Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 8

سورة التغابن

فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۸﴾

So believe in Allah and His Messenger and the Qur'an which We have sent down. And Allah is Acquainted with what you do.

سو تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کے نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ اور اللہ تعالٰی تمہارے ہر عمل پر باخبر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنزَلْنَا ... Therefore, believe in Allah and in His Messenger and in the Light which We have sent down. that is, the Qur'an, ... وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ And Allah is All-Aware of what you do. none of your deeds ever escapes His knowledge. The Day of At-Taghabun Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نازل ہونے والا یہ نور قرآن مجید ہے، جس سے گمراہی کی تاریکیاں چھٹتی ہیں اور ایمان کی روشنی پھیلتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] یعنی قرآن ایسی کتاب ہے جس کی روشنی میں تم اقوام سابقہ کے حالات سے باخبر ہوتے ہو جن کو ٹھیک طور پر معلوم کرنے کا تمہارے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا۔ پھر وہ تمہارے موجودہ حالات میں تمہاری پوری رہنمائی کرتا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ کے لئے تمہیں ایسی ہدایات دیتا ہے، جس سے تم فتنہ و فساد اور بدامنی کی پری... شان کن زندگی سے بچ کر امن وامان کی اور اطمینان کی زندگی گزار سکو، پھر وہ تمہیں تمہارے مرنے کے بعد کے حالات سے بھی پوری طرح خبردار کر رہا ہے۔ حالانکہ ان باتوں پر اطلاع پانے کے لئے کوئی ذریعہ علم نہ تھا اور نہ ہی عقل انسانی کی ایسے حالات معلوم کرنے تک رسائی ہوسکتی ہے۔ لہذا اس روشنی کی قدر کرو اور اسے غنیمت سمجھو اور اللہ اور اس کے رسول کے پوری طرح فرمانبردار بن جاؤ۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ فَاٰمِنُوْا بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنْزَلْنَا : اس ” فائ “ کو فصیحہ کہتے ہیں ، کیونکہ وہ اس شرط کا اظہار کر رہی ہوتی ہے جو وہاں مقدر ہے ، یعنی جب تم یہ سب کچھ جان چکے تو اللہ اور اس کے رسول اور اس نور پر ایمان لے آؤ جو ہم نے نازل کیا ہے ، یعنی دل اور زبان سے انہیں سچا مان ک... ر ان کے احکام کی پیروی کرو۔ ” النور “ سے مراد اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی ہے ، کیونکہ اسی سے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ روشن ہوتا ہے ، اس میں قرآن و سنت دونوں شامل ہیں ۔ دیکھئے سورة ٔ شوریٰ (٥٢) کی تفسیر۔ ٢۔ وَ اللہ ُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ : خیبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزاء دے گا ۔ اس میں ایمان لانے والوں کے لیے وعدہ اور ایمان نہ لانے والوں کے لیے وعید ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَالنُّورِ‌ الَّذِي أَنزَلْنَا (So, believe in Allah and His Messenger, and in the light We have sent down…64:8). The word Nur [ light ] in this context refers to the Qur’ an. ‘Light’ fulfils two functions: In the first place it is itself luminous and in the second place it makes other things luminous and bright. The Qur’ an, on account of its miraculous nature, ... is itself luminous, and it illuminates what pleases or displeases Allah, the sacred laws, injunctions and commands, and the realities of the Hereafter, which human being ought to know.  Show more

(آیت) فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا ( تو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر، اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے) نور سے مراد اس جگہ قرآن ہے، کیونکہ نور کی حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی ظاہر اور روشن ہو اور دوسری چیزوں کو بھی ظاہر و روشن کر دے، قرآن کا اپنے اعجاز ک... ی وجہ سے خود روشن اور ظاہر ہونا کھلی بات ہے اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے اور ناراض ہونے کے اسباب اور احکام و شرائع اور تمام حقائق عالم آخرت جن کے جاننے کے انسان کو ضرورت ہے وہ روشن ہوجاتے ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝ ٨ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله...  وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے اہل مکہ ! رسول اکرم بعث بعد الموت کے متعلق جو کچھ تم سے بیان کرتے ہیں تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کتاب پر بھی جو ہم نے بذریعہ جبریل امین محمد پر نازل کی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ { فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } ” پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر “ یہاں آیت کے آغاز کی ” ف “ بہت اہم ہے۔ گویا گزشتہ چار آیات کے مضمون کا ربط اگلی تین آیات کے مضمون کے ساتھ اس ” ف “ سے قائم ہو رہا ہے۔ { وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنْزَلْنَاط } ” اور اس ن... ور پر جو ہم نے نازل کیا ہے۔ “ { وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۔ } ” اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “ اس آیت میں اللہ ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آخرت سے متعلق تینوں ” ایمانیات “ کا ذکر آگیا ہے۔ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر تو واضح ہے لیکن آخرت کا ذکر آیت کے آخری حصے { وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ} میں اشارتاً ہوا ہے ۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ہر انسان کے ایک ایک عمل کی نگرانی محض تحقیق و تدقیق کی غرض سے ہی تو نہیں کر رہا ہے ‘ بلکہ آخرت میں انہیں سزا یا جزا دینے کے لیے کر رہا ہے۔۔۔۔ اب اگلی دو آیات خاص طور پر ایمان بالآخرت کی دعوت سے متعلق ہیں :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 That is, "When this is the truth and the whole human history testifies that the real cause of the destruction of the nations has been their disbelieving the Messengers and their denial of the Hereafter, then they should not insist on meeting the same doom by following their example, but should believe in the guidance presented by AIlah and His Messenger and the Qur'an." Here, as the context its... elf shows, by "the Light that We have sent down", is mant the Qur'an Just as light itself is clearly seen and reveals everything that was hidden in darkness around it, so is the Qur'an a Light whose being based on the truth is self-evident ; in its Light man can solve and understand every problem that he cannot solve and understand exclusively by means of his own knowledge and in tellect Anyone who has the Light can clearly see the straight path of Truth out of the countless, crooked paths of thought and action, and can follow the Straight Path throughout life in such a way that at every step he can know where the crooked by-paths are misleading and where the pitfalls of destruction are situated on the way, and what is the path of safety and security among them.  Show more

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :18 یعنی جب یہ واقعہ ہے اور پوری انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ قوموں کی تباہی کا اصل موجب ان کا رسولوں کی بات نہ ماننا اور آخرت کا انکار کرنا تھا ، تو اسی غلط روش پر چل کر اپنی شامت بلانے پر اصرار نہ کرو اور اللہ اور اس کے رسول اور قرآن کی پیش کردہ ہدایت پر ایمان لے...  آؤ ۔ یہاں سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ روشنی سے مراد قرآن ہے ۔ جس طرح روشنی خود نمایاں ہوتی ہے اور گردو پیش کی ان تمام چیزوں کو نمایاں کر دیتی ہے جو پہلے تاریکی میں چھپی ہوئی تھیں ، اسی طرح قرآن ایک ایسا چراغ ہے جس کا بر حق ہونا بجائے خود روشن ہے ، اور اس کی روشنی میں انسان ہر اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے جسے سمجھنے کے لیے اس کے اپنے ذرائع علم و عقل کافی نہیں ۔ یہ چراغ جس شخص کے پاس ہو وہ فکر و عمل کی بے شمار پر پیچ راہوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ صاف صاف دیکھ سکتا ہے اور عمر بھر صراط مستقیم پر اس طرح چل سکتا ہے کہ ہر قدم پر اسے یہ معلوم ہوتا رہے کہ گمراہیوں کی طرف لے جانے والی پگ ڈنڈیاں کدھر کدھر جا رہی ہیں اور ہلاکت کے گڑھے کہاں کہاں آ رہے ہیں اور سلامتی کی راہ ان کے درمیان کون سی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:8) فامنوا : ف شرط محذوف کی طرف دلالت کر رہا ہے۔ ای اذا کان الامر کذلک۔ یعنی جب حشر اور قبروں سے اٹھایا جانا اور اعمال کا محاسبہ ضروری اور یقینی ہے۔ فامنوا تو ایمان لاؤ۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ایمان (افعال) مصدر یمن مادہ۔ تم ایمان لاؤ۔ النور : ای القران۔ واللہ بما تعملون خبیر : جملہ معترض... ہ تذییلی ہے۔ ایمان باللہ وایمان بالرسول وایمان بالقرآن کے متعلق حکم کی تعمیل میں جو تم کرتے ہو۔ اللہ تمہارے ان اعمال سے باخبر ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 قرآن کو نور (روشنی) اس لئے فرمایا گیا کہ اس کے ذریعہ آدمی کو کفر و ضلالت کے اندھیروں میں حق کی طرف رہنمائی ملتی ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان تاکیدوں کی روشنی میں ان کو دعوت دی جاتی ہے ، کہ اللہ اور رسول پر ایمان لاﺅ اور اللہ نے رسول پر جو تعلیمات اتاری ہیں ان کو تسلیم کرو ، وہ تو نئی روشنی ہے۔ یہ قرآن دراصل علم کی روشنی ہے ، اور قرآن جو دین و شریعت پیش کرتا ہے ، وہ بھی روشنی ہے۔ یہ تعلیم اپنی حقیقت میں نور ہیں ، کیونکہ یہ اللہ کی طرف ... سے ہے اور اللہ نور السموات والارض ہے۔ پھر یہ تعلیمات اپنے آثار کے اعتبار سے بھی نور ہیں۔ اور اپنی ذات کے لحاظ سے بھی نور ہیں۔ اس روشنی میں انسان اپنی حقیقت پالیتا ہے اور اس جہاں کے حقائق کو اس کائنات کے حقائق سے دیکھتا ہے۔ دعوت ایمان دینے کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا سب کچھ اللہ پر ظاہر ہے۔ اس سے کوئی شے مخفی نہیں رہی۔ بما تعملون خبیر (٤٦ : ٨) ” اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے “۔ اس کے باتیا جاتا ہے کہ ذرا دیکھو جس بعث بعد الموت کی تیاری کی تمہیں دعوت دی جاتی ہے۔ وہ کیسی ہوگی ؟  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایمان اور نور کی دعوت : آٹھویں آیت میں ایمان کی دعوت دی۔ ﴿ فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِيْۤ اَنْزَلْنَا ١ؕ﴾ سو تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور ایمان لاؤ اس نور پر جو ہم نے نازل فرمایا یعنی قرآن حکیم۔ ﴿وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ٠٠٨﴾ اور اللہ تمہارے ... کاموں سے باخبر ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” فامنوا باللہ “ یہ گذشتہ بیان پر متفرع ہے۔ جب دلائل واضحہ اور براہین قاطعہ سے ثابت ہوگیا کہ ساری کائنات میں متصرف و مختار اور سب کا کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے نیز معلوم ہوگیا کہ توحید کا انکار کرنے والوں کا دنیا میں بھی بدترین حشر ہوگا اور آخرت میں بھی، لہذا تم اللہ کی وحدانیت پر اور اس کے رس... ول (علیہ السلام) پر ایمان لے آؤ اور اس کتاب پر بھی ایمان لاؤ جو اللہ نے نازل فرمائی ہے اور جو کفر و شرک اور جاہلیت کے اندھیروں میں سراپا نور ہدایت ہے اگر یہ خطاب مومنوں سے ہے، تو مطلب یہ ہوگا کہ ایمان پر قائم رہو۔ اور اللہ کے احکام کی پوری پوری اطاعت کرو۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) لہٰذا جب دوسری زندگی آنے والی ہے اور جزا وسزا کا دن آنے والا ہے تو تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے یعنی قرآن پر ایمان لے آئو اور اللہ تعالیٰ ان تمام اعمال سے جو تم کرتے ہو پوری طرح باخبر ہے اور تمہارے سب اعمال کی خبر رکھتا ہے۔ یعنی جب دلائل عقلیہ اور نقلیہ ... سے یہ ثابت ہوچکا اور پیغمبر نے قسم کھا کر یہ بات کہہ دی کہ قیامت آنے والی ہے اور بعثت ہونے والی ہے تو اب تمہارے لئے اس کے سوا اور کیا چارہ کار ہے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم پر جو اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے ایمان لے آئو اور اس بات کو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے۔  Show more