Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 55

سورة الأنعام

وَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ وَ لِتَسۡتَبِیۡنَ سَبِیۡلُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۵۵﴾٪  12

And thus do We detail the verses, and [thus] the way of the criminals will become evident.

اسی طرح ہم آیات کی تفصیل کرتے رہتے ہیں اور تاکہ مجرمین کا طریقہ ظاہر ہو جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prophet Understands What He Conveys; Torment is in Allah's Hands Not the Prophet's Allah says, just as We mentioned the clear signs that testify and direct to the path of guidance, all the while chastising useless arguments and defiance, وَكَذَلِكَ نفَصِّلُ الايَاتِ ... And thus do We explain the Ayat in detail, that is, whatever responsible adults need explained to them, in the affairs of life and religion, ... وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ That the way of the criminals may become manifest. so that the path of the criminals who defy the Prophets is apparent and clear. This Ayah was also said to mean, so that you, O Muhammad, are aware of the path of the criminals. Allah's statement, قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ قُل لاَّ أَتَّبِعُ أَهْوَاءكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُهْتَدِينَ

نیک و بد کی وضاحت کے بعد؟ یعنی جس طرح ہم نے اس سے پہلے ہدایت کی باتیں اور بھلائی کی راہیں واضح کر دیں نیکی بدی کھول کھول کر بیان کر دی اسی طرح ہم ہر اس چیز کا تفصیلی بیان کرتے ہیں جس کی تمہیں ضرورت پیش آنے والی ہے ۔ اس میں علاوہ اور فوائد کے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مجرموں کا راستہ نیکوں پر عیاں ہو جائے ۔ ایک اور قرأت کے اعتبار سے یہ مطلب ہے تاکہ تو گنہگاروں کا طریقہ واردات لوگوں کے سامنے کھول دے ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں اعلان کر دو کہ میرے پاس الٰہی دلیل ہے میں اپنے رب کی دی ہوئی سچی شریعت پر قائم ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے پاس وحی آتی ہے ، افسوس کہ تم اس حق کو جھٹلا رہے ہو ، تم اگرچہ عذابوں کی جلدی مچا رہے ہو لیکن عذاب کا لانا میرے اختیار کی چیز نہیں ۔ یہ سب کچھ اللہ کے حکم کے ماتحت ہے ۔ اس کی مصلحت وہی جانتا ہے اگر چاہے دیر سے لائے اگر چاہے تو جلدی لائے ، وہ حق بیان فرمانے والا اور اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلے کرنے والا ہے ، سنو اگر میرا ہی حکم چلتا میرے ہی اختیار میں ثواب و عذاب ہوتا ، میرے بس میں بقا اور فنا ہوتی تو میں جو چاہتا ہو جایا کرتا اور میں تو ابھی اپنے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر لیتا اور تم پر وہ عذاب برس پڑتے جن سے میں تمہیں ڈرا رہا ہوں ، بات یہ ہے کہ میرے بس میں کوئی بات نہیں ، اختیار والا اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے ، وہ ظالموں کو بخوبی جانتا ہے ، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ احد سے زیادہ سختی کا تو آپ پر کوئی دن نہ آیا ہو گا ؟ آپ نے فرمایا عائشہ کیا پوچھتی ہو کہ مجھے اس قوم نے کیا کیا ایذائیں پہنچیں ؟ سب سے زیادہ بھاری دن مجھ پر عقبہ کا دن تھا جبکہ میں عبدالیل بن عبد کلال کے پاس پہنچا اور میں نے اس سے آرزو کی کہ وہ میرا ساتھ دے مگر اس نے میری بات نہ مانی ، واللہ میں سخت غمگین ہو کر وہاں سے چلا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کدھر جا رہا ہوں ، قرن ثعالب میں آ کر میرے حواس ٹھیک ہوئے تو میں نے دیکھا کہ اوپر سے ایک بادل نے مجھے ڈھک لیا ہے ، سر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے آواز دے کر فرما رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کی باتیں سنیں اور جو جواب انہوں نے تجھے دیا وہ بھی سنا ۔ اب پہاڑوں کے داروغہ فرشتے کو اس نے بھیجا ہے آپ جو چاہیں انہیں حکم دیجئے یہ بجا لائیں گے ، اسی وقت اس فرشتے نے مجھے پکارا سلام کیا اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی باتیں سنیں اور مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ ان کے بارے میں جو ارشاد آپ فرمائیں میں بجا لاؤں ، اگر آپ حکم دیں تو مکہ شریف کے ان دونوں پہاڑوں کو جو جنوب شمال میں ہیں میں اکٹھے کر دوں اور ان تمام کو ان دونوں کے درمیان پیس دوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا کہ نہیں میں یہ نہیں چاہتا بلکہ مجھے تو امید ہے کہ کیا عجب ان کی نسل میں آگے جا کر ہی کچھ ایسے لوگ ہوں جو اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، ہاں یہاں یہ بات خیال میں رہے کہ کوئی اس شبہ میں نہ پڑے کہ قرآن کی اس آیت میں تو ہے کہ اگر میرے بس میں عذاب ہوتے تو ابھی ہی فیصلہ کر دیا جاتا اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بس میں کر دیئے پھر بھی آپ نے ان کیلئے تاخیر طلب کی ۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ آیت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ عذاب طلب کرتے اس وقت اگر آپ کے بس میں ہوتا تو اسی وقت ان پر عذاب آ جاتا اور حدیث میں یہ نہیں کہ اس وقت انہوں نے کوئی عذاب مانگا تھا ۔ حدیث میں تو صرف اتنا ہے کہ پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو یہ بتلایا کہ بحکم الہ میں یہ کر سکتا ہوں صرف آپ کی زبان مبارک کے ہلنے کا منتظر ہوں لیکن رحمتہ للعالمین کو رحم آ گیا اور نرمی برتی ، پس آیت و حدیث میں کوئی معارضہ نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ حضور کا فرمان ہے غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ) 31 ۔ لقمان:34 ) پڑھی ، یعنی قیامت کا علم ، بارش کا علم ، پیٹ کے بچے کا علم ، کل کے کام کا علم ، موت کی جگہ کا علم ۔ اس حدیث میں جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا بصورت انسان آ کر حضور سے ایمان اسلام احسان کی تفصیل پوچھنا بھی مروی ہے یہ بھی ہے کہ جب قیامت کے صحیح وقت کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں ۔ پھر آپ نے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ) 31 ۔ لقمان:34 ) تلاوت فرمائی ۔ پھر فرماتا ہے اس کا علم تمام موجودات کو احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بری بحری کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ۔ آسمان و زمین کا ایک ذرہ اس پر پوشیدہ نہیں ۔ صرصری کا کیا ہی اچھا شعر ہے ۔ فلا یحفی علیہ الذراما یترای للنواظر او تواری یعنی کسی کو کچھ دکھائی دے نہ دے رب پر کچھ بھی پوشیدہ نہیں ، وہ سب کی ہر کات سے بھی واقف ہے ، جمادات کا ہلنا جلنا یہاں تک کہ پتے کا جھڑنا بھی اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ۔ پھر بھلا جنات اور انسان کا کونسا علم اس پر مخفی رہ سکتا ہے؟ جیسے فرمان عالی شان ہے آیت ( يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ ) 40 ۔ غافر:19 ) آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے پوشیدہ بھید بھی اس پر عیاں ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ خشکی تری کا کوئی درخت ایسا نہیں جس پر اللہ کی طرف سے کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو اس کے جھڑ جانے والے پتوں کو بھی لکھ لے ، پھر فرماتا ہے زمین کے اندھیروں کے دانوں کا بھی اس اللہ کو علم ہے ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ، تیسری زمین کے اوپر اور چوتھی کے نیچے اتنے جن بستے ہیں کہ اگر وہ اس زمین پر آ جائیں تو ان کی وجہ سے کوئی روشنی نظر نہ پڑے ، زمین کے ہر کونے پر اللہ کی مہروں میں سے ایک مہر اور ہر مہر پر ایک فرشتہ مقرر ہے اور ہر دن اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس ایک اور فرشتے کے ذریعہ سے حکم پہنچتا ہے کہ تیرے پاس جو ہے اس کی بخوبی حفاظت کر ۔ حضرت عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ زمین کے ہر ایک درخت وغیرہ پر فرشتے مقرر ہیں جو ان کی خشکی تری وغیرہ کی بابت اللہ کی جناب میں عرض کر دیتے ہیں ۔ ابن عباس سے مروی ہے اللہ تعالیٰ نے نون یعنی دوات کو پیدا کیا اور تختیاں بنائیں اور اس میں دنیا کے تمام ہونے والے اموار لکھے ۔ کل مخلوق کی روزیاں ، حلال حرام نیکی بدی سب کچھ لکھ دیا ہے پھر یہی آیت پڑھی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] مجرمین کی صفات :۔ ایسے مجرموں کے اوصاف کچھ تو پہلے بیان ہوچکے ہیں یعنی جو لوگ ایمان لانے کے قریب تو آتے نہیں مگر مطالبات اور اعتراضات کیے جاتے ہیں مثلاً یہ کہ ہمیں فلاں معجزہ لا کر دکھا دو یا فلاں بات کا پتہ دو تو تب ہی ہم ایمان لائیں گے کبھی یہ کہ نبی تو ہم ہی جیسا بشر ہے اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ اگر حقیر قسم کے لوگ آپ اپنی مجلس سے نکال دیں تو تب ہی ہم آپ کی مجلس میں آسکتے ہیں۔ کچھ صفات تو ان مجرموں کی سابقہ آیات میں مذکور ہو چکیں اور کچھ آگے ذکر ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم یہ تفصیلات اس لیے بیان کر رہے ہیں کہ ایسے ہٹ دھرم مجرموں کی صفات کھل کر سامنے آجائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ ۔۔ : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ باتیں اس لیے کھول کر بیان کی ہیں تاکہ حق ظاہر ہوجائے اور اس پر عمل کیا جاسکے اور مجرموں کا راستہ خوب واضح ہوجائے، تاکہ اس سے بچا جاسکے۔ ( جلالین) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں انھیں مخالفین ( مجرمین) کے ہتھکنڈوں سے پوری طرح باخبر ہونا چاہیے، تاکہ ان کی تردید کرسکیں۔ صحابہ کرام (رض) میں یہی خوبی تھی کہ ایک طرف تو وہ اسلام کو خوب سمجھتے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے رسم و رواج اور قوانین سے پوری واقفیت رکھتے تھے، کیونکہ وہ جاہلیت سے گزر کر آئے تھے۔ یہ مضمون حافظ ابن قیم (رض) کی کتاب الفوائد میں خوب بیان ہوا ہے۔ وَلِتَسْتَبِيْنَ : ” بَانَ یَبِیْنُ “ کا معنی ہے الگ ہونا، واضح ہونا، تو باب استفعال میں حروف کی کثرت کی وجہ سے ” خوب واضح ہوجائے “ ترجمہ کیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ۝ ٥٥ۧ تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥) جب حضرت عمر فاروق (رض) ہماری کتاب اور ہمارے رسول پر ایمان لانے کے لیے آئیں تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ اور تمہارے عذر کو قبول فرمالیا کیوں کہ جس شخص نے انجام گناہ سے ناواقف ہو کر کوئی گناہ کرلیا اور پھر توبہ کی اور حقوق اللہ کو بھی ادا کیا تو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کو معاف فرماتے ہیں۔ ہم قرآن کریم میں اوامرو نواہی اور ان لوگوں کی حالت بیان کرتے ہیں تاکہ عینیہ وغیرہ مشرک لوگوں کا طریقہ واضح ہوجائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ (وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ ) ۔ یہاں پرنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ کے بعد لِیَتَفَکَّرُوْا بِھَا محذوف مانا جائے گا۔ یعنی ہم آیات کی تفصیل اس لیے بیان کرتے ہیں کہ لوگ ان پر غور و فکر کریں۔ اگر وہ ان پر غور کریں گے ‘ تفکر کریں گے تو مجرموں کا راستہ ان کے سامنے کھل کر واضح ہوجائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38. 'And thus' refers to the whole of the foregoing discussion, beginning with verse 37: 'And they say: Why has no miraculous sign been sent down to him?' The purpose of this remark is to stress that the persistence of some people in their denial of the Truth and in their disbelief, in spite of a host of unmistakably clear signs and arguments, was sufficient to prove beyond doubt that they were merely a bunch of criminals. If they persisted in error and transgression it was neither through any lack of strong arguments in support of the Truth nor, conversely, because of strong arguments in support of falsehood. The reason was rather that they had delilibrately chosen to fall into error and transgression.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :38 ”اس طرح“ کا اشارہ اس پورے سلسلہ تقریر کی طرف ہے جو چوتھے رکوع کی اس آیت سے شروع ہوا تھا ، ”یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی کیوں نہیں اتری“ ۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی صاف اور صریح دلیلوں اور نشانیوں کے بعد بھی جو لوگ اپنے کفر و انکار پر اصرار ہی کیے چلے جائیں ان کا مجرم ہونا بالکل غیر مشتبہ طور پر ثابت ہوا جاتا ہے اور حقیقت بالکل آئینہ کی طرح نمایاں ہوئی جاتی ہے کہ دراصل یہ لوگ ضلالت پسندی کی بنا پر یہ راہ چل رہے ہیں نہ اس بنا پر کہ راہ حق کے دلائل واضح نہیں ہیں یا یہ کہ کچھ دلیلیں ان کی اس گمراہی کے حق میں بھی موجود ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(55 ۔ 58) ۔ شروع سورة سے یہاں تک توحید کی خوبی اور شرک کی خرابی کا ذکر جو تفصیل سے گذرا اسی کو فرمایا کہ قرآن کی آیتوں میں ہر طرح کا مطلب کھول کر سمجھا دیا جاتا ہے تاکہ اس پر بھی ہٹ دھرمی سے جو کوئی قرآن کی آیتوں کو جھٹلاوے تو معلوم ہوجاوے کہ علم ازلی کے موافق وہ مجرموں کا راستہ چلا جس سے اس نے اپنی عاقبت برباد کی۔{ قُلْ یَا اَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ } کی شان نزول میں آوے گا کہ مشرک لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرمائش کیا کرتے تھے کہ ایک سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں ان مشرکوں کے بتوں کی پوجا کرلیا کریں اور ایک سال یہ مشرک لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرلیا کریں اسی پر گویا آپس کی صلح ٹھہر جاوے۔ اسی کو فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم لوگوں نے ملت ابراہیمی کو بگاڑ کر بت پرستی کو رواج دے دیا ہے میں اصل طت ابراہیمی پر ہوں اس لئے مجھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بت پرستی کی مناہی ہے کیونکہ اگر میں ایسا کروں گا تو طت ابراہیمی سے تمہاری طرف بہک جاؤں گا۔ اور میں ایسا کیسے کرسکتا ہوں میرے پاس تو قرآن میں اس بات کی شہادت موجود ہے کہ ملت ابراہیمی میں بت پرستی کا کہیں پتہ نہیں تم لوگ بےسند ملت ابراہیمی کو بگاڑ چکے اب قرآن کی آیتوں کو بھی جھٹلاتے ہو اور پھر تم کو عذاب الٰہی سے ڈرایا جاتا ہے تو ڈیٹھ بن کر اس عذاب کی جلدی کرتے ہو۔ وہ عذاب کچھ میرے اختیار میں نہیں ہے جو تم مجھ سے اس کی جلدی کرتے ہو وہ عذاب تو اللہ ہی کے حکم اور اختیار میں ہے اس نے منکر شریعت لوگوں کے حق میں عذاب کا وعدہ جو فرمایا ہے وہ برحق ہے وقت مقررہ آنے پر اس عذاب کا وہ خود فیصلہ فرماد یوی گا کیونکہ اس کو اس طرح کے ناانصاف لوگوں کا حال خوب معلوم ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے دنیا میں تو اس عذاب کا ظہور بدر کی لڑاتی کے وقت ہوچکا کہ ان مشرکوں میں کے بڑے بڑے سرکش عذاب الٰہی کی جلدی کرنے والے ستر آدمی بڑی ذلت سے مارے گئے اور ستر قید ہوئے رہا عقبے کا عذاب وہ بھی وقت مقررہ پر اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق سب کی آنکھوں کے سامنے آجاویگا۔ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی تفصیل آیت اِنَ اللّٰہَ لَایَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ (٤ ٤٨۔ ١١٦) کی تفسیر میں گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص شرک کی حالت میں بغیر توبہ کے مرگیا اس کی نجات کی کوئی صورت نہیں اس باب میں بہت سی صحیح حدیثیں ہیں جو مشرک لوگوں کے عذاب آخرت کی گویا تفسیر ہیں .

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:55) تستبین۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ استبانۃ (استفعال) بین مادہ سے وہ ظاہر ہوجائے ۔ کھل جائے۔ سبیل۔ راستہ۔ راہ۔ مذکر و مؤنث دونوں کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے۔ (6:56) نھیت ماضی مجہول واحد متکلم ۔ نھی۔ روشن اور کھلی دلیلیں۔ ایسی دلیلیں ممانعت کردی گئی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اوپر کی آیت میں تو یہ بیان ن ہوا کہ اللہ آیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ حق واضح ہو۔ اور مجرموں کا راستہ ظاہر ہوجائے اب اس آیت میں مجرموں کے راستہ پر چلنے سے منع فرمایا جس سے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کا راستہ کیا ہے۔ ، (رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اور حق و باطل کے واضح ہونے سے طالب حق کو معرفت حق سہل ہوجائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٥٥۔ یہ اس لہر کا خاتمہ ہے ۔ اس میں حقیقت رسالت اور مزاج رسول کی بڑی خوبی سے وضاحت کی گئی ہے اور اسلامی نظریہ حیات کو بھی کسی بغیر لاگ ولپیٹ کے بتایا گیا ہے ۔ ان اقدار حیات کو بھی واضح کیا گیا ہے ۔ جن کے غلبے کے لئے اسلام اس جہان میں آیا اور ان کو بھی جدا کردیا گیا جن کی بیخ کنی کے لئے اسلام اٹھا ۔ (آیت) ” وکذلک نفصل الایت “۔ (٦ : ٥٥) (اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں) کیوں اس لئے کہ (آیت) ” لتستبین سبیل المجرمین “۔ (٦ : ٥٥) (تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے) یعنی اس انداز ‘ اس منہاج اور اس طرز کلام کے ساتھ ہم بیان مدعا کرتے ہیں ۔ بڑی تفصیلات کے ساتھ جن کے بعد سچائی کی پہچان میں کسی شک کی گنجائش نہی رہتی ۔ بات میں کوئی اجماع یا پیچیدگی نہیں رہتی اور اس فصاحت کے بعد سچائی کو تسلیم کرنے کے لئے کسی معجزے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ سچائی واضح ہوجاتی ہے ‘ بات کھل جاتی ہے اور قرآنی انداز کلام کے مطابق ۔ اس پوری سورة کے اندر بیان ہونے والے شواہد و دلائل کے مطابق حقائق وواقعات کی روشنی میں یہ امور تفصیل آیات کے مفہوم میں شامل ہیں۔ مقصد مجرموں کی راہوں کو جدا کرنا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات اور اس کی اساس پر تحریک برپا کرنے کے لئے قرآن کا منہاج کیا ہے ؟ (لتستبین) قرآن کا منہاج وانداز یہ نہیں ہے کہ وہ فقط مومنین وصالحین کی راہوں کی نشاندہی کر دے ‘ بلکہ قرآن کا منہاج تحریک یہ ہے کہ قرآن کریم گمراہوں اور مجرموں کے طور طریقوں کی وضاحت بھی کرتا ہے ۔ مجرموں کی راہوں کی وضاحت بذریعہ تنقید باطل بےحد ضروری ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ اہل حق کے راستے کی وضاحت ہو ۔ یہ دعوت اسلامی کے واضح خطوط ہیں جن پر ہمیں چلنا ہے ۔ حق و باطل کا طریقہ کار یہاں سے جدا ہوجاتا ہے ۔ اسلام کا منہاج عمل اللہ نے متعین کیا ہے اور یہ اس لئے متعین کیا گیا ہے کہ اس منہاج کے مطابق نفوس انسانی کا علاج کیا جائے ۔ اللہ کو اس بات کا خوب علم تھا کہ سچائی وبھلائی پر پختہ یقین اس وقت حاصل ہوتا ہے کہ جب بھلائی کے مقابلے میں شر اور سچائی کے مقابلے میں جھوٹ پر بھی نظر رکھی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ یہ باطل خالص جھوٹ اور شر محض ہے جس کے مقابلے میں حق خالص سچائی اور خیر محض ہے ۔ نیز حق وصداقت کی حمایت پر انسان اس وقت آمادہ ہوتا ہے جب وہ یہ یقین کرلے کہ اس سچائی کا مقابلہ جو قوت کر رہی ہے وہ باطل ہے ۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ قوت باطلہ مجرموں کی راہوں کی مسافر ہے اور مجرمین وہ قوت ہیں جن کے بارے میں ایک دوسری جگہ قرآن کریم یہ تصریح کرتا ہے کہ ہر نبی کا کوئی دشمن ہوتا ہے ۔ (آیت) ” وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین ) (اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے ایک دشمن پیدا کیا) یہ اس لئے تاکہ نبی اور مومنین کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے کہ ان کا دشمن مجرم ہے اور ان کا یہ عقیدہ پختہ یقین ‘ اعتماد اور شرح صدر پر مبنی ہو۔ کفر ‘ شر اور مجرمانہ حرکات کی وضاحت ‘ ایمان ‘ بھلائی اور اصلاح کے لئے نہایت ضروری ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ مجرمین کے راستوں کی وضاحت آیات الہیہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے ‘ مجرمین کے موقف اور ان کے طرز عمل کے بارے میں کوئی بھی شعبہ یا معمولی التباس خود مومنین کے موقف ‘ ان کے طرز عمل اور ان کی راہ میں شبہات پیدا کردیتا ہے ‘ اس لئے کہ دونوں تصویر کے دو رخ ہیں ‘ کتاب کے صفحات متقابل ہیں اور دو جدا جدا راستے ہیں ۔ دونوں کے الگ الگ رنگ ہیں جن کے درمیان امتیاز ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک اسلامی کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس کے کارکنوں کے فکر ونظر مومنین اور مجرمین کا راستہ ممتاز ہو۔ ہر تحریک کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے راستے کو متعارف کرائے اور اس کے بالمقابل مجرمین کے جو راستے ہیں ان پر تنقید کرکے ان کی کمزوریاں واضح کرے اور دونوں کے درمیان جو فرق و امتیاز ہے اسے کھول کر بیان کرے ۔ یہ فرق و امتیاز عالم واقعہ میں بھی ہو ‘ حقیقی ہو ‘ محض نظریاتی نہ ہو ‘ اس لئے کہ داعیوں اور ان کے کارکنوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس ماحول میں وہ کام کر رہے ہیں ان میں مومنین کون ہیں اور مجرمین کون ہیں ؟ نیز ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان مجرمین کا طریق کار کیا ہے ‘ ان کا منہاج کار کیا ہے اور ان کی علامات کیا کیا ہیں ۔ تاکہ ان کے ذہن میں دونوں راستوں اور منہاج کے اندر کوئی شبہ والتباس نہ ہو ۔ نہ عنوان ایک ہو اور نہ صفات اور خدوخال ایک ہوں ۔ مومنین اور مجرمین ان کے تصور میں ایک دوسرے سے اچھی طرح ممتاز ہوں ۔ جس وقت جزیزۃ العرب میں سب سے پہلے اسلام اور شرک کی مڈبھیڑ ہوئی ‘ اہل ایمان اور مجرمین کے درمیان یہ فرق و امتیاز بالکل واضح تھا ۔ دونوں کے راستے اچھی طرح ممتاز اور جدا تھے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راستہ مومنین کا راستہ تھا اور یہی آپ کے ساتھیوں کا راستہ تھا اور مجرمین کا راستہ ان لوگوں کا راستہ تھا جو تحریک اسلامی میں آپ کے ساتھ شامل نہ ہوئے تھے اور ایمان نہ لائے تھے ۔ اس حد بندی اور اس وضاحت کے ساتھ قرآن کریم نازل ہو رہا تھا اور آیات الہیہ تفصیلات دے رہی تھیں ۔ جس کے نمونے اس سورة میں آپ نے دیکھے ۔ یہ آخری نمونہ تو سبیل المجرمین کی اچھی طرح نشاندہی کر رہا ہے ۔ جب اسلام نے شرک ‘ بت پرستی ‘ الحاد اور ان ادیان کا سامنا کیا جو اپنی اصل کے اعتبار سے ادیان سماوی تھے لیکن ان کے اندر بعد میں آنے والے انسانوں نے اپنی خواہشات کے مطابق تحریفات کردی تھیں ‘ تو اسلام نے ان ادیان ونظریات کے مقابلے میں مومنین کو ایک واضح موقف اور ایک صاف وسیدھا راستہ دیا ۔ جس طرح ان کافروں اور مشرکوں کی راہ واضح اور متعین تھی ‘ اور ان کے اندر کوئی بیس اور شک نہ تھا۔ لیکن آج عالم اسلام میں چلنے والی تحریکات اور انکے مخالفین کے درمیان راستے کی صفائی اور اس کا تعین نہیں ہے ۔ اور یہی بہت بڑی مشکل ہے ۔ یہ اسلامی تحریکات ایسے لوگوں کے درمیان چل رہی ہیں جو نسلی اعتبار سے مسلمان ہیں اور ایسے علاقوں میں چل رہی ہیں جو کسی وقت دارالاسلام میں شامل تھے ۔ کسی وقت ان علاقوں پر دین اسلام کی حکمرانی تھی اور شریعت ان علاقوں کا بنیادی قانون تھی ۔ پھر ان علاقوں نے اور ان اقوام نے حقیقی اعتبار سے اسلام کو چھوڑ دیا ‘ صرف نام کے مسلمان رہ گئے اور انہوں نے اسلام کے بنیادی عناصر کو عملا اور اعتقادا ترک کردیا ۔ اگرچہ وہ اس زعم میں مبتلا رہے کہ انہوں نے عقیدے کے اعتبار سے اسلام کو اپنایا ہوا ہے ۔ حالانکہ اسلام کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی اس بات کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ اور حاکم نہیں ہے ۔ اس شہادت کے اندر یہ مفہوم شامل ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے ‘ وہ اس کائنات کا خالق اور اس میں متصرف ہے ۔ انسان صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اسی کے احکام کے مطابق پوری زندگی بسر کریں گے ۔ انسانوں کا یہ فرض ہوگا کہ صرف اللہ سے اپنے قوانین اخذ کریں اور اپنی پوری زندگی میں اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کریں ۔ جو شخص اس مفہوم کے ساتھ اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتا تو اس نے نہ کلمہ شہادت پڑھا اور نہ وہ اسلام میں داخل ہوا ۔ چاہے اس کا نام اور اس کا لقب اور اس کی نسل اور نسب جو بھی ہو ۔ جس سرزمین پر بھی کلمہ شہادت اپنے اس مدلول کے ساتھ جاری نہ ہو تو اس سرزمین کو ہم دارالاسلام نہیں کہہ سکتے اور نہ وہ سرزمین سرزمین اسلام ہے ۔ اس کرہ ارض پر لوگوں کی بڑی بڑی قومیں آباد ہیں جن کے نام مسلمانوں کے ناموں جیسے ہیں اور یہ لوگ ہیں بھی مسلمانوں کی نسلوں سے ۔ ان لوگوں کے علاقے بھی کسی وقت دارالاسلام تھے لیکن ان میں سے آج کوئی قوم بھی لا الہ الا اللہ کی شہادت اس مفہوم کے مطابق نہیں دیتی اور نہ کسی ملک میں لوگ اس مفہوم کے مطابق نظام حکومت چلاتے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی تکلیف دہ صورت حال ہے ‘ جس کا مقابلہ آج ان ملکوں میں اسلامی تحریکات کر رہی ہیں ۔ ایسے لوگوں سے ان کا رابطہ ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ۔ ان تحریکات کو یہ مشکل درپیش ہے کہ نام نہاد مسلمانوں کے اندر لا الہ الا اللہ کا مفہوم نہیں سمجھا جاتا ۔ اور نہ لوگ لفظ اسلام کو اس کے صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ نہ تو جاہلیت کے مفہوم سے آگاہ ہیں اور نہ ہی شرک کی حقیقت سے ۔ اس کے علاوہ اسلامی تحریکات کو یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ خود صالح مسلمانوں کے سامنے صحیح راستہ متعین نہیں ہے ۔ ان کا راستہ مجرموں اور مشرکوں کے راستہ سے جدا نہیں ہے ۔ دونوں کے نشانات وعنوانات ایک ہیں ۔ دونوں کے نام اور اوصاف ایک جیسے ہیں اور دونوں ایک ناپیدا کنار صحرا میں گم گشتہ راہ ہیں ۔ اسلامی تحریکات ‘ اس کمزوری کو اچھی طرح جانتی ہیں ‘ لیکن وہ اس عظیم کوتاہی کے بارے میں خاموش ہیں ۔ یہ خاموشی محض وسعت قلبی ‘ بےراہ روی ‘ منافقت اور حق و باطل کے درمیان ملاوٹ کی وجہ سے اختیار کی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ اس پوائنٹ پر جو شخص سچی اور فیصلہ کن بات کرتا ہے وہی الٹا مجرم بن جاتا ہے ۔ اس کی پکڑ دھکڑ شروع ہوجاتی ہے اور اس پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ شخص مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہے ۔ اس طرح ان لوگوں کے نزدیک مسلمان وہ نہیں ہوتا جو اقوال خدا اور اقوال رسول کے مطابق مسلمان ہو بلکہ مسلمان وہ ہوتا ہے جو ان کی اپنی اصطلاحات اور ان کے رسم و رواج کے مطابق مسلمان ہو ۔ یہ ہے وہ عظیم مشکل جو اسلامی تحریکات کی راہ میں مائل ہے ۔ لیکن تمام اہل دعوت کے لئے لازم ہے کہ وہ اس مشکل مسئلے کو حل کر کے آگے بڑھیں ‘ وہ جہاں بھی ہوں اور جس دور میں بھی ہوں ۔ مناسب یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کی تحریک کا آغاز یوں کی جائے کہ ابتداء ہی سے مومنین اور مجرمین کی راہیں بالکل علیحدہ اور متعین ہوجائیں ۔ اہل دعوت جب کام کا آغاز کریں تو حق اور صداقت کا اظہار بغیر کسی مداہنت کے دو ٹوک الفاظ میں کریں ۔ وہ بغیر کسی خوف اور لاگ لپیٹ کے بات کریں ۔ ان کی بات میں کوئی پیچیدگی نہ ہو اور وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ ان کے دل میں کوئی خوف اور ڈر نہ ہو ۔ نہ وہ اپنے دل میں اس بات کا خوف پیدا ہونے دیں کہ ان کے خلاف کوئی مخالفانہ آواز اٹھے گی اور یہ کہا جائے گا ” دیکھو یہ لوگ تو مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔ اسلام کا موقف یہ نہیں ہے جو ان بےراہ رو لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے ۔ اسلام کا راستہ واضح ہے ‘ جس طرح کفر کی راہ بالکل واضح ہے ۔ اسلام یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کا اقرار درج بالا مفہوم کے ساتھ کیا جائے ۔ جو شخص اس مفہوم کے ساتھ کلمہ طیبہ کا اقرار نہیں کرتا اور جو شخص اپنی زندگی میں کلمہ طیبہ کو اس مفہوم کے اندر قائم نہیں کرتا تو اس کے بارے میں اللہ اور رسول اللہ کا حکم یہ ہے کہ وہ ظالم ‘ فاسق اور کافر ہے اور مجرم ہے ۔ ذرا پھر پڑھیے (آیت) ” وَکَذَلِکَ نفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ (55) ” اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے ۔ “ یاد رکھیے دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اس گھاٹی کو سر کریں ۔ اپنی راہ سے اس رکاوٹ کو ہٹائیں ۔ وہ اپنے نظریات کے اندر خلوص اور للہیت پیدا کریں تاکہ وہ اپنی پوری قوتوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوں ۔ کوئی شبہ ان کی راہ نہ روک سکے ‘ کوئی التباس ‘ کوئی مداہنت اور کوئی بےراہ روی ان کی راہ میں حائل نہ ہو ‘ اس لئے کہ ان کی قوتیں اس وقت تک کھل کر کام نہ کرسکیں گی جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو کہ وہ سچے مسلمان ہیں اور یہ کہ جو لوگ ان کی راہ روکے کھڑے ہیں اور ان کو اور تمام دوسرے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکے ہوئے ہیں وہ مجرمین ہیں ۔ یہ بات بھی تحریک اسلامی کے حاملین کے پیش نظر رہے کہ اقامت دین کے مسئلے کو جب تک کفر و ایمان کا مسئلہ نہ تصور کیا جائے گا اس وقت تک کوئی بھی اس راہ کی مشکلات کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا ۔ جب تک ایک مسلمان یہ یقین نہ کرلے کہ اس کی راہ اور اس کی قوم کی راہ بالکل جدا ہے ‘ یہ کہ اس کی ملت اور اس کی قوم کی ملت جدا ہے اور یہ کہ ان کا دین اور ان کی قوم کا دین جدا ہے ۔ ذرا پھر دہرائیے ۔ (آیت) ” وَکَذَلِکَ نفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ (55) ” اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے ۔ “ صدق اللہ العظیم ۔ درس نمبر ٦٢ ایک نظر میں : حقیقت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حقیقت رسالت کے بیان کے بعد اب روئے سخن دو بار حقیقت الوہیت کی طرف پھر گیا ہے ۔ ان حقائق پر سابقہ لہر میں بحث کی گئی تھی ۔ ان تمام لہروں کا باہم گہرا ربط ہے ۔ حقیقت رسول اور حقیقت رسالت کے بعد یہ بھی واضح کیا گیا کہ رسول کا راستہ مومنین کا راستہ ہے اور اس کے مقابلے میں تمام راستے مجرمین کے راستے ہیں ۔ اس لہر میں شان کبریائی کا اظہار کئی رنگوں اور کئی میدانوں میں ہوتا ہے ۔ ان کی تفصیلات تو ہم تشریح آیات کے ضمن میں دیں گے البتہ یہاں ہم ان کی طرف اجمالی اشارات کریں گے ۔ حقیقت الوہیت کا چراغ قلب رسول میں روشن ہے ۔ رسول کا دل اعتماد اور یقین کی شراب طہور سے بھر پور ہوتا ہے ۔ اگر پوری دنیا بھی اس حقیقت کو جھٹلا دے تو رسول ثابت قدم رہتا ہے اس کے پائے یقین میں کوئی لغزش نہیں آتی ۔ اس لئے رسول اللہ اعلان کردیتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے ہوگئے ہیں اور وہ اس معاملے میں ان لوگوں سے مکمل علیحدہ راہ اپنا لیتے ہیں جو اس بارے میں متزلزل ہوتے ہیں اور یہ جدائی رسول کے پختہ یقین اور عزم کی وجہ سے ہے ۔ (آیت) ” قُلْ إِنِّیْ نُہِیْتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ قُل لاَّ أَتَّبِعُ أَہْوَاء کُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ (56) قُلْ إِنِّیْ عَلَی بَیِّنَۃٍ مِّن رَّبِّیْ وَکَذَّبْتُم بِہِ مَا عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَ خَیْْرُ الْفَاصِلِیْنَ (57) (٦ : ٥٦۔ ٥٧) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو ” تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔ “ کہو : ” میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا ‘ اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہوگیا ‘ راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا ۔ “ کہو ” میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے ۔ اب میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو ‘ فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے ‘ وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے “۔ شان کبریائی کا اظہار اس حلم اور برداشت سے بھی ہوتا جس کا برتاؤ اللہ تعالیٰ ان مکذبین کے ساتھ فرماتے ہیں ۔ وہ تو مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر خارق عادت معجزے کا وقوع ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ ان کے اس مطالبے کے جواب میں نہایت ہی بردباری کا عمل اختیار فرماتے ہیں اور یہ اس لئے کہ اگر کسی خارق عادت معجزے کا ظہور ہوجائے اور پھر وہ تکذیب کریں تو سنت الہیہ کے مطابق پھر ان پر نزول عذاب لازم ہوجائے گا اور ہر قسم کا عذاب نازل کرنا اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر نزول عذاب کو خود حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں دے دیا جاتا تو ان لوگوں نے جو رویہ اختیار کیا اس کے پیش نظر یہ خطرہ تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر یہ عذاب نازل ہی کردیتے کیونکہ انہوں نے بار بار حق جھٹلا کر آپ کو دل تنگ کردیا تھا اور آپ کی قوت برداشت سے یہ صورت حال باہر ہوگئی تھی ۔ لہذا ایسے حالات میں بھی ان کو مہلت دے دینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی حلیم و حکیم ہے اور اس سے شان کبریائی کا ظہور بھی ہوتا ہے ۔ (آیت) ” قُل لَّوْ أَنَّ عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ لَقُضِیَ الأَمْرُ بَیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَاللّہُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِیْنَ (58) ” کہو : اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ۔ مگر اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہئے ؟ “۔ شان کبریائی کا ظہور اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہے اور اس کائنات کے اندر جو واقعہ بھی ہوتا ہے ‘ اس کا علم اسے احاطے میں لئے ہوئے ہے اور یہ علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہے ۔ اس غیب کا یہ نقش اور یہ صورت صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ (آیت) ” وَعِندَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَ حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ یَابِسٍ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (59) ۔ ” اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ بحروبر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے ‘ درخت سے گرنے والا کوئی پتا ایسا نہیں ہے جس کا اسے علم نہ ہو ‘ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو ‘ خشک وتر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔ “ اس کا اظہار اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ کو اپنے بندوں پر مکمل گرفت حاصل ہے ۔ وہ ہر حال میں اللہ کے کنٹرول میں ہیں ‘ سوتے ہوں یا جاگتے ‘ زندہ ہوں یا مردہ اور دنیا میں ہو یا آخرت میں ہوں۔ (آیت) ” وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفَّاکُم بِاللَّیْْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضَی أَجَلٌ مُّسَمًّی ثُمَّ إِلَیْْہِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ (60) وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَیُرْسِلُ عَلَیْْکُم حَفَظَۃً حَتَّیَ إِذَا جَاء أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُونَ (61) ثُمَّ رُدُّواْ إِلَی اللّہِ مَوْلاَہُمُ الْحَقِّ أَلاَ لَہُ الْحُکْمُ وَہُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ (62) (٦ : ٦٠ : ٦٢) ” وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے ۔ پھر دوسرے روز وہ تمہیں اسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو ‘ آخر کار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے ‘ پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔ ؟ اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دیتے ہیں اور ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔ پھر سب کے سب اللہ اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس جاتے ہیں ۔ خبردار ہوجاؤ کہ سارے اختیارات اس کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے “۔ یہ شان کبریائی خود ان لوگوں کے اس فطری ردعمل کے وقت بھی ظاہر ہوتی ہے جب یہ جھٹلانے والے کسی خطرے سے دو چار ہوتے ہیں ۔ اس وقت یہ لوگ دوسرے شرکاء کو چھوڑ کر صرف اللہ کو پکارتے ہیں کہ وہ اس خطرے کو ٹال دے لیکن اس کے باوجود پھر شرک کرنے لگتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اس خطرے کو ٹالنے کے لئے وہ جس خدا کو پکارتے تھے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ انہیں کسی دوسرے ایسے عذاب سے دوچار کر دے جس کے بعد ان میں سے کوئی زندہ نہ بچے ۔ (آیت) ” قُلْ مَن یُنَجِّیْکُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَہُ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ ہَـذِہِ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ (63) قُلِ اللّہُ یُنَجِّیْکُم مِّنْہَا وَمِن کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِکُونَ (64) قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَن یَبْعَثَ عَلَیْْکُمْ عَذَاباً مِّن فَوْقِکُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ أَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعاً وَیُذِیْقَ بَعْضَکُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُونَ (65) ۔ (٦ : ٦٣ تا ٦٥) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھو ‘ صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے ‘ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو ؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے اس نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے ؟ کہو ‘ اللہ تمہیں اس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے ۔ پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو ۔ کہو ” وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے ‘ یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے ‘ یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ۔ “ دیکھو ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ۔ “ )

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ ) (اور اسی طرح ہم آیات کی تفصیل بیان کرتے ہیں تاکہ مجرمین کا راستہ واضح ہوجائے) صاحب روح المعانی فرماتے ہیں۔ اَی وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُھُمْ نفعل ما نعفل من التفضیل یعنی آیات کے بیان کرنے کے متعدد فوائد ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ مجرمین کا راستہ کیا ہے (یعنی ان کا کیا انجام ہونے والا ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

63:۔ یہ عدم تسلیم کی دوسری وجہ ہے یعنی جس قدر مشرکانہ عقائد کی برائی کھول کر بیان کی جاتی ہے اسی قدر ان کے بغض اور کفر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ” ولتستبین “ میں واؤ کے بارے میں تین اقوال ہیں (1) ۔ اس کا معطوف علیہ کوئی مناسب فعل محذوف ہے۔ مثلا ” لتبین سبیلھم “ (2) یہ جملہ مذکورہ کے مضمون پر معطوف ہے۔ (3) زائدہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

55 اور جس طرح ہم نے یہاں فقراء اور مئومنین اور روسائے منکرین کا حال بیان کیا ہے اسی طرح ہم اپنے دلائل اور اپنی آیات تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ کامل مومنین کا طریقہ بھی معلوم ہوجائے اور تاکہ گناہگاروں اور مجرموں کا راستہ بھی سب پر آشکارا اور واضح ہوجائے۔