Surat ul Mumtahina

Surah: 60

Verse: 4

سورة الممتحنة

قَدۡ کَانَتۡ لَکُمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ ۚ اِذۡ قَالُوۡا لِقَوۡمِہِمۡ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنۡکُمۡ وَ مِمَّا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۫ کَفَرۡنَا بِکُمۡ وَ بَدَا بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃُ وَ الۡبَغۡضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَحۡدَہٗۤ اِلَّا قَوۡلَ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ لَاَسۡتَغۡفِرَنَّ لَکَ وَ مَاۤ اَمۡلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ رَبَّنَا عَلَیۡکَ تَوَکَّلۡنَا وَ اِلَیۡکَ اَنَبۡنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۴﴾

There has already been for you an excellent pattern in Abraham and those with him, when they said to their people, "Indeed, we are disassociated from you and from whatever you worship other than Allah . We have denied you, and there has appeared between us and you animosity and hatred forever until you believe in Allah alone" except for the saying of Abraham to his father, "I will surely ask forgiveness for you, but I have not [power to do] for you anything against Allah . Our Lord, upon You we have relied, and to You we have returned, and to You is the destination.

۔ ( مسلمانو! ) تمہارے لئے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں ہم تمہارے ( عقائد کے ) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہوگئی لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں ۔ اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Good Example of Ibrahim and His Followers, when They disowned Their Disbelieving People Allah the Exalted says to His faithful servants, whom He commanded to disown the disbelievers, to be enemies with them, and to distant themselves and separate from them: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ ... Indeed there has been an excellent example for you in Ibrahim and those with him, meaning, his followers who believed in him, ... إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ ... when they said to their people: "Verily we are free from you..." meaning, `we disown you,' ... وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ ... and whatever you worship besides Allah: we rejected you, meaning, `we disbelieve in your religion and way,' ... وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا ... and there has started between us and you, hostility and hatred forever. meaning, `Animosity and enmity have appeared between us and you from now and as long as you remain on your disbelief; we will always disown you and hate you,' ... حَتَّى تُوْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ ... until you believe in Allah alone, meaning, `unless, and until, you worship Allah alone without partners and disbelieve in the idols and rivals that you worship besides Him.' Allah's statement, ... إِلاَّ قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لاَِبِيهِ لاََسْتَغْفِرَنَّ لَكَ ... except the saying of Ibrahim to his father: "Verily, I will ask forgiveness (from Allah) for you..." means, `you have a good example in Ibrahim and his people; as for Ibrahim's prayers to Allah for his father, it was a promise that he made for his father.' When Ibrahim became sure that his father was an enemy of Allah, he declared himself innocent of him. Some of the believers used to invoke Allah for their parents who died as disbelievers, begging Him to forgive them. They did so claiming that Ibrahim used to invoke Allah to forgive his father. Allah the Exalted said in reply, مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِى قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـبُ الْجَحِيمِ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيمَ لاًّبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَأ إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَهِيمَ لاَوَّاهٌ حَلِيمٌ It is not for the Prophet and those who believe to ask Allah's forgiveness for the idolators, even though they be of kin, after it has become clear to them that they are the dwellers of the Fire (because they died in a state of disbelief). And Ibrahim's request for his father's forgiveness was only because of a promise he made to him .But when it became clear to him that he was an enemy of Allah, he dissociated himself from him. Verily, Ibrahim was Awwah and was forbearing. (9:113-114) Allah said here, قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ ... Indeed there has been an excellent example for you in Ibrahim and those with him, when they said to their people: "Verily, we are free from you..." until, ... إِلاَّ قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لاَِبِيهِ لاََسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ... ... except the saying of Ibrahim to his father: "Verily, I will ask forgiveness for you, but I have no power to do anything for you before Allah." meaning, `You cannot follow Ibrahim's example as proof in the case mentioned here, as being allowed to ask Allah to forgive those who died on Shirk.' This is the saying of Ibn Abbas, Mujahid, Qatadah, Muqatil bin Hayyan, Ad-Dahhak and several others. Allah the Exalted said that Ibrahim and his companions, who parted with their people and disowned their way, said afterwards, while invoking Allah in humility and submission, ... رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ Our Lord! In You we put our trust, and to You we turn in repentance, and to You is the final Return. meaning, `we trust in You for all matters, we surrender all of our affairs to You, and to You is the final Return in the Hereafter,'

عصبیت دین ایمان کا جزو لاینفک ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کفار سے موالات اور دوستی نہ کرنے کی ہدایت فرما کر ان کے سامنے اپنے خلیل اور ان کے اصحاب کا نمونہ پیش کر رہا ہے کہ انہوں نے صاف طور پر اپنے رشتہ کنبے اور قوم کے لوگوں سے برملا فرما دیا کہ ہم تم سے اور جنہیں تم پوجتے ہو ان سے بیزار بری الذمہ اور الگ تھلگ ہیں ، ہم تمہارے دین اور طریقے سے متنفر ہیں ، جب تک تم اسی طریقے اور اسی مذہب پر ہو تم ہمیں اپنا دشمن سمجھوناممکن ہے کہ برادری کی وجہ سے ہم تمہارے اس کفر کے باوجود تم سے بھائی چارہ اور دوستانہ تعلقات رکھیں ، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تم اللہ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان لے آؤ اس کی توحید کو مان لو اور اسی ایک عی ابدت شروع کر دو اور جن جن کو تم نے اللہ کا شریک اور ساجھی ٹھہرا رکھا ہے اور جن جن کی پوجا پاٹ میں مشغول ہو ان سب کو ترک کر دو اپنی اس روش کفر اور طریق شرک سے ہٹ جاؤ تم پھر بیشک ہمارے بھائی ہو ہمارے عزیز ہو ورنہ ہم میں تم میں کوئی اتحاد و اتفاق نہیں ہم تم سے اور تم ہم سے علیحدہ ہو ، ہاں یہ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے جو استغفار کا وعدہ کیا تھا اور پھر اسے پورا کیا اس میں ان کی اقتداء نہیں ، اس لئے کہ یہ استغفار اس وقت تک رہا جس وقت تک کہ اپنے والد کا دشمن اللہ ہونا ان پر وضاحت کے ساتھ ظاہر نہ ہوا تھا جب انہیں یقینی طور پر اس کی اللہ سے دشمنی کھل گئی تو اس سے صاف بیزاری ظاہر کر دی ، بعض مومن اپنے مشرک ماں باپ کے لئے دعاء و استغفار کرتے تھے اور سند میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے لئے دعا مانگنا پیش کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فرمان ( ترجمہ ) پوری دو آیتوں تک نازل فرمایا اور یہاں بھی اسوہ ابراہیمی میں سے اس کا استثناء کر لیا کہ اس بات میں ان کی پیروی تمہارے لئے ممنوع ہے اور حضرت ابراہیم کے اس استغفار کی تفصیل بھی کر دی اور اس کا خاص سبب اور خاص وقت بھی بیان فرما دیا ، حضرت ابن عباس مجاہد قتادہ مقاتل بن حیان صحاک وغیرہ نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ قوم سے برات کر کے اب اللہ کی بار گاہ میں آتے ہیں اور جناب باری میں عاجزی اور انکساری سے عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ تمام کاموں میں ہمارا بھروسہ اور اعتماد تیری ہی پاک ذات پر ہے ہم اپنے تمام کام تجھے سونپتے ہیں تیری طرف رجوع و رغبت کرتے ہیں ، دار آخرت میں بھی ہمیں تیری ہی جانب لوٹنا ہے ۔ پھر کہتے ہیں الٰہی تو ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا ، یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ ہم پر غالب آ کر ہمیں مصیبت میں مبتلا کر دیں ، اسیط رح یہ بھی نہ ہو کہ تیری طرف سے ہم پر کوئی عتاب و عذاب نازل ہو اور وہ ان کے اور بہکنے کا سبب بنے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو اللہ انہیں عذاب کیوں کرتا ؟ اگر یہ کسی میدان میں جیت گئے تو بھی ان کے لئے یہ فتنہ کا سبب ہو گا وہ سمجھیں گے کہ ہمیں اس لئے غالب آئے کہ ہم ہی حق پر ہیں ، اسیطرح اگر یہ ہم پر غالب آ گئے تو ایسا نہ ہو کہ ہمیں تکلیفیں پہنچا پہنچا کر تیرے دین سے برگشتہ کر دیں ۔ پھر دعا مانگتے ہیں کہ الٰہی ہمارے گناہوں کو بھی بخش دے ، ہماری پردہ پوشی کر اور ہمیں معاف فرما ، تو عزیز ہے تیری جناب میں پناہ لینے والا نامراد نہیں پھرتا تیرے در پر دستک دینے والا خالی ہاتھ نہیں جاتا ، تو اپنی شریعت کے تقرر میں اپنے اقوال و افعال میں اور قضا و قدر کے مقدر کرنے میں حکمتوں والا ہے ، تیرا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ۔ پھر بہ طور تاکید کے وہی پہلی بات دوہرائی جاتی ہے کہ ان میں تمہارے لئے نیک نمونہ ہے جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے آنے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو اسے ان کی اقتداء میں آگے بڑھ کر قدم رکھنا چاہئے اور جو احکام اللہ سے روگردانی کرے وہ جان لے کہ اللہ اس سے بےپرواہ ہے وہ لائق حمد و ثناء ہے مخلوق اس خالق کی تعریف میں مشغول ہے ، جیسے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کفر پر اور اللہ کے نہ ماننے پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ سب سے غنی سب سے بےنیاز اور سب سے بےپرواہ ہے اور وہ تعریف کیا گیا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں غنی اسے کہا جاتا ہے جو اپنی غنا میں کامل ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر طرح سے بےنیاز اور بالکل بےپرواہ ہے کسی اور کی ذات ایسی نہیں ، اس کا کوئی ہمسر نہیں اس کے مثل کوئی اور نہیں وہ پاک ہے اکیلا ہے سب پر حاکم سب پر غالب سب کا بادشاہ ہے ، حمید ہے یعنی مخلوق اسے سراہ رہی ہے ، اپنے جمیع اقوال میں تمام افعال میں وہ ستائشوں اور تعریفوں والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے سوا کوئی پالنے والا نہیں ، رب وہی ہے معبود وہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 کفار سے عدم اتحاد کے مسئلے کی وضاحت کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مثال دی جا رہی ہے کہ ایسا نمونہ جس کی پیروی کی جائے 4۔ 2 یعنی شرک کی وجہ سے ہمارا اور تمہارا کوئی تعلق نہیں، اللہ کے پرستاروں کا بھلا غیر اللہ کے پجاریوں سے کیا تعلق۔ 4۔ 3 یعنی علیحدگی اور بیزاری اس وقت تک رہے گی جب تک کفر و شرک چھوڑ کر توحید کو نہیں اپنالو گے۔ 4۔ 4 مطلب یہ حضرت ابراہیم کی پوری زندگی ایک قابل تقلید نمونہ ہے، البتہ ان کے باپ کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جس میں ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیئے، کیونکہ ان کا یہ فعل اس وقت ہے جب ان کو اپنے باپ کی بابت علم نہیں تھا، چناچہ جب ان پر واضح ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اپنے باپ سے بھی اظہار نجات کردیا، جیسا کہ (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ 114۔ ) 9 ۔ التوبہ :114) میں ہے۔ 4۔ 5 توکل کا مطلب ہے امکانی حد تک ظاہری اسباب و وسائل اختیار کرنے کے بعد معاملہ اللہ کے سپرد کردیا جائے یہ ہے اس لیے توکل کا یہ مفہوم بھی غلط ہوگا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اونٹ کو باہر کھڑا کرکے اندر آگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تو کہا میں اونٹ اللہ کے سپرد کر آیا ہوں آپ نے فرمایا یہ توکل نہیں ہے۔ اعقل وتوکل۔ پہلے اسے کسی چیز سے باندھ پھر اللہ پر بھروسہ کر۔ ترمذی۔ انابت کا مطلب ہے اللہ کی طرف رجوغ کرنا

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] سیدنا ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کا اپنی قوم کو دو ٹوک جواب تمہارے لئے نمونہ ہے :۔ تم سے پہلے تمہارے لیے ایک اچھی مثال موجود ہے اور وہ تمہارے لیے قابل تقلید ہے۔ جس طرح تم اللہ کے رسول پر ایمان لائے ہو، اسی طرح سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی کچھ لوگ ایمان لائے تھے۔ جوں جوں وہ ایمان لاکر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ملتے گئے۔ اپنی قوم اور اپنے گھر والوں سے بیزار ہوتے گئے اور انہوں نے واضح طور پر اپنی قوم اور اپنے تعلق داروں سے کہہ دیا تھا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب کوئی تعلق نہیں رہا، نہ رشتہ داری کا نہ دوستی کا۔ بلکہ اس کے بجائے ہم تمہارے دشمن ہیں۔ اور ہماری یہ دشمنی تم سے اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک تم شرک سے دستبردار ہو کر اللہ اکیلے پر ایمان نہ لے آؤ۔ عبادت کرو تو صرف اسی کی کرو۔ دعا کرو تو اسی سے کرو۔ اپنی حاجت روائیوں اور مشکل کشائیوں کے لیے اسی کو پکارو اور اپنے بتوں سے کچھ توقع نہ رکھو۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں نے تو برملا یہ کہہ دیا تھا اور تم لوگ مشرکوں کو خفیہ خط لکھ کر ان سے دوستی گانٹھتے ہو ؟ [٩] باپ کے حق میں دعائے مغفرت پھر رجوع :۔ آپ لوگوں کے لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی سب باتیں قابل تقلید ہیں مگر یہ بات قابل تقلید نہیں جو انہوں نے اپنے مشرک باپ کے حق میں اللہ سے مغفرت کی دعا کی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ جب باپ نے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے گھر سے نکال دیا تھا تو اس وقت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے دعائے مغفرت کا وعدہ کیا تھا۔ (١٦: ١٤٧) اسی وعدہ کو پورا کرنے کی غرض سے آپ نے دو بار اپنے باپ کے حق میں دعائے مغفرت کی بھی تھی۔ پہلی بار کی دعا کا ذکر سورة ابراہیم کی آیت نمبر ٤١ میں ہے اور دوسری بار کی دعا کا ذکر سورة الشعراء کی آیت نمبر ٨٦ میں ہے۔ پھر جب آپ کو پوری طرح معلوم ہوگیا کہ باپ شرک سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہیں۔ اور مشرک کی معافی کی اللہ کے ہاں کوئی صورت نہیں تو آپ نے اپنے اس قول اور وعدہ سے رجوع کرلیا اور اس کے حق میں دعائے مغفرت کرنا چھوڑ دی۔ ضمناً اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ انبیاء کا آخری عمل قابل تقلید ہوتا ہے :۔ ایک یہ کہ انبیاء کا کوئی عمل جو ان کی زندگی میں مختلف رہا ہو، قابل تقلید وہ صورت ہوتی ہے جو ان کی آخری زندگی میں ہو۔ اور پہلی صورت سے انہوں نے خود رجوع کرلیا ہو یا بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی گئی ہو اور شریعت میں اس کی ممانعت وارد ہوچکی ہو۔ مشرک کے لئے دعائے مغفرت بھی جائز نہیں :۔ اور دوسری یہ کہ اہل ایمان کا مشرکوں سے اتنا تعلق بھی نہ ہونا چاہئے کہ وہ ان کے حق میں دعائے مغفرت ہی کردیں۔ خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ [١٠] یعنی میں تیرے لیے صرف دعائے مغفرت ہی کرسکتا ہوں۔ آگے اللہ تمہیں بخشے یا نہ بخشے یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ میرے اختیار میں کچھ نہیں۔ [١١] یہ ہے وہ دعا اور عمل جس پر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی عمل پیرا ہوئے تھے۔ اور اس کی تمہیں تقلید کرنا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ :” اسوۃ “ اور ” قدوۃ “ کے معنی ہیں جس کی پیروی کی جائے ، نمونہ ( اچھا ہو یا برا) اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو اسوۂ حسنہ فرمایا۔ یعنی اللہ کے دشمن کفار و مشرکین کے ساتھ دوستی کے سلسلے میں تمہارے لیے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں میں پہلے سے ایک اچھا نمونہ موجود تھا جو تمہارے پیش نظر رہنا چاہیے تھا۔” والذین معہ “ سے مراد ان پر ایمان لانے والے ساتھی ہیں۔ ٢۔ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ ۔۔۔۔” بر وا “ ” بری “ کی جمع ہے ، جیسے ” کریم “ کی جمع ” کرماء “ ہے ۔ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی تمہارے لیے اس بات میں نمونہ ہیں کہ انہوں نے اپنی مشرک قوم سے ، ان کے شرک سے اور ان کے معبودوں سے بری اور لا تعلق ہونے کا اعلان کردیا ۔ ” ومما تعبدون “ میں ” ما “ مصدر یہ بھی ہوسکتا ہے اور موصولہ بھی ۔ ٣۔ کَفَرْنَا بِکُمْ : ہم تمہیں نہیں مانتے ، نہ تمہارے دین کو ، نہ تمہارے خداؤں کو اور نہ ان کی عبادت کو۔ ٤۔ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا ۔۔۔۔۔۔: یعنی ہمارے اللہ پر ایمان لانے اور تمہارے کفر پر قائم رہنے کے بعد ہمارے اور تمہارے درمیان کھلی دشمنی اور دلی بغض ہمیشہ کے لیے ظاہر ہوگیا ہے ، یہاں تک کہ تم اکیلے پر ایمان لے آؤ۔ ٥۔ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ : یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کی پوری زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے ، سوائے اس بات کے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہی کہ میں تمہارے لیے بخشش کی دعا ضرور کروں گا ۔ اس بات میں وہ تمہارے لیے نمونہ نہیں ہیں اور نہ ہی اس میں ان کی پیروی جائز ہے۔ مشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت اور ابراہیم (علیہ السلام) کے استغفار کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ توبہ کی آیات (١١٣، ١١٤) کی تفسیر۔ ٦۔ وَمَآ اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہ ِ مِنْ شَیْئٍ : یعنی میں تمہارے لیے استغفار ضرور کروں گا ، مگر میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کے دلوانے کا مالک نہیں ، وہ چاہے گا تو تمہیں بخش دے گا ، نہیں تو عذاب دے گا ۔ معلوم ہوا کہ یہ اختیار پیغمبروں کے پاس بھی نہیں کہ وہ جسے چاہیں بخشوا لیں ، خوہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے والد ہوں یا نوح (علیہ السلام) کا بیٹا یا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب ہوں۔ ٧۔ رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا : یہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا کلام ہے جو ” الا قول ابراہیم لا بیہ۔۔۔ “ سے پہلے کلام کے ساتھ ملا ہوا ہے اور ان چیزوں میں شامل ہے جن میں ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی پیروی کا حکم ہے ۔ گویا ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے اپنی قوم سے یہ کہا :( اِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ ۔۔۔۔۔ حَتّٰی تُوْمِنُوْا بِ اللہ ِ وَحْدَہٗٓ ) اور اپنے رب سے یہ کہا :(رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا ۔۔۔۔۔ انک انت العزیز الحکیم) یہ دونوں باتیں کہنے میں وہ ہمارے لیے نمونہ ہیں اور ہمیں ان کی پیروی کا حکم ہے۔ ٨۔ وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ :” انبنا “ ” اناب ینیب انابۃ “ ( افعال) سے جمع متکلم ماضی معلوم کا صیغہ ہے۔” المصیر “ ” صار یصیر “ سے مصدر میمی ہے۔ ” علیک “ اور ” الیک “ پہلے آنے سے قصر کا مفہوم حاصل ہو رہا ہے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے تجھی پر بروسہ کیا ، کسی اور پر نہیں اور تیری ہی طرف رجوع کیا ، کسی اور کی طرف نہیں ، ( تو نے ہی سب کو پیدا کیا) اور ( آخر کار) تیری ہی طرف واپس آنا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَ‌اهِيمَ ۔ ۔ ۔ حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ (Indeed, there is an excellent example for you in Ibrahim and those with him, when they said to their people, |"We disown you and what you worship instead of Allah. We disbelieve in you. Enmity and hatred has arisen between us and you forever, unless you believe in Allah alone|",....60:4). This verse supports and emphasizes the abstaining from maintaining close friendly relations with non-believers. This rule of law is illustrated by the excellent example of Holy Prophet Ibrahim (علیہ السلام) whose entire family worshipped idols, but he not only washed his hands of them and disowned them, but also announced, and erected a wall of, enmity and hatred with them forever, unless and until they give up idol-worship and have belief in Allah alone. Allaying a Doubt The current verse emphasizes that Muslims should follow the excellent model of Holy Prophet Ibrahim (علیہ السلام) and, it is established in Surah Taubah and in other places in the Qur&an that, he prayed for the forgiveness of his father who was an idol-worshipper. This could create doubt that, in pursuance of the command of Allah to follow the example of Prophet Ibrahim (علیہ السلام) is permitted to pray for the forgiveness of one&s parents or other relatives who are idol-worshippers. But the later part of Verse [ 4] makes an exception to the command of following Ibrahim (علیہ السلام) . إِلَّا قَوْلَ إِبْرَ‌اهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَ‌نَّ لَكَ (...but [ his example is ] not [ to be followed ] in what Ibrahim said to his father, |"I will pray to my Lord for your forgiveness... 60:4). This implies that it is imperative to follow the model of Holy Prophet Ibrahim (علیہ السلام) in all respects, except in the case of prayer for his father&s forgiveness. It is not permitted to emulate his sunnah in this respect. His reason for praying for his father&s forgiveness has been explained in Surah Taubah. He prayed for his father&s forgiveness before the prohibitory injunction was ordained, or probably when he felt that faith has entered into his father&s heart, but when it became plain to him that he was Allah&s enemy he washed his hands of him and disowned him, thus فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّ‌أَ مِنْهُ (...and when it became clear to him that he was an enemy of Allah, he renounced him....9:114) Some of the scholars analyze the phrase اِلَّا قَولَ اِبرٰھِیمَ (but not in what Ibrahim said ...) grammatically as istithna& munqati`, that is, exceptive sentence in which the exception is severed from, or wholly different in kind from, the general term. In terms of this grammatical analysis, praying for his father&s forgiveness is not contrary to Abrahamic model. Holy Prophet Ibrahim (علیہ السلام) was under the impression that his father had become a Muslim, so he prayed for the forgiveness of his Muslim father. Later when he learnt the truth, he gave up praying for him and renounced him. If anyone believes, even today, that a particular unbeliever has most probably embraced Islam, there is no harm in praying for his pardon. [ Qurtubi ]. Allah knows best!

اگلی آیات میں کفار سے ترک موالات کی تائید و تاکید کے لئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ ان کا تو سارا خاندان مشرکین کا تھا، انہوں نے سب سے بیزاری اور برات کا ہی نہیں بلکہ عداوت کا اعلان کردیا اور بتلا دیا کہ جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ گے اور اپنے شرک سے باز نہ آؤ گے ہمارے تمہارے درمیان بغض و عداوت کی دیوار حائل رہے گی، قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ (تا) حَتّٰى تُؤْمِنُوْا باللّٰهِ وَحْدَهٗٓ کا یہی مطلب ہے۔ ایک شبہ کا جواب : اوپر کی آیت میں مسلمانوں کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوہ حسنہ اور سنت پر چلنے کی تاکید فرمائی گئی ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اپنے والد مشرک کے لئے استغفار کرنا ثابت ہے، جس کا ذکر سورة توبہ وغیرہ میں آیا تو اتباع سنت ابراہیمی کے حکم سے کسی کو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ اپنے مشرک والدین یا عزیزوں کے لئے دعاء مغفرت کرنا بھی اس میں داخل ہے، یہ جائز ہونا چاہئے، اس لئے اس اسوہ ابراہیمی کے اتباع سے اس کو مستثنیٰ کر کے فرما دیا کہ اور سب چیزوں میں اسوہ ابراہیمی کا اتباع لازم ہے، مگر ان کے اس فعل کی اقتداء مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ مشرک والدین اور عزیزوں کے لئے دعائے مغفرت کرنے لگیں، آیت اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ ، کا یہی مطلب ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عذر سورة توبہ میں آ چکا ہے کہ انہوں نے باپ کے لئے استغفار کا وعدہ ممانعت سے پہلے کرلیا تھا، یا اس گمان پر کرلیا تھا کہ اس کے دل میں ایمان آ گیا ہے، جب معلوم ہوا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس سے بھی برات و بیزاری کا اعلان کردیا ، (آیت) فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبرا منہ الایة، کا یہی مطلب ہے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے الا قول ابراہیم کے استثناء کو استثناء منقطع قرار دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لئے استغفار اس اسوہ ابراہیمی کے منافی نہیں کیونکہ انہوں نے اس بنا پر استغفار کرلیا تھا کہ انہوں نے گمان کیا تھا کہ وہ مسلمان ہوگیا، پھر جب حقیقت معلوم ہوگئی تو استغفار چھوڑ دیا اور برات و بیزاری کا اعلان فرما دیا اور ایسا کرنا اب بھی جائز ہے کہ جس شخص کو کسی کافر کے متعلق گمان غالب یہ ہوجائے کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، اس کے استغفار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں (قرطبی) خلاصہ تفسیر مذکور میں بھی اسی صورت کو اختیار کر کے تفسیر کی گئی ہے، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝ ٠ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝ ٠ ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ ۭ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَيْكَ اَنَبْنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ۝ ٤ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ أسَو الأُسْوَة والإِسْوَةُ کالقدوة والقدوة، وهي الحالة التي يكون الإنسان عليها في اتباع غيره إن حسنا وإن قبیحا، وإن سارّا وإن ضارّا، ولهذا قال تعالی: لَقَدْ كانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [ الأحزاب/ 21] ، فوصفها بالحسنة، ويقال : تَأَسَّيْتُ به، والأَسَى: الحزن . وحقیقته : إتباع الفائت بالغم، يقال : أَسَيْتُ عليه وأَسَيْتُ له، قال تعالی: فَلا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرِينَ [ المائدة/ 68] ، وقال الشاعر : أسيت لأخوالي ربیعة وأصله من الواو، لقولهم : رجل أَسْوَان ، أي : حزین، والأَسْوُ : إصلاح الجرح، وأصله :إزالة الأسى، نحو : کر بت النخل : أزلت الکرب عنه، وقد أَسَوْتُهُ آسُوهُ أَسْواً ، والآسِي : طبیب الجرح، جمعه : إِسَاة وأُسَاة، والمجروح مَأْسِيٌّ وأَسِيٌّ معا، ويقال : أَسَيْتُ بين القوم، أي : أصلحت ، وآسَيْتُهُ. قال الشاعر : آسی أخاه بنفسه وقال آخر : فآسی وآداه فکان کمن جنی وآسي هو فاعل من قولهم : يواسي، وقول الشاعر : يکفون أثقال ثأي المستآسي فهو مستفعل من ذلك، فأمّا الإساءة فلیست من هذا الباب، وإنما هي منقولة عن ساء . ( ا س و ) الاسوۃ والاسوۃ قدوۃ اور قدوۃ کی طرح ) انسان کی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ دوسرے کا متبع ہوتا ہے خواہ وہ حالت اچھی ہو یا بری ، سرور بخش ہو یا تکلیف وہ اس لئے آیت کریمہ ؛ ۔ { لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ } ( سورة الأحزاب 21) تمہارے لئے پیغمبر خدا میں اچھا اسوہ ہے ۔ میں اسوۃ کی صفت حسنۃ لائی گئی ہے ۔ تاسیت بہ میں نے اس کی اقتداء کی ۔ الاسٰی بمعنی حزن آتا ہے اصل میں اس کے معنٰی کسی فوت شدہ چیز پر غم کھانا ہوتے ہیں ۔ اسیت علیہ اسی واسیت لہ ۔ کسی چیز پر غم کھانا قرآن میں ہے ۔ { فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ } ( سورة المائدة 68) تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو ۔ شاعر نے کہا ہے ع (16) اسیت الاخوانی ربعیہ میں نے اپنے اخوال بنی ربعیہ پر افسوس کیا ۔ یہ اصل میں ( ناقص) وادی سے ہے کیونکہ محاورہ میں غمگین آدمی کو اسوان ( بالفتح ) کہا جاتا ہے ۔ الاسو کے معنی زخم کا علاج کرنے کے ہیں ۔ اصل میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت النخل کی طرح ہے جس کے معنی کھجور کے درخت کی شاخوں کی جڑوں کو دور کرنے کے ہیں کہا جاتا ہے اسوتہ اسوءہ اشوار از باب نصرا یعنی میں نے اس کا غم دور کیا اس کو تسلی دی ۔ الاٰسی صالح ۔ مر ہم پٹی کرنے والا اس کی جمیع اساعہ واساۃ ہے اور زخمی آدمی کو ماسی وآسی کہا جاتا ہے ۔ اسیت بین القوم باہم صلح کرانا ۔ اٰسیتہ ( مفاعلہ ) کسی کے ساتھ ہمدردی کرنا ۔ ( مال وغیرہ کے ذریعہ ۔ شاعر نے کہا ہے ع (17) ، ، آسیٰ اخاہ بنفسہ ( طویل ) ، ، جس نے خود کو اپنے بھائی پر نثار کردیا ہو ۔ اور دو سرے شاعر نے کہا ہے (18) فآسی و آداہ فکان کمن جنٰی ، ، اس نے ہمدردی کی اور سامان حرب دیا تو گویا اس جنایت کی ۔ یہاں آسیٰ بروزن فاعل یو اسی سے ہے اسی طرح شاعر کے قول ع (19) یکفون اثقال ثای المستاسی ، ، المستای بروزن مستفعل بھی اسی مادہ سے مگر الاساءۃ ( افعال ) جس کے معنی تکلیف پہنچانے کے ہیں اس مادہ سے نہیں ہے بلکہ ساء ( س و ء ) سے منقول ہے ۔ حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ بغض البُغْض : نفار النفس عن الشیء الذي ترغب عنه، وهو ضد الحبّ ، فإنّ الحب انجذاب النفس إلى الشیء، الذي ترغب فيه . يقال : بَغُضَ الشیء بُغْضاً وبَغَضْتُه بَغْضَاء . قال اللہ عزّ وجلّ : وَأَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة/ 64] ، وقال : إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة/ 91] ، وقوله عليه السلام : «إنّ اللہ تعالیٰ يبغض الفاحش المتفحّش»فذکر بغضه له تنبيه علی بعد فيضه وتوفیق إحسانه منه . ( ب غ ض ) البغض کے معنی کسی مکر وہ چیز سے دل کا متنفر اور بیزار ہونا کے ہیں ۔ کہ حب کی ضد ہے ۔ جس کے معنی پسندیدہ چیز کی طرف دل کا منجذب ہونا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة/ 64] اور ہم نے ان کے باہم عداوت اور بعض قیامت تک کے لئے ڈال دیا ہے إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة/ 91] شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش دلوادے اور حدیث میں ہے بیشک اللہ تعالیٰ بد کلام گالی دینے والے ہے نفرت کرتا ہے ۔ یہاں بعض کا لفظ بول کر اس امر پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ باری تعالیٰ اس سے اپنا فیضان اور توفیق احسان روک لیتا ہے ۔ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ ملك ( مالک) فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وقال : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] وفي غيرها من الآیات ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ نوب النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( ن و ب ) النوب ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔ صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراھیم والذین معہ۔ بیشک تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے شریک حال لوگوں میں ایک عمدہ نمونہ ہے) تاآخر آیت۔ قول باری (والذین معہ) سے مراد ایک قول کے مطابق انبیاء (علیہم السلام) ہیں۔ ایک قول ہے ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ کافروں سے دشمنی کے اظہار اور ان سے ترک موالات کے سلسلے میں ان لوگوں کی تقلید کی جائے۔ ارشاد ہوا (انا برآء منکم و مما تعبدون من دون اللہ کفرنا بکم وبدابیننا وبینکم العداوۃ و البغضاء ابدا، ہم تم سے اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بیزار ہیں۔ ہم تمہارے منکر ہیں اور ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت اور بغض ظاہر ہوگیا) اس حکم کے اہل ایمان بھی پابند ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ سے اعلان براء ت قول باری (الا قول ابراھیم لا بیہ) البتہ ابراہیم نے یہ اپنے باپ سے کہا تھا، یعنی تم اس امر میں ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی نہ کرو کہ انہوں نے اپنے کافر باپ کے لئے بخشش کی دعا مانگی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا اس لئے مانگی تھی کہ باپ نے ان کے سامنے ایمان کا اظہار کیا تھا اور ان سے ایمان کے اظہار کا وعدہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگاہ کردیا تھا کہ ان کا باپ منافق ہے۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ باپ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے بیزاری کا اظہار کردیا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے حاطب تمہارے لیے ابراہیم کے فرمان اور ان مومنین کے اقوال میں جو کہ ان کے ساتھ تھے ایک عمدہ نمونہ ہے۔ جبکہ ان سب نے اپنے رشہ دار کافروں سے کہہ دیا کہ ہم تمہاری رشتہ داری اور تمہاری اس بت پرستی کے طریقہ سے بےزار ہیں ہم تمہارے دین کے منکر ہیں اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ عداوت اور قلبی دشمنی ظاہر ہوگئی جب تک تم اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہ کرو لیکن اتنی بات تو ابراہیم کی اپنے والد سے ضرور ہوتئی تھی کہ میں تمہارے لیے استغفار کروں گا اور مجھے اللہ کے عذاب کے مقابلے میں کسی چیز کا اختیار نہیں کیونکہ یہ بات بھی ایک وعدہ کی وجہ سے تھی۔ مگر جب ان کے باپ نے کفر کیا تو انہوں نے اس سے بےزاری ظاہر کردی اب اللہ تعالیٰ ان کو دعا کرنے کا طریقہ بتاتا ہے کہ یوں دعا کرو پروردگار ہم نے تجھ پر بھروسا کیا ہے اور تیری اطاعت کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور قیامت میں آپ ہی کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { قَدْ کَانَتْ لَـکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ } ” تمہارے لیے بہت اچھا نمونہ ہے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں (کے طرزِعمل) میں۔ “ { اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ } ” جب انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم بالکل بری ہیں تم سے اور ان سے جنہیں تم پوجتے ہو اللہ کے سوا۔ “ ہم تم سے بھی اور ان سے بھی اعلانِ براءت اور اظہارِ لاتعلقی کرتے ہیں۔ { کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا } ” ہم تم سے منکر ہوئے ‘ اور اب ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور بغض کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ہمیشہ کے لیے “ { حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ } ” یہاں تک کہ تم بھی ایمان لے آئو اللہ پر توحید کے ساتھ “ گویا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کے ساتھی اہل ایمان (j) اپنے کافراعزہ و اقارب کے لیے ننگی تلوار بن گئے۔ یہاں یہ اہم نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ حزب اللہ والوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جدوجہد کرتے ہوئے اپنے رحمی رشتوں کو کاٹ پھینکنے کا مشکل مرحلہ بھی لازماً طے کرنا پڑتا ہے ۔ جیسا کہ سورة المجادلہ کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے : { لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّـؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْط } (آیت ٢٢) ” تم نہیں پائو گے ان لوگوں کو جو حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور یوم آخرت پر کہ وہ محبت کرتے ہوں ان سے جو مخالفت پر کمر بستہ ہیں اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ‘ خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے رشتے دار ہوں “۔ چناچہ اسی اصول کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کے اہل ایمان ساتھیوں نے اپنی قوم ‘ برادری اور رشتہ داروں سے نہ صرف اظہارِ لاتعلقی کیا بلکہ انہیں کھلم کھلا عداوت اور مخالفت کا چیلنج بھی دے دیا۔ { اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ } ” سوائے ابراہیم (علیہ السلام) کے اپنے باپ سے یہ کہنے کے کہ میں آپ کے لیے ضرور استغفار کروں گا “ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے والد کے ساتھ اس گفتگو کا حوالہ ہے جس کی تفصیل سورة مریم میں آئی ہے۔ اس موقع پر باپ بیٹے کے درمیان جو آخری مکالمہ ہوا وہ یہ تھا : { قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِہَتِیْ یٰٓــاِبْرٰہِیْمُج لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِیْ مَلِیًّا - قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْکَج سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْط اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا ۔ } ” اس نے کہا : اے ابراہیم ! کیا تم کنارہ کشی کر رہے ہو میرے معبودوں سے ؟ اگر تم اس سے باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا ‘ اور تم مجھے چھوڑ کر چلے جائو ایک مدت تک۔ ابراہیم (d ) نے کہا : آپ پر سلام ! میں اپنے رب سے آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا ‘ وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے “۔ آیت زیر مطالعہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسی وعدے کا حوالہ آیا ہے۔ { وَمَآ اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ } ” اور میں آپ کے بارے میں اللہ کے ہاں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا۔ “ میں آپ کے لیے دعا ضرور کروں گا ‘ اللہ تعالیٰ دعا قبول کرے نہ کرے ‘ وہ آپ کو معاف کرے نہ کرے ‘ یہ اس کا اختیار ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ سورة مریم کی مذکورہ آیات ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی تھیں اور زیر مطالعہ آیت ٨ ہجری میں فتح مکہ سے قبل نازل ہوئی۔ ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جس وعدے کا ذکر ہے اس سے متعلق آخری حکم سورة التوبہ کی اس آیت میں آیا ہے ‘ جو ٩ ہجری میں ذیقعدہ کے بعد نازل ہوئی : { وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہُج فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَـہٗٓ اَنَّـہٗ عَدُوٌّ لِلّٰہِ تَـبَرَّاَ مِنْہُط اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ ۔ } ” اور نہیں تھا استغفار کرنا ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے والد کے حق میں مگر ایک وعدے کی بنیاد پر جو انہوں نے اس سے کیا تھا ‘ اور جب آپ (علیہ السلام) پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ (علیہ السلام) نے اس سے اعلانِ بیزاری کردیا۔ یقینا ابراہیم (علیہ السلام) بہت درد دل رکھنے والے اور حلیم الطبع انسان تھے “۔ چناچہ سورة التوبہ کی یہ آیت جو ٩ ہجری میں ذیقعدہ کے بعد نازل ہوئی ‘ محکم تصور ہوگی اور پہلی آیات اس کے تابع سمجھی جائیں گی۔ { رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ۔ } ” پروردگار ! ہم نے تجھ پر ہی تو کل ّکیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا اور ہمیں تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 That is, "We reject you: we neither consider you to be in the right nor your religion. " The inevitable demand of the faith in Allah is denial of taghut (Satan) : "Whoever rejects taghut and believes in Allah has taken a firm support that never gives way." (Al-Baqarah: 256) . 7 In other words, it means: "Though there is an excellent example for you in Abraham's conduct in that he expressed disapproval of his pagan people and broke off all connections with them, yet his promise to pray for the forgiveness of his pagan father and then carrying it out practically is not worth following, for the believers should not have even this much relationship of love and sympathy with the disbelievers. In At-Taubah: 113, Allah has clearly warned: "It does not behove the Prophet and those who have believed that they should pray for the forgiveness of the polytheists even though they be near kinsmen. " Thus, no Muslim is allowed to pray for the forgiveness of his unbelieving kinsmen on the basis of the argument that the Prophet Abraham had done so. As for the question, why did the Prophet Abraham pray thus, and did he carry out his promise practically? the answer has been provided by the Qur'an in full detail. When his father expelled him from the house, he had said on his departure: "I bid you farewell: I will pray to my Lord for your forgiveness." (maryam: 47) . On the basis of this very promise he prayed for him twice. One prayer is contained in Surah IbrMhim: 41: "Lord, forgive me and my parents and the believers on the Day when reckoning will be hold. " And the second prayer is in Surah AshShua'ra 86: "Forgive my father, for indeed he is from among those who have strayed and do not disgrace the an the Day when the people will be raised back to life." But afterwards when he realized that the father for whose forgiveness he was praying, wan an enemy of Allah, he excused himself from it and broke off even this relationship of love and sympathy with him: "As regards the prayer of Abraham for his father, it was only to fulfil a promise he bad made to him, but when he realized that he was an enemy of Allah, he disowned him. The fact is that Abraham was a tender-hearted, Godfearing and forbearing man (AT-Taubah: 114) . A study of these verses make: the principle manifest that only that act of the prophets u worthy of following, which they persistently practised till the end. As regards those atta which they themselves gave up, or which Allah restrained them from practising or which were forbidden in the Divine Shari ah, they are not worth following, and no one shoWd follow such acts of theirs on the basis of the argument that that was such and such a prophet's practice. Here, another question also arises, which may create confusion in some minds. In the verse under discussion, the saying of the Prophet Abraham which Allah has declared as not worth following, has two parts. The first part is that he said to his father: "I will pray for your forgiveness," and the second: `I have no power to get anything for you from Allah. " Of these the first thing's not being a worthy examples to be. followed is understandable, but, what is wrong with the second thing that that too has been made an exception from being an example worthily of imitation, whereas it by itself is a truth? The answer is that the saying of the Prophet Abraham has been included in the exception for the reason that when a person after making a promise with another to do something, says that it is riot in his power to do anything beyond that for him, it automatically gives the meaning that if it were in his power to do anything further for him, he would have done that too for his sake. This makes his relationship of sympathy with the other person even more manifest. On that very basis this second part of the saying of the Prophet Abraham also deserved to be included in the exception, although its subject was true in so far as it does not lit even in the power of a Prophet to have a person forgiven by Allah. 'Allama Alusi also in his Ruh al-Ma ani has given this same answer to this question.

سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :6 یعنی ہم تمہارے کافر ہیں ، نہ تمہیں حق پر مانتے ہیں نہ تمہارے دین کو ۔ اللہ پر ایمان کا لازمی تقاضا طاغوت سے کفر ہے ۔ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِا لطَّاغُوْتِ وَیُوْمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الوُثْقیٰ لَا انْفِصَامَ لَھَا ۔ پس جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے اس نے در حقیقت مضبوط سہارا تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں ہے ۔ ( البقرہ ، 256 ) سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :7 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیم کی یہ بات تو قابل تقلید ہے کہ انہوں نے اپنی کافر و مشرک قوم سے صاف صاف بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کر دیا ، مگر ان کی یہ بات تقلید کے قابل نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا اور عملاً اس کے حق میں دعا کی ۔ اس لیے کہ کافروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اتنا تعلق بھی اہل ایمان کو نہ رکھنا چاہیے ۔ سورہ توبہ ( آیت 113 ) میں اللہ تعالیٰ کا صاف صاف ارشاد ہے : مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُولِیْ قُرْبیٰ ۔ نبی کا یہ کام نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کو یہ زیبا ہے جو ایمان لائے ہیں کہ مشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کریں ، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ۔ پس کوئی مسلمان اس دلیل سے اپنے کافر عزیزوں کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ یہ کام حضرت ابراہیم نے کیا تھا ۔ رہا سوال کہ خود حضرت ابراہیم نے یہ کام کیسے کیا ؟ اور کیا وہ اس پر قائم بھی رہے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں ہم کو پوری تفصیل کے ساتھ ملتا ہے ۔ ان کے باپ نے جب ان کو گھر سے نکال دیا تو چلتے وقت انہوں نے کہا تھا سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ ، آپ کو سلام ہے ، میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا ( مریم ، 147 ۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے دو مرتبہ اس کے حق میں دعا کی ۔ ایک دعا کا ذکر سورہ ابراہیم ( آیت 41 ) میں ہے : رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الحِسَابْ ۔ اے ہمارے پروردگار ، مجھے اور میرے والدین کو اور سب مومنوں کو اس روز معاف کر دیجیو جب حساب لیا جانا ہے ۔ اور دوسری دعا سورہ شعَراء ( آیت 86 ) میں ہے : وَاغْفِرْ لِاَبِیْ اِنَّہ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ ۔ میرے باپ کو معاف فرما دے کہ وہ گمراہوں میں سے تھا اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جب سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ۔ لیکن بعد میں جب ان کو یہ احساس ہو گیا کہ اپنے جس باپ کی مغفرت کے لیے وہ دعا کر رہے ہیں وہ تو اللہ کا دشمن تھا ، تو انہوں نے اس سے تبری کی اور اس کے ساتھ ہمدردی و محبت کا یہ تعلق بھی توڑ لیا: وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَھَا اِیَّاہُ ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ اَنَّہ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّأ مِنْہُ ، اِنَّ اَبْرَھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ o ( التوبہ 114 ) اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھا کہ ایک وعدہ تھا جو اس نے اپنے باپ سے کر لیا تھا ۔ پھر جب اس پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ اللہ کا دشمن تھا تو اس نے اس سے بیزاری کا اظہار کر دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم ایک رقیق القلب اور نرم خو آدمی تھا ۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ اصولی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء کا صرف وہی عمل قابل تقلید ہے جس پر وہ آخر وقت تک قائم رہے ہوں ۔ رہے ان کے وہ اعمال جن کو انہوں نے بعد میں خود چھوڑ دیا ہو ، یا جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم نہ رہنے دیا ہو ، یا جن کی ممانعت اللہ کی شریعت میں وارد ہو چکی ہو ، وہ قابل تقلید نہیں ہیں اور کوئی شخص اس حجت سے ان کے ایسے اعمال کی پیروی نہیں کر سکتا کہ یہ فلاں نبی کا عمل ہے ۔ یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے جو آدمی ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے ۔ آیت زیر بحث میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے جس قول کو قابل تقلید نمونہ ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا ۔ اور دوسرا حصہ یہ کہ میرے بس میں کچھ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ کو معافی دلوا دوں ۔ ان میں سے پہلی بات کا قابل تقلید نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے ، مگر دوسری بات میں کیا خرابی ہے کہ اسے بھی نمونہ قابل تقلید ہونے سے مستثنیٰ کر دیا گیا ؟ حالانکہ وہ بجائے خود حق بات ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کا یہ قول استثناء میں اس وجہ سے داخل ہوا ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ایک کام کا وعدہ کرنے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اس سے زیادہ تیرے لیے کچھ کرنا میرے بس میں نہیں ہے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر اس سے زیادہ کچھ کرنا اس کے بس میں ہوتا تو وہ شخص اس کی خاطر وہ بھی کرتا ۔ یہ بات اس آدمی کے ساتھ اس شخص کے ہمدردانہ تعلق کو اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے ۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم کا یہ دوسرا قول بھی استثناء میں شامل کیے جانے کا مستحق تھا ، اگرچہ اس کا یہ مضمون بجائے خود برحق تھا کہ اللہ سے کسی کی مغفرت کروا دینا ایک نبی تک کے اختیار سے باہر ہے ۔ علامہ آلوسی نے بھی روح المعانی میں اس سوال کا یہی جواب دیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: مطلب یہ ہے کہ اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم اور کنبے سے برات کا اظہار کردیا تھا، لیکن شروع میں اپنے والد سے مغفرت کی دُعا کا وعدہ ضرور کیا تھا، لیکن جیسا کے سورۂ توبہ (۹۔ ۴۱۱) میں گزرا ہے، جب اُنہیں یہ پتہ چل گیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اللہ کا دُشمن ہے، اور اس کی قسمت میں اِیمان نہیں ہے تو انہوں نے اس دُعا سے بھی علیحدگی اختیار فرمالی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(60:4) قد کانے لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم والذین معہ : قد ماضی پر آئے تو تحقیق کا معنی دیتا ہے اور ماضی کو زمانہ حال کے قریب کردیتا ہے۔ اسوۃ : الاسوۃ والاسوۃ : (قدوۃ وقدوۃ کی طرح) اس ہے ۔ انسان کی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ دوسرے کا متبع ہوتا ہے خواہ وہ حالت اچھی ہو یا بری۔ ہی اتباع الغیر علی الحالۃ التی یکون علیہا حسنۃ او قبیحۃ (اضواے البیان) سرور بخش ہو یا تکلیف دہ۔ اسی لئے آیت ہزا میں اسوۃ کی صفت حسنۃ لائی گئی ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (22:21) عربی میں کہتے ہیں کہ :۔ تاسیت بہ۔ میں نے اس کی اقتداء کی۔ اسوۃ مادہ اس و سے مشتق ہے اور قرآن مجید میں صرف تین جگہ استعمال ہوا ہے۔ وہ جگہ سورت ہذا میں آیت 46 اور آیت 2122 میں۔ اسوۃ کا ترجمہ : نمونہ۔ نمونہ عمل ۔ اقتدار، پیروی۔ اسوۃ اسم ہے کانت کا۔ حسنۃ اس کی صفت ہے۔ فی ابراہیم اس کی خبر۔ یا ابراہیم اسوۃ کی صفت بعد صفت ہے۔ لکم خبر ہے کانت کی۔ یا فی ابراہیم خبر بعد خبر ہے۔ (پہلی خبر لکم ہے) والذین معہ : واؤ عاطفہ ہے الذین اسم موصول جمع مذکر جس کا عطف ابراہیم پر ہے۔ معہ اس کے ساتھ ۔ صلہ اپنے موصول کا جو اس کے ساتھ تھے۔ جو اس کے ساتھی تھے۔ والظاھر ان المراد بالذین معہ (علیہ السلام) اتباعہ المؤمنون (روح المعانی) لکن قال الطبری وجماعۃ : المراد بھم الانبیاء الذین کانوا قریبا من عصرہ علیہ وعلیم السلام ظاھرا۔ الذین معہ سے مراد (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کے مومن پیروکار ہیں۔ لیکن طبری اور ایک جماعت کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ انبیاء ہیں جو ان کے قریب کے ماضی کے زمانہ (ماضی ) میں تھے (علیہ وعلیہم السلام) اذ۔ ظرف زمان ہے اور اذ قالوا لقومہم ۔۔ سے مراد ” وقت وجودھم “ (ان کے وجود یا زندگیوں کا زمانہ) ہے۔ اذقالوا یعنی جب حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں نے اپنی قوم کے کافروں سے کہا (لقومہم) ۔ انا براء ۔۔ وحدہ یہ قالوا کا مقولہ ہے۔ برائ : ظریف ظرفاء کے وزن پر بری کی جمع ہے براء ۃ مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ بیزار۔ لاتعلق۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ براء ۃ من اللہ ورسولہ الی الذین عھدتم من المشرکین (9:1) (اے اہل اسلام اب) ۔ خدا اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری) ہے۔ (مادہ ب ر ئ) ۔ منکم : انابراء منکم ہم بیزاری کرتے ہیں یا ہم بیزار ہیں تم سے، تمہاری ذات سے۔ تمہارے دستور زندگی سے ، تمہارے افعال و کردار سے۔ ومما تعبدون من دون اللہ۔ واؤ عاطفہ ہے۔ مما مرکب ہے، من حرف جار اور ما موصولہ سے۔ تعبدون مضارع جمع مذکر حاضر۔ عبادۃ (باب نصر) مصدر۔ تم عبادت کرتے ہو۔ تم پوجتے ہو۔ یہ ما موصولہ کا صلہ ہے۔ جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ من دون اللہ۔ اللہ کے سواء (اور ہم بیزار ہیں ان سے (بھی) اللہ کو چھوڑ کر جن کی تم پرستش کرتے ہو (مثلا بت، ستارے وغیرہ) کفرنا : ماضی جمع متکلم (باب نصر) مصدر۔ ہم نے انکار کیا۔ ہم نے کفر کیا۔ بکم : ب تعدیہ کا ہے کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ کفرنا بکم : ہم تم سے (قطعا) انکار کرتے ہیں ۔ یعنی ہم تم سے، تمہارے افعال و کردار سے، تمہارے رنگ و ڈھنگ سے، تمہارے دستور زندگی سے اور تمہارے معبود ان باطل سے۔ سب سے قطعا لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ بدا۔ ماضی واحد مذکر غائب ۔ بدو ، بداء (باب نصر) مصدر۔ ظاہر ہوگیا ۔ کھلم کھلا آشکار ہوگیا۔ العداوۃ : عداوت، دشمنی، دل سے تعلق اور وابستگی کا منقطع ہوجانا۔ والبغضائ۔ بغض، حقارت، نفرت، مصدر ہے، حب کی ضد ہے۔ ابدا : ہمیشہ، زمانہ مستقبل غیر محدود۔ حتی : حرف جار ہے۔ انتہاء غایت کے لئے آیا ہے۔ تؤمنوا۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تومنون تھا۔ عامل کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا۔ ایمان (افعال) مصدر۔ تم ایمان لے آؤ۔ حتی کہ تم ایمان لے آؤ۔ وحدہ۔ مصدر منصوب، مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غائب مضاف الیہ۔ یعنی ذات وصفات میں یکتا۔ تنہا۔ مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ حتی تؤمنوا باللہ وحدہ۔ یعنی یہ عداوت تمہارے کفر و شرک میں پڑے رہنے تک ہے۔ ایمان لانے کے بعد بغض وعدات، محبت و الفت میں بدل جائے گی۔ الا۔ حرف استثناء ہے فی ابراہیم مستثنیٰ منہ ہے مضاف محذوف ہے ای فی قول ابراہیم۔ الا قول ابراہیم میں قول ابراہیم مستثنیٰ ہے۔ پورا کلام اس طرح ہوگا۔ قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی قول ابراہیم الا قولہ لابیہ لاسسغفرن لک۔ تمہارے لئے ایک عمدہ نمونہ ہے ابراہیم کے قول (وفعل و زندگی) میں سوائے ان کے اس قول کے اپنے باپ کے ساتھ کہ میں ضرور تمہارے لئے بخشش مانگوں گا۔ استغفرن مضارع تاکید بانون ثقیلہ صیغہ واحد متکلم استغفار (استفعال) مصدر۔ میں معانی چاہوں گا۔ میں بخشش چاہوں گا۔ وما املک لک من اللہ من شیئ۔ یہ جملہ قول مستثنیٰ کا تکملہ ہے اور استغفرن کے فاعل سے حال ہے۔ من شیء میں من زائدہ ہے اور شیء مفعول محل نصب میں ہے۔ اور حال یہ ہے کہ میں خدا کے سامنے تیرے بارے میں کسی چیز کا اختیار نہیں۔ معاف کرنا نہ کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔ ربنا علیک توکلنا ۔۔ انت العزیز الحکیم : یہ کلام مستانفہ ہے اور مفعول ہے ای قالوا ربنا ۔۔ الخ اوامر من اللہ للمؤمنین بان یقولوا یا یہ مؤمنوں کے لئے اللہ کا حکم ہے کہ یوں کہیں۔ ربنا ۔۔ الخ (بیضاوی) ۔ توکلنا ماضی جمع متکلم توکل (تفعل) مصدر۔ ہم نے بھروسہ کیا۔ ہم نے اعتماد کیا۔ علی کے صلہ کے ساتھ۔ نبنا : (الی کے صلہ کے ساتھ) ماضی جمع متکلم انابۃ (افعال) مصدر۔ بمعنی رجوع ہونا الیک انبنا۔ ہم تیری طرف رجوع ہوئے ۔ ن ب و مادہ۔ المصیر۔ اسم ظرف مکان ومصدر۔ صیر مادہ۔ لوٹنے کی جگہ۔ ٹھکانہ ، قرار گاہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی ہماری راہ توحید کو اختیار نہ کرو گے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھی اپنے شرک رشتہ داروں سے الگ ہوگئے تھے۔ اسی طرح تمہارا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے مشرک رشتہ داروں سے کسی قسم کا تعلق رکھو۔2 یعنی اس قول میں حضرت ابراہیم کی پیروی جائز نہیں اور انہوں نے یہ وعدہ اس وقت کیا جب کہ حضرت ابراہیم کو معلوم نہ تھا کہ مشرک کے لئے مفغرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے۔ بعد میں جب انہیں معلوم ہوا کہ اللہ کے دشمن کے لئے مففرت کی دعا نہیں کی جاسکتی اور ان کا والد اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے الگ ہوگئے۔ دیکھیے (توبہ 114)3 یعنی صرف درخواست کرسکتا ہوں نفع کو نقصان کا مجھے اتخیار نہیں ہے۔ یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے وہ اگر چاہے گا تو میری درخواست قبول فرما کر تمہیں بخش دے گا اور نہ میں اس سے زبردستی تمہاری بخشش نہیں کر اسکتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اسوہ حسنہ ہر حال میں اپنے سامنے رکھنے کا حکم۔ بالخصوص ان مسلمانوں کو جو کفار سے دوستی رکھنے کا ذہن رکھتے ہیں۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) نے اپنی اولاد کی خاطر مسلمانوں کا راز اہل مکہ تک پہنچانے کی کوشش کی جو دنیا اور آخرت کے حوالے سے انتہائی نقصان دہ اقدام تھا۔ مسلمانوں کو ایسے اقدام اور نقصان سے بچنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ تمہیں ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا فرمان اور اسوہ حسنہ اپنے لیے نمونہ بنانا چاہیے۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم انہیں کبھی تسلیم نہیں کریں گے، ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ عداوت اور دشمنی رہے گی۔ یہاں تک کہ تم اللہ وحدہ ٗ لاشریک پر سچا اور خالص ایمان لے آؤ۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات طیبہ مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ سوائے اس بات کے جو انہوں نے اپنے باپ کے لیے کہی تھی کہ اے میرے باپ ! میں تیرے لیے مغفرت کی دعا کروں گا۔ البتہ اللہ کے حضور اسے منوانے کا میں اختیار نہیں رکھتا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے یہ بات بھی کہی کہ اے ہمارے رب ! ہم تیری ذات پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور ہم نے تیرے حضور ہی لوٹ کرجانا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے ان کے لیے بخشش کی دعا کا وعدہ کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت فرما دی کہ میں آپ کی مغفرت کی دعا ضرور کروں گا لیکن دعا کی منظوری اور آپ کی بخشش کروانا میرے اختیار میں نہیں۔ یہی عقیدہ توحید کی بنیاد ہے۔ خدا کی خدائی میں نہ کوئی شریک ہے اور نہ ہی اس نے کسی کو اپنی خدائی کے اختیارات دئیے ہیں وہ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے پکڑ لے۔ اس کی پکڑ سے بزرگ تو درکنار اللہ کے رسول بھی کسی کو چھڑا نہیں سکتے۔ اس آیت میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا گیا ہے جس کے لیے اہل علم الولاء والوراع کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اَلْوَلَاءُ وَالْوَرَ اءُ : الولاء کا معنٰی دوستی رکھنا اور الوراء کا معنٰی ہے دوستی توڑتا۔ مراد یہ ہے کہ کفار کے ساتھ دوستی رکھنے کی بجائے ان سے تعلقات منقطع کرنا چاہیے اس اصطلاح کا استعمال اور اس پر عمل بڑا ہی نازک اور حساس مسئلہ ہے۔ آج کے دور میں نوجوان طبقہ اس کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے قتال میں عملاً حصہ نہ لینے والے مسلمانوں پر اسے چسپاں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ اس کا حقیقی مفہوم اور اطلاق راسخ العلم علماء کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے نوجوانوں کو اس مسئلہ میں احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ وہ غیر شعوری طور پر کفار کے معاون بن جاتے ہیں اور ملک وملت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَلْقٰی إِبْرَاہِیْمُ أَبَاہُ آزَرَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ آزَرَ قَتَرَۃٌوَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ لَہٗ إِبْرَاہِیْمُ أَلَمْ أَقُلْ لَّکَ لَا تَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ أَبُوْہُ فَالْیَوْمَ لَآأَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ إِبْرَاہِیْمُ یَارَبِّ إِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ أَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزٰی مِنْ أَبِی الْأَبْعَدِفَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِنِّیْ حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلٰی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ یَآ إِبْرَاہِیْمُ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَإِذَا ھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍ فَیُؤْخَذُ بِقَوَآءِمِہٖ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ ) (رواہ البخاری : باب قول اللّٰہ تعالیٰ ” واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا “ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار ہوگا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ سے کہیں گے اے میرے باپ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ ان کا باپ کہے گا کہ آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) فریاد کریں گے کہ اے میرے رب آپ نے مجھ سے قیامت کے دن مجھے ذلیل نا کرنے کا وعدہ کیا تھا میرے باپ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی ذلت ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ وہ دیکھیں گے تو ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجو بن چکا ہوگا جسے پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کا اسوہ مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے دوٹوک الفاظ میں غیر اللہ کی عبادت کا انکار کیا۔ ٣۔ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں نے واضح الفاظ میں اپنی قوم کے سامنے اعلان کیا کہ جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہیں لاؤ گے ہماری اور تمہاری دشمنی رہے گی۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہم اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کی طرف ہمیں لوٹ کرجانا ہے۔ ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرک باپ کے لیے دعا کرنا امت کے لیے نمونہ نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن کفّار اور مشرکین سے دینی اعتبار سے لاتعلق ہونا فرض ہے : ١۔ آپ فرما دیں اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ (یوسف : ١٠٨ ) ٢۔ کہہ دیجیے اللہ ایک ہے بیشک میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩ ) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم ! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام : ٧٨ ) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے بری الذمہ ہیں۔ (الممتحنہ : ٤) ٥۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے کہا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ (ہود : ٥٤) ٦۔ بیشک اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہے۔ (التوبہ : ٣ )

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انہی لوگوں کے طرفز عمل میں تمہارے لئے ہر اس شخص کے لئے اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخر کا امیدوار ہو۔ اس سے کوئی منحرف ہو تو اللہ بےنیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے “۔ ایک مسلم جب تاریخ پر نظر ڈالتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی ایک طویل تاریخی نسب نامہ اور شجرہ ایمان ہے۔ یہ ماضی کی تاریخ میں بہت دور تک پھیلا ہوا ہے ، دور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے عقائد ونظریات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پیروکار ہے بلکہ اہل ایمان اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دعوتی تجربات بھی ایک ہی جیسے ہیں اس لئے ایک مومن یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کے پاس تجربات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ نہ صرف وہ تجربات جن سے وہ گزر رہا ہے بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تجربات بھی اس میں شامل ہیں۔ قافلہ ایمان جو اب مکہ میں ہے ، یہ تو ماضی کی تاریخ زمان ومکان میں بہت دور تک چلا ہے۔ کئی وادیاں اس نے طے کی ہیں۔ یہ صرف اسی جھنڈے تلے چلتا رہا ہے اور ایسے ہی حالات سے گزرا ہے جن سے وہ گزر رہے ہیں ، یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے کہ گویا صرف تم ان مشقتوں سے دو چار ہوگئے ہو۔ آج اگر مومنین کا تعلق اپنے دشمنوں سے کٹ گیا تو کیا بات ہے۔ وہ ایک ایسے نظریہ کی ایک شاخ ہے جس کی نہایت ہی سایہ دار شاخیں تاریخ کی فضا میں ، دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ وہ درخت ہے جس کا پودا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے لگایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اس تجربے سے گزرے تھے ، جس سے مدینہ میں مسلمان گزر رہے تھے اور حضرت ابراہیم میں الہ ایمان کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ اذ قالو ........................ وحدہ (٠ : ٤) ”” تم لوگوں کے لئے ابراہیم (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں میں اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا “۔ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو ، قطعی بیزار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت ہوگئی اور بیر پڑگیا۔ جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ “۔ اس میں انہوں نے اپنی قوم ، ان کے معبودوں ، اور ان کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کردیا۔ دوسرے الفاظ میں ان کا کفر کیا اور اللہ پر ایمان لائے اور یہ عداوت اور بغض اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ اللہ وحدہ پر ایمان نہ لائے۔ یہ دو ٹوک ، فیصلہ کن اور پختہ قطع تعلق تھا ، جس کے بعد فریقین کے درمیان سے ہر قسم کے روابط کٹ گئے ، ماسوائے تعلق ایمان کے۔ یہی فیصلہ اہل ایمان کا فیصلہ ہے اور یہی قرار داد ان اہل ایمان کی ہے جو مدینہ میں ہیں۔ اور ایسا ہی ہونا چاہئے جس طرح امت ابراہیمی نے فیصلہ کیا۔ بعض مومنین یہ دیکھتے تھے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے باوجود قطع تعلق کے اپنے والد کے لئے استغفار کیا حالانکہ وہ مسرک تھے۔ اس میں بعض مسلمانوں کے لئے دبے ہوئے جذبات ابھرانے کی راہ تھی۔ جو وہ اپنے مشرک بھائیوں کے لئے رکھتے تھے۔ چناچہ قرآن نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس استغفار کی توضیح کردی۔ کیونکہ انہوں نے باپ سے کہا تھا۔ لا ستغفرن لک (٠٦ : ٤) ” میں تمہارے لئے ضروری استغفار کروں گا “۔ یہ بات انہوں نے اس وقت کہہ دی ، جب ان کے والد نے شرک پر اصرار نہ کیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت اپنے والد کے ایمان کے بارے میں توقع رکھتے تھے۔ فلما .................... منہ ” جب یہ بات کھل گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے بیزاری کا اعلان کردیا “۔ جیسا کہ دوسری سورت میں آیا ہے۔ یہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سارا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا تھا اور توکل اور یکسوئی کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ وما املک .................... المصیر (٠٦ : ٤) ” اور اللہ سے آپ کے لئے کچھ حاصل کرلینا میرے بس میں نہیں ہے “ (اور ابراہیم (علیہ السلام) واصحاب ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا یہ تھی کہ) ” اے ہمارے رب ، تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کرلیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے “۔ یوں اللہ کے سامنے مطلق سپردگی کا اعلان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرت کا خاصہ ہے۔ اور اس کی طرف یہاں اہل ایمان کے دلوں کو متوجہ کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کا یہ انداز ہے کہ وہ کسی بھی قصے کی ایک ہی کڑی کو لے کر اس کا تجزیہ کرتا ہے اور اہل ایمان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے۔ اور اس کڑی کے اندر مسلمانوں کے لئے جو سبق ، نصیحت ، حکمت اور دانائی کی قابل تقلید مثال ہوتی ہے ، اسے واضح کردیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ قابل اقتداء ہے اور کافر کے لئے استغفار ممنوع ہے ایمان اور کفر کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے جو اپنی قوم سے اور اپنی باپ سے مباحثے ہوئے جگہ جگہ قرآن مجید میں مذکور ہیں، ان باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے بغیر کسی مداہنت کے اپنی قوم کے سامنے اعلان کردیا کہ ہم تم سے اور تم اللہ کے سوا جن کی بھی عبادت کرتے ہو ان سے بھی بیزار ہیں، اس اعلان کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ ہم تمہارے منکر ہیں ہم تمہارے دین کو نہیں مانتے اور ہمارے تمہارے درمیان بغض ہے اور دشمنی ہے اور یہ دشمنی ہمیشہ رہے گی جب تک تم اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان نہ لاؤ۔ اہل ایمان کو اسی طرح کھلے طور پر اپنے ایمان کا اعلان کرنا چاہئے کافروں کے سامنے جھکنا اور ان سے ایسی ملاقات کرنا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ ان سے دوستی ہے یا یہ کہ وہ بھی دین حق پر ہیں یا یہ کہ ہمارا دین کمزور ہے (العیاذ باللہ) یہ سب باتیں ایمان کے خلاف ہیں۔ ڈنکے کی چوٹ اعلان کردیں کہ ہم تم میں سے نہیں اور تم ہم میں سے نہیں، کافروں سے کسی قسم کی موالات و مداہنت کا معاملہ نہ کریں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو اپنے باپ سے باتیں کی تھیں ان میں ایک یہ بات بھی تھی ﴿لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ ﴾ کہ میں تمہارے لئے استغفار کروں گا اور ساتھ یہ بھی کہ تھا، ﴿ وَ مَاۤ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ ﴾ (میں تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا مالک نہیں) یعنی ایمان قبول نہ کرو گے اور کفر ہی اختیار كئے رہو گے تو میں اللہ کے عذاب سے تمہیں نہیں بچا سکتا اس میں مغفرت کی دعاء کا جو وعدہ کیا تھا اس کے مطابق انہوں نے دعا بھی کی تھی جس کا سورة شعراء میں ذکر ہے۔ ﴿وَ اغْفِرْ لِاَبِيْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيْنَۙ٠٠٨٦﴾ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ان کو ایمان کی توفیق دے اور مغفرت فرما، سورة توبہ میں فرمایا ہے ﴿ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ١ؕ﴾ (جب ان پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے یعنی یہ یقین ہوگیا کہ کفر پر باپ کی موت ہوگی تو بیزاری ظاہر کردی) ۔ سورة ممتحنہ میں جو ﴿ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ ﴾ فرمایا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ابراہیم اور ان کے ساتھ جو توحید اور اعمال صالحہ میں ان کے شریک حال تھے ان میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے سوائے اس بات کے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے استغفار کرنے کا وعدہ کیا۔ اس بات میں ان کا اسوہ نہیں ہے۔ ﴿رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَ اِلَيْكَ اَنَبْنَا وَ اِلَيْكَ الْمَصِيْرُ ٠٠٤﴾ بغض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کی دعاء ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہاں قولوا مقدر ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے امت محمد یہ علی صاحبہا الصلوٰۃ کو حکم دیا ہے کہ یوں دعاء کریں کہ اے ہمارے رب ہم نے آپ پر بھروسہ کیا اور آپ ہی کی طرف رجوع کیا اور آپ ہی کی طرف جانا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” قد کانت لکم “ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کے عمل میں تمہارے لیے اقتداء و اتباع کا بہت عمدہ نمونہ تھا۔ انہوں نے اپنے مشرک اعزہ و اقارب سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمارے تمہارے تعلقات اب ختم ہیں اور ہم تم سے اور تمہارے خود ساختہ معبودوں سے بیزار ہیں اور جن معبودوں کو تم اللہ کے سواء پکارتے ہو ان کی معبودیت اور کارسازی کا انکار کرتے ہیں اب ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے بغض و عداوت قائم ہوچکی ہے۔ ہاں اگر تم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مان لو اور ہمارا دین قبول کرلو تو تم ہمارے بھائی ہو۔ البتہ ابراہیم (علیہ السلام) حسب وعدہ اپنے باپ کیلئے ہدایت کی دعا مانگتے رہے۔ ” ساستغفر لک ربی انہ کان بی حفیا “ (مریم رکوع 3) ۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوگیا کہ ان کے باپ کے دل پر مہر جباریت لگ چکی ہے اور اب اسے ہدایت کی توفیق نہیں مل سکتی تو اس کے لیے ہدایت ومغفرت کی دعا مانگنا ترک کردیا۔ ” وما کان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ۔ الایۃ “ (توبہ) ، قالہ ابن قتیبہ۔ امام مجاہد اور قتادہ اور ابن الانباری کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ہر فعل کی اقتداء کرو، لیکن ان کے اس قول ” لاستغفرن لک “ یعنی مشرک باپ کے لیے دعاء مغفرت کرنے میں ان کی اقتداء نہ کرو۔ المعنی کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی کل شیء الا فی قولہ لا استغفرن لک (کبیر ج 8 ص 187) ۔ تو تمہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کے نقش قدم پر چلنا چاہئے تھا۔ اور مشرکین سے بالکلیہ تعلقات ختم کردینے چاہئیں تھے۔ 8:۔ ” وما املک “ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے یعنی میں تو صرف تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے التجا ہی کرسکتا ہوں کہ وہ تجھے ہدایت عطاء فرما کر تیری بخشش کا سامان فراہم کرے، لیکن اس کے سوا میرے اختیار میں کچھ نہیں۔ لاستغفرن لک وما فی طاقتی الا ھذا (روح) ۔ ہمارے پروردگار ! ہمارا توکل اور بھروسہ تجھ ہی پر ہے۔ ہر معاملے میں ہم تیری ہی طرف راغب و راجع ہیں اور ہر چیز کی انتہا تیری ہی جانب ہے۔ سب کچھ تیرے ہی تصرف و اختیار میں ہے کسی اور کے اختیار میں نہیں۔ ” ربنا علیک توکلنا الخ “ تینوں جگہوں میں جار مجرور کی تقدیم حصر کے لیے ہے (روح) ۔ ” ربنا ولا تجعلنا الخ “ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں مشرکین کے لیے فتنہ نہ بنا دینا یعنی ان کو ہم پر مسلط نہ کردینا کہ وہ ہمیں ہر طرح تکالیف و مصائب میں مبتلا کردیں اور ہمارے قصور معاف فرما بیشک تو سب پر غالب اور حکمت والا ہے لا تسلطھم علینا فیفتنونا ویعذبونا (قرطبی ج 18 ص 57) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) بلا شبہ تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام) میں اور ان لوگوں میں جو ان کے ساتھی اور شریک حال تھے ایک عمدہ نمونہ اور بیشک تم کو چال چلنی ہے اچھی ابراہیم (علیہ السلام) کی اور جو اس کے ساتھ تھے جبکہ ان سب نے اوقات مختلفہ میں اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان سے جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجتے ہو اور جن کی پرستش کیا کرتے ہو سخت بیزار ہیں ہم تمہارے عقائد باطلہ کے منکر ہیں اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت اور دشمنی ظاہر ہوگئی تاوقتیکہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لے آئو مگر ہاں ابراہیم (علیہ السلام) کی اتنی بات جو اس نے اپنے باپ سے کہی تھی کہ میں تیرے لئے استغفار ضرور کروں گا اور میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی تیرے بھلے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار ہم آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اور آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف سب کی بازگشت ہے۔ یعنی کفار سے تعلقات کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی جو بتدریج بڑھتے رہے ابتداء میں بہت کم تھے پھر اور بڑھ گئے۔ بہرحال ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا پیروی کرنے کے لئے ایک اچھا نمونہ اور ان کی سیرت قابل اقتدا اور واجب الاتباع ہے پھر وہ روش اور ان کا طرز عمل بیان فرمایا کہ ان سب نے صاف طور پر کہہ دیا کہ ہم تمہارے طرز عمل اور تمہارے معبودان باطلہ سے بیزار بری الذمہ اور الگ ہیں ہم تم سے یعنی تمہارے باطل عقیدوں کے منکر ہیں اور باعتبار معاملات اور برتائو کے بھی ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے دشمنی اور عداوت وبغض قائم ہے جب تک کہ تم اپنے عقائد باطلہ سے توبہ کرکے اللہ تعالیٰ جو وحدہ لاشریک ہے اس پر ایمان نہ لے آئو اس وقت تک یہ عداوت اور دشمنی قائم رہے گی یعنی شرک اور مشرکین کی عداوت کی غایت مشرکین کا اللہ تعالیٰ پر جو وحدہ لاشریک ہے ایمان لے آنا ہے ہاں ابراہیم (علیہ السلام) کی اتنی بات اپنے باپ سے ضرور ایک وعدے کی بنا پر تھی کہ میں تیرے لئے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تجھے کچھ نفع نہ پہنچا سکوں گا اور میں تیرے بھلے کا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے مالک نہیں ہوں چونکہ کفار کے ساتھ نہایت صاف الفاظ میں بیزاری کا اظہار فرمایا تھا آگے ان ابراہیم (علیہ السلام) اور مومنین کی دعا ذکر فرمائی۔ اے ہمارے پروردگار ہم نے تجھی پر توکل کیا تاکہ کفار کے شر سے اور ضرر سے محفوظ رہیں اور تجھ پر ایمان لانے میں تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنے اس اعتقاد کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم سب کی بازگشت تیری ہی طرف ہے اور سب کو تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔