Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 11

سورة التغابن

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱﴾

No disaster strikes except by permission of Allah . And whoever believes in Allah - He will guide his heart. And Allah is Knowing of all things.

کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

All that occurs to Mankind is by Allah's Permission Allah informs us as He did in Surah Al-Hadid, مَأ أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِى الاٌّرْضِ وَلاَ فِى أَنفُسِكُمْ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَأ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ No calamity occurs on the earth or in yourselves but it is inscribed in a record before We bring it into existence. Verily, that is easy for Allah. (57:22) Allah said here, مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ ... No calamity occurs, but by the permission of Allah, Ibn Abbas said; "By the command of Allah," meaning from His decree and will. ... وَمَن يُوْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ and whosoever believes in Allah, He guides his heart. And Allah is the All-Knower of everything. meaning, whoever suffered an affliction and he knew that it occurred by Allah's judgement and decree, and he patiently abides, awaiting Allah's reward, then Allah guides his heart, and will compensate him for his loss in this life by granting guidance to his heart and certainty in faith. Allah will replace whatever he lost for Him with the same or what is better. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn `Abbas, وَمَن يُوْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ (and whosoever believes in Allah, He guides his heart). "Allah will guide his heart to certainty. Therefore, he will know that what reached him would not have missed him and what has missed him would not have reached him." There is an agreed upon Hadith that Al-Bukhari and Muslim collected and which states, عَجَبًا لِلْمُوْمِنِ لاَ يَقْضِي اللهُ لَهُ قَضَاءً إِلاَّ كَانَ خَيْرًا لَهُ إِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَلَيْسَ ذَلِكَ لاَِحَدٍ إِلاَّ لِلْمُوْمِن Amazing is the believer: There is no decree that Allah writes for him, but is better for him. - If an affliction strikes him, he is patient and this is better for him. - If a bounty is granted to him, he is thankful and this is better for him. This trait is only for the faithful believer. The Order to obey Allah and His Messenger Allah said,

وہی مختار مطلق ہے ناقابل تردید سچائی سورہ حدید میں بھی یہ مضمون گذر چکا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے اس کی قدر و مشیت کے بغیر نہیں ہو سکتا ، اب جس شخص کو کوئی تکلیف پہنچے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے مجھے یہ تکلیف پہنچی ، پھر صبر و تحمل سے کام لے ، اللہ کی مرضی پر ثابت قدم رہے ، ثواب اور بھلائی کی امید رکھے رضا بہ قضا کے سوا لب نہ ہلائے تو اللہ تعالٰ اس کے دل کی رہبری کرتا ہے اور اسے بدلے کے طور پر ہدایت قلبی عطا فرماتا ہے ۔ وہ دل میں یقین صادق کی چمک دیکھتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مصیبت کا بدلہ یا اس سے بھی بہتر دنیا میں ہی عطا فرما دیتا ہے ۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے ، اسے مصائب ڈگمگا نہیں سکتے ، وہ جانتا ہے کہ جو پہنچا وہ خطا کرنے والا نہ تھا اور جو نہ پہنچا وہ ملنے والا ہی نہ تھا ، حضرت علقمہ کے سامنے یہ آیت پڑھی جاتی ہے اور آپ سے اس کا مطلب دریافت کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہر مصیبت کے وقت اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ منجانب اللہ ہے پھر راضی خوشی اسے برداشت کر لے ، یہ بھی مطلب ہے کہ وہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لے ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ مومن پر تعجب ہے ہر ایک بات میں اس کے لئے بہترین ہوتی ہے نقصان پر صبر و ضبط کر کے نفع اور بھلائی پر شکر و احسان مندی کر کے بہتری سمیٹ لینا ہے ، یہ دو طرفہ بھلائی مومن کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں ، مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ، اس کی تصدیق کرنا اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ اس نے کہا حضرت میں کوئی آسان کام چاہتا ہوں آپ نے فرمایا جو فیصلہ قسمت کا تجھ پر جاری ہو تو اس میں اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ نہ کر اس کی رضا پر راضی رہ یہ اس سے ہلکا امر ہے ۔ پھر اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتا ہے کہ امور شرعی میں ان اطاعتوں سے سرمو تجاوز نہ کرو جس کا حکم ملے بجا لاؤ ، جس سے روکا جائے رک جاؤ ، اگر تم اس کے ماننے سے اعراض کرتے تو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی بوجھ نہیں ، ان کے ذمہ صرف تبلیغ تھی جو وہ کر چکے اب عمل نہ کرنے کی سزا تمہیں اٹھانا پڑے گی ۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد و صمد ہے اس کے سوا کسی کی ذات کسی طرح کی عبادت کے لائق نہیں ، یہ خبر معنی میں طلب کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید مانو اخلاص کے ساتھ صرف اسی کی عبادت کرو ، پھر فرماتا ہے چونکہ توکل اور بھروسے کے لائق بھی وہی ہے تم اسی پر بھروسہ رکھو ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے ۔ ( ترجمہ ) مشرق اور مغرب کا رب وہی ہے ، معبود حقیقی بھی اس کے سوا کوئی نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز بنا لے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 یعنی اس کی تقدیر اور مشیت سے ہی اس کا ظہور ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کے نزول کا سبب کفار کا یہ قول ہے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو دنیا کی مصیبتیں انہیں نہ پہنچتیں (فتح القدیر) 11۔ 2 یعنی وہ جان لیتا ہے کہ اسے جو کچھ پہنچا ہے اللہ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہی پہنچا ہے پس وہ صبر اور رضا بالقضاء کا مظاہرہ کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] اس آیت میں ان دنیادار لوگوں کے اس نظریہ کی تردید کی گئی ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو اس قدر مصائب میں کیوں گھرے ہوتے اور مسلمانوں کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ کوئی مصیبت کسی کے لانے سے نہیں آتی۔ بلکہ اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور اسی کے اذن سے آتی ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کئی حکمتیں ہوتی ہیں۔ مصیبتوں کے ذریعہ آزمائش سے مقصود تمہارے ایمان کا امتحان ہوتا ہے۔ تاکہ منافقین کھل کر سامنے آجائیں۔ اور تم ان سے محتاط رہنے لگو۔ ان کے علاوہ کئی حکمتیں قرآن میں جابجا مذکور ہیں۔ خ مصائب کی تین قسمیں :۔ واضح رہے کہ مصائب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو لوگوں کے اپنے اعمال کے نتیجہ یا شامت اعمال کے طور پر آتے ہیں۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : (ظَھَرَ الْفَسَادُ فِیْ البَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أیْدِیْ النَّاسِ ) دوسرے وہ مصائب جن میں سے ایمانداروں کو آزمائش اور تربیت کے لئے گزارا جاتا ہے۔ جیسے فرمایا : (وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ ١٥٥؁ۙ ) 2 ۔ البقرة :155) تیسرے وہ جن کا تعلق مندرجہ بالا دونوں اقسام سے نہیں ہوتا اور وہ محض اتفاقی قسم کے حوادث ہوتے ہیں۔ ایسے مصائب مومنوں کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بموجب ارشاد نبوی کسی مسلمان کو کوئی کانٹا بھی چبھے تو وہ اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے بشرطیکہ مسلمان اس مصیبت پر صبر کرے۔ [١٩] یعنی جو شخص ان مصائب میں ثابت قدم رہے تو اس کا اللہ پر ایمان مزید بڑھ جاتا ہے اور اسی نسبت سے اسے اللہ مزید ہدایت بخشتا ہے اور یاد رکھو کہ اللہ کو تمہارے ان مصائب کا پورا پورا علم ہے۔ وہ اپنے بندوں کو خواہ مخواہ مصائب میں مبتلا نہیں کرتا۔ بلکہ کسی عظیم مقصد کے لئے تمہیں تیار کرنا چاہتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ ۔۔۔۔: اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ حدید کی آیت (٢٢) کی تفسیر۔ ٢۔ اِلَّا بِاِذْنِ اللہ ِ : اس سے پہلی آیات میں اللہ کی توحید ، رسولوں کی رسالت اور قیامت کا بیان تھا ، اس آیت میں تقدیر پر ایمان کا بیان ہے جس سے آدمی کے دل میں تکلیفیں برداشت کرنے اور ان پر صبر کرنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس آیت میں ایمان والوں کے لیے تسلی اور کفار کے اس اعتراض کا جواب بھی ہے کہ ایمان والوں پر مصیبتیں کیوں آتی ہیں ۔ فرمایا جو مصیبت بھی آتی ہے اللہ کے اذن سے آتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پہلے سے مقدر ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ دنیا میں مومن و کافر سب پر آتی ہے ، کیونکہ اس کے بغیر امتحان اور آزمائش کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔ البتہ مومن و کافر پر اس کا اثر اور نتیجہ مختلف ہوتا ہے ، مومن اپنے رب پر راضی رہتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت کی روشنی ، یقین اور اطمینان کی نعمت اور آخرت میں جنت عطاء فرماتا ہے اور کافر اپنے رب پر ناراض ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ دنیا کے اندر ہر وقت پریشان اور سراپا شکوہ بنا رہتا ہے اور آخرت میں اس کے لیے جہنم ہے۔ ٣۔ یعنی جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اللہ کے حکم سے اور اس کے طے شدہ فیصلے اور تقدیر کے مطابق پہنچتی ہے۔ ٤۔ وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِ اللہ ِ یِہْدِ قَلْبَہ : یعنی جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ جان لے کہ یہ اللہ کے فیصلے اور اس کی تقدیر سے ہے ، پھر اس پر صبر کرے ، ثواب کی نیت رکھے اور اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کے فیصلے کے سپرد کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور دنیا میں اس کے ہاتھ سے جو کچھ نکلا یعنی اس سے جو کچھ لیا گیا اس کے بدلے میں اس کے دل میں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق اور سچا یقین عطاء فرماتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو کچھ اس سے لیا گیا اس کی جگہ وہی یا اس سے بہتر چیز عطاء فرما دیتا ہے۔ اس آیت کی طرح سورة ٔ بقرہ (١٥٥ تا ١٥٧) میں مصیبت پر صبر کرنے والوں کو ” المھتدون “ ( ہدایت والے) قرار دیا ۔ طبریٰ نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ” وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِ اللہ ِ یِہْدِ قَلْبَہٗ “ کے متعلق ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا ہے :(یعنی یھد قلبہ للیقین فیعلم ان ما اصابہ لم یکن لیخطئہ وما اخطاہ لم یکن لیصیبہ) ( طبریٰ ٢٢، ٢١، ح : ٣٤٥٩)” یعنی ( آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ پر ایمان رکھے) اللہ تعالیٰ اس کے دل کو یقین کی ہدایت دیتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اس پر جو مصیبت آئی وہ کسی صورت اس سے خطاب کرنے والی نہیں تھی اور جو خطاء کرگئی وہ کسی صورت اس پر آنے والی نہیں تھی “۔ اور اعمش نے ابو ظبیان سے بیان کیا کہ ہم علقمہ کے پاس تھے ، ان کے پاس یہ آیت پڑھی گئی :(وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِ اللہ ِ یِہْدِ قَلْبَہٗ ) اور اس کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :” اس سے مراد وہ آدمی ہے جسے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ، اس پر راضی ہوجاتا ہے اور اسے تسلیم کرلیتا ہے۔ “ (ابن جریر و ابن ابی حاتم بسند صحیح) ۔ صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(عجباً لا مر المومن ان امرہ کلہ خیبر و لیس ذاک لا حد الا للمومن ان اصابتہ سراء شکر ، فکان خیرا لہ و ان اصابتہ ضراء صبر ، فکان خیرالہ) ( مسلم ، الزھد و الرقائق، باب المومن امرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩)” مومن کے معاملے پر تعجب ہے ، کیونکہ اس کا سارا معاملہ ہی خیر ہے اور یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ، اگر اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو شکر کرتا ہے اور وہ اس کے لیے خیر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور وہ بھی اسے کے لیے خیر ہوتا ہے۔ “ ٣۔ وَ اللہ ُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا پوری طرح علم ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس کی تقدیر پر ایمان رکھ کر صبر و شکر کرتا ہے اور کون نہیں کرتا ، پھر وہ ایک کو اس کے مطابق جزا و سزا دے گا ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ (And no calamity befalls [ one ], but with the leave of Allah. And whoever believes in Allah, He guides his heart…64:11) In other words, it is a reality that not even a particle can move without the Divine will. Without the will of Allah no one can harm or benefit anyone. If a person does not believe in Allah and the Divine destination, he would not have any means of comforting himself when a calamity befalls him. He receives it with despair, and gropes for means of alleviating it. A believer, on the other hand, who reposes his faith in Divine will and destination is guided by Allah, and his heart is filled with peace and tranquility. Allah will guide his heart to certainty that whatever difficulty afflicts him could never have missed him, and whatever adversity has missed him could never have afflicted him. As a result of this belief, he is promised a reward in the Hereafter, which he keeps in view all the time. This strong belief in the promise of a reward in the Hereafter alleviates the worst calamity of this world.

خلاصہ تفسیر (جس طرح کفر آخرت کی فلاح سے کلیتہً مانع ہے، اسی طرح اموال و اولاد اور بیوی وغیرہ میں مشغول ہو کر خدائے تعالیٰ کے احکام میں کوتاہی کرنا بھی ایک درجہ میں فلاح آخرت سے مانع ہے اس لئے مصیبت میں تو یہ سمجھنا چاہئے کہ) کوئی مصیبت بدون خدا کے حکم کے نہیں آتی (اور یہ سمجھ کر صبر و رضا اختیار کرنا چاہئے) اور جو شخص اللہ پر (پورا) ایمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو (صبر و رضا کی) راہ دکھا دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے (کہ کس نے صبر و رضا اختیار کیا اور کس نے نہیں کیا اور ہر ایک کو حسب حکمت جزاء و سزا دیتا ہے) اور (خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر امر میں جس میں مصائب بھی داخل ہیں) اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور اگر تم (اطاعت سے) اعراض کرو گے تو (یاد رکھو کہ) ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے (جس کو وہ با حسن وجوہ کرچکے ہیں، اس لئے ان کا تو کوئی ضرر نہیں تمہارا ہی ضرر ہوگا اور چونکہ اللہ کو ضرر ہونے کا احتمال ہی نہیں، اس لئے اس کو یہاں بیان نہیں کیا اور تم لوگوں کو اور خصوص اہل مصیبت کو یوں سمجھنا چاہئے کہ) اللہ کے سوا کوئی معبود ( بننے کے قابل) نہیں اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر (مصائب وغیرہ میں) تو کل رکھنا چاہئے، اے ایمان والو ! (جیسا مصیبت میں تم کو صبر و رضا کا حکم کیا گیا ہے اسی طرح نعمت کے بارے میں تم کو منہمک نہ ہونے کا حکم کیا جاتا ہے پس نعمت کے بارے میں یوں سمجھنا چاہئے کہ) تمہاری بعض بیبیاں اور اولاد تمہارے (دین کے) دشمن ہیں (جبکہ وہ اپنے نفع دنیوی کے واسطے تم کو ایسی بات کا حکم کریں جو تمہارے لئے مضر آخرت ہو) سو تم ان سے (یعنی ایسوں سے) ہوشیار رہو (اور ان کے ایسے امر پر عمل مت کرو) اور اگر (تم کو ایسی فرمائشوں پر غصہ آوے اور تم ان پر تشدد کرنے لگو اور وہ اس وقت معذرت اور توبہ کریں اور) تم (اس وقت ان کی وہ خطا) معاف کردو (یعنی سزا نہ دو ) اور درگزر کر جاؤ (یعنی زیادہ ملامت نہ کرو) اور بخش دو (یعنی اس کو دل سے اور زبان سے بھلا دو ) تو اللہ تعالیٰ (تمہارے گناہوں کا) بخشنے والا (اور تمہارے حال پر) رحم کرنے والا ہے (اس میں ترغیب ہے عفو کی اور یہ بعض اوقات واجب ہے جبکہ عقوبت سے احتمال غالب بےباکی کا ہو اور بعض اوقات مستحب ہے، آگے اولاد کے ساتھ اموال کے متعلق بھیاسی قسم کا مضمون ہے کہ) تمہارے اموال اور اولاد بس تمہارے لئے ایک آزمائش کی چیز ہے (کہ دیکھیں کون ان پر پڑھ کر خدا کے احکام کو بھول جاتا ہے اور کون یاد رکھتا ہے) اور (جو شخص ان میں پڑھ کر اللہ کو یاد رکھے گا تو) اللہ کے پاس (اس کے لئے) بڑا اجر ہے تو (ان سب باتوں کو سن کر) جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور (اس کے احکام) سنو اور مانو اور (بالخصوص مواقع حکم میں) خرچ (بھی) کیا کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا (غالباً اس کی تخصیص اس لئے ہے کہ یہ نفس پر زیادہ شاق ہے) اور جو شخص نفسانی حرص سے محفوظ رہا ایسے ہی لوگ (آخرت میں) فلاح پانے والے ہیں (آگے اس کے بہتر اور اور موجب فلاح ہونے کا بیان ہے کہ) اگر تم اللہ کو اچھی طرح (خلوص کے ساتھ) قرض دو گے تو وہ اس کو تمہارے لئے بڑھا تا چلا جائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بڑا قدر دان ہے (کہ عمل صالح کو قبول فرماتا ہے اور) بڑا برد بار ہے (کہ عمل معصیت پر فی الفور مواخذہ نہیں فرماتا اور) پوشیدہ اور ظاہر (اعمال) کا جاننے والا ہے (اور) زبردست ہے (اور) حکمت والا ہے (شکور سے حکیم تک تمام مضامین سورت کے لئے بمنزلہ علت کے ہیں کہ سب مضامین ان پر مرتب و متفرع ہو سکتے ہیں) معارف و مسائل (آیت) مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ ” یعنی کسی کو کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نہیں پہنچتی اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو ہدایت فرما دیتا ہے “ مطلب یہ ہے کہ یہ امر تو اپنی جگہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت کے بغیر کہیں کوئی ذرہ بھی نہیں ہل سکتا، اللہ کے اذن کے بغیر نہ کوئی کسی کو نقصان و تکلیف پہنچا سکتا ہے نہ نفع اور راحت مگر جس شخص کا اللہ پر اور اس کی تقدیر پر ایمان نہیں ہوتا مصیبت کے وقت اس کے لئے قرار و سکون کا کوئی سامان نہیں ہوتا، وہ ازالہ مصیبت کے لئے ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے، بخلاف مومن کے جس کا تقدیر الٰہی پر ایمان ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو اس پر مطمئن کردیتا ہے کہ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت سے ہوا، جو کچھ مصیبت مجھے پہنچی وہ پہنچنی ہی تھی اس کو کوئی ٹلا نہیں سکتا اور جس مصیبت سے نجات ہوئی وہ نجات ہونا ہی تھی، کسی کی مجال نہیں جو اس مصیبت کو مجھ پر ڈال دے، اس ایمان و اعتقاد کے نتیجہ میں اس کو آخرت کے ثواب کا وعدہ بھی سامنے ہوتا ہے جس سے دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت آسان ہوجاتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَۃٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللہِ يَہْدِ قَلْبَہٗ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ ١١ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] ، قال : الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل . مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تمہاری جانوں مالوں اور گھروں کو کوئی مصیبت بغیر اللہ کے حکم کے نہیں آتی اور جو یہ سمجھے کہ مصیبت اللہ کی جانب سے ہے تو وہ اپنے قلب کو صبر و رضا کی راہ دکھا دیتا ہے یا یہ کہ جب اس کو کوئی نعمت ملے تو شکر کرے اور جب آزمایا جائے تو صبر کرے اور جب ظلم کیا جائے تو معاف کرے اور جس وقت کوئی پریشانی لاحق ہوئی تو انا للہ پڑھے، تو ایسا شخص اپنے دل کو اللہ کی راہ دکھا دیتا ہے اور تمہیں جو مصیبت وغیرہ پیش آتی ہے اللہ تعالیٰ اس سے اچھی طرح آگاہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

؎ دوسرے رکوع کی پہلی پانچ آیات میں ثمراتِ ایمانی کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلا ثمرہ یہ ہے : آیت ١ ١{ مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ } ” نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے۔ “ { وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ۔ } ” اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے ‘ وہ اس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے ۔ اور اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “ ایمان حقیقی کی بدولت انسان کے دل کی گہرائیوں میں یہ یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ایک پتا ّتک جنبش نہیں کرسکتا۔ اس لیے اگر اس پر کوئی مصیبت بھی آجاتی ہے تو اس کا دل مطمئن رہتا ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے ہی آئی ہے اور یہ کہ میری بہتری اسی میں ہے : { وَعَسٰٓی اَنْ تَـکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّــکُمْج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّــکُمْط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ۔ } (البقرۃ) ” اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اور اللہ جانتا ہے ‘ تم نہیں جانتے “۔ چناچہ اپنے اس ایمان اور یقین کی وجہ سے ایک بندئہ مومن بڑی سے بڑی تکلیف اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی نہ تو دل میں شکوہ کرتا ہے اور نہ ہی حرفِ شکایت زبان پر لاتا ہے ‘ بلکہ وہ ہر حال میں پیکر تسلیم و رضا بنا رہتا ہے کہ اے اللہ ! میری بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے : بِیَدِکَ الْخَیْر ! تیری طرف سے میرے لیے خوشی آئے یا غم ‘ مجھے قبول ہے ‘ تیری جو بھی رضا ہو اس کے سامنے میرا سر تسلیم خم ہے ! بقول غالب ؔ: ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے بے نیازی تری عادت ہی سہی ! ظاہر ہے اس مقام خاص تک صرف سچے اور مخلص اہل ایمان ہی پہنچ پاتے ہیں۔ ایمانِ حقیقی سے محروم دلوں کے نصیب میں تسلیم و رضا کی حلاوت کہاں : ؎ نہ شود نصیب ِدشمن کہ شود ہلاک تیغت سر ِدوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی ! علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں مقام تسلیم و رضا کی برکات کا ذکر بڑے پرشکوہ انداز میں کیا ہے : ؎ بروں کشید زپیچاکِ ہست و بود مرا چہ عقدہ ہا کہ مقام رضا کشود مرا ! (اس مقامِ رضا نے میرے کیسے کیسے عقدے حل کردیے ہیں اور مجھے دنیا کی کیسی کیسی پریشانیوں سے نجات دلا دی ہے ۔ ) خوئے تسلیم و رضا کی وجہ سے انسان اپنا بڑے سے بڑا مسئلہ بھی اللہ کے سپرد کر کے مطمئن ہوجاتا ہے اور جو انسان اس یقین سے محروم ہے وہ دن رات اسی پیچ و تاب میں پڑا رہتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوگیا ؟ آخر یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا ؟ اگر میں اس وقت ایسا کرلیتا تو اس نقصان سے بچ جاتا ! اگر میرا فلاں دوست عین وقت پر ایسا نہ کرتا تو ایسا نہ ہوتا ! کاش میں یوں کرلیتا ! کاش ‘ اے کاش ! …گویا انسان اگر مقام تسلیم و رضا سے ناآشنا ہو تو چھوٹے چھوٹے واقعات بھی اس کے دل کا روگ بن جاتے ہیں اور اس کے پچھتاوے کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ (سورۃ الصف ‘ سورة الجمعہ ‘ سورة المنافقون اور سورة التغابن ‘ یہ چاروں سورتیں ہمارے ” مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب “ میں شامل ہیں ‘ جس کے مفصل دروس کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ) اس حوالے سے یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اللہ کی رضا پر راضی رہنے اور ہر سختی یا تکلیف کو اس کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرلینے کا تعلق انسان کے ایمان اور دل سے ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی جرم کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کریں یا اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کا بدلہ نہ لیں۔ بہرحال ایمان کے ثمرات میں سے پہلاثمرہ یہ ہے کہ حقیقی ایمان انسان کو مقام تسلیم و رضا سے آشنا کرتا ہے۔ لیکن اس کا تعلق چونکہ انسان کے احساسات سے ہے اس لیے یوں کہہ لیجیے کہ یہ وہ پھول ہے جو ایک بندئہ مومن کے دل کے اندر کھلتا ہے ‘ باہر سے نظر نہیں آتا۔ باہر سے نظر آنے والے بڑے پھول کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 The discourse now turns to the believers. While reading this passage one should keep in mind the fact that at the time when these verses were revealed. Muslims were passing through great hardships After years of persecution at Makkah they had left their home and emigrated to Madinah, where the sincere Muslims who had given them refuge had been doubly burdened. On the one hand, they had to support and sustain hundreds of the emigrants who were coming to them from different parts of Arabia; on the other they had become the target of the persecution and enmity of the enemies of Islam of entire Arabia. >24 This same theme has also occurred in AI-Hadid: 22-23 above and we have explained it in E.N.'s 39 to 42 of the commentary of the Surah 'The same circumstances under which this thing was said there and the same object for which it was said underlie the verses here as well. This means that afflictions and hardships do not descend of themselves, nor has anyone in the world the power to cause an affliction to descend on anyone he may like by his own authority. AII calamities wholly depend on Allah's leave: He may allow an affliction to descend upon someone or may disallow it, And Allah's leave in any cast is based on one or other wisdom, directed to some ultimate good, which man neither knows, nor can understand. 25 That is, "It is only belief in Allah which keeps man on the right path even in the face of an onslaught of afflictions and does not Iet him waver under the most trying circumstances. The one whose heart is devoid of belief either looks upon afflictions as a result of mere chance, or thinks they are brought or prevented by worldly powers, or considers them to be the work of such imaginary powers which human superstition regards as potent in bringing good and causing evil, or believes that God is the real Doer of everything butt dces not believe so truely and sincerely, In alI these different cases mart degenerates. He endures the affliction. but then yields and bows to every false god, accepts, every humiliation, is ready to do any mean thing and commit any wrong act he dces not hesitate to abuse God, even commit suicide. On the contrary, the heart of the person who knows and believes sincerely that everything is in the hand of AIIah, that He alone in the Master and Ruler of the urniverse that only by His permission can an affliction befall and only by His command can it be averted, is blessed by AIIah with the grace of patience and submission and of acquiescing in Divine will, and is granted the power to face every circumstance with determination and courage. Even under the most straitened circumstances the candle of the hope of Allah's bounty lights up his way and no affliction, howover severe and trying, can 50 dishearten him as to cause him to swerve from the right path, or how to falsehood, or invoke others than AIIah for the redress of his grievances. Thus, every affliction opens up for him a new door to well-being and happiness and no affliction remains an affliction for him in actual fact but becomes in final result and analysis a blessing in disguise, for whether he falls a victim to it. or passes through if safely, in each case he emerges successful from the trial set him by his Lord. This same thing has been stated by the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) in a Hadith which has been reported unanimously by aII the reporters, saying: `Strange is the affair of the believer! Whatever AIIah decrees for him is good for him: when an affliction befalls him, he endures it patiently, and this proves good for him; when he is blessed with prosperity, he thanks his Lord, and this too proves good for him. Such a good fortune only falls to the lot of a believer." 26 In this context this has two meanings: first, that Allah knows who really believes and what is the measure of his belief. So, on the basis of His knowledge He grants guidance only to that heart, which has belief in it, and grants it guidance precisely in accordance with the measure of belief. Another meaning also can be: that Allah is not unaware of the condition of His believing servants. He has not left them alone after having invited them to faith and subjected them at the same time to severe trials and temptations of the world. He knows exactly what hardships a believer is passing through in the world, and under what circumstances he is fulfilling the demands of his faith. Therefore, "O believers, you should rest assured that whatever affliction descends upon you by Allah's leave, in Allah's knowledge it must be directed to some ultimate good, which must be for your own well-being, for Allah is well-wisher of His believing servants: He does not will to subject them to afflictions and hardships without good reason."

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :23 اب روئے سخن اہل ایمان کی طرف ہے ۔ اس سلسلہ کلام کو پڑھتے ہوئے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ مسلمانوں کے لیے سخت مصائب کا زمانہ تھا ۔ مکہ سے برسوں ظلم سہنے کے بعد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آ گئے تھے ۔ اور مدینے میں جن حق پر ستوں نے ان کو پناہ دی تھی ان پر دہری مصیبت آ پڑی تھی ۔ ایک طرف انہیں سینکڑوں مہاجرین کو سہارا دینا جو عرب کے مختلف حصوں سے ان کی طرف چلے آ رہے تھے ، اور دوسری طرف پورے عرب کے اعدائے اسلام ان کے درپے آزاد ہو گئے تھے ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :24 یہ مضمون سورہ الحدید ، آیات 22 ۔ 23 میں بھی گزر چکا ہے اور وہاں حواشی نمبر 39 تا 42 میں ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں ۔ جن حالات میں اور جس مقصد کے لیے یہ بات وہاں فرمائی گئی تھی ، اسی طرح کے حالات میں اسی مقصد کے لیے اسے یہاں دہرایا گیا ہے ۔ جو حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ نہ مصائب خود آجاتے ہیں ، نہ دنیا میں کسی کی یہ طاقت ہے کہ اپنے اختیار سے جس پر جو مصیبت چاہے نازل کر دے ۔ یہ تو سراسر اللہ کے اِذن پر موقوف ہے کہ کسی پر کوئی مصیبت نازل ہونے دے یا نہ ہونے دے ۔ اور اللہ کا اذن بہر حال کسی نہ کسی مصلحت کی بنا پر ہوتا ہے جسے انسان نہ جانتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :25 یعنی مصائب کے ہجوم میں جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور کسی سخت سے سخت حالت میں بھی اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی وہ صرف ایمان باللہ ہے ۔ جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفات کو یا تو اتفاقات کا نتیجہ سمجھتا ہے ، یا دنیوی طاقتوں کو ان کے لانے اور روکنے میں مؤثر مانتا ہے ، یا انہیں ایسی خیالی طاقتوں کا عمل سمجھتا ہے جنہیں انسانی اوہام نے نفع و ضرر پہنچانے پر قادر فرض کر لیا ہے ، یا خدا کو فاعِل مختار مانتا تو ہے مگر صحیح ایمان کے ساتھ نہیں مانتا ۔ ان تمام مختلف صورتوں میں آدمی کم ظرف ہو کر رہ جاتا ہے ۔ ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت سہہ لیتا ہے ، لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے ۔ ہر آستانے پر جھک جاتا ہے ۔ ہر ذلت قبول کر لیتا ہے ۔ ہر کمینہ حرکت کر سکتا ہے ۔ ہر غلط کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔ خدا کو گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا ۔ حتیٰ کہ خود کشی تک کر گزرتا ہے ۔ اس کے بر عکس جو شخص یہ جانتا اور سچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا مالک و فرمانروا ہے ، اور اسی کے اذن سے مصیبت آتی اور اسی کے حکم سے تل سکتی ہے ، اس کے دل کو اللہ صبر و تسلیم اور رضا بقضاء کی توفیق دیتا ہے ، اس کو عزم اور ہمت کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بخشتا ہے ، تاریک سے تاریک حالات میں بھی اس کے سامنے اللہ کے فضل کی امید کا چراغ روشن رہتا ہے ، اور کوئی بڑی سے بڑی آفت بھی اس کو اتنا پست ہمت نہیں ہونے دیتی کہ وہ راہ راست سے ہٹ جائے ، یا باطل کے آگے سر جھکا دے ، یا اللہ کے سوا کسی اور کے در پر اپنے درد کا مداوا ڈھونڈنے لگے ۔ اس طرح ہر مصیبت نہیں رہتی بلکہ نتیجے کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے ، کیونکہ خواہ وہ اس کا شکار وہ کر رہ جائے یا اس سے بخیریت گزر جائے ، دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہو کر نکلتا ہے ۔ اسی چیز کو ایک متفق علیہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے : عجباً للمؤمن ، لا یقضی اللہ لہ قضاءً الا کان خیراً الہٰ ، ان اصابتْہ ضَرّاء صبر ، فکان خیراً لہٗ ، وان اصابَتہ سرّاء شکر ، فکان خیراً الہ ، ولیس ذالک لِاَ حدٍ الّا المؤمن ۔ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ اللہ اس کے حق میں جو فیصلہ بھی کرتا ہے وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے ۔ مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے ، اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے ۔ خوشحالی میسر آئے تو شکر کرتا ہے ، اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے ۔ یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :26 اس سلسلہ کلام میں اس ارشاد کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ کو معلوم ہے کہ کون شخص واقعی ایمان رکھتا ہے اور کس شان کا ایمان رکھتا ہے ۔ اس لیے وہ اپنے علم کی بنا پر اسی قلب کو ہدایت بخشتا ہے جس میں ایمان ہو ، اور اسی شان کی ہدایت بخشتا ہے جس شان کا ایمان اس میں ہو ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے مومن بندوں کے حالات سے اللہ بے خبر نہیں ہے ۔ اس نے ایمان کی دعوت دے کر ، اور اس ایمان کے ساتھ دنیا کی شدید آزمائشوں میں ڈال کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ کس مومن پر دنیا میں کیا کچھ گزر رہی ہے اور وہ کن حالات میں اپنے ایمان کے تقاضے کس طرح پورے کر رہا ہے ۔ اس لیے اطمینان رکھو کہ جو مصیبت بھی اللہ کے اذن سے تم پر نازل ہوتی ہے ، اللہ کے علم میں ضرور اس کی کوئی عظیم مصلحت ہوتی ہے اور اس کے اندر کو4ی بڑی خیر پوشیدہ ہوتی ہے ، کیونکہ اللہ اپنے مومن بندوں کا خیر خواہ ہے ، بلا وجہ انہیں مصائب میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کے دل کو مصیبت کے وقت یہ اطمینان عطا فرماتا ہے کہ ہر مصیبت اﷲ تعالیٰ کے حکم سے آتی ہے، اور اُس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے، چاہے وہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اس تصوّر کے نتیجے میں اِیمان والوں کو ناقابلِ برداشت تکلیف نہیں ہوتی، اور اُنہیں صبر کی توفیق مل جاتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ ١٣۔ اوپر اللہ اور اللہ کے رسول اور قرآن شریف پر ایمان لانے کا حکم فرما کر ان آیتوں میں تقدیر الٰہی پر ایمان لانے کا ذکر فرمایا معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی ٥ ؎ ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت علی (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایمان دار بننے کے لئے چار باتوں پر ہر آدمی کو ایمان لانا ضرور ہے ایک تو یہ کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے دوسرے یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں اور جو دین کے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں لایا ہوں وہ سب برحق ہیں۔ تیسرے یہ کہ مرنے کے بعد قیامت کا آنا برحق ہے۔ چوتھے تقدیر الٰہی کا دل میں پورا اعتقاد رکھنا آیت اور حدیث سے یہ مطلب نکلا کہ مثلاً آدمی کو کوئی تکلیف دنیا میں پہنچے تو آدمی دل میں پورا اعتقاد رکھے کہ مجھ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے موافق پہنچی ہے جو کم دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھا ہے اور یہی اعتقاد دنیا کے باقی امور میں رکھنا چاہئے۔ چناچہ صحیح مسلم ١ ؎ کی عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث اس باب میں اوپر گزر چکی ہے اس اعتقاد سے یہ فائدہ ہوگا کہ آدمی کے دل میں صبر کی ہمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوجائے گی جس سے دنیا میں تکلیف کی برداشت آسان ہوجائے گی اور صبر کا اجر ملے گا یہ مطلب ومن یومن باللہ یھد قلبہ کا ہے مشرکین مکہ یہ کہتے تھے کہ اگر یہ اہل اسلام حق پر ہوتے تو ان کو یہ دنیا کی طرح طرح کی مصیبتیں نہ پہنچتیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ جو لوگ حق پر ہیں ان کو دنیا کی مصیبتیں تقدیر الٰہی کے موافق اس مصلحت سے پہنچائی جاتی ہیں کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی توفیق کی مدد سے ان مصیبتوں پر صبر کریں جس کے اجر میں ان کے ثواب کا درجہ عقبیٰ میں بڑھے۔ ابوہریرہ ٢ ؎ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بعض ایمان دار لوگوں کو اللہ تعالیٰ عقبیٰ میں ایسا درجہ دینا چاہتا ہے جو ان کے عملوں سے بڑھ کر ہے اس لئے ان کو دنیا میں کچھ مصیبتوں میں مبتلا فرماتا ہے اور پھر ان مصیبتوں پر صبر کی توفیق عنایت فرماتا ہے تاکہ اس صبر کے اجر میں وہ لوگ اس بڑے درجہ تک پہنچ جائیں۔ اس باب میں اور بھی حدیثیں ہیں یہ سب حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں۔ واللہ بکل شیء علیم، کا یہ مطلب ہے کہ کوئی چیز اللہ کے علم سے باہر نہیں۔ اس سے مصیبت کے وقت صبر کرنے والوں کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے اسی کے موافق وہ ان کو عقبیٰ میں اجر عنایت فرمائے گا۔ طبرانی ٣ ؎ کبیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب حشر کے دن مصیبت کے وقت صبر کرنے والوں کو بےحساب اجر ملے گا تو جو لوگ دنیا میں عافیت سے رہے ہیں وہ یہ آرزو کریں گے کہ دنیا میں کوئی قینچی سے ان کی بوٹاں کاٹتا اور وہ اس تکلیف پر صبر کرتے تو اچھا ہوتا کہ آج اس صبر کا بڑا اجر ملتا اس حدیث کی سند میں ایک راوی مجاعہ بن الزبیر ہے۔ اگرچہ بعض علما نے اس کی ثقاہت میں کلام کیا ہے لیکن امام احمد نے اس کو معتبر قرار دیا ہے ١ ؎ صبر کے اجر میں اور بھی حدیثیں ہیں جن سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی اس روایت کو تقویت ہوجاتی ہے مصیبت کے وقت بشریت کے سبب سے آدمی ذرا گھبرا جاتا ہے اس لئے فرمایا کہ ایسے وقت میں اللہ اور اللہ کے رسول کی فرماں برداری کا پورا خیال رکھ کر کوئی بات خلاف شریعت نہ کی جائے اور دنیا عالم اسباب ہے اس میں تکلیف کا اگر سبب ہو تو اس سبب میں کوئی مستقل تاثیر نہ خیال کی جائے بلکہ ایسے وقت میں پورا بھروسہ اللہ پر رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں وحدہ لاشریک ہے کسی سبب کو اس کی قدرت میں کوئی مستقل دخل نہیں ہے بیچ میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے رسول کے ذمے احکام الٰہی کا بیان کردینا ہے ان احکام کو جو مانے گا اسی کا بھلا ہے۔ (٥ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی الایمان بالقدر خیرہ وشرہ ص ٤٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب حجاج ادم و موسیٰ علیھما السلام ص ٣٣٥ ج ٢۔ ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب الترغیب فی الصبر الخ ص ٥٢٧ ج ٤۔ ) (٣ ؎ الترغیب والترھیب الترغیب فی الصبر الخ ص ٥٢٥ ج ٤۔ ) (١ ؎ الترغیب و الترہیب الترغیب نے الصبر ٥٢٥ ج کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:11) ما اصاب من مصیبۃ۔ ما نافیہ ہے اصاب ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ من تبیضیہ مصیبۃ اسم فاعل واحد مؤنث اصابۃ (افعال) مصدر سے بمعنی پہنچنا مصیبۃ پہنچنے والی۔ تکلیف۔ مسیبت، نہیں پہنچتی کوئی مصیبت۔ ومن یؤمن باللہ یھد قلبہ واؤ عاطفہ، من موصولہ، شرطیہ۔ یھد قلبہ جملہ جواب شرط ہے۔ اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے (اللہ) اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے ۔ یعنی اس کے دل کو صبر و رضا کی راہ دکھا دیتا ہے۔ یھد مضارع مجزوم بوجہ جواب شرط۔ صیغہ واحد مذکر غائب۔ ھدایۃ (باب ضرب) مصدر سے۔ واللہ بکل شیء علیم۔ واؤ عاطفہ۔ اللہ مبتداء علیم اس کی خبر۔ بکل شیء ب حرف جار۔ کل شیء مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور، جار مجرور مل کر متعلق خبر۔ اور اللہ ہر بات کو جانتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اس کے ارداہ اور مشیت سے آتی ہے کیونکہ اس کے ارادہ مشیت کے بغیر کوئی چیز واقع نہیں ہوسکتی … کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کافروں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کو دین سچا ہوتا تو ان پر دنیا کی مصیبتیں کیوں آتیں ؟ ] شوکانی)2 یعنی اسے صبر و استقامت کی توفیق دے گا اور گھبرا کر کفر و ناشکری کا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالے گا کیونکہ اسے یقین ہوگا کہ مجھ پر یہ مصیبت میرے پروردگار نے بھیجی ہے کہ میرے ایمان کا امتحان لے اور اگر میں امتحان میں کامیاب رہا تو میری نیکیاں زیاندہ اور میری برائیاں کم کر دے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١١ تا ١٨۔ اسرار ومعارف۔ سب راحتوں کا مدار قلب پر ہے۔ انسان پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اللہ کی اجازت اور حکم سے آتی ہے کہ اسی کی بنائے ہوئے ضابطوں کے مطابق نتائج برآمد ہوتے ہیں ہاں مگر جسے ایمان نصیب ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت نصیب کرتا ہے یعنی اس کا قلب مطمئن رہتا ہے اور مصیبت میں بھی اسے اللہ کی رحمت کا بھروسہ ہوتا ہے کہ تمام راحتوں کا مدار قلب پر ہے اور بندہ مومن کا قلب پرسکون ہوتا ہے جبکہ منافق اور کافر کو سوائے بےقراری کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ لہذا اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کروجس کا مطلب ہے کہ اللہ کے رسول اللہ کی اطاعت کرو یادر ہے کہ عقیدہ عبادت اور نظام حیات سب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت فرض ہے اور یہی اللہ کی اطاعت ہے لیکن اگر عقیدہ بھی مانے عبادت بھی کرے مگر نظام حیات میں اطاعت نہ کرے تو یہ عمل پہلے دونوں میں سے بھی خلوص کو ضائع کردیتا ہے اور صرف رسومات باقی رہ جاتی ہیں اور اگر کوئی اطاعت کی راہ سے ہٹ جائے تو نہ اللہ کو اس کی پرواہ ہے اور نہ رسول اللہ کو کہ رسول اللہ کے ذمہ اللہ کا پیغام اور حکم پہنچادینا ہے جان لو کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں کوئی ایسی ہستی ہے ہی نہیں کہ اللہ کی اطاعت چھوڑ کر اس کی غلامی کی جائے اور ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ مومن صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرتا ہے اور کسی کے ڈر سے اللہ کی اطاعت نہیں چھوڑتا۔ بیوی بچوں سے درگزر کا سلوک۔ اے ایمان والو ! یہ بیوی بچے بھی اللہ کی نافرمانی کرانے میں سبب بن کر دشمن ہوجاتے ہیں جبکہ ان کی خاطر ناجائزذرائع سے انسان کمانے لگے یا جہاد پر جانے میں رکاوٹ بن جائیں تو اس بارے میں سخت محتاط رہو یہ نہیں کہ ان پر سختی شروع کردو بلکہ درگزر سے کام لو ، علماء نے یہاں سے اخذ فرمایا ہے کہ بیوی بچوں سے پیارومحبت اور درگزر سے کام لے اس میں اصلاح کی زیادہ امید ہے بہ نسبت سختی اور مارپیٹ کے ۔ لہذا انہیں معاف کردیا کرو اللہ خود بھی معاف فرمانے والا ہے اور رحم کرنے والے ہیں۔ ہاں یہ درست ہے مال دولت دنیا اور اولاد بہت بڑے امتحان ہیں اور لوگ انہی کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں جبکہ اللہ کی اطاعت پر اس کی بارگاہ سے بہت بڑے اجر اور بہت ہی نیک بدلے نصیب ہوتے ہیں۔ لہذا اپنی استعداد اور ہمت کے مطابق پورے خلوص سے اللہ کی اطاعت کرو اور جو حکم ملے پوری توجہ سے سنو اور اسے بجالاؤ اور اپنی ساری قوتیں تعمل ارشاد میں لگادو یہی تمہارے بھلے کی بات ہے اور جس کو اللہ نے ایسی توفیق اطاعت دی کہ کوئی لالچ اس کا راستہ نہ روک سکے تو ایسے لوگ ہی کامیاب والے ہیں۔ اگر تم اللہ کی رضامندی پہ اپنی قوت صرف کرو تو یہ ایسے ہے جیسے تم اللہ کو قرض دے رہے ہو جو بہت اچھا ہے کہ اس کے بدلے کئی گناہ بڑھا کر اجرعطا فرمائے گا اور انسانی کمزوریوں کے سبب تم سے جو کمی رہ گئی وہ معاف فرمائے گا کہ وہ حقیقی قدر دان ہے اور بہت بردبار ہے ہر چھپی اور ظاہر بات سے واقف ہے وہ زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اور یہ سمجھ کر صبر و رضا اختیار کرنا چاہئے۔ 3۔ یعنی وہ جانتا ہے کہ کس نے صبر اختیار کیا اور کس نے نہیں کیا، اور ہر ایک کو حسب حکمت جزاء و سزا دیتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دنیا میں ایمانداروں کو پہنچنے والی تکالیف کی حقیقت اور اس میں راہنمائی۔ پچھلی آیت میں قیامت کے دن کو ہار جیت کا دن قرار دیا گیا ہے۔ ہارنے والے کفار، مشرکین اور منافقین ہوں گے جو دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی خاطر کسی نقصان کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہر قسم کے نقصان کو سے برداشت کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں ارشاد ہوا کہ انہیں جو مصیبت آتی ہے وہ اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے۔ جو شخص سچے دل کے ساتھ اللہ پر ایمان لائے اور اس کی رضا کی خاطر مصائب برداشت کرے ایک وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کی راہنمائی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس مختصر فرمان میں مومن کو تین انداز میں تسلی دی گئی ہے۔ ١۔ اے مومنوں گھبرانے کی ضرورت نہیں جو مصیبت تمہیں آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے مطابق آتی ہے۔ یعنی کوئی مصیبت اپنے آپ نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ کے حکم سے نازل ہوتی ہے۔ جو ایماندار کے لیے اجر کا باعث اور نافرمان کے لیے عذاب ثابت ہوتی ہے۔ ٢۔ اللہ کے حکم سے نازل ہونے والی مصیبت جب کسی ایماندار پر آتی ہے تو اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے جس سے ایماندار کے ایمان میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے رب کا پہلے سے زیادہ قرب محسوس کرتا ہے اور اسے اپنے گناہوں کی معافی کی توفیق ملتی ہے، یہی وہ ہدایت ہے جو مصیبت کے وقت ایماندار شخص کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں نافرمان شخص مصیبت کے وقت اپنے رب کا مزید نافرمان بن جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ایماندار پر آنے والی مصیبت کی دواقسام ہوتی ہے ایک مصیبت آزما ئش کے طور پر آتی ہے۔ (البقرۃ : ١٥٥) دوسری ایماندار کی اپنی کسی کوتاہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ( الشوریٰ : ٣٠) ٣۔ ” وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ“ کے الفاظ استعمال فرما کر ایماندار کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ کبھی نہ سوچنا کہ جو کفار کی طرف سے یا کسی اور صورت میں تمہیں تکلیف پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس سے بیخبر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ وہ ایمانداروں کے صبر و استقلال اور کفار کے مظالم کو اچھی طرح جانتا ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ایماندار لوگ صرف اپنے رب کے لیے تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا ےُصِےْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَّصَبٍ وَّلَا وَصَبٍ وَلَا ھَمِّ وَّلَا حُزْنٍ وَّلَا اَذًی وَّلَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوْکۃِی ےُشَاکُھَا اِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِھَامِنْ خَطَاے اہُ ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی کفارۃ المرض) ” حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بیان کرتے ہیں کوئی بھی مسلمان کسی طرح کی تھکاوٹ، درد، فکر، غم، تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہو یہاں تک کہ اس کو کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اسے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ “ (عن أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ تُصِیبُہُ مُصِیبَۃٌ فَیَقُولُ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ” اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا إِلاَّ أَجَرَہُ اللَّہُ فِی مُصِیبَتِہِ وَأَخْلَفَ لَہُ خَیْرًا مِنْہَا “ ) (رواہ مسلم : باب مَا یُقَالُ عِنْدَ الْمُصِیبَۃِ ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا کہ جب کسی بندے کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ یہ دعا پڑھتے ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹائے جانے والے ہیں۔ اے اللہ ! میری مصیبت دور فرما اور اس کے مقابلے میں بہتر اجر عطا فرما۔ “ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور کردیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسے بہتری عطا فرماتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ ہر مصیبت اللہ کے اِ ذن سے نازل ہوتی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر مصیبت اور چیز کو جانتا ہے۔ ٣۔ جو شخص سچے دل کے ساتھ اللہ پر ایمان لائے اور اس پر استقامت اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے : ١۔ ظالموں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (البقرۃ : ٢٥٨) ٢۔ کافروں کو ہدایت نہیں دی جاتی۔ (النساء : ١٦٨) ٣۔ فاسقوں کو ہدایت سے نہیں دی جاتی۔ (المائدۃ : ١٠٨) ٤۔ جھوٹوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (الزمر : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پاسکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٦۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ : ١٢٠) ٧۔” اللہ “ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٨۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٩۔ مشرک اللہ کی ہدایت سے محروم ہوتا ہے۔ (النساء : ٤٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ما اصاب ........................ علیم (٤٦ : ١١) ” کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو ، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے ، اللہ کو ہر چیز کا علم ہے “۔ اس پیرگراف میں چونکہ لوگوں کو ایمان کی طرف بلایا گیا تھا ، اس لئے اس کے ساتھ اس حقیقت کا ذکر بھی مناسب سمجھا گیا کیونکہ یہ ایمان کے متعلق امور میں سے ہے کہ انسان ہر چیز کو اللہ کی طرف لوٹا دے۔ اور یہ عقیدہ رکھے کہ خیروشر اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ ایمان کی تفصیلات ہیں اور ان کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ عملی زندگی میں اس عقیدے کے سوا ایمانی شعور کا تصور نہیں ہوسکتا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ آیات کے نزول کے وقت کوئی ایسی صورت حال بھی ہو جس میں لوگوں کو یہ تسلی دی گئی کہ خیروشر اللہ کی طرف سے ہے مثلاً مومنین اور مشرکین کے درمیان کوئی خاص واقعہ اس سورت اور اس واقعہ کے نزول کے وقت ہو۔ بہرحال یہ بات کہ نفع ونقصان اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ایمان کا بہت ہی اہم پہلو ہے۔ اس طرح اللہ پر ایمان لانے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو کچھ پیش آتا ہے اللہ کی طرف سے ہے۔ ہر حرکت اور حادثہ سے بھی اللہ کا ہاتھ کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور مومن کو جو خوشی یا غم پیش آتا ہے وہ اس پر مطمئن ہوتا ہے۔ غم پر صبر کرتا ہے اور خوشی کا شکر ادا کرتا ہے اور کبھی کبھار تو بعض مومنین اسے سے بھی اوپر چلے جاتے ہیں۔ وہ خوشی اور غم دونوں میں شکر ادا کرتے ہیں اور ہر حال کو ، وہ اللہ کا فضل سمجھتے ہیں ، یوں کہ غم میں ان کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور حسنات میں اضافہ ہوتا ہے۔ متفق علیہ حدیث ہے۔ مومنین کے مزے ہیں کہ اللہ جو فیصلہ کرتا ہے ان کے لئے اس میں خیر ہی ہوتی ہے۔ اگر مصیبت آئے تو وہ صبر کرتے ہیں تو ان کو ثواب ملتا ہے۔ اور اگر ان کو خوشی ملے تو شکر کرتے ہیں تو بھی اس کے لئے خیر ہوتی ہے اور یہ صرف مومنین کے لئے ہے “۔ واللہ بکل شیء علیم (٤٦ : ١١) ” اللہ کو ہر چیز کا علم ہے “۔ یہ تعقیب اسی لئے آئی کہ اللہ کا علم کلی ہے اور اس شخص کو بھی اس قسم کی کلی ہدایت مل جاتی ہے۔ اور یہ علم ، اللہ اس کو دیتا ہے جس کو وہ ہدایت کرنا چاہے۔ جب کسی کا ایمان صحیح ہوتا ہے تو اس کے سامنے سے کئی پردے اٹھ جاتے ہیں اور کئی اسرار اس پر واشگاف ہوجاتے ہیں۔ ایک مقدار کے مطابق۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ اللہ کے حکم سے ہے یہ سورة التغابن کے دوسرے رکوع کا ترجمہ ہے جو سات آیات پر مشتمل ہے یہ آیات متعدد مواعظ اور نصائح پر مشتمل ہیں پہلی نصیحت یہ فرمائی کہ تمہیں جو بھی کوئی مصیبت پہنچ جائے وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر راضی رہے اور جو تکلیف پہنچ جائے اس پر صبر کرے۔ سنن ابن ماجہ صفحہ ٩ میں ہے : (ان ما اصابک لم یکن لیخطئك وان ما اخطاک لم یکن لیصیبک) (یعنی یہ بات اچھی طرح جان لو کہ تمہیں جو تکلیف پہنچ گئی وہ خطا کرنے والی نہ تھی اور جو تکلیف نہیں پہنچی وہ پہنچنے والی ہی نہ تھی) لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرو اور اس پر راضی رہو، پھر فرمایا ﴿ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ باللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ ١ؕ﴾ (اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے) جس کی وجہ سے سراپار ضاء و تسلیم بن جاتا ہے تکلیف پر صبر کرتا ہے اور اس کا ثواب لیتا ہے اور ﴿اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ﴾ پڑھ کر مزید ثواب عظیم کا مستحق ہوجاتا ہے۔ ﴿وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ٠٠١١﴾ (اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے) اسے صابروں کا بھی پتہ ہے اور بےصبروں کا بھی علم ہے ہر ایک کو اس کے استحقاق کے مطابق جزادے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” ما اصاب من مصیبۃ “ مسلمانوں کے لیے تسلیہ ہے۔ اگر کفار و مشرکین کے ہاتھوں تمہیں تکلیفیں پہنچیں تو اس سے گھبرانا نہیں، یہ سب بطور آزمائش اللہ کی جانب سے ہے اس لیے اللہ پر بھروسہ کرو اور ایمان پر ثابت قدم رہو، اللہ تمہارے دلوں میں عزم و اثبات کا جذبہ پیدا فرمائے گا اور تمہیں مصائب و آلام پر صبر کرنے کی توفیق دے گا وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور مومنوں کے دلوں کا حال اس پر پوشیدہ نہیں۔ اس لیے مصیبت کے وقت ان کے دلوں کو تقویت پہنچاتا اور برداشت کی طاقت عطا فرماتا ہے، مومن پر جب مصیبت آتی ہے تو وہ اسے من جانب اللہ سمجھ کر سر تسلیم خم کردیتا اور راضی برضا ہوجاتا ہے (یہد قلبہ) عند اصابتہا للصبر والاسترجاع علی ما قیل وعن علقمہ للعلم بانہا من عنداللہ تعالیٰ فیسلم لامر اللہ تعالیٰ ویرضی بہا (روح ج 28 ص 124) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) اور کوئی مصیبت نہیں آئی اور کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہنچتی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے قلبکو صحیح راہ دکھاتا ہے اور اس کے دل کی صحیح رہنمائی فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں راہ بتادے صبر کی۔ خلاصہ : یہ کہ کوئی تکلیف یا سختی بغیر اذن الٰہی کی نہیں آتی۔ طبعاً انسان مصیبت سے گھبراتا اور جزع فزع کرتا ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اور کامل مومن ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو صبر ورضا کا راستہ بتادیتا ہے یعنی صبرورضا کی توفیق عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے یعنی وہ جانتا ہے کہ کس نے مصیبت پر صبر ورضا کی راہ اختیار کی اور کن بےصبری اور شکایت کی ڈگر پڑگیا۔