Surat ul Mumtahina

She that is to be examined

Surah: 60

Verses: 13

Ruku: 2

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْمُمْتَحِنَة نام : اس سورہ کی آیت نمبر 10 میں حکم دیا گیا ہے کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آئیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کریں ان کا امتحان لیا جائے ۔ اسی مناسبت سے اس کا نام الممتحنہ رکھا گیا ہے ۔ اس کا تلفظ ممتَحَنَہ بھی کیا جاتا ہے اور ممتَحِنَہ بھی ۔ پہلے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں وہ عورت جس کا امتحان لیا جائے ۔ اور دوسرے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں امتحان لینے والی سورۃ ۔ زمانہ نزول : اس میں دو ایسے معاملات پر کلام فرمایا گیا ہے جن کا زمانہ تاریخی طور پر معلوم ہے ۔ پہلا معاملہ حضرت حاطب بن ابی بلْتَعَہ کا ہے جنہوں نے فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے ایک خفیہ خط کے ذریعہ سے قریش کے سرداروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے کی اطلاع بھیجی تھی کہ آپ ان پر حملہ کرنے والے ہیں ۔ اور دوسرا معاملہ ان مسلمان عورتوں کا ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے لگی تھیں اور ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ شرائط صلح کی رو سے مسلمان مردوں کی طرح کیا ان عورتوں کو بھی کفار کے حوالہ کر دیا جائے؟ ان دو معاملات کے ذکر سے یہ بات قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ یہ سورہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے ان کے علاوہ ایک تیسرا معاملہ بھی ہے جس کا ذکر سورۃ کے آخر میں آیا ہے ، اور وہ یہ کہ جب عورتیں ایمان لا کر بیعت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان سے کن باتوں کا عہد لیں ۔ اس حصے کے متعلق بھی قیاس یہی ہے کہ یہ بھی فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوا ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد قریش کے مردوں کی طرح ان کی عورتیں بھی بہت بڑی تعداد میں بیک وقت داخل اسلام ہونے والی تھیں اور اسی موقع پر یہ ضرورت پیش آئی تھی کہ اجتماعی طور پر ان سے عہد لیا جائے ۔ موضوع اور مباحث : اس سورۃ کے تین حصے ہیں : پہلا حصہ آغاز سورہ سے آیت 9 تک چلتا ہے اور سورۃ کے خاتمہ پر آیت 13 بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے محض اپنے اہل و عیال کو بچانے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نہایت اہم جنگی راز سے دشمنوں کو خبردار کرنے کی کوشش کی تھی جسے اگر بر وقت ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو فتح مکہ کے موقع پر بڑا کشت و خون ہوتا ، مسلمانوں کی بھی بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوتیں ، قریش کے بھی بہت سے وہ لوگ مارے جاتے جو بعد میں اسلام کی عظیم خدمات انجام دینے والے تھے ، وہ تمام فوائد بھی ضائع ہو جاتے جو مکہ کو پر امن طریقہ سے فتح کرنے کی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے ، اور اتنے عظیم نقصانات صرف اس وجہ سے ہوتے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے بال بچوں کو جنگ کے خطرات سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا ۔ اس شدید غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو یہ تعلیم دی ہے کہ کسی مومن کو کسی حال میں اور کسی غرض کے لیے بھی اسلام کے دشمن کافروں کے ساتھ محبت اور دوستی کا تعلق نہ رکھنا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہ کرنا چاہیے جو کفر و اسلام کی کشمکش میں کفار کے لیے مفید ہو ۔ البتہ جو کافر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عملاً دشمنی اور ایذا رسانی کا برتاؤ نہ کر رہے ہوں ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ دوسرا حصہ آیات 10 ۔ 11 پر مشتمل ہے ۔ اس میں ایک اہم معاشرتی مسئلے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت بڑی پیچیدگی پیدا کر رہا تھا ۔ مکہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کافر تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاتی تھیں ۔ اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان مرد ایسے تھے جن کی بیویاں کافر تھیں اور وہ مکہ ہی میں رہ گئی تھیں ۔ ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج باقی ہے یا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ فیصلہ فرما دیا کہ مسلمان عورت کے لیے کافر شوہر حلال نہیں ہے ، اور مسلمان مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مشرک بیوی کو اپنے نکاح میں رکھے ۔ یہ فیصلہ بڑے اہم قانونی نتائج رکھتا ہے جن کی تفصیل ہم آگے اپنے حواشی میں بیان کریں گے ۔ تیسرا حصہ آیت 12 پر مشتمل ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جو عورتیں اسلام قبول کریں ان سے آپ ان بڑی بڑی برائیوں سے بچنے کا عہد لیں جو جاہلیت عرب کے معاشرے میں عورتوں کے اندر پھیلی ہوئی تھیں اور اس بات کا اقرار کرائیں کہ آئندہ وہ بھلائی کے ان تمام طریقوں کی پیروی کریں گی جن کا حکم اللہ کے رسول کی طرف سے ان کو دیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ الممتحنہ یہ سورت صلح حدیبیہ اور فتحِ مکہ کے درمیانی عرصے میں نازل ہوئی ہے، ان دونوں واقعات کی تفصیل پیچھے سورہ فتح کے تعارف میں گزرچکی ہے۔ اس سورت کے بنیادی موضوع دو ہیں، ایک صلح حدیبیہ کی شرائط میں جو بات طے ہوئی تھی کہ اگر مکہ مکرَّمہ سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منوَّرہ آئے گا تو مسلمان اُسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے، اس کا اطلاق مسلمان ہو کر آنے والی عورتوں پر نہیں ہوگا، اور اگر کوئی عورت مسلمان ہو کر آئے گی تونبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کا جائزہ لے کر دیکھیں گے کہ کیا واقعی مسلمان ہو کر آئی ہے، یا آنے کا مقصد کچھ اور ہے۔ اگر اس جائزے سے یہ بات ثابت ہو کہ وہ واقعی مسلمان ہو کر آئی ہے تو پھر اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ اس صورت میں اگر وہ شادی شدہ ہو، اور اس کا شوہر مکہ مکرَّمہ میں رہ گیا ہو، اُس کے نکاح اور مہر وغیرہ سے متعلق کیا اَحکام ہوں گے ؟ وہ بھی اس سورت میں بیان فرمائے گئے ہیں، اور جن مسلمانوں کے نکاح میں ابھی تک بت پرست عورتیں تھیں، ان کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اب وہ ان کے نکاح میں نہیں رہ سکتیں۔ چونکہ اس سورت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان عورتوں کا امتحان یا جائزہ لینے کا حکم دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام ممتحنہ ہے، یعنی امتحان لینے والی۔ سورت کا دُوسرا موضوع جو بالکل شروع میں بیان ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے غیر مسلموں سے کس قسم کے تعلقات رکھنا جائز ہے اور کس قسم کے ناجائز، چنانچہ سورت کو اس حکم سے شروع فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو دُشمنوں سے خصوصی دوستی نہیں رکھنی چاہئے۔ ان آیتوں کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ سورہ فتح کے تعارف میں ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کو مکہ مکرَّمہ کے کافروں نے دوسال کے اندر اندر ہی توڑدیا تھا، اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں پر واضح فرمادیا تھا کہ اب وہ معاہدہ باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد آپ نے مکہ مکرمہ کے کفار پر ایک فیصلہ کن حملہ کرنے کی تیاری شروع فرمادی تھی، لیکن ساتھ ہی کوشش یہ تھی کہ قریش کے لوگوں کو آپ کی تیاری کا علم نہ ہو۔ اسی دوران سارہ نام کی ایک عورت جو گانا بجاکر پیسے کماتی تھی، مکہ مکرَّمہ سے مدینہ منوَّرہ آئی اور اس نے بتایا کہ وہ مسلمان ہو کر نہیں آئی، بلکہ وہ شدید مفلسی میں مبتلا ہے، کیونکہ جنگ بدر کے بعد قریش مکہ کی عیش وعشرت کی محفلیں ویران ہوچکی ہیں، اب کوئی اُسے گانے بجانے کے لئے نہیں بلاتا۔ اس لئے مالی اِمداد حاصل کرنے کے لئے آئی ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنوعبدالمطلب کو اس کی مدد کرنے کی ترغیب دی، اور اُس کو کچھ نقدی اور کچھ کپڑے دے کر رُخصت کیا گیا۔ دُوسری طرف مہاجرین صحابہ کرام میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اﷲ عنہ ایک ایسے بزرگ تھے جو اصل میں یمن کے باشندے تھے، اور مکہ مکرَّمہ آکر بس گئے تھے، مکہ مکرَّمہ میں ان کا قبیلہ نہیں تھا، وہ خود تو ہجرت کرکے مدینہ منوَّرہ آگئے تھے، لیکن ان کے اہل وعیال مکہ مکرَّمہ ہی میں رہ گئے تھے، جن کے بارے میں اُنہیں یہ خطرہ تھا کہ کہیں قریش کے لوگ ان پر ظلم نہ کریں، دوسرے مہاجر صحابہ جن کے اہل وعیال مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، اُنہیں تو کسی قدر اطمینان تھا کہ ان کا پورا قبیلہ وہاں موجود ہے جو کافروں کے ظلم سے اُنہیں تحفظ دے سکتا ہے، لیکن حضرت حاطبؓ کے اہل وعیال کو یہ تحفظ حاصل نہیں تھا۔ جب سارہ نامی عورت مکہ مکرَّمہ واپس جانے لگی تو ان کے دل میں یہ خیال آیا کے اگر میں قریش کے لوگوں کو خفیہ طور پر ایک خط میں یہ اِطلاع دے دُوں کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ان پر حملہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں تو اس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا تو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ سے مکہ مکرمہ کی فتح کا وعدہ فرمارکھا ہے ؛ لیکن میری طرف سے قریش پر ایک احسان ہوجائے گا، اور اس احسان کی وجہ سے وہ میرے اہل وعیال کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایک خط لکھ کر سارہ کے حوالے کردیا کہ وہ قریش کے سرداروں کو پہنچادے۔ اُدھر اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی کہ سارہ ایک خفیہ خط لے کرگئی ہے، اور روضہ خاخ کے مقام تک پہنچ چکی ہے۔ آپ نے حضرت علیؓ، حضرت مرثدؓ اور حضرت زبیرؓ کو اس مہم پر روانہ فرمایا کہ وہ اس عورت کا پیچھا کرکے اُس سے وہ خط بر آمد کریں، اور یہاں واپس لے آئیں۔ یہ حضرات گئے اور انہوں نے وہ خط برآمد کرلیا۔ حضرت حاطبؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے معذرت کی، اور اپنی اس غلطی کی وجہ بیان کی جو اُوپر ذکر کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی نیک نیتی کی وجہ سے ان کی اس غلطی کو معاف فرمادیا۔ اسی واقعے پر اس سورت کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف سورة الممتحنہ سورة نمبر 60 کل رکوع 2 آیات 13 الفاظ و کلمات 370 حروف 1593 مقام نزول مدینہ منورہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب بدر کو اتنی عظمت عطا فرمائی ہے کہ ان کی بڑی سے بڑی غلطیاں بھی معاف کی جاسکتی ہیں۔ چناچہ جب حضرت حاطب ابن ابی بلتعہ (رض) سے ایک سخت قصور ہوا تو حضرت عمر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس کی گردن اڑا دوں تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا حضرت حاطب (رض) نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ تمہیں کیا خبر ہو سکتا ہے اللہ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر فیصلہ فرما دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو میں نے تمہیں معاف کردیا۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق (رض) رو پڑے اور انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی سب کچھ جانتے ہیں۔ آج بھی اگر کسی سے بیعت لی جائے تو اس کی یہی شرطیں رکھی جائیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے، چوری نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے ۔ وہ کسی پر بہتان نہ لگائیں گے اور وہ معروف چیزوں میں شریعت کے خلاف کوئی کام نہ کریں گے۔ اگر کوئی ان شرائط کو مانتا ہے تو اس سے بیعت لی جاسکتی ہے۔ آخر میں اس کے لئے دعائے مغفرت بھی کی جائے تاکہ اللہ اس کے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیں ۔ : ان آیات کے خلاصے سے پہلے ایک واقعہ کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ بات پوری طرح سمجھ میں آجائے۔ صلح حدیبیہ کے معاہدے کی کفار مکہ کی طرف سے جب مسلسل خلاف ورزیاں ہوتی چلی گئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرکے تیاریاں شروع کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی کسی مہم پر تشریف لے جاتے تو سوائے چند مخصوص لوگوں کے کسی کو اپنے ارادے سے مطلع نہ فرماتے۔ اس موقع پر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوائے چند مخصوص اصحاب (رض) کے کسی کو اپنے ارادے اور پروگرام سے مطلع نہ کیا تھا۔ خاموشی اور نہایت احتیاط سے تیاریاں شروع کردی گئیں۔ اسی دوران مکہ معظمہ سے بنی عبد المطلب کی ایک غلام عورت جس نے آزاد ہونے کے بعد گانے بجانے کا پیشہ اختیار کرلیا تھا وہ حالات سے تنگ آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مدینہ منورہ کسی مال امداد کے لئے پہنچی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی عبد المطلب سے اپیل کرکے اس کی مدد کرا دی۔ جب وہ مکہ مکرمہ جانے لگی تو بدری صحابی حضرت حاطب (رض) ابن ابی بلتعہ نے اسے سرداران مکہ کے نام ایک خط دیا اور کہا کہ یہ خط چپکے سے مکہ کے سرداروں تک پہنچا دینا اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔ اسے رازداری کے لئے دس دینار بھی دیدئیے۔ ابھی وہ مدینہ سے روانہ ہوئی تھی کہ اللہ نے وحی کے ذریعہ بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے مطلع فرمادیا۔ آپ نے حضرت علی (رض) ، حضرت زبیر (رض) اور حضرت مقداد (رض) ابن اسود کو اس عورت کے پیچھے بھیجا۔ کچھ دور میں وہ عورت مل گئی۔ ان صحابہ (رض) نے کہا کہ جو خط تم لے کر جا رہی ہو وہ ہمیں دیدو۔ پہلے تو اس نے انکار کیا لیکن جب اس کو دھمکی دی گئی تو اس نے وہ خط نکال کر صحابہ کرام (رض) کے حوالے کردیا۔ اس خط کو صحابہ (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیا۔ اس خط میں حضرت حاطب (رض) نے سرداران مکہ کو اس بات کی خبر دی تھی کہ بہت جلد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت حاطب (رض) سے پوچھا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری والدہ، بھائی اور بچے مکہ میں ہیں اور میں قریش کے قبیلے کا آدمی نہیں ہوں۔ جب وقت پڑے گا تو جن کے اہل و عیال مکہ میں رہ گئے ہیں ان کو تو ان کے قبیلے والے بچالیں گے مجھے کوئی قبیلہ بچانے والا نہ ہوگا۔ میں نے قریش پر احسان رکھنے کے لئے یہ خط لکھا تا کہ وہ میرے اہل و عیال کا خیال رکھیں اور ان کی حفاظت کریں۔ یہ سن کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حاطب (رض) نے سچی بات کہی ہے یعنی یہ سب کچھ کرنے میں وہ اسلام سے منکر نہیں ہوئے انہوں نے محض اپنے گھر والوں کی خاطر ایسا قدم اٹھایا۔ سورة الممتحنہ میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے مومنو ! اگر تم میری رضا و خوشنودی کے لئے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بنائو۔ تم تو ان سے محبت کا اظہار کرتے ہو مگر انہوں نے تو اس سچائی کا وہی انکار کردیا ہے جس سے اللہ نے تمہیں نوازا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تمہیں صرف اس وجہ سے شہر مکہ معظمہ چھوڑنے پر مجبور کردیا کردیا تھا کہ تم اس پر اللہ پر ایمان لے آئے ہو جو تمہارا رب ہے۔ یہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ تم چھپا کر ان کو دوستی کے پیغام بھیجو۔ ہر ایک کو یاد رکھنا چاہیے کہ تم نے جس کام کو چھپ کر یا کھل کر کیا اسے اللہ پوری طرح جانتا ہے۔ جو شخص تم میں سے کوئی ایسا کام کرے گا تو یہ ایک راستہ سے بھٹک جانے کی بات ہوگی۔ فرمایا کہ ان کافروں کا یہ حال ہے کہ اگر وہ آج تم پر قابو پالیں تو نہ صرف تم سے دشمنی نکالیں گے بلکہ تمہیں ہاتھ اور زبان سے تکلیفیں پہنچائیں گے۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کافر بن جائو۔ لیکن یاد رکھو قیامت کے اس دن تمہاری رشتہ داریاں اور تمہاری اولادیں تمہارے کام نہ آسکیں گی جب وہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا۔ وہ تمہارے ہر فعل کو اچھی طرح جانتا ہے تمہارے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی زندگی ایک بہترین نمونہ اور مثال ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان من گھڑت معبودوں سے نفرت کرتے ہیں جنہیں تم نے اللہ کی عبادت اور بندگی میں شریک کر رکھا ہے۔ تمہارے اور ہمارے درمیان ہمیشہ کی دشمنی ، مخالفت اور عداوت ہی کیوں نہ ہو جب تک اللہ پر ایمان نہ لائو گے ہم تم سے الگ رہیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب تک معلوم نہ تھا انہوں نے اپنے والد سے یہ کہہ دیا تھا کہ میں آپ کے لئے دعائے مغفرت کروں گا لیکن جب ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس اقدام سے بیزاری کا اظہار کردیا تو یہ واقعہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ دعا فرماتے تھے اے ہمارے پروردگار ! ہم آپ پر بھروسہ کرتے ہیں آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں کیونکہ ہمیں آپ ہی کے پاس پلٹ کر آنا ہے۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا دیجئے گا، ہماری مغفرت فرما دیجئے۔ بیشک آپ ہی زبردست حکمت والے ہیں۔ فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کی روش زندگی تمہارے لئے اور ہر اس شخص کے لئے بہترین نمونہ زندگی ہے جو اللہ اور قیامت کے دن اللہ کی رحمت کا امیدوار ہے۔ اگر کوئی اس سے منہ پھیرتا ہے تو اللہ بےنیاز اور تمام تعریفوں کا حق دار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ (١) یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان الفت و محبت پیدا کردے جو تم سے آج دشمنی کر رہے ہیں وہ اللہ ہر چیز قدرت رکھنے والا، مغفرت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ (٢) فرمایا کہ اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا معاملہ کرو جن لوگوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالنے میں کسی طرح کی مدد کی۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تمہیں ان لوگوں سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی۔ تمہیں تمہارے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا اور اس سلسلہ میں ایک دوسرے کی مدد کی۔ ان ظالموں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ (٣ ) فرمایا کہ اے ایمان والو ! جب مومن عورتیں (مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ) ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں تو ان کو اچھی طرح جانچو لو۔ ویسے اللہ تو ہر ایک کے حقیقت ایمان سے واقف ہے۔ جب تمہیں یقین ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کے حوالے نہ کرو۔ کیونکہ وہ کافروں کے لئے اور کافران کے لئے حلال نہیں ہیں۔ مہر کے متعلق فرمایا ؛ ٭ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دئیے تھے وہ انہیں واپس کردو۔ ان سے اگر تم نکاح کرنا چاہتے ہو تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے تم ان کے مہر ادا کردو۔ ٭اور تم خود بھی ایسی عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھو جو کافر ہیں۔ جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دئیے تھے وہ تم ان سے واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دئیے تھے وہ انہیں واپس مانگ لیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے وہ اللہ جو ہر بات کی ہر حکمت کو جانتا ہے۔ ٭اور اگر تمہاری کافر بیویوں کے مہروں میں سے کچھ تمہیں کفار سے واپس نہ ملے اور پھر تمہارا نمبر آجائے تو جن لوگوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کو اتنی رقم ادا کر دو جو ان کے دئیے ہوئے مہروں کے برابر ہو۔ اس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر ایمان لائے ہو۔ (٦) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جب وہ عورتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیعت کرنے کے لئے آئیں اور وہ اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنانہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اپنے ہاتھ اور پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی معروف بات میں نافرمانی نہ کریں گی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بیعت لے لیجئے۔ ان کے لئے دعائے مغفرت کیجئے۔ بیشک اللہ مغفرت کرنے والا ہے۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر ارشاد فرمایا گیا کہ تم ان لوگوں کو دوست نہ بنائو جن پر اللہ نے غضب نازل کیا ہے جو آخرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر (اللہ کی رحمت سے) مایوس ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورت الممتحنہ کا تعارف یہ سورت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی، تیرہ آیات پر مشتمل ہے، اس کے دو رکوع ہیں۔ اس کا نام اس کی دسویں آیت سے ماخوذ ہے اس میں مسلمانوں کو پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ اے مسلمانوں اگر تم حقیقتاً ” اللہ “ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو پھر تمہیں کفار کے ساتھ قلبی محبت نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ انہوں نے تمہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکلنے پر اس لیے مجبور کیا ہے کہ تم اپنے رب پر ایمان لائے ہو، یاد رکھو جس نے حکم آجانے کے باوجود کفار کے ساتھ دلی محبت رکھی وہ سیدھے راستے سے بھٹک جائے گا تمہیں ہر حال میں ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کا طریقہ اپنانا چاہیے۔ ان کا کردار یہ تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کو دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا۔ (قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِِنَّا بُرَء آ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوۃُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا باللّٰہِ وَحْدَہٗ ) (الممتحنہ ٤) ” تمہارے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے۔ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی طور پر بیزار ہیں، ہم اس وقت تک تمہارا انکار کرتے رہیں گے۔ جب تک تم اللہ واحدہ پر ایمان نہیں لاتے ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور دشمنی ہوچکی ہے۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا طریقہ وہی شخص اختیار کرے گا جو شخص ” اللہ “ کی ملاقات اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس حکم کے بعدیہ ارشادہوا کہ اے ایمانداروں جب ایمان کا دعوہ کرنے والی عورتیں تمہارے پاس آئیں تو ان کے ایمان کے بارے میں ان کا امتحان لیا کرو اگر ان کا ایمان ثابت ہوجائے تو انہیں کفار کی طرف واپس نہیں کرنا۔ ایمانداروں کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ جب آپ کے پاس بیعت لینے کے لیے عورتیں آئیں تو آپ ان سے اس بات پر بیعت لیا کریں : 1 اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا 2 چوری نہیں کرنا 3 بدکاری نہیں کرنا 4 اپنی اولاد کو قتل نہیں کرنا 5 کسی پر تہمت اور الزام نہیں لگانا 6 نیکی کے کاموں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرنی نہیں کرنا جب بیعت کرلیں تو آپ ان کے لیے اپنے رب کے حضور استغفار کریں یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة الممتحنۃ ایک نظر میں یہ سورت بھی اس تربیتی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو مدینہ میں اسلامی سوسائٹی کی تنظیم اور اسلامی حکومت کی تشکیل اور تربیت کے لئے ہورہی تھی۔ اس سلسلہ تربیت اور اس اسلامی منہاج کی یہ ایک کڑی ہے ، جس کے ذریعہ اللہ اپنا ایک پسندیدہ نظام زندگی ، اس دنیا میں پوری انسانیت کے لئے بطور نمونہ قائم کرکے دکھانا چاہتا تھا۔ ایسا نمونہ جو عملاً کسی سوسائٹی میں نافذ ہو ، اور اس کے مخصوص فیچر ہوں ، الگ شخصیت ہو اور الگ خدوخال ہوں ۔ جہاں تک انسانیت کی عملی صورت حال ہے تو وہ کبھی کبھار اس تک پہنچ جاتی ہے۔ کبھی اس سے پیچھے رہتے ہے ، لیکن یہ معیار اس کے سامنے ہو ، اس کا ہدف ہو اور وہ اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہی کہ ایک دن ایسا نظام بھی قائم رہا۔ ہم بھی ایسا کرکے رہیں گے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ، اس قسم کے نظام کے قیام کے لئے ایک مرحلہ وار تیاری اور جدوجہد کی ضرورت تھی۔ وہ واقعات جو جماعت کے اندر واقع ہوتے تھے ، یا جماعت کے ساتھ متعلق ہوتے تھے وہ اس تیاری کے لئے بنیادی عنصر کا کام دیتے تھے۔ یہ مواد علم الٰہی میں طے شدہ تھا اور ان واقعات کی بنیاد پر تبصرہ ، توضیح اور تشریح اور تجزیہ ان پر مزیدوضاحت کے لئے ہوتا اور یوں جماعت کی تربیت کا کام جاری تھا۔ مدینہ کی عملی زندگی کی پے درپے امواج اور واقعات وحادثات کے اضطراب میں یہ تربیت پایہ تکمیل پہنچی اور یہ جماعت تیار ہوئی جس نے اسلامی نظام حیات کو عملاً دنیا میں رائج کرنا تھا۔ یہ جماعت عملی زندگی سے کہیں الگ تھلگ نہ تھی۔ یہ اس معاشرے کے اندر رہ کر تربیت پارہی تھی۔ البتہ اپنے عقیدے اور تصور کے اعتبار سے اور اپنی نفسیاتی تشکیل کے اعتبار سے ، اور اپنے افکار اور تصورات کے لحاظ سے اس وقت کی پوری دنیا سے خصوصاً جزیرۃ العرب کے جاہلی تصورات سے ، بالکل الگ ہوگئی تھی اور اس مسلسل تربیت کے ذریعے اس کو اپنے اس ممتاز نظریہ حیات میں عمداً الگ کیا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی فکری دنیا میں کوئی ایسی بات نہ ہوئی جو جدید اسلامی اور ایمانی فکر سے اجنبی ہو۔ لیکن یہ لوگ جو دینی اور فکری اعتبار سے معاشرہ سیالگ تھلگ تھے ، وہ عملی لحاظ سے اسی معاشرے کے اندر رہتے تھے۔ بلکہ ان کو ہر روز نئے نئے حادثات اور واقعات کی بھٹی میں تپاکر اور بار بار آزمائشوں سے گزار کر اور دھات کی طرح بار بار گرم کرکے صاف کیا جارہا تھا۔ ان پر مختلف اطراف سے اثر انداز ہونے والے عوامل کے اثرات ڈال کر آزمایا جاتا تھا۔ کیونکہ اللہ جس نے ان نفوس کو پیدا کیا تھا وہ جانتا تھا کہ صرف ایک بار کی کیفیت ، ایک بار کا تسلیم کرلینا اور جوس میں کسی بات کو اپنا لینا مکمل تربیت کے لئے کافی نہ تھا۔ اللہ کو علم تھا کہ ماضی کے جمع شدہ افکار ، ماضی کی دلچسپیاں اور میلانات ، پھر انسان کی فطری کمزوریاں ، پھر انسان پر اثر انداز ہونے والے حالات ، انسان کی عادت کی مجبوریاں ایسی رکاوٹیں ہیں کہ جنہیں صرف ایک ہی نشست میں دور نہیں کیا جاسکتا ، انہیں بار بار آزمانے اور تپانے کی ضرورت ہے۔ بار بار کی نصیحت اور یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ چناچہ اللہ کے نظام تقدیر کے مطابق ایک ایک واقعہ پردہ تقدیر کے پیچھے سے نمودار ہوتا رہا اور اس کی روشنی میں ان کی آزمائش ، نصیحت اور عبرت آموزی ہوتی رہی اور بار بار ہدایات دی جاتی رہیں۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت بیدار رہتے تھے اور بصیرت افروز الہام بھی ان کی مدد کر رہا تھا اور ہر وقت ، واقعات وحادثات پیش آتے رہتے تھے اور ان کی روشنی میں آپ اس جماعت کو ہدایات دیتے رہتے تھے۔ وحی والہام بھی اپنا کام کررہے تھے۔ اس طرح اللہ کی عین نگرانی میں اس جماعت کو بنایا جارہا تھا۔ لتصنع علی عینی یہ سورت بھی اس تیاری کا ایک حصہ ہے۔ اس کا اور اس جیسی تمام دوسری سورتوں کا مقصد یہ ہے کہ قلب مومن کے اندر ایک ربانی دنیا کی تخلیق کی جائے ۔ اس دنیا کا محور صرف ایمان ہو۔ مسلمان اس ایمان کے محور کے گرد گھوم رہے ہوں۔ ان سب کے ہاتھ میں ایک ہی رسی مضبوط تھامی ہوئی ہو ، ان کے نفوس عصبیت جاہلیہ سے پاک ہوں۔ ہر قسم کی عصیبت سے جو قوم نسل ، خاندان اور زمین کے تصورات پر بنی ہوتا کہ ان تمام تصورات اور تعلقات کو ختم کرکے اس کی جگہ ایک ہی رابطہ قائم کردیا جائے ، یعنی ایمانی تعلق ، ایک ہی پارٹی ہو یعنی حزب اللہ اور ایک ہی جھنڈا ہو یعنی اسلامی جھنڈا۔ اسلام جس قسم کی دنیا وجود میں لانا چاہتا ہے وہ ربانی اور انسانی دنیا ہے۔ اس معنی میں ربانی وہ اپنی تمام ہدایات اللہ کے احکام ، اللہ کی ہدایات اور شریعت سے اخذ کرے اور اپنے شعور اور عمل میں وہ اللہ کی سمت کی طرف متوجہ ہو۔ اور انسان اس مفہوم میں کہ اس کی لپیٹ میں تمام جنس انسانی آجائے۔ ایمانی عقائد ونظریات کی حدود میں اور اس ربانی اور انسانی دنیا سے اسلام نسلی ، وطنی اور لسانی عصبیت کو یکسر ختم کرنا چاہتا ہے۔ اور ان کے علاوہ وہ تمام چیزوں کو مٹانا چاہتا ہے جس کے ذریعہ انسان اور انسان کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ یہی وہ بلند دنیا ہے جس میں کوئی انسان صحیح انسانی زندگی بسر کرسکتا ہے جس میں شرافت اور روحانیت کا اجتماع ہوسکتا ہے۔ اس دنیا کے قیام کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں قائم ہیں۔ عربی معاشرے میں یہ رکاوٹیں تھیں اور آج کے اس مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے میں بھی گرانے کے تعصبات ، خاندانی تعصبات ، قوم کے تعصبات ، نسل کے تعصبات اور زمین ووطن کے تعصبات سب ان میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بعض دوسری رکاوٹیں بھی ہیں۔ انسان کے ذاتی مرغوبات ، انسان کی خواہشات ، حرص ، لالچ ، کنجوسی ، دولت کی بھوک ، پھر ذاتی برتری اور نفسیاتی الجھنیں اور اسی قسم کی دوسری رکاوٹیں۔ اس لے اسلام کے یہ پیش نظر تھا کہ وہ ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرے۔ اور علاج کے سلسلے میں یہ سورت بھی ایک علاج ہے ، اور ان تربیتی کڑیوں میں سے یہ بھی ایک کڑی ہے ، جو پہلے جماعت مسلمہ کی تربیت کے لئے اختیار کی گئیں۔ مسلمانوں میں ابھی بعض لوگ ایسے تھے ، جنہوں نے اگرچہ اپنا علاقہ ، اپنا گھر ، اپنا مال اور اپنے اہل و عیال اور اپنا خاندان مکہ میں چھوڑ دیا تھا لیکن ان کے دل ابھی تک مکہ کے ان لوگوں اور چیزوں کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے قریش کے ہاتھوں نہایت دکھ اور درد کے تھے لیکن ابھی تک بعض لوگوں کی یہ خواہش تھی کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان صلح ہوجائے اور یہ جھگڑا ختم ہوجائے ، جس میں دونوں طرف سے لوگ اپنے بھائیوں کو قتل کررہے ہیں۔ اس لئے ایسے لوگ موجود تھے جو چاہتے تھے کہ یہ خصومت ختم ہوجائے۔ اللہ کا منشا یہ تھا کہ اس قسم کے دلوں سے اس قسم کے تعلقات اور ہمدردیوں کا صفایا ہوجائے۔ اور وہ اپنے دین ، عقیدے ، نظریات اور نظام کے لئے یکسو ہوجائیں۔ اللہ جانتا تھا کہ ان تعلقات اور میلانات میں سے بعض انسانی فطرت کے بہت قریب تھے ، پھر ان میں سے بعض جاہلیت کے تہہ بہ تہہ افکار کی وجہ سے ابھی باقی تھے جو دلوں کے اندر بیٹھے ہوئے تھے پھر یہ لوگ عرب تھے ، جن کے اندر قبیلے کی عصبیت ، خاندان عی عصبیت ، گھرانے کی عصبیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ چناچہ قرآن کریم ہر روز کسی نہ کسی واقعہ کے ضمن میں ان کے دلوں کو صاف کرنے میں لگا ہوا تھا جو بھی واقعہ ہوتا کوئی سورت اس کا تجزیہ کرتی اور اس سے سبق نکالتی تاکہ یہ تربیت اور یہ علاج قابل فہم ہوجائے۔ اور محض نظریاتی تربیت کے بجائے عملی تربیت ہو۔ روایات میں ایک متعین واقعہ بھی نقل ہوا ہے جس کے سارے میں اس سورت کے ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ ممکن ہے کہ یہ آیات اسی واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہوں لیکن نصوص کا مفہوم اور مراد ایک اصول کی شکل میں ہوتا ہے اور ان کا اطلاق عام ہوتا ہے ، زمان ومکان کا پابند نہیں ہوتا ، نالہ پابند نے نہیں ہے۔ اس حادثہ کے بارے میں روایت ہے۔ حضرت حاطب ابن ابوبلتعہ مہاجرین میں سے تھے ، اور اہل بدر سے تھے ، مکہ میں ان کی اولاد اور مال تھا۔ یہ اہل قریش میں سے نہ تھے بلکہ عثمان کے حلفا میں سے تھے۔ جب رسول اللہ نے عزم کیا کہ مکہ پر حملہ کیا جائے۔ کیونکہ اہل مکہ نے معاہدہ حدیبیہ کو توڑ دیا تھا ، تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اس جنگ کے لئے تیاری کا حکم دے دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی اے اللہ اہل مکہ کو ہماری تیاریوں کی خبر نہ ہو۔ اللھم عم علیھم خبرنا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صاحبہ میں سے ایک جماعت کے سامنے اپنے ارادے کا اظہار کردیا۔ ان میں سے حاطب تھی۔ حاطب نے ایک لکھا اور مشرک عورت کے ہاتھ اسے اہل مکہ کے لئے بھیجا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارادہ ہے۔ یہ عورت مزینہ قبیلہ کی تھی اور مدینہ میں مانگنے کے لئے آئی تھی۔ اس اطلاع سے حضرت حاطب کی غرض یہ تھی کہ ان کے ہاں ان کا تعلق ہوجائے۔ چناچہ اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع کردی کہ آپ کی دعا منظور ہے اور اس خط کی اطلاع دے دی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کے پیچھے آدمی رواہ کیے اور اس سے خط لے آئے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے حصین ابن عبدالرحمن سے انہوں نے سعد ابن عبدہ سے ، انہوں نے عبدالرحمن سلمیٰ سے انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ، ابومرھند اور زبیر ابن العوام کو تیز رفتار گھوڑوں پر بھیجا۔ تم جائو اور مقام روضہ خاخ میں مشرکین کی ایک عورت جارہی ہے ، اس کے پاس حاطب ابن ابو بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین مکہ کے نام ہے۔ ہم نے اس عورت کو سای مقام پر پایا۔ جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ یہ اپنے اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اسے کہا نکالو خط۔ تو اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اونٹ کو بٹھایا اور خوب ڈھونڈا خط نہ تھا۔ ہم نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی جھوٹ نہیں بولتے ، خط نکالو ورنہ ہم تجھے ننگا کردیں گے۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ لوگ سنجیدہ ہیں اور وہ ازار باندھنے کی جگہ کی طرف جھکی اور اس نے ایک کپڑے سے خط نکالا۔ اس نے ازار بند کی جگہ سے باندھ رکھا تھا۔ ہم خط لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف گئے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خیانت کی ہے ، براہ کرم مجھے چھوڑیں کہ اس کی گردن تن سے جدا کردوں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے جو کچھ کیا اس پر تمہیں کس چیز نے مجبور کیا۔ حضرت حاطب نے کا ، خدا کی قسم مجھے کچھ بھی نہیں ہے ، میں اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والا ہوں ، میں چاہتا تھا کہ اہل قریش کے ہاں میرا ایک احسان ہو ، جس کے ذریعہ اللہ میرے بچوں اور مال کی حفاظت کا بندوبست کردے۔ اور اے پیغمبر…………آپ کے سب ساتھیوں کا مکہ میں کوئی نہ کوئی رشتہ دار ایسا ہے جو ان کے مال اور بچوں کی جان کی حفاظت کرتا ہے۔ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ شخص سچ کہتا ہے ، اس کے بارے میں کوئی بری بات نہ کرو ، حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس نے اللہ ، رسول اللہ…………اور مومنی کے ساتھ خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑادوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، کیا یہ بدری نہیں ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید کہا شاید اللہ اہل بدر کے پاس آیا اور ان کو کہہ دیا کہ جو چاہو کرو ، تمہارے لئے تو جنت واجب ہوگئی ہے۔ یا یہ فرمایا کہ تم معاف کردیئے گئے ہو۔ اس پر حضرت عمر کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور فرمایا اللہ اور رسول اللہ……زیادہ جانتے ہیں۔ امام بخاری کی کتاب المغازی میں اس روایت پر یہ اضافہ کیا ہے۔ تو اللہ نے یہ سورت نازل کی : یایھا الذین…………بالمودۃ (1:60) ” اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو ، تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو “۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو لوگ بھیجے گئے تھے وہ علی ، زبیر اور مقداد تھے۔ یہاں ہم قرآن کے سایہ کی حدود سے آگے نہ نکلیں گے ، اگر ہم قدرے کھڑے ہوکر اس واقعہ پر غور فکر کریں اور دیکھیں کہ مربی اعظم حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح کے واقعات اور حادثات میں جماعت کو کس طرح تربیت دیتے تھے اور کیسے فیصلے فرماتے تھے۔ لہٰذا اس واقعہ پر قدرے غور کی ضرورت ہے۔ (1) سب سے پہلے یہ کہ حضرت حاطب کا فعل قابل غور ہے۔ آپ مسلم اور مہاجر تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جن کے سامنے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ راز کھول دیا تھا۔ اس فعل پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ نفس انسانی کے اندر بھی نشیب و فراز ہوتے ہیں۔ مختلف چیزیں انسانوں پر اثر انداز ہوتی ہیں ، نفس انسانی جس قدر تربیتی مراحل سے گزرے ، جس قدر کمال و جمال کا حامل ہو ، اس کے اندر کمزور اور ضعیف مقامات ہوتے ہیں۔ یہ اللہ ہی ہے جو انسانوں کو لغزشوں سے بچاتا ہے۔ (2) اس واقعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور تحمل بھی نظر آتا ہے۔ آپ نہایت ہی دھیمے انداز میں پوچھتے ہیں کہ یہ کام کرنے پر تم کیوں مجبور ہوگئے ، آپ کی تفتیش نہایت کھلے دل سے ہے اور آپ نہایت ہی مہربانی سے پوچھتے ہیں۔ حالانکہ ان سے غلطی سرزد ہوچکی ہے۔ آپ الہامی ذریعہ سے معلوم کرلیتے ہیں کہ ان کا جواب درست ہے ، اور صحابہ کرام کو روک دیتے ہیں کہ ان کے بارے میں کچھ نہ کہا جائے۔ صدق لا تقولوا الا خیرپس یہ فیصلہ ہوگیا۔ یوں آپ نے ان کی مدد کی اور انہیں اس غلطی سے نکلنے کے لئے ہمت دی۔ آپ نے ان کا پیچھا نہ کیا اور نہ دوسروں سے کہا ہے کہ ان کا پیچھا کرو۔ جبکہ حضرت عمر (رض) کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کی ننگی تلوار ہیں۔ سچے اور دوٹوک فیصلہ کرنے والے۔ ” اس نے اللہ ، رسول اللہ……اور مومنین کے ساتھ خیانت کی ہے ، اجازت دیجئے کہ اس کی گردن اڑادوں “۔ حضرت عمر (رض) صرف گناہ کو دیکھ رہے ہیں اور اپنے جوش ایمانی سے مغلوب ہیں۔ لیکن رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اپنے وسیع علم ، نفس انسانی کی مجموعی حقیقت ، اور ہر پہلو سے حالات پر نظر رکھتے ہیں اور ان وسیع معلومات کے ساتھ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رئوف ورحیم ہونا بھی اپنی جگہ ہے۔ اور آپ ایسے مربی ہیں کہ ہر پہلو آپ کی نظر میں ہے ، اس لئے آپ کا رویہ حضرت عمر (رض) سے مختلف ہے۔ (3) پھر حضرت حاطب کے الفاظ ، وہ نہایت کمزور پوزیشن میں ہیں ، لیکن اس زمین کے اسباب اور اللہ کی تقدیر کے بارے میں ان کا تصور مومنانہ ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ اردت ان تکون لی عند القوم ید ” یعنی میں نے یہ ارادہ کیا کہ اس قوم میں یا کوئی ہاتھ ہو جو میرے مال اور اولاد کو بچائے “۔ اصل میں بچانے والا تو اللہ ہے۔ یہ ذریعہ یا ہاتھ کو بچانے والا نہیں ہوتا۔ اس کے ذریعہ اللہ بچاتا ہے۔ اس تصور کو وہ اپنی باقی بات میں بیان کرتا ہے۔ ولیس احد من اصحابک الالہ ھناک من عشیرتہ من یدفع اللہ بہ عن اھلہ ومالہ ۔ آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے وہاں کوئی رشتہ دار نہ ہوں ، جن کے ذریعہ اللہ اس کے مال اور اہل و عیال کو بچاتا ہے “۔ اللہ ان کے تصور میں موجود ہے کہ بچاتا اللہ ہی ہے ، چاہے وہ جس کے ذریعے بچائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے کلام میں گہری سچائی کو پایا۔ اس لئے آپ نے حکم دیا کہ یہ سچ کہتے ہیں ، ان کے بارے میں ماسوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہ کہو۔ (4) اس حادثے میں اللہ کی تقدیر اپنی جگہ کام کررہی ہے کہ حاطب ان چند محدود افراد میں سے تھے جن کو حملے کا راز بتایا گیا تھا۔ یہ چند گنے چنے لوگوں میں سے تھے مگر ان سے کمزور یسرزد ہوگئی۔ دست قدرت اس نقصان سے مسلمانوں کو بچاتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ مقصودیہ تھا کہ یہ بات کھل جائے اور اس کا بندوبست کردیاجائے۔ پھر دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی اس واقعہ کو کوئی مسئلہ نہیں بنایا گیا۔ کہ یہ کیوں ایسے ہوا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ دیکھئے جی ایسے لوگوں کو رازبتایا جاتا ہے جو چھپاتے ہی نہیں ، بلکہ خیانت کرتی ہیں اور ہمیں نہیں بتایا جاتا۔ اگر ہمیں بتایا جاتا تو ہم حفاظت کرت۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان اپنی قیادت کا کس قدر احترام کرتا ہے وہ حسن ظن میں کس قدر متواضع ہوتا ہے اور جس بھائی سے غلطی ہوجائے اس کے ساتھ رویہ کیا رکھتا ہے۔ یہ واقعہ متواتر احادیث میں آتا ہے۔ البتہ یہ کہ یہ آیات اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ یہ صرف بخاری شریک کی ایک ہی روایت میں ہے اور بخاری کی روایت بھی درست ہے ، لیکن قرآن کی نص کا مضمون عام ہے ، اور نہایت وسیع ہے۔ اور ایک وسیع دائرہ عمل کو اپنے اندر لیتا ہے۔ حضرت حاطب کے واقعہ سے بھی بہت وسیع۔ یہ قرآن کا انداز ہے کہ قرآن ایک جزئی واقعہ کے نتیجے میں ایک اصول وضع کردیتا ہے۔ اس دور میں لوگوں کے باہم تعلقات کی نوعیت بدل رہی تھی۔ رشتہ داری ، چھوٹی چھوٹی عصبیتیں ، لوگوں کی موروثی عادات اور محدود مقامی وابستگیاں ٹوٹ رہی تھیں اور ان کی جگہ عالمی انسانی تصورات لے رہے تھے۔ نفوس انسانی کے سامنے کئی تصاویر بن رہی تھیں۔ جدید قدریں پروان چڑھ رہی تھیں ، جدید پیمانے اور ترازو لگ رہے تھے۔ زندگی ، کائنات ، اور انسان کے بارے میں جدید تصورات آرہے تھے۔ زمین کے اوپر انسان کے نئے مقاصد ترجیح پا رہے تھے اور وجود انسانی اور مقاصد انسانی اور اہدای ومنازل از سر نو متعین ہورہے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس نئی جماعت کو ایک فصل کی طرح بورہا تھا اور چھوٹے چھوٹے پودوں کی شکل میں یہ فصل اگ رہی تھی۔ اور یہ کام اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگرانی میں ہورہا تھا اللہ اس جماعت کو سکھارہا تھا کہ تمہاری تخلیق کا مقصد کیا ہے ۔ ان کو بتایا جارہا تھا کہ تمہارے ارد گرد کے لوگ تمہیں مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کو بتارہا تھا کہ تم میری پارٹی ہو ، تمہارے ذریعہ سے میں نے یہاں بہت بڑا انقلاب برپا کرنا ہے۔ دنیا کی تقدیر بدلنی ہے۔ اس لئے تمہیں خاص خصوصیات اور صفات اور علامات دی جارہی ہیں۔ تم اللہ کے جھنڈے بلند کرو گے اور ان علامات ، خصوصیات اور جھنڈوں سے تمہاری پہچان ہوگی۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ لہٰذا تم اللہ کے لئے خالص ہوجائو۔ اس کے دل بن جائو ، صرف اللہ اور اللہ کے حوالے سے تعلقات رکھو۔ رابطے کے تمام دوسرے طریقوں کو کاٹ دو ۔ عمل میں بھی اور فکر و شعور میں بھی۔ یہ پوری سورت اسی رخ پر چل رہی ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے آخر میں مومنات ومہاجرات کے بارے میں جو قانون آتا ہے ، وہ بھی صرف تعلق ایمانی کے رخ ہی پر ہے۔ ان سے بعیت ایمانی لی جاتی ہے۔ اور ان کے اور ان کے خاوندوں کے درمیان جدائی کردی جاتی ہے۔ اسی طرح مومنین اور ان کی کافر بیویوں کے درمیان بھی جدائی کردی جاتی ہے۔ یہ دراصل نظریاتی اور جدید روابط ہی کی ایک شکل ہے ، جو اس سورت کا موضوع ہے۔ سورت کا خاتمہ بھی اسی پر ہے ، جس پر آغاز ہوا کہ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی مت کرو۔ جب کہ ان پر اللہ کا غصب ہے۔ خواہ وہ مشرک ہوں یا یہودی ہوں۔ یوں اسلامی رابطے کے سوا تمام روابط کو ختم کردیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان صرف ایمان کا رابطہ رہ جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi