Surat ul Munfiqoon

Surah: 63

Verse: 3

سورة المنافقون

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۳﴾

That is because they believed, and then they disbelieved; so their hearts were sealed over, and they do not understand.

یہ اس سبب سے ہے کہ یہ ایمان لا کر پھر کافر ہوگئے پس ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی ۔ اب یہ نہیں سمجھتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

That is because they believed, and then disbelieved; therefore their hearts are sealed, so they understand not. meaning, He has decreed them to be hypocrites because they reverted from faith to disbelief and exchanged guidance for misguidance. Therefore, Allah stamped and sealed their hearts and because of it, they cannot comprehend the guidance, nor any goodness can reach their hearts. Truly, their hearts neither understand, nor attain guidance. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ منافقین بھی صریح کافر ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] یعنی اسلام تو لے آئے اور ایمان کا دعویٰ بھی کیا۔ مگر دل سے یہ کافر کے کافر ہی رہے۔ ان کی ہمدردیاں اور سرگوشیاں اور رازداریاں سب کافروں سے ہی وابستہ رہیں اور یہ عادت ان میں اس قدر پختہ ہوگئی کہ اب مسلمانوں کی کوئی بھلائی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ لہذا اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی کیونکہ اللہ کسی کو جبراً اور کان پکڑ کر راہ ہدایت کی طرف نہیں لایا کرتا۔ اور وہ بیوقوف ایسے ہیں کہ انہیں یہ سمجھ بھی نہیں آرہی کہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہ ان کے لیے مفید رہیں گے یا الٹا انہیں پکڑوا دیں گے اور ان کی ذلت و رسوائی کا باعث بن جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا :” ذلک “ کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا مومن ہونے کی جھوٹی قسمیں کھانا اور اللہ کی راہ سے روکنا وغیرہ اس لیے ہے کہ وہ ایمان لائے ، پھر انہوں نے کفر کیا ۔ ایمان لا کر کفر تین طرح سے ہے ، ایک یہ کہ وہ ظاہر میں ایمان لائے اور مسلمان ہوگئے مگر دل میں کافر ہی رہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے پاس آئے تو ایمان کی شہادت دی ، پھر کفار کے پاس گئے تو انہیں اپنے کفر کا یقین دلایا ، جیسا کہ فرمایا :(وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَّاج وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰـطِیْنِہِمْلا قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ ) ( البقرۃ : ١٤)” اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کی طرف اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بیشک ہم تمہارے ساتھ ہیں “۔ منافقین کی اکثریت ہی تھی اور ایک یہ کہ ان میں سے بعض شروع میں تو صحیح ایمان لائے ، پھر دنیوی اغراض کی وجہ سے کافر ہوگئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ منافقین میں سے جو لوگ تائب ہوئے اور ان کا اسلام خالص ہوا وہ اس گروہ سے تھے۔ ٢۔ فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ : یعنی ان کے ایمان لانے کے بعد کفر کرنے کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کردی گئی تو وہ نہ دنیا اور آخرت میں نفاق کے نقصان کو سمجھتے ہیں نہ انہیں اس پر کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی توبہ کی توفیق ملتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا يَفْقَہُوْنَ۝ ٣ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ طبع الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو : سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون/ 3] ، ( ط ب ع ) الطبع ( ف ) کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون/ 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ منافقین کے کام اس وجہ سے ہیں کہ پہلے تو یہ ظاہر میں ایمان لے آئے، پھر خفیہ طور پر کفر پر قائم رہے نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے کفر و نفاق کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کردی گئی یہ حق و ہدایت کو نہیں سمجھتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا } ” یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے “ یعنی ان کی منافقت شعوری نہیں ہے کہ وہ بدنیتی سے دھوکہ دینے کے لیے ایمان لائے ہوں۔ دین اسلام کی دعوت جب ان لوگوں تک پہنچی تھی تو ان کی فطرت نے گواہی دی تھی کہ یہ سچ اور حق کی دعوت ہے اور اس وقت وہ نیک نیتی سے ایمان لائے تھے۔ کچھ دیر کے لیے انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی تھی ‘ لیکن ایمان لاتے وقت انہیں معلوم نہیں تھا کہ ع ” یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے “۔ اہل ِایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے : { وَلَـنَـبْلُوَنَّــکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط } ( البقرۃ : ١٥٥) کہ ہم تمہیں کسی قدر خوف ‘ بھوک اور مال و جان کے نقصانات جیسی سخت آزمائشوں سے ضرور آزمائیں گے۔ لیکن منافقین کو اس صورت حال کا اندازہ نہیں تھا۔ منافقین ِمدینہ میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے قبیلے کے سردار کے پیچھے ایمان لے آئے تھے۔ جیسے اوس اور خزرج کے قائدین ایمان لے آئے تو پورا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ انہیں کیا پتا تھا کہ عملی طور پر ایمان کے تقاضے کیا ہیں۔ وہ تو برف کے تودے کی اوپری سطح (tip of the iceberg) ہی کو دیکھ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اس تودے کے نیچے کیا ہے۔ بہرحال ایسے لوگ ایمان تو سچے دل سے لائے تھے ‘ لیکن ان کا ایمان تھا کمزور۔ اسی لیے تکلیفیں اور آزمائشیں دیکھ کر ان کے پائوں لڑکھڑاگئے۔ البتہ ضعیف الایمان مسلمانوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنی تمامتر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود ایمان کے دامن سے وابستہ رہے۔ ان سے جب کوئی کوتاہی ہوئی تو انہوں نے اس کا اقرار بھی کیا اور اس کے لیے وہ معافی کے طلب گار بھی ہوئے۔ سورة التوبہ میں ان لوگوں کا ذکر گزر چکا ہے اور وہاں ان کے ضعف ِایمان کا علاج بھی تجویز کردیا گیا : { خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْط } (التوبۃ : ١٠٣) ” ان کے اموال میں سے صدقات قبول فرما لیجیے ‘ اس (صدقے) کے ذریعے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں پاک کریں گے اور ان کا تزکیہ کریں گے ‘ اور ان کے لیے دعا کیجیے “۔ یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے ان کے ایمان کی کمزوری دور ہوجائے گی۔ بہرحال جو لوگ ایک دفعہ ایمان لانے کے بعد مشکلات سے گھبرا کر ایمان کے عملی تقاضوں سے جی چرانے لگے اور اپنی اس خیانت کو جھوٹے بہانوں سے چھپانے لگے وہ منافقت کی راہ پر چل نکلے۔ { فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ ۔ } ” تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ‘ پس یہ سمجھنے سے عاری ہوگئے۔ “ ان کی منافقانہ روش کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ چناچہ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہوچکی ہے اور یہ حقیقی تفقہ سے عاری ہوچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 In this verse "believing" means professing the faith in order to be counted among Muslims, and 'disbelieving" means not to believe sincerely and to persist in disbelief as usual. The verse means to say that when they, after due thought, decided to adopt this hypocritical attitude instead of adopting either belief or disbelief plainly, Allah caused a seal to be set on their hearts and deprived them of the grace to adopt the attitude and conduct of a true, sincere and noble person. Now, their power of understanding has been lost, their moral sense has become dead, and while following this way they never even feel that their habit of always telling lies, their deceitful behaviour and the ever present contradictions between their word and deed is a wretched state in which they have involved themselves. This is one of those verses in which the meaning of ';causing a seal to be set on the heart of somebody by Allah" has been made clear. These people did not become hypocrites because Allah .had set a seal on their hearts; so faith did not enter them, and they became hypocrites under compulsion. But, in fact, Allah set a seal on their hearts only when they decided to persist in disbelief in spite of professing the faith outwardly. Then, they were deprived of the capacity to believe sincerely and of the grace of the moral attitude resulting from it. and were helped to persist in the hypocrisy and hypocritical morals, which they had chosen to adopt for themselves.

سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :4 اس آیت میں ایمان لانے سے مراد ایمان کا اقرار کر کے مسلمانوں میں شامل ہونا ہے ۔ اور کفر کر نے سے مراد دل سے ایمان نہ لانا اور اسی کفر پر قائم رہنا ہے جس پر وہ اپنے ظاہری اقرار ایمان سے پہلے قائم تھے ۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ جب انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر سیدھے سیدھے ایمان یا صاف صاف کفر کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے یہ منافقانہ روش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ان سے یہ توفیق سلب کر لی گئی کہ وہ ایک سچے اور بے لاگ اور شریف انسان کا سا رویہ اختیار کریں ۔ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے ۔ ان کی اخلاقی حس مر چکی ہے ۔ انہیں اس راہ پر چلتے ہوئے کبھی یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ شب و روز کا جھوٹ اور یہ ہر وقت کا مکر و فریب اور یہ قول و فعل کا دائمی تضاد ، کیسی ذلیل حالت ہے جس میں انہوں نے اپنے آپ کو مبتلا کر لیا ہے ۔ یہ آیت من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اللہ کی طرف سے کسی کے دل پر مہر لگانے کا مطلب بالکل واضح طریقہ سے بیان کر دیا گیا ہے ۔ ان منافقین کی یہ حالت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی اس لیے ایمان ان کے اندر اتر ہی نہ سکا اور وہ مجبوراً منافق بن کر رہ گئے ۔ بلکہ اس نے ان کے دلوں پر یہ مہر اس وقت لگائی جب انہوں نے اظہار ایمان کرنے کے باوجود کفر پر قائم رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔ تب ان سے مخلصانہ ایمان اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاقی رویہ کی توفیق سلب کر لی گئی اور اس منافقت اور منافقانہ اخلاق ہی کی توفیق انہیں دے دی گئی جسے انہوں نے خود اپنے لیے پسند کیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(63:3) ذلک : یعنی نفاق اور اسلام سے روگردانی، جھوٹی قسموں کو بچاؤ کا ذریعہ بنا لینا۔ اشارۃ الی ما ذکر من حالہم فی النفاق والکذب والاستخبان بالایمان الفاجرۃ (روح المعانی) ۔ یہ اشارہ ہے ان کے نفاق اور تکذیب کی طرف اور جھوٹی قسموں کو بچاؤ کا ذریعہ بنانے کی طرف۔ بانھم ب سببیہ ہے ان حرف مشبہ بالفعل۔ ہم ضمیر جمع مذکر گا ئب۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ سب لوگ۔ امنوا۔ وہ ایمان لائے ۔ وہ ایمان دار ہوگئے (بظاہر مؤمنون کے سامنے ایمان کا اقرار کرنے پر) ۔ ثم کفروا۔ پھر وہ کافر ہوگئے (کلمات کفریہ کہہ کر یا اپنے ساتھیوں کے پاس تخلیہ میں پہنچ کر جہاں وہ اپنے اصل اعتقاد کا بر ملا اظہار کیا کرتے تھے) ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ واذا خلوا الی شیطینھم قالوا انا معکم انما نحن مستھزء ون (2:14) اور جب اپنے شیاطینوں میں جاتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ (پیروان محمد سے تو) ہم محض ہنسی مخول کیا کرتے ہیں۔ فطبع علی قلوبھم : ف سببیہ۔ ای بسبب نفاقھم ھذا (ان کے اس نفاق کی وجہ سے) ان کے دلوں پر مۃ ر لگا دی گئی۔ حتی یموتوا علی الکفر یہاں تک کہ وہ کفر کی حالت میں مرجائیں۔ طبع ماضی مجہول واحد مذکر غائب طبع (باب فتح) مصدر۔ مہر کردی گئی۔ بندش کردی گئی۔ فھم لا یفقھون : ف ترتیب کے لئے۔ یعنی اس مہر لگانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اب کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ لایفتھون مضارع منفی جمع مذکر غائب فقہ مصدر۔ باب سمع بمعنی سمجھنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی صرف ظاہر میں ایمان لائے حقیقت میں کافی ہی رہے یا مسلمانوں کے سامنے ایمان کا اظہار کیا اور کافروں کے سامنے کفر کا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سوال یہ ہے کہ یہ لوگ یہ کام کرتے ہیں ؟ جھوٹی شہادت ، جھوٹی قسمیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کا عمل نامشکور کیوں کرتے ہیں ؟ یہ اس لئے کہ انہوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیا ہے۔ یعنی اسلام کو اچھی طرح جاننے اور دیکھنے کے بعد انہوں نے کفر پر چلنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ ذلک بانھم ................ یفقھون (٣٦ : ٣) ” یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لاکر پھر کفر کیا ، اس لئے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے “۔ انہوں نے اسلام کو اچھی طرح پہچان لیا ہے۔ لیکن اعلان کرنے کے بعد انہوں نے دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کوئی سمجھ دار ، باذوق اور زندہ دل انسان یہ نہیں کرسکتا ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفر کی طرف لوٹ جائے۔ کون ایسا ہوسکتا ہے جو ذوق رکھتا ہو ، معرفت رکھتا ہو۔ جو اس کائنات کے ایمانی تصور سے واقف ہو ، جس نے ایمانی زندگی کا مزہ چکھا ہو ، اور ایمان کی پاکیزہ فضا میں زندگی بسر کی ہو ، ایمان کی روشنی میں سیدھی راہ چلاہو ، جو ایمان کے سایوں میں رہاہو ، اور پھر وہ کفر کی سیاہ رات اور کفر کی گرم اور جھلسادینے والی فضاﺅں میں جانا پسند کرے۔ یہ حرکت وہی شخص کرسکتا ہے جس کا ذوق نہ ہو ، جس کا دل حسد سے بھرا ہوا ہو۔ جس کے اندر کوئی احساس و شعور نہ ہو اور جو سیاہ سفید میں تمیز نہ کرسکتا ہو۔ فطبع ................ یفقھون (٣٦ : ٣) ” اس لئے ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے ، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے “۔ اس کے بعد ان کی ایک نہایت منفرد تصویر پیش کی جاتی ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر حقارت ، نفرت پر بےاختیار ہنسی آتی ہے کہ یہ عجیب کندہ ناتراش ہیں۔ اندھے اور بہرے ہیں۔ بےعقل ، خالی الدماغ ، اندھے ، بزدل ، سخت بخیل اور حاسد بلکہ وہ کندہ ناتراش کی طرح ایک دیوار کے ساتھ چنے ہوئے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ﴾ (الآیۃ) ان کی یہ بدعملی اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ پہلے ایمان لائے یعنی ظاہری طور پر اپنے کو مومن بتایا، ان لوگوں کے لئے خیر اسی میں تھی کہ ظاہر و باطن سے مومن ہوتے اور اپنے باطن کو بھی ظاہر کے مطابق کرلیتے یعنی سچے دل سے مومن ہوجاتے لیکن انہوں نے یہ حرکت کی کہ ظاہر میں بھی کافر ہوگئے یعنی ان سے ایسی باتیں ظاہر ہوگئیں جن سے یہ معلوم ہوگیا کہ یہ لوگ مومن نہیں جو ظاہری ایمان تھا اس کو بھی باقی نہ رکھ سکے۔ ﴿ فَطُبِعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ﴾ (جب یہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر مار دی گئی) ﴿ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ ٠٠٣﴾ (اب یہ حق کو نہ سمجھیں گے) اور حقیقی بات کو نہ جانیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” ذلک بانہم “ یہ اس لیے کہ زبان سے تو انہوں نے ایمان کا اقرار کیا، لیکن دل میں کفر رکھا جو آخر ان کے کردار و گفتار سے ظاہر ہو کر رہا۔ تو اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور ان کو ایمان خالص کی توفیق اور حقیقت ایمان کے فہم سے محروم کردیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) یہ بسبب اس کے ہے کہ یہ لوگ اول ظاہر میں ایمان لائے پھر منکر ہوگئے سو ان کے دلوں پر مہر کردی گئی اب یہ لوگ حق بات کو سمجھتے ہی نہیں۔ یعنی یہ اس سبب سے ہوا کہ یہ لوگ پہلے ایمان کے مدعی بنے امنا کہتے پھرے ظاہر میں سب کو ایمان کا یقین دلاتے رہے پھر کافروں سے کہا، انامعکم کافروں کی طرح اسلام کو نقصان پہنچاتے رہے لہٰذا ان کے قلوب پر مہر کردی گئی اور استمرار علی الکفر کی وجہ سے دل مسخ ہوگئے اب ان کی سمجھ میں کوئی حق بات آتی ہی نہیں یہی ان کے وہ برے کام ہیں جن کو اوپر فرمایا تھا انھم ساء ماکانوا یعلون کو خود تو منافق ہیں دوسروں کو بھی مسلمان ہونے سے روکتے ہیں۔