Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 87

سورة الأنعام

وَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ وَ اِخۡوَانِہِمۡ ۚ وَ اجۡتَبَیۡنٰہُمۡ وَ ہَدَیۡنٰہُمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۸۷﴾

And [some] among their fathers and their descendants and their brothers - and We chose them and We guided them to a straight path.

اور نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راہ راست کی ہدایت کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمِنْ ابَايِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ... And also some of their fathers and their progeny and their brethren, mentions that some of these Prophets' ascendants and descendants were also guided and chosen. So Allah said, ... وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ We chose them, and We guided them to a straight path. Shirk Eradicates the Deeds, Even the Deeds of the Messengers Allah said next,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 آبا سے اصول اور ذریات سے فروع مراد ہے۔ یعنی ان اصولوں و فروع اور اخوان میں سے بھی بہت سوں کو ہم نے مقام ہدائیت سے نوازا آجتِیْبِآءُ کے معنی چن لینا اور اپنے خاص بندوں میں شمار کرنا اور ان کے ساتھ ملا لینا۔ یہ جَبِبْتُ المَآ ءَ فِی الحَوضِ (میں نے حوض میں پانی بھر لیا) سے مشتق ہے۔ پس اپنے خاص بندوں میں ملا لینا۔ اصطفاء تخلیص اور اختیار بھی اسی معنی میں مستعمل ہے جب کا مفعول مصطفیٰ مجتبی مخلص اور مختار ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] ان سب انبیاء کی جماعت کے علاوہ ہم نے ان کے آباؤ اجداد، آل اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی بہت سے لوگوں کو راہ راست کی طرف ہدایت سے مستفیض فرمایا تھا۔ اور اس ہدایت میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ توحید پرست تھے اور شرک سے سخت بےزار تھے کیونکہ شرک ایسی بری بلا ہے کہ اگر مذکورہ بالا انبیاء بھی شرک کرتے تو ان کے سب اعمال برباد ہوجاتے۔ یہ بات بغرض تسلیم اور دوسروں کے لیے شدید تنبیہ کے طور پر بیان کی گئی ہے ورنہ انبیاء سے شرک کا صدور ناممکنات سے ہے۔ انبیاء کی تو بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ شرک کا استیصال کریں اور بندوں کا براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ دیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ اٰبَاۗىِٕهِمْ ۔۔ : یعنی ان کے باپ دادا اور پڑدادا اوپر تک اور ان کے بیٹوں، پوتوں، پر پوتوں نیچے تک اور ان کے بھائیوں میں سے جو بھی ایمان دار تھے انھیں بھی ہم نے ہدایت پر لگایا اور بزرگی دی۔ ( ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اٰبَاۗىِٕہِمْ وَذُرِّيّٰــتِہِمْ وَاِخْوَانِہِمْ۝ ٠ۚ وَاجْتَبَيْنٰہُمْ وَہَدَيْنٰہُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝ ٨٧ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ اجتباء : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم/ 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] . الاجتباء ( افتعال ) کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧) اور ہم نے حضرت آدم (علیہ السلام) شیث (علیہ السلام) ادریس (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) ھود (علیہ السلام) صالح (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کو نبوت واسلام کے ذریعے فضیلت عطا کی ہے اور ہم نے انکو مقبول بنایا اور صراط مستقیم پر ثابت قدمی عطا کی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ مِنْ اٰبَآءِھِمْ وَ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ اِخْوَانِھِمْ ) یعنی اوپر جن حضرات کا ذکر ہوا ان کے آباء اور ان کی ذریتوں اور ان کے بھائیوں میں سے بھی بہت سوں کو ہدایت ہوئی۔ یہ معنی اس صورت میں ہے جبکہ ھَدَیْنَ محذوف مانا جائے اور فَضَّلْنَا سے بھی متعلق ہوسکتا ہے جس کا معنی یہ ہوگا کہ ان حضرات کے آباء اور ذریات اور اخوان میں سے بھی بہت سوں کو فصیلت دی۔ قال صاحب الروح و من ابتدائیۃ و المفعول محذوف ای و ھدینا من اٰباءھم وابناءِ ھم و اخوانھم جماعات کثیرۃ او معطوف علی کلافضلنا و من تبعیضیۃ أی فضلنا بعض اٰباءِ ھم الخ پھر فرمایا (وَ اجْتَبَبْنٰھُمْ وَ ھَدَیْنٰھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) (اور ہم نے ان کو چن لیا اور ان کو ہدایت دی) اس میں مضمون سابق کی تقریر اور تاکید ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91 سترہ نبیوں کا نام بنام ذکر کرنے کے بعد اب یہاں باقی انبیاء (علیہم السلام) کا اجمالاً ذکر فرمایا یعنی مذکورہ نبیوں کے آباء و اجداد میں سے، ان کی اولاد میں سے اور ان کی برادری میں سے جتنے بھی نبی گذرے ہیں ان سب کو ہم نے باقی مخلوق پر برتری عطا کی اور ان سب کو صراط مستقیم (سیدھی راہ) یعنی راہ توحید کی طرف راہنمائی کی وَمِنْ اٰبائِھِمْ (مذکورہ بالا نبیوں کے باپوں میں سے) اس سے مراد یہ ہے کہ جن انبیاء کے باپ تھے اسی طرح وَمنْ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ اِخْوَانِھِمْ کا مطلب بھی یہ ہے کہ ان میں سے جن کے اولاد اور بھائی تھے یہ مطلب نہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا باپ بھی تھا اور ہر ایک کی اولاد بھی تھی جیسا کہ قادیانی کہتے ہیں اور اس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باپ کے وجود پر استدلال کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

87 اور ہم نے ان مذکورہ حضرات کے بعض باپ دادوں کو جیسے حضرت شیث اور حضرت آدم اور حضرت ادریس کو اور اور ان کی اولاد میں سے بھی بعض کو جیسے اولاد یعقوب کو اور ان مذکورہ حضرات کے بھائیوں میں سے بعض کو ہدایت عطا فرمائی تھی ہم نے ان سب کو اپنے بندوں میں سے برگزیدہ اور منتخب فرمایا اور ہم نے دین کی سیدھی راہ کی جانب ان سب کی رہنمائی فرمائی۔