Surat us Saff

Surah: 61

Verse: 5

سورة الصف

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ لِمَ تُؤۡذُوۡنَنِیۡ وَ قَدۡ تَّعۡلَمُوۡنَ اَنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ ؕ فَلَمَّا زَاغُوۡۤا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۵﴾

And [mention, O Muhammad], when Moses said to his people, "O my people, why do you harm me while you certainly know that I am the messenger of Allah to you?" And when they deviated, Allah caused their hearts to deviate. And Allah does not guide the defiantly disobedient people.

اور ( یاد کرو ) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو! تم مجھے کیوں ستا رہے ہو حالانکہ تمہیں ( بخوبی ) معلوم ہے کہ میں تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو ( اور ) ٹیڑھا کر دیا اور اللہ تعالٰی نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa admonishes His People for annoying Him Allah states, وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ .... And when Musa said to his people: "O my people! Allah states that His servant and Messenger Musa, son of Imran, to whom Allah spoke directly, said to his people, ... لِمَ تُوْذُونَنِي وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ... Why do you annoy me while you know certainly that I am the Messenger of Allah to you? meaning, `why do you annoy me even though you know my truth regarding the Message that I brought you' This brings consolation for Allah's Messenger for what the disbelievers among his people and others did to him. And it orders him to be patient. This is why he once said, رَحْمَةُ اللهِ عَلَى مُوسَى لَقَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَر May Allah have mercy with Musa: he was annoyed more than this, yet he was patient. By it believers are prohibited from harming or bothering the Prophet in any way or form. As Allah the Exalted said, يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاأَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ ءَاذَوْاْ مُوسَى فَبرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُواْ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهاً O you who believe! Be not like those who annoyed Musa, but Allah cleared him of that which they alleged, and he was honorable before Allah. (33:69) And His saying: ... فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ... So, when they turned away, Allah turned their hearts away, means, when the Jews turned away from following the guidance, even though they knew it, Allah turned their hearts away from the guidance. Instead, Allah placed doubts, suspicion and failure in their hearts, just as He said, وَنُقَلِّبُ أَفْيِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ كَمَا لَمْ يُوْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِى طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ And We shall turn their hearts and vision away, as they refused to believe therein for the first time, and we shall leave them in their trespass to wander blindly. And His saying; وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُوْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَأءَتْ مَصِيراً And whoever contradicts and opposes the Messenger after the right path has been shown clearly to him, and follows other than the believers' way, We shall keep him in the path he has chosen, and enter him in Hell, what an evil destination it is! (4:115), and, Similarly Allah said; ... وَاللَّهُ لاَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ And Allah guides not the people who are rebellious. (9:24) The Good News of `Isa about Our Prophet and that His Name is Ahmad Allah said;

حضرت عیسیٰ کی طرف سے خاتم الانبیاء کی پشین گوئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کلیم اللہحضرت موسیٰ بن عمران نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم میری رسالت کی سچائی جانتے ہو پھر کیوں میرے درپے آزار ہو رہے ہو؟ اس میں گویا ایک طرح سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جاتی ہے ، چنانچہ آپ بھی جب ستائے جاتے تو فرماتے اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائے وہ اس سے زیادہ ستائے گئے لیکن پھر بھی صابر رہے اور ساتھ ہی اس میں مومنوں کو ادب سکھایا جا ہرا ہے کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء نہ پہنچائیں ایسا نہ کریں جس سے آپ کا دل دکھتا ہو ، جیسے اور جگہ ہے الخ ایمان والو تم ایسے نہ ہونا جیسے موسیٰ کو ایذاء دینے والے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ذی عزت بندے کو اس کے بہتانوں سے پاک کیا ، پس جبکہ یہ لوگ علم کے باوجود اتباع حق سے ہٹ گئے اور ٹیڑھے چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دل ہدایت سے ہٹا دیئے شک و حیرت ان میں سما گئی ، جیسے اور جگہ ہے الخ ، یعنی ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح یہ ہماری آیتوں پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں چھوڑ دیں گے جس میں وہ سرگرداں رہیں گے اور جگہ ہے الخ ، جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے ہدایت ظاہر ہو جانے کے بعد اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی دوسرے کی تابعداری کرے ہم اسے ایسی طرف متوجہ کریں گے جس طرف وہ متوجہ ہوا ہے اور بالاخر اسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے ، یہاں بھی ارشاد ہتا ہے اللہ تعالیٰ فاسقوں کی رہبری نہیں کرتا ، پھر حضرت عیسیٰ کا خطبہ بیان ہوتا ہے جو آپ نے بنی اسرائیل میں پڑھا تھا جس میں فرمایا تھا کہ توراۃ میں میری خوش بری دی گئی تھی اور اب میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی پیش گوئی سناتا ہوں جو نبی امی عربی مکی احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، پس حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء اور مرسلین کے خاتم ہیں ، آپ کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے نہ رسول ، نبوت و رسالت سب آپ پر من کل الوجوہ ختمہو گئی ، صحیح بخاری شریف میں ایک نہایت پاکیزہ حدیث وارد ہوئی ہے جس میں ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بہت سے نام ہیں محمد ، احمد ، ماحی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کفر کو مٹا دیا اور میں حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں ، یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ، ابو داود میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اپنے بہت سے نام بیان فرمائے جو ہمیں محفوظ رہے ان میں سے یہ چند ہیں ، فرمایا میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں حاشر ہوں میں مقفی ہوں ، میں نبی الرحمتہ ہوں ، میں نبی التوبہ ہوں ، میں نبی الملممہ ہوں ، یہ حدیث بھی صحیح مسلم شریف میں ہے ، قرآن کریم میں ہے ۔ الخ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول نبی امی کی جنہیں اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہیں توراۃ میں بھی اور انجیل میں بھی ، اور جگہ فرمان ہے الخ ، اللہ تعالیٰ نے جب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس میرا رسول آئے جو اسے سچ کہتا ہو جو تمہارے ساتھ ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی ضرور مدد کرو گے کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میرا عہد لیتے ہو؟ سب نے کہا ہمیں اقرار ہے فرمایا بس گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کوئی نبی اللہ تعالیٰ نے ایسا مبعوث نہیں فرمایا جس سے یہ اقرار نہ لیا ہو کہ ان کی زندگی میں اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے جائیں تو وہ آپ کی تابعداری کرے بلکہ ہر نبی سے یہ وعدہ بھی لیا جاتا رہا کہ وہ اپنی اپنی امت سے بھی عہد لے لیں ، ایک مرتبہ صحابہ نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمیں اپنی خبر سنایئے آپ نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ کی خوش خبری ہوں میری والدہ کا جب پاؤں بھاری ہوا تو خواب میں دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے شہر بصریٰ کے محلات چم اٹھے ( ابن اسحاق ) اس کی سند عمدہ ہے اور دوسری سندوں سے اس کے شواہد بھی ہیں ، مسند احمد میں ہے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم الانبیاء تھا درآنحالیکہ حضرت آدم اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے ۔ میں تمہیں اس کی ابتداء سناؤں ۔ میں اپنے والد حضرت ابراہیم کی دعا ، حضرت عیسیٰ کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں ۔ انبیاء کی والدہ اسی طرح خواب دکھائی جاتی ہیں ، مسند احمد میں اور سند سے بھی اسی کے قریب روایت مروی ہے ، مسند کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجاشی بادشاہ حبشہ کے ہاں بھیج دیا تھا ہم تقریباً اسی آدمی تھے ۔ ہم میں حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت جعفر حضرت عبداللہ بن رواحہ حضرت عثمان بن مطعون حضرت ابو موسیٰ وغیرہ بھی تھے ۔ ہمارے یہاں پہنچنے پر قریش نے یہ خبر پا کر ہمارے پیچھے اپنی طرف سے بادشاہ کے پاس اپنے دو سفیر بھیجے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید ان کے ساتھ دربار شاہی کے لئے تحفے بھی بھیجے جب یہ آئے تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدہ کیا پھر دائیں بائیں گھوم کر بیٹھ گئے پھر اپنی درخواست پیش کی کہ ہمارے کنبے قبیلے کے چند لوگ ہمارے دین کو چھوڑ کر ہم سے بھاگ کر آپ کے ملک میں چلے آئے ہیں ہماری وقم نے ہمیں اس لئے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں ہمارے حالے کر دیجئے ، نجاشی نے پوچھا وہ کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا یہیں اسی شہر میں ہیں حکم دیا کہ انہیں حاضر کرو چنانچہ یہ مسلمان صحابہ دربار میں آئے ان کے خطیب اس وقت حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے باقی لوگ ان کے ماتحت تھے یہ جب آئے تو انہوں نے سلام تو کیا لیکن سجدہ نہیں کیا درباریوں نے کہا تم بادشاہ کے سامنے سجدہ کیوں نہیں کرتے؟ جواب ملا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے ، پوچھا گیا کیوں؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف بھیجا اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نمازیں پڑھتے رہیں زکوٰۃ ادا کرتے رہیں ، اب عمرو بن عاص سے نہ رہا گیا کہ ایسا نہ ہو ان باتوں کا اثر بادشاہ پر پڑے درباریوں اور ود بادشاہ کو بھڑکانے کے لئے وہ بیج میں بول پڑا کہ حضور ان کے اعتقاد حضرت عسیٰ بن مریم کے بارے میں آپ لوگوں سے بالکل مخلاف ہیں ، اس پر بادشاہ نے پوچھا بتاؤ تم حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارا عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ہمیں تعلیم فرمایا کہ وہ کلمتہ اللہ ہیں روح اللہ ہیں جس روح کو اللہ تعالیٰ کنواری مریم بتول کی طرف القا کیا جو کنواری تھیں جنہیں کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا نہ انہیں بچہ ہونے کا کوئی موقعہ تھا بادشاہ نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا اے حبشہ کے لوگو اور اے واعظو عالمو اور درویشو کا اور ہمارا اس کے بارے میں ایک ہی عقیدہ ہے اللہ کی قسم ان کے اور ہمارے عقیدے میں اس تنکے جتنا بھی فرق نہیں ۔ اے جماعت مہاجرین تمہیں مرحبا ہو اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مرحبا ہو جن کے پاس سے تم آئے ہو میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں یہ وہی ہیں جن کی پیش گوئی ہم نے انجیل میں پڑھی ہے اور یہ وہی ہیں جن کی بشارت ہمارے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے میری طرف سے تمہیں عام اجازت ہے جہاں چاہو رہو سہو اللہ کی قسم اگر ملک کی اس جھنجٹسے میں آزاد ہہوتا تو میں یقیناً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ کی جوتیاں اٹھاتا آپ کی خدمت کرتا اور آپ کو وضو کراتا اتنا کہہ کر حکم دیا کہ یہ دونوں قریشی جو تحفہ لے کر آئے ہیں وہ انہیں اپس کر دیا جائے ۔ ان مہاجرین کرام میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود تو جلد ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے جنگ بدر میں بھی آپ نے شرکت کی ۔ اس شاہ حبشہ کے انتقال کی خبر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کے لئے بخشش کی دعا مانگی ۔ یہ پورا واقعہ حضرت جعفر اور حضرت ام سلمہ سے مروی ہے ۔ تفسیری موضوع سے چونکہ یہ الگ چیز ہے اس لئے ہم نے اسے یہاں مختصراً وارد کر دیا مزید تفصیل سیرت کی کتابں میں ملاحظہ ہو ، ہمارا مقصود یہ ہے کہ عالی جناب حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اگلے انبیاء کرام علیہم السلام برابر پشین گوئیاں کرتے رہے اور اپنی امت کو اپنی کتاب میں سے آپ کی صفتیں سناتے رہے اور آپ کی اتباع اور نصرت کا انہیں حکم کرتے رہے ، ہاں آپ کے امر کی شہرت حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا کے بعد ہوئی جو تمام انبیاء کے باپ تھے اسی طرح مزید شہرت کا باعث حضرت عیسیٰ کی بشارت ہوئی جس حدیث میں آپ نے سائل کے سوال پر اپنے امر نبوت کی نسبت داء خلیل اور نوید مسح کی طرف کی ہے اس سے یہی مراد ہے ان دونوں کے ساتھ آپ کا اپنی والدہ محترمہ کے خواب کا ذکر کرنا اس لئے تھا کہ اہل مکہ میں آپ کی رشوع شہرت کا باعث یہ خواب تھا ، اللہ تعالیٰ آپ پر بیشمار درود و رحمت بھیجے ۔ پھر ارشاد ہتا ہے کہ باوجود اس قدر شہرت اور باوجود انبیاء کی متواتر پیش گوئیوں کے بھی جب آپ روشن دلیلیں لے کر آئے تو مخالفین نے اور کافروں نے کہہ دیا کہ یہ تو صاف صاف جاود ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یہ جانتے ہوئے بھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے سچے رسول ہیں، بنی اسرائیل انہیں اپنی زبان سے ایذا پہنچاتے تھے، حتٰی کہ بعض جسمانی عیوب ان کی طرف منسوب کرتے تھے، حالانکہ وہ بیماری ان کے اندر نہیں تھی۔ 5۔ 2 یعنی علم کے باوجود حق سے اعراض کیا اور حق کے مقابلے میں باطل کو خیر کے مقابلے میں شر کو اور ایمان کے مقابلے میں کفر کو اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا کے طور پر ان کے دلوں کو مستقل طور پر ہدایت سے پھیر دیا۔ کیونکہ یہی سنت اللہ چلی آرہی ہے۔ کفر وضلالات پر دوام واستمرار ہی دلوں پر مہر لگنے کا باعث ہوتا ہے پھر فسق کفر اور ظلم اس کی طبیعت اور عادت بن جاتی ہے جس کو کوئی بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ اس لیے آگے فرمایا اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو اپنی سنت کے مطابق گمراہ کیا ہوتا ہے اب کون اسے ہدایت دے سکتا ہے جسے اس طریقے سے اللہ نے گمراہ کیا ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] بنی اسرائیل کا اپنے نبی سیدنا موسیٰ کو تکلیفیں پہنچانا :۔ تمام انبیاء کو اپنے مخالفین اور دشمنوں سے دکھ اور مصائب پہنچتے ہی رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ قابل افسوس بات یہ ہوتی ہے کہ اپنے ہی لوگ دکھ پہنچانے لگیں۔ اس سلسلہ میں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو جس قدر پریشان کیا اور دکھ پہنچایا تھا۔ شاید ہی کسی دوسری قوم نے پہنچایا ہو۔ حالانکہ انہیں خوب معلوم تھا بلکہ یقین تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں اللہ کے حکم کے مطابق ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو طرح طرح کی کٹ حجتیاں اور سوال کر کرکے آپ کو پریشان کردیا۔ فرعون سے نجات پاکر آگے روانہ ہوئے ہی تھے کہ ایک قوم کو بت پوجتے دیکھ کر کہنے لگے : موسیٰ ! ہمیں بھی اس طرح کا ایک بت بنادو۔ جس کی ہم پوجا کیا کریں۔ میدان تیہ میں ان کو بلا مشقت من وسلویٰ مل رہا تھا تو کہنے لگے : موسیٰ ! ہم تو یہ غذا کھا کر تنگ آگئے ہیں اور جی بھر گیا ہے۔ لہذا اب سبزیاں اور دالیں کھانا چاہتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) طور پر تورات لینے گئے تو بعد میں ایک بچھڑا بنا کر اس کی پوجا شروع کردی اور کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو بھول کر طور پر چلے گئے۔ ہمارا اور اس کا معبود تو یہ ہے وہ وہاں کیا لینے چلے گئے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کتاب تورات لے کر آئے تو کہنے لگے۔ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ واقعی اللہ کی طرف سے ہی نازل شدہ کتاب ہے۔ ہم تو جب تک واضح طور پر اللہ کو دیکھ نہ لیں یہ کتاب ماننے کو تیار نہیں۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں ارض شام میں جہاد کرنے کو کہا تو کہنے لگے موسیٰ ! وہاں تو بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں ہم ان سے کیسے لڑ سکتے ہیں۔ اگر جہاد اتنا ہی ضروری ہے تو تم اور تمہارا رب دونوں جا کر ان سے جہاد کرو۔ ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ اپنی قوم کی ایسی ہی باتوں سے تنگ آکر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی تھی۔ && پروردگار ! میرا اختیار تو صرف اپنی ذات پر اور اپنے بھائی پر ہے لہذا اس نافرمان قوم سے ہمارا ساتھ چھڑا دے && (٥: ٢٥) انبیاء اپنی دشمن قوم کے لیے تو ایسی دعا مانگتے ہی رہے ہیں۔ مگر کسی نبی نے غالباً اپنی قوم کے حق میں ایسی دعا کبھی نہیں مانگی۔ [٥] اپنے نبی کی شان میں گستاخیاں کرتے کرتے اور دکھ پہنچاتے پہنچاتے ان کی فطرت ہی کچھ ایسی ٹیڑھی بن چکی تھی کہ کسی حکم کو بھی وہ سچے ایمانداروں کی طرح تسلیم کرلینے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ بلکہ اس میں میں میخ نکال کر اس کا کچھ الٹا ہی مطلب نکال لیتے تھے۔ پھر جب انہوں نے کجروی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے بھی انہیں اسی راہ پر ڈال دیا۔ کیونکہ اللہ کا یہ دستور نہیں کہ وہ ٹیڑھی راہ اختیار کرنے والوں کو زبردستی سیدھی راہ پر ڈال دے۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے اس دنیا میں انسان کی آزمائش کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَاِذْ قَالَ مُوسٰی لِقَوْمِہٖ یٰـقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ ۔۔۔۔۔: قتال فی سبیل اللہ کی فضیلت کے ذکر اور اس سے گریز پر ملامت کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے خطاب ذکر فرمایا ، جس میں انہوں نے ان کی اس اذیت رسانی کا شکوہ اور اس پر ملامت کی جو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ روا رکھی کہ جب وہ انہیں اپنے لیے اللہ کا رسول جانتے اور مانتے تھے تو ان پر لازم تھا کہ وہ ان کی تکریم کرتے ، ان کی اطاعت کرتے اور ان کے ساتھ مل کر دشمنان اسلام سے جہاد کرتے ، مگر انہوں نے ان کے ساتھ عام رویے میں ، ان کے احکام کی تعمیل میں اور جہاد کے لیے نکلنے کے معاملے میں ، غرض ہر طرح سے انہیں تکلیف پہنچائی ۔ یہاں جس ایذاء کی طرف خصوصاً اشارہ ہے اور جس کی وجہ سے انہیں موسیٰ (علیہ السلام) سے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ” القوم الفسقین “ کا لقب ملا وہ ان کا جہاد کے لیے نکلنے سے صاف انکار ہے۔ مقصود مسلمانوں کو ان کا طریقہ اپنانے سے اجتناب کی تلقین ہے۔ تکریم و اطاعت کے معاملے میں ان کی ایذاء کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ احزاب (٦٩) کی تفسیر اور جہاد کے لیے نکلنے سے ان کے صاف انکار کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ مائدہ (٢٠ تا ٢٦) کی تفسیر۔ ٢۔ فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللہ ُ قُلُوْبَہُمْ :” زاغوا “ ” زاغ یزیغ زیغا “ (ض ( ٹیڑھا ہونا۔” ازاع “ اس سے باب افعال ہے ، ٹیڑھا کردیا ۔ یعنی جب وہ اطاعت کے بجائے ہر کام میں ٹیڑھے چلے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی راہ پر ڈال دیا ، کیونکہ وہ ٹیڑھی راہ پر چلنے والوں کو زبردستی سیدھی راہ پر نہیں چلاتا ، کیونکہ اس سے آزمائش کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(نولہ ماتولی) ( النسائ : ١١٥)” ہم اسے اسی طرح پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا “۔ ٣۔ وَ اللہ ُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ : جہاد سے انکار کی وجہ سے سورة ٔ مائدہ کی آیت (٢٥) میں موسیٰ (علیہ السلام) نے اور سورة ٔ مائدہ ہی کی آیت (٢٦) میں اللہ تعالیٰ نے قوم موسیٰ کی ” القوم الفسقین “ کا خطاب دیا ہے۔ ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے علاوہ ایمان کا دعویٰ کرنے والے منافقین سے بھی بہت اذیت پہنچی ۔ زبانی اذیت کے علاوہ جہاد کے مواقع پر انہوں نے کئی دفعہ غداری کی ، جنگ احد کے موقع پر عبد اللہ ابھی تین سو (٣٠٠) آدمیوں کو ، جو لشکر کا تقریباً تیسرا حصہ تھے ، عین میدان جنگ سے نکال کرلے گیا ۔ جنگ خندق میں بھی انہوں نے کفار سے مل کر سازشوں میں اور مسلمانوں کی حوصلہ شکنی میں کوئی کمی نہیں کی ۔ سورة ٔ آل عمران (١٥٤ تا ١٦٨) اور سورة ٔ احزاب (٩ تا ٢٠) میں اللہ تعالیٰ نے اس کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ زبانی اذیت کے لیے دیکھئے سورة ٔ توبہ (٥٨، ٦١، ٧٤) ، احزاب (٥٧) اور منافقون (٨) ۔ اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کے اعلان ہی سے کفار کی طرف سے مسلسل اور بےپناہ تکلیفیں پہنچیں ، مگر اپنی جماعت میں شامل لوگوں کی طرف سے ایذا کا احساس زیادہ ہوتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دلائی ہے کہ اگر کچھ منافق قسم کے لوگ آپ کو تکلیف دیتے ہیں اور جہاد میں جانے سے پس و پیش کرتے ہیں تو آپ غم نہ کریں ، آپ کے ساتھ تو پھر بھی جہاد کرنے والوں اور جان و مال قربان کرنے والوں کی عظیم جماعت موجود ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) کو تو اپنوں کی طرف سے اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی ، ان کی قوم نے جہاد کے لیے نکلنے ہی سے صاف انکار کردیا ۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ چیزیں تقسیم تو ایک آدمی نے کہا :” یہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کے چہرے کا ارادہ نہیں کیا گیا “۔ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات بتائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوئے حتیٰ کہ میں نے غصے کے آثار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرۂ مبارک میں دیکھے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یرحم اللہ موسیٰ لقد اوذی باکثر من ھذا فصبر) (بخاری ، الدعوات ، باب قول اللہ تبارک و تعالیٰ ) (وصل علیھم) ۔۔۔۔: ٦٣٣٦)” اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ، انہیں اس سے زیادہ اذیت دی گئی مگر انہوں نے صبر کیا۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی ذکر فرمایا، کیونکہ ان کے ساتھ بھی چند لوگوں کے سوا بنی اسرائیل نے ایسا ہی سلوک کیا ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِہٖ يٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ۝ ٠ ۭ فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝ ٥ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ، قوله تعالی: فَآذُوهُما [ النساء/ 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة/ 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب/ 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام/ 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف/ 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة/ 222] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ { فَآذُوهُمَا } ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ { وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ } ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ { وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى } ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ { وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا } ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ { لِمَ تُؤْذُونَنِي } ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ { وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ } ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ زيغ الزَّيْغُ : المیل عن الاستقامة، والتَّزَايُغُ : التمایل، ورجل زَائِغٌ ، وقوم زَاغَةٌ ، وزائغون، وزاغت الشمس، وزَاغَ البصر، وقال تعالی: وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى ما يداخلهم من الخوف حتی اظلمّت أبصارهم، ويصحّ أن يكون إشارة إلى ما قال : يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، وقال : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم/ 17] ، مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة/ 117] ، فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف/ 5] ، لمّا فارقوا الاستقامة عاملهم بذلک . ( ز ی غ ) الزیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانا کے ہیں اور التزایغ کے معنی تمایل یعنی بہت زیادہ مائل ہوجانا ایک دوسرے سے مائل ہونا رجل زائغ مائل ہونے والا ۔ اس کی جمع زاغۃ وزائغون آتی ہے ۔ زاغت الشمس ۔ سورج مائل بزوال ہوگیا زاغ البصر نگاہ نے غلطی کی ، ایک طرف ہٹ گئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ خوف و ہراس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ بھی کہ یہ آیت :۔ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران/ 13] کے ہم معنی ہو یعنی نگاہیں صحیح طور پر کسی چیز کا ادارک نہیں کرسکیں گی ۔ نیز فرمایا : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم/ 17] نظر نہ تو حقیقت سے ایک طرف ہٹی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا ۔ مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة/ 117] اس کے بعد کہ ۔۔۔۔ پھرجانے کو تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف/ 5] کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ از خود صحیح راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ واقعہ قابل ذکر ہے جبکہ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کے منافقوں سے کہا کہ مجھے کیوں تکلیف پہنچاتے ہو اور ان کی قوم ان کو نامرد کہا کرتی تھی۔ جیسا کہ سورة احزاب میں واقعہ گزر گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ لوگ حق و ہدایت سے دور رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو حق و ہدایت سے اور دور کردیا یا یہ کہ جب انہوں نے حضرت موسیٰ کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو توحید سے ہٹا دیا اور اللہ تعالیٰ تو ایسے فاسقوں کو ہدایت کی توفیق نہیں دیتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ { وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰــقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ } ” اور یاد کرو جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! تم کیوں مجھے ایذا دے رہے ہو ؟ “ یہ جس ایذا کا ذکر ہے وہ ذاتی نوعیت کی بھی ہوسکتی ہے ۔ ظاہر ہے انبیاء و رسل بھی آخر انسان تھے اور طبع بشری کے تحت ہر طرح کی تکلیف کو محسوس بھی کرتے تھے ۔ جیسے سورة الاحزاب کی آیت ٦٩ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے ایک تکلیف دہ معاملے کا ذکر آیا ہے یا جیسے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین مکہ کی طرف سے بھی ذاتی نوعیت کی تکالیف پہنچائی جاتی رہیں اور منافقین کے طرزعمل سے بھی شدید ذہنی و قلبی اذیت سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے بنی اسرائیل کی طرف سے اصل اور سب سے بڑی ایذا وہ تھی جو حکم جہاد سے ان کے انکار کی وجہ سے آپ (علیہ السلام) کو پہنچی تھی۔ اپنی قوم کے اس انکار کے بعد آپ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا کی تھی اس کے ایک ایک لفظ میں شدت ِتکلیف کے احساسات کی جھلک نظر آتی ہے۔ ملاحظہ ہوں آپ (علیہ السلام) کی دعا کے یہ الفاظ : { قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۔ } (المائدۃ) ” موسٰی (علیہ السلام) نے عرض کیا : پروردگار ‘ مجھے تو اختیار نہیں ہے سوائے اپنی جان کے اور اپنے بھائی (ہارون (علیہ السلام) کی جان) کے ‘ تو اب تفریق کردے ہمارے اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان۔ “ { وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَـیْکُمْ } ” جبکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ “ میرے نزدیک یہاں لفظ ” رسول “ نبی کے معنی میں آیا ہے۔ دراصل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل کی طرف ” نبی “ کی حیثیت سے تھی ‘ بطور ” رسول “ نہیں تھی ۔ جبکہ قوم فرعون کی طرف آپ (علیہ السلام) بحیثیت ” رسول “ مبعوث ہوئے تھے : { وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلاَئِہٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ } (الزخرف) ” اور ہم نے بھیجا تھا موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف تو اس نے کہا کہ (دیکھو) میں تمام جہانوں کے پروردگار کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں۔ “ کسی قوم کی طرف ” رسول “ کی بعثت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون ہمیشہ یہ رہا ہے کہ متعلقہ قوم پر اپنے رسول کی فرمانبرداری لازم ہوتی تھی ۔ چناچہ جو قوم اپنے رسول (علیہ السلام) کی دعوت کو رد کردیتی تھی اسے ہلاک کردیا جاتا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کا اطلاق بنی اسرائیل پر نہیں ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پے در پے نافرمانی کے باوجود انہیں ہلاک نہیں کیا گیا ۔ دوسری طرف قوم فرعون آپ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کردی گئی۔ چناچہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حیثیت نبی کی تھی ‘ جبکہ آلِ فرعون کی طرف آپ (علیہ السلام) ” رسول “ مبعوث ہو کر آئے تھے ۔ { فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ط } ” پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ “ یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں لوگوں کی ہدایت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ایک بنیادی اصول اور قانون بیان ہوا ہے ۔ اس اصول کی روشنی میں قرآن مجید کی ان آیات کو سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو گمراہ کرنے یا ان کے دلوں پر مہر کردینے کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہدایت کے راستے کو پہچان لینے کے بعد بھی اسے اختیار نہ کرے بلکہ گمراہی کی روش پر ہی چلتے رہنے کو ترجیح دے ‘ پھر وہ اس راستے پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ مہلت کی حدود پھلانگ کر ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں سے اس کی واپسی کا کوئی امکان نہ ہو (point of no return) تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ اس شخص کے دل پر مہر لگا دیتا ہے اور اس پر ہدایت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیتا ہے ‘ یعنی بندہ جب سمجھتے بوجھتے ہوئے ٹیڑھا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ اس کا دل ہمیشہ کے لیے ٹیڑھا کردیتا ہے۔ (اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک ! ) { وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ۔ } ” اور اللہ فاسقوں کو (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 At several places in the Qur'iin details have been given of how the Israelites in spite of acknowledging the Prophet Moses as a Prophet of God and their own benefactor maligned him and proved disloyal to him. For this see AIBaqarah: 51,55,60, 67-71 An-Nisa': 153; AI-Ma'idah: 20-26; AI-A'raf: 138-141; 148-151; Ta Ha: 86-98. In the Bible too, the Jewish history written by hte Jews themselves is replete with such events; for instance, sec Exodus, 5: 20-21, 14: 11- 12, 16: 2-3, 17: 3-4; Numbers, 11: 1-15, 14: 1-10, ch.l6, 20: 1-5. Here, allusion to these events is meant to warn the Muslims that they should not adopt the same attitude towards their Prophet as the Israelites had adopted towards their Prophet: otherwise they would meet the same fate as was met by the Israelites. 5 That is, it is not Allah's way to force the people to follow the right way of guidance if they are bent upon following the crooked ways of sin and disobedience. From this it automatically follows that the deviation of a person or nation is not initiated by AIIah but by the person or the nation itself. But the law of AIIah is that He provides means of deviation only for the one who chooses deviation, so that be may go astray into whatever alleys he may like. AIIah has granted man the freedom of choice. Now it is for every man and for every group of men to decide whether he or it wants to obey their Lord, or not, and whether he or it chooses the right way for it or one of the crooked ways. There is no compulsion from Allah in this choice. If somebody chooses the way of obedience and guidance, AIIah does not push him forcibly towards deviation and disobedience; and if somebody is resolved to follow disobedience instead of the way of righteousness, it is not Allah's way to make him adopt the way of obedience and guidance forcibly. But this also is the truth that the person who chooses a particular way for himself, cannot follow it practically unless AIIah provides for him the ways and means and creates for him the conditions which are necessary for following it. This is Allah's grace and favour" without which no one's efforts can be meaningful and productive. Now, if a person is not at aII interested in seeking Allah's grace for righteousness, but seeks His grace for adopting evil, he is given the same. And when he receives the grace for doing evil. he becomes temperamentally perverse accordingly and the course of his action and effort goes on becoming crooked until at last the capability to do and accept good in him is gradually lost and destroyed. This is what is meant by, when they adopted perverseness, Allah caused their hearts to become perverse." In this state it is against the law of Allah that the one who wants to adopt deviation, and is actively and earnestly engaged in seeking it, and is expending aII one's thought and energy to move futher and further on towards it, should be forcibly turned towards guidance, for such an action would negate the object of the test and .trial, for which man has been granted the freedom of choice in the world. For if a man adopts righteousness through such guidance, there is no reason why he should be entitled to any reward whatever. Rather in such a case, the one who was not guided forcibly and was left in deviation on that account, should not be subjected to any punishment, for the responsibility for his deviation would lie on Allah, and at the time of his accountability in the Hereafter, he could present the argument: '`When there existed the rule of granting guidance forcibly in the world, why was I deprived of that favour?" This is the meaning of the words: "Allah does not guide the transgressors." That is, Allah dces not grant the favour of adopting the way of obedience to those, who have chosen the way of sin and disobedience for themselves of their own free will.

سورة الصَّف حاشیہ نمبر :4 قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو اللہ کا نبی اور اپنا محسن جاننے کے باوجود کس کس طرح تنگ کیا اور کیسی کیسی بے وفائیاں ان کے ساتھ کیں ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ ، آیت 51 ۔ 55 ۔ 60 ۔ 67 تا 71 ۔ النساء ، 153 ۔ المائدہ ، 20 تا 26 ۔ الاعراف 138 تا 141 ۔ 148 تا 151 ۔ طٰہٰ 86 تا 98 ۔ بائیبل میں خود یہودیوں کی اپنی بیان کردہ تاریخ بھی اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے ۔ صرف بطور نمونہ چند واقعات کے لیے دیکھیے خروج 20:5 ۔ 21 11:14 ۔ 12 ۔ 2:16 ۔ 3 ۔ 3:17 ۔ 4 ۔ گنتی 1:11 ۔ 15 ۔ 1:14 ۔ 10 ۔ 16 مکمل ۔ 1:20 ۔ 5 یہاں ان واقعات کی طرف اشارہ مسلمانوں کو خبردار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے نبی کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کریں جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی کے ساتھ اختیار کی تھی ، ورنہ وہ اس انجام سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جس سے بنی اسرائیل دوچار ہوئے ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :5 یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو لوگ خود ٹیڑھی راہ چلنا چاہیں انہیں وہ خواہ مخواہ سیدھی راہ چلائے ، اور جو لوگ اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں ان کو زبردستی ہدایت سے سرفراز فرمائے ۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو گئی کہ کسی شخص یا قوم کی گمراہی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ خود اس شخص یا قوم کی طرف سے ہوتا ہے ، البتہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو گمراہی پسند کرے وہ اس کے لیے راست روی کے نہیں بلکہ گمراہی کے اسباب ہی فراہم کرتا رہے گا کہ جن جن راہوں میں وہ بھٹکنا چاہے بھٹکتا چلا جائے ۔ اللہ نے تو انسان کو انتخاب کی آزادی ( Freedom of Choice ) عطا فرما دی ہے ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہر انسان کا اور انسانوں کے ہر گروہ کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرنا چاہتا ہے یا نہیں ، اور راہ راست پسند کرتا ہے یا ٹیڑھے راستوں میں سے کسی پر جانا چاہتا ہے ۔ اس انتخاب میں کوئی جبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے ۔ اگر کوئی اطاعت اور ہدایت کی راہ منتخب کرے تو اللہ اسے جبراً گمراہی و نافرمانی کی طرف نہیں دھکیلتا ، اور اگر کسی کا فیصلہ یہ ہو کہ اسے نافرمانی ہی کرنی ہے اور راہ راست اختیار نہیں کرنی تو اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ اسے مجبور کر کے طاعت و ہدایت کی راہ پر لائے ۔ لیکن یہ بجائے خود ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جس راستے کو بھی اپنے لیے منتخب کرے اس پر وہ عملاً ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جب تک اللہ اس کے لیے وہ اسباب و ذرائع فراہم اور وہ حالات پیدا نہ کر دے جو اس پر چلنے کے لیے درکار ہوتے ہیں ۔ یہی اللہ کی وہ توفیق ہے جس پر انسان کی ہر سعی کے نتیجہ خیز ہونے کا انحصار ہے ۔ اب اگر کوئی شخص بھلائی کی توفیق سرے سے چاہتا ہی نہیں ، بلکہ الٹی برائی کی توفیق چاہتا ہے تو اس کو وہی ملتی ہے ۔ اور جب اسے برائی کی توفیق ملتی ہے تو اسی کے مطابق اس کی ذہنیت کا سانچا ٹیڑھا اور اس کی سعی و عمل کا راستہ کج ہوتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کے اندر سے بھلائی کو قبول کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یہی معنی ہیں اس ارشاد کے کہ جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے ۔ اس حالت میں یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے کہ جو خود گمراہی چاہتا ہے اور گمراہی کی طلب ہی میں سرگرم ہے اور اسی میں آگے بڑھنے کے لیے اپنی ساری فکر و سعی صرف کر رہا ہے اسے جبراً ہدایت کی طرف موڑ دیا جائے ، کیونکہ ایسا کرنا اس آزمائش اور امتحان کے منشا کو فوت کر دے گا جس کے لیے دنیا میں انسان کو انتخاب کی آزادی دی گئی ہے ، اور اس طرح کی ہدایت پاکر اگر آدمی سیدھا چلے تو کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس پر وہ کسی اجر اور جزائے خیر کا مستحق ہو ۔ بلکہ اس صورت میں تو جسے زبردستی ہدایت نہ ملی ہو اور اس بنا پر وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا ہو وہ بھی کسی سزا کا مستحق نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ پھر تو اس کے گمراہ رہنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر آ جاتی ہے اور وہ آخرت میں باز پرس کے موقع پر یہ حجت پیش کر سکتا ہے کہ جب آپ کے ہاں زبردستی ہدایت دینے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے انکو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کی توفیق نہیں دیا کرتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: حضرت موسی علیہ السلام کو اُن کی قوم نے کس کس طرح تکلیفیں پہنچائیں، اس کی تفصیل سورۃ بقرہ(۲:۶۲) وغیرہ میں گذر چکی ہے۔ 4: یعنی جان بوجھ کر ہٹ دھرمی کرنے کی یہ سزا دی گئی کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے دِل ایسے ٹیڑھے کردئیے کہ اب ان میں حق بات قبول کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥۔ بنی اسرائیل ایک مدت سے مصر میں نہایت ذلت کے ساتھ رہتے تھے کیونکہ فرعون اور اس کی قوم کے لوگ بنی اسرائیل سے طرح طرح کے ذلیل کام لیا کرتے تھے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نبی ہوئے اور ان کے سبب سے فرعون اور ان کی قوم کے لوگ یہ سب ڈوب کر ہلاک ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر حضرت یعقوب اور انبیاء کی سکونت کی جگہ ملک شام کو جائیں اور وہاں کی جو بستیاں قوم عمالقہ کے قبضہ میں آگئی ہیں۔ اس قوم سے لڑ کر وہ بستیاں ان سے خالی کرائیں جائیں اور اس ملک میں سکونت اختیار کی جائے یوں تو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت سی شرارتیں کیں لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی آخری عمر میں بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت بڑی شرارت کی کہ عمالقہ کی لڑائی کے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صاف کہہ دیا کہ تم اور تمہار اللہ دونوں قوم عمالقہ سے لڑیں ہم تو ایسی زبردست قوم سے نہیں لڑ سکتے۔ چناچہ یہ پورا قصہ سورة مائدہ میں گزر چکا ہے کہ اس شرارت کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایک جنگل میں چالیس برس تک قید رکھا جس قید میں اس شرارت کے کرنے والے لوگ بےدر اور بےگھر اسی جنگل میں بھٹکتے پھرے اور آخر اسی جنگل میں سب مر کھپ کر برابر ہوگئے اس لئے فرمایا کہ جب بنی اسرائیل کے دل اللہ اور اللہ کے رسول کی فرمانبرداری سے پھرگئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو راہ راست پر آنے کی توفیق نہیں دی کیونکہ اس طرح کے نافرمان لوگوں کو مجبور کرکے راہ راست پر لانا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے برخلاف ہے یہاں جو بعض لوگوں نے پہلے نیک کاموں کا ولولہ ظاہر کیا اور پھر جہاد کا حکم نازل ہونے کے بعد ان کا وہ ولولہ پست ہوگیا۔ اس سے اور اسی طرح کی مخالفوں کی اور باتوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج ہوا کرتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ذکر فرما کر اپنے رسول کی تسکین فرمائی کہ اے رسول اللہ مخالف لوگوں کی اس طرح کی باتیں تمہارے ساتھ کچھ نہیں نہیں ہیں اور انبیاء کو بھی ایسی باتیں پیش آتی رہی ہیں اور آخر انبیاء کا انجام اچھا ہوا ہے تمہارا بھی انجام اچھا ہوگا۔ اس قصہ میں نبی آخر الزمان کے عہد کے مخالف لوگوں کو یہ تنبیہ بھی ہے کہ جس طرح پچھلے مخالف لوگوں کا حال ہوا اگر یہ لوگ اللہ کے رسول کی مخالفت سے باز نہ آئے تو وہی حال ان کا ہوگا۔ (٢ ؎ صحیح بخاری باب علامۃ المنافق ص ١٠ ج ١ و صحیح مسلم باب خصال المنافق ص ٥٦ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(61:5) واذا قال موسی۔ کلام مستانفہ ہے واؤ عاطفہ) ۔ اس سے قبل کلام محذوف ہے۔ ای اذکر الوقت اذقال موسی۔ (یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یاد کرو وہ وقت جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا) ۔ یا اذکر لہؤلاء المعرضین عن القتال وقت قول موسیٰ لقومہ۔ اب دشمنان دین سے قتال پر اعتراض کرنے والوں کو وہ وقت یاد کراؤ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا تھا۔ یقوم ۔۔ رسول اللہ الیکم۔ یہ قال کا مقولہ ہے۔ لم : کیوں ، کس لئے (ملاحظہ ہو آیت 61:2 متذکرہ الصدر) تؤذوننی۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ ایذاء (افعال) مصدر۔ نون وقایہ ی ضمیر مفعول واحد متکلم ہے۔ تم مجھے ستاتے ہو۔ تم مجھے ایذاء دیتے ہو۔ وقد تعلمون انی رسول اللہ الیکم۔ جملہ حالیہ ہے اسن کے انکار کی تاکید کے لئے آیا ہے۔ قد تحقیق کے معنی میں اور مضارع کا استعمال استمرار کے لئے ہے۔ فلما : ف تعقیب کا ہے لما حرف شرط ہے۔ لما زاعوا جملہ شرط ہے۔ ازاع اللہ قلوبہم جملہ جزائیہ ہے۔ بعض کے نزدیک لما حرف شرط نہیں ہے بلکہ اسم ظرف ہے حین کا ہم معنی۔ زاغوا۔ ماضی جمع مذکر غائب زیغ (باب ضرب) مصدر۔ وہ پھرگئے۔ وہ کج ہوگئے وہ بہک گئے۔ ازاغ اللہ قلوبھم : ازاغ ماضی واحد مذکر غائب ازاغۃ (افعال) مصدر۔ قلوبھم۔ مضاف مضاف الیہ۔ مل کر مفعول فعل ازاغ کا۔ اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ واللہ لا یھدی القوم الفسقین : جملہ معترضہ تذییلی۔ مضنوب ما سبق کی تاکید کے لئے۔ یعنی کج رؤوں کے دلوں کو ٹیڑھا کردینا۔ اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت یاب نہیں کرتا۔ القوم الفسقین۔ موصوف و صفت مل کر لایدھدی کا مفعول۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی انہیں یہ سزا ملی کہ ان کے دل سخت ہوگئے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” یعنی بنی اسرائیل ہر بات میں ضد کرتے اپنے رسول سے آخر مردود ہوگئے۔ “9 اس آنحضرت کو تسلی دی ہے کہ کچھ لوگ اگر جہاد میں پس و پیش کر رہے رہیں تو آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ موسیٰ اور عیسیٰ بھی اپنی قوم سے ایسی تکالیف اٹھا چکے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ وہ ایذائیں مختلف طور پر تھیں اور حاصل ان سب کا عصیان اور مخالفت ہے۔ 3۔ اس طرح یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بانواع مختلفہ ایذائیں پہنچاتے ہیں اس لئے ان کا جرم اور فسق متزاید ہوتا جاتا ہے کہ امید اصلاح نہیں رہی پس ان کے فساد مٹانے کے لئے قتال کا حکم دینا مصلحت ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو اختلاف اور خلفشار سے بچنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے فرمان اور ان کی قوم کا کردار اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ سورت مزّمل کی آیت ١٥ میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اس لیے یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے فرمان اور ان کی قوم کا کردار پیش کیا گیا ہے تاکہ مسلمان اپنے رسول کی گستاخی اور نافرمانی سے بچتے رہیں۔ ” جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! تم پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تمہیں عطا فرمائی ہیں انہیں یاد کرو۔ اس نے تم میں انبیاء اور بادشاہ بنائے اور تمہیں وہ کچھ عطا کیا جو دنیا میں کسی کو نہیں دیا۔ اے میری قوم ! اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھوں کے بل نہ پھرجاؤ، ورنہ نقصان پانے والے ہو کر لوٹوگے۔ “ (المائدۃ : ٢٠، ٢١) ” انہوں نے کہا اے موسیٰ ! بیشک اس میں ایک بہت زبردست قوم ہے اور ہم تو کسی صورت اس میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ اس سے نکل جائیں، ہاں اگر وہ اس سے نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہوں گے۔ دو آدمی جو انہیں میں سے تھے جن پر اللہ نے انعام کیا تھا اور وہ اللہ سے ڈرنے والے تھے کہنے لگے تم ان پر دروازوں سے داخل ہوجاؤ جب تم دروازے میں داخل ہوگئے تو یقیناً تم غالب ہوگے اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم ایمان دار ہو۔ انہوں نے کہا اے موسیٰ ! ہم تو اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں پس تو اور تیرا رب جاؤ اور لڑوہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ “ (المائدۃ : ٢٢ تا ٢٤) موسیٰ (علیہ السلام) کے سمجھانے کے باوجود ان کی قوم نے قتال فی سبیل اللہ سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں اس قوم کو چالیس سال تک صحرا میں رہنا پڑا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ رہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے اپنی قوم سے بہت تکالیف اٹھائیں یہاں تک کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون صحرائے سینا میں فوت ہوگئے۔ ایسی حالت سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ فرمان یاد کرو کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھے کیوں اذّیت دیتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں موسیٰ (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود انہوں نے ٹیڑھا پن اختیار کیا۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیئے۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ہدایت کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے دل میں اس کی چاہت پیدا کرے اور اس کے لیے عملی کوشش کرے۔ ایسے شخص کے لیے ہدایت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے جو ہدایت سے اعراض کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اس کی مرضی کے حوالے کردیتا ہے۔ ” اَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ “ کا یہی معنٰی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان اور دعا : (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یُصَّرِفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اَللَّہُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَی طَاعَتِکَ “ ) (رواہ مسلم : باب تصریف اللہ القلوب حیث یشاء) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک بنی آدم کے دل الرحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں۔ وہ ان کو جیسے چاہتا ہے پھیرتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی۔ اے دلوں کو پھیرنے والے ” اللہ “ ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف پھیرے رکھنا “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُولَ ” اللّٰہُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دینِکَ “ ) (رواہ ابن ماجہ : باب دعاء رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، قال الشیخ البانی صحیح) ” حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھنا۔ “ بنی اسرائیل کا موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک اور انداز میں اذّیت دینا : (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا) (الاحزاب : ٦٩) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ کو اذّیت دی تھی۔ اللہ نے ان کی کہی ہوئی باتوں سے موسیٰ کی برأت فرمائی اور موسیٰ اللہ کے مقرب اور بڑے باعزت تھے۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ یَغْتَسِلُوْنَ عُرَاۃً یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَکَانَ مُوْسٰی (علیہ السلام) یَغْتَسِلُ وَحْدَہٗ فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَایَمْنَعُ مُوْسٰی أَنْ یَّغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّہٗ آدَرُ فَذَھَبَ مَرَّۃً یَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَہٗ عَلٰی حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِہٖ فَخَرَجَ مُوْسٰی فِيْ إِثْرِہٖ یَقُوْلُ ثَوْبِيْ یَاحَجَرُ حَتّٰی نَظَرَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ إِلٰی مُوْسٰی فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَہٗ فَطَفِقَ بالْحَجَرِ ضَرْبًا) (رواہ البخاری : کتاب الغسل، باب من اغتسل عریاناوحدہ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کے لوگ ننگے نہاتے اور ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اکیلے ہی غسل کرتے تھے۔ یہودیوں نے کہا اللہ کی قسم موسیٰ ہمارے ساتھ اس وجہ سے نہیں نہاتے کہ ان کے خصیتین میں خرابی ہے۔ ایک دفعہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے کپڑے پتھر پر رکھ کر غسل کررہے تھے تو پتھر کپڑے لے کر چل پڑا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پتھر کے پیچھے بھاگے اور کہا اے پتھر ! میرے کپڑے واپس کردے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو برہنہ حالت میں دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم ! موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی تکلیف نہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے پکڑ کر پتھر کو مارنا شروع کردیا۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میں نے جو چیزبندے پر فرض کی اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے۔ بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ جب میں اس کے ساتھ محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر سوال کرے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں، اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں اپنے کسی کام میں اتنا تردُّد نہیں کرتاجتنا ایک مومن کی جان قبض کرنے میں کرتا ہوں کیونکہ بندہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اس کی تکلیف اچھی نہیں لگتی جس نے میرنے ولی کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی۔ “ (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب التواضع ) نبی آخر الزمان کو تکلیف دینے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والوں کی سزا : (اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعدَّلَہُمْ عَذَابًا مُہِیْنًا) (الأحزاب : ٥٧) ” بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دیتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ گستاخ رسول کا قتل : ( اِنَّ أعْمٰی کَانَتْ لَہٗ اُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَ تَقَعُ فِیْہِ فَیَنْہَا ہَا فَلَا تَنْتَہِیْ وَیَزْجُرُہَا فَلَا تَنْزَجِرُ فَلَمَّا کَانَتْ ذَاتَ لَیْلَۃٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَتَشْتُمُہٗ فَاخَذَا لْمِغْوَلَ فَوَ ضَعَہٗ فِیْ بَطْنِہَا وَتَّکَأَ عَلَیْہَا فَقَتَلَہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُکِرَ ذَلِکَ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ اُنْشِدُ رَجُلًا فَعَل مَا فَعَلَ لِیْ عَلَیْہِ حَقُّ اِلَّا قَامَ قَالَ فَقَامَ الْاَعْمٰی یَتَخَطَّی النَّاسَ وَہُوَ یَتَدَلْدَلُ حَتّٰی قَعَدَبَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنَا صَاحِبُہَا کَانَتْ تَشْتُمُکَ وَتَقَعُ فِیْکَ فَاَنْہَاہَا فَلَا تَنْتَہِیْ وَأَزْجُرُہَا فَلاَ تَنْزَجِرُ وَلِیَ مِنْہَا اِبْنَانِ مِثْلُ الْلُؤلُؤَتَیْنِ وَکَانَتْ بِیْ رَفِیْقَۃً فَلَمَّا کَانَ الْبَارِحَۃُ جَعَلَتْ تَشْتُمُکَ وَتَقَعُ فِیْکَ فَاخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُہُ فِیْ بَطْنِہَا وَاتَّکَأْتُ عَلَیْہِ حَتّٰی قَتَلْتُہَا فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَ لَا أَشْہِدُوْا أَنَّ دَمَہَا ہَدَرٌ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی) ” ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا۔ وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا۔ مگر وہ نہ رکتی تھی۔ ایک رات اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دینا شروع کیں تو نابینا صحابی نے ایک چھرا لے کر اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبایا جس سے وہ مرگئی۔ صبح اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوا تو آپ نے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا، یہ کیا ہے۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سن کر ایک نابینا صحابی کھڑا ہوا۔ پریشانی کی حالت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! میں اسے منع کرتا تھا مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتی تھی۔ اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری بیوی تھی۔ گزشتہ رات جب وہ آپ کو گالیاں دینے لگی تو میں نے چھرا لے کر اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ وہ مرگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بات سننے کے بعد صحابہ کو فرمایا تم گواہ رہنا کہ اس عورت کا خون رائیگاں ہوا۔ “ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ سَبَّ نَبِّیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابَہٗ جُلِدَ ) (رواہ الطبرانی فی الصغیر صفحہ ٢٣٦ جلد ١) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے اس آپ کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں۔ “ گستاخ رسول کا قتل : (اِنَّ رَجُلًا مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ شَتَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ یَّکْفِیْنِیْ عَدُوِّی فَقَام الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فَقَالَ اَنَا فَبَارَزَہٗ فَاَعْطَاہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَلَبَہٗ ) (الصارم المسلول ١٧٧) ” مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے دشمن کی کون خبر لے گا ؟ حضرت زبیر بن عوام کھڑے ہو کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں۔ حضرت زبیر (رض) نے اسے قتل کردیا۔ تو رسول اللہْ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا سامان زبیر کو دے دیا۔ “ ابو لہب کا عبرت ناک انجام : سورۃ لہب کے نزول پر ابھی آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں بڑے بڑے سرداران قریش مارے گئے۔ مکہ میں بدر کی شکست کی اطلاع پہنچی تو سب سے زیادہ دکھ ابولہب کو ہوا۔ یہ اسی صدمے اور رنج میں بیمار پڑگیا۔ ساتویں روز بیماری کوڑھ کی شکل اختیار کرگئی۔ جس وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے چھوڑ دیا اور اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ کھانا پینا ترک کردیا۔ بالآخر ذلّت کی موت مرا۔ مرنے کے بعد بھی اس کے بیٹے اس کے قریب نہ گئے یہاں تک کہ اس کی لاش سے بو پھیلنے لگی۔ لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دیے تو انہوں نے ایک حبشی کو مزدوری دی۔ جس نے گڑھا کھودا اور لکڑی سے لاش کو دھکیل کر گڑھے میں پھینکا اور اس پر مٹی ڈال دی۔ گستاخ رسول کو قبر نے باہر پھینک دیا : حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : (کَانَ رَجُلٌ نَصْرانِیًّا فَأسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ فَکَانَ یَکْتُبُ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَعَادَ نَصْرَانِیًّا فَکَانَ یَقُوْلُ مَایَدْرِی مُحَمَّدٌ الاَّ مَا کَتَبْتُ لَہٗ فَأَمَاتَہُ اللّٰہُ فَدَ فَنُوْہُ فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَقَالُوْ ہَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَ اَصْحَابِہٖ لَمَّا ہَرَبَ مِنْہُمْ نَبَشُوْا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْہُ فَحَفَرُوْا لَہٗ فَأَعْمَقُوْا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَقَالُوْا ہَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَاَصْحَابِہٖ نَبَشُوْا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا ہَرَبَ مِنْہُمْ فَأَلْقَوْہُ فَحَفَرُوْا لَہٗ وَأَعْمَقُوْا لَہٗ فِی الْاَرْضِ مَاسْتَطَاعُوْا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَعَلِمُوْا اَنَّہُ لَیْسَ مِنَ النَّاسِ فَالْقَوْہُ ) (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام) ” ایک عیسائی مسلمان ہوگیا وہ سورة البقرۃ اور آل عمران پڑھ چکا تھا وہ کاتب وحی تھا۔ وہ مرتد ہو کر عیسائی ہوگیا اور کہنے لگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے کچھ معلوم نہیں۔ اس کی موت واقع ہوگئی تو اس کے ساتھیوں نے اسے دفن کیا۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر کی بجائے زمین کے اوپر پڑی ہے۔ عیسائیوں نے کہا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا۔ اس لیے انہوں نے قبر کھود کر لاش کو باہر پھینک دیا ہے۔ چناچہ دوسری قبر کھودی جو بہت گہری تھی لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اس دفعہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے۔ پھر انہوں نے قبر کھودی جتنی گہری ان کے بس میں تھی اور اس میں ڈال دیا لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر پڑی تھی۔ اب انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں بلکہ یہ آدمی ” اللہ “ کے عذاب میں گرفتار ہے۔ چناچہ انہوں نے اسے زمین پر پڑا رہنے دیا۔ “ امام احمد بن حنبل a : (کُلُّ مَنْ شَتَمَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَوْ تَنَقَّصَہٗ مُسْلِمًا کَانَ اَوْ کَافِرًا فَعَلَیْہِ الْقَتْلُ وَأَرٰی اَنْ یُقْتَلَ وَلَا یُسْتَتَابَ ) (الصارم المسلول : ٣٣) ” جو آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے وہ مسلمان ہو یا کافر اس کا قتل کرنا واجب ہے اور میری رائے یہ ہے کہ اسے توبہ کرنے کی مہلت نہ دی جائے بلکہ فوراً قتل کردیا جائے۔ “ امام مالک (رح) : خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک (رض) سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کے بارے میں پوچھا۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : (مَابَقَاءَ الْاُمَّۃِ بَعْدَ شَتْمِ نَبِیِّہَا) (الشفاء للقاضی عیاض : ٢/٢٣٣) ” اس امت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جس کے نبی کو گالیاں دی جائیں۔ “ امام ابن تیمیہ (رح) : (اِنَّ مَنْ سَبَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ مُسْلِمٍ اَوْ کَافِرٍ فَاِنَّہ یَجِبُ قَتْلُہُ ہَذَا مَذْہَبُ عَامَۃِ اَہْلِ الْعِلْمِ ) (الصارم المسلول : ٣١) ” جو آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دے خواہ مسلمان ہو یا کافر اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ “ ستمبر ٢٠٠٥ ء میں ڈنمارک کے بدنام زمانہ صحافی نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاکے شائع کیے جس سے پورے عالم اسلام میں ایسا اضطراب پیدا ہوا کہ مسلمان تڑپ اٹھے اور پوری دنیا میں جلوس، ہڑتالیں اور بےمثال مظاہرے ہوئے اس میں سعودی عرب نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ ڈنمارک کے گستاخانہ عمل کی وجہ سے سعودی عرب نے عالم اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے ٢٦ جنوری کو ڈنمارک سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور سعودی عرب سے ڈنمارک کی اشیاء کے بائیکاٹ کا آغاز ہوگیا جو تمام عرب ریاستوں ‘ مصر ‘ لیبیا ‘ ایران اور دوسرے مسلمان ممالک تک پھیل گیا۔ ٤ فروری کو حکومت پاکستان نے ڈنمارک، ناروے، فرانس، جرمنی، اٹلی، سپین، سوئٹزر لینڈ، ہینگری، ہالینڈ اور جمہوریہ چیک ری پبلک کے سفیروں کو طلب کر کے گستاخانہ خاکوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ پاکستان نے خاکوں کے شائع کرنے والے ممالک سے ادویات درآمد کرنے پر پابندی لگا دی، فرانس اور ڈنمارک کی چار میڈیسن کمپنیوں کی تقریباً ایک سو گیارہ ادویات پاکستانی میڈیکل سٹورز پر فروخت کی جاتی تھیں۔ ڈاکٹرز صاحبان نے ان ادویات کے بجائے متبادل ادویات تجویز کردیں۔ شام، لبنان اور لیبیا میں ڈنمارک کے سفارت خانوں کو آگ لگا دی گئی۔ مسلم ممالک نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا۔ بس جس ملک سے جو بن پڑا اور جس دینی ‘ سیاسی اور رفاہی تنظیم سے جو ہوسکا اس نے اپنی اسلامی غیرت کا ثبوت فراہم کرکے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ جسے دیکھ کر عالم کفر کے اکثر حکمرانوں اور اخبارات کے ایڈیٹرز اور مالکان نے معذرت کی۔ ناروے کے اخبار کے ایڈیٹر انچیف ” ویجیو ان سیلبک “ نے معافی مانگی جیسے ناروے کی اسلامی کونسل نے قبول کرلیا۔ فرانس کے اخبار کے مالک نے ایڈیٹر کو نوکری سے برطرف کردیا۔ ٣١ جنوری کو ڈنمارک کے اخبار نے معافی نامہ جاری کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے معافی مانگی۔ مسائل ١۔ یہودی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے گستاخ ہیں، مسلمانوں کو ہر گستاخی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ گمراہ لوگوں کو ان کی گمراہی میں کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ گمراہ لوگوں کے دلوں کو ہدایت سے پھیر دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے نافرمانوں کی راہنمائی نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والا کافر ہے : ١۔ اے ایماندارو ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی سے بچو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والے کافر ہیں۔ (البقرۃ : ١٠٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والوں سے نمٹ لیں گے۔ (الحجر : ٩٥) ٣۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت برستی ہے۔ (الاحزاب : ٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب کا منہاج تمام دعوتوں میں ایک ہی رہا ہے۔ آدم (علیہ السلام) سے ادھر : بنی اسرائیل کا حضرت موسیٰ کو ایذا دینا ، جبکہ آپ ان کو اور اس ملت کو فرعون کے مظالم سے چھڑانے والے تھے ، آپ ان کے رسول اور قائد تھے اور معلم تھے ، ایک ایسی داستان کی طرف اشارہ ہے جو مسلسل ان کو دی جانے والی ایذا پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس قوم کو درست کرنے کے لئے جو مشقتیں اٹھائیں اور دشوار گزار مراحل سے گزرے ، وہ انتھک جدوجہد ہے۔ اور قرآن کریم نے اس کی خوب تفصیلات دی ہیں ، جن کو پڑھ کر ایک شخص تسلیم کرلیتا ہے کہ یہ ان تھک جدوجہد تھی اور آپ اولوالعزم رسولوں میں سے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو ذلت سے نجات دینے کی جدوجہد کررہے تھے اور فرعون کی گرفت اور جباری وقہاری کا مقابلہ کررہے تھے لیکن یہ لوگ اس ذات میں بھی امن وچین سے رہنا پسند نہیں کرتے تھے ، اس حالت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تنقید کرتے تھے۔ وہ اس ان تھک جدوجہد پر یہ تبصرہ کرتے تھے۔ اوذینا ........................ ماجئتنا (٧ : ٩٢١) ” ہمیں اذیت دی گئی قبل اس کے کہ آپ ہمارے پاس آئیں اور اس کے بعد بھی جب کہ آپ آگئے “۔ گویا وہ آپ کی رسالت میں اپنے لئے کوئی خیر نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ وہ اپنی اذیت کی وجہ اس رسالت کو سمجھتے تھے۔ لیکن جونہی اللہ نے فرعون کو غرق کیا اور بنی اسرائیل کو نجات دی اور یہ سب منظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ، نجات پاتے ہی انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت توحید کو ترک کرنے کا ارادہ کرلیا اور قوم فرعون کی طرح ، شرک کرنے کا ارادہ کیا۔ فاتوا .................... الھة ” پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے ” اے موسیٰ ہمارے لئے بھی کوئی ایسا معبود بنادے جیسے ان کے لئے معبود ہیں “۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کی ملاقات کے لئے پہاڑ پر گئے جہاں سے انہیں تورات کی تختیاں دی گئیں ، ان کے جاتے ہی سامری نے انہیں گمراہ کردیا۔ فاخرج .................... فنسی (٠٦ : ٨٨) ” اور ان کے لئے سامری نے ایک بچھڑے کی مورت بناکر نکال لایا جس سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی ۔ لوگ پکاراٹھے یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰ کا خدا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اسے بھول گیا “۔ پھر انہوں نے اس طعام پر اعتراضات شروع کردیئے جو انہیں صحرا میں من اور سلویٰ کی شکل میں ملتا تھا اور کہا۔ یموسیٰ.................... وبصلھا (٢ : ١٦) ” اے موسیٰ﴿﴿﴿ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ اپنے رب سے دعا کر کہ ہمارے لئے زمین کی پیداوار ساگ ، ترکاری ، گیہوں ، لہسن پیاز اور دال وغیرہ پیدا کرے “۔ اس کے بعد جب ان کو گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو وبہانہ سازی اور گستاخی کرنے لگے۔ یہ گستاخی نبی کے حق میں بھی تھی اور رب تعالیٰ کے حق میں بھی۔ کہنے لگے : اپنے رب کو پکارو کہ وہ کیسی ہو ، اس کا رنگ کیسا ہو۔ فذبحوھا .................... یفعلون (٢ : ١٧) ” پھر انہوں نے اسے ذبح کیا ورنہ وہ ایسا کرتے نہ معلوم ہوتے تھے “۔ اس کے بعد انہوں نے سبت کو بطور یومتعطیل خود مطالبہ کیا اور پھر اس کی خلاف ورزی کی۔ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہوجاﺅ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔ تو انہوں نے ذلیل و خوار ہوکر ارض مقدس میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔ قالوا یموسیٰ.................... دخلون (٥ : ٢٢) ” انہوں نے کہا اے موسیٰ وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں۔ ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے ، جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ، ہاں اگر وہ نکل گئے تو ہم داخل ہونے کے لئے تیار ہیں اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اصرار کیا تو ان کا جواب یہ تھا : قالو ................ قعدون (٥ : ٢٢) ” اے موسیٰ ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں۔ بس تم اور تمہارا رب دونوں جاﺅ اور لڑو۔ ہم یہیں بیٹھے ہیں “۔ اس کے علاوہ بار بار کی نافرمانیوں ، سوالات سے ، سرکشی اور ذاتی تہمتوں کے ذریعہ ان لوگوں نے بار بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت دی۔ جن کی تفصیلات احادیث میں آتی ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول نقل کرتا ہے جو محبت بھرے لہجے میں ان سے ایک گلہ ہے۔ یقوم لم ................ الیکم (١٦ : ٥) ” اے میری قوم کے لوگو ، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں “۔ اور ان کو اس بارے میں شک نہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن ان کی یہ بات گلہ ہے جس میں عتاب بھی ہے اور نصیحت بھی ہے۔ لیکن جب انہوں نے اصلاح و استقامت کی تمام کوششوں کو نظر انداز کردیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو مزید ٹیڑھا کردیا۔ اور ان کے یہ دل ہدایت کے لئے قابل ہی نہ رہے۔ یہ گمراہ ہوگئے اور اللہ نے بھی ان کے لئے ضلالت لکھ دی۔ واللہ ............ الفسقین (١٦ : ٥) ” اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا “۔ یوں دین پر ان کی استقامت ختم ہوگئی اور ان سے محافظین دین کا منصب چلا گیا اور وہ اسی طرح ٹیڑھی راہ اور گمراہی پر رہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا اعلان کہ ہم اللہ کے رسول ہیں پہلی آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس بات کا تذکرہ فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا۔ ” تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ کے رسول کی تعظیم اور احترام ہونا چاہئے اور ایذا دینا اس کے بالکل خلاف ہے۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو طرح طرح سے ایذادی جس کا تذکرہ سورة البقرہ میں گزر چکا ہے اور سورة ٴ احزاب کے آخری رکوع میں بھی اس کا ذکر ہے۔ ان کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کی اطاعت کرو ایذامت دو ، لیکن بات ماننے اور حق قبول کرنے کو تیار نہ ہوئے اسی کو فرمایا ﴿ فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ﴾ (پھر جب وہ حق سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو حق سے ہٹا دیا) ۔ گمراہوں کا یہی طریقہ ہے کہ وہ حق کو قبول نہیں کرتے، حق پہنچنے اور بار بار سمجھانے کے باوجود حق پر نہیں آتے جب باطل پر ہی جمے رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی اس ضد اور عناد اور مخالفت کی وجہ سے محرومیت کی مار پڑتی ہے پھر انہیں حق قبول کرنے کی توفیق نہیں ہوتی لہٰذا برابر نافرمانی کو ہی اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اور فرما نبرداری کو اختیار نہیں کرتے اور اپنے دلوں میں ہدایت کو جگہ دینے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے۔ آیت کے ختم پر فرمایا ﴿ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ٠٠٥﴾ کہ اللہ تعالیٰ ایسے نافر مانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اراء ۃ الطریق یعنی راہ حق دکھانے کے بعد انہیں قبول حق کی توفیق نہیں دی جاتی دوسرے آیت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے کہ انہوں نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ یقین جانو میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں تمہارے پاس جو پہلے سے کتاب یعنی توراۃ ہے اس کی تصدیق کرتا ہوں اور میرے بعد جس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد ہوگی ان کی آمد کی خوشخبری دیتا ہوں ان کا نام احمد ہوگا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے بہت سی باتیں کیں انہیں توحید کا سبق دیا شرعی احکام سکھائے لیکن ان میں سے چند ہی لوگوں نے بات مانی جنہیں حواری کہا جاتا ہے اکثر بنی اسرائیل ان کے دشمن ہوگئے اور ان کے قتل کے درپے ہوگئے، قتل تو نہ کرسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوپر اٹھالیا جیسا کہ سورة النساء میں رکوع نمبر ٢٢ میں بیان فرمایا ہے لیکن بعد میں بعض یہودیوں کے ورغلانے اور بہکانے سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے کا عقیدہ بنالیا جیسا کہ سورة المائدہ اور سورة توبہ میں بیان ہوچکا ہے یہ لوگ آج تک اسی عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ واذقال موسیٰ “ قصہ اول متعلقہ زجر۔ بنی اسرائیل کی کجروی مشہور ہے وہ اکثر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت اور نافرمانی کرتے۔ جب انہوں نے ان کو عمالقہ کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے نہایت ڈھٹائی اور گستاخی سے جواب دیا۔ فاذھب انت و ربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون، فلما زاغو، زاغوا یعنی انہوں نے انحراف اور کجروی پر اصرار کیا۔ ” ازاغ اللہ “ اللہ نے ان کے دلوں کو حق سے پھیر دیا۔ ای اصروا علی الزیغ والانحراف (روح ج 28 ص 85) ۔ صرفھا عن قبول الحق والمیل الی الصواب (مظہری ج 9 ص 217) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی کجروی اور ان کے عناد سے تنگ آ کر فرمایا اے میری قوم ! تم میری مخالفت اور نافرمانی کر کے مجھے ایذاء کیوں دیتے ہو۔ حالانکہ تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اور تمہاری طرف مبعوث ہوا ہوں۔ لیکن ان پر اس تقریر کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اور بدستور کجروی اور مخالفت پر مصر رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو حق سے پھیر کر ان کو ہدایت سے محروم کردیا اور ان کے دلوں پر مہر غضب ثبت کردی۔ ایسے فاسق وفاجر لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق ہی نہیں دیتا۔ یہ قصہ مسلمانوں کو تنبیہ وزجر کے طور پر سنایا گیا کہ دیکھنا تم بنی اسرائیل کا سا رویہ اختیار نہ کرنا ورنہ تمہیں بھی وہی سزا ملے گی اور اللہ تعالیٰ کے قہر وغضب کے نیچے آجاؤ گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اور وہ واقعہ قابل ذکر ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا اے برادران قوم تم مجھے کیوں ایذا دیتے اور تکلیف پہنچاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو اور تم کو معلوم ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ کافرستادہ اور تمہارے پاس اس کا بھیجا ہوا آیا ہوں پھر جب وہ اس کہنے پر بھی اپنی کج روی اور کج راہی پر جمے رہے اور کجی پر قائم ہی رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اور ٹیڑھا کردیا اور اللہ تعالیٰ ایسے نافرمانوں اور بےحکموں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ بنی اسرائیل کی ایذارسانی کے واقعات قرآن میں کئی جگہ مذکور ہوچکے ہیں بنی اسرائیل کی نافرمانی اور بدگوئی پیغمبر کا مقابلہ وغیرہ سورة بقرہ سورہو اعراف میں متعدد جگہ مذکور ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی متعدد بار فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میرے بھائی موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ان کو تو مجھ سے بھی زیادہ ان کی قوم نے ایذا دی ہے بہرحال جب ان کی قوم نے اپنی حالت کی اصلاح نہ کی اور نافرمانی ہی پر قائم رہے اور دل کی کجی کا علاج نہیں کیا، تو بالآخر مریض کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا گیا۔ جیسا کہ معمول ہے کہ دوام علی العصیان اور نافرمانی کا عادی اور خوگر ہونا اطاعت اور انا بت الی اللہ سے بندے کو دور کردیتا ہے وہی حشران کا ہوا اور ان کے دل کج اور ٹیڑھے ہوتے چلے گئے ہم تیسیر میں متعدد جگہ عرض کرچکے ہیں کہ گناہ سے گناہ بڑھتے ہیں جب گناہ کے بعد توبہ نہ ہوگی تو کسی اور گناہ میں مبتلا ہونے کا انتظار کرو عادت اللہ اسی طرح جاری ہے اور یہی بدپرہیزی اور دوا کا ترک ایک دن انسان کی روحانی موت کے کنارے پر لگا دیتا ہے اسی معمول کی طرف آخر میں اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے نافرمانوں کو جو نافرمانی کے خوگر ہوچکے ہیں ہدایت کی توفیق نہیں دیا کرتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بنی اسرائیل ہر بات میں ضد کرتے اپنے رسول سے آخر مردود ہوگئے۔ خلاصہ : یہ کہ یہی ایذارسانی کے وہ ککام تھے جو ایک دن قوم کو مغضوب اور ملعون بنانے کا سبب ہوئے اللھم انا نعوذ بک مندومن مخالفۃ رسولک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔