Surat ut Tallaq

Surah: 65

Verse: 0

سورة الطلاق

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الطَّلَاق نام : اس سورہ کا نام ہی الطلاق نہیں ہے ، بلکہ یہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے ، کیونکہ اس طلاق ہی کے احکام بیان ہوئے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اسے سورۃ النساْ القصری بھی کہا ہے ، یعنی چھوٹی سورہ نساءْ ۔ زمانۂ نزول : حضرت عبداللہ بن مسعود صراحت فرمائی ہے ، اور سورہ کے مضمون کی اندرونی شہادت بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ اس کا نزول لازماً سورہ بقرہ کی ان آیات کے بعد ہوا ہے جن میں طلاق کے احکام پہلی مرتبہ دیئے گئے تھے ۔ اگرچہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اس کا زمانہ نزول کیا ہے لیکن بہر حال روایات سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جب سورہ بقرہ کے احکام کو سمجھنے میں لوگ غلطیاں کرنے لگے ، اور عملاً بھی ان سے غلطیوں کا صدور ہونے لگا ، تب اللہ تعالی نے ان کی اصلاح کے لئے یہ ہدایت نازل فرمائیں ۔ موضوع اور مضمون : اس سورہ کے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کر لیا جائے جو طلاق اور عدت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہو چکی ہیں: اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ، فَاِمْسَکٌ بِمَعْرُوْ فٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسِانٍ ( البقرہ ۔ 229 ) طلاق دو بار ہے ، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کر دیا جائے وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُ وْ ءٍ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَبُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّ ھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْا اِصْلَاحاً ( البقرہ ۔ 228 ) ۔ اور مطلقہ عورتیں ( طلاق کے بعد ) تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو ( اپنی زوجیت میں ) واپس لے لینے کے حق دار ہیں اگر وہ اصلاح پر آمادہ ہوں ۔ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہ مِنْ بَعْدُ حَتٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہٗ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( البقرہ ۔ 130 ) ۔ پھر اگر وہ ( تیسری بار ) اس کو طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے ہو جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِذٰا نَکَحْتُمُ الْمُؤٰمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ فَمَالَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّونَھَا ( الاحزاب ۔ 49 ) ۔ جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو ۔ وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْ نَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْ نَ اَزْوَاجاً یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرِ وَّ عَشْراً ( البقرہ ۔ 234 ) ۔ اور تم میں سے جو لوگ مر جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں چار مہینے دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ۔ ان آیات میں جو قواعد مقرر کیے گئے تھے وہ یہ تھے : 1 ) ۔ ایک مرد زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے سکتا ہے ۔ 2 ) ۔ ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گزر جانے کے بعد وہی مرد و عورت پھر نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ، اس کے لیے تحلیل کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ لیکن اگر مرد تین طلاقیں دے دے تو عدت کے اندر رجوع کا حق ساقط ہو جاتا ہے ، اور دوبارہ نکاح بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک عورت کا نکاح کسی اور مرد سے نہ ہو جائے اور وہ کبھی اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے دے ۔ 3 ) ۔ مدخولہ عورت ، جس کو حیض آتا ہو ، اس کی عدت یہ ہے کہ اسے طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آ جائے ۔ ایک طلاق یا دو طلاق کی صورت میں اس عدت کے معنی یہ ہیں کہ عورت ابھی تک اس شخص کی زوجیت میں ہے اور وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کر سکتا ہے ۔ لیکن اگر مرد تین طلاق دے چکا ہو تو یہ عدت رجوع کی گنجائش کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اس لیے ہے کہ اس کے ختم ہونے سے پہلے عورت کسی اور شخص سے نکاح نہیں کر سکتی ۔ 4 ) ۔ غیر مدخولہ عورت ، جسے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے ، اس کے لیے کوئی عدت نہیں ہے ۔ وہ چاہے تو طلاق کے بعد فوراً نکاح کر سکتی ہے ۔ 5 ) ۔ جس عورت کا شوہر مر جائے اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے ۔ اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورہ طلاق ان قواعد میں سے کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے ، بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے ۔ ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اسے استعمال کرنے کے ایسے حکیمانہ طریقے بتائے جائیں جن سے حتی الامکان علیٰحدگی کی نوبت نہ آنے پائے ، اور علیٰحدگی ہو تو بدرجہ آخر ایسی حالت میں ہو جبکہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہو چکے ہوں ۔ کیونکہ خدا کی شریعت میں طلاق کی گنجائش صرف ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر رکھی گئی ہے ، ورنہ اللہ تعالیٰ اس بات کو سخت ناپسند فرماتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان جو ازدواجی تعلق قائم ہو چکا ہو وہ پھر کبھی ٹوٹ جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مَا احَلَ اللہ شیئاً ابغضَ الیہ من الطلاق ۔ اللہ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا ہے جو طلاق سے بڑھ کر اسے ناپسند ہو ( ابو داؤد ) ۔ اور ابغض الحلال الی اللہ عزّ و جَل الطلاق ۔ تمام حلال چیزوں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے ۔ ( ابو داؤد ) ۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورہ بقرہ کے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اس شعبہ کی تکمیل کر دی جائے ۔ اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن مدخولہ عورتوں کو حیض آنا بند ہو گیا ہو ، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو ، طلاق کی صورت میں ان کی عدت کیا ہو گی ۔ اور جو عورت حاملہ ہو اسے اگر طلاق دے دی جائے یا اس کا شوہر مر جائے تو اس کی عدت کی مدت کیا ہے ۔ اور مختلف قسم کی مطلقہ عورتوں کے نفقہ اور سکونت کا انتظام کس طرح کیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ الطلاق پچھلی دو سورتوں میں مسلمانوں کو یہ تنبیہ فرمائی گئی تھی کہ وہ اپنے بیوی بچوں کی محبت میں گرفتار ہو کر اﷲ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ اب اس سورت اور اگلی سورت میں میاں بیوی کے تعلقات سے متعلق کچھ ضروری اَحکام بیان فرمائے گئے ہیں، ازدواجی تعلقات کے مسائل میں طلاق ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عملاً بہت اِفراط وتفریط پائی جاتی ہے، چنانچہ قرآنِ کریم نے اس کے بارے میں متوازن طرزِ عمل اِختیار کرنے کے لئے طلاق کے کچھ احکام سورۃ بقرہ (۲:۲۲۶ تا ۲۳۲) میں بیان فرمائے ہیں، اب اس سورت میں طلاق کے وہ احکام بیان فرمائے گئے ہیں جو وہاں بیان نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ بتایا گیا ہے کہ اگر طلاق دینی ہو تو اُس کے لئے صحیح وقت اور صحیح طریقہ کیا ہے، نیز جن عورتوں کو حیض نہ آتا ہو، اس کی عدّت کتنی ہوگی، عدّت کے دوران اُن کے سابق شوہروں کو ان کا خرچ کس معیار پر اور کب تک اٹھانا ہوگا۔ اگر اولاد ہوچکی ہو تو اس کو دُودھ پلانے کی ذمہ داری کس پر ہوگی۔ اس قسم کے اَحکام بیان فرماتے ہوئے بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر مرد اور عورت کو اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں، کیونکہ میاں بیوی کا تعلق ایسا ہے کہ ان کی ہر شکایت کا علاج عدالتوں سے نہیں مل سکتا۔ ایک متوازن خاندانی نظام اُس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک ہر فریق اﷲ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام نہ دے، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں، انہی کو دُنیا اور آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi