Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 29

سورة الأنعام

وَ قَالُوۡۤا اِنۡ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا وَ مَا نَحۡنُ بِمَبۡعُوۡثِیۡنَ ﴿۲۹﴾

And they say, "There is none but our worldly life, and we will not be resurrected."

اور یہ کہتے ہیں کہ صرف یہی دنیاوی زندگی ہماری زندگی ہے اور ہم زندہ نہ کئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا ... And they said: There is no life but our life of this world, and there is no Hereafter, ... وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ and never shall we be resurrected. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 یہ بعث بعد الموت (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے) کا انکار ہے جو ہر کافر کرتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ہی دراصل ان کے کفر و عصیان کی سب سے بڑی وجہ ہے ورنہ اگر انسان کے دل میں صحیح معنوں میں اس عقیدہ آخرت کی صداقت راسخ ہوجائے تو کفر و جرم کے راستے سے فوراً تائب ہوجائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] تخلیق کائنات کے مختلف نظریئے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور آخرت کے متعلق مختلف نظریات :۔ وجود باری تعالیٰ کے متعلق وحی سے بےنیاز ہو کر محض عقل و خرد سے کائنات کی تخلیق کی گتھی سلجھانے والے لوگ بھی ایک رائے پر متفق نہیں ہو سکے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ یہ کائنات مادہ سے بنی ہے۔ اور مادہ اور اتفاقات ... کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔ اصل چیز مادہ ہے اور وہی ازلی ابدی ہے۔ کائنات میں انسان کی وہی حیثیت ہے جو سمندر میں ایک بلبلہ کی ہے جو ہوا کی لہروں سے پیدا ہوتے اور پھر سمندر ہی میں مدغم ہوجاتے ہیں اسی طرح ہم پیدا ہوتے اور مرجاتے ہیں یہ لوگ وجود باری تعالیٰ کے بھی منکر اور آخرت کے بھی منکر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو مادہ پرست یا دہریے یا نیچری کہتے ہیں۔ اہل کتاب حتیٰ کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض لوگ عقیدتا اور بعض عملاً نیچری ہوتے ہیں۔ دوسرا گروہ بعض فلاسفروں اور سائنسدانوں کا ہے جو اس کائنات اور اس کے مربوط و منظم نظام کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ کسی کنٹرول کرنے والی ہستی کے بغیر کائنات کا نظام چلنا محال ہے لہذا کسی ایسی ہستی کو تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں جو اس کائنات کو وجود میں لائی اور اس کا نظام چلانے والی ہے اس طرح یہ لوگ وجود باری تعالیٰ کے تو قائل ہیں مگر اخروی زندگی پر ان کا ایمان نہیں ہوتا۔ غالباً اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگ دین کی پابندیوں سے آزاد رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا مذہب بہت حد تک انہی لوگوں سے ملتا جلتا ہے جو اللہ کے خالق ومالک ہونے کے تو قائل ہیں مگر اخروی زندگی کے قائل نہیں تھے۔ تاہم وہ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا متبع قرار دیتے تھے۔ دیوی دیوتاؤں کی پوجا وہ دو وجہ سے کرتے تھے ایک یہ کہ ان کی دنیوی حاجات بر آئیں اور مشکلات دور ہوں اور دوسرے اس لیے کہ ان کے وسیلہ سے اللہ کا تقرب حاصل ہو۔ ایمان بالاخرت بھی چونکہ ایمان بالغیب کا ایک اہم جزو ہے لہذا اللہ کی ذات کو تسلیم کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کافر قرار دیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا۔۔ : یعنی زندگی بس وہی ہے جو دنیا میں ہم گزار رہے ہیں، کوئی آخرت نہیں، نہ کچھ ثواب و عذاب ہے، یہ محض لوگوں کو الّو بنانے کے لیے ڈھکوسلا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

As for the statement in the third verse (29): وَقَالُوا إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا (And they say, |"There is nothing real but this worldly life of ours|" ), it re¬verts back to the word, عَادُوا (` adu: would again go for) in verse 28. Thus, it means that should they be returned to the world, then, once they reach there, they will still say that they do not accept any life other than t... he life of this world. Life here is the life and they were not go¬ing to be raised again. A question arises here: When they have seen their return to life on the day of Qiyamah - and reckoning and accounting and reward and punishment - how can it be possible that they would deny it once they have been sent back into the world? The answer is that denial does not make it necessary that, in reali¬ty, they remain uncertain about these events and facts. Instead, it would be very much like our contemporary disbelievers and wrong-doers who, despite their knowledge of Islamic realities, keep sticking to their denial and falsification simply because of their hostility, that these people, once they are returned to the world, and despite having personal certainty of the realities of the day of Qiyamah, of rising to life back again, and of what would happen in the Hereafter, they would still resort to their old habit of belying and falsification simply because of their wickedness or hostility. This is what the Qur&an has said about some disbelievers within this present life: وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا They are striving hard to deny Our signs - while in them-selves being certain of their truth - (only) unjustly, and out of pride - 27:14. This is also similar to what was said about the Jews that they rec¬ognized the Last Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as they would recognize their sons, yet they remained all bent on opposing him. To sum up, it can be said that the Creator knows, in His eternal knowledge, that the claim of these people that once they have been sent back to the world, they would become ideal Muslims, is a lie and a deception. If they were, as they wished, to be released into the world put together after its destruction, then, once again, they would do ex¬actly the same things they used to do in their earlier lives. The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم is reported to have said: At the time of reckoning, Allah Ta` ala will ask Sayyidna Adam (علیہ السلام) to stand near the Scale of Justice and will ask him that he should look at the deeds of his progeny and allow anyone whose good deeds outweigh his sins to go to Paradise. And then He would say: The one I shall admit to the punishment of Hell will be the one about whom I know that he, i f sent to the world again, would do the same thing he had been doing earlier.  Show more

تیسری آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ ، اس کا عطف عادوا پر ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ان کو دوبارہ بھی دنیا میں لوٹا دیا جائے تو پھر دنیا میں پہنچ کر یہی کہیں گے کہ ہم تو اس دنیا کی زندگی کے سوا کسی دوسری زندگی کو نہیں ما... نتے بس یہیں کی زندگی زندگی ہے، دوبارہ ہم کو زندہ نہیں کیا جائے گا۔ یہاں ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ جب قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کو اور پھر حساب کتاب و جزاء و سزاء کو آنکھوں سے دیکھ چکیں گے تو یہ کیسے ممکن ہوگا کہ پھر یہاں آکر اس کا انکار کردیں۔ جواب یہ ہے کہ انکار کرنے کے لئے یہ لازم نہیں ہے کہ واقع میں ان کو ان واقعات اور حقائق کا یقین نہ رہے، بلکہ جس طرح آج بہت سے کفار و مجرمین اسلامی حقائق کا پورا یقین رکھے ہوئے محض عناد سے انکار و تکذیب پر جمے ہوئے ہیں، اسی طرح یہ لوگ دنیا میں واپس آنے کے بعد قیام قیامت اور دوبارہ زندگی اور آخرت کے تمام حالات کا پورا یقین رکھنے کے باوجود محض شرارت اور عناد سے پھر تکذیب پر اتر آئیں گے جیسا کہ قرآن کریم نے اسی موجودہ زندگی میں بعض کفار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے : وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا ” یعنی یہ لوگ ہماری آیات کا انکار تو کر رہے ہیں مگر ان کے دلوں میں اس کے حق ہونے کا پورا یقین ہے “۔ جیسے یہود کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسے لوگ اپنے بیٹوں کا پہچانا کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ خالق کائنات اپنے علم ازلی سے جانتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہ کہنا کہ دوبارہ دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو مومن صالح ہوجائیں گے بالکل جھوٹ اور فریب ہے، اگر ان کے کہنے کے مطابق دوبارہ دنیا کو پیدا کرکے ان کو اس میں چھوڑ دیا جائے تو یہ پھر وہی سب کچھ کریں گے جو پہلی زندگی میں کیا تھا۔ تفسیر مظہری میں بحوالہ طبرانی یہ روایت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل ہے کہ حساب کتاب کے وقت حق تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو میزان عدل کے پاس کھڑا کرکے فرما دیں گے کہ اپنی اولاد کے اعمال کا خود معائنہ کریں اور جس شخص کے اعمال صالحہ اس کے گناہوں سے ایک ذرہ بھی بڑھ جائیں تو اس کو آپ جنت میں پہنچا سکتے ہیں، اور حق تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ میں جہنم کے عذاب میں صرف اسی شخص کو داخل کروں گا، جس کے بارے میں میں جانتا ہوں، کہ وہ اگر دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے، تو پھر بھی وہی حرکتیں کرے گا جو پہلے کر گیا ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْٓا اِنْ ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ۝ ٢٩ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة ال... حسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا پس بعث دو قمخ پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩) اور کفار مکہ کہتے ہیں کہ زندگی تو صرف دنیا ہی کی زندگی ہے، موت کے بعد کچھ نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (وَ قَالُوْٓا اِنْ ہِیَ الاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ ) ۔ جیسے آج کل کفر و الحاد کے مختلف shades ہیں ‘ اس زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔ آج ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں جو اللہ کو تو مانتے ہیں ‘ آخرت کو نہیں مانتے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ اور آخرت کو مانتے ہیں ‘ ل... یکن رسالت کو نہیں مانتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بالکل ملحد اور مادہ پرست ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہم خود ہی پیدا ہوتے ہیں اور خود ہی اپنی طبعی موت مرجاتے ہیں ‘ اور ہماری زندگی صرف یہی ہے ‘ مرنے کے بعد اٹھنے والا کوئی معاملہ نہیں۔ اسی طرح اس دور میں بھی کفر و شرک کے مختلف shades موجود تھے۔ قریش کے اکثر لوگ اور عرب کے بیشتر مشرکین اللہ کو مانتے تھے ‘ آخرت کو مانتے تھے ‘ بعث بعد الموت کو بھی مانتے تھے ‘ لیکن اس کے ساتھ وہ دیوی دیوتاؤں کی سفارش اور شفاعت کے قائل تھے کہ ہمیں فلاں چھڑا لے گا ‘ فلاں بچا لے گا ‘ فلاں ہمارا حمایتی اور مدد گار ہوگا۔ لیکن ایک طبقہ ان میں بھی ایسا تھا جو کہتا تھا کہ زندگی بس یہی دنیا کی ہے ‘ اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ یہاں اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:29) ان نافیہ ہے۔ مبعوثین۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ اٹھائے جانے والے۔ دوبارہ زندہ کئے جانے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی کوئی آخرت کا ثواب و عقاب نہیں ہے یہ محض لوگوں کو الو بنانے کے لیے ایک ڈھکو سلا ہے اس زندگی کے جو چند دن ملے ہیں ان میں خوب مزے اڑالو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٢٩ تا ٣٢۔ قیامت کی جزا وسزا اور دار آخرت کا عقیدہ اسلامی عقائد ونظریات کی اساس ہے اور ہمیشہ یہ عقیدہ صرف اسلام نے پیش کیا ہے اور عقیدہ توحید کے بعد اسلامی نظام کا ڈھانچہ اسی پر استوار ہے ۔ دین اسلام کے عقائد ونظریات ‘ اخلاق وطرز عمل ‘ قانون ودستور صرف اسی صورت میں قائم اور استوار ہو سک... تے ہیں جب لوگوں کے اندر آخرت کی جوابدہی کا احساس پیدا ہوجائے ۔ یہ دین جسے اللہ نے مکمل فرمایا ہے ‘ اور اس دین کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اپنی نعمتوں کو مکمل کردیا ہے اسے اللہ نے مسلمانوں کے نظام حیات کے طور پر پسند کرلیا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم خود یہ کہتا ہے کہ یہ دین درحقیقت زندگی کا ایک مکمل نظام ہے اور اپنی ساخت میں وہ باہم مربوط اور باہم متعلق ہے ۔ اس کے اخلاقی اصولوں اور عقائد ونظریات کے درمیان ایک گہرا ربط وتعلق ہے ۔ اور پھر عقائد واخلاقیات دونوں کا قانون ‘ دستور اور انتظام ملک سے تعلق ہے ۔ یہ تمام امور اللہ کے عقیدہ حاکمیت اور آخرت کے جوابدہی کی اساس پر قائم ہیں ۔ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق زندگی وہ مختصر عرصہ نہیں ہے جو ایک فرد اس جہان میں بسر کرتا ہے اور نہ زندگی وہ مختصر عرصہ ہے جس میں کوئی قوم زندہ رہتی ہے ۔ اور نہ زندگی وہ عرصہ معلوم ہے جو اس دنیا میں انسانیت کو دیا گیا ہے اور جسے ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق زندگی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والا عرصہ ہے ۔ یہ آفاق کائنات میں وسعت پذیر ہے اور تمام جہانوں میں گہرائی تک چلا گیا ہے ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے متنوع اور رنگارنگ ہے اور یہ اس زندگی سے بالکل مختلف ہے جسے آخرت کے منکر یا اس سے غافل لوگ زندگی سمجھتے ہیں اسے بسر کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں بس یہی زندگی ہے اور اس جہان کے بعد کوئی اور جہان نہیں ہے ۔ اس طرح وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق زندگی بہت ہی وسیع ہے ۔ اس میں یہ زمانہ بھی شامل ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں ‘ یعنی دنیا ۔ وہ اخروی زمانہ بھی اس میں شامل ہے جسے اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا ۔ اس طویل اخروی زندگی کے مقابلے مین یہ زندگی اس قدر قصیر ہے کہ یہ ساعتہ من نہار ہی کہی جاسکتی ہے ۔ یعنی دن کا ایک حصہ ۔ مکانیت کے اعتبار سے یہ تصور اس قدر وسیع ہے کہ وہ اس جہان اور اس کرہ ارض کے مقابلے میں مزید کروں اور جہانوں کا قائل ہے ۔ وہ ایک ایسی جنت کا قائل ہے جو آسمانوں اور زمینوں سے زیادہ وسیع ہے ۔ جہنم بھی اس قدر وسیع ہے کہ اس کے پیٹ کو ان تمام انس وجن سے نہیں بھرا جاسکتا جو آغاز انسانیت سے اس دنیا میں آباد ہیں اور یہ آبادی لاکھوں سالوں پر مشتمل ہے ۔ پھر یہ تصور نامعلوم جہانوں تک وسیع ہوجاتا ہے ۔ اس جہان سے آگے کئی جہان ہیں جن کے بارے میں صرف ذات باری کو علم ہے اور ہم اس کے بارے میں وہی کچھ اور صرف اسی قدر جانتے ہیں ۔ جس قدر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے ۔ اور یہ اخروی زندگی موت سے شروع ہو کر دار آخرت تک جا پہنچتی ہے ۔ عالم موت اور عالم آخرت دونوں غیبی جہان ہیں اور ان میں انسانی وجود اس صورت میں آگے بڑھتا ہے جس کی صحیح کیفیت صرف اللہ کے علم میں ہے ۔ یہ زندگی بھی وسعت اختیار کرتی ہے ۔ ‘ یہ جہاں جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس سے آگے بڑھتی ہے اور آخرت میں جنت و دوزخ میں بھی رواں دواں نظر آتی ہے ۔ یہ اس زندگی کے مختلف رنگ ہیں اور اس دنیا کی زندگی میں اس کی صورتیں اور ذائقے مختلف ہیں۔ آخرت میں بھی اس کے رنگ ڈھنگ ہیں لیکن دنیا کی یہ پوری زندگی اخروی زندگی کے مقابلے میں اس قدر بےقیمت ہے جس طرح دنیا کے مقابلے میں مچھر کا ایک پر بےقیمت ہے ۔ یہ ہے اسلامی تصور حیات کے مطاق انسانی شخصیت جس کا وجود زمانے کی حدود سے باہر پھیلا ہوا ہے جس کا عمل دخل مکان سے آگے آفاق کائنات میں وسعت رکھتا ہے اور جس کا مرتبہ اس کائنات میں پائے جانے والے عالمین سے زیادہ گہرا ہے ۔ اس کا تصور اس پوری کائنات تک وسیع ہے اور پورے انسانی وجود کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ اس کا ذوق حیات بہت ہی وسیع ہے ۔ اس میں انسانیت کی اہمیت ہے ۔ انسانی روابط کی اہمیت ہے اور انسانی اقدار کی اہمیت ہے ۔ جس طرح یہ تصور وسیع ہے جو زمان ومکان کے حدود وقیود سے ماوراء ہے ‘ لیکن جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کی سوچ خود اس کائنات کے بارے میں نہایت ہی محدود اور کمزور ہے ۔ انسانی تصور حیات کے بارے میں ان کی سوچ بہت ہی محدود ہے ۔ وہ اپنے آپ کو ‘ اپنی اقدار حیات کو اور اپنے تصورات کو اس محدود دنیا کی تنگنائی تک محدود کرتے ہیں ۔ اس نظریاتی اختلاف کی وجہ سے پھر اقدار حیات ‘ زندگی کے تفصیلی نظام اور عملی شکل میں اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کس قدر جامع اور مکمل نظام زندگی ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام کی تشکیل میں عقیدہ آخرت کا کس قدر دخل ہے ۔ نظریات و تصورات کے اعتبار سے ‘ اخلاق اور طرز عمل کے اعتبار سے اور نظام قانون اور نظام دستور کے اعتبار سے ۔ وہ انسان جو اس طویل زمانے ‘ اس وسیع و عریض کائنات اور اس کے اندر پائے جانے والی تمام مخلوقات کے ساتھ پس رہا ہے ‘ یقینا اس انسان سے مختلف ہے جو اس تنگ دنیا کے غار میں بند ہے اور وہ اس تنگ غار میں بھی دوسرے انسانوں کے ساتھ برسرپیکار ہے ۔ اس کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ اگر اس دنیا میں وہ کسی چیز سے محروم رہ گیا تو عالم آخرت میں وہ اس سے بہتر پائے گا اور اگر دنیا میں اسے کسی عمل کا اجر نہ ملا تو اسے آخرت میں یقینا بہتر اجر ملے گا اگر اس کے اندر یہ یقین پیدا ہوجائے تو یہ شخص اس دنیا کے لوگوں اور مفادات کے بارے میں بہت ہی سخت رویہ اختیار کرے گا ۔ جس قدر انسان کی سوچ وسیع ہوتی ہے اور حقائق کا گہرا ادراک اسے حاصل ہوتا ہے ‘ اسی قدر اس کی شخصیت بڑی ہوتی ہے ۔ اس کی ترجیحات بلند ہوتی ہیں ‘ اس کا شعور بلند ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے اخلاق اور اس کا طرز عمل بھی بہت ہی پاکیزہ بن جاتا ہے اور ایسے شخص کا طرز عمل ان لوگوں کے مقابلے میں بہت ہی بلند ہوتا ہے جو سوراخوں میں بند ہوتے ہیں ۔ جب ایسے وسیع سوچ رکھنے والے کسی فرد کی سوچ میں عقیدہ آخرت اور اخروی جزاء وسزا کی سوچ داخل ہوجاتی ہے تو اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے ۔ اس کی سوچ میں نفاست اور پاکیزگی آجاتی ہے ۔ اس کا دل بھلائی اور جزائے اخروی کے راستے میں خرچ کے لئے تیار ہوجاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور اس پر اخروی جزاء مرتب ہوگئی یوں اس کا اخلاق اور اس کا طرز عمل صالح ہوجاتا ہے اور وہ پختہ کردار کا مالک بن جاتا ہے ۔ یہ پختگی اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس کے دل و دماغ پر یہ عقیدہ چھایا رہتا ہے ۔ ایسے لوگ ہر وقت اصلاح اور بھلائی کے لئے کوشاں رہتے ہیں کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر وہ خاموش رہے تو نہ صرف یہ کہ ان کی دنیا فساد کا شکار ہوگی بلکہ آخرت میں تھی وہ خسران کا شکار ہوجائیں گے ۔ جو لوگ حیات اخروی کے بارے میں افتراء باندھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو اخروی زندگی کی طرف بلانا اس جہاں کے سلسلے میں ایک منفی رویہ ہے ۔ اس کے نتیجے میں لوگ اس دنیا سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اور پھر وہ اس دنیا کو خوبصورت بنانے اور اس کی اصلاح کے لئے جدوجہد نہیں کرتے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے اقتدار پر مفسدوں کا قبضہ ہوجاتا ہے کیونکہ ان نیک لوگوں کی نظریں صرف آخرت ہی پر لگی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جو لوگ اسلام پر یہ الزام دھرتے ہیں وہ جہالت میں مبتلا ہیں ۔ یہ لوگ اسلام کے نظریہ آخرت اور اہل کینسہ کے نظام رہبانیت اور ترک دنیا کے اندر فرق نہیں کرتے ۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق آخرت کا تصور یہ ہے کہ دنیا آخرت کے لئے ایک مزرع ہے اور دنیا میں ہم اس کھیت میں جو بوئیں گے وہی آخرت میں کاٹیں گے ۔ اسلام کا نظریہ جہاد بھی تو اس دنیا کی اصلاح کے لئے ہے ۔ یہ اس لئے فرض کیا گیا ہے کہ اس دنیا سے شر و فساد کو بالکلیہ مٹا دیا جائے اور اس جہان میں جو لوگ اللہ کے حق حاکمیت اور اقتدار اعلی پر دست درازی کرتے ہیں ان کا ہاتھ پکڑا جائے ۔ یہاں تمام ظالم طاغوتوں کی حکومت کو ختم کرکے کرہ ارض پر عادلانہ نظام قائم کیا جائے جس میں تمام انسانوں کی بھلائی اور خیر ہو ‘ اور یہ تمام کام فلاح اخروی کے لئے کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے ہیں اور باطل کے ساتھ اس کشمکش میں وہ جو وہاں اللہ انہیں اس کا عوض ادا کرتا ہے انہوں نے اس کی راہ میں جو اذیت اٹھائی اس کے بدلے انہیں راحت دیتا ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا نظریہ حیات جس کی سوچ یہ ہو ‘ وہ انسانی زندگی معطل کرکے اسے متعفن بنا دے ؟ یا یہ زندگی فساد زادہ اور خفلشار میں مبتلا ہو ‘ یا اس میں ظلم اور سرکشی کا دور دورہ ہو اور کوئی نہ ہو کہ ظالم کا ہاتھ روکے ۔ یا وہ زندگی کو پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ حالت میں چھوڑ دے جبکہ ایسے نظریے کے حامل لوگ کی نظریں آخرت پر لگی ہوں اور وہ آخرت میں جزاء کے طالب ہوں ۔ یہ درست ہے کہ تاریخ کے بعض ادوار میں لوگ منفی سوچ کے حامل رہے ہیں ۔ وہ شر و فساد ظلم وسرکشی کے داعی رہے ہیں ۔ پسماندگی اور جہالت ان کی زندگی پر چھائی رہی ہے اور یہ لوگ اپنے ان حالات کے ساتھ ۔۔۔۔۔ اسلام کے مدعی بھی رہے ہیں ۔ لیکن ان کے یہ حالات اسلام کی وجہ سے نہ تھے بلکہ اسلام کے بارے میں ان کی سوچ صحت مند نہ تھی ۔ ان کا تصور اسلام بگڑا ہوا تھا ۔ وہ جادہ مستقیم سے منحرف ہوگئے تھے اور آخرت پر انہیں کوئی یقین نہ رہا تھا ۔ ان کا ایمان متزلزل تھا ۔ ان کے یہ حالات اس لئے نہ تھے کہ وہ حقیقتا دین پر چل رہے تھے اور انہیں پورا یقین تھا کہ انہوں نے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ہر گز ایسے حالات میں زندگی بسر نہ کرتے جن میں انہیں نے پوری زندگی گزار دی کیونکہ جو شخص حقیقت دین کو پالیتا ہے وہ ان لوگوں کی طرح زندگی بسر نہیں کرسکتا ۔ یعنی منفی سوچ کا حامل پسماندہ اور شروفساد پر راضی ۔ ایک مسلمان اس دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ لیکن وہ اپنے آپ کو اس دنیا سے بہت ہی اونچا تصور کرتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو اس حقیر دنیا سے بہت ہی عظیم سمجھتا ہے ۔ وہ اس دنیا کی پاکیزہ چیزوں کو کام میں لاتا ہے یا وہ جائز اور حلال چیزوں سے بھی دامن پاک رکھتا ہے محض اپنی اخروی فلاح کے لئے ۔ وہ دنیا کی قوتوں کی تسخیر اور دنیاوی زندگی کی ترقی اور نشوونما کے لئے پوری کوشش کرتا ہے لیکن اس نقطہ نظر سے کہ یہ جدوجہد اس پر اس کے منصب خلافت کی رو سے بطور فریضہ عائد ہوتی ہے اور یہ کہ اس کا فرض ہے کہ وہ اس جہان میں شر و فساد اور ظلم وسرکشی کے خلاف جہاد کرے ۔ اور اس جہاد کی راہ میں جان ومال کی قربانی دے تاکہ اسے فلاح اخروی حاصل ہو ۔ اس کا دین اسے یہ تعلیم دیتا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور آخرت تک پہنچنے کا واحد راستہ یہ دنیا ہے ۔ اس دنیا سے ہو کر ہر شخص کو آخرت تک پہنچنا ہے ۔ لیکن آخرت کے مقابلے میں دنیا نہایت ہی حقیر اور کم ہے ۔ بہرحال دنیا بھی ایک محدود نعمت ہے اور اس محدود نعمت کو انسان عبور کر کے لامحدود نعمتوں میں داخل ہوتا ہے ۔ اسلامی نظام کا ہر جزء اخروی زندگی کے لئے ایک سیڑھی کا کام دیتا ہے ۔ اسلامی نظام کی اس سوچ کی وجہ سے انسان کے تصور میں وسعت ‘ حسن اور بلندی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس سوچ کے نتیجے میں رفعت ‘ پاکیزگی اور رواداری پیدا ہوتی ہے اور انسان اس راہ کے لئے پرجوش ہوجاتا ہے ۔ وہ محتاط اور متقی بن جاتا ہے اور انسانی جدوجہد اور زندگی میں خود ‘ پختگی اور اعتماد پیدا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی زندگی صرف تصور آخرت پر استوار ہو سکتی ہے اور اسی لئے قرآن کریم نے اول سے آخر تک جگہ جگہ خوف آخرت اور یقین قیامت پر زور دیا ہے اور حقیقت آخرت کے مضامین ومناظر کو پیش کیا ہے ۔ عرب ایک گھمبیر جاہلیت میں ڈوبے ہوئے تھے اور اسی جاہلیت کی وجہ سے ان کی سوچ اور ان کے شعور کی تنگ حدود میں عالم آخرت کا تصور نہیں سماتا تھا اور وہ اس دنیا کے علاوہ کوئی اور بات نہ سوچ سکتے تھے ۔ وہ صرف اسی دنیا کو دیکھ سکتے تھے جو ان کی نظروں کے سامنے تھی ۔ وہ اپنی شخصیت اور اپنی فکر کو اس محدود دنیا حدود کے آگے نہ بڑھا سکتے تھے اور نہ ہی کائنات کی مزید وسعتوں کے بارے میں کوئی تصور کرسکتے تھے ۔ انکی سوچ اور ان کا شعور بالکل حیوانی سطح تک تھا اور وہ بعینہ اس طرح سوچتے تھے جس طرح جدید جاہلیت سوچتی ہے ۔ حالانکہ دور جدید کے لوگ اپنے آپ کو علمی اور سائنسی اعتبار سے ترقی یافتہ کہتے ہیں ۔ چناچہ عربوں کی سوچ یہ تھی ۔ (آیت) ” وَقَالُواْ إِنْ ہِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِیْنَ (29) ” آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہر گز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ مذکورہ بالا نظریہ حیات اور اعتقادات کے نتیجے میں ایک پاکیزہ ‘ شریفانہ اور بلند مرتبہ زندگی وجود میں نہیں لائی جاسکتی ۔ شعور اور تصور کے یہ محدود دائرے انسان کو گرا کر اسے مٹی میں ملا دیتے ہیں اور اس کی سوچ کو جانوروں کی طرح محسوسات تک محدود کردیتے ہیں ۔ جب انسان اس محدود دنیا کے اندر بند ہوجاتا ہے تو اس کے نفس کے اندر دنیا کی بھوک پیدا ہوجاتی ہے اور دنیاوی وسائل کے بارے میں حرص اور آز پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور انسان دنیا کی اس مال ومتاع کا بندہ بن جاتا ہے ۔ جس طرح شہوت پرستیاں جب بےلگام ہوجائیں تو خرمستیاں کرتی ہیں اور بےروک ٹوک اور بغیر ٹھہراؤ کے اور بغیر کسی حدود کے زیادہ ہی ہوتی رہتی ہیں ۔ پھر اگر یہ خواہشات اور شہوات پوری نہیں ہوتیں تو انسان اپنے آپ کو محروم تصور کرتا ہے کیونکہ اسے کسی اخروی اجر کی بھی امید نہیں ہوتی اگرچہ وہ نہایت ہی گری ہوئی کیوں نہ ہوں اور وہ نہایت ہی چھوٹی خواہشات کیوں نہ ہوں اور ان کی نوعیت محض حیوانی خواہشات کی ہی کیوں نہ ہو ۔ آج دنیا کی جو صورت حال ہے اور اس کے ردعمل میں آج لوگوں کا جو طرز عمل ہے صرف دنیا کے اس محدود دائرے کو پیش نظر رکھ کر تشکیل پاتا ہے ‘ جس میں لوگوں کے پیش نظر صرف زمان ومکان کا محدود دائرہ ہوتا ہے جس میں عدل و انصاف اور ہمدردی اور رحم دلی کا کوئی نام ونشان نہیں ہے ‘ جس میں ہر انسان دوسرے انسان کے ساتھ برسرجنگ ہے ‘ جس میں ہر طبقہ دوسرے طبقے سے برسرپیکار ہے ‘ جس میں ایک نسل دوسری نسل کی بیخ کنی میں مصروف ہے اور سب انسان جنگل کے جانوروں کی طرح اس دنیا کے جنگل میں آزاد پھر رہے ہیں ۔ وحشیوں کی طرح جس کے جی میں جو آتا ہے کرنے پر آمادہ ہے ۔ یہ مناظر آج کی مہذب دنیا میں رات اور دن ہم دیکھتے ہیں اور ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ یہ سب کے سب دنیا کے اس محدود تصور کی وجہ سے ہیں۔ ذات باری کو ان سب حالات کا علم تھا کہ وہ امت جسے پوری انسانیت کی نگرانی کا فریضہ سپرد کیا جانا تھا ‘ اور جس کے فرائض میں یہ بات بھی شامل تھی کہ پوری انسانیت کو وہ مقام بلند تک پہنچا دے اور اسے اس طرح ترقی دے کہ اس میں انسان کا انسانی پہلو اپنی حقیقی شکل میں نمودار ہوجائے ۔ اپنے یہ فرائض اس وقت تک سرانجام نہیں دے سکتی جب تک وہ دنیا کے اس محدود دائرے سے باہر نہیں آجاتی ۔ جب تک وہ دنیا کے اس محدود دائرے سے باہر نہیں آجاتی ۔ جب تک اس کے تصورات اور اس کی اقدار اس محدود وغار سے نکل کر آفاقی نہیں بن جاتے اور جب تک یہ امت دنیا کی تنگ نائیوں سے نکل کر آخرت کی وسعتوں کی سیر نہیں کرتی ۔ یہ وہ سبب ہے جس کی وجہ سے قرآن نے عقیدہ آخرت پر بہت ہی زور دیا ہے ۔ ایک تو اس لئے کہ یہ ایک حقیقت ہے جو آنے والی ہے ‘ اور قرآن کریم کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ وہ حقائق بیان کرے ۔ دوسرے اس لئے کہ اس عقیدے کے سوا کوئی انسان مکمل انسان ہی نہیں بن سکتا۔ نہ تصورات و عقائد کے اعتبار سے ‘ نہ اخلاق اور طرز عمل کے اعتبار سے اور نہ اپنے نظام قانون اور نظام دستور کے اعتبار سے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس لہر میں اس قدر شدید اتار چڑھاؤ ہے ۔ اور اس میں ایک ایسی خوفناک فضا پائی جاتی ہے جس سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ان خوفناک مناظر کی بابت اللہ کو علم تھا کہ وہ انسان پر بہت پر بہت ہی اثر انداز ہوتے ہیں اور اس سے انسان کے دل و دماغ کے دریچے وا ہوجاتے ہیں ۔ انسان کے اندر قبولیت حق کی جو فطری استعداد ودیعت کی گئی ہے وہ جاگ اٹھتی ہے ۔ اس کے اندر حرکت پیش ہوجاتی ہے ‘ وہ زندہ انسان نظر آتا ہے اور ہر وقت سچائی کو قبول کرنے کی صلاحیت ہے ۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک عظیم سچائی کا اظہار ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ قَالُوْٓا اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ ) (اور وہ یوں کہتے ہیں کہ اجی اور کوئی زندگی نہیں ہے بس یہی دنیا والی زندگی ہے) انہوں نے رسولوں کی بات کو نہ اب مانا نہ جب مانیں گے۔ پھر فرمایا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

یہ شکوی ہے اور ” لعادوا “ پر معطوفہ ہے۔ یعنی اگر انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تو یہ حسب سابق توحید کے ساتھ بعث بعد الموت کا بھی انکار کریں گے اور کہیں کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہے اور اس کے بعد کوئی قیامت اور حشر و نشر وغیرہ نہیں۔ یا ” انہم لکاذبون “ پر عطف ہے یا استیناف ہے یعنی یہ ... لوگ دنیا میں ایسا کہا کرتے تھے۔ عطف علی لعادوا یعنی لو ردوا قالوا و علی انہم لکاذبون یعنی وھم الذین قالوا ذالک فی الدنیا او استیناف بذکر ما قالوہ فی الدنیا (مظہری ص 356 ج 3)  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

29 اور یہ منکر اسلام یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری اس دنیوی زندگی کے علاوہ اور کوئی زندگی نہیں ہے اور ہماری زندگی صرف یہی دنیا کی زندگانی ہے اور اس کے بعد ہم دوبارہ نہیں اٹھائیں جائیں گے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کئے جائیں گے۔