Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 98

سورة الأنعام

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسۡتَقَرٌّ وَّ مُسۡتَوۡدَعٌ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّفۡقَہُوۡنَ ﴿۹۸﴾

And it is He who produced you from one soul and [gave you] a place of dwelling and of storage. We have detailed the signs for a people who understand.

اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے اور ایک جگہ چندے رہنے کی بیشک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کر دیئے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said, وَهُوَ الَّذِيَ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ... It is He Who has created you from a single person, in reference to Adam, peace be upon him. In another Ayah, Allah said; يَـأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْسٍ وَحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَأءً O mankind! Have Taqwa of your Lord, Who created you from a single person, and from him He created his mate, and from them both He created many men and women. (4:1) Allah said, ... فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ... Mustaqar and Mustawda` Ibn Mas`ud, Ibn Abbas, Abu Abdur-Rahman As-Sulami, Qays bin Abu Hazim, Mujahid, Ata, Ibrahim An-Nakha`i, Ad-Dahhak, Qatadah, As-Suddi and Ata' Al-Khurasani and others said that, فَمُسْتَقَرٌّ (Mustaqar), `in the wombs'. They, or most of them, also said that, وَمُسْتَوْدَعٌ (And Mustawda), means, `in your father's loins'. Ibn Mas`ud and several others said that, Mustaqar, means residence in this life, while, Mustawda, means the place of storage after death (the grave). Allah's statement, ... قَدْ فَصَّلْنَا الايَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ Indeed, We have explained in detail Our revelations for people who understand. refers to those who comprehend and understand Allah's Words and its meanings. Allah said next,

قدرت کی نشانیاں فرماتا ہے کہ تم سب انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے تن واحد یعنی حضرت آدم سے پیدا کیا ہے جیسے اور آیت میں ہے لوگو اپنے اس رب سے ڈور جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کی اسی سے اس کا جوڑ پیدا کیا پھر ان دونوں سے مرد و عورت خوب پھیلا دیئے مستقر سے مراد ماں کا پیٹ اور مستودع سے مراد باپ کی پیٹھ ہے اور قول ہے کہ جائے قرار دنیا ہے اور سپردگی کی جگہ موت کا وقت ہے ۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں ماں کا پیٹ ، زمین اور جب مرتا ہے سب جائے قرار کی تفسیر ہے ، حسن بصری فرماتے ہیں جو مر گیا اس کے عمل رک گئے یہی مراد مستقر سے ہے ۔ ابن مسعود کا فرمان ہے مستقر آخرت میں ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر ہے ، واللہ اعلم ، سمجھداروں کے سامنے نشان ہائے قدرت بہت کچھ آ چکے ، اللہ کی بہت سی باتیں بیان ہو چکیں جو کافی وافی ہیں ۔ وہی اللہ ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا نہایت صحیح اندازے سے بڑا با برکت پانی جو بندوں کی زندگانی کا باعث بنا اور سارے جہاں پر اللہ کی رحمت بن کر برسا ، اسی سے تمام تر تروتازہ چیزیں اگیں جیسے فرمان ہے آیت ( وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:30 ) پانی سے ہم نے ہر چیز کی زندگانی قائم کر دی ۔ پھر اس سے سبزہ یعنی کھیتی اور درخت اگتے ہیں جس میں سے دانے اور پھل نکلتے ہیں ، دانے بہت سارے ہوتے ہیں گتھے ہوئے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے اور کجھور کے خوشے جو زمین کی طرف جھکے پڑتے ہیں ۔ بعض درخت خرما چھوٹے ہوتے ہیں اور خوشے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔ قنوان کو قبیلہ تمیم قنیان کہتا ہے اس کا مفرد قنو ہے ، جیسے صنوان صنو کی جمع ہے اور باغات انگوروں کے ۔ پس عرب کے نزدیک یہی دنوں میوے سب میوں سے اعلیٰ ہیں کھجور اور انگور اور فی الحقیقت ہیں بھی یہ اسی درجے کے ۔ قرآن کی دوسری آیت ( وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنًا ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ) 16 ۔ النحل:67 ) میں اللہ تعالیٰ نے ان ہی دونوں چیزوں کا ذکر فرما کر اپنا احسان بیان فرمایا ہے اس میں جو شراب بنانے کا ذکر ہے اس پر بعض حضرات کہتے ہیں کہ حرمت شراب کے نازل ہونے سے پہلے کی یہ آیت ہے اور آیت میں بھی باغ کے ذکر میں فرمایا کہ ہم نے اس میں کھجور و انگور کے درخت پیدا کئے تھے ۔ زیتون بھی ہیں انار بھی ہیں آپس میں ملتے جلتے پھل الگ الگ ، شکل صورت مزہ حلاوت فوائد و غیرہ ہر ایک کے جدا گانہ ، ان درختوں میں پھلوں کا آنا اور ان کا پکنا ملاحظہ کر اور اللہ کی ان قدرتوں کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرو کہ لکڑی میں میوہ نکالتا ہے ۔ عدم وجود میں لاتا ہے ۔ سوکھے کو گیلا کرتا ہے ۔ مٹھاس لذت خوشبو سب کچھ پیدا کرتا ہے رنگ روپ شکل صورت دیتا ہے فوائد رکھتا ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے کہ پانی ایک زمین ایک کھیتیاں باغات ملے جلے لیکن ہم جسے چاہیں جب چاہیں بنا دیں کھٹاس مٹھاس کمی زیادتی سب ہمارے قبضہ میں ہے یہ سب خالق کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے ایماندار اپنا عقیدہ مضبوط کرتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

98۔ 1 اکثر مفسرین کے نزدیک مُسْتَقَر، سے رحم مادر اور مُسْتِوْدَع، سے صلب پدر مراد ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] وجود باری تعالیٰ پر دلائل :۔ سیدنا آدم کو مٹی سے پیدا کر کے اس میں اپنی روح سے پھونکا تو اس میں عقل، قوت تمیز اور ارادہ و اختیار پیدا کیا جو دوسرے جانداروں اور جانوروں میں نہیں پایا جاتا۔ پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا پھر تناسل و توالد کے ذریعہ لاتعداد مرد اور عورت پیدا کردیئے یہ بھی اللہ ہی کا کارنامہ ہے۔ کوئی انسان یا کوئی دوسری ہستی ایک آدمی بھی نہیں بنا سکتی پھر ان مردوں اور عورتوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار اور ایک سپردگی کا مقام ہے۔ اکثر علماء کے خیال کے مطابق جائے قرار سے مراد روئے زمین پر اس کی زندگی کی مدت ہے اور مستودع سے مراد اس کی قبر ہے یا وہ جگہ جہاں سے مرنے کے بعد ٹھکانے لگایا جاتا ہے یہ دونوں باتیں اٹل حقیقت ہونے کے باوجود کسی کو معلوم نہیں کہ وہ روئے زمین پر کتنا عرصہ رہے گا اور کہاں اور کب مرے گا اور کہاں دفن ہوگا ؟ بعض علماء کے نزدیک ان سے مراد زندگی اور موت کے چاروں مراحل ہیں ایک مرحلہ اگر مستقر ہے تو دوسرا مرحلہ اس کا مستودع ہے علیٰ ہذا القیاس۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۔۔ : یعنی اسی نے تمہیں ایک جان آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا، پھر اس کے لیے ٹھہرنے کی جگہ بنائی اور سونپے جانے کی جگہ بنائی۔ ٹھہرنے کی جگہ ماں کا رحم اور سونپے جانے کی جگہ باپ کی پشت۔ مفسرین کی ایک جماعت سے اس کے برعکس بھی منقول ہے، یعنی ” فَمُسْتَقَرٌّ“ باپ کی پشت اور ” َّمُسْـتَوْدَعٌ ۭ“ ماں کا رحم۔ بعض نے ان سے دنیا اور آخرت یا قبر مراد لی ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ اول ماں کے پیٹ میں سپرد ہوتا ہے، تاکہ آہستہ آہستہ دنیا میں رہنے کی صلاحیت حاصل کرلے، پھر دنیا میں آکر ٹھہرتا ہے، پھر سپرد ہوگا، قبر میں تاکہ آہستہ آہستہ آخرت کا اثر قبول کرسکے، پھر جا ٹھہرے گا جنت یا دوزخ میں۔ (موضح) لِقَوْمٍ يَّفْقَهُوْنَ : پہلے آفاقی دلائل بیان فرمائے، جو انسان کی ذات سے باہر کی دنیا ہے، دوسری آیت میں انفسی دلائل کی طرف اشارہ ہے، جو انسان کی ذات میں موجود ہیں۔ دلائل آفاقی سے دلائل انفسی کا سمجھنا ذرا زیادہ غور کا محتاج ہے، اس لیے یہاں سمجھ کا لفظ فرمایا اور پہلے کے متعلق علم کا۔ (واللہ اعلم)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fourth verse (98), it was said: وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ‌ وَمُسْتَوْدَعٌ(And He is the One who created you from one person, then, you have a place to dwell, and a place to sojourn). The word فَمُسْتَقَرّ :(mustaqarr) used in the text is from: قَرَار (qarar). So, mustaqarr denotes a place of qarar, of rest and peace, for someone or something. As for the word: مُستوَدَع (mustawda& ) in the text, it is a derivation from wadifah which means to keep something with someone temporarily for a few days. So, |"mustawda|"& will denote a place where something is placed temporari¬ly for a few days. Thus, the sense of the sentence would be: It is the sacred-most Be¬ing of Allah Ta` ala that has created man from one person, that is, Sayyidna Adam (علیہ السلام) . Then, made for him a mustaqarr, that is, a place to dwell for a certain length of time - and a mustawda`, that is, to stay temporarily for a few days. The words of the Qur&an are as they have been stated. But, there are many probabilities in their interpretation. This is why the sayings of the commentators differ in this matter. Some say that mustawda& is the womb of the mother and mustaqarr is this world. Others say that mustawda& is the grave and mustaqarr is the abode of the &Akhirah. Then, there are several other sayings too. However, there is room for all these within the words of the Qur&an. Hadrat Qadi Thana&ullah Pan¬ipati has, in his Tafsir Mazhari, opted for mustaqarr being the abode of &Akhirah, that is, Jannah or Jahannam- and all human condi¬tions and stages, from the beginning to the &Akhirah, are all the mus¬tawda&, that is, a place to stay temporarily, whether in the womb of the mother, or a dwelling place on the earth, or the grave, or the state of Barzakh (intermediary state after death and before Resurrection). Preference for this view seems to have confirmation from a verse of the Qur&an also where it has been said لَتَرْ‌كَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ ﴿١٩﴾ (you shall surely trav¬el from stage to stage - 84:19). The outcome is that, before ultimately reaching the abode of the &Akhirah, man remains a traveller for his whole life who, despite his obvious peace and rest, is really traversing the stages of the long journey into the night of his being: مسافر ھوں کہاں جانا ہے، ناواقف ھوں منزل سے ازل سے پھرتے پھرتے گور تک پہنچا ھوں مشکل سے A traveller I am. My destination I know not. Winding and wandering from eternity Only upto the grave I have reached - How tough I know. What next I know not. In conclusion, it can be said that this last verse (98) under study is showing a mirror to those who, having sold their souls to the veneer of glamour they see in the obvious and to the craze for things and trends they envy in their fellow beings, have forgotten that their place is elsewhere, that they have to go to their Creator and that there is a journey ahead, to the ultimate domain of the &Akhirah. The message is: Open your eyes, see reality, walk away from the web of deception and walk into salvation.

چوتھی آیت میں ارشاد ہے وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْـتَوْدَعٌ مستقر قرار سے بنا ہے اس جگہ کو مستقر کہتے ہیں جو کسی چیز کے لئے جائے قرار ہو، اور مستودع، ودیعت سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں کسی چیز کو کسی کے پاس عارضی طور سے چند روز رکھ دینے کے، تو مستودع اس جگہ کو کہا جائے گا جہاں کوئی چیز عارضی طور پر چند روز رکھی جائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات پاک ہے جس نے انسان کو ایک جان یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا فرمایا، پھر اس کے لئے ایک مستقر یعنی مدت تک رہنے کی جگہ بنادی، اور ایک مستودع یعنی چند روزہ رہنے کی جگہ۔ قرآن کریم کے الفاظ تو یہی ہیں، ان کی تعبیر و تفسیر میں بہت سے احتمال ہیں، اسی لئے علماء تفسیر کے اقوال اس میں مختلف ہیں، کسی نے فرمایا مستودع ماں کا پیٹ، اور مستقر یہ دنیا ہے، کسی نے فرمایا کہ مستودع قبر ہے اور مستقر دار آخرت، اور بھی متعدد اقوال ہیں، اور الفاظ قرآنی میں سب کی گنجائش ہے، حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں اس کو ترجیح دی کہ مستقر دا رالآخرت کا مقام جنت یا دوزخ ہے، اور انسان کی ابتداء آفرینش سے آخرت تک جتنے مراحل اور درجات ہیں وہ سب مستودع یعنی چند روزہ قیام کی جگہ ہیں، خواہ شکم مادر ہو یا زمین پر رہنے سہنے کی جگہ یا قبر و برزخ، قرآن کریم کی ایک آیت سے بھی اس کی ترجیح معلوم ہوتی ہے، جس میں فرمایا : (آیت) لترکبن طبقا عن طبق، یعنی تم ایک درجہ سے دوسرے درجہ کی طرف ہمیشہ چڑھتے رہو گے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دار آخرت سے پہلے پہلے انسان اپنی پوری زندگی میں ایک مسافر کی حیثیت رکھتا ہے، جو ظاہری سکون وقرار کے وقت بھی درحقیقت سفر عمر کے منازل طے کر رہا ہے مسافر ہوں کہاں جانا ہے، ناواقف ہوں منزل سے اول سے پھرتے پھرتے گورنگ پہنچا ہوں مشکل سے اس آخری آیت میں ظاہری ٹیپ ٹاپ اور مخلوقات کی نیر نگیوں میں مشغول ہو کر اپنے اصلی مستقر اور خدا وآخرت سے غافل ہوجانے والے کی آنکھیں کھول دی گئی ہیں، تاکہ وہ حقیقت کو پہچانے اور دنیا کے دھوکہ و فریب سے نجات پائے، مولانا جامی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا کہ ہمہ اندر زمین ترازین است کہ تو طفلی و خانہ رنگین است

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْـتَوْدَعٌ۝ ٠ۭ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّفْقَہُوْنَ۝ ٩٨ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأ» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں ينشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ اسْتَقَرَّ فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ. استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٨) اور اسی ذات نے تمہیں ایک شخص آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا، اس کے بعد ماؤں کے رحموں میں زیادہ دیر تک اور باپ کی پشت میں کم وقفہ تک یا اس کے برعکس ٹھہرایا، ہم ان دلائل کو کھول کھول کر ان لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جو حکم خداوندی اور توحید خداوندی کو سمجھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٨ (وَہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ) ظاہر ہے کہ تمام نوع انسانی ایک ہی جان سے وجود میں آئی ہے۔ اس سے حضرت آدم ( علیہ السلام) بھی مراد ہوسکتے ہیں اور اگر نظریہ ارتقاء میں کوئی حقیقت تسلیم کرلی جائے تو پھر تحقیق کا یہ سفر امیبا (Amoeba) تک چلا جاتا ہے کہ اس ایک جان سے مختلف ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے انسان بنا۔ امیبا میں کوئی sex یعنی تذکیر و تانیث کا معاملہ نہیں تھا۔ دوران ارتقاء رفتہ رفتہ sex ظاہر ہوا تو (خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا) (النساء : ١) والا مرحلہ آیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے اپنی کتاب قرآن اور علم جدید میں بہت عمدہ تحقیق کی ہے اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے بھی اس کی تصویب کی ہے۔ جن حضرات کو دلچسپی ہو کہ ایک جان سے تمام بنی نوع انسان کو پیدا کرنے کا کیا مطلب ہے ‘ وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ (فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْتَوْدَعٌ ط) مستقر اور مستودع کے بارے میں مفسرین کے تین اقوال ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ مستقر یہ دنیا ہے جہاں ہم رہ رہے ہیں اور مستودع سے مراد رحم مادر ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مستقر آخرت ہے اور مستودع قبر ہے۔ قبر میں انسان کو عارضی طور پر امانتاً رکھا جاتا ہے۔ یہ عالم برزخ ہے اور یہاں سے انسان نے بالآخر اپنے مستقر (آخرت ) کی طرف جانا ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ مستقر آخرت ہے اور مستودع دنیا ہے۔ دنیا میں جو وقت ہم گزار رہے ہیں یہ آخرت کے مقابلے میں بہت ہی عارضی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

65. This means that God caused the human race to originate from one human being. 66. If one were to observe carefully the creation of the human species, its division into male and female, the proliferation of the human race by procreation, the passing of life through its several stages in the womb of the mother from conception to childbirth, one would perceive innumerable signs to help one grasp the truth mentioned above. But only those who make proper use of their intellect can be led by means of these signs to an understanding of Reality. Those who live like animals, who are concerned merely with the satisfaction of their lusts and desires, can perceive nothing significant in these phenomena.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :65 یعنی نسل انسانی کی ابتداء ایک متنفس سے کی ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :66 یعنی نوع انسانی کی تخلیق اور اس کے اندر مرد و زن کی تفریق اور تناسل کے ذریعہ سے اس کی افزائش ، اور رحم مادر میں انسانی بچہ کا نطفہ قرار پا جانے کے بعد سے زمین میں اس کے سونپے جانے تک اس کی زندگی کے مختلف اطوار پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس میں بے شمار کھلی کھلی نشانیاں آدمی کے سامنے آئیں گی جن سے وہ اس حقیقت کو پہچان سکتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے ۔ مگر ان نشانیوں سے یہ معرفت حاصل کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو سمجھ بوجھ سے کام لیں ۔ جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے ، جو صرف اپنی خواہشات سے اور انہیں پورا کرنے کی تدبیروں ہی سے غرض رکھتے ہیں ، ان نشانیوں میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

37: ’’مستقر‘‘ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی شخص باقاعدہ اپنا ٹھکانا بنالے۔ اس کے برعکس امانت رکھنے کی جگہ پر قیام عارضی قسم کا ہوتا ہے، اس لئے وہاں رہائش کا باقاعدہ انتظام نہیں کیا جاتا۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے کی گئی ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ سے اس کی یہ تفسیر منقول ہے کہ مستقر سے مراد دُنیا ہے جہاں اِنسان باقاعدہ اپنی رہائش کا ٹھکانا بنالیتا ہے، اور امانت رکھنے کی جگہ سے مراد قبر ہے جس میں اِنسان کو مرنے کے بعد عارضی طور سے رکھا جاتا ہے، پھر وہاں سے اسے آخرت میں جنت یا جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ البتہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے ان لفظوں کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ مستقر سے مراد ماں کا پیٹ ہے جس میں بچہ مہینوں ٹھہرارہتا ہے اور امانت رکھنے کی جگہ سے مراد شوہر کی صلب ہے جس میں نطفہ عارضی طور سے رہتا ہے، پھر ماں کے رحم میں منتقل ہوجاتا ہے۔ بعض مفسرین نے اس کے برعکس مستقر شوہر کی صلب کو قرار دیا ہے اور امانت رکھنے کی جگہ ماں کے رحم کو، کیونکہ بچہ وہاں عارضی طور پر رہتا ہے۔(روح المعانی)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(98 ۔ 99) ۔ کھیتی باغ سورج چاند تارے اوپر انسان کی ان ضرورت کی چیزوں کے پیدا کرنے کا ذکر تھا اور آگے بھی اس قسم کے چیزوں کا ذکر آوے گا۔ ان چیزوں کے ذکر کے بیچ میں یہ انسان کے پیدا کرنے کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جو غافل لوگ اپنی ضرورت کی چیزوں کی حالت پر غور کر کے ان چیزوں کے پیدا کرنے والے کو نہ پہچان سکے وہ خود اپنی پیدائش کی حالت پر غور کر کے اپنے خالق کو پہچانیں اور شرک سے باز آویں نفس واحد سے مقصود حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں کیونکہ بنی آدم کی پیدائش کا سلسلہ انہی سے شروع ہو ہے حضرت حوا حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا ہوئیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت مریم کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور حضرت مریم حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں ہیں غرض بنی آدم میں سے کوئی شخص حضرت آدم ( علیہ السلام) کے سلسلہ سے باہر نہیں ہے۔ ترمذی ابوداؤد اور صحیح بان حبان میں ابوموسیٰ (رض) اشعری سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کے پتلے کی مٹی تمام روئے زمین کی مٹی کو ملاکر لی ہے اس واسطے ان کی اولاد کے رنگ اور مزاج مختلف ہیں ابن حبان نے اس حدیث آیت کے ٹکڑے وھوالذی انشأ کم من نفس واحدۃ کی گویا تفسیر ہے جس سے بنی آدم کے رنگ و روپ اور مزاجوں کے مختلف ہونے کا سبب سمجھ میں آتا ہے ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت سے ان روحوں کو نکالا جو قیامت تک پیدا ہونے والی ہیں اور وہ روحیں حضرت آدم ( علیہ السلام) کو دکھا کر یہ فرمایا کہ یہ تمہاری وہ اولاد ہے جو سلسلہ بہ سلسلہ قیامت تک پیدا ہوگی ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں چند صحابہ سے روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ ماں کے رحم میں بچہ کا پتلا چار مہینے کے عرصہ میں بن کر تیار ہوجاتا ہے تو پھر اس پتلے میں اللہ کے حکم سے روح پھونکی جاتی ہے یہ حدیثیں بھی آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روحیں جسموں سے پہلے پیدا کی جاکر حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت میں رکھی گئیں اور پھر وہ روحیں حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت سے نکالی جاکر حضرت آدم ( علیہ السلام) کو دکھلائی گئیں اور تفسیر سدی کی روایت کے موافق پھر وہ روحیں حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت میں سونپ دی گئیں اور یہی سونپنے کی حالت پشت بہ پشت اس پتلے میں پھونک دی جاتی ہے۔ فدافلح المؤمنون میں آویگا کہ نافرمان لوگ عذاب قبر سے تنگ آکر دنیا میں دو بارہ آنے اور نیک عمل کرنے کے خواہش کریں گے تو ان کی یہ خواہش بارگاہ الٰہی میں منظور نہ ہوگی بلکہ ان کو یہ جواب ملے گا کہ اب یہ خواہش بےفادہ اور ناممکن ہے معتبر سند سے مسندامام احمد میں حضرت عائشہ (رض) اور براء بن عازب (رض) سے جو روایتیں ہیں انکا حاصل یہ ہے کہ نافرمان لوگ جب مرتے ہیں تو فرشتے ان کا دوزخ کا ٹھکانا ان کو دکھا کر یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن تم لوگوں کو اس ٹھکانے میں جانا پڑے گا اور پھر ایسے لوگوں پر طرح طرح کا عذاب قبر شروع ہوجاتا ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ اس سے فرقہ آریہ کا آواگون کا مسئلہ غلط قرار پاتا ہے کیونکہ اس مسئلہ کا حاصل یہ ہے کہ بداعمال آدمیون کی روحوں کو دنیا میں حیوانوں کی صورت دی جاتی ہے تاکہ اس تبدیل صورت سے وہ اپنے اعمال کی سزا بھگتیں اور اوپر آیت اور حدیثوں کا جو مطلب بیان کیا گیا اس کے موافق روحوں کا دوبارہ دنیا میں آنا ممکن نہیں علاوہ اس کے اس آواگوں کے مسئلہ کو علماء اسلام نے عقلی طور پر یوں غلط ٹھہرایا ہے کہ بہ نسبت انسان کے حیوانات کی زندگی بڑی بےفکری سے بسر ہوتی ہے اس لیے گرفتار فکر جسم کی روح کو بےفکر جسم میں بدل دینا اور اس کو سزا قرار دینا عقل سلیم کے بخلاف ہے بلکہ آریہ لوگ اگر یوں کہتے کہ مثلا سانڈھ مر کر انسانی جیون میں پھر دوبارہ پیدا ہوتے ہیں تاکہ بےفکر زندگی کی سزا فکر مند زندگی میں بھگتی جاوے تو یہ صورت شاید کچھ سمجھ میں آجاتی لیکن پھر بھی آریہ لوگوں کا یہ جو را دعویٰ دلیل کا محتاج رہتا حاصل یہ ہے کہ اس آواگون کے مسئلہ کی بنیاد تو ایسی ضعیف ہے جس کا حال بیان کیا گیا باوجود اس کے فرقہ آریہ کا یہ اعتراض ہے کہ اسلام میں یہ مسئلہ نہیں ہے اس لئے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیُرِا لُمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن کے کوئی معنی صحیح نہیں قرار پاسکتے کیونکہ بغیر آواگون کے مسئلہ کے صحیح ہونے کے اللہ کی مہربانی اور غصے کا کوئی موقعہ باقی نہیں رہتا۔ اہل اسلام نے اس اعتراض کا جو جواب دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ خود آواگون کے مسئلہ کی بنیاد صحیح نہیں ہے پہلے کسی مقبوط دلیل ہے اس مسئلہ کی صحیح بنیاد قائم کی جاوے پھر کچھ بات چیت کی جاوے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق مُسْتَقَرّ سے مقصود عورت کا رحم ہے جہاں نطفہ قرار پاکر مدت مقرہ کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے اور مُسْتَوْدَعَ سے مقصود مرو کی پشت ہے جہاں نطفہ فقط سپردگی کے طور پر رہتا ہے کچھ تبدل تغیر نطفہ میں وہاں نہیں ہوتا اب آخر آیت میں فرمایا کہ یہ اللہ کی قدرت کی نشانیاں ان لوگوں کو مفید ہیں جو ان قدرت کی نشانیوں سے صاحب قدرت سے پہچاننے میں سمجھ دوڑاتے ہیں جو لوگ نہ ہر فرقہ کی طرح ان قدرت کی نشانیوں کے دیکھنے کے بعد بھی صاحب قدرت کی ہستی کے منکر ہیں یا اس کی قدرت کے کار خانہ میں اوروں کو شریک کرتے ہیں ان کو ان نشانیوں سے کچھ فائدہ نہیں معتبر سند سے تفسیر ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن معسود (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ مینہ برسنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو آسمان پر سے دریاؤں میں سے پانی اٹھاتی ہے اور پھر وہ پانی بادلوں میں پہنچاتی ہے اسی پانی سے مینہ برستا ہے یہ عبد اللہ بن مسعود (رض) کو قول گویا آیت کے ٹکڑے وَھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً کی تفسیر ہے اس سے حکماء کا یہ قول غلط قرار پاتا ہے کہ دھوپ کی گرمی سے زمین پر کے دریاؤں کی بھاپ اوپر جاتی ہے اور ہوا کی سردی سے کثیف ہو کر جس میں زیادہ کثافت ہوتی ہے وہ جم کر اس کا ابربن جاتا ہے اور جس میں کم کثافت ہوتی ہے وہ قطرہ قطرہ ہو کر زمین پر ٹپکتی ہے اسی کا نام مینہ ہے اب آگے فرمایا کہ اب مینہ کے پانی سے طرح طرح کا اناج اور میوہ انسان کی ضرورت کے لیے اور چارہ جانوروں کے لیے یہ سب کچھ پیدا ہوتا ہے۔ گیہوں اور جو کی بالیں مکئی اور جوار کے بھٹے بھی قدرت کا ایک نمونہ ہیں کہ ان میں اوپر تلے کس خوبصورتی اور حکمت سے دانے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اسی طرح کھجور کے گچھے اس کا گابھا انگور کے خوشے زیتون اناریہ سب اس کی قدرت کے نمونے ہیں کہ لکڑی سے یہ پھل کیونکر پیدا ہوتے اور پکتے ہیں لیکن یہ قدرت کی نشانیاں انہیں لوگوں کے لیے ہیں جن کو اللہ کی قدرت کے کارخانوں کا یقین ہے۔ طبعیات والوں کی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کچھ طبیعت کے خاصیت سے ہوجاتا ہے قدرت الٰہی کو اس میں کچھ دخل نہیں ان کو ان قدرت کی نشانیوں سے کچھ فائدہ نہیں مگر طبعیات والوں کی یہ غلطی ہے کہ جو وہ ایسی باتیں کرتے ہیں کیونکہ اللہ کے کارخانہ قدرت میں طبیعت کی خاصیت کے برخلاف بھی بہت سی چیزیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعتیں بھی کسی کی پیدا کی ہوئی ہیں جس کے حکم کے وہ تابع ہیں اور وہ جب اور جس موقعہ پر چاہتا ہے کسی طبیعت سے اس طبیعت کی خاصیت کے برخلاف کام لیتا ہے چناچہ زمین کی طبعی خاصیت یہ ہے کہ جو چیز اس میں دبائی جاوے وہ آخر کو خاک ہوجاتی ہے لیکن اناج کے بیچ اور میوے کی گٹھلی میں اس قادر مطلق نے طبعی خاصیت کے برخلاف زمین سے جو کام لیا وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اسی طرح سورج کی طبعی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو خشک کرتا ہے لیکن اس قادر مطلق نے مثلا گیہوں اور جو میں تو سورج کی طبعی خاصیت کے موافق سورج سے کام لیا اور انگور آم میں طبعی خاصیت کے برخلاف سورج سے کام لیا گیا کہ بجائے انگور اور آم کے سوکھا دینے کے سورج کی حرارت نے ان چیزوں کا اور الٹا تروتازہ کردیا کچے انگور اور آم کی کچھی کیری کی جو حالت تھی پکنے کے بعد جو انکی حالت ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے علاوہ اس کے طبعیت کوئی ذی شعور چیز نہیں ہے جو مثلا گیہوں کی بالوں میں اس طرح خوبصورتی ہے دانہ جڑے۔ پانی کی ایک طبعی خاصیت میں یہ شعور کہا ہے کہ کسی آم کے دانہ کو میٹھا کردے اور کسی کو کھٹا غرض طبعیات والے طرح طرح کی طبعی خاصتیں دریافت کر کے اللہ کی قدرت کا انکار نہیں کرسکتے بلکہ ان کو اس کی قدرت کا زیادہ یقین کرنا چاہئے کہ جس نے طرح طرح کی طبعی خاصتیں پیدا کیں اور جس طرح چاہا ان خاصیتوں سے کام لیا پابند طبعیات دہریہ لوگ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے نہیں دیکھا اس لیے بغیر دیکھے ہم اس کی ہستی کا اقرار نہیں کرسکتے اس کا جواب علمائے پابند شریعت نے یہ دیا ہے کہ ان لوگوں نے روح اور عقل کو بھی آنکھ سے نہیں دیکھا فقط آثار روحانی اور عقلی سے یہ لوگ روح اور عقل کی ہستی کے قائل ہیں :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:98) مستقر۔ ظرف مکان۔ بروزن اسم مفعول استقرار مصدر۔ قرار گاہ۔ ٹھہرنے کی جگہ۔ مستودع۔ ظرف مکان۔ بروزن اسم مفعول استبداع (استفعال) مصدر۔ امانت رکھنے کی جگہ۔ حفاظت کی جگہ۔ رحم مادر۔ مستقر اور مستودع کے متعلق علماء کے متعدد اقوال ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مستقر سے مراد شکم مادر اور مستودع سے مراد باپ کی پیٹھ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مستقر سے مراد زمین ہے جہاں انسان دنیوی زندگی بسر کرتا ہے اور مستودع سے مراد قبر ہے۔ جہاں مرنے کے بعد حشر تک کا درمیانی عرصہ گزارنا ہوتا ہے۔ اور بعض کے مطابق مستقر سے مراد دنیوی زندگی (ظرف زمان) اور مستودع روانگی کا وقت (ظرف زمان) وداع سے رخصت ہونا۔ اس کی تقدیر ہے۔ فلکم مستقرو مستودع۔ یفقھون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ سمجھ رکھتے ہیں۔ سمجھتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ٹھہر ن کی جگہ یعنی ماں کا رحم اور ایک سونپے جانے کی یعنی باپ کی پشت حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) اور مفسرین کی ایک جماعت سے اس کے برعکس بھی منقول ہے یعنی مستقر باپ کی پشت) اور مستودع (ماں کا رحکم) بعض نے ان سے دنیا اور آخرت ی اقبر بھی مراد لی ہے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں پہلا قول زیادہ واضح ہے شاہ صاحب لکھتے ہیں اول ماں کے پیٹ میں سپرد ہوتا ہے تاکہ آہستہ آہستہ دنیا میں رہنے کی صلاحیت پیدا کرے پھر دنیا میں آکر ٹھہر تا ہے پھر سپرد ہوگی قبر میں تاکہ آہستہ آہستہ آخرت کا اثر قبول کرسکے پھر جا ٹھہرے گا جنت یا دوزخ میں ( مو ضح) 3 اوپر دلائل آفاقی بیان فرمائے ہیں اور اس آیت میں دلائل نفسی کی طرف اشارہ ہے اور دلائل آفاقی سے دلائل انفسی کا سمجھنا ذرا زیادہ غور کا محتاج ہے اس لئے یہاں سمجھ کا لفظ فرمایا ہے اور اول کے متعلق علم کا واللہ اعلم (وحیدی)4 یعنی ہر قسم کی نبا تات۔ ، (فتح لقدیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٩٨۔ اب یہ چٹکی براہ راست ہے ‘ اور یہ ٹچ نفس انسانی اور ذات انسانی کو دیا جاتا ہے ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسان ایک ہی نفس سے پیدا کئے گئے ہیں کیونکہ مرد اور عورت اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی ہیں ۔ لہذا پوری بشریت ایک حقیقت واحدہ ہے مرد و عورت کے درمیان زندگی کا آغاز تناسل کے خلیہ سے شروع ہوتا ہے ۔ مثلا خلیہ جب صلب پدر میں ہوتا ہے تو وہ جائے قرار میں ہوتا ہے ۔ جب وہی خلیہ رحم مادر میں جاتا ہے تو وہ اس کے لئے سپردگی کی جگہ ہے اس کے بعد زندگی بڑھتی ہے اور پھیل جاتی ہے اور مختلف نسلوں اور رنگوں میں تقسیم ہوجاتی ہے ۔ مختلف گروہوں اور زبانوں میں بٹ جاتی ہے مختلف اقوام وقبائل میں تقسیم ہوجاتی ہے اور اس زندگی کے اس قدر نمونے بن جاتے ہیں جن کا گننا مشکل ہوجاتا ہے پھر زندگی کے اس قدر کلچر وجود میں آجاتے ہیں کہ زندگی موجود رہے گی آتے رہیں گے ۔ (نفس واحدہ سے مراد میں نے نفس انسانیت لیا ہے اس لئے کہ مجھے اس بارے میں قابل اعتماد حدیث نہیں ملی کہ حوا آدم سے پیدا کیا گیا) (آیت) ” قَدْ فَصَّلْنَا الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (97) ” دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں ‘ ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں “۔ یہاں فقیہ وہ شخص ہوگا ‘ جو اس نفس انسانی کی تخلیق کے بارے میں اللہ کی کاریگری کا ادراک رکھتا ہو اور پھر اس بات میں مہارت رکھتا ہو کہ ایک انسان آگے جا کر کن کن کلچروں اور نمونوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور یوں انسان ایک نفس کو بذریعہ نسل آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔ اس عمل سے بیشمار مرد اور عورتیں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور انسانی آبادی بڑھتی رہتی ہے ۔ یہ تمام کام اللہ کی اس حکمت کے نتیجے میں پورا ہوتا ہے جسے اس نے نظام زوجیت کے ذریعے فرض قرار دیا ۔ جس کے ذریعے آبادی بڑھتی ہے ‘ بچوں کی نشوونما دائرہ انسانیت کے اندر ہوتی ہے اور وہ آئندہ زندگی میں وظیفہ انسانیت ادا کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ ہم یہاں ظلال القرآن میں اس موضوع کی پوری تفصیلات نہیں دے سکتے جس سے انسانیت کے دونوں اصناف کے درمیان تمام تعلقات کو زیر بحث لا سکیں ۔ اس کے لئے تو علیحدہ ایک کتاب کی ضرورت ہے ۔ (دیکھئے کتاب خصائص التصور الاسلامی میں بحث حقیقۃ الحیاۃ) لیکن یہاں اس قدر تذکرے کی بہرحال ضرورت ہے کہ نطفے سے مرد اور عورت کس طرح پیدا ہوجاتے ہیں اور کس طرح ایک غیبانی قوت اور قدرت الہی مرد اور عورتوں کی تعداد کو برابر رکھتی ہے تاکہ آئندہ نسل کشی کے لئے اور سلسلہ توالد وتکاثر کو جاری رکھنے کے لئے مناسب انتظام ہو ۔ اس سے قبل ہم نے آیت ۔ (آیت) ” وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الا ھو “۔ (٦ : ٥٩) کی تفسیر میں کہا تھا کہ مرد کے مادہ منویہ کے اندر جو کروموسوم ہوتے ہیں اور جب ان کا التفاء عورت کے انڈے کے ساتھ ہوتا ہے تو اس وقت صرف تقدیر الہی ہوتی ہے جو مذکر کروموسوم کو مؤنث کروموسوم پر ترجیح دیتی ہے یا اس کے برعکس فیصلہ کرتی ہے اور یہ ترجیح از جانب تقدیر الہی غیب الہی ہے ۔ اس معاملے میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے ۔ یہ تقدیر فیصلہ کرتی ہے اور کسی کو لڑکا عطا ہوتا ہے اور کسی کو لڑکی ۔ یہ تقدیر تمام روئے زمین پر مردوں اور عورتوں کی تعداد کے اندر مطلوب توازن کو برقرار رکھتی کہ کس قدر مرد درکار ہیں اور کس قدر عورتیں ۔ چناچہ آج تک پوری انسانیت کی سطح پر اس توازن کے اندر کوئی فرق نہیں پڑا اور اس توازن کے ذریعے سلسلہ توالد وتکاثر آج تک جاری وساری ہے ۔ یہ درست ہے کہ اگر مرد کم ہوں تو بھی توالد وتکاثر کا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اسکیم کا مطلب فقط یہ تھا کہ انسانوں کے درمیان نہ صرف نسل کشی کا انتظام کر دیاجائے بلکہ ساتھ یہ بھی مطلوب تھا کہ حیوانی سطح سے اوپر جا کر انسان کی ازدواجی زندگی میں توازن اور استحکام پیدا ہو ‘ کیونکہ اس استحکام کے بغیر مقاصد انسانیت کی تکمیل ممکن نہ ہوتی ۔ ان میں سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ ماں باپ کی پرورش کے بغیر بچوں کی تربیت اسلامی خطوط پر ممکن نہ تھی یعنی ایک خاندان کی خوشگوار فضا کے اندر تاکہ یہ بچے آئندہ زندگی میں اپنا انسانی کردار ادا کرسکیں ۔ صرف یہ نہ ہو کہ بچے ایک حیوان کی طرح مادی زندگی کے لحاظ سے بلوغ تک پہنچ جائیں ۔ انسانی کردار یہ بچے تب ہی ادا کرسکتے ہیں جب یہ ایک پرسکون خاندانی زندگی میں ماں اور باپ دونوں کی پرورش میں ایک طویل عرصے تک رہیں کیونکہ انسانی بچہ حیوانات کے مقابلے میں ایک طویل عرصے تک بچپن میں ہوتا ہے اور محتاج ہوتا ہے ۔ مرد اور عورتوں کی تعداد کے درمیان یہ توازن اس بات پر کافی وشافی دلیل ہے کہ اس کائنات میں خالق کائنات کی تدبیر ‘ حکمت اور اس کی تقدیر کس طرح ہر وقت کارفرما ہے لیکن یہ دلیل اور نشانی صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو فقیہ ہیں (لقوم یفقھون) رہے وہ لوگ جو اندھے ہیں اور حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل ہے تو ان کی نابینائی کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ ان کے سرخیل وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو سائنس دان کہتے ہیں اور کسی غیبی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ عالم الغیب تسلیم کرنے والوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں تو ایسے لوگ ان آیات الہیہ کو اس طرح پڑھ کر گزر جاتے ہیں جس طرح اندھے گزر جاتے ہیں ۔ ان لوگوں کی نظروں سے حقیقت اوجھل رہتی ہے اور ان کی حالت یہ ہوتی ہے ۔ (آیت) ” وان یروا کل ایۃ لا یومنون بھا “ وہ جو نشانی بھی دیکھیں ‘ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔ اب اگلی آیت میں اس زندگی کا منظر سامنے لایا جاتا ہے جو اس کرہ ارض پر ہر طرف نظر آتی ہے اور آنکھیں ہر روز اسے دیکھتی ہیں ۔ حواس کے دائرے کے اندر سے اور اس کو دیکھ کر دل و دماغ اس کے بارے میں سوچتے بھی ہیں ۔ ہمارے ادراک کو اس میں اللہ کی تخلیق اور کاریگری صاف صاف نظر بھی آتی ہے ۔ کلام الہی اسے اسی طرح پیش کرتا ہے جس طرح یہ چیزیں نظر آتی ہیں اور ان کے مختلف رنگ اور مختلف مناظر پیش کرکے ذرا نظروں کو ان کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ‘ مختلف شکلیں اور مختلف قسمیں سامنے لائی جاتی ہیں ‘ انسانی وجدان کو بتایا جاتا ہے کہ زندگی کی نشوونما کو دیکھے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ قدرت نے کیسی کیسی چیزیں پیدا کی ہیں ۔ قلب انسانی کو اس طرح متوجہ کیا جاتا ہے کہ اس نظام کی خوبصورتی کو بھی ذرا دیکھے اور لطف اندوز ہو ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَأَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ) (اور اللہ وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا) یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے انسان کی ابتداء ہوئی اور نسلاً بعد نسل ان کی اولاد بڑھتی ہوئی چلی آئی ہے جس کا سلسلہ تو الد اس طرح سے ہے کہ اول نطفہ باپ کی پشت میں ہوتا ہے پھر ماں کے رحم میں آجاتا ہے پھر وہاں سے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے جیتی جاگتی تصویر باہر آجاتی ہے۔ مُسْتَقَرٌّ سے باپ کی پشت اور مُسْتَوْدَعٌ سے ماں کا رحم مراد ہے باپوں کی پشتیں تو اصل مستقر یعنی ٹھہرنے کی جگہیں ہیں کیونکہ مادہ منویہ وہاں اور کہیں سے نہیں آیا۔ اور ماؤں کے رحموں کو مُسْتَوْدَع فرمایا کیونکہ ان میں نطفہ مرد کی طرف سے آتا ہے اور کچھ مدت کے لیے بطور ودیعت وہاں رکھ دیا جاتا ہے۔ بعض مفسرین مستقر اور مستودع کے وہ معنی لکھے ہیں جیسا ہم نے ابھی بیان کیے لیکن حضرت ابن عباس (رض) سے اس کے خلاف منقول ہے انہوں نے فرمایا کہ مستودع سے باپ کی پشت اور مستقر سے ماں کا رحم مراد ہے۔ رحم مادر کو مستقر کہنا تو اس اعتبار سے سمجھ آتا ہے کہ رحم میں نطفہ داخل ہونے کے بعد وہاں ٹھہر جاتا ہے اور مختلف ادوار سے گزر کر انسانی صورت میں باہر آجاتا ہے لیکن باپ کی پشت کو جو مستودع فرمایا یعنی ودیعت رکھنے کی جگہ۔ اس کے بارے میں صاحب روح المعانی ج ٧ ص ٢٣٦ فرماتے ہیں کہ اس کی تقریر اس طرح ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یوم میثاق میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ساری ذریت کو نکالا تھا اور پھر عہد (اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ) کے بعد ان کو واپس کردیا تھا تو گویا ان کا واپس کرنا ایک طرح ودیعت رکھنا ہوا۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس ودیعت کو واپس نکال لے گا۔ مستقر و مستودع کی تیسری تفسیر یوں کی گئی ہے کہ مستقر سے زمین پر ٹھہرنا اور رہنا مراد ہے اور مستودع سے قبر مراد ہے یہ تفسیر بھی الفاظ قرآن سے بعید نہیں۔ (قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَھُوْنَ ) (کہ تحقیق ہم نے آیات بیان کی ہیں ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں) ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں نجوم کے تذکرہ میں یَعْلَمُوَنَ فرمایا اور (اَنْشَأَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ) کا تذکرہ فرما کر آخر میں (لِقَوْمٍ یَّفْقَھُوْنَ ) فرمایا۔ کیونکہ نفس واحدہ سے پیدا فرمانا اور پیدا ہونے والوں کے احوال مختلفہ میں تصرف فرمانا زیادہ لطیف اور دقیق ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

104 یہ اللہ تعالیٰ کا ایک اور احسان ہے کہ اس نے زندگی جیسی نعمت عطا فرمائی اور تمام انسانوں کو ایک جان (آدم علیہ السلام) سے پیدا فرمایا اور ہر ایک کے لیے ایک مستقر اور ایک مستودع بنایا۔ مستقر اور مستودع کی تفسیر میں اقوال مختلف ہیں۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں مستقر (رہنے کی جگہ) سے دنیا مراد ہے اور مستودع سے آخرت۔ فمستقر فی الدنیا و مستودع فی الاخرۃ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

98 اور وہی ہے جس نے تم کو ایک شخص یعنی آدم سے پیدا کیا پھر تم کو کسی جگہ ٹھہرائو ہے اور کسی مقام پر سپرد ہونا ہے باپ کی پشت میں استقرار اور ماں کے رحم میں استیداع یا زمین کے اوپر ٹھہرائو اور قبر میں سپردگی بلاشبہ ہم نے اپنے دلائل کو ان لوگوں کے لئے تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے جو صحیح سمجھ رکھتے ہیں اور سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں۔