Surat ul Mumtahina

Surah: 60

Verse: 2

سورة الممتحنة

اِنۡ یَّثۡقَفُوۡکُمۡ یَکُوۡنُوۡا لَکُمۡ اَعۡدَآءً وَّ یَبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ وَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالسُّوۡٓءِ وَ وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ ؕ﴿۲﴾

If they gain dominance over you, they would be to you as enemies and extend against you their hands and their tongues with evil, and they wish you would disbelieve.

اگر وہ تم پر کہیں قابو پا لیں تو وہ تمہارے ( کھلے ) دشمن ہوجائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور ( دل سے ) چاہنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاء وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُم بِالسُّوءِ ... And whosoever of you does that, then indeed he has gone astray from the straight path. Should they gain the upper hand over you, they would behave to you as enemies, and stretch forth their hands and their tongues against you with evil, meaning, `if they gain the upper hand ove... r you, they would use every type of harm in their disposal to hurt you in words and action,' ... وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ and they desire that you should disbelieve. meaning, `they are eager that you do not earn any good. Therefore, their enmity to you is outward and inward, so how can you become supporters of this type of people?' This also encourages the enmity. Allah's statement, لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلاَ أَوْلاَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی تمہارے خلاف ان کے دلوں میں تو اس طرح بغض وعناد ہے اور تم ہو کہ ان کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس خوش فہمی کی بنا پر سیدنا حاطبص نے یہ کام کیا تھا۔ وہ توقع بھی عبث اور لاحاصل تھی۔ ان کافروں کے دلوں میں تمہارے لیے اس قدر بغض وعناد ہے کہ وہ تمہیں زندہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کسر صرف اتنی ہے کہ ان کا بس نہیں چل رہا۔ اور اگر کسی وقت تم پر ان کا بس چل جائے تو ... پھر وہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرچکے ہیں۔ ان کی چیرہ دستیوں سے بچنے کے لیے صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ تم بھی انہی کی طرح پھر سے کافر بن جاؤ اور ان کی جمعیت میں شامل ہوجاؤ۔ بتاؤ کیا تم یہ پسند کرو گے ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اِنْ یَّثْقَفُوْکُمْ یَکُوْنُوْالَکُمْ اَعْدَآئً ۔۔۔۔: اس میں پچھلی آیت کے آخری جملے کی وجہ بیان فرمائی ہے ، یعنی تم میں سے جو شخص اس توقع پر کفار و مشرکین سے دوستی رکھے اور ان کی طرف خفیہ پیغام بھیجے کہ وہ مشکل وقت میں اس کے کام آئیں گے یا اس کے اہل و عیال کا خیال رکھیں گے تو وہ سیدھے راستے س بھ... ٹک کر غلط راستے پر چل پڑا ہے ، کیونکہ ان کافروں کے دلوں میں تمہارے لیے اس قدر بغض و عناد ہے کہ وہ تمہیں زندہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ، کسر صرف اتنی ہے کہ ان کا بس نہیں چل رہا اور تم ان کے قابو نہیں آرہے ۔ اگر کسی وقت ان کا بس چل جائے اور تم ان کے قابو میں آجاؤ تو وہ پہلے کی طرح تمہارے دشمن ہی ہوں گے اور اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں برائی کے ساتھ تمہاری طرف بڑھائیں گے ، تم پر دست درازی اور زبان درازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ، جیسا کہ فرمایا :(کَیْفَ وَاِنْ یَّظْہَرُوْا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلًّا وَّلَاذِمَّۃً ) ( التوبۃ : ٨)”( مشرکین کے کسی عہد کا اعتبار) کیسے ہوسکتا ہے جبکہ وہ اگر تم پر غالب آجائیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کریں گے اور نہ کسی عہد کا “۔ ٢۔ وَوَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ :” لو “ مصدریہ ہے :” ای ودوا کفر کم “ یعنی ان کی خواہش یہی ہوگی کہ تم کافر ہوجاؤ ، اس کے بغیر وہ تم سے کسی طرح بھی راضی نہیں ہوں گے ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ بقرہ (١٠٩، ١٢٠) اور سورة ٔ نساء (٨٩) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُم بِالسُّوءِ (Should they have access to you, they will become your enemies, and will stretch their hands and tongues towards you with evil;...60:2). The verse indicates how bitter are the feelings of disbelievers towards Muslims. They would use all means, their hands and their tongues, and would spare...  no effort to harm the Muslims. Therefore, it is impossible that when they find an opportunity in their favor and overpower Muslims, they will ever exercise tolerance towards them. وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُ‌ونَ (...and they desire that you should reject the (true) faith...60:2). The greatest desire of the non-believers& hearts is to see the Muslims revert to disbelief. Thus when the Muslims stretch their hand of friendship towards them, it will be at the cost of their belief. They will never be happy with the Muslims unless they give up their faith.  Show more

(آیت) اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ وَاَلْسِنَتَهُمْ بالسُّوْۗءِ ان لوگوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ موقع پانے کے باوجود تمہارے ساتھ کوئی روا داری برتیں گے اس کا کوئی امکان نہیں، ان کو جب کبھی تم پر غلبہ حاصل ہوگا تو ان کے ہاتھ اور زبان تمہار... ی برائی اور خرابی کے سوا کسی چیز کی طرف نہ اٹھیں گے۔ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ ، اس میں اشارہ ہے کہ جب تم ان سے دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ گے تو ان کی دوستی صرف تمہارے ایمان کی قیمت پر ہوگی، جب تک تم کفر میں مبتلا نہ ہوجاؤ، وہ کبھی تم سے راضی نہ ہوں گے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْۗءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ۝ ٢ ۭ ثقف الثَّقْفُ : الحذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه قيل : رجل ثَقِفٌ ، أي : حاذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه استعیر : المُثَاقَفَة «3» ، ورمح مُثَقّ... َف، أي : مقوّم، وما يُثَقَّفُ به : الثِّقَاف، ويقال : ثَقِفْتُ كذا : إذا أدركته ببصرک لحذق في النظر، ثم يتجوّز به فيستعمل في الإدراک وإن لم تکن معه ثِقَافَة . قال اللہ تعالی: وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة/ 191] ، وقال عزّ وجل : فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال/ 57] ، وقال عزّ وجل : مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب/ 61] . ( ث ق ف ) الثقف ( س ک ) کے معنی ہیں کسی چیز کے پالینے یا کسی کام کے کرنے میں حذا وقت اور مہارت سی کام لینا ۔ اسی سے المثاقفۃ کا لفظ مستعار ہے ( جس کے معنی ہتھیاروں کے ساتھ باہم کھیلنے کے ہیں اور سیدھے نیزے کو رمح مثقف کہا جاتا ہو ۔ اور الثقاف اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے نیزوں کو سیدھا کیا جاتا ہے ثقفت کذا کے اصل معنی مہارت نظر سے کسی چیز کا نگاہ سے اور اک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مجاذا محض کسی چیز کے پالینے پر بولا جاتا ہے خواہ اسکے ساتھ نگاہ کی مہارت شامل ہو یا نہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة/ 191] اور ان کو جہان پاؤ قتل کردو ۔ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال/ 57] اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ ۔ مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب/ 61] . پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے ۔ اور جان سے مار ڈالے گئے ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اگر مکہ والے تم پر غلبہ کرنا چاہیں تو تمہارے سامنے ان کی دشمنی واضح ہوجائے گی وہ تم پر مارنے کے ساتھ دست درازی اور گالی گلوچی کے ساتھ زبان درازی کرنے لگیں گے اور مکہ والے تو تمہارے کفر کے متمنی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ { اِنْ یَّثْقَفُوْکُمْ یَکُوْنُوْا لَکُمْ اَعْدَآئً } ” اگر وہ تمہیں کہیں پالیں تو وہ تمہارے ساتھ دشمنی کریں گے “ { وَّیَبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْٓئِ } ” اور تمہاری طرف بڑھائیں گے وہ اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں برے ارادے کے ساتھ “ تم تو ان کی طرف دوستی کے پ... یغامات بھیج رہے ہو ‘ لیکن اگر تم کہیں ان کے ہتھے چڑھ جائو تو وہ تمہارے ساتھ دشمنی کا ہر حربہ آزمائیں گے ‘ تم پر دست درازی بھی کریں گے اور زبان درازی بھی ‘ اور تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ { وَوَدُّوْا لَوْ تَـکْفُرُوْنَ ۔ } ” اور ان کی شدید خواہش ہوگی کہ تم بھی کافر ہو جائو۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 Although what has been said up to here, and what follows in this regard, was sent down in connection with the incident relating to Hadrat Hatib, Allah, instead of dwelling on his case only, has given the believers this lesson for ever and ever: "It is contrary to the profession of the Faith that a person should act, out of any motive or reason, in a way detrimental to the interests of Islam and ... subservient to the interests of disbelief when a conflict is going on between Islam and disbelief and some people have adopted a hostile attitude towards the Muslims only because they are Muslims. Even if a person be wholly free from any ill-will against Islam and acts thus not with an evil intention but for the sake of a dire personal need, the act anyhow is unbecoming of a believer, and whoever acts thus strays from the right way."  Show more

سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :2 یہاں تک جو ارشاد ہوا ہے ، اور آگے اسی سلسلے میں جو کچھ آ رہا ہے ، اگرچہ اس کے نزول کا موقع حضرت حاطب ہی کا واقعہ تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے تنہا انہی کے مقدمہ پر کلام فرمانے کے بجائے تمام اہل ایمان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ درس دیا ہے کہ کفر و اسلام کا جہاں مقابلہ...  ہو ، اور جہاں کچھ لوگ اہل ایمان سے ان کے مسلمان ہونے کی بنا پر دشمنی کر رہے ہوں ، وہاں کسی شخص کا کسی غرض اور کسی مصلحت سے بھی کوئی ایسا کام کرنا جس سے اسلام کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہو اور کفر و کفار کے مفاد کی خدمت ہوتی ہو ، ایمان کے منافی حرکت ہے ۔ کوئی شخص اگر اسلام کی بد خواہی کے جذبہ سے بالکل خالی ہو اور بد نیتی سے نہیں بلکہ محض اپنی کسی شدید ترین ذاتی مصلحت کی خاطر ہی یہ کام کرے ، پھر بھی یہ فعل کسی مومن کے کرنے کا نہیں ہے ، اور جس نے بھی یہ کام کیا وہ راہ راست سے بھٹکا گیا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(60:2) ان یثقفوکم : ان شرطیہ ۔ یثقفوا مضارع مجزوم بالشرط صیغہ جمع مذکر غائب ثقف (باب سمع) مصدر۔ بمعنی کسی چیز کو پانا۔ اور اس پر کامیاب ہونا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر، اگر وہ تم پر کامیاب ہوجائیں ۔ اگر وہ تم پر قابو پالیں۔ اصل میں ثقف کے معنی ہیں کہ کسی شے کا ادراک کرلینا نیز اس کے کرنے اور انجام...  دینے میں مہارت اور حذاقت کے پائے جانے کے ہیں۔ اور اسی لئے نظر کی مشاقی کی بدولت کسی چیز کو نگاہ سے پالینے کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے۔ پھر مجازا بغیر اس کے کہ مہارت اور حزاقت ملحوظ ہو صرف پانے اور ادراک کرنے کے لئے بولنے لگے۔ قرآن مجید میں ہے :۔ واقتلوہم حیث ثقفتموھم (2:191) اور ان کو جہاں پاؤ قتل کر دو ۔ یکونوا۔ مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) جمع مذکر غائب ، وہ ہوجاویں۔ اعدائ : یکونوا کی خبر۔ عدو کی جمع۔ دشمن۔ ویبسطوا الیکم ایدیہم : واؤ عاطفہ۔ یبسطوا مضارع (مجزوم بوجہ جواب شرط) جمع ذکر غائب۔ بسط (باب نصر) مصدر۔ بمعنی کشادہ کرنا۔ فراخ کرنا۔ بسط یدہ اس نے اپنا ہاتھ پھیلایا۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ ایدیہم : ایدی۔ جمع ید کی۔ مضاف۔ ہم مضاف الیہ، مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول فعل یبسطوا کا۔ اور بڑھائیں گے تمہاری طرف اپنے ہاتھ۔ دست درازی کریں گے۔ والسنتھم : اس کا عطف ایدیہم پر ہے ای ویبسطوا الیکم السنتھم اور بڑھائیں گے تمہاری طرف اپنی زبانیں۔ یعنی زبان درازی کریں گے۔ بالسوائ۔ برائی کے ساتھ۔ ویبسطوا الیکن ایدیہم والسنتھم بالسوء کا عطف یکونوا لکم اعداء پر ہے۔ یہ جملہ یا تو جواب شرط ہے اور معنی ہوگا۔ اگر وہ تم پر قابو پالیں گے ( تو تمہارے دشمن ہوجائیں گے) اور ایذا کے لئے تم پو دست درازی اور زبان درازی کریں گے۔ یا یہ عطف تفسیری ہے یعنی یہ جملہ ان کی عداوت کی تفسیر کرتا ہے یعنی ان کی عداوت یہ ہوگی کہ :۔ وہ تم پر دست درازی کریں گے یعنی قتل کریں گے اور ماریں گے۔ اور تم سے زبان درازی کریں گے یعنی گا لیں دیں گے اور برائی کریں گے۔ بالسواء کا تعلق صرف والسنتھم سے بھی ہوسکتا ہے۔ اور ایدیہم والسنتھم دونوں سے بھی۔ وودوا : واؤ عاطفہ۔ اس کا عطف یکونوا اعداء پر ہے ، اور یہ بھی ان شرطیہ کی جزاء ہے۔ ان کی وجہ سے ماضی بمعنی مستقبل ہے۔ اور صیغہ ماضی استعمال کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان کی طرف سے گویا یہ فعل واقع ہو ہی گیا اور تمہارے کافر ہونے کی تمنا جو وہ کریں گے وہ حاصل ہو ہی گئی۔ ودوا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے ود اور مودۃ (باب سمع) مصدر وہ تمنا کریں گے۔ وہ دل سے چاہیں گے۔ لو حرف تمنا ہے۔ کاش ۔ لو تکفرون کاش تم کافر ہوجاؤ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی تمہارا چپکے چپکے ان سے دوستی گانٹھنا کوئی فائدہ نہ دے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کے ساتھ دوستی نہ کرنے کی ایک اور وجہ۔ کفار کے ساتھ دلی دوستی اور اپنا راز ظاہر کرنے سے اس لیے بھی روکا گیا ہے کہ اگر کافر مسلمانوں پر غلبہ پالیں تو وہ اپنی دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں اور زبان سے تکلیف دینے سے باز نہیں آئیں گے ان کی خواہش ہے کہ مسلمان...  کسی نہ کسی طرح کافر بن جائیں۔ اے مسلمانو ! جس اولاد اور رشتہ داروں کی خاطر کفار کے ساتھ دلی دوستی رکھتے ہو اور انہیں اپنا راز بتلاتے ہو وہ قیامت کے دن تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ اللہ ہی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ پوری طرح دیکھتا ہے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) نے اپنی اولاد اوراقرباء کی خاطر مسلمانوں کا رازفاش کیا اس لیے مسلمانوں کو بتلایا اور سمجھایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے معاملات کا فیصلہ کرے گا تو کسی کی اولاد اور رشتہ دار اس کے کام نہیں آئیں گے لہٰذا کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ ! دنیا میں اس کا نقصان یہ ہوگا کہ اگر کافر تم پر قابو پالیں تو وہ اپنی زبانوں اور ہاتھوں سے تمہیں ہر قسم کا نقصان پہنچائیں گے۔ کتنا ہی ناعاقبت اندیش ہے وہ مسلمان جو کفار کی خاطر اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرتا ہے۔ دنیا اور آخرت کا نقصان بتلا کر مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے راز فاش کرنے اور کفار سے دلی دوستی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ جہاں تک راز فاش کرنے والے کی سزا کا تعلق ہے اس کے بارے میں علمائے امت کا فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کا راز فاش کرنے والا کافر ہوجاتا ہے اور اس کی سزا قتل ہے۔ البتہ راز کی نوعیت کے پیش نظر عدالت کو سزا میں تخفیف کرنے کا حق ہوتا ہے۔ اس کے لیے کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک دفعہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) کے پاس کسی صحابی نے اہل کتاب کے ایک شخص کی سفارش کی کہ یہ فن کتابت اور حساب کا ماہر ہے آپ اسے اپنا منشی اور کاتب رکھ لیں۔ امیر المومنین (رض) نے فرمایا کہ میں اسے مسلمانوں کا رازدان نہیں بنا سکتا۔ پھر اس آیت کا حوالہ دیا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہے۔ حضرت عمر (رض) کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ غیر مسلموں کو اہم عہدے نہیں دینے چاہئیں۔ اسی وجہ سے وہ فوج کے کمانڈروں کو حکم دیتے کہ جب کفار کے ساتھ تمہارے مذاکرات ہوں یا کہیں مشترکہ اجلاس ہوں تو ان کے ساتھ اس طرح خلط ملط نہ ہونا کہ وہ تمہاری فوجی اور اخلاقی کمزوریوں سے واقف ہوجائیں۔ (سیرت الفاروق) مسائل ١۔ کفار مسلمانوں پر غلبہ پالیں تو وہ مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے ضرور تکلیف پہنچائیں گے۔ ٢۔ کفار کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو کافر بنا دیں۔ ٣۔ قیامت کے دن کسی کو اس کی اولاد اور رشتہ دار کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائے گا کیونکہ وہ لوگوں کے ہر عمل کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرم کے کوئی کام نہیں آئے گا : ١۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی کے کام نہیں آئے گا۔ ( البقرۃ : ٢٥٤) ٢۔ قیامت کے دن کوئی رشتہ دار کسی کو فائدہ نہیں دے گا۔ ( عبس : ٣٤ تا ٣٦) ٣۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١، ٤٢) ٤۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٥۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم : ٣١) ٦۔ معبودان باطل اپنے پیروکاروں کے کام نہیں آئیں گے۔ ( البقرۃ : ١٦٦) ٧۔ ” اللہ “ کے مقابلہ مجرموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (ہود : ٢٠) ٨۔ ” اللہ “ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : ٢٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان یثقفوکم .................... بالسوء (٠ : ٢) ” ان کا رویہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پاجائیں تو تمہارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمہیں آزار دیں “۔ وہ جب بھی مسلمانوں کے خلاف کوئی موقعہ پاتے ہیں ، اپنے کمینے اور دشمنی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ جس قدر اذیت مومنین کو دے سکتے ہیں ، دیت... ے ہیں۔ یہ ہاتھوں سے اذیت ہو ، یا زبانوں سے اذیت ہو ، ہر طریقے اور ہر سبیل سے وہ اس کام کے لئے تیار ہیں .... اور سب سے بڑی بات اور سب سے خوفناک بات یہ ہے : وودوا لوتکفرون (٠٦ : ٢) ” وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ “۔ صحیح مومنین کے لیے یہ تمام اذیتوں سے بڑی اذیت ہے۔ ہر جسمانی ، لسانی اور روحانی اذیت سے ان کے لئے یہ بڑی اذیت ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ ان کے ہاتھ سے نہایت ہی قیمتی خزانہ چلا جائے گا۔ ایمان کا خزانہ اور وہ مرتد ہوجائیں گے اور یہ ان کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی ہوگی۔ اس خزانے کی قدروقیمت اسی شخص کو معلوم ہے ، جو کفر کے بعد مومن ہوا ہے ، جس نے گمراہی کے بعد نورہدایت دیکھا ہو۔ اور اب وہ اپنے تصورات ، اپنے افکار ، اپنے شعور کے ساتھ ایمانی زندگی بسر کررہا ہو ، نہایت اطمینان کے ساتھ۔ ایسا شخص کسی صورت میں بھی اپنی سابقہ حالت کی طرف نہیں لوٹ سکتا۔ ایسا شخص کفر کو اس طرح ناپسند کرتا ہے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے۔ پس مومنین کا دشمن وہ ہے جو انہیں دوبارہ کفر کی جہنم میں ڈال دینا چاہتا ہے جبکہ اللہ نے ان کو توفیق دے دی ہے کہ وہ جنت ایمانی میں زندگی بسر کریں۔ یہ ایمانی زندگی کو بھر پور اور بامعنی بنا دیتا ہے جبکہ کفر کی زندگی خالی اور بےمعنی ہوتی ہے۔ یوں قرآن کریم تدریج کے ساتھ بتاتا ہے کہ مسلمانوں اور اللہ کے دشمن اہل ایمان کو دوبارہ کافر بنانا چاہتے ہیں ، یہ ان کی اصولی اسکیم ہے ، اور اسی لئے تو تم مکہ سے بھاگ نکلے ہو۔ یادرکھو۔ وودوا لوتکفرون (٠٦ : ٢) ” اور وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح دوبارہ کافر ہوجاؤ “۔ یہ تھا پہلا دور ، جس کے اندر متعدد حقائق ہدایات اور بیداری کے لئے تیز چٹکیاں تھیں۔ اس کے بعد ایک دور جس کے اندر ایک ہی تیز احساس دے دیا گیا ہے کہ یہ قرابت داریاں ، جو انسان کو خفیہ دوستی پر مجبور کرتی ہیں ، اور دو ٹوک نظریاتی موقف کو بھلا دیتی ہیں یہ بالکل مفید نہیں ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” ان یثقفوکم “ یہ کفار کی کھلی عداوت اور دشمنی کا بیان ہے۔ اگر کہیں تم ان کے ہاتھ آجاؤ تو تمہارے بدستور دشمن ہی ہوں گے اور تمہارے پیغامات مودت کی ذرہ بھر پروا نہیں کریں گے اور ہاتھ اور زبان سے قتل و ضرب، گالی گلوچ اور بدزبانی سے تمہیں ایذا پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ... وہ تمہیں مسلمان دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور ان کی خواہش ہے کہ تم دین اسلام کو چھوڑ کر پھر سے کافر ہوجاؤ۔ دوسرے لفظوں میں وہ تمہیں دین و دنیا کی مضرتوں میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں یعنی انہم یریدون ان یلحقوا بکم مضا الدنیا والدین جمیعا، (کشاف، بحر) ۔ تو کیا ایسے بد ترین دشمن اس لائق ہوسکتے ہیں کہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) اگر یہ منکر تم پر قابو پالیں اور ان کو تم پر دسترس ہوجائے تو یہ تمہارے حق میں دشمن ہوں اور عداوت کا اظہار کرنے لگیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کریں اور وہ اس بات کے متمنی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر بن جائو اور کفر اختیار کرلو۔ یعنی یہ لوگ دوستی کے قابل نہیں ان ... کی دوستی میں دنیوی نقصان بھی ہے اور دینی نقصان بھی ہے ۔ دنیوی نقصان یہ کہ اگر برسراقتدارہوجائیں تو کھلم کھلا دشمنی کریں۔ ہاتھ سے برائی پہنچائیں۔ زبان طعن دراز کریں دینی نقصان یہ کہ ان کی دلی خواہش اور تمنا یہ ہے کہ تم اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کرلو چونکہ مکہ والوں کے یہ خیالات اور ان کی یہ ذہنیت ہے اس لئے مکہ والے اس قابل نہیں کہ ان سے خفیہ یا علانیہ دوستی کریں۔  Show more