Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 40

سورة الأنعام

قُلۡ اَرَءَیۡتَکُمۡ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُ اللّٰہِ اَوۡ اَتَتۡکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیۡرَ اللّٰہِ تَدۡعُوۡنَ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۴۰﴾

Say, "Have you considered: if there came to you the punishment of Allah or there came to you the Hour - is it other than Allah you would invoke, if you should be truthful?"

آپ کہئے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے ۔ اگر تم سچے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators Call On Allah Alone During Torment and Distress Allah states that He does what He wills with His creatures and none can resist His decision or avert what He decrees for them. He is the One Who has no partners, Who accepts the supplication from whomever He wills. Allah said, قُلْ أَرَأَيْتُكُم إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ Say: "Tell me if Allah's torment comes upon you, or the Hour comes upon you, would you then call upon any one other than Allah! (Reply) if you are truthful!" This means, you -- disbelievers -- will not call other than Allah in this case, because you know that none except He is able to remove the affliction. إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (if you are truthful) by taking gods besides Him. Allah said, بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاء وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ

سخت لوگ اور کثرت دولت مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے تمام مخلوق اس کے آگے پست و لا چار ہے جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے ، اس کا کوئی ارادہ بدلتا نہیں ، اس کا کوئی حکم ٹلتا نہیں کوئی نہیں جو اس کی چاہت کے خلاف کر سکے یا اس کے حکم کو ٹال سکے یا اس کی قضا کو پھیر سکے وہ سارے ملک کا تنہا مالک ہے اس کی کسی بات میں کوئی سریک یا دخیل نہیں جو اسے مانگے وہ اسے دیتا ہے ، جس کی چاہے دعا قبول فرماتا ہے پس فرماتا ہے خود تمہیں بھی ان تمام باتوں کا علم و اقرار ہے یہی وجہ ہے کہ آسمانی سزاؤں کے آ پڑنے پر تم اپنے تمام شریکوں کو بھول جاتے ہو اور صرف اللہ واحد کو پکارتے ہو ، اگر تم سچے ہو کہ اللہ کے ساتھ اس کے کچھ اور سریک بھی ہیں تو ایسے کٹھن موقعوں پر ان میں سے کسی کو کیوں نہیں پکارتے؟ بلکہ صرف اللہ واحد کو پکارتے ہو اور اپنے تمام معبودان باطل کو بھول جاتے ہو ، چنانچہ اور آیت میں ہے کہ سمندر میں جب ضرر پہنچتا ہے تو اللہ کے سوا ہر ایک تمہاری یاد سے نکل جاتا ہے ، ہم نے اگلی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے پھر ان کے نہ ماننے پر ہم نے انہیں فقرو فاقہ میں تنگی ترشی میں بیماریوں اور دکھ درد میں مبتلا کر دیا کہ اب بھی وہ ہمارے سامنے گریہ و زاری کریں عاجزانہ طور پر ہمارے سامنے جھک جائیں ، ہم سے ڈر جائیں اور ہمارے دامن سے چمٹ جائیں ، پھر انہوں نے ہمارے عذابوں کے آ جانے کے بعد بھی ہمارے سامنے عاجزی کیوں نہ کی؟ مسکینی کیوں نہ جتائی ؟ بلکہ ان کے دل سخت ہو گئے ، شرک ، دشمنی ، ضد ، تعصب ، سرکشی ، نافرمانی وغیرہ کو شیطان نے انہیں بڑا حسن میں دکھایا اور یہ اس پر جمے رہے ، جب یہ لوگ ہماری باتوں کو فراموش کر گئے ہماری کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہمارے فرمان سے منہ موڑ لیا تو ہم نے بھی انہیں ڈھیل دے دی کہ یہ اپنی برائیوں میں اور آگے نکل جائیں ، ہر طرح کی روزیاں اور زیادہ سے زیادہ مال انہیں دیتے رہے یہاں تک کہ مال اولاد و رزق وغیرہ کی وسعت پر وہ بھولنے لگے اور غفلت کے گہرے گڑھے میں اتر گئے تو ہم نے انہیں ناگہاں پکڑ لیا ، اس وقت وہ مایوس ہو گئے ، امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا صوفیانہ مقولہ ہے کہ جس نے کشادگی کے وقت اللہ تعالیٰ کی ڈھیل نہ سمجھی وہ محض بےعقل ہے اور جس نے تنگی کے وقت رب کی رحمت کی امید چھوڑ دی وہ بھی محض بیوقوف ہے ۔ پھر آپ اسی آیت کی تلاوت فرماتے ہیں رب کعبہ کی قسم ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی چاہتوں کو پوری ہوتے ہوئے دیکھ کر اللہ کو بھول جاتے ہیں اور پھر رب کی گرفت میں آ جاتے ہیں ، حضرت قتادہ کا فرمان ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کے فرمان سے سر تابی کرتی ہے تو اول تو انہیں دنیا خوب مل جاتی ہے جب وہ نعمتوں میں پڑ کر بد مست ہو جاتے ہیں تو اچانک پکڑ لئے جاتے ہیں لوگو اللہ کی ڈھیل کو سمجھ جایا کرو نافرمانیوں پر نعمتیں ملیں تو غافل ہو کر نافرمانیوں میں بڑھ نہ جاؤ ۔ اس لئے کہ یہ تو بدکار اور بےنصیب لوگوں کا کام ہے ، زہری فرماتے ہیں ہر چیز کے دروازے کھول دینے سے مراد دنیا میں آسائش و آرام کا دینا ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم دیکھو کہ کسی گنہگار شخص کو اس کی گنہگاری کے باوجود اللہ کی نعمتیں دنیا میں مل رہی ہیں تو اسے استدراج سمجھنا یعنی وہ ایک مہلت ہے ، پھر حضور نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی اور حدیث میں ہے کہ جب کسی قوم کی بربادی کا وقت آ جاتا ہے تو ان پر خیانت کا دروازہ کھل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان دی گئی ہوئی چیزوں پر اترانے لگتے ہیں تو ہم انہیں ناگہاں پکڑ لیتے ہیں اور اس وقت وہ محض ناامید ہو جاتے ہیں ۔ پھر فرمایا ظالموں کی باگ ڈور کاٹ دی جاتی ہے ۔ تعریفوں کے لائق وہ معبود بر حق ہے جو سب کا پالنہار ہے ( مسند وغیرہ ) ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَاب اللّٰهِ ۔۔ : اس مضمون کو بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ بیان کیا ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٦٧) ، سورة زمر (٣٨) ، سورة مومنون (٨٤ تا ٨٩) ، سورة لقمان (٣٢) اور سورة یونس (٢٢) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے مشرکین کا طرز عمل بیان فرمایا، مطلب یہ ہے کہ توحید انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے، وہ ماحول کے اثر سے یا آباء و اجداد کی تقلید سے شرک میں گرفتار ہوتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے، نذر و نیاز بھی ان کے نام کی نکالتا ہے، لیکن جب آزمائش سے دو چار ہوتا ہے تو پھر سب کو بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے، پھر بےبس انسان سب کچھ بھول جاتا ہے اور صرف اسی ایک ذات کو پکارتا ہے جسے پکارنا چاہیے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی طرز عمل کو بطور ثبوت توحید کی دلیل کے طور پر بیان کیا، یعنی اگر اپنے اس دعویٰ میں کہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ تم پر آئی ہوئی بلا ٹال سکتے ہیں تو یہ بتاؤ کہ اللہ کا عذاب آنے کی صورت میں، یا قیامت آنے پر بھی کیا تم غیر اللہ کو پکارو گے ؟ نہیں بلکہ تم صرف اسی کو پکارو گے، باقی مشکل کشا تمہیں بھول جائیں گے۔ یہ تو ان کفار و مشرکین کا حال تھا لیکن آج خود مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کی فطرت اس قدر مسخ ہوچکی ہے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت میں بھی فریاد کرتے ہیں تو اپنے کسی خود ساختہ داتا سے یا علی (t) سے، یا شیخ عبد القادر جیلانی سے، انھیں غوث اعظم، یعنی سب سے بڑا مدد گار کہہ کر، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے، یا فاطمہ، حسین اور حسن (رض) سے۔ نعرے بھی ان سے مدد مانگنے کے الفاظ کے ساتھ لگاتے ہیں، جیسا کہ یا رسول اللہ، یا علی، یا غوث اعظم وغیرہ، گویا ان کی حالت عملی طور پر ان پہلے کفار و مشرکین سے بھی بدتر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللہِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَۃُ اَغَيْرَ اللہِ تَدْعُوْنَ۝ ٠ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٤٠ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٠) اہل مکہ ذرا اپنی حالت تو بتاؤ کہ اگر تمہیں مثلا بدر، احد، احزاب کا سامان کرنا پڑجائے یا قیامت کا عذاب تم پر آجائے تو کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور اس عذاب کو ٹال دے گا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو کہ یہ بت سفارشی اور اللہ کی خدائی میں شریک ہیں تو اس بات کا جواب دو ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (قُلْ اَرَءَ یْتَکُمْ اِنْ اَتٰٹکُمْ عَذَاب اللّٰہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ اللّٰہِ تَدْعُوْنَج اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) یہ بھی متجسسانہ ) (searching انداز میں ان سے سوال کیا جا رہا ہے۔ یہ ان کا معمول بھی تھا اور مشاہدہ بھی ‘ کہ جب بھی کبھی کوئی مصیبت آتی ‘ سمندر میں سفر کے دوران کبھی طوفان آجاتا ‘ موت سامنے نظر آنے لگتی تو پھر لات ‘ منات ‘ عزیٰ ‘ ہُبل وغیرہ میں سے کوئی بھی دوسراخدا انہیں یاد نہ رہتا۔ ایسے مشکل وقت میں وہ صرف اللہ ہی کو پکارتے تھے۔ چناچہ خود ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ ہر شخص ذرا اپنے دل سے پوچھے ‘ کہ آخر مصیبت کے وقت ہمیں ایک اللہ ہی کیوں یاد آتا ہے ؟ گویا ایک اللہ کو ماننا اور اس پر ایمان رکھنا انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ کسی شخص میں شرافت کی کچھ بھی رمق موجود ہو تو اس طرح کے سوالات کے جواب میں اس کا دل ضرور گواہی دیتا ہے کہ ہاں بات تو ٹھیک ہے ‘ ایسے مواقع پر ہماری اندرونی کیفیت بالکل ایسی ہی ہوتی ہے اور بےاختیار اللہ ہی کا نام زبان پر آتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(40 ۔ 49) ۔ اوپر ذکر تھا کہ مکہ کے بت پرست لوگ مصیبت کے وقت بتوں کو چھوڑ کر خالص دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ الٰہی میں رفع مصیبت کی التجا پیش کیا کرتے تھے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرک بت پرستوں کو یوں سمجھایا ہے کہ وہ کبھی کبھی اوپر کی مصیبتیں تو درکنار جس وحدہ لا شریک نے تم لوگوں کو کان سننے کے لئے آنکھیں دیکھنے کے لئے دل بھلی بری بات سمجھنے کے لئے یہ سب اپنی نعمتیں عنایت فرمائی ہیں اگر وہ وحدہ لا شریک تم لوگوں کو پھر اندھا کردیوے یا تمہارا دل الٹ کر تمہیں دیوانہ بنا دیوے تو کیا تمہارے بتوں میں اتنی قدرت ہے کہ وہ تم کو پھر اصلی حالت پر کر دیویں مکہ کے قحط کی اوپری میں تو تم اپنے بتوں کو خوب آزما چکے کہ ان میں سے کچھ بھی نہ ہوسکا اب تم میں آخر کچھ لوگ بہرے اندھے دیوانے موجود ہیں ان کو اچھا کردینے میں اپنے بتوں سے مدد لی جاوے نتیجہ آخر وہی ہوگا جو مکہ کے قحط کے وقت میں ہوا۔ باوجود اس پوری فہمائش کے جو تم حق سے پھرے جاتے ہو تو یہ تمہارا قابل سزا ایک جرم ہے وقت مقررہ آنے پر رات کو غفلت کی حالت میں یا دن کو کھلم کھلا اس جرم کی سزا میں اگر تم پر کوئی عذاب الٰہی آگیا تو اس سے تمہارا بچنا مشکل ہے۔ رہی یہ بات کہ ایسا بڑا شق القمر دیکھنے اور اس کو جادو بتلانے کے بعد تم لوگ ہر گھڑی اپنی خواہش کے موافق اللہ کے رسول سے معجزے جو چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو اس نہیں بھیجا کہ وہ ہر گھڑی منکر شریعت لوگوں کو طرح طرح کے معجزے دکھاویں اور وہ منکر شریعت لوگ ان معجزوں کو جادو بتلاویں بلکہ اللہ کے رسول تو اس لئے آئے ہیں کہ وہ فرمانبرداری لوگوں کو عقبیٰ کی بہبودی کی خوشخبری سنا دیویں اور نافرمان لوگوں کو عقبیٰ کے عذاب سے ڈراویویں اب جو کوئی اللہ کے رسول کی نصیحت کو مان کر راہ راست پر آجاوے گا اس کو عقبٰی کے عذاب سے بےخوف رہنا چاہیے ہاں نافرمان لوگوں کو نافرمانی کی سزا میں عقبیٰ کا سخت عذاب بھگتنا پڑے گا۔ جس خوشحالی اور اس خوشحالی کے عیش و عشرت کے گھمنڈ میں تم لوگ عقبیٰ کے عذاب سے غافل ہو کر تنگ دست مسلمانوں سے طرح طرح کا مسخرا پن کرتے ہو جب عقبیٰ کے عذاب سے پالا پڑے گا تو اس عذاب کے آگے یہ دنیا کا عیش تمہیں یاد بھی نہ رہے گا اسی طرح جن تنگ دست مسلمانوں سے تم لوگ یہاں دنیا میں مسخرا پن کرتے ہو جب عقبیٰ میں یہی لوگ اپنی تنگ دستی کی تکلیف پر صبر کرنے کے اجر میں جنت کی بڑی بڑی نعمتیں پاویں گے تو ان کو یہ دنیا کی تنگ دستی قابل قدر چیز معلوم ہوگی۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بڑے بڑے نافرمان خوشحال لوگ دوزخ کے عذاب کے آگے قسم کھا کر دنیا کے عیش و آرام کا انکار کریں گے اسی طرح تنگ دست فرمانبردار لوگ جنت کی نعمتوں کے آگے دنیا کی تنگ دستی کو بالکل بھول جاویں گے ١ ؎۔ یہ حدیث دنیا کے نافرمان خوشحال اور فرمانبرار تنگ دست لوگوں کے عقبیٰ کے حال کی تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:40) ارئیتکم۔ اخبرونی۔ مجھے بتاؤ۔ بھلا بتاؤ تو۔ اَ ۔ ہمزہ استفہام۔ رایت فعل یا فاعل جس میں ت فاعل ہے۔ اس کے بعد ک ۔ کما ۔ کم خطاب کے لئے ہیں۔ اور محض ضمیر فاعل کی تاکید کے لئے لائے جاتے ہیں۔ ت کو حالت تثنیہ۔ جمع اور تانیث میں اس کی حالت پر چھوٹ دیا جاتا ہے۔ اور ان حالتوں میں بجائے ت کے ک میں حسب مقام تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اگر ک۔ کما۔ کم برائے تاکید نہ لائے جائیں تو ت میں ضمیر کے مطابق تبدیلی ہوجائے گی۔ مثلاً ارایت الذی ینھی (96:9) کیا تم نے اس شخص کے حال پر نظر کی جو منع کرتا ہے۔ اور قل ارایتم ما تدعون (45:4) (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو کہ بھلا دیکھو تو سہی کہ جن کو تم (اللہ کے سوا) پکارتے ہو۔ رأی مادہ۔ مہموز العین اور ناقص یائی ہے۔ اس سے مشتق رویۃ آتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی اپنے اس دعوی میں کہ جن کہ تم اللہ کے سوا پکاتے ہو وہ تم پر آئی ہو بلاٹال سکتے ہیں۔ یہ تو ان کفارو مشرکین کا حال تھا لیکن آج خود مسلمانوں نے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو سخت میں بھی نعرہ لگاتے ہیں تو یاعلی، یا غوث اعظم اور یارسول اللہ کا گویا ان کی حالت کفا رو مشرکین سے بھی بدتر ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : صحیح العقیدہ شخص عسر، یسر، بیماری، تندرستی، مشکل اور خوشحالی یعنی ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے مشکل کشائی کی تمنا اور آرزو کرتا ہے اس کے مقابلے میں باطل عقیدہ کا حامل انسان آسانی کے وقت اللہ کے سوا دوسروں سے رجوع کرتا ہے اور جب مسائل کے گرداب میں پھنس جائے تو ہر طرف سے مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ کو صدائیں دیتا ہے اس کی اسی عادت کے پیش نظر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا گیا ہے کہ آپ ان سے استفسار فرمائیں کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹوٹے یا تم پر ناگہانی کوئی مصیبت اور قیامت آن پڑے اگر تم واقعی اپنے عقیدے میں سچے ہو تو کیا پھر بھی تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ ایسا کبھی نہیں ہوگا بلکہ صرف اور صرف تم اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہو اور پکارو گے وہی تمہاری مشکل دور اور تکلیف رفع کرتا ہے مشکل کے وقت جن کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہو تم یکسر انھیں بھول جاتے اور چھوڑ دیتے ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارنے والا اپنے عقیدہ میں سچا اور مخلص نہیں ہوتا کیونکہ توحید کے بغیر آدمی کو اخلاص اور کسی بات پر قرار نصیب نہیں ہوتا۔ مشرک کی عادت ہے اور تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی باطل عقیدہ لوگوں کو کوئی آفت آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کو ہی پکارا کرتے ہیں۔ کیونکہ مصیبت کے وقت انسان کے دل و دماغ سے جہالت اور غفلت کے پردے اٹھ جاتے ہیں اور اس کی سوئی ہوئی فطرت سلیم بیدار ہوجاتی ہے جس کی بنا پر وہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتا ہے۔ کیونکہ توحید فطرت کی آواز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت میں سمو دیا ہے۔ علامہ ابن کثیرنے لکھا ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو ابو جہل کا بیٹا عکرمہ (رض) اپنی جان بچانے کی خاطر جدہ کی بندرگاہ پہنچا۔ جب بیڑے پر سوار ہوا تو سفر کے دوران بیڑہ سمندر کے بھنور میں جاپھنسا۔ طوفان اس قدر شدید تھا کہ بادبان نے بیڑے پر سوار لوگوں کو تلقین کی کہ ایسے حالات میں کسی اور کو پکارنے کی بجائے صرف ایک اللہ کو صدا دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا اس لیے ہم سب کو ایک اللہ ہی سے اس گرداب سے نجات کی دعا کرنی چاہیے۔ جناب عکرمہ (رض) کا فرمان ہے کہ میں نے اسی وقت اپنے دل میں فیصلہ کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مصیبت سے نجات دی تو میں واپس جا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا کیونکہ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ چناچہ اس واقعہ کے بعد حضرت عکرمہ بن ابو جہل (رض) مکہ واپس آکر حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے اور آخر دم تک نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانثار رہے۔ مسائل ١۔ مشرک مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں۔ ٢۔ مشکل وقت میں مشرک معبودان باطل کو بھول جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اگر مدد کرسکتے ہیں تو اپنے معبودوں کو آواز دو : ١۔ بلاؤ اپنے معبودوں کو اگر تم سچے ہو۔ (البقرۃ : ٢٣) ٢۔ ان کو ٹھہراؤ ان سے کچھ پوچھنا ہے۔ تمہیں کیا ہوگیا اب ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔ (الصافات : ٢٤ تا ٢٥) ٣۔ اللہ کے علاوہ جن معبودوں کا تمہیں زعم ہے انھیں بلاؤ وہ بھی مصیبت دور نہیں کرسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٥٦) ٤۔ بلاؤ تم ان کو وہ تمہیں جواب نہیں دیں گے۔ (الاعراف : ١٩٤) ٥۔ اس دن ان سے کہا جائے گا بلاؤ اپنے معبودان باطل کو، وہ بلائیں گے تو انھیں جواب نہیں ملے گا۔ (القصص : ٦٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٤٠ تا ٤١۔ اللہ تعالیٰ فطرت انسانی کے خطاب کے لئے جو وسائل استعمال فرماتے ہیں یہ اس کا ایک نمونہ ہے ۔ یہ نمونے اس سے پہلے کی لہروں میں بھی بیان کئے جا چکے ہیں اور اس کے بعد جو فقرات آ رہے ہیں ان میں بھی اس کے نمونے آئیں گے ۔ اس پوری سورة میں انسانی فطرت کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ اس سے قبل یہ بات کہی گئی تھی کہ زندہ مخلوقات کے جہان تمہاری نظروں کے سامنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدبرانہ قدرت نے ان کے اندر کس قدر تنظیم پیدا کر رکھی ہے ۔ پھر ذرا دیکھو کہ اللہ کا علم کس قدر وسیع اور شامل ہے ۔ اس زیر بحث مجموعہ آیات میں اللہ کے عذاب اور آفات ناگہانی کا ذکر ہے ۔ جب یہ ناگہانی آفات وبلیات انسانی فطرت پر آتی ہیں تو ان کے مقابلے میں کا ردعمل کیا ہوتا ہے ۔ خصوصا اس وقت جب یہ آفات ایک ہولناک صورت میں ہوتی ہیں جس سے انسان کا دل دہل جاتا ہے ۔ ایسے حالات میں انسان کے دل و دماغ سے شرک کے گرد و غبار کی تہیں چھٹ جاتی ہیں اور انسانی فطرت صاف ہو کر سامنے آجاتی ہے اور عقیدہ توحید جو انسانی فطرت کی گہرائیوں میں موجود رہتا ہے وہ سامنے آتا ہے اور انسانی فطرت صرف رب واحد کو پکارتی ہے ۔ (آیت) ” قُلْ أَرَأَیْْتُکُم إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُ اللّہِ أَوْ أَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ أَغَیْْرَ اللّہِ تَدْعُونَ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ (40) ” ان سے کہو ‘ ذرا غور کرکے بتا ‘ اگر تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو ؟ بولو اگر تم سچے ہو ۔ یہاں ایک خوفناک صورت حال کا تصور پیش کیا جاتا ہے اور دنیا میں تباہی و بربادی کے بعض مناظر نظروں کے سامنے لائے جاتے ہیں یا یہ تصور کہ اچانک قیامت برپا ہوجائے ۔ جب انسانی فطرت کے سامنے یہ مناظر آتے ہیں تو فطری احساس چٹکیاں لینے لگتا ہے ۔ ان مناظر کی ہولناکی کا تصور ذہن میں خوبی کے ساتھ آجاتا ہے اور اللہ خوب جانتا ہے جو خالق فطرت ہے کہ اس اسلوب کے ساتھ فطرت ان مناظر کا اچھی طرح ادراک کرلیتی ہے اور بسہولت حقیقت تک رسائی حاصل کرلیتی ہے ۔ اس کی تمام قوتیں ان مناظر کی وجہ سے حرکت میں آجاتی ہیں اس لئے کہ ان ہولناک مناظر میں جو حقیقت ہوتی ہے وہ فطرت انسانی کے اندر موجود ہوتی ہے ۔ خالق فطرت کو تو اچھی طرح علم ہے کہ یہ حقیقت فطرت کے اندر موجود ہوتی ہے اس لئے باری تعالیٰ اس اسلوب میں فطرت سے مخاطب ہوتے ہیں اور فطرت اس تصور کو قبول کرلیتی ہے ‘ کانپ اٹھتی ہے اور غفلت اور سرکشی پردوں اور غبار کی تہوں کے نیچے سے صاف صاف نمودار ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں یا جواب طلب فرماتے ہیں اور خود ان کی زبان سے جواب چاہتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ جواب ان کی فطرت کا حقیقی اظہار ہے ۔ (آیت) ” اغیر اللہ تدعون “۔ کیا تم اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہو ‘ اگر تم سچے ہو تو جواب دو ۔ “ ان کی جانب سے جواب کا انتظار کئے بغیر سچا اور حقیقی جواب آجاتا ہے جو عملا ان کی فطرت کے مطابق ہے ۔ اگرچہ وہ جواب نہ دیں لیکن ایسے مواقع پر ان کا عمل کچھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ (آیت) ” بَلْ إِیَّاہُ تَدْعُونَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَیْْہِ إِنْ شَاء وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِکُونَ (41) ” اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو ۔ پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو۔ بلکہ تم صرف اللہ وحدہ ہی کو پکارو گے اور ایسے حالات میں تم اپنے شرکیہ تصورات کو یکسر بھول جاؤ گے ۔ یہ خوفناک صورت حال تمہاری اصل فطرت کو سطح تک لے آئے گی اور اب یہ فطرت صرف اللہ وحدہ کو پکارے گی ۔ اسے یہ بات یاد بھی نہ رہے گی کہ کوئی شخص شرک کرتے ہوئے غیر اللہ کو بھی پکارتا رہا ہے ۔ سرے سے حقیقت شرک بھی ان کے ذہن سے محو ہوجائے گی ۔ اس لئے کہ معرفت کردگار ہی وہ اصل حقیقت ہے جو انسانی فطرت کے اندر موجود ہوتی ہے ۔ رہے شرکیہ تصورات تو یہ جھلکی کی طرح عارضی چیز ہوتی ہے ۔ بعض عارضی عوامل اور حالات کی وجہ سے یہ شرکیہ تصورات جنم لیتے ہیں ۔ انسانی فطرت پر یہ عارضی پردے پڑ کر اصل حقیقت کو نیچے چھپا دیتے ہیں ۔ جب کوئی خوفناک صورت حالات انسان کو جھنجھوڑتی ہے ۔ تو اوپر کے پردے اور غبار چھٹ جاتے ہیں ۔ اور نیچے سے اصل حقیقت نمودار ہوجاتی ہے ۔ اب یہ فطرت رب ذوالجلال کے سامنے اپنا رد عمل ظاہر کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ ان خوفناک حالات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی انسان کی مدد کرسکتے ہیں اور ایسے حالات میں انسان کے لئے کوئی اور چارہ کار نہیں رہتا ۔ یہ ہے انسان کی حقیقی فطری روش ۔ اللہ تعالیٰ مشرکین کے سامنے انسان کے اس فطری ردعمل کو برائے غور پیش فرماتے ہیں لیکن ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی شان بےنیازی کیا روش اختیار فرماتی ہے ؟ یہ کہ اگر اللہ چاہے کہ ان پر سے ان مشکلات کو دور فرما دے تو اس کی مشیت بےقید ہے ۔ اس کے ارادے کو رد کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ اگر چاہے تو ان کی دعاؤں کو قبول کرلے ‘ تکالیف پوری طرح دور ہوجائیں یا جزوی طور پر دور ہوجائیں ۔ اور اگر اس کی مشیت کا تقاضا یہ ہو کہ ان کی پکار کو رد کردیتا ہے ۔ یہ فیصلہ ‘ اس کی تقدیر ‘ اس کے علم اور اس کی حکمت پر موقوف ہے ۔ اگرچہ شرک انسانی فطرت کے خلاف ہے لیکن بعض اوقات انسان شرکیہ تصورات اختیار کرلیتا ہے ۔ یہ وہ اس وقت اختیار کرتا ہے جب وہ راہ فطرت سے انحراف اختیار کرلیتا ہے اور یہ انحراف مختلف عوامل کی وجہ سے واقع ہوتا ہے اور یہ عوامل انسان کے اندر جو صاف ستھری فطرت موجود ہے اسے دبا دیتے ہیں اور ان عوامل کے نیچے رب واحد کی حقیقی معرفت انسان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے ۔ اس لئے کہ انسان کبھی بھی وجود باری کا منکر نہیں رہا ہے اور نہ یہ اس کا فطری موقف رہا ہے کہ وہ وجود باری سے انکار کردے ۔ جیسا کہ ہم بارہا دیکھ چکے ہیں کہ جو لوگ بظاہر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ملحد ہیں اور وہ وجود خالق کے منکر ہیں ‘ درحقیقت وہ خدا کے منکر نہیں ہوتے ۔ ہم یہ یقین نہیں کرسکتے کہ جن لوگوں کو دست قدرت نے بنایا ہے اور جن کے وجود کے ہر ذرے اور ہر خیلے میں دست قدرت کی چھاپ موجود ہے ‘ پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے خالق کو بالکل بھول جائیں اور حقیقی ملحد ہوجائیں ۔ ان کے وجود کا تو ہر ذرہ ذات باری پر گواہ ہے ۔ انسانیت پر اس خوفناک عذاب کے نزول کی ایک طویل داستان ہے ، کنیسہ اور فطرت کے درمیان ایک طویل عرصے تک کشمکش جاری رہی ۔ کینسہ اس جدوجہد میں رہا کہ فطری عامل اور دواعی کا قلع قمع کر دے ۔ اہل کنیسہ انسان کی فطری خواہشات اور میلانات کی قانونی حیثیت کا انکار کرتے تھے ۔ جبکہ درحقیقت وہ نہایت ہی مکروہ زندگی بسر کرتے تھے جو عیاشیوں سے پر تھی ۔ اس طرح فطرت کے ساتھ مخاصمت اور کشمکش یورپ میں صدیوں تک برپا رہی ۔ اس کا نتیجہ یہ وہا کہ اہل یورپ نے یہ سمجھا کہ خدا پرستی کا مطلب فطرت کا انکار ہے یوں وہ کفر اور الحاد کے صحرا میں گم گشتہ راہ ہوگئے اور کنیسہ کی رہبانی زندگی سے بھی مکروہ ترزندگی اور سراب کے پیچھے بھاگتے رہے ۔ (دیکھئے میری کتاب المستقبل لھذا الدین کی فصل غیر فطری افتراق) اس صورت حال سے یہودیوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور نصاری کو اپنے صحیح دین سے برگشتہ کردیا تاکہ ان کی نکیل ان کے ہاتھ آجائے اور وہ خوب اچھی طرح سے ان کے اندر فسق وفجور اور اخلاقی بےراہ روی پھیلا سکیں اور ان کو اپنے مقاصد کے لئے اس طرح استعمال کریں جس طرح گدھے کو استعمال کیا جاتا ہے ‘ جس کا اظہار انہوں نے تلمود اور یہودی زعما کے پروٹوکولز میں بڑی صراحت سے کیا ہے ۔ یہودی یہ کام اس وقت تک نہ کرسکتے جب تک انہوں نے یورپ کی اس غیر فطری تاریخ کنیسہ پر تنقید کر کے لوگوں کو گمراہ نہ کردیا اور لوگوں کو کنیسہ سے منتفر کر کے ملحد نہ بنا دیا ۔ اس صریح اور ان تھک مکارانہ جدوجہد کا آخری اظہار عالمی کمیونزم کی صورت میں ہوا ۔ یہ بات یاد رہے کہ عالمی کمیونزم لوگوں کو ملحد اور گمراہ کرنے کی ایک عظیم یہودی سازش تھی ۔ یہ لوگ گزشتہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے تمام حکومتی ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کو ملحد بنانے میں مصروف رہے لیکن دوسری اقوام کے دلوں کی گہرائی کے اندر اب بھی عقیدہ خدا پرستی موجود ہے ۔ سٹالن جیسے وحشی انسان کو بھی بالاخر کنیسہ کے ساتھ مصالحت کرنی پڑی اور دوسری عالم گیرجنگ کے دوران اس نے کنیسہ کے مشائخ کو رہا کردیا ۔ دوسری عالم گیر جنگ نے اس پر اس قدر بوجھ ڈالا کہ اس کی گردن بھی تصور خدا کے سامنے آخر جھک ہی گئی اس لئے کہ لوگوں کی فطرت کے اندر تصور خدا موجود تھا ۔ اگرچہ سٹالن اور اس کے مٹھی بھر ساتھی ملحد تھے جن کے ہاتھوں میں زمام حکومت تھی ۔ یہودیوں نے اپنے صلیبی خرکاروں فائدہ اٹھاتے ہوئے ان اقوام کے اندر بھی کفر والحاد کا مصنوعی سیلاب لانے کی بےحد سعی کی ۔ اگرچہ مسلم اقوام کے دل و دماغ میں عقیدہ خدا پرستی نہایت ہی کمزور ہوگیا تھا لیکن انہوں نے ترکی کے نام نہاد لیڈر اتاترک کے زریعے عالم اسلام کے اندر کفر والحاد کی جو تحریک شروع کی تھی وہ تحریک خود ترکی کے اندر بری طرح ناکام ہوگئی ‘ حالانکہ یہودیوں اور ان کے خرکاروں نے اس نام نہاد لیڈر کی عظمت اور برتری کے ڈھنڈورے پیٹے اور ہر طرف سے مالی امداد کے دروازے کھول دیئے ۔ ترکی کی تحریک الحاد پر انہوں نے بیشمار کتابیں بھی لکھیں اور ان میں اس کے الحادی تجربے کو بےحد سراہا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ عالم اسلام میں ترکی کے تجربے کے بعد جو دوسرے تجربے کررہے ہیں ان کو وہ الحاد وزندقہ کا عنوان نہیں دیتے بلکہ یہاں وہ اسلام کے نام سے الحاد پھیلاتے ہیں تاکہ ان کی تحریک کا ٹکراؤ انسان کے فطری میلانات سے نہ ہو ‘ جس طرح اتاترک کے تجرباتی کے انسان کے فطری رجحان کے ساتھ ٹکراؤ ہوا اور وہ اپنی جگہ پاش پاش ہوگیا ۔ اب یہ لوگ اسلامی جھنڈوں کے سائے تلے گندگی ‘ غلاظت اور اخلاقی بےراہ روی پھیلاتے ہیں ۔ اس طرح خام انسانی عقول کو تباہ وبرباد کرتے ہیں اور یہودی اور ان کے خرکار صلیبی یہ کام عالم اسلام میں بڑے اہتمام سے کرتے ہیں ۔ لیکن ان تمام تجربات کے بعد جو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی فطرت اپنے رب کو اچھی طرح جانتی ہے وہ رب کو وحدہ لاشریک بھی تسلیم کرتی ہے اگر کسی وقت انسانی فطرت پر فسق وفجور کی گرد پڑجائے اور وہ اس آلودگی کے نیچے دب جائے تو جونہی کوئی اچانک کوئی خطرہ درپیش ہو اور انسان جھنجھوڑا جائے تو یہ گرد و غبار چھٹ جاتا ہے اور اصل انسانی فطرت واضح طور پر سامنے آجاتی ہے اور انسان اپنے رب کو یوں پکارتا ہے ۔ جس طرح اس وقت انسان نے پکارا تھا جب اسے اللہ نے پیدا کیا تھا ۔ اچانک وہ مطیع فرمان مومن اور خشوع و خضوع کرنے والا انسان بن جاتا ہے ۔ یہودیوں اور ان کے خر کاروں کی اس عالمی سازش کا تارو پود فطرت کی ایک کڑکے دار چیخ سے ہی پاش پاش ہوجاتا ہے اور فطرت دوبارہ باری تعالیٰ کے آستانے پر آگرتی ہے ۔ جس خطے میں یہ فطری آواز بلند ہو وہاں سے یہ سازش نابود ہوجاتی ہے ۔ اور یہودی اور ان کے خرکار جس قدر جدوجہد بھی کریں ‘ زمین پر یہ آواز حق بلند ہوتی رہے گی ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مصیبت میں صرف اللہ کو پکارتے ہو : اس کے بعد ارشاد فرمایا (قُلْ اَرَءَ یْتَکُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَاب اللّٰہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ اللّٰہِ تَدْعُوْنَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) (کہ آپ ان سے دریافت فرمائیے کہ تم لوگ جو توحید سے ہٹ رہے ہو اور شرک پر جمے ہوئے ہو۔ اگر تمہارے پاس عذاب دنیاوی پہنچ جائے یا قیامت آجائے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ ) ۔ ایسا نہیں ہے بلکہ جب مصیبت پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہوتے ہو اور صرف اسی سے دفع مصائب کا سوال کرتے ہو۔ اس وقت معبود ان باطلہ کو بھول جاتے ہو۔ اگر تم سچے ہو کہ معبود ان باطل کی عبادت سے نفع پہنچتا ہے تو ان کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف آڑے وقت میں کیوں متوجہ ہوتے ہو، معلوم ہوا کہ یہ جھوٹے معبود جو تم نے بنا رکھے ہیں کسی بھی نفع اور ضرر کے مالک نہیں پھر ان کو پکارنا اور ان کی عبادت محض حماقت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47 یہ توحید پر چھٹی عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ امام فراء کہتے ہیں کہ اَرَءَیْتَ دو معنوں میں مستعمل ہے اول رویت عین۔ دوم بمعنی اَخْبِرْنِیْ مثلاً کہا جاتا ہے اَرَاَیْتَکَ ای اخبرنی۔ اس صورت میں ضمیرثانی خواہ واحد ہی کی ہو (ک) یا تثنیہ (کما) اور جمع (کم) کی ہواعراب میں اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا (اور اس کی حیثیت محض ایک حرف کی ہوتی ہے جو مخاطب کی حالت افراد اور تثنیہ و جمع کا اظہار کرتا ہے) (من الکبیر ج 4 ص 63) علامہ رضی لکھتے ہیں کہ یہاں رویت بصری ہے یا قلبی اور ارایت بمعنی ابصرت ہے یا بمعنی عرفت اور صرف ایک مفعول کو چاہتا ہے ( جو یہاں حالکم محذوف ہے) اور مجازاً اخبرنی (مجھے بتا) کے معنی میں مستعمل ہے اور ہمیشہ عجیبہ حالت سے استفسار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ذھب الرضی تبعا لغیرہ ان رای ھنا بصریۃ وقیل قلبیۃ بمعنی عرف وھی علی القولین متعد لواحد اصل اللفظ الاستفہام عن العلم و العرفان او الابصار الا انہ تجوز بہ عن معنی اخبرنی ولا یستعمل الا فی الاستخبار عن حالۃ عجیبۃ لشیء (روح ج 7 ص 148) اس کے بعد استفہام کا ہونا ضروری ہے خواہ مذکور ہو خواہ مقدر یہاں مذکور ہے یعنی اَ غَیْرَ اللہِ مطلب یہ ہے کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ مشرکین سے فرمائیں مجھے بتاؤ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آپہنچے تو کیا پھر بھی تم غیر اللہ ہی کو پکارو گے۔ بَلْ اِیَّاہُ ۔ یہ اس کا جواب ہے یعنی اس وقت تم غیرا للہ کو نہیں پکاروگے بلکہ اللہ کے سوا تم جن معبودوں کو پکارتے ہو ان سب کو بھول جاؤ گے اور صرف ایک اللہ ہی کو پکارو گے تو وہ اگر چاہے گا تو تم سے مصیبت دور فرما دے گا جس کے لیے تم نے اسے پکارا ہے۔ اس مضمون کی مندرجہ ذیل آیتوں سے تائید ہوتی ہے۔ (1) فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکَ د۔ عَوُوْا اللھ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّيْنَ (عنکبوت ع 7) ۔ (2) دَعَوُوْا اللھ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ھٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْن۔ (3) فَاِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّا اِيَّاہُ (بنی اسرائیل ع 7) مشرکین چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کرتے تھے کہ اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے اور شرک کو چھوڑ کر توحید کو نہیں مانیں گے تو ان پر اللہ کا عذاب آئے گا اس لیے مشرکین جب دریاؤں اور سمندروں میں اپنی کشتیوں اور جہازوں کو غضب ناک لہروں میں گھرے ہوئے دیکھتے تو گمان کرتے کہ شاید یہ وہی خدا ہے اور فوراً خالص اللہ تعالیٰ کو پکارنا شروع کردیتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

40 آپ ان سے فرمائیے بھلا مجھ کو یہ بتو بتائو اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا کوئی عذاب آجائے یا تم وہ ٓخری گھڑی یعنی قیامت آ جائیتو کیا تم پھر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارو گے بتلائو اگر تم سچے ہو۔