Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 85

سورة الأنعام

وَ زَکَرِیَّا وَ یَحۡیٰی وَ عِیۡسٰی وَ اِلۡیَاسَ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿ۙ۸۵﴾

And Zechariah and John and Jesus and Elias - and all were of the righteous.

اور ( نیز ) زکریا کو اور یحیٰی کو اور عیسیٰ کو اور الیاس کو ، سب نیک لوگوں میں سے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلًّ فضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر حضرت نوح (علیہ السلام) یا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں اس لئے کہا گیا (حالانکہ ان کا باپ نہیں تھا) کہ لڑکی کی اولاد بھی ذریت رجال میں ہی شامل ہوتی ہے۔ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حسن (اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے صاحبزادے) کو اپنا بیٹا فرمایا ان ابنی ھذا سید و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین (صحیح بخاری) ' (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] شرک کو ختم کرنا سب سے بڑا جہاد ہے :۔ قرآن میں اکثر مقامات پر جب انبیائے کرام کا ذکر ہوا تو اس میں ترتیب زبانی بھی پائی جاتی ہے لیکن یہاں غالباً اس صفت کو زیادہ تر ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان میں سے کس نے شرک کے خلاف سب سے زیادہ جہاد کیا تھا یا بعض دوسری صفات کو ملحوظ رکھا گیا ہے تو ان میں سے سرفہرست سیدنا ابراہیم کا ہی ذکر کیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسی صفت کی بنا پر (اُمَّۃً قَانِۃً ) فرمایا اور اپنا دوست بنایا۔ پھر سیدنا ابراہیم پر انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بیٹے اسحاق اور پھر ان کے بیٹے یعقوب کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آئندہ کے لیے نبوت انہیں کی اولاد سے مختص کردی، بعد ازاں سیدنا نوح کا ذکر فرمایا جنہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ شرک ہی کے خلاف جہاد میں گزارا تھا۔ حالانکہ ان کا زمانہ سیدنا ابراہیم سے بہت پہلے کا ہے۔ ان پر انعام یہ ہوا کہ ان کے بعد نبوت آپ کی اولاد میں مختص ہوگئی تھی پھر اس کے بعد سیدنا داؤد اور ان کے بیٹے سیدنا سلیمان کا ذکر فرمایا۔ جنہیں نبوت کے علاوہ حکومت بھی عطا ہوئی تھی اور انہوں نے بزور شمشیر شرک کے زور کو توڑا تھا۔ پھر سیدنا ایوب کا ذکر کیا جنہوں نے اس حق و باطل کی کشمکش میں کمال صبر کا مظاہرہ کیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ( ۭاِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا 44؀) 38 ۔ ص :44) کا خطاب دیا اور سیدنا یوسف کے صبر کی تعریف رسول اللہ نے بھی فرمائی آپ سات سال بےقصور قید میں پڑے رہے پھر جب شاہ مصر کی طرف سے بلاوا آیا تو آپ نے قاصد سے کہا کہ پہلے بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے مجھ پر الزام لگایا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میں اتنی مدت قید میں پڑا ہوتا تو قاصد سے کچھ کہے بغیر ہی اس کے ساتھ ہو لیتا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب لقد کان فی یوسف۔۔ ) اللہ نے انہیں بھی حکومت عطا فرمائی تھی اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ سب سے مکرم کون ہے ؟ آپ نے فرمایا && یوسف جو خود بھی نبی تھے۔ ان کا باپ بھی نبی، دادا بھی نبی اور پڑدادا (سیدنا ابراہیم) بھی نبی تھے۔ اس کے بعد موسیٰ اور ہارون کا ذکر فرمایا۔ موسیٰ کلیم اللہ تھے اور انہی کی درخواست پر سیدنا ہارون کو نبوت ملی تھی تاکہ صدیوں سے بگڑے ہوئے بنی اسرائیل کو راہ راست پر لانے کے لیے ان کا ہاتھ بٹائیں۔ انہوں نے بھی ساری زندگی بنی اسرائیل کے ہاتھوں تکلیفیں ہی اٹھائیں۔ پھر ان کے بعد سیدنا زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ کا ذکر فرمایا۔ ان میں سے دو کو تو بنی اسرائیل نے دعوت حق دینے کی پاداش میں قتل کروا دیا تھا اور تیسرے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب پر لٹکوانے کی کوشش کی۔ پھر سیدنا الیاس، اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط کا ذکر فرمایا پھر سب انبیاء کے متعلق ایک یکساں تبصرہ فرمایا۔ یہ سب لوگ صالح تھے اور اپنے اپنے وقت میں تمام اقوام عالم اور افراد سے افضل تھے اس لیے کہ انہوں نے شرک کے خلاف جہاد کیا اور توحید کا بول بالا کرنے کے لیے اور دعوت حق کی خاطر تکلیفیں اٹھائی تھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَزَكَرِيَّا وَيَحْيٰى وَعِيْسٰي وَاِلْيَاسَ۝ ٠ۭ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ٨٥ۙ عيسی عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) یا دوسرے قول کے مطابق حضرت نوح ( علیہ السلام) کی ذریت میں شمار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ لڑکیوں کی اولاد بھی آدمی کی ذریت میں شمار ہوتی ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی نسبت صرف ماں کی طرف ہے ان کا باپ نہیں تھا، ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَ زَکَرِیَّا وَ یَحْیٰی وَ عِیْسٰی وَ اِلْیَاسَ ) یہ بھی وَ وَ ھَبْنَا کے ماتحت ہے یعنی یہ حضرات بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریت سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نبوت سے سر فراز فرمایا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) ، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے والد تھے۔ اور انہوں نے اللہ پاک سے دعا کی تھی کہ مجھے ذریت طیبہ عطا فرمائیں۔ باوجود ان کے بیوی کے بانجھ ہونے کے اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا جس کا نام یحییٰ رکھا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) ہی کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ مریم بتول بھی ان کی والدہ کے دعا مانگنے پر پیدا ہوئیں۔ انہوں نے نذر مانی تھی کہ میرے لڑکا پیدا ہوا تو میں بیت المقدس کی خدمت میں لگا دوں گی لیکن وہ لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مریم رکھا اور یہ لڑکی جلدی جلدی بڑی ہوتی چلی گئی۔ اور پھر اس کے بطن سے بغیر کسی مرد کے واسطہ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ یہ سارا واقعہ سورة آل عمران کے چوتھے پانچویں رکوع میں گزر چکا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی بنی اسرائیل میں سے تھے اور ان کا یہ نسب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے صرف والدہ کے توسط سے ملتا ہے۔ اس اعتبار سے وَ مِنْ ذُرِیَّتِہٖ کے عموم میں وہ بھی شامل ہیں اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ ذریت کا لفظ بیٹیوں کی اولاد کو شامل ہے و فیہ خلاَفٌ بین العلما۔ (راجع روح المعانی) حضرت عیسیٰ کے بعد حضرت الیاس کا ذکر فرمایا ان کو بعض حضرات نے حضرات اسماعیل کی اولاد میں سے بتایا ہے۔ پھر فرمایا (کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (یہ حضرات صالحین میں سے تھے) یعنی صالحیت میں کامل تھے ہر وہ کام کرنا جس کا کرنا مستحسن ہو اور ہر اس کام سے بچنا جس سے بچنے کا حکم ہو یہ سب صالحیت کے مضمون میں شامل ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

85 اور نیز ہم نے اس کی اولاد میں سے زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ ابن مریم اور الیاس کو ہدایت سے نوازا تھا اور ان میں سے ہر ایک شائستہ اور نیک لوگوں میں سے تھا۔