Surat ul Mumtahina

Surah: 60

Verse: 7

سورة الممتحنة

عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّجۡعَلَ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَ الَّذِیۡنَ عَادَیۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ مَّوَدَّۃً ؕ وَ اللّٰہُ قَدِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۷﴾

Perhaps Allah will put, between you and those to whom you have been enemies among them, affection. And Allah is competent, and Allah is Forgiving and Merciful.

کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالٰی تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے اللہ کو سب قدرتیں ہیں اور اللہ ( بڑا ) غفور رحیم ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Perhaps Allah will make a Friendship between You and Those, whom You hold as Enemies Allah said to His faithful servants, after ordering them to be enemies with the disbelievers, عَسَى اللَّهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةً ... Perhaps Allah will make friendship between you and those, whom you hold as enemies. meaning affection after animosity, tenderness after coldness and coming together after parting from each other, ... وَاللَّهُ قَدِيرٌ ... And Allah has power (over all things), Allah is able to gather opposites and bring together hearts, after feeling hostility and hardness. In this case, the hearts will come together in agreement, just as Allah said when He mentioned His favor on the Ansar, وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُم أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُمْ مِّنْهَا And remember Allah's favor on you, for you were enemies one to another but He joined your hearts together, so that, by His grace, you became brethren and were on the brink of a pit of Fire, and He saved you from it. (3:103) Also the Prophet said to them, أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّلاً فَهَدَاكُمُ اللهُ بِي وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ فَأَلَّفَكُمُ اللهُ بِي Did I not find you misguided, and Allah guided you through me; and divided, and Allah united (your hearts) through me? Allah the Exalted said, هُوَ الَّذِى أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُوْمِنِينَ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِى الاٌّرْضِ جَمِيعاً مَّأ أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ He it is Who has supported you with His help and with the believers. And He has united their hearts. If you had spent all that is in the earth, you could not have united their hearts, but Allah has united them. Certainly He is Almighty, All-Wise. (8:62,63) And in the Hadith: أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْنًا مَا فَعَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْمًا مَا وَأَبْغِضْ بَغِيضَكَ هَوْنًا مَا فَعَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْمًا مَا - Love your loved one moderately, because one day, he might become your enemy. - Hate your hated one moderately, because one day, he might become your loved one. Allah's statement, ... وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. means, Allah forgives the disbelief of the disbelievers if they repent from it, returned to their Lord and surrendered to Him in Islam. Surely, He is the Oft-Forgiving, the Most-Merciful to those who repent to Him from their sins, no matter what type of the sin it is. The Permissibility of being Kind to Disbelievers who do not fight against the Religion And Allah's statement; Allah command's,

کفار سے محبت کی ممانعت کی دوبارہ تاکید کافروں سے محبت رکھنے کی ممانعت اور ان کی بغض و وعداوت کے بیان کے بعد اب ارشاد ہوتا ہے کہ بسا اوقات ممکن ہے کہ ابھی ابھی اللہ تم میں اور ان میں میل ملاپ کرا دے ، بغض نفرت اور فرقت کے بعد محبت مودت اور الفت پیدا کر دے ، کونسی چیز ہے جس پر اللہ قادر نہ ہو؟ وہ متبائن اور مختلف چیزوں کو جمع کر سکتا ہے ، عداوت و قساوت کے بعد دلوں میں الفت و محبت پیدا کر دینا اس کے ہاتھ ہے ، جیسے اور جگہ انصار پر اپنی نعمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ہے ( ترجمہ ) الخ تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اسے یاد کرو کہ تمہاری دلی عداوت کو اس نے الفت قلبی سے بدل دیا اور تم ایسے ہوگئے جیسے ماں جائے بھائی ہوں تم آگ کے کنارے پہنچ چکے تھے لیکن اس نے تمہیں وہاں سے بچا لیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاریوں سے فرمایا کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت دی اور تم متفرق تھے میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں جمع کر دیا ، قرآن کریم میں ہے ( ترجمہ ) الخ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد سے مومنوں کو ساتھ کر کے اے نبی تیری مدد کی اور ایمان داروں میں آپس میں وہ محبت اور یکجہتی پیدا کر دی کہ اگر روئے زمین کی دولت خرچ کرتے اور یگانگت پیدا کرنا چاہتے تو وہ نہ کر سکتے یہ الفت منجانب اللہ تھی جو عزیز و حکیم ہے ، ایک حدیث میں ہے دوستوں کی دوستی کے وقت بھی اس بات کو پیش نظر رکھو کہ کیا عجب اس سے کسی وقت دشمنی ہو جائے اور دشمنوں کی دشمنی میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو کیا خبر کب دوستی ہو جائے ، عرب شاعر کہتا ہے ۔ یعنی ایس دو دشمنوں میں بھی جو ایک سے ایک جدا ہوں اور اس طرح کہ دل میں گرہ دے لی ہو کہ ابد الا آباد تک اب کبھی نہ ملیں گے اللہ تعالیٰ اتفاق و اتحاد پیدا کر دیتا ہے اور اس طرح ایک ہو جاتے ہیں کہ گویا کبھی دو نہ تھے ، اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے کافر جب توبہ کریں تو اللہ قبول فرما لے گا جب وہ اس کی طرف جھکیں وہ انہیں اپنے سائے میں لے لے گا ، کوئی سا گناہ ہو اور کوئی سا گنہگار ہو ادھر وہ مالک کی طرف جھکا ادھر اس کی رحمت کی آغوش کھلی ، حضرت مقاتل بن حیان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت ابو سفیان صخر بن حرب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان کی صاحبزادی صاحبہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر لیا تھا اور یہی مناکحت حجت کا سبب بن گئی ، لیکن یہ قول کچھ جی کو نہیں لگتا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نکاح فتح مکہ سے بہت پہلے ہوا تھا اور حضرت ابو سفیان کا اسلام بالاتفاق فتح مکہ کی رات کا ہے ، بلکہ اس سے بہت اچھی توجیہ تو وہ ہے جو ابن ابی حاتم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سفیان صخر بن حرب کو کسی باغ کے پھلوں کا عامل بنا رکھا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد یہ آ رہے تھے کہ راستے میں ذوالحمار مرتد مل گیا آپ نے اس سے جنگ کی اور باقعادہ لڑے پس مرتدین سے پہلے پہل لڑائی لڑنے والے مجاہد فی الدین آپ ہیں ، حضرت ابن شہاب کا قول ہے کہ انہی کے بارے میں یہ آیت عسی اللہ الخ ، اتری ہے ، صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سفیان نے اسلام قبول کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری تین درخواستیں ہیں اگر اجازت ہو تو عرض کروں آپ نے فرمایا کہو اس نے کہا اول تو یہ کہ مجھے اجازت دیجئے کہ جس طرح میں کفر کے زمانے میں مسلمانوں سے مسلسل جنگ کرتا رہا اب اسلام کے زمانہ میں کافروں سے برابر لڑائی جاری رکھوں آپ نے اسے منظور فرمایا ، پھر کہا میرے لڑکے معاویہ کو اپنا منشی بنا لیجئے آپ نے اسے بھی منظور فرمایا ( اس پر جو کلام ہے وہ پہلے گذر چکا ہے ) اور میری بہترین عرب بچی ام حبیبہ کو آپ اپنی زوجیت میں قبول فرمائیں ، آپ نے یہ بھی منظور فرما لیا ، ( اس پر بھی کلام پہلے گذر چکا ہے ) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جن کفار نے تم سے مذہبی لڑائی نہیں کی نہ تمہیں جلا وطن کیا جیسے عورتیں اور کمزور لوگ وغیرہ ان کے ساتھ سلوک و احسان اور عدل و انصاف کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا بلکہ وہ تو ایسے با انصاف لوگوں سے محبت رکھتا ہے ، بخاری مسلم میں ہے کہ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما کے پاس ان کی مشرک ماں آئیں یہ اس زمانہ کا ذکر ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح نامہ ہو چکا تھا حضرت اسماء خدمت نبوی میں حاضر ہو کر مسئلہ پوچھتی ہیں کہ میری ماں آئی ہوئی ہیں اور اب تک وہ اس دین سے الگ ہیں کیا مجھے جائز ہے کہ میں ان کے ساتھ سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں جاؤ ان سے صلہ رحمی کرو ، مسند کی اس روایت میں ہے کہ ان کا نام قتیلہ تھا ، یہ مکہ سے گوہ اور پنیر اور گھی بطور تحفہ لے کر آئی تھیں لیکن حضرت اسماء نے اپنی مشرکہ ماں کو نہ تو اپنے گھر میں آنے دیا نہ یہ تحفہ ہدیہ قبول کیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اور آپ کی اجازت پر ہدیہ بھی لیا اور اپنے ہاں ٹھہرایا بھی ، بزار کی حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا نام بھی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں اس لئے کہ حضرت عائشہ کی والدہ کا نام ام رومان تھا اور وہ اسلام لا چکی تھیں اور ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائی تھیں ، ہاں حضرت اسماء کی والدہ ام رومان نہ تھیں ، چنانچہ ان کا نام قتیلہ اوپر کی حدیث میں مذکور ہے ۔ واللہ اعلم مقسطین کی تفسیر سورہ حجرات میں گذر چکی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے ، حدیث میں ہے مقسطین وہ لوگ ہیں جو عدل کے ساتھ حکم کرتے ہیں گواہل و عیال کا معاملہ ہو یا زیردستوں کا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عرش کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی ممانعت تو ان لوگوں کی دوستی سے ہے جو تمہاری عداوت سے تمہارے مقابل نکل کھڑے ہوئے تم سے صرف تمہارے مذہب کی وجہ سے لڑے جھگڑے تمہیں تمہارے شہروں سے نکال دیا تمہارے دشمنوں کی مدد کی ۔ پھر مشرکین سے اتحاد واتفاق دوستی دیکھتی رکھنے والے کو دھمکاتا ہے اور اس کا گناہ بتاتا ہے کہ ایسا کرنے والے ظالم گناہ گار ہیں اور جگہ فرمایا یہودیوں نصرانیوں سے دوستی کرنے والا ہمارے نزدیک انہی جیسا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی ان کو مسلمان کرکے تمہارا بھائی اور ساتھی بنا دے، جس سے تمہارے مابین عداوت، دوستی اور محبت میں تبدیل ہوجائے گی۔ چناچہ ایسا ہی ہوا، فتح مکہ کے بعد لوگ فوج در فوج مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور ان کے مسلمان ہوتے ہی نفرتیں، محبت میں تبدیل ہوگئیں، جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے، وہ دست وبازو بن گئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] فتح مکہ سے پیشتر کفار مکہ کے ایمان لانے کی خوشخبری :۔ اس آیت میں مسلمانوں کو فتح مکہ سے پہلے ہی فتح مکہ کی خوشخبری دے دی گئی ہے۔ اور ابتداء میں عسیٰ کا لفظ محض شاہانہ انداز بیان کی رعایت سے آیا ہے۔ جیسے کوئی بادشاہ اپنے کسی ملازم کو کہے کہ ہوسکتا ہے کہ تمہیں ترقی دے دی جائے۔ تو اس کا مطلب ایک یقینی خبر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف فتح مکہ کی خبر ہی نہیں دی۔ بلکہ یہ بھی بتلا دیا کہ مکہ کے کافر جو آج تمہارے سخت دشمن ہیں۔ اسلام قبول کرلیں گے اور تم لوگ پھر آپس میں شیروشکر بن جاؤ گے۔ [١٧] یعنی اللہ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ حالات کا رخ اس طرح موڑ دے کہ مکہ بھی فتح ہوجائے۔ کشت و خون بھی نہ ہو اور کافروں کی اکثریت بھی مسلمان ہو کر تمہارے ساتھ مل جائے۔ رہی وہ غلطی جو اس سلسلہ میں تم نے کی ہے۔ تو اللہ اس غلطی کو بھی اور اسی طرح تمہاری دوسری غلطیوں اور لغزشوں کو بھی ازراہ کرم معاف کردینے والا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ عَسَی اللہ ُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَّوَدَّۃً : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے مشترک رشتہ داروں سے قطع تعلق کا جو حکم دیا اس کے مطابق اپنے عزیزوں سے ناتا توڑنا اگرچہ نہایت مشکل کام تھا مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور کسی قربت کی پروا نہیں کی ، اللہ تعالیٰ نے ان کے صدق و اخلاص کو دیکھ کر اس آیت کے ساتھ ان کی دلجوئی فرمائی اور انہیں بشارت دی کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جن کے ساتھ دین کی وجہ سے تمہاری دشمنی ہے دوستی پیدا کر دے ، تمہارے یہ عزیز مسلمان ہوجائیں اور دشمنی پھر محبت میں بدل جائے۔ ٢۔ وَ اللہ ُ قَدِیْرٌ: ظاہریہ ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ جن لوگوں نے مسلمانوں کو مکہ سے نکالا ، مدینہ میں بھی چین نہ لینے دیا ، بدر و احد ، خندق اور دوسرے معرکے برپا کیے وہ دوبارہ دوست بن جائیں گے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ، اس کے لیے دلوں کو پھیر دینا کچھ مشکل نہیں ، چناچہ ان آیات کے نزول کے بعد تھوڑی مدت ہی گزری تھی کہ مکہ فتح ہوگیا اور قریش اور دوسرے قبائل فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے اور سوائے ان کفار کے جو قتل ہوگئے تھے ، آخر کار سب مسلمان ہوگئے ، حتیٰ کہ جزیرۂ عرب میں کوئی مشرک باقی نہ رہا ۔ ابو سفیان اور دوسرے قریشی سردار جو مسلمانوں کے خلاف لڑتے آئے تھے ، اب اسلام کی سربلندی کے لیے سربکف ہو کر لڑنے لگے۔ ٣۔ وَ اللہ ُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ : یعنی مشرکین نے اب تک اہل ایمان سے جو عداوت رکھی اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت و رحمت کی وجہ سے اس سے در گزر فرما کر انہیں ایمان لانے اور مسلمانوں کے دوست بن جانے کی توفیق عطاء فرمانے والا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The preceding verses vehemently prohibited Muslims to maintain any friendly intimacy with non-believers, even though they had very near blood relationships with them. The noble Companions used to carry out the commands of Allah and His Messenger in letter and spirit. In this matter, they did not care about their personal desires, or about their near and dear ones. This command was also carried out with the result that in some homes the father was a Muslim and the son was an unbeliever or vice versa. Friendly relations were severed. Obviously, this situation was not easy for their human nature. That is why Allah gives them the assurance that soon the hardship will be over. According to some ahadith, when a servant of Allah gives up his favorite thing for the sake of Allah, Allah delivers it to him in a lawful manner, and at times he is granted something better than it. The present verses give an indication that those who are implacable enemies of Muslims because of their disbelief would soon become their friends. In other words, Allah will grant the enemies the ability to embrace the Faith and thus restore the mutual relationships. This prophecy was fulfilled on the occasion of the Conquest of Makkah when, besides the unbelievers who were killed, the rest of the people became Muslims. [ Mazhari ]. The Holy Qur&an describes it thus يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا (...and you see people entering Allah&s [ approved ] religion in multitudes..) [ 110:2] It is recorded in Sahih of Bukhari, on the authority of Sayyidah Asma& bint Abu Bakr (رض) ، that her mother arrived in Madinah from Makkah in the state of disbelief. According to a narration in Musnad of Ahmad, this incident occurred when peace treaty of Hudaibiyah with the Makkan Quraish had been concluded and was in force. Her mother&s name was Qutailah. She brought gifts for her daughter Sayyidah Asma& (رض) but she refused to accept them. She did not even allow her to enter her house unless she sought the permission of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Sayyidah Asma& (رض) asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) how to treat her mother who came to her while still disbeliever. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) advised her to treat her kindly, politely and courteously. On that occasion, the following verse was revealed لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ. (Allah does not forbid you from doing good and justice to those who did not fight you because of faith ....60:8)

خلاصہ تفسیر (اور چونکہ ان کی عداوت سن کر مسلمانوں کو فکر ہو سکتی تھی کچھ قطع قرابات سے طبعاً رنج ہوسکتا تھا، اس لئے بطور بشارت کے آگے پیشین گوئی فرماتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ سے امید ہے ( یعنی ادھر سے وعدہ ہے) کہ تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تمہاری عداوت ہے دوستی کر دے (گو بعض ہی سے سہی، یعنی ان کو مسلمان کر دے جس سے عداوت مبدل بہ صداقت ہوجاوے) اور ( اس کو کچھ بعید نہ سمجھو کیونکہ) اللہ کو بڑی قدرت ہے (چنانچہ فتح مکہ کے روز بہت آدمی خوشی سے مسلمان ہوگئے، مطلب یہ کہ اول تو اگر قطع تعلق ہمیشہ کے لئے ہوتا تب بھی بوجہ مامور بہ ہونے کے واجب العمل تھا، پھر خاص کر جبکہ تھوڑی ہی مدت کے لئے کرنا پڑے اور پھر مشارکت فی الایمان سے دوستی اور تعلق بدستور عود کر آوے تو کوئی فکر کی بات نہیں) اور (اب تک جو کسی سے اس حکم کے خلاف خطا ہوگئی ہے جس سے اب وہ تائب ہوچکا ہے تو) اللہ تعالیٰ (اس کے لئے) غفور رحیم ہے ( اور یہاں تک تو دوستانہ تعلقات کی نسبت حکم فرمایا تھا کہ ان کا قطع واجب ہے آگے محسنانہ تعلقات کے حکم کی تفصیل فرماتے ہیں وہ یہ کہ) اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا (مراد وہ کافر ہیں جو ذمی یا مصالح ہوں، یعنی محسنانہ برتاؤ ان سے جائز ہے، باقی رہا عدل و انصاف کا منصفانہ برتاؤ تو اس میں ذمی یا مصلح کی شرط نہیں بلکہ وہ تو ہر کافر بلکہ جانور کے ساتھ بھی واجب ہے، اس آیت میں عدل و انصاف سے مراد محسنانہ برتاؤ کرنا ہے اس لئے مصالحین کے ساتھ مخصوص کیا گیا) اللہ تعالیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں (البتہ) صرف ان لوگوں کے ساتھ دوستی (یعنی برو احسان) کرنے سے اللہ تعالیٰ تم کو منع کرتا ہے جو تم سے دین کے بارے میں لڑے ہوں ( خواہ بالفعل یا بالعزم) اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہو اور ( اگر نکالا نہ بھی ہو لیکن) تمہارے نکالنے میں (نکالنے والوں کی) مدد کی ہو (یعنی ان کے ساتھ شریک ہوں خواہ ان کے عمل میں شرکت کی ہو یا عزم و ارادہ اس کا رکھتے ہوں اس میں وہ سب کافر آگئے جن سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ صلح کا یا عقد ذمہ نہیں تھا، ان کے ساتھ بر و احسان کا معاملہ جائز نہیں بلکہ ان سے جنگ اور مقابلہ مطلوب ہے) اور جو شخص ایسوں سے دوستی (کا برتاؤ یعنی بر و احسان کا برتاؤ) کرے گا سو وہ لوگ گنہگار ہوں گے۔ معارف و مسائل سابقہ آیات میں کفار سے دوستانہ تعلق رکھنے کی سخت ممانعت و حرمت کا بیان آیا ہے اگرچہ وہ کفار رشتہ و قرابت میں کتنے ہی قریب ہوں، صحابہ کرام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کے معاملہ میں نہ ذاتی خواہش کی پروا کرتے تھے نہ کسی خویش و عزیز کی، اس پر عمل کیا گیا جس کے نتیجہ میں گھر گھر یہ صورت پیش آئی کہ باپ مسلمان بیٹا کافر یا اس کے برعکس ہے تو دوستانہ تعلق قطع کردیا گیا، ظاہر ہے انسانی فطرت اور طبیعت پر یہ عمل آسان نہ تھا، اس لئے آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے ان کی اس مشکل کو عنقریب آسان کردینے کی خبر سنا دی۔ بعض روایات حدیث میں ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ جب اللہ کی رضا جوئی کے لئے اپنی کسی محبوب چیز کو چھوڑتا ہے تو بعض اوقات اللہ تعالیٰ ایسی چیز کو حلال کر کے اس تک پہنچا دیتے ہیں اور بعض اوقات اس سے بہتر چیز عطا فرما دیتے ہیں۔ ان آیات میں حق تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ آج جو لوگ کفر پر ہیں اور اس کی وجہ سے وہ تمہارے دشمن تم ان کے دشمن ہو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عداوت کو دوستی سے مبدل فرما دے مطلب یہ ہے کہ ان کو ایمان کی توفیق عطا فرما کر تمہارے تعلقات باہمی کو پھر از سر نو ہموار کر دے اس پیشین گوئی کا ظہور فتح مکہ کے وقت اس طرح ہوا کہ بجز ان کفار کے جو قتل کئے گئے اور سب مسلمان ہوگئے (مظہری) قرآن کریم میں اس کا بیان (آیت) یدخلون فی دین اللہ افواجا…. میں کیا گیا، کہ یہ لوگ فوج در فوج بڑی تعدادوں میں اللہ کے دین اسلام میں داخل ہوجائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عَسَى اللہُ اَنْ يَّجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ عَادَيْتُمْ مِّنْہُمْ مَّوَدَّۃً۝ ٠ ۭ وَاللہُ قَدِيْرٌ۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٧ عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دینی دشمنوں یعنی مکہ والوں سے دوستی کا سلسلہ قائم کردے گا، چناچہ ایسا ہی ہوا کہ رسول اکرم نے فتح مکہ کے سال حضرت ابوسفیان کی صاحبزادی حضرت ام حبیبہ سے شادی فرمائی۔ اور کفار قریش پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو غلبہ دینے پر قادر اور کفر سے توبہ کرنے والے اور ایمان لانے والے کو بخشنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَّوَدَّۃً } ” بعید نہیں کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تمہاری دشمنی ہے ‘ دوستی پیدا کر دے۔ “ ظاہر ہے اگر وہ بھی ایمان لے آئیں گے تو وہ تمہارے بھائی بن جائیں گے ‘ جیسا کہ سورة التوبہ کی آیت ١١ میں فرمایا گیا : { فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِط } ” پھر بھی اگر وہ توبہ کرلیں ‘ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں “۔ اور یہ مرحلہ کوئی زیادہ دور بھی نہیں تھا۔ زیرمطالعہ آیات فتح مکہ سے قبل ٨ ہجری میں نازل ہوئیں اور اس سے اگلے ہی سال فتح مکہ کے بعد ٩ ہجری میں مشرکین عرب کو چار ماہ کا الٹی میٹم دے دیا گیا کہ یا ایمان لے آئو ‘ یا سب قتل کردیے جائو گے۔ اس کے نتیجے میں سب لوگ ایمان لا کر اسلامی بھائی چارے میں شامل ہوگئے۔ آیت زیرمطالعہ میں دوستی اور محبت کے اسی رشتے کی طرف اشارہ ہے جو ان کے درمیان ایک سال بعد بننے والا تھا۔ { وَاللّٰہُ قَدِیْرٌط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ } ” اللہ ہر شے پر قادر ہے ‘ اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 Although the true believers were following the exhortation to sever their connections with the unbelieving kinsmen patiently, yet Allah knew how hard it was to break off one's connections with one's parents, brothers and sisters and near relations. Therefore, Allah consoled them with the hope that a time would soon come when their same relations would become Muslims and their today's enmity would again change into love tomorrow. When this thing was said no one could understand how this would happen. But hardly a few weeks had passed after the revelation of these verses when Makkah fell and the people of Quraish began to enter Islam in large numbers, and the Muslims witnessed with their own eyes how the hope they were given materialized.

سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :11 اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو اپنے کافر رشتہ داروں سے قطع تعلق کی جو تلقین کی گئی تھی اس پر سچے اہل ایمان اگرچہ بڑے صبر کے ساتھ عمل کر رہے تھے ، مگر اللہ کو معلوم تھا کہ اپنے ماں باپ ، بھائی بہنوں اور قریب ترین عزیزوں سے تعلق توڑ لینا کیسا سخت کام ہے اور اس سے اہل ایمان کے دلوں پر کیا کچھ گزر رہی ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب تمہارے یہی رشتہ دار مسلمان ہو جائیں گے اور آج کی دشمنی کل پھر محبت میں تبدیل ہو جائے گی ۔ جب یہ بات فرمائی گئی تھی اس وقت کوئی شخص بھی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ نتیجہ کیسے رونما ہو گا ۔ مگر ان آیات کے نزول پر چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ مکہ فتح ہو گیا ، قریش کے لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے اور مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ جس چیز کی انہیں امید دلائی گئی تھی وہ کیسے پوری ہوئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یعنی اُمید ہے کہ مکہ مکرَّمہ میں جو لوگ اس وقت دُشمنی پر آمادہ ہیں، اُن میں سے کچھ اِیمان بھی لے آئیں گے، اور ان کی دُشمنی دوستی میں تبدیل ہوجائے گی۔ چنانچہ فتحِ مکہ کے بعد ان میں سے بہت سے لوگ اِیمان لے آئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(60:7) عسی اللہ۔ عسی : امید ہے۔ عنقریب ہے ، اندیشہ ہے، کھٹکا ہے، جب اس کا استعمال اللہ کے لفظ کے ساتھ ہو تو بمعنی امید ہے۔ توقع ہے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو 47:22) ۔ ان : مصدریہ ہے۔ یجعل مضارع منصوب بوجہ عمل ان۔ عادیتم : ماضی جمع مذکر حاضر۔ معاداۃ (مفاعلۃ) مصدر ۔ تم نے دشمنی کی، تم نے عداوت رکھی۔ منھم : میں من تبعیضیہ ہے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کفار مکہ کی طرف راجع ہے۔ مودۃ : محبت، دوستی، (ملاحظہ ہو 20:1 ۔ متذکرۃ الصدر) فعل یجعل کا مفعول عسی اللہ فاعل۔ ان یجعل بینکم وبین الذین عادیتہم منھم مودۃ خبر ہے۔ فائدہ : جب آیت یایھا الذین امنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم ۔۔ الخ نازل ہوئی تو جو مسلمان ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تھے انہوں نے اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اپنے کافر عزیز و اقارب سے جو مکہ میں مقیم تھے قطع تعلق کرلیا۔ اگرچہ وہ بڑے صبر کے ساتھ اس پر عمل پیرا تھے لیکن اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور قرب ترین عزیزوں سے قطع تعلق کرلینا کتنا صبر آزما کام ہے ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب تمہارے یہی رشتہ دار مسلمان ہوجائیں گے اور آج کی دشمنی کل کو پھر محبت و الفت میں بدل جائے گا۔ آیت کا مطلب ہے کہ کفار مکہ میں سے جن اپنے عزیزواقارب کے ساتھ اللہ کے حکم کی بجا آوری میں تم نے تعلقات توڑ لئے ہیں۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تعلقات کو بحال کر دے۔ اور یہی ہوا۔ اس بشارت خداوندی کے چند ہی ہفتے بعد مکہ فتح ہوگیا اور ماسوائے چند ایک کے مسلمانوں کے سب عزیزو اقارب مشرف باسلام ہوگئے ۔ اور ان کی باہمی قرابت پھر بحال ہوگئی۔ شاہ عبد القادر (رح) نے اس جملہ کا ترجمہ یوں کیا ہے ” امید ہے کہ کر دے اللہ تم میں اور جو دشمن ہیں تمہارے ان میں دوستی۔ واللہ قدیر واللہ غفور رحیم۔ جملہ معترضہ تذییلی ہے۔ کلام سابقہ میں جو بشارت دی گئی تھی اس میں جو اس کی صفات کار فرما ہیں ان کی تقویت کے لئے یہ جملہ بیان ہوا۔ قدیر : قدرت والا۔ زبردست، قدرۃ سے صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ غفور : بہت بخشنے والا۔ غفران سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ رحیم : نہایت رحم والا۔ رحمۃ سے صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ہے اس کی جمع رحماء ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت سے بعید نہیں ہے کہ جو کافر آج تمہارے بد ترین دشمن ہیں وہ کل انہیں توفیق دے اور وہ مسلمان ہوجائیں اور اس طرح تمہارے اور ان کے درمیان درست تعلقات قائم ہوجائیں۔ چناچہ فتح مکہ کے بعد ایسا ہی ہوا۔ اس آیت سے مقصود مسلمانوں کو تسلی دینا ہے کہ کفار مکہ سے ترک موالات کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ صرف تھوڑے رصہ کے لئے ہے جلد ہی ایسے حالات پیش آئیں گے کہ تمہیں اس پر عمل کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٧ تا ١٣۔ اسرار ومعارف۔ اللہ قادر ہے کہ وہ تمہارے دشمنوں یعنی کافروں میں سے بھی تمہارے دوست پیدا کردے یعنی بعض کو ایمان نصیب ہوجائے کہ اللہ بہت بڑابخشنے والامہربان ہے۔ کافر سے تعلقات کی نوعیت۔ لیکن اگر وہ مسلمان نہ بھی ہوں تو جن کفار سے اندیشہ نہ ہو کہ مسلمانوں یا اسلام کو نقصان پہنچے گا جو تمہارے خلاف جنگ میں کسی بھی طرح سے شریک نہ ہوں اور مسلمانوں کے گھراجاڑنے اور انہیں گھروں سے نکل جانے پر مجبور کرنے میں ان کا حصہ نہ ہو ان سے حسن سلوک کیا کرو اور مسلمانوں کی فلاحی ریاست کے فلاحی امور سے وہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں نیز سب کے ساتھ عدل و انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔ مگرجوکفار مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں محض مسلمان ہونے کی بنا پر اور ان کے گھروں کو تباہ کریں یا ان کو گھروں سے نکالنے میں شریک ہوں ان سے دوستی کرنے سے اللہ منع فرماتا ہے اگرچہ عدل تو سب کے ساتھ ہوگا۔ امریکہ اہل مغرب اور مسلمان۔ مگر ایسے کافروں سے دلی دوستی بھی حرام ہے اور ایسالین دین بھی جو ان کی طاقت بڑھانے کا سبب بنے جس سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں جس طرح سے آج امریکہ یا مغربی ممالک اور مسلمان کہ اکثر مسلمان ملکوں کا سرمایہ اور مسلمان سرمایہ داروں کی رقوم ان کے بنکوں میں ہیں جس کی وجہ سے وہ طاقتور ہو کر خود مسلمانوں کو تباہ کرنے پر لگے ہوئے ہیں ایسا کرنے والے سخت ظلم کرنے والے ہیں۔ ان مسلمان عورتوں سے جو دارالکفر سے ہجرت کرکے آئیں جبکہ ان کے شوہر مسلمان نہ ہوں توکیاسلوک کیا جائے گا۔ صلح حدیبیہ کے بعد کچھ خواتین مکہ سے مدینہ پہنچیں جبکہ ابھی ان کے خاوند مسلمان نہ ہوئے تھے تو ان کے خاوند بھی مطالبہ لے کر آئے کہ معاہدے کے مطابق انہیں واپس کیا جائے جس پر آپ نے وضاحت فرمائی کہ معاہدہ مردوں کے لیے ہے اس میں خواتین شامل نہیں لہذا مسلمان عورت کافر شوہر کو واپس نہ کی جائے گی اسی پر یہ حکم نازل ہوا کہ اے ایمان والو اگر کوئی عورت مسلمان ہوجائے اور دارالکفر سے دارالسلام پہنچ جائے تو اپنے طور پر اس کے مسلمان ہونے اور صرف دین کی خاطر ہجرت کرنے کی تحقیق ضرور کرلو اور حقیقت حال تو اللہ بہتر جاتا ہے لیکن تمہیں اعتبار آجائے کہ یہ مسلمان ہوچکی ہے تو پھر کفا ر کو واپس نہ کرو کہ اب نہ یہ کافر مرد کے لیے حلال ہے اور نہ کافر مرداس کے لیے ہاں کافر مرد نے اسے جو رقم بطور مہر کے دی ہو وہ اس کو لوٹا دے اب جائز ہے کہ تم ان سے نکاح کرلو اور انہیں اپنی طرف سے مہر دو ۔ مسئلہ۔ کافر مرد کی بیوی مسلمان ہوجائے اور دارالکفر سے دارالاسلام پہنچ جائے تو اس کا نکاح ختم ہوگیا اب وہ مسلمان مرد سے شادی کرسکتی ہے ہاں اس پہلے مرد کا مہر لوٹایاجائے گا اور مسلمان خاوند اپنامہر الگ سے دے گا۔ مہر اگرچہ شرط نکاح نہیں نکاح اس کے بغیر بھی ہوجاتا ہے ہاں واجب ہے کہ دیاجائے ۔ اور اگر کسی مسلمان کی بیوی کافرہ تھی جس نے اسلام قبول نہ کیا ہو تو اس کا نکاح بھی ختم ہوگیا اسے روک کر مت رکھو ہاں کفار سے مہر کی رقم وصول کرویہ دونوں طرف کے ذمہ داروں یاحکومتوں کی ذمہ داری ہے اس حکم کے نزول کے بعد کفار سے نکاح ختم ہوگیا۔ اہل کتاب سے نکاح۔ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے صرف آپ کی نبوت کو نہیں مانا مگر ان کے عقیدے پہلی کتابوں کے مطابق ہیں آج کے یہود ونصاری تو ان کتابوں کی تحریف کرنے کے بعد ان سے بھی منکر ہیں لہذا ان سے نکاح درست نہیں۔ دارالاسلام۔ لہذا مسلمان کی بیوی کافرہ تھی یا کافر کی بیوی مسلمان ہو کر چلی آئی شرط یہ ہے کہ وہ داراسلام میں پہنچ گئی تو نکاح ختم ہوگیا اب دونوں کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کا مہر لوٹا دیں۔ افسوس کہ پاکستان فی الحال دارالاسلام نہیں علماء حق نے انگریز کے غلبہ کے بعد جب اسلامی نظام کی بساط لپیٹ دی گئی اور انگریزی نظام نافذ ہوا تو اسے دارالحرب قرار دیا تھا انگریز چلا گیا مگر نظام انگریزی باقی ہے لہذا ابھی وہی فتوی بھی باقی ہے یہ حکم کہ جانبین ایک دوسرے کا مال لوٹا دیں اللہ کا ہے جو سب میں انصاف کا حکم کرتا ہے کہ وہ جاننے والا اور حکمت والا ہے لیکن اگر کافر اس کی تعمیل نہ کرے اور کافر عورت جو کسی مسلمان کی ادھر رہ جائے اس کا مہرواپس نہ کرے تو مسلمان بھی آنے والی عورتوں کا مہر روک لیں اور ان مردوں کو دیں جن کا مال کافروں نے روک لیا ہے لیکن انصاف سے ہو اس میں زیادتی نہ کی جائے اور اللہ کی عظمت کا احساس رہے کہ تم اس پر ایمان رکھتے ہو اور اے نبی اگر خواتین مسلمان ہو کر آئیں اور اس شرط پر بیعت کرنا چا ہیں کہ وہ اللہ سے شرک نہ کریں گی چوری اور بدکاری نہ کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی نہ ہی کوئی بہتان لگائیں گی اور ہر بھلے کام میں آپ کی اطاعت کریں گی یعنی ہر برائی سے بچنے کی پوری پوری کوشش کریں گی تو ان کو بیعت فرمالیجئے کہ بیشک اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے لہذا آپ ان کے لیے اللہ کی بخشش طلب فرمائیے۔ خواتین کی بیعت ۔ خواتین کی بیعت کا حکم بھی موجود ہے اور خود نبی علی السلام سے ثابت ہے مگر مردوں کی طرح ان کے ہاتھ پر ہاتھ نہیں رکھاجاتا آپ نے زندگی بھرنامحرم عورتوں کو چھوا تک نہیں۔ غضب الٰہی کی صورت۔ اور اے مسلمانوا بھلا ایسے لوگوں سے کیا دوستی جن پر اللہ کا غضب ہو اور وہ آخرت سے اتنے ہی ناامید ہوچکے ہوں جتنے کہ مرنے کے بعد والے کافر کہ حالات منکشف ہونے کے بعدا نہیں یقین ہوجاتا ہے کہ آخرت میں ہمارے لیے کچھ بھی نہیں سوائے عذاب کے توغضب الٰہی کی صورت یہ ٹھہری کہ جس بندے کو آخرت کا خوف نہ رہے وہ سمجھ لے کہ اس پر اللہ کا غضب ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ عسی ۔ شاید۔ امید ہے کہ ۔ عادیتم۔ تم نے دشمنی کی۔ ان تبروا۔ یہ کہ تم نیکی (نہ ) کرو گے۔ تفسطوا۔ تم انصاف کرو گے۔ تشریح : انسان دنیا کے کسی بھی خطے میں رہتا بستا ہوا اپنے گھرو الوں اور رشتہ داروں کی محبت کو دل سے نہیں نکال سکتا۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد ان اہل ایمان سے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر محض اللہ کی رضا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و محبت میں مدینہ منورہ آگئے تھے ان سے فرمایا گیا کہ تم کافر رشتہ داروں سے قطع تعلق کرلو۔ ان کے ساتھ حسن سلوک سے نہیں بلکہ قلبی محبت رکھنے کو منع فرما دیا گیا تھا۔ اہل ایمان اس حکم پر پوری طرح عمل نہایت صبرو برداشت سے کر رہے تھے لیکن ان پر کیا گذر رہی ہوگی اس کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ لوگ جو ا اج تمہارے دشمن بنے ہوئے ہیں بہت جلد تمہارے دوست بن جائیں گے۔ یہ ارشاد ایک تسلی بھی تھی اور فتح مکہ کی خوش خبری بھی چناچہ چند ہفتے نہیں گزرتے تھے کہ مکہ مکرمہ بغیر جنگ کے فتح ہوگیا اور وہی قریش مکہ اور مشرکین جو پہلے دشمن تھے انہوں نے دین اسلام کو قبول کرلیا۔ دشنی دوستی میں بدل گئی۔ اسی بات کو زیر مطالعہ آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ اللہ جو ہر طرح کی قدرت رکھنے والا اور اپنے بندوں کی مغفرت کرنے والا ہے ممکن ہے کہ وہ تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تمہاری دشمنی ہے دوستی پیدا کردے۔ اس جگہ ایک اصول بات بھی بتائی گئی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ احسان کرنے اور عدل و انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو نہ تو تمہارے دین کے بارے میں تم سے جھگڑتے ہیں اور نہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالنے میں حصہ لیا ہے۔ ان کے ساتھ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جانا چاہیے کیونکہ اللہ کو ایسے لوگ بہت پسند ہیں جو انصاف سے کام لیتے ہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کی دوستی سے منع کرتا ہے جو تمہارے دین کے بارے میں تم سے جنگ کرتے ہیں۔ جنہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یا ان لوگوں کی مدد کی جنہوں نے تہیں تمہارے گھروں سے نکالنے کی کوشش کی۔ ان جیسے لوگوں سے دوستی کرنا بڑے ظلم کی بات ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ یقینا ظالموں میں سے ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ان کو مسلمان کر دے جس سے عداوت مبدل بہ صداقت ہوجاوے۔ 2۔ چناچہ فتح مکہ کے روز بہت آدمی خوشی سے مسلمان ہوگئے، مطلب یہ کہ اول تو اگر قطع تعلق ہمیشہ کے لئے ہو تب بھی بوجہ مامور بہ ہونے کے واجب العمل تھا، پھر خاص کر جبکہ تھوڑی ہی مدت کے لئے کرنا پڑے، اور پھر مشارک فی الایمان سے دوستی اور تعلق بدستور عود کر آوے، غرض ہر طرح قطع تعلق ضروری ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سورت کی پہلی آیت میں مسلمانوں کو کفار کے ساتھ قلبی تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا ہے جس میں ایمانداروں کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور ہے اس لیے انہیں تسلی دی گئی ہے کہ دل چھوٹا نہیں کرنا۔ عنقریب اللہ تعالیٰ وقت لانے والا ہے جب تمہارے دشمن ایمان لے آئیں گے اور تم آپس میں شیرو شکر ہوجاؤ گے۔ رب ذوالجلال کا حکم پاتے ہی صحابہ کرام (رض) نے کفار کے ساتھ اپنی رشتہ داریوں اور تعلقات کو ختم کرلیا کسی نے اپنی کافر بیوی کو طلاق دی اور کسی نے اپنی اولاد سے رشتہ توڑا۔ یہ بات لکھنا اور بیان کرنا آسان ہے لیکن رشتہ داروں سے لاتعلق ہونا معاشرتی اعتبار سے بہت بڑا چیلنج اور آزمائش ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں انس اور رشتہ داری کی محبت رکھی ہے۔ جس وجہ سے کسی سے لاتعلق ہونا شریف اور ہمدرد شخص کے لیے تکلیف دہ عمل ہوتا ہے، بیشک صحابہ کرام (رض) ایمان کے بلند درجہ پر فائز تھے مگر تھے تو انسان ہی جس وجہ سے ان کے لیے رشتہ داروں سے قطع تعلق ہونا پریشانی کا باعث بنا۔ دوسری طرف کفار نے پراپیگنڈہ کیا کہ مسلمان ایک طرف ہمدردی کرنے اور رشتے جوڑنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف رشتے ناطے توڑ رہے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تسلی دی کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے درمیان مودَّت پیدا کرے گا، ان کی غالب اکثریت حلقہ اسلام میں داخل ہوگی اور تم ایمان کے رشتے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہوجاؤگے، ایسا ضرور ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو جوڑنے اور ہر کام کرنے پر قدرت رکھتا ہے، قدرت رکھنے کے باوجود لوگوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ اس ارشاد میں مسلمانوں کو اشارے کی زبان میں مکہ فتح ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے جو بہت جلد پوری ہوگئی۔ مسائل ١۔ ” اللہ “ ہی لوگوں کے درمیان محبت پیدا کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک پر قدرت رکھنے کے باوجود معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اسلام سلامتی کا دین ہے ، محبت کا عقیدہ ہے۔ وہ ایک ایسا نظام ہے جو پوری دنیا کو اپنے سایہ عاطفت میں لینا چاہتا ہے۔ اور پوری دنیا اپنا منہاج قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ لوگوں کو اللہ کے جھنڈوں کے نیچے جمع کرتا ہے اور ان کو باہم متعارف بھائی بناتا ہے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ یہ ہے کہ اسلام کے دشمن اپنی معاندانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ وہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں۔ اگر مخالفین اسلام ، اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ دشمنی ترک کردیں تو اسلام کو کسی کے ساتھ دشمنی میں دلچسپی نہیں ہے۔ اسلام از خود کوئی دشمنی پیدا نہیں کرتا۔ وہ دشمنی اور جنگی حالت میں بھی انسانی نفوس کے اندر انس و محبت کے اسباب قطع نہیں کرتا۔ وہ منصفانہ معاملہ کرتا ہے اور ہر وقت اس امید میں رہتا ہے کہ تمام لوگ اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوجائیں۔ اسلام کبھی بھی کسی کو ہدایت اور راہ راست پر آجانے سے مایوس نہیں کرتا۔ اس قطعے کی پہلی آیت میں اس امید کا ذکر ہے ، جو کبھی بھی ناامیدی سے مغلوب نہیں ہوتی۔ یہ آیت ان لوگوں کے دلوں کے لئے مرہم ہے جن پر اسلام اور کفر اس جنگ کو مسلط کیا گیا تھا اور مجبوراً ان کو اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ بائیکاٹ کرنا پڑ رہا تھا۔ عسی .................... مودة (٠٦ : ٧) ” بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے “۔ اللہ کی طرف سے امید کا اظہار گویا قطعی اشارہ ہے کہ جلد ہی یہ دشمنی ختم ہوجائے گی۔ جن مومنین نے اسے سنا ہوگا ان کو یقین ہوگیا ہوگا۔ اس کے بعد جلد ہی مکہ فتح ہوگیا تھا اور سب اہل مکہ مسلمان ہوگئے تھے اور سب ایک جھنڈے کے نیچے آگئے تھے۔ اور ان تمام ، دشمنیوں اور عنادوں کے دفاتر لپیٹ لئے گئے تھے اور اہل مکہ اور اہل مدینہ بھائی بھائی بن گئے تھے۔ واللہ قدیر (٠٦ : ٧) ” اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے “۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ واللہ ............ رحیم (٠٦ : ٧) ” اور وہ غفور ورحیم ہے “۔ جو سابقہ زمانے میں اور حالت کفر میں کسی سے شرک ہوگیا ، اس کو بخشنے والا ہے۔ سابقہ زمانے کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ جب تک اللہ کا وعدہ پورا نہیں ہوجاتا ، جس کے بارے میں اوپر کی آیت میں امید دلائی گئی تھی ، اللہ نے ان لوگوں کے ساتھ تعلقات مودت قائم کرنے کی اجازت دے دی ، جو دین کے معاملے میں مسلمانوں سے برسر جنگ نہیں تھے ، جنہوں نے مسلمانوں کو اپنے گھروں سے نہیں نکالا تھا ایسے لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے پر جو پابندی سمجھی جاتی تھی اسے رفع کردیا گیا کہ ایسے کفار کے ساتھ بھی عدل کرو اور ان کا کوئی حق اگر تمہارے دائرہ اختیار میں ہے تو اسے ادا کرو ، لیکن جو لوگ دین کے معاملے میں تم سے لڑ رہے ہیں ، انہوں نے تمہیں گھروں سے نکالا ہے ، یا تمہارے نکالنے میں معاونت کی ہے ، تو ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی موالات نہیں ہے ، اور جو لوگ ایسے لوگوں سے موالات کرتے ہیں وہ شالم ہیں۔ ظلم کے معانی میں سے ایک معنی شرک بھی ہے۔ آیت۔ ان الشرک لظلم عظیم پیش نظر ہونی چاہئے۔ مومنین کے لئے یہ شدید تہدید ہے۔ اس لئے انہیں اس قسم کے تعلقات قائم کرتے ہوئے بہت محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں سب کچھ نہ گنوادیں۔ یہ اصول جو غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں وضع کیا گیا ہے ، یہ اس دین کے مزاج کے مطابق ہے اور نہایت ہی منصفانہ الاقوامی قانون ہے۔ یہ خالص انسانی نقطہ نظر سے ہے بلکہ اس کو اس پوری کائنات کے نظام کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ کیونکہ یہ پوری کائنات ایک ہی الٰہ واحد کی بنائی ہوئی ہے۔ یہ پوری کائنات رب واحد کی طرف متوجہ ہے اور پوری کائنات اللہ کے منصوبے اور نظام اور نقشے کے مطابق چل رہی ہے۔ اگرچہ اس میں لوگوں کے درمیان اختلافات ہیں اور وہ باہم منقسم ہیں۔ یہ اصول اسلام کے بین الاقوامی قانون کا اساسی اصول ہے جس کے مطابق لوگوں کے درمیان امن وسلامتی کی حالت اصلی اور مستقل حالت ہے ، اور اس حالت کے اندر تغیر جارحیت اور دفاع جارحیت کی وجہ سے آجاتا ہے۔ یا اس وجہ سے آتا ہے کہ دو اقوام کے درمیان معاہدہ ہو ، اور ان میں سے ایک معاہدے کو توڑ دے یا خیانت کے امکانات پیدا ہوجائیں یا کوئی قوت آزادی اعتقاد یا آزادی اظہار رائے اور دعوت اسلامی کی راہ میں مزاحم ہوجائے۔ اور یہ بھی دراصل ایک جارحیت ہے۔ ان حالات کے علاوہ اسلام امن وسلامتی ، محبت ، نیکی اور عدل کے احکام دیتا ہے۔ یہ قاعدہ اسلامی نظریہ حیات کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ اسلام انسان اور انسان کے درمیان فرق و امتیاز صرف عقیدے کی بنیاد پر کرتا ہے۔ ایک مومن اگر کسی دوسری قوم کے ساتھ جنگ کرتا ہے تو محض اپنے عقیدے کی وجہ سے کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگ کی کوئی اور وجہ نہیں ہے۔ الام صرف دعوت کی آزادی اور رائے کی آزادی کے لئے لڑتا ہے۔ اس کے علاوہ فقط وہ اسلامی نظام کے قیام اور اعلائے کلمة اللہ کے لئے لڑتا ہے۔ یہ توجیہہ اور تفسیر اس پوری سورت کے رخ کے ساتھ بھی موافق ہے جس کے اندر عقائد ونظریات کی اہمیت سے بحث ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اہل ایمان صرف نظریاتی جھنڈے کے نیچے لڑ سکتے ہیں۔ اس لئے جو شخص اس محاذ میں ان کے ساتھ کھڑا ہوا تو وہ ان میں سے ہے۔ اور جس نے اس نکتے پر ان سے جنگ کی تو وہ ان کا دشمن ہے۔ جس شخص نے ان کے ساتھ امن کی حالت کو برقرار رکھا اور ان کو ان کے عقائد پر چھوڑ دیا کہ وہ اپنے عقائد کی طرف لوگوں کو بلائیں اور ان کی راہ روکنے کی کوشش نہ کی اور لوگوں کو زبردستی اسلامی عقائد قبول کرنے سے روکا تو وہ مسالم ہے اور اسلام ان کے ساتھ نیکی اور سماجی تعلق قائم کرنے سے نہیں روکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک مسلم اس کرہ ارض پر اپنے عقیدے کی خاطر زندہ ہوتا ہے۔ اس کا مسئلہ اس کا نظریہ اور اس کے ماحول کے ساتھ اس مسئلہ بھی یہی نظریہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے مصلحت اور مفادات پر کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہوتا۔ وہ کسی عصبیت کے لئے جہاد نہیں کرتا مثلاً رنگ ، نسل ، زبان اور علاقے کی عصبیت۔ اسلام میں جنگ اگر ہے تو صرف نظریات کے لئے ہے۔ اس لئے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو ، اور اسلامی نظام کے لئے جنگ ہے۔ اس کے بعد سورة توبہ نازل ہوئی۔ جس میں ہے۔ براءة من اللہ ................ المشرکین (٩ : ١) ” اللہ اور رسول کی طرف سے مشرکین سے بیزاری کا اعلان ہوتا ہے “۔ اس کے ذریعہ جزیرة العرب میں مشرکین کے ساتھ معاہدات ختم کردیئے گئے۔ جن لوگوں کے معاہدے میں میعاد مقرر نہ تھی ان کو چار ماہ کی مہلت دے دی گئی اور جن کے ساتھ میعاد مقرر تھی ان کے ساتھ معاہدے کی مدت طے کی گئی۔ لیکن امن کے وہ معاہدات جو جزیرة العرب کے مشرکین کے ساتھ تھے اور جنہیں منسوخ کیا گیا وہ اس لئے کہ مشرکین عرب بار بار معاہدے توڑ رہے تھے۔ جب انہیں فائدہ ہوتا تو معاہدے پر عمل کرتے ، اور جب نقصان ہوتا تو توڑ دیتے۔ اس لئے ایسے لوگوں کے لئے اسلام نے ایک دوسرابین الاقوامی قاعدہ بنایا۔ واما تخافن ........................ الخاء نین ” اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت کا خطرہ ہو تو اعلانیہ ان کا معاہدہ ان کے سامنے پھینک دو ، بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتا “۔ اور یہ ضرورت اس وقت اس لئے بھی پیش آئی تھی تاکہ اسلام کے پایہ تخت اور مرکز کو محفوظ کردیا جائے۔ اس وقت مرکز اسلام جزیرة العرب تھا۔ اور اس کو ان لوگوں سے پاک کرنا ضروری تھا ، جو مسلمانوں کے بارے میں ہر وقت انتظار میں رہتے تھے ، کہ کوئی موقعہ ملے اور وہ حملہ آور ہوں۔ مشرکین اور اہل کتاب معاہدین بار بار عہد توڑے تھے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ چونکہ دشمنی کی حالت ہوا کرتی ہے ، اس لئے ایسے حالات میں اگر فریقین حالت جنگ پر ہوں تو دونوں کے لئے مفید ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ قیصر وکسریٰ عظیم مملکتوں نے اسلامی مملکت کے خلاف افواج جمع کرنا شروع کردی تھیں۔ اور دونوں نے اسلام کو اپنے لئے خطرہ سمجھ لیا تھا۔ دونوں نے جزیرة العرب کے ساتھ ساتھ عربی ریاستوں کا رخ جزیرة العرب کی طرف پھیر دیا تھا۔ لہٰذا اسلامی بلاک کی اندرونی تطہیر ضروری ہوگئی تھی تاکہ متوقع بیرونی جارحیت کا موثر مقابلہ کیا جاسکے۔ یہ نوٹ یہاں کافی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہجرت کرنے کے بعد وطن سابق کے لوگوں سے تعلق رکھنے کی حیثیت جیسا کہ معلوم و معروف ہے جو حضرات ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تھے مکہ معظمہ میں ان کے رشتہ دار تھے جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا تھا طبعی طور پر مہاجرین کے دلوں میں اس کا احساس ہونا ممکن تھا کہ ان لوگوں سے تعلقات ٹوٹ گئے (لیکن ایمان وکفر کے مقابلہ کی وجہ سے تعلقات ٹوٹنا بھی ضروری تھا) اوپر جن آیات کا ترجمہ لکھا گیا ہے ان میں سے پہلی آیت میں اہل ایمان کو تسلی دی ہے اور امید دلائی ہے کہ ایمان کی وجہ سے جن رشتہ داروں سے تعلقات ختم ہوگئے اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے اور ان کے درمیان مودت یعنی محبت پیدا فرما دے گا (یہ محبت اس طرح وجود میں آئے گی کہ جو لوگ اب تک مسلمان نہیں ہوئے اللہ تعالیٰ انہیں اسلام کی توفیق دیدے گا) چناچہ ایسا ہی ہوا کچھ لوگ فتح مکہ سے پہلے اور کچھ اس دن اور کچھ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوگئے جس کی وجہ سے رشتہ داریوں کے تعلقات استوار ہوگئے ابوسفیان بن حرب حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو، حکیم بن حزام مسلمان ہوگئے ان میں ابوسفیان وہ شخص ہیں جو مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کے لشکر کی قیادت کرتے تھے اور سہیل بن عمرو وہی شخص ہیں جو صلح حدیبیہ کے موقع پر اہل مکہ کے نمائندہ بن کر آئے تھے اور صلح نامہ میں محمد رسول اللہ نہیں لکھنے دیا تھا۔ کافروں کو ایمان کی توفیق دینا ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دینا اللہ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے اسی لیے آیت کے اختتام پر فرمایا ﴿ وَ اللّٰهُ قَدِيْرٌ١ؕ﴾ (اور اللہ قادر ہے) نیز ﴿ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ٠٠٧﴾ بھی فرمایا جس میں یہ بتایا کہ کفار جب مسلمان ہوجائیں گے تو ان کا پچھلا سب معاف کردیا جائے گا، جب اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ معاف فرمادے گا تو اہل ایمان کو ان لوگوں سے تعلقات استوار کرنے کے بارے میں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ یہ آدمی تو کل تک دشمن تھا آج دوستی کیسے کریں۔ جن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا تھا ان میں دو قسم کے آدمی تھے اول وہ لوگ جنہوں نے نہ جنگ میں حصہ لیا اور نہ اہل ایمان کو نکالنے میں کوشش کی اور نہ اس سلسلہ میں مدد کی اور دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جنہوں نے مسلمانوں سے قتال بھی کیا اور مکہ سے نکالنے پر تل گئے اور آپس میں ایک دوسرے کی مدد کی آیت کریمہ ﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ ﴾ پہلے گروہ کے بارے میں اور اس کے بعد والی آیت ﴿ اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ ﴾ دوسرے گروہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ صاحب روح المعانی نے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ پہلی آیت ﴿ لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ ﴾ عورتوں اور بچوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ایمان سے متصف نہیں ہوئے تھے۔ اور حضرت مجاہد سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مکہ معظمہ میں رہتے ہوئے ایمان قبول کرلیا تھا مگر ہجرت نہیں کی، مہاجرین وانصار ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے پرہیز کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ ہجرت نہ کرنے کی وجہ سے فرض کے تارک تھے اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ ان کمزور مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مکہ میں رہ گئے تھے ہجرت نہ کرسکتے تھے۔ حضرت امام بخاری (رح) نے ایک حدیث نقل کی ہے جس سے آیت کا سبب نزول ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ کہ صلح حدیبیہ کے بعد جب مومن کافر دونوں فریق امن وامان سے رہنے لگے اسماء بنت ابی بکر (رض) کی والدہ مدینہ منورہ آئیں اور کچھ اپنی ضرورت کا اظہار کیا حضرت اسماء (رض) کو مشرک عورت پر مال خرچ کرنے میں تامل ہوا لہٰذا انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سوال پیش کردیا اور عرض کیا کہ میری والدہ آئی ہیں ان کی طرف سے کچھ حاجت مندی ظاہر ہو رہی ہے کہ میں صلہ رحمی کے طور پر انہیں کچھ دے دوں آپ نے فرمایا ہاں صلہ رحمی کرو۔ راوی حدیث حضرت سفیان بن عیینہ نے فرمایا ہے کہ اس پر اللہ جل شانہ نے آیت کریمہ ﴿ لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ ﴾ نازل فرمائی۔ (صحیح بخاری صفحہ ٨٨٤: ج ٢) صاحب روح المعانی نے بحوالہ مسند امام احمد حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے یوں حدیث نقل کی ہے کہ قیلہ بنت عبدالعزی اپنی بیٹی اسماء بنت ابی بکر (رض) کے پاس کچھ ہدیہ لے کر آئیں قیلہ مشرکہ تھیں۔ سیّدہ اسماء (رض) ے ان کا ہدیہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور گھر میں بھی داخل نہ ہونے دیا اور سیّدہ عائشہ (رض) کے پاس خبر بھیجی کہ اس بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کر کے بتائیں۔ سیّدہ عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ بالا نازل فرمائی اور ہدیہ قبول کرنے اور گھر میں بلانے کی اجازت دے دی۔ آیت کریمہ میں واضح طور پر بتادیا کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے بارے میں قتال کیا اور تم کو گھروں سے نکالا اور نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے۔ ﴿وَ مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٠٠٩﴾ کہ جو لوگ اس قسم کے کافروں سے دوستی کا تعلق رکھیں گے وہ لوگ ظلم کرنے والے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کر کے اپنی جانوں کو مستحق عذاب بنانے والے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” عسی اللہ “ یہ مومنین کو ان کے مشرک اقارب کے ایمان لانے کی بشارت ہے یعنی جب تک اہل مکہ اپنے کفر پر قائم ہیں اس وقت تک تم ان سے دوستی نہیں کرسکتے۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہارے ان کافر رشتہ داروں کے درمیان جن سے تمہیں دین کی وجہ سے عداوت ہے، دوستی اور محبت کا رشتہ قائم کردے یعنی ان کو قبول اسلام کی توفیق دے دے۔ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے اور سچی توبہ کرنے والوں کے تمام گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فتح مکہ کے موقع پر پورا فرمایا اور ان کافروں کو قبول اسلام سے مشرف فرمایا۔ فلمایسیر فتح مکۃ اظفرہم اللہ بامنیتہم فاسلم قومھم وثم بینہم التحاب (مدارک ج 4 ص 187) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تمہاری دشمنی اور عداوت ہے دوستی پیدا کردے اور اللہ تعالیٰ کو سب قدرت ہے اور اللہ تعالیٰ نے بڑی مغفرت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ان کو مسلمان کردے پھر تمہاری دوستی بجا رہے ایسا ہی ہوا اس سفر میں مکہ کے لوء سارے مسلمان ہوئے۔ یعنی اگرچہ اس وقت دشمنی اور عداوت کی وجہ سے ترک تعلقات کا حکمدیا گیا ہے لیکن وہ دن دور نہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کے جن سے تم عداوت رکھتے ہو اور تمہارے درمیان دوستی اور اخوت کے سامان پیدا کردے جس کی سہل صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دین حق کے منکروں کو مسلمان کردے اور ان کے سابقہ گناہوں کو بخش دے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے یا یہ کہ اس حکم کی تعمیل میں اگر کسی سے کچھ کوتاہی ہو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ بہرحال آگے ان غیر متعصب کافروں کے ساتھ خواہ وہ ذمی ہوں یا مصالح ہوں حسن سلوک اور نیک برتائو کا ذکر ہے۔