسالت کی شہادت قائم ہو سکے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی ہر گواہی سے بڑی ہے۔ ٢۔ قرآن مجیدلوگوں پر اللہ تعالیٰ کی شہادت ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے مبرا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی شہادت سب سے بڑی اور معتبر ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (النساء : ٣٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔ (الفتح : ٢٨) ٣۔ اللہ کی گواہی سے کسی کی گواہی بڑی نہیں ہے۔ (الانعام : ١٩) ٤۔ اللہ لوگوں پر گواہ ہے۔ (آل عمران : ٩٨) ٥۔ نبی پر جو کچھ نازل ہو اللہ تعالیٰ اس پر گواہ ہے۔ (النساء : ١٦٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ١٩۔ ” ان سے پوچھو کس کی گواہی بڑھ کر ہے ؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ۔ یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ‘ سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی شریک ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ بات کا جگہ جگہ رکنا ‘ اور پھر موثر آغاز اور ایک ہی آیت میں یہ زیروبم ایک عجیب انداز کلام ہے ۔ ایک لفظ میں ایک موقف بیان ہوجاتا ہے ‘ ایک ایک لفظ ایک منظر کو پیش کرتا ہے جس سے شبہات وخلجانات اور ان کی نوعیت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ بذات خود حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کیا جاتا ہے اور احکام دیئے جاتے ہیں ۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان احکامات کے تحت ان مشرکین سے مخاطب ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا اور لوگوں کو اپنا سرپرست بنا رکھا ہے ۔ وہ اللہ کے مخصوص حقوق میں بعض حقوق غیر اللہ کو دیتے ہیں اور ان سرپرستوں کو اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں ۔ پھر یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ان کی اس حالت پر برقرار رکھیں تاکہ وہ اس کے بدلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین میں شریک ہوجائیں ۔ ان کے خیال میں ایسا ممکن تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام اور شرک ایک ہی دل میں جمع ہو سکتے ہیں ۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سوچ دل میں بٹھالی تھی ۔ آج کے دور جدید میں بھی لوگوں کے دلوں میں اس قسم کی سوچ بیٹھی ہوئی ہے ۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حوالے سے مسلمان بھی ہو سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے معاملات میں غیر اللہ سے ہدایات بھی لے سکتے ہیں ۔ وہ غیر اللہ کے مطیع فرمان بھی ہوسکتے ہیں اور غیر اللہ سے غیبی امداد بھی لے سکتے ہیں اور غیر اللہ کو ولی اور سرپرسب بھی بنا سکتے ہیں ۔ حضور اب یہاں مشرکیں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ یہاں آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین اور ان کے ادیان کی راہیں جدا ہوجاتی ہیں ۔ آپ کی توحید اور ان کا شرک اب اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسلام اور ان کی جاہلیت ایک جگہ زندہ نہیں رہ سکتے ۔ اب آپ ان کے ساتھ فیصلہ کردیتے ہیں : ” اب میرے اور تمہارے درمیان اتحاد واتصال ممکن نہیں ہے ۔ اتحاد صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ تم لوگ اپنا دین چھوڑ کر میرے دین میں شامل ہوجاؤ ورنہ ۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ اتحاد ہو سکے کیونکہ آغاز ہی سے دونوں کی رہیں جدا ہوچکی ہیں ۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ یوں ہمکلام ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ کون سی سند اور شہادت ہے ؟ ذرا لائیں میدان میں کوئی شہادت اور کوئی ثبوت اپنے موقف پر ۔ (آیت) ” قل ای شیء اکبر شھادۃ “۔ (٦ : ١٩) ان سے پوچھو کس چیر کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے ۔ “ اس پوری کائنات میں سب سے بڑی شہادت کیا ہے ؟ وہ کون سی شہادت ہے جسے درجہ تصدیق حاصل ہے ؟ مقدمے میں کون سا ثبوت فائنل ہے جس کے بعد کسی ثبوت کی ضرورت نہ ہو ؟ یہ نہایت ہی عمومی سوال ہے ۔ شیء کے لفظ سے سوال کیا گیا ہے یعنی پوری کائنات کی کوئی شے ثبوت میں لاؤ ۔ جو سب سے بڑی شہادت ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس طرح حکم دیا جاتا ہے کہ ان سے پوچھو ‘ اسی طرح آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ان کو جواب بھی دے دو ۔ اس لئے کہ خود مخالفین اس بات کے معترف تھے کہ دراصل جواب وہی ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ یہ جواب دے دیں ۔ (آیت) ” قل اللہ (٦ : ١٩) ” کہو اللہ “ ہاں ! بیشک سب سے بڑا گواہ ہے ۔ وہی تو ہے جو اس سچائی کو بیان کر رہا ہے ۔ وہی تو ہے جو سب سے بھلے فیصلے کرتا ہے اور اس کی گواہی کے بعد کوئی گواہی نہیں ہے ۔ اس کی بات کے بعد کسی بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جب اللہ بات کر دے تو تمام باتیں ختم ہوجاتی ہیں اور معاملے کا فیصلہ ہوجاتا ہے ۔ جب اس حقیقت کا اعلان کردیا گیا کہ اللہ شہادت سب سے برتر شہادت ہے تو اب اس بات کا اعلان کیا جاتا ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان بس اللہ گواہ ہے اور اللہ ہی اس مسئلے کا فیصلہ کرے گا ۔ (آیت) ” شھید بینی وبینکم “۔ (٦ : ١٩) ” میرے اور تمہارے درمیان وہ گواہ ہے ۔ “ مطلب یہ ہوا (آیت) ” ھو شھید) ۔ میرے اور تمہارے درمیان وہ گواہ ہے ۔ اس مقام پر لفظ اللہ کے بعد وقف مناسب ہے ۔ کیونکہ یہاں مختصر مختصر فقروں میں بات ہو رہی ہے ۔ یعنی لفظ اللہ کے بعد وقف وصل کے مقابلے میں زیادہ مناسب ہے ۔ اگر وصل ہو تو اللہ (آیت) ” شھید بینی وبینکم “۔ (٦ : ١٩) ہوگا ۔ جب یہ اصول متعین ہوگیا کہ اس معاملے میں فیصلہ صرف اللہ کا فیصلہ ہے تو یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی شہادت قرآن کی شکل میں آگئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن کریم محض اس لئے نازل کیا ہے کہ میں تمہیں اور ان تمام دوسرے لوگوں کو ڈراؤں جن تک وہ پہنچے ۔ آپ کی زندگی میں یا آپ کی وفات کے بعد ۔ لہذا قرآن کریم ان لوگوں پر بھی حجت ہوگا جن تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں پہنچایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جن تک پہنچا ۔ اس لئے کہ انسانی سوچ کے اس اساسی مسئلے میں قرآن ہی فیصلہ کن شہادت ہے اور اسی سوچ پر دنیا اور آخرت کی نجات کا مدار ہے اس پر انسانی وجود قائم ہے ۔ (آیت) ” واوحی الی ھذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ (٦ : ١٩) ” اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے سب کو متنبہ کردوں ۔ “ ہر وہ شخص جس تک قرآن کی تعلیمات پہنچ جائیں ‘ کسی ایسی زبان میں جسے وہ سمجھتا ہو اور اس سے وہ دعوت قرآن اخذ کرسکتا ہو تو اس پر حجت قائم ہوگئی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فریضہ انذار ادا ہوگیا ‘ اور اگر وہ نافرمانی کرے اور تکذیب کرے تو اس کے لئے عذاب لازم ہوگیا ۔ (ہاں جو شخص عربی زبان نہیں جانتا اور اس کی زبان میں قرآن کی دعوت بھی موجود نہیں ہے تو اس پر حجت قائم نہ ہوگی اور اس بات کا مؤاخذہ اہل اسلام سے ہوگا کیونکہ انہوں نے اس زبان میں قرآن کے مفہوم کو منتقل نہ کیا جسے وہ سمجھتا ہے ۔ اگر اس کی زبان میں قرآن کا ترجمہ کردیا گیا ہو تو اس پر حجت تمام ہوگی) ۔ جب یہ اعلان کردیا گیا کہ اللہ کی شہادت قرآن کریم کے اندر درج ہے تو اس شہادت کا مضمون بھی بتا دیا گیا ۔ اور یہ چیلنج کی صورت میں اور سخت تنبیہ کے انداز میں بتادیا گیا وہ لوگ جو شہادت دیتے تھے اس پر ان کی سرزنش کی گئی کہ کیا تم اللہ کے مقابلے میں خود اپنی شہادت پیش کرتے ہو ؟ بتا دیا گیا کہ ہم تمہاری اس شہادت کو مسترد کرتے ہیں ۔ آپ اس کے مخالف موقف کا اعلان فرما دیتے ہیں اور اعلان کردیتے ہیں کہ اللہ کی ذات وحدہ لاشریک ہے ۔ صرف اللہ ہی الہ ہے اور اس معاملے میں ہمارے اور تمہارے مکمل جدائی ہے ‘ ہماری راہیں مختلف ہیں ۔ نہایت ہی تاکیدی اور فیصلہ کن الفاظ میں اپنی براءت کا اظہار کردیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” قُلْ أَیُّ شَیْْء ٍ أَکْبَرُ شَہَادۃً قُلِ اللّہِ شَہِیْدٌ بِیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّہِ آلِہَۃً أُخْرَی قُل لاَّ أَشْہَدُ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلَـہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ (19) ” کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی شریک ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ “ قرآن کی یہ آیات ان آیات کے یہ مقطعے اور ان کی یہ ضربات انسانی دل کو اس قدر جھنجوڑتی ہیں کہ الفاظ میں ان کے اثرات کو بیان کرنا ہی محال ہے اس لئے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ اپنے الفاظ کے ذریعے ان کے اثرات اور ان کی خوبصورتی کو محدود کر دوں کیونکہ کوئی تبصرہ ان کے حسن کو بیان نہیں کرسکتا ۔ آیات کے اس مجموعے یا اس لہر میں جس مسئلے کو لیا گیا ہے اس پر قدرے ضروری ہے ۔ یہ مسئلہ سرپرستی ‘ توحید اور مشرکین کے ساتھ کے ساتھ مکمل جدائی کا مسئلہ ہے ۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کا اساسی مسئلہ ہے اور اس دین میں یہ ایک عظیم اور اہم حقیقت ہے ۔ آج کے اسلامی گروہ اور اسلامی جماعت کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے پر غور کرے ‘ اس سبق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذراطویل وقفہ کرے اور تامل و تدبر کرے ۔ اس وقت تحریک اسلامی کا مقابلہ پورے کرہ ارض پر چھائے ہوئے نظام جاہلیت کے ساتھ ہے ۔ جس طرح نزول قرآن کے وقت برپا ہونے والی تحریک اسلامی کا مقابلہ اس وقت کی جاہلیت سے تھا ۔ اس لئے آج کی تحریک اسلامی کو چاہئے کہ وہ اپنا موقف نزول قرآن کے وقت کی تحریک اسلامی کے موقف کی روشنی میں متعین کرے تاکہ وہ اس روشنی کی مدد سے اپنی راہ کو اچھی طرح دیکھ سکے ۔ چناچہ تحریک اسلامی کی یہ ضرورت ہے کہ وہ اس آیات پر خوب اچھی طرح طویل غور وفکر کرے اور پہلی تحریک اسلامی کے نقوش پا سے راہنمائی حاصل کرے ۔ زمانہ لوٹ کر اسی مقام پر آگیا ہے جہاں پہلی تحریک اسلامی کے وقت تھا ۔ انسانیت اسی مقام پر آگئی ہے جس پر وہ نزول قرآن کے وقت تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ و موجود تھے ۔ ان پر اسلام نازل ہوا تھا اور اس کی اساس اس بات کی شہادت پر تھی کہ اللہ ایک ہے ‘ اور اس کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے ۔ یہ شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے ‘ اسی طرح ہم نے ادا کرنی ہے جس طرح اسے حضرت ربعی ابن عامر نے ادا کیا تھا ‘ جب وہ مسلمانوں کے کمانڈر انچیف کے ایلچی کے طور پر ایرانیوں کے کمانڈر انچیف رستم کے ہاں گئے تھے اور جنہوں نے حضرت ربعی سے پوچھا تھا ” تم نے کیوں ہم لوگوں پر لشکر کش کی کی ہے ؟ “ ان کا جواب یہ تھا ” اللہ نے ہمیں اس لئے اٹھایا ہے کہ وہ اپنے جن بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنا چاہتا ہے انہیں اس غلامی سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی میں داخل کر دے ۔ پھر انہیں دنیا اور آخرت کی وسعتوں کے اندر لے جائے اور دوسرے ادیان کے مظالم سے نکال کر اسلام کے نظام عدل میں داخل کر دے ۔ “ حضرت ربعی (رض) نے یہ شہادت یہ جانتے ہوئے دی کہ رستم اور اس کے ساتھی کسی کی پوجا یہ جانتے ہوئے نہ کرتے تھے کہ وہ الٰہ ہے اور ان کا خالق ہے یا اس کائنات کا خالق ہے اور نہ یہ لوگ کسری کے سامنے معروف مراسم عبودت بجا لاتے تھے ۔ بلکہ وہ قانون اور شریعت کسری سے اخذ کرتے تھے ۔ اس طرح وہ کسری کی بندگی کرتے تھے جو اسلام کے منافی تھی ۔ ربعی (رض) نے ان کو بتایا کہ وہ لوگوں کو انسانی نظاموں سے نکال کر اللہ کے نظام حاکمیت میں داخل کرنا چاہتے ہیں جس میں اطاعت اور بندگی صرف اللہ وحدہ کے لئے مخصوص ہے اور اس کے مقابلے میں اسلامی نظام زندگی ہے جس کے اندر حاکمیت ‘ اطاعت اور بندگی صرف وحدہ کے لئے ہے ۔ آج کل زمانہ اس مقام پر لوٹ آیا ہے جس پر کبھی اسلام نے لوگوں کے سامنے (لا الہ الا اللہ) کی شہادت پیش کی تھی ۔ آج انسانیت لوٹ کر بندوں کی غلامی میں داخل ہوگئی ہے ‘ وہ دوسرے ادیان کے مظالم سہ رہی ہے اور اس عظیم شہادت سے اس نے روگردانی اختیار کرلی ہے ۔ اگرچہ انسانیت کی آبادی کا ایک حصہ مسجدوں سے اذانوں کے ذریعے سے روز وشب (لا الہ الا اللہ) کی شہادت نشر کر رہا ہے ۔ لیکن اسے معلوم نہیں ہے کہ اس شہادت اور کلمہ شہادت کا مدلول اور مفہوم کیا ہے ؟ نہ یہ شہادت دیتے وقت یہ لوگ اس مفہوم کو ذہن میں لاتے ہیں ۔ نہ یہ لوگ اس حاکمیت کا انکار کرتے ہیں جو کچھ لوگوں نے اپنے لئے مخصوص کرلی ہے حالانکہ ان کا یہ موقف اعلان خدائی کے برابر ہے چاہے وہ اپنے اس موقف کا اعلان کریں یا نہ کریں ۔ مثلا دنیا میں مروج مجالس قانون ساز کا جو حال ہے یا کچھ اقوام کا حال ہے اس معاملے میں افراد ومجالس کا حکم ایک ہی ہے ۔ افراد اور اقوام کی حیثیت ایک ہی ہے ۔ یہ افراد اور یہ مجالس اور یہ اقوام چونکہ الٰہ نہیں ہیں اس لئے انہیں انسانون کے لئے قانون سازی کا کوئی حق نہیں ہے الا یہ کہ انسانیت مرتد ہو کر (لا الہ الا اللہ) سے انکار کر دے اور وہ یہ اختیارات اللہ کے سوا کسی اور کو دے دے تو اس صورت میں وہ عقیدہ توحید کی منکر ہوگی اور صرف اللہ اس کا والی اور سرپرست نہ ہوگا ۔ اس وقت صورت حالات یہ ہے کہ پوری انسانیت ‘ جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو رات اور دن مساجد سے اذانوں کے ذریعے سے (لا الہ الا اللہ) کا مفہوم نہ سمجھتے ہوئے اس کا اعلان کرتے ہیں ۔ یہ لوگ قیامت کے دن سب سے بڑی گناہگار اور زیادہ عذاب کے مستحق ہوں گے ‘ اس لئے کہ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد لوٹ کر انسانوں کی بندگی اختیار کرلی ہے ۔ اس کے بعد کہ ان پر یہ سچائی اتری اور ان تک پہنچ گئی اور اس کے بعد کہ وہ دین اسلام میں داخل تھے ‘ لہذا اس دور میں تحریک اسلامی اس بات کی زیادہ محتاج ہے کہ وہ ان آیات پر اچھی طرح غور کرے : (آیت) ” قُلْ أَغَیْْرَ اللّہِ أَتَّخِذُ وَلِیّاً فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلاَ یُطْعَمُ قُلْ إِنِّیَ أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِکَیْنَ (14) ” کہو ‘ اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنا لوں ؟ اس خدا کو چھوڑ کر جو زمین وآسمانوں کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے اور روزی لیتا نہیں ؟ کہو ‘ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے آگے سرتسلیم خم کروں (مجھے کہا گیا) تو بہر حال مشرکوں میں شامل نہ ہو۔ “ چاہے اس کا جو مفہوم بھی لیا جائے ‘ اس کا مطلب ہوگا اس کے سامنے عاجزی کرنا ‘ اس کی اطاعت کرنا ‘ اس سے نصرت طلب کرنا اور اس سے استعانت طلب کرنا ۔ یہ سب امور اسلام کے ساتھ متضاد ہیں اس لئے کہ یہ امور شرکیہ ہیں اور اسلام آیا ہی اس لئے ہے کہ لوگوں کو ان شرکیہ امور سے نکالا جائے ۔ تحریک اسلامی کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ولایت کا اظہار سب سے پہلے جس بات میں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی اپنے نظریہ یا اپنی زندگی کے نظام میں غیر اللہ کی حاکمیت کو قبول کرلے ۔ یہ وہ بات ہے جس میں میں اس وقت کرہ ارض پر بننے والی پوری انسانیت مبتلا بلا استثناء ۔ اور تاکہ تحریک اسلامی کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ اس کے سامنے جو ہدف ہے وہ یہ ہے کہ اس نے عوام الناس کو لوگوں کی بندگی سے نکال کر صرف اللہ وحدہ کی بندگی میں داخل کرنا ہے اور یہ کہ اسے اسی قسم کی جاہلیت سے واسطہ درپیش ہے جس سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پہلی تحریک اسلامی کو سابقہ درپیش تھا جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں ۔ نیز تحریک اسلامی کو اس شراب ایمانی کی بھی اشد ضرورت ہے جو یہ آیات قلب مومن میں انڈیل رہی ہیں جبکہ دل مومن کسی جاہلیت کے سامنے صف آرا ہو : (آیت) ” قُلْ إِنِّیَ أَخَافُ إِنْ عَصَیْْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (15) مَّن یُصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَہُ وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ (16) وَإِن یَمْسَسْکَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہُ إِلاَّ ہُوَ وَإِن یَمْسَسْکَ بِخَیْْرٍ فَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدُیْرٌ(17) وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ (18) ” کہو ‘ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے (خوفناک) دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی ۔ اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے ۔ اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے ‘ اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور وہ دانا اور باخبر ہے ۔ جو تحریک بھی جاہلیت اور اس کی طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کر رہی ہو ‘ جو جاہلیت کے جبر وقہر اور عناد وسرکشی کا مقابلہ کر رہی ہو اور جو جاہلیت کی سازشوں اور کینہ پروریوں کے سامنے صف آراہو اور اس کے پھیلائے ہوئے فساد اور فسق وفجور کا دفعیہ چاہتی ہو اس کے لئے اس تمام شرک کے مقابلے کے لئے ان حقائق کا ادراک ضروری ہے اور اس تحریک کے اندر یہ جذبات اور یہ شعور موجود ہونا چاہئے ، ورنہ اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ غیر اللہ کو اپنا سرپرست بنا لے اور یہ نہ ہو کہ اس نافرمانی کے نتیجے میں وہ عذاب اخروی کی سزاوار ہوجائے ۔ تحریک اسلامی کو یہ یقین کرلینا چاہئے کہ نفع ونقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ کہ اللہ کو اپنے بندوں پر پورا پورا کنٹرول حاصل ہے ۔ اس کے فیصلے کے بعد کوئی فیصلہ نہیں ہے اور نہ اس کے حکم اور فیصلے کو کوئی رد کرسکتا ہے ۔ جس دل میں یہ یقین اور یہ شعور نہ ہو وہ احیائے اسلام کی مشکلات کو ہر گز برداشت نہیں کرسکتا جبکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ جاہلیت کے قائم نظام کے مقابلے میں ہو رہی ہو اس لئے کہ احیائے اسلام کی تحریک کو جاہلیت کبھی بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتی ۔ اس کی راہ میں ہمیشہ پہاڑ جیسی مشکلات حائل کی جاتی رہی ہیں ۔ یہ یقین کرلینے کے بعد کہ آج کرہ ارض پر تحریک اسلامی کا نصب العین کس قدر اہم اور مشکل ہے ‘ اپنے نظریے اور عقیدے کے صحیح ادراک کے بعد اور اس کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کہ اللہ سبحانہ وحدہ لا شریک ہے اور اس توحید کے کئی پہلو ہیں اور ان تمام امور کے ساتھ ساتھ یہ شعور کہ اس راہ میں کیا کیا مشکلات ہیں ۔ آج کی تحریک اسلامی کو اللہ کی جانب سے شہادت اور جاہلیت کے ساتھ مکمل بائیکاٹ اور فیصلہ کن علیحدگی کی ضرورت ہے کیونکہ جاہلیت بعینہ اس شرک میں مبتلا ہے جس میں قرون اولی کی جاہلیت مبتلا تھی ۔ اس لئے تحریک اسلامی کو چاہئے کہ وہ ویسا ہی اعلان کردے جس اعلان کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا تھا ۔ جس طرح رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت کی جاہلیت کے منہ پر اس کے نظریات مار دیئے تھے آج بھی تحریک کو چاہئے کہ وہ دور جدید کی جاہلیت کے غلط افکار اس کے منہ پر دے مارے اور اللہ رب العالمین کے ان احکام کو نافذ کر دے ۔ (آیت) ” قُلْ أَیُّ شَیْْء ٍ أَکْبَرُ شَہَادۃً قُلِ اللّہِ شَہِیْدٌ بِیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّہِ آلِہَۃً أُخْرَی قُل لاَّ أَشْہَدُ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلَـہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ (19) ” ان سے پوچھو کس کی گواہی بڑھ کر ہے ؟ کہو اللہ ۔۔۔۔۔ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ۔ یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ‘ سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا تم واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو ؟ کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی شریک ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ تحریک اسلامی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس وقت کرہ ارض پر چھائی ہوئی جاہلیت کے مقابلے میں یہ موقف اختیار کرے ۔ اسے چاہئے کہ وہ اس کے مقابلے میں اپنے سچے نظریات کا اعلان ببانگ دہل کرے اور فیصلہ دل دہلا دینے والی رعب دار آواز میں کرے ۔ اس کے بعد نتائج اللہ پر چھوڑ دے جو ہر چیز پر قادر ہے ۔ اسے اپنے بندوں کے معاملات پر پورا پورا کنٹرول ہے ۔ اللہ کے بندے جس میں یہ جابر طاغوتی طاقتیں بھی شامل ہیں ‘ اللہ کے مقابلے میں ایک مکھی جتنی طاقت بھی نہیں رکھتے ۔ اگر ان سے مکھی بھی کوئی چیز لے بھاگے تو یہ اس سے نہیں چھڑا سکتے ۔ مقابلے میں ایک مکھی جتنی طاقت بھی نہیں رکھتے ۔ اگر ان سے مکھی بھی کوئی چیز لے بھاگے تو یہ اس سے نہیں چھڑا سکتے ۔ یہ جابر قوتیں اللہ کے اذن کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں نہ یہ قوتیں کسی کو کوئی نفع پہنچا سکتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ امور کائنات پر پوری طرح غالب ہے لیکن لوگوں کو اللہ کا غلبہ نظر نہیں آتا ۔ تحریک اسلامی کو اچھی طرح یقین کرلینا چاہئے کہ اسے حسب وعدہ الہی تمکن فی الارض اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک وہ جاہلیت کے مقابلے میں اپنی زندگی کی راہیں بالکل الگ نہیں کرلیتی ‘ اس کے ساتھ مکمل طور پر قطع تعلق نہیں کرلیتی ‘ جب تک طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں تحریک اسلامی اعلان حق نہیں کردیتی اور جب تک وہ جاہلیت کے مقابلے میں اس اسلوب پر شہادت حق نہیں دے دیتی جس طرح ان آیات میں اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ جب تک وہ جاہلیت کو اسی انداز میں چیلنج نہیں کرتی اور اس کے ساتھ مکمل بائیکاٹ نہیں کردیتی اور اس سے اعلان برات نہیں کردیتی ۔ قرآن کریم تاریخ کے ایک مخصوص دور کی اصلاح کے لئے مخصوص نہ تھا ۔ قرآنی ہدایات مکان وزمان کے قیود سے آزاد ہیں ۔ قرآن تو ایک منہاج انقلاب ہے ۔ اور جب بھی کوئی تحریک اس منہاج کو اپنائے گی اسے اسی طرح کام کرنا پڑے گا جس طرح پہلی تحریک اسلامی کو کرنا پڑا ۔ آج ہمیں ویسے ہی حالات درپیش ہیں جیسے نزول قرآن کے وقت درپیش تھے ۔ اسی مقام پر لوٹ کر آگیا ہے جس پر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت تھا ۔ جبکہ دنیا میں اسلام متعارف ہو رہا تھا ۔ ہمیں اس دین کی حقیقت پر پورا بھروسہ ہونا چاہئے ۔ ہمیں اللہ کی قدرت اور اس کے غلبے پر پورا پورا بھروسہ ہونا چاہئے ۔ جماعت اسلامی کو اسی کو اسی انداز میں تیاری کرنا چاہئے ۔ اللہ سب سے اچھا محافظ ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے ۔ درس نمبر ٥٨ ایک نظر میں : ” یہ ایک نئی لہر ہے ۔ روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہیں اور خصوصا قرآن کے نظریہ بعث بعد الموت کو جھٹلاتے ہیں ۔ البتہ اس لہر میں نہ تو ان کی ہٹ دھرمی اور عناد کی تصویر کشی کی گئی ہے اور نہ یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے وہ اسلاف جو قرآن اور بعث بعد الموت کے منکر تھے ‘ ان کا انجام کیا ہوا ؟ بلکہ ان کے سامنے یوم البعث کے کچھ مناظر اور جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں اور ان کے آخروی انجام بد کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور یہ انجام بدنہایت متحرک اور زندہ مناظر ومشاہد کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ لوگ میدان حشر میں ہیں اور نہایت ہی شرمسار کنندہ سوالات سے دو چار ہیں جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ‘ سرعام رسوا ہورہے ہیں ۔ کوئی جواب بن نہیں پڑتا ۔ (آیت) ” أَیْْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ (22) ” کہاں ہیں تمہارے وہ شریک جنہیں تم خدا کے ساتھ برابر سمجھتے تھے ؟ “ یہ سوال اس قدر شان جلالت کے ساتھ ہوتا ہے کہ ان پر جزع وفزع کا عالم طاری ہوجاتا ہے ۔ اب وہ نہایت ہی خاکساری اور نہایت ہی بھولے پن سے قسمیں اٹھاتے ہیں اور اللہ کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہیں ۔ (آیت) ” وَاللّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ (23) ” اللہ ہمارے رب کی قسم ہم تو مشرک تھے ہی نہیں۔ “ لیکن جب وہ آگ کے کنارے پہنچتے ہیں ‘ ہتھ کڑیاں لگی ہوئی ‘ حسرت وندامت میں ڈوبے ہوئے ڈرے اور سہمے ہوئے تو یوں گویا ہوتے ہیں۔ (آیت) ” یَا لَیْْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُکَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (27) ” اے کاش ! کہ ہم لوٹائے جائیں ‘ اور اللہ کی آیات کی تکذیب نہ کریں اور مومنین میں شامل ہوجائیں۔ “ اب خود اللہ جل جلالہ ان سے ایک سوال کرتے ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ شرم وندامت کی وجہ سے پگھلے جا رہے ہیں اور اور خوف وہراس کی وجہ سے ان کی جان نکلی جا رہی ہے ۔ (آیت) ” الیس ھذا بالحق “۔ (٦ : ٣٠) ” کیا یہ سچائی نہیں ہے ؟ “ اب وہ نہایت ہی خاکساری اور شرمندگی کے ساتھ جواب دیتے ہیں (آیت) ” بلی وربنا “۔ (٦ : ٣٠) ” ہمارے رب کی قسم ‘ ہاں “ ۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ اعتراف ان کے لئے مفید نہیں ہے ۔ حکم ہوتا ہے ۔ (آیت) ” فَذُوقُواْ العَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُونَ (30) ” پس چکھو تم اس عذاب کو اس لئے کہ تم انکار پر مصر تھے ۔ “ وہ ایسے حالات میں اس صورت حالات سے دو چار ہوتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہار چکے ہیں ۔ سب کچھ ہار چکے ہیں ۔ اب انہوں نے اپنے کاندھوں پر اپنے تمام برے اعمال اٹھائے ہوئے ہیں اور آخرت کے بارے میں اپنے برے موقف کی وجہ سے اور اس گھاٹے کے سودے پر سخت نالاں ہیں اور غم سے نڈھال ہوچکے ہیں ۔ ایک منظر کے بعد دوسرا منظر اسکرین پر آتا ہے ۔ ہر منظر ایسا ہے کہ دل دہل جاتا ہے ‘ پورا بدن ٹوٹ رہا ہے پورا وجود ریزہ ریزہ ہوا چاہتا ہے ۔ دل و دماغ کے دریچے اب تو بالکل کھلے ہیں ۔ اب وہ سچائی انہیں صاف صاف نظر آتی ہے ۔ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش فرما رہے تھے ۔ لیکن ان مناظر کو دیکھ کر قبولیت حق کی توفیق صرف ان لوگوں کو ہوئی جن کے بارے میں مشیت الٰہی نے فیصلہ کیا کہ وہ حق کو قبول کریں گے ‘ لیکن وہ لوگ جن کو قرآن کریم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں وہ تو اس سچائی کو اس طرح پہچان رہے تھے جس طرح وہ اپنے بچوں کو پہچانتے تھے ‘ لیکن اس کے باوجود اس سچائی کو قبول نہ کرتے تھے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کی گواہی سب سے بڑی گواہی ہے تفسیر لباب النقول میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ نحام بن زید، قروم بن کعب اور بحری بن عمرو (مشرکین) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے اے محمد ! کیا تم اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود جانتے ہو ؟ آپ نے فرمایا (لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ) (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) میں اسی کو لے کر بھیجا گیا ہوں اور اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت شریفہ (قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَکْبَرُ شَھَادَۃً ) نازل فرمائی۔ کہ آپ فرما دیجیے کون سی چیز شہادت کے اعتبار سے بڑی ہے۔ پھر خود ہی جواب دیجیے کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اس سے بڑھ کر کسی کی گواہی نہیں اس نے مجھے اپنا پیغامبر بنا کر بھیجا ہے۔ اور لا الہ اللہ کی دعوت دینے کا حکم فرمایا ہے۔ میں اس کی دعوت پر قائم ہوں اور اسی کا پابند ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جو معجزات اور آیات عطا فرمائے تھے ان سے آپ کے رسول برحق ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعثت اور رسول ہونے کی گواہی ہے مزید فرمایا (وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ ) ( اور میری طرف یہ قرآن وحی کے ذریعہ اتارا گیا تاکہ میں تمہیں اس کے ذریعہ ڈراؤں کہ اللہ کی توحید کے علاوہ دوسرے راستہ اختیار کرو گے تو عذاب میں مبتلا ہو گے تمہارے علاوہ اور جس جس کے پاس یہ قرآن پہنچے ان سب کو میں توحید کی دعوت دیتا ہوں) اس میں اس بات کا بھی اعلان ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اپنے زمانے کے مخاطبین ہی کی طرف مبعوث نہیں تھے بلکہ تا قیامت جس جس شخص کو آپ کی بعثت کا علم ہوتا رہے اور قرآن پہنچاتا رہے وہ سب آپ کی دعوت کے مخاطب ہیں اور سب پر آپ کی رسالت کا اقرار کرنا فرض ہے۔ سورۂ سبا میں فرمایا (وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٨٦) میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ و الذی نفس محمد بیدہ لا یسمع بی احد من ھذہ الاّمۃ یھودی و لا نصرانی ثم یموت و لم یومن بالذی ارسلت بہ الا کان من اصحاب النّار (قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اس امت میں سے جس کسی کو میرے نبی ہونے کی خبر پہنچے گی خواہ وہ یہودی یا نصرانی ہو اور وہ اس دین پر ایمان لائے بغیر مرجائے گا جو دین لے کر میں بھیجا گیا ہوں تو وہ ضرور دوزخ والوں میں سے ہوگا۔ وہ یہودی ہو یا نصرانی) پھر فرمایا (اِءِنَّکُمْ لَتَشْھَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِھَۃً اُخْرٰی) (کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں ؟ ) پھر فرمایا (قُلْ لَّآ اَشْھَدُ ) (آپ فرما دیجیے ! میں اس بات کی گواہی نہیں دیتا) (قُلْ لَّآ اَشْھَدُ قُلْ اِنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ ) (آپ فرما دیجیے کہ معبود تو صرف ایک ہی ہے اور بلاشبہ میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21 یہ گذشتہ چاروں عقلی دلیلوں سے متعلق ہے۔ شہادۃً تمییز بمعنی قسم ہے۔ یعنی کونسی چیز بڑی ہے ازروئے قسم کے یہاں شہادت بمعنی گواہی ہے۔ یعنی سب سے بڑی گواہی کس کی ہے۔ قُلِ اللہُ الخ آپ فرما دیں سب سے بڑی گواہی تو اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے گذشتہ عقلی دلائل سے اور آگے دلیل وحی سے بیان فرما دیا ہے کہ غیب دان اور متصرف و مختار وہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ 22 یہ نفی شرک فی التصرف پر دلیل وحی کی طرف اشارہ ہے۔ 23 یہ مذکورہ چاروں عقلی دلائل کا ثمرہ ہے۔ شَہادۃً سے یہاں شہادت عقلی مراد ہے۔ یعنی اے مشرکین کیا ان مذکورہ عقلی دلائل کی موجودگی میں تمہاری عقل اس بات کو مانتی ہے کہ اللہ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہوسکتے ہیں جو صفات الوہیت میں اس کے شریک ہوں اور غیب دان اور کارساز ہوں۔ قُلْ لَّا اَشْھَدُ آپ فرمادیں میری عقل تو اس بات کو نہیں مانتی۔ قُلْ اِنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّ احِدٌ کلمہ اِنَّمَا حصر کے لیے ہے۔ اور مجھے تمہارے شرک اور مشرکین کے شرک سے بیزاری اور براءت کا اعلان کرنے کا حکم فرمایا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے اور میں تمہارے شرک اور تمہارے معبودوں کی عبادت سے بیزار ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے کہئے کہ گواہی دینے کے لحاظ اور اعتبار سے کو نسی چیز سب سے بڑی اور سب سے بڑھ کر ہے ظاہر ہے کہ اس کا جواب یہی ہوگا کہ خدا سے بڑھ کر کون سی چیز ہوسکتی ہے آپ فرما دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور یہ قرآن میری جانب اسی لئے وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہونچے ان کو ڈرا دوں اور یہ بات بتادوں کہ جو شخص توحید و رسالت کا منکر ہ گا اس کا انجام کیا ہوگا کیا اللہ تعالیٰ کی اس صاف وصریح شہادت کے بعد تم لوگ واقعی اب بھی اس بات کی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور دوسرے معبود بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مقدس ذات کے ساتھ کوئی دوسرا بھی قابل عبادت اور لائق پرستش ہے آپ فرما دیجیے میں تو کبھی ایسی شہادت نہیں دے سکتا اور میں تو ان تمام چیزوں سے جن کو تم حضرت حق تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہو ان سب سے قطعی بیزار اور بری الذمہ ہوں۔