Surat ul Munfiqoon

Surah: 63

Verse: 2

سورة المنافقون

اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲﴾

They have taken their oaths as a cover, so they averted [people] from the way of Allah . Indeed, it was evil that they were doing.

انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پس اللہ کی راہ سے رک گئے بے شک برا ہے وہ کام جو یہ کر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ... They have made their oaths a screen. Thus they hinder (others) from the path of Allah. meaning, the hypocrites shield themselves from Muslims when they falsely and sinfully swear to be what they are not in reality. Some Muslims were deceived because they did not know their falsehood, and thus, thought that they were Muslims. Some Muslims believed what hypocrites say and even imitated them in their outward behavior. However, inwardly, hypocrites seek the destruction of Islam and its people, and this is why trusting them might bring great harm to many people. This is why Allah said next, ... فَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّهُمْ سَاء مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ Thus they hinder (others) from the path of Allah. Verily, evil is what they used to do. Allah said, ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ امَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لاَ يَفْقَهُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی وہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمہاری طرح مسلمان ہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں انہوں نے اپنی اس قسم کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ اس کے ذریعے سے وہ تم سے بچے رہتے ہیں اور کافروں کی طرح یہ تمہاری تلواروں کی زد میں نہیں آتے۔ 2۔ 2 دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے شک و شبہات پیدا کرکے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] یعنی قسموں سے وہ کام لیتے ہیں وہ جو ڈھال سے لیا جاتا ہے۔ وہ قسموں کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنے ایمان کا یقین دلا کر اپنا جان و مال محفوظ کرلیتے تھے۔ نیز جب ان کی کوئی ناشائستہ حرکت یا سازش پکڑی جاتی ہے۔ تو جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ کیونکہ اسلام کا قانون یہ ہے کہ وہ صرف ظاہری افعال پر ہی گرفت کرتا ہے۔ [٣] صَدَّ کا لفظ لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے خود تو ان منافقوں کا اسلام سے رکنا واضح ہے جو لوگ اسلام لانا چاہیں ان کے دلوں میں کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرکے ان کے اسلام لانے میں سدّراہ بن جاتے ہیں اور وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب یہ پہلے سے اسلام میں داخل ہونے والے لوگ بھی مطمئن نہیں تو ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً ۔۔۔۔۔: اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ مجادلہ کی آیت (١٦) کی تفسیر۔” سبیل اللہ “ سے مراد اسلام بھی ہے اور جہاد بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِتَّخَذُوْٓا اَيْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّہُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ٢ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ يَمِينُ ) قسم) في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة/ 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ. الیمین بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔ جُنَّةً والمِجَنُّ والمِجَنَّة : الترس الذي يجنّ صاحبه . قال عزّ وجل : اتَّخَذُوا أَيْمانَهُمْ جُنَّةً [ المجادلة/ 16] ، وفي الحدیث :«الصّوم جنّة» ۔ المجن والمجنۃ ڈھال ۔ کیونکہ اس سے انسان اپنے آپ کو بچاتا اور چھپاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اتَّخَذُوا أَيْمانَهُمْ جُنَّةً [ المجادلة/ 16] انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے ۔ اور حدیث میں ہے :۔ الصوم جنۃ کہ روزہ ڈھال ہے صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ان لوگوں نے اپنی قسموں کو اپنی حفاظت کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے کہ خفیہ طور پر لوگوں کو دین الہی اور اطاعت خداوندی سے روکتے ہیں ان کا یہ روکنا اور ان کا مکرو خیانت یہ برے کام ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ { اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } ” انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور یہ اللہ کے راستے سے رُک گئے ہیں۔ “ جہاد و قتال سے بچنے کے لیے یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر جھوٹے بہانے بناتے تھے کہ اللہ کی قسم میری بیوی سخت بیمار ہے ‘ گھر میں کوئی دوسرا اس کی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب نوبت قسموں تک پہنچ گئی تو گویا مرض دوسری سٹیج میں داخل ہوگیا۔ { اِنَّہُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ } ” بہت ہی برا کام ہے جو یہ لوگ کرر ہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 That is, they use the oaths that they swear to convince others of their Islam and faith as a shield to save themselves from the wrath of the Muslims so that they do not treat them as they treat their open enemies. These oaths may imply the oaths which they usually swear to convince others of their faith as well as those which they swore when they were caught committing some hypocritical act, and also those oaths which 'Abdullah bin Ubayy had sworn to contradict the report given by Hadrat Zaid bin Arqam. Besides these, there is another probability that Allah might have regarded this statement of theirs as an oath: "We bear witness that you are Allah's Messenger." This last probability has given rise to a dispute among the jurists, namely: If a person states something with the words: "I bear witness," will it be regarded as an oath or not? Imam Abu Hanifah and his companions (except Imam Zufar) , Imam Sufyan Thauri and Imam Auza'i regard it as an oath (Yamin in the Shari'ah terminology) . Imam Zufar says that it is not an oath. Two sayings from Imam Malik have been reported in this connection: first„ that it is an oath absolutely, and second, that if while saying: "I bear witness," his intention was to say: y God, I bear witness," or "I bear witness before God," it would he a statement on oath, otherwise not. Imam Shafe'i says: 'Even if the person says the words: "I bear witness before God." it would not be a statement made on oath, unless he uttered these words with the intention of swearing an oath," (AI-Jassas_, Ahkam al-Qur an; Ibn al'.Arabi. Ahkam al-Qur an) . 3 The verb sadd in Arabic is transitive as well as intransitive. Therefore, saddu 'an sabil-Allah means; "They turn away from the Way of Allah," as well as: 'they turn others away from the Way of AIIah." According to the first meaning the verse would 'mean: "By means of these oaths they first plant themselves firmly among the Muslims and then invent ways to escape fulfilling demands of the faith and to avoid obedience to AIlah and His Messenger. " According to the second meaning it would mean: "They use their false oaths as a cover for committing evil deeds. Posing as Muslims they weaken the Muslim community from within: find out the secrets of the Muslims and convey these to their enemies, create doubts about Islam among the non-Muslims and use such devices for inspiring the simple Muslims with evil suggestions which a hypocrite in the guise of a Muslim only could do, for an open enemy of Islam cannot use them.

سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :2 یعنی اپنے مسلمان اور مومن ہونے کا یقین دلانے کے لیے جو قَسمیں وہ کھاتے ہیں ، ان سے وہ ڈھال کا کام لیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے غصے سے بچے رہیں اور ان کے ساتھ مسلمان وہ برتاؤ نہ کر سکیں جو کھُلے کھُلے دشمنوں سے کیا جاتا ہے ۔ ان قَسموں سے مراد وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو وہ بالعموم اپنے ایمان کا یقین دلانے کے لیے کھایا کرتے تھے ، اور وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو اپنی کسی منافقانہ حرکت کے پکڑے جانے پر وہ کھاتے تھے تاکہ مسلمانوں کو یہ یقین دلائیں کہ وہ حرکت انہوں نے منافقت کی بنا پر نہیں کی تھی ، اور وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو عبداللہ بن ابی نے حضرت زید بن اَرقم کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانے کے لیے کھائی تھیں ۔ ان سب احتمالات کے ساتھ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو قَسم قرار دیا ہو کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ اس آخری احتمال کی بنا پر فقہاء کے درمیان یہ بحث پیدا ہوئی ہے کہ کوئی شخص میں شہادت دیتا ہوں کے الفاظ کہہ کر کوئی بات بیان کرے تو آیا اسے قَسم یا حلف ( Oath ) قرار دیا جائے گا یا نہیں ۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ( امام زُفَر کے سوا ) اور امام سفیان ثوری اور امام اَوزاعی اسے حلف ( شرعی اصطلاح میں یمین ) قرار دیتے ہیں ۔ امام زفر کہتے ہیں کہ یہ حلف نہیں ہے ۔ امام مالک سے دو قول مروی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ مطلقاً حلف ہے ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر اس نے شہادت دیتا ہوں کے الفاظ کہتے وقت نیت یہ کی ہو کہ خدا کی قَسم میں شہادت دیتا ہوں ، یا خدا کو گواہ کر کے میں شہادت دیتا ہوں تو اس صورت میں یہ حلفیہ بیان ہو گا ورنہ نہیں ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر کہنے والا یہ الفاظ بھی کہے کہ میں خدا کو گواہ کر کے شہادت دیتا ہوں تب بھی اس کا یہ بیان حلفیہ بیان نہ ہو گا ، الا یہ الفاظ اس نے حلف اٹھانے کی نیت سے کہے ہوں ( احکام القرآن للجصاص ۔ احکام القرآن لابن العربی ) ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :3 صد کا لفظ عربی زبان میں لازم بھی ہے اور متعدی بھی ۔ اس لیے صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللہِ کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اللہ کے راستے سے خود رکتے ہیں ، اور یہ بھی کہ وہ اس راستے سے دوسروں کو روکتے ہیں ۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں دونوں معنی درج کر دیے ہیں ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ اپنی ان قَسموں کے ذریعہ سے مسلمانوں کے اندر اپنی جگہ محفوظ کر لینے کے بعد وہ اپنے لیے ایمان کے تقاضے پورے نہ کرنے اور خدا و رسول کی اطاعت سے پہلو تہی کرنے کی آسانیاں پیدا کر لیتے ہیں ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ اپنی ان جھوٹی قَسموں کی آڑ میں وہ شکار کھیلتے ہیں ، مسلمان بن کر مسلمانوں کی جماعت میں اندر سے رخنے ڈالتے ہیں ، مسلمانوں کے اسرار سے واقف ہو کر دشمنوں کو ان کی خبریں پہنچاتے ہیں ، اسلام سے غیر مسلموں کو بد گمان کرنے اور سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں شبہات اور وسوسے ڈالنے کے لیے وہ وہ حربے استعمال کرتے ہیں جو صرف ایک مسلمان بنا ہوا منافق ہی استعمال کر سکتا ہے ، کھلا کھلا دشمن اسلام ان سے کام نہیں لے سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: جس طرح ڈھال سے تلوار سے بچاو کیا جاتا ہے، اسی طرح ان لوگوں نے اپنے بچاو کے لئے یہ قسمیں کھالی ہیں کہ وہ مومن ہیں، تاکہ دُنیا میں کافروں کا جو برا انجام ہونے والا ہے، یہ اس سے بچ جائیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(63:2) اتخذوا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب اتخاذ (افتعال) مصدر سے انہوں نے اختیار کیا۔ انہوں نے اختیار کرلیا۔ انہوں نے ٹھہرا لیا۔ انہوں نے بنا لیا۔ ایمانہم : مضاف مضاف الیہ ان کی قسمیں (جو وہ اپنے جھوٹ کی تائید میں کھاتے ہیں) جنۃ۔ ڈھال۔ آڑ۔ پردہ۔ جنن جمع۔ جن (باب نصر) مصدر۔ بمعنی کسی چیز کا حواس سے چھپ جانا۔ چونکہ ڈھال سے بدن کو چھپایا جاتا ہے اس لئے اس کو جنۃ کہتے ہیں۔ اسی مصدر سے جنۃ بمعنی جنت۔ باغ۔ بہشت ہے ۔ کیونکہ باغات کے درخت زمین کو چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور اسی مصدر سے جنۃ بمعنی جنون دیوانگی ہے کہ عقل کو چھپا دیتی ہے اور اسی سے جن بمعنی جن ہے کہ عام مخلوق سے پوشیدہ اور غائب رہتے ہیں۔ یہاں جنۃ اتخذوا کا مفعول ثانی ہے یہ جملہ مستانفہ ہے اور منافقین کی دروغ گوئی اور اس پر چھوٹی قسمیں کھانے کے بیان میں آیا ہے۔ فصدوا عن سبیل اللہ : ف ترتیب کا ہے۔ صدوا ماضی جمع مذکر غائب صدود (باب ضرب و نصر) رکنا۔ اعراض کرنا۔ عن حرف جار سبیل اللہ مضاف مضاف الیہ مل کر جرور۔ پس وہ اللہ کی راہ سے اعراض کرتے رہتے ہیں۔ صدود مصدر لازم ہے بمعنی رکنا۔ اعراض کرنا۔ اس صورت میں ترجمہ وہی ہوگا جو اوپر تحریر ہے۔ لیکن اگر فعل صدوا مصدر صد (باب نصر) سے ہو تو یہ فعل متعدی ہوگا ۔ کیونکہ صد بمعنی روکنا اور باز رکھنا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ وہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے اور باز رکھتے ہیں۔ سائ۔ ماضی واحد مذکر غائب سوء (باب نصر) مصدر۔ یہ فعل ذم ہے۔ برا ہے بمعنی بئس آیا ہے۔ ما کانوا یعملون : ما موصولہ اس سے اگلا جملہ اس کا صلہ۔ برا ہے (ان کا یہ فعل) جو وہ کرتے تھے، یا کیا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

“2 اس معنی میں کہ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنی جانوں اور مالوں کو مسلمانوں سے بچانا چاہتے ہیں۔3 یعنی لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں اور اسی طرح انہیں مسلمان ہونے نہیں دیتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق صرف جھوٹ نہیں بولتا بلکہ جھوٹی قسمیں بھی اٹھاتا ہے۔ منافق دنیا کے فائدے کی خاطر منافقت اختیار کرتا ہے۔ جب اسے کسی نقصان یا اپنی بےعزتی کا خطرہ محسوس ہو تو اس سے بچنے کے لیے جھوٹی قسم اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اس طرح وہ اللہ کے نام کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ منافق نہ صرف خود صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سیدھے راستے سے روکتا ہے۔ منافق کا جھوٹی قسمیں کھانا اور لوگوں کو ” اللہ “ کی راہ سے روکنا بدترین عمل ہے کیونکہ منافق دنیا کے فائدے کی خاطر ایسا کرتا ہے اس لیے اسے فائدہ نظر آئے تو وہ اپنے ایمان کا اظہار کرتا اور بظاہر مسلمانوں جیسا کردار اختیار کرتا ہے، جب اسے اللہ کی راہ میں نقصان اٹھانا پڑے تو کفار جیسا کردار پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے برے کردار کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہریں ثبت کردی ہیں جس وجہ سے وہ حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے۔ (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ ) (البقرۃ : ١٨) ” بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہیں پلٹتے۔ “ مسائل ١۔ منافق اپنی قسموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ٢۔ منافق خود اللہ کے راستے سے ہٹے ہوتے ہیں ا ورلوگوں کو بھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ ٣۔ منافق کے برے کردار اور اخلاق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ ٤۔ منافق دنیا کے فائدے کی خاطر ایمان اور اسلام کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اتخذو ................ جنة (٣٦ : ٢) ” انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایمان کے بارے میں جب ذرا بھی شبہ پیدا ہوتا تو وہ قسمیں اٹھانا شروع کردیتے۔ یہ اس وقت ہوتا جب معلوم ہوتا کہ انہوں نے فلاں فلاں سازش میں حصہ لیا۔ یا جب ان کی کوئی تنقید مسلمانوں تک پہنچ جاتی۔ جب بھی ان کی کوئی ایسی بات کھلتی وہ قسمیں شروع کردیتے۔ یوں وہ اپنی صفائی بیان کردیتے۔ اور اس ڈھال کے پیچھے اپنے آپ کو بچا لیتے ، تاکہ آئندہ وہ اپنی سازشیں اور خفیہ تدابیر جاری رکھ سکیں اور ان میں جو بیوقوف تھے ان کو مزید دھوکہ دے سکیں۔ فصدوا ................ اللہ (٣٦ : ٢) ” اس طرح وہ اللہ کے راستے سے رکتے اور روکتے ہیں “۔ یعنی خود اپنے نفوس کو بھی روکتے ہیں اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں۔ اور سچائی کے ساتھ یقین نہیں کرتے۔ اور اس سلسلے میں جھوٹی قسموں کا سہارا لیتے ہیں۔ انھم .................... یعملون (٣٦ : ٢) ” یعنی بری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں “۔ آخر جھوٹ ، فریب اور گمراہ کرنے سے بڑھ کر اور کیا برائی ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِتَّخَذُوْۤا اَيْمَانَهُمْ جُنَّةً ﴾ (انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنالیا ہے) اپنے جھوٹے دعوائے ایمان کو ثابت کرنے کے لئے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ مسلمان سمجھے جائیں اور مسلمانوں کے ماحول میں ان کی جانیں اور اموال اور اولاد محفوظ رہ سکیں اگر کھل کر کفر کا اقرار کرلیں تو اندیشہ ہے کہ دوسرے کافروں کے ساتھ جو معاملہ ہے وہ ہی ان کے ساتھ کیا جائے اور ان کے ساتھ جو امن وامان کا برتاؤ ہوتا ہے وہ ختم کردیا جائے۔ ﴿فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ﴾ (سو انہوں نے روک دیا اللہ کی راہ سے) اپنی جانوں کو بھی اللہ کی راہ سے دور رکھا اور اپنی اولاد کو بھی اور دوسرے ملنے جلنے والوں کو بھی ﴿ اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ٠٠٢ ﴾ (بیشک یہ لوگ جو عمل کرتے ہیں یہ برے عمل ہیں) گویہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے لئے اچھا طریقہ اختیار کیا کہ مسلمانوں سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور غیر مسلموں سے بھی) یہ لوگ اپنی بدعملی کی سزا پالیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” اتخذوا ایمانہم “ یہ منافقین پر زجر ہے۔ یہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے حضرت زید بن ارقم (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ مریسیع میں منافقین نے بھی شرکت کی۔ میں نے عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کو اپنے ساتھیوں سے یہ کہتے سنا کہ پیغمبر (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی مالی امداد کرنا بند کردو تو وہ بھوکوں مرتے خود بخود اسے چھوڑ کر اس سے الگ ہوجائیں گے اور جب ہم مدینہ میں واپس جائیں گے (عیاذا باللہ) ان ذلیلوں کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ میں چونکہ چھوٹا تھا اس لیے براہ راستحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حقیقت حال واضح کرنے کے بجائے اپنے چچا کو صورت حال سے آگاہ کردیا جنہوں نے سارا ماجر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کردیا۔ آپ نے مجھے طلب فرمایا اور عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ منافقین صاف مکر گئے اور قسمیں کھا کھا کرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی سچائی کا یقین دلایا۔ چناچہ آپ نے مجھے جھٹلا دیا اور ان کو سچا سمجھ لیا۔ اس سے مجھے شدید صدمہ ہوا۔ آخر اللہ نے اس سورت کی ابتدائی آیتیں نازل فرما کر منافقین کی خباثت اور کذب بیانی ظاہر فرما دی۔ یہ بھی دلیل ہے کہ ” لکذبون “ کا دوسرا مفہوم راجح اور اصح ہے۔ ” جنۃ “ ڈھال، انہوں نے جھوٹی قسموں کو دنیوی سزا سے بچنے کے لیے ڈھال بنا رکاھ ہے اور لوگوں کو دین اسلام اور توحید سے روکتے ہیں۔ ان کا یہ کردار نہایت برا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) ان اہل نفاق نے اپنی قسموں کو ڈھال اور سپر بنارکھا ہے سو یہ منافق لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں بلاشبہ وہ کام بہت برے ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک اسلام کا نام لیتے اور ایمان کا اظہار کرتے ہیں ان پر جہاد نہیں کیا جاسکتا اور ان کی جان اور اموال محفوظ ہیں تو گویا انہوں نے اپنی قسموں کو اپنے اموال اور اپنی جان کے بچائو کے لئے ڈھال بنارکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اپنی مجلس میں منافق طعن اور عیب مسلمانوں کا بکتے جب ان پر پکڑ ہوتی منکر ہوکر قسم کھاجاتے کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی۔ خلاصہ : یہ کہ اس سے زیادہ برے کام ان کے اور کیا ہوں گے کہ کہیں اور قسم کی آڑ لے کر مکر جائیں۔