Surat ut Tallaq

Surah: 65

Verse: 8

سورة الطلاق

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ عَتَتۡ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہَا وَ رُسُلِہٖ فَحَاسَبۡنٰہَا حِسَابًا شَدِیۡدًا ۙ وَّ عَذَّبۡنٰہَا عَذَابًا نُّکۡرًا ﴿۸﴾

And how many a city was insolent toward the command of its Lord and His messengers, so We took it to severe account and punished it with a terrible punishment.

اور بہت سی بستی والوں نے اپنے رب کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی تو ہم نے بھی ان سے سخت حساب کیا اور انہیں عذاب دیا ان دیکھا ( سخت ) عذاب ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Punishment for defying Allah's Commandments Allah the Exalted threatens those who defy His commands, deny His Messengers and contradict His legislation, by informing them of the end that earlier nations met who did the same, وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ ... And many a town revolted against the command of its Lord and His Messengers; meaning... , they rebelled, rejected and arrogantly refused to obey Allah and they would not follow His Messengers, ... فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْرًا and We called it to a severe account, and We shall punish it with a horrible torment. meaning, horrendous and terrifying,   Show more

شریعت پر چلنا ہی ۔ ۔ روشنی کا انتخاب ہے جو لوگ اللہ کے امر کا خلاف کریں اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانیں اس کی شریعت پر نہ چلیں انہیں ڈانٹا جا رہا ہے کہ دیکھو گزشتہ لوگوں میں سے بھی جو اس روش پر چلے وہ تباہ و برباد ہوگئے جنہوں نے سرتابی سرکشی اور تکبر کیا حکم اللہ اور اتباع رسول صلی ال... لہ علیہ وسلم سے بےپرواہی برتی آخرش انہیں سخت حساب دینا پڑا اور اپنی بد کرداری کا مزہ چکھنا پڑا ۔ انجام کار نقصان اٹھایا اس وقت نادم ہنے لگے لیکن اب ندامت کس کام کی؟ پھر دنیا کے اس عذاب سے ہی اگر پلا پاک ہو جاتا تو جب بھی ایک بات تھی ، نہیں تو پھر ان کے لئے آخرت میں بھی سخت تر عذاب اور بےپناہ مار ہے ، اب اے سوچ سمجھ والوں چاہئے کہ ان جیسے نہ بنو اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو ، اے عقلمند ایماندارو اللو نے تمہاری طرف قرآن کریم نازل فرما دیا ہے ، ذکر سے مراد قرآن ہے جیسے اور جگہ فرمایا ( ترجمہ ) الخ ، ہم نے اس قرآن کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اور بعض نے کہا ہے ذکر سے مراد یہاں رسول ہے چنانچہ ساتھ ہی فرمایا ہے رسولاً تو یہ بدل اشتمال ہے ، چونکہ قرآن کے پہنچانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں تو اس مناسبت سے آپ کو لفظ ذکر سے یاد کیا گیا ، حضرت امام ابن جریر بھی اسی مطلب کو درست بتاتے ہیں ، پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت بیان فرمائی کہ وہ اللہ کی واضح اور روشن آیتیں پڑھ سناتے ہیں تاکہ مسلمان اندھیرں سے نکل آئیں اور روشنیوں میں پہنچ جائیں ، جیسے اور جگہ ہے ( الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ Ǻ۝ۙ ) 14- ابراھیم:1 ) اس کتاب کو ہم نے تجھے دیا ہے تاکہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی میں لائے ایک اور جگہ ارشاد ہے ( اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٥٧؁ۧ ) 2- البقرة:257 ) ، اللہ ایمان والوں کا کار ساز ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لاتا ہے ، یعنی کفر و جہالت سے ایمان و علم کی طرف ، چنانچہ اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ وحی کو نور فرمایا ہے کیونکہ اس سے ہدایت اور راہ راست حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام روح بھی رکھا ہے کیونکہ اس سے دلوں کی زندگی ملتی ہے ، چنانچہ ارشاد باری ہے ۔ ( ترجمہ ) یعنی ہم نے اسی طرح تیری طرف اپنے حکم سے روح کی وحی کی تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور کر دیا جس کے ساتھ ہم اپنے جس بندے کو چاہیں ہدایت کرتے ہیں یقینا تو صحیح اور سچی راہ کی رہبری کرتا ہے ، پھر ایمانداروں اور نیک اعمال والوں کا بدلہ بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت بیان ہوا ہے جس کی تفسیر بارہا گذر چکی ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 عَتَتُ ، ای تمردت وطغت و استکبرت عن اتباع امر اللہ تعالیٰ و متابعۃ رسلہ۔ 7۔ 2 نکرا، منکرا فظیعا، حساب اور عذاب، دونوں سے مراد دنیاوی مواخذہ اور سزا ہے یا پھر بقول بعض کلام میں تقدیم و تاخیر ہے۔ عذابا نکرا، وہ عذاب ہے جو دنیا میں قحط، خسف ومسخ وغیرہ کی شکل میں انہیں پہنچا، اور حسابا شدیدا وہ ہے ... جو آخرت میں ہوگا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] عائلی زندگی سے متعلق احکام بیان کرنے اور ہر ہر مقام پر اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا جنہوں نے اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اکڑ دکھائی اور سرتابی کی راہ اختیار کی تھی۔ ان کا سب سے بڑا جرم یہی تھا کہ وہ اللہ کے احکام کی کچھ پروا نہیں کرتے تھے۔ تو ہم نے ان... ہیں ان کی کرتوتوں کی ٹھیک ٹھیک سزا دے ڈالی۔ ان کا سختی سے مواخذہ کیا اور کسی کو بھی معاف نہیں کیا اور انہیں ایسی آفت میں پھنسایا جس سے وہ نکل نہ سکے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَ کَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّھَا وَرُسُلِہٖ ۔۔۔:” عتت “ ” عتا یعتو عتوا “ (ن) سے ماضی معلوم ہے ، اصل میں ” عتوت “ ہے ۔ ” نکرا “ اجنبی ، نہ پہچانا ہوا ، جو نہ دیکھا ہو نہ سنا ۔ اب تک اللہ تعالیٰ نے طلاق وغیرہ کے متعلق اپنے احکام کا ذکر فرمایا تھا، یہاں سے بتایا جا رہا ہے کہ پچھ... لی جن بستیوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کے احکام سے سرکشی اختیار کی ان کا انجام کیا ہوا ۔ مقصد مسلمانوں کو ان احکام کی اہمیت بتانا اور ان کی پابندی کی تلقین کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی اقوام کی بربادی میں شرک و کفر کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسولوں کے ان تفصیلی احکام کی مخالفت بھی تھی جو زندگی کے ہر شعبے میں انہوں نے دیے ، جس کی وجہ سے ان کے اندر حد سے بڑھی ہوئی سرکشی اور فساد پیدا ہوا ۔ مثلاً جب انہوں نے شرک و کفر کے ساتھ نکاح و طلاق کے ضابطوں کی پابندی سے سرکشی اختیار کی تو زنا اور قوم لوط کا عمل عام ہوا ، جس کی وجہ سے قتل و غارت کا بازار گرم ہوا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انکا بہت سخت محاسبہ کیا اور انہیں ایسی سزا دی جو کسی نے نہ دیکھی تھی نہ سنی تھی ۔ آج کے دور میں کفار نے شرک و کفر پر اصرار کے ساتھ ساتھ ان ضابطوں کی بھی شدید مخالفت اختیار کر رکھی ہے ، جس کے نتیجے میں ان کا معاشرہ بےپناہ بد اخلاقی ، بد امنی اور قتل و غارت کا شکار ہوچکا ہے اور بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ اب ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلمان بھی ان احکام سے آزادہو جائیں اور ان میں بھی زنا قوم لوط کا عمل اور قتل و غارت پھیل جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی امتوں کے عذاب کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو ان کے انجام سے ڈرایا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْرً‌ا (so We called them to a severe account, and punished them with an evil punishment...65:8). The severe account and evil punishment of nations mentioned in this verse refers to what will happen in the Hereafter. However, the past tense has been employed presumably to indicate the occurrence of these events is as certain ... as if it has already been materialised. [ Ruh ]. The other possibility is that the hisab or &account& in this context does not refer to interrogation, but to the determination of punishment, (in which case it may refer to the punishment faced by the infidels right here in this world.) Another possibility is that the &severe account& will though take place in the Hereafter, it has already been recorded and is being recorded on daily basis in the ledger of deeds and is therefore described as &called them to a severe account&. In this interpretation, the &punishment& refers to the past nations who were destroyed by Divine punishment in this world because they defied Allah&s and His Messengers& commandments. In this case, only the next statement أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا (Allah has prepared for them a severe punishment...10) would refer to the terrible punishment of the Hereafter.  Show more

خلاصہ تفسیر اور بہت سی بستیاں تھیں جنہوں نے اپنے رب کے حکم (ماننے) سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی سو ہم نے ان (کے اعمال) کا سخت حساب کیا (مطلب یہ کہ ان کے اعمال کفر یہ میں سے کسی عمل کو معاف نہیں کیا بلکہ سب پر سزا تجویز کی، یہاں حساب سے پرستش کے طور پر حساب مراد نہیں) اور ہم نے ان کو بڑی بھاری ... سزا دی (کہ عذاب کے ذریعہ ہلاک کئے گئے) غرض انہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھا اور ان کا انجام کا رخسار ہی ہوا (یہ تو دنیا میں ہوا اور آخرت میں) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک سخت عذاب تیار رکھا ہے (اور جب انجام نافرمانی کا یہ ہے) تو اے سمجھدار جو کہ ایمان لائے ہو تم خدا سے ڈرو (کہ ایمان بھی اس کو مقتضی ہے اور ڈرتا یہ کہ اطاعت کرو، اور اسی اطاعت کا طریقہ بتلانے کے لئے) خدا نے تمہارے پاس ایک نصیحت نامہ بھیجا ( اور وہ نصیحت نامہ دے کر) ایک ایسا رسول (بھیجا) جو تم کو اللہ کے صاف صاف احکام پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ ایسے لوگوں کو کہ جو ایمان لا دیں اور اچھے عمل کریں (کفر و جہل کی) تاریکیوں سے (ایمان اور علم و عمل کے) نور کی طرف لے آویں (مطلب یہ کہ جو نصیحت اس رسول کے ذریعہ سے پہنچے اس پر عمل کرنا بھی اطاعت ہے) اور (آگے اطاعت یعنی ایمان و عمل صالح پر وعدہ ہے کہ) جو شخص اللہ پر ایمان لاوے گا اور اچھے عمل کرے گا خدا اس کو (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جا رہی ہیں ان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے بیشک اللہ نے (ان کو بہت) اچھی روزی دی (آگے اللہ کا واجاب الاطاعت ہونا بیان کیا جاتا ہے یعنی) اللہ ایسا ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ان ہی کی طرح زمین بھی (سات پیدا کی جیسا ترمذی وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ ایک زمین کے نیچے دوسری زمین ہے اس کے نتیچے تیسری زمین اسی طرح سات زمینیں ہیں اور) ان سب (آسمانوں اور زمینوں) میں (اللہ تعالیٰ کے) احکام (تشریع یاتکوینی یا دونوں) نازل ہوتے رہتے ہیں (اور یہ اس لئے بتلا دیا گیا) تاکہ تم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہے اور اللہ ہر چیز کو (اپنے) احاطہ علمی میں لئے ہوئے ہے (اس لئے اللہ تعالیٰ کا واجب الاطاعت ہونا ظاہر ہے۔ ) معارف و مسائل (آیت) فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِيْدًا ۙ وَّعَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا۔ آیت میں ان قوموں کے حساب و عذاب کا جو ذکر ہے وہ آخرت میں ہونیوالا ہے مگر یہاں اس کو بلفظ ماضی حاسبنا اور عذبنا سے تعبیر کردینا یا تو اس کے یقینی ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ گویا یہ کام ہوچکا (کما فی الروح) اور یہ بھی ہوس کتا ہے کہ حساب سے مراد اس جگہ سوالات اور پرسش نہ ہو بلکہ اس کی سا کی تعیین ہو جیسا کہ خلاصہ تفسیر مذکور میں لیا گیا اور یہ بھی احتمال ہے کہ حساب شدید اگرچہ آخرت میں ہوگا مگر صحائف اعمال میں اس کی کتابت تو ہوچکی ہے اور ہو رہی ہے اس کو حساب کردینے سے تعبیر کیا گیا اور عذاب سے مراد دنیا کا عذاب ہو جو بہت سی پہلی قوموں پر نازل ہوا ہے اس صورت میں بعد میں آنیوالا جملہ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا صرف یہ آخرت کے عذاب سے متعلق رہے گا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہٖ فَحَاسَبْنٰہَا حِسَابًا شَدِيْدًا۝ ٠ ۙ وَّعَذَّبْنٰہَا عَذَابًا نُّكْرًا۝ ٨ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين...  معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں عتو العُتُوُّ : النبوّ عن الطاعة، يقال : عَتَا يَعْتُو عُتُوّاً وعِتِيّاً. قال تعالی: وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان/ 21] ، فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات/ 44] ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها [ الطلاق/ 8] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] ، مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم/ 8] ، أي : حالة لا سبیل إلى إصلاحها ومداواتها . وقیل :إلى رياضة، وهي الحالة المشار إليها بقول الشاعر : 310 ۔ ومن العناء رياضة الهرم«2» وقوله تعالی: أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا [ مریم/ 69] ، قيل : العِتِيُّ هاهنا مصدرٌ ، وقیل هو جمعُ عَاتٍ «3» ، وقیل : العَاتِي : الجاسي . ( ع ت و ) عتا ۔ یعتوا ۔ عتوا ۔ عتیا ۔ حکم عدولی کرنا قرآن میں ہے : فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات/ 44] تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سر کشی کی ۔ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان/ 21] اور اسی بنا پر بڑے سر کش ہورہے ہیں ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق/ 8] اپنے پروردگار کے امر سے سر کشی کی ۔ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] لیکن یہ سر کشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم/ 8] کے معنی یہ ہیں کہ میں بڑھاپے کی ایسی حالت تک پہنچ گیا ہوں جہاں اصلاح اور مداوا کی کوئی سبیل نہیں رہتی یا عمر کے اس وجہ میں ریا ضۃ بھی بیکار ہوتی ہے اور لفظ ریا ضت سے وہی معنی مراد ہیں جن کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ( الکامل ) ( 302 ) امن العناء ریاضۃ الھرم اور انتہائی بڑھاپے میں ریاضت دینا سراسر تکلیف وہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم/ 69] جو خدا سے سخت سر کشی کرتے تھے میں بعض نے کہا ہے کہ عتیا مصدر بعض نے کہا ہے کہ عات کی جمع ہے اور العانی کے معنی سنگ دل اور اجڈ بھی آتے ہیں ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، وقال عزّ وجل : وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف/ 40] ، قيل : معناه : نارا، وعذابا وإنما هو في الحقیقة ما يحاسب عليه فيجازی بحسبه، وفي الحدیث أنه قال صلّى اللہ عليه وسلم في الریح : «اللهمّ لا تجعلها عذابا ولا حسبانا»، قال تعالی: فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق/ 8] ، إشارة إلى نحو ما روي : «من نوقش الحساب عذّب» وقال تعالی: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، نحو : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء/ 47] ، وقوله عزّ وجلّ : وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة/ 26] ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة/ 20] ، فالهاء فيها للوقف، نحو : مالِيَهْ وسُلْطانِيَهْ وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران/ 199] ، وقوله عزّ وجلّ : جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم/ 36] ، فقد قيل : کافیا، وقیل : ذلك إشارة إلى ما قال : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] ، ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ان کے حسبان ہونے کی حقیقت خدا ہی جانتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف/ 40] اور وہ تمہارے باغ ) پر آسمان سے آفت بھیج دے میں بعض نے کہا ہے کہ حسبا نا کے معنی آگ اور عذاب کے ہیں اور حقیقت میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس پر محاسبہ کای جائے اور پھر اس کے مطابق بدلہ دیا جائے ۔ حدیچ میں ہے آنحضرت نے آندھی کے متعلق فرمایا : ۔ کہ الہیٰ ؟ اسے عذاب یا حسبان نہ بنا اور آیت کریمہ : ۔ فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق/ 8] تو تم نے ان کو سخت حساب میں پکڑ لیا ۔ میں حدیث کہ جس سے حساب میں سختی کی گئی اسے ضرور عذاب ہوگا کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت ) نزدیک آپہنچا ) اپنے مضمون میں وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء/ 47] کی طرح ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة/ 26] اور مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے ۔ اور آیت : ۔ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة/ 20] مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب ( وکتاب ) ضرور ملے گا ۔ میں ہ وقف کی ہے جیسا کہ میں ہے ۔إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران/ 199] بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم/ 36] یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہے انعام کثیر میں بعض نے کہا ہے کہ حسابا کے معنی کافیا کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور بہت سی بستیوں والے ایسے تھے جنہوں نے حکم خداوندی قبول کرنے اور اس کی اطاعت سے اور اس کے رسولوں کی بات ماننے سے اور رسول جو احکام لے کر آئے تھے ان کو قبول کرنے سے انکار کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨{ وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہٖ } ” اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں (علیہ السلام) سے سرکشی کی “ { فَحَاسَبْنٰـہَا حِسَابًا شَدِیْدًالا وَّعَذَّبْنٰـہَا عَذَابًا نُّکْرًا ۔ } ” تو ہم نے ان کا محاسبہ کیا بہت شدید محاسبہ او... ر ہم نے ان کو عذاب دیا بہت ہولناک عذاب۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20 Now, the Muslims are being warned of the fate the would meet I this world and in the Hereafter is they disobeyed the Commands they have been given through the Messenger of AIIah and His Book and the rewards they would receive if they adopted obedience.

سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :20 اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول اور اس کی کتاب کے ذریعہ سے جو احکام ان کو دیے گئے ہیں ان کی اگر وہ نافرمانی کریں گے تو دنیا اور آخرت میں کس انجام سے دوچار ہونگے ، اور اگر اطاعت کی راہ اختیار کریں گے تو کیا جزا پائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨۔ ١٢۔ اوپر کی آیتوں میں تعمیل طلب چند احکام کا ذکر تھا ان آیتوں میں پچھلی سرکش قوموں کی ہلاکت اور عذاب الٰہی میں پکڑے جانے کا ذکر فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ حال کے لوگوں میں سے بھی جو کوئی احکام الٰہی کی تعمیل نہ کرے گا اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو پچھلی سرکش قوموں کا ہوا۔ اوپر گزر چکا ہے کہ سب سے ... پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں اس لئے ان آیتوں میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک جو پچھلی قومیں اپنی کم عقلی اور سرکشی کے وبال میں طرح طرح کے دنیا اور عقبیٰ کے عذابوں میں گرفتار ہوگئیں ان کا حال مختصر طور پر ذکر فرما کر حال کے صاحب عقل لوگوں کو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ انہیں پچھلی قوموں جیسی کم عقلی اور سرکشی سے بچنا اور اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کے کاموں میں کوئی آدمی اگرچہ بڑا ہوشیار ہو لیکن جب وہ دنیا کے عجائبات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے پہچاننے کی عقل دہریوں کی طرح نہ رکھتا ہو تو وہ بڑا کم عقل ہے کیونکہ ایک تھوڑی سی عقل کا آدمی بھی مثلاً بستی کے باہر جنگل میں پہلی دفعہ میدان دیکھے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس میدان میں ایک خوش قطع مکان بنا ہوا دیکھے تو وہ بغیر کسی معمار کے دیکھنے کے اپنی تھوڑی سی عقل سے ضرور یہ نتیجہ نکالے گا کہ ایسے خوش قطع مکان کا بنانے والا کوئی بڑا کاریگر معمار ہے اب جن لوگوں نے دنیا کے ہزارہا عجائبات کو آنکھوں سے دیکھا کر ان عجائبات کے آثار سے بغیر دیکھے اللہ تعالیٰ کی ہستی کا اقرار نہیں کیا اور اللہ کو نہیں پہچانا بلاشک ان کی عقل میں فتور ہے اسی طرح جس شخص نے اپنی اور اپنی زیست بھر کی راحت و آرام کی چیزوں پر غور کرکے یہ نتیجہ اپنی عقل سے نہیں نکالا کہ یہ اتنا بڑا انتظام کھیل تماشے کے طور پر نہیں ہے بلکہ جتنا بڑا انتظام ہے اتنا ہی بڑا اس کا کوئی نتیجہ ضرور ہے کیونکہ تجربہ سے دنیا کا کوئی چھوٹا سا کام بھی جب بغیر کسی نتیجہ کے کوئی نہیں کرتا تو پھر دنیا بھر کا پیدا کرنا بغیر کسی نتیجہ کے کیونکر ہوسکتا ہے علاوہ اس کے یہ کم عقلی تو ایسے شخص نے کی سو کی ‘ اوپر سے یہ سرکشی بھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی معرفت آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے نیک و بد کی جزا و سزا کو دنیا کی پیدائش کا نتیجہ ایسے شخصوں کو سمجھایا تو سرکشی سے اس فہمائش کو ایسے لوگوں نے نہ مانا اور آخر اپنا دین و دنیا کا نقصان کیا معتبر سند سے شداد بن ١ ؎ اوس کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقل مند وہ شخص ہے جو موت سے پہلے موت کے بعد کا کچھ سامان کرلے۔ یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفیر ہے عتت عن امر ربھا ورسلہ کا یہ مطلب ہے کہ ان لوگوں نے سرکشی سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی فرمانبرداری نہیں کی۔ عذاباً نکراکا یہ مطلب ہے کہ ان پر ایسا عذاب آیا جو ان کے وہم و گمان سے باہر تھا۔ ایات بینات کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کی آیتوں میں دنیا کے عجائبات پر غور کرکے اس سے اللہ کو پہچاننے کا کام عقل سے لینے کا اور دنیا کے پیدا کرنے کے نتیجہ کا اور اللہ کے رسولوں کی فرمانبرداری کے اجر اور نافرمانی کے وبال کا سب ذکر ہے۔ آگے فرمایا کہ قرآن کی ان مفصل آیتوں کے نازل فرمانے اور رسولوں کے بھیجنے سے مقصود یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے احکام کے ماننے اور نیک کام کرنے کا قصد کرے دنیا میں اللہ تعالیٰ اس کو جہالت سے نکال کر اس کے دل میں نور ہدایت پیدا کرے گا اور عقبیٰ میں اس کو جنت عطا فرمائے گا قد احسن اللہ لہ رزقا کا یہ مطلب ہے کہ جنت میں عام جنتیوں کو اچھی سے اچھی وہ وہ نعمتیں ملیں گی جو یہاں بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں۔ صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم کی ابوہریرہ کی حدیث قدسی اوپر گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جنت میں نیک لوگوں کے لئے وہ نعمتیں ہیں کہ جو دنیا میں نہ کسی نے آنکھ سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کسی دل میں ان کا خیال گزرا قد احسن اللہ لہ رزقا کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں معراج کی صحیح حدیثیں گزر چکی ہیں جن ١ ؎ میں سات آسمانوں اور ان کے دروازوں کا اور سدرۃ المنتہیٰ اور آسمانوں کے اور عجائبات کا ذکر ہے۔ اسی طرح سورة النباء میں حدیثیں آئیں گی جن کا حاصل ٢ ؎ یہ ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانسو برس کی کی راہ کا فاصلہ ہے اور اسی قدر ہر ایک آسمان کی موٹائی ہے یہ سب حدیثیں آیت کے ٹکڑے اللہ الذی خلق سبع سموت کی گویا تفسیر ہیں۔ سورة النباء میں یہ صحیح حدیث بھی آئے گی کہ جو شخص ٣ ؎ ایک بالشت بھر زمین بھی کسی کو دبائے گا قیامت کے دن ساتوں زمینیں بھی تہ برتہ ہیں ومن الارض مثلھن کی تفسیر میں بعض مفسروں کا یہ قول ہے کہ سات زمینوں سے مطلب ساتوں اقلی میں ہیں لیکن یہ قول اوپر کی صحیح حدیث کے مخالف معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس حدیث کے موافق زمین کے ایک ٹکڑے کا تعلق دوسری زمین سے پایا جاتا ہے جس تعلق کے سبب سے ساتوں زمینوں کے ٹکڑوں کا ایک طوق بنایا جائے گا سات زمینوں کی ساتوں اقلی میں تضیر قرار دینے کی صورت میں یہ تعلق باقی نہیں رہتا علاوہ اس کے سورة النباء میں حدیث آئے گی کہ ایک زمین سے دوسری زمین تک پانسو برس کی راہ کا فاصلہ ہے یہ بھی زمینوں تہ بر تہ ہونے کی حالت میں ہوسکتا ہے کس لئے کہ ایک اقلیم سے دوسری اقلیم تک پانس برس کی راہ کا فاصلہ نہیں ہے پہلی زمین کی مخلوقات کا حال تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ باقی زمینوں کے حال کی تفسیر میں سلف کا اختلاف ہے۔ مستدرک حاکم تفسیر ٤ ؎ ابن جریر (رض) وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مثل پہلی زمین کے باقی زمینوں میں بھی تابع شریعت لوگ ہیں اور پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء تک وہاں انبیاء بھی آئے کتابیں بھی اتریں لیکن مستدرک ٥ ؎ حاکم اور تفسیر ابن ابی حاتم میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے جو مرفوع روایت ہے وہ اس کے برخلاف ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دوسری زمین میں ہوا ہے اور تیسری میں دوزخ کے ایندھن کے پتھر ہیں اور چوتھی میں اس ایندھن کے لئے گندھک ہے اور پانچویں میں دوزخ کے سانپ اور چھٹی میں دوزخ کے بچھو اور ساتویں میں دوزخ ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کو امام ذہبی اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی روایت کو منذری نے منکر کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان روایتوں کی تائید مشہور روایتوں سے نہیں ہوتی حافظ ابن کثیر نے یہ فیصلہ کیا ١ ؎ ہے کہ آیت میں سات آسمان اور سات زمینوں کی پیدائش کا ذکر ہے اس کا اعتقاد ہر مسلمان کو رکھنا چاہئے اور معراج کی صحیح حدیثوں میں آسمان کے عجائبات کا جس قدر ذکر ہے اس کو اور پہلی زمین میں جو اللہ کی قدرت اور حکمت کے نمونے ہیں ان کو آسمانوں اور پہلی زمین کے حال کی تفسیر سمجھنا چاہئے اور باقی زمینوں کا تفصیلی حال جبکہ کسی ناقابل اعتراض حدیث میں نہیں پایا جاتا تو قابل اعتراض روایتوں کے بھروسے پر اس اشتباہی حال کو آیت کی تفسیر نہ ٹھہرانا چاہئے حافظ ابن کثیر کے قول کے موافق حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ کے رسول کے بتانے سے آسمانوں کے اور آنکھوں کے دیکھنے سے پہلی زمین کے جو وچھ عجائبات لوگوں کو معلوم ہوئے ہیں ان پر غور کرکے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اللہ کی قدرت بہت بڑی ہے کہ جس نے اپنی قدرت سے یہ سب کچھ پیدا کیا اور اس کا علم بڑا وسیع ہے کہ اس نے دنیا کے پیدا کرنے سے ہزارہا برس پہلے دنیا کا سب انتظام اپنے علم ازلی سے معلوم کرلیا ہے جس کے موافق آسمان سے زمین پر روزانہ احکام نازل ہوتے ہیں ان احکام کے سبب سے دنیا کا ہر طرح کا انتظام چل رہا ہے ان احکام میں شرع کے احکام اور دنیا کے انتظام کے احکام نازل ہوتے ہیں جن احکام کے سبب سے دنیا کا ہر طرح کا انتظام چل رہا ہے ان احکام میں شرع کے احکام اور دنیا کے انتظام کے احکام سب داخل ہیں آیت میں یہ تنبیہ ہے کہ جب آسمان زمین کا سب انتظام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جس انتظام میں کسی کا کچھ دخل نہیں ہے تو پھر جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کے طور پر یا ریا کاری کے طور پر دوسروں کو شریک کرتے ہیں وہ بڑے نادان اور ناشکر ہیں اور جب اللہ کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ ان نافرمانوں کے عملوں سے ناواقف نہیں ہے وقت مقرہ پر ان کا کیا ان کے سامنے آئے گا جس طرح اللہ کا وعدہ ہے اس کا ظہور بلاشک ہونے والا ہے۔ (١ ؎ جامع ترمذی ابواب صفۃ یوم القیمۃ ص ٨٢ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وانھا مخلوقۃ ص ٤٦٠ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب المعراج ٥٤٨ ج ١۔ ) (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الحدید ص ١٨٥ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی سبع ارضین الخ ص ٤٥٣ ج ١۔ ) (٤ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٨٥ ج ٤۔ ) (٥ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٣٨ ج ٦۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٨٥ ج ٤۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(65:8) وکاین من قریۃ۔ واؤ عاطفہ۔ کاین بہت بکثرت۔ من تمیز بہت سی بستیاں ۔ (نیز ملاحظہ ہو 3:146) عتت : ماضی واحد مؤنث غائب۔ عتو (باب نصر) مصدر۔ ع ت و ، مادہ اس نے سرکشی کی۔ اس نے سرتابی کی۔ اس نے نافرمانی کی ۔ وہ سرتابی میں حد سے گزر گئی یہاں یہ مؤنث کا صیغہ جمع کے معنی میں بستیوں کے لئے آیا ہے۔ ا... ور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ وعتوا عن امررتھم۔ (7:77) اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی۔ ربھا : مضاف مضاف الیہ ھا ضمیر واحد مؤنث غالب بستیوں کے لئے ہے۔ ورسلہ۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ ای وعتت عن امر رسلہ اور اس (خدا) کے رسول کے حکم سے (بھی) سرکشی کی۔ فحاسبنھا : ف تعلیل کی ہے ۔ بدیں وجہ۔ حاسبنا ماضی جمع متکلم مھاسبۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب ، (بستیوں کے لئے ہے) ہم نے ان کا حساب لیا۔ ہم نے ان کا محاسبہ کیا۔ عذبنھا : عذبنا ماضی جمع متکلم تعذیب (تفعیل) مصدر۔ بمعنی عذاب دینا۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنثغائب (بستیوں کے لئے) عذابا مفعول مطلق موصوف، نکرہ صفت ، سخت، شدید، اور ہم نے ان کو سخت سرادی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 اب تک اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام کا ذکر فرمایا تھا۔ یہاں سے بتایا جا رہا ہے کہ پچھلی جن بستیوں نے احکام الٰہی کی پروا نہ کرتے ہوئے سرکشی اختیار کی ان کا حشر کیا ہوا۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو ان احکام کی اہمیت بتانا اور ان کی پابندی کی تلقین کرنا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٨ تا ١٢۔ اسرار ومعارف۔ مغربی معاشرہ۔ پھرکتنی آبادیاں ایسی ہیں جنہوں نے اللہ کے احکام کی پرواہ نہ کی جس کی روشن مثال مغرب کا جنسی بےراہ روی کا شکار معاشرہ ہے کہ مرد عورتو کے تعلقات کو محض شہوت رانی کے لیے ان کی پسند پہ چھوڑ دیا تو وہ دنیا میں اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے معاشرہ اور خاندان تباہ ہوگئ... ے اور بےراہ روی نے عزت ووقار کے ساتھ زندگی سے سکون بھی غارت کردیا پھر آخرت میں ان کے لیے ایسے بڑے عذاب ہیں کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا ، بہرحال وہ اپنے کرتوتوں کے انجام سے دوچار ہوئے اور اس بدکاری کا انجام دنیا سے کئی گنا زیادہ بھیانک اور نقصان دہ ہوگا کہ اللہ نے ان کے لیے بہت سخت عذاب تیار کر رکھے ہیں لہذا صاحب دانش کو عذاب الٰہی سے بچناچاہیے اور اللہ پر ایمان لاکر اس کی اطاعت کرنا چاہیے۔ سراپاذکر۔ اے ایمان والو ! اللہ نے تم پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور اپنارسول مبعوث فرمایا جو تمہیں اس روشن کتاب کو صاف صاف سناتا ہے اور برکات نبوت سے تم اس کتاب پر عمل کرکے اور اللہ کو دل میں بسا کر سراپا ذکر بن سکتے ہو کہ مفسرین نے ذکرارسولا سے مراد خود رسول اللہ کو بھی لیا ہے کہ کثرت ذکر سے ان کا وجود باجود خود ذکر بن گیا۔ برکات ذکر کا معیار۔ برکات رسالت اور ذکر کا حاصل یہ ہے کہ بندہ مومن ظلمت سے نور کی طرف نکلے یعنی عقیدے اور عمل کی برائی مٹنے لگے اور اطاعت الٰہی کا نور نصیب ہونے لگے چناچہ برکات ذکر کا معیار یہی ہوگا کہ عملی زندگی میں مثبت تبدیلی آنے لگے اور یہ ہر آدمی کا اس کی اپنی استعداد کے مطابق ہوگا کوئی بہت جلدی اور کوئی آہستہ آہستہ مگر نیکی محبوب ہوتی جائے گی اور بدی سے نفرت ہونے لگے گی۔ اور جو بھی اللہ پر ایمان لاکر اس کی اطاعت اختیار کرے دنیا کی سرفرازی کے ساتھ آخرت میں جنت میں داخل ہوگاجہاں بہت خوبصورت نعمتیں نصیب ہوں گی۔ سات زمینیں۔ اللہ وہ قادر ہے جس نے ساتوں آسمان بنائے اور ایسی ہی سات زمینیں پیدا کرکے نعمتوں سے بھردیں وہ اس سے اعلی جنت اور اس کی نعمتیں بھی پیدا کرسکتا ہے پھر زمینوں پر اپنے احکام نازل فرمائے کہ تم حقیقت حال جان سکو بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شے اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کیاسات زمینیں تہہ درتہہ ہیں یابراعظموں کو کہا گیا ہے علماء کی رائے مختلف ہے مگر حق یہ ہے کہ قرآن نے اس کو مبہم رکھا ہے لہذا اس بحث میں پڑنا درست نہیں اجمالی ایمان کافی ہے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ کاین۔ کتنے ہی۔ بہت سے۔ عتت۔ نافرمانی کی۔ سرکشی کی۔ حاسبنا۔ ہم نے حساب لیا۔ نکرا۔ برا۔ انوکھا۔ اولی الالباب۔ عقل والے۔ احسن۔ اس نے زیادہ خوبصورت کردیا۔ احاط۔ اس نے گھیر لیا۔ تشریح : طلاق، عدت ، نان نفقہ، عورت کی رہائش وغیرہ کے احکامات بیان کرنے کے بعد فرمایا جا رہا ہے یہ وہ احکامات ہیں...  جن پر پوری سنجیدگی سے عمل کرنا سب اہل ایمان کی ذمہ داری ہے۔ ان حقوق کے ادا کرنے میں کسی طرح کو کوتاہی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اگر اللہ کے احکامات کو نظر انداز کرکے ان سے منہ پھیرا گیا تو انہیں اپنے سے پہلے گزری ہوئی نافرمان قوموں کے عبرت ناک انجام کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ جب اللہ نے ان قوموں کی اصلاح کے لئے اپنے پیغمبروں کو بھیجا تو انہوں نے ان کی اطاعت کے بجائے ان کو جھٹلایا، ان کی نافرمانی کی اور اللہ کے احکامات کی پروا نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکا کہ ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور ان قوموں کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا کہ ان کی زندگیاں اور ان کا بنایا ہوا معاشرہ، تہذیب و تمدن اور بلند وبالا عمارتیں کھنڈ ربن گئیں۔ یہ تو ان پر دنیا کے اعتبار سے عذاب تھا آخرت میں ان کا کتنا بھیانک انجام ہے اس کا اس دنیا میں رہتے ہوئے تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ فرمایا کہ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہاری ہدایت و رہبری کے لئے بھیجا ہے جن کے ساتھ وہ عظیم کتاب ہے جسے وہ نہایت وضاحت سے پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں تاکہ ان پر ایمان لانے والوں کو زندگی کے اندھیروں سے نکال کر اس حقیقی روشنی میں لے آئیں جس سے ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ فرمایا کہ جو بھی ان پر ایمان لا کر عمل صالح کی زندگی اختیار کرے گا تو اللہ اس کو ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جس میں ہر طرف سرسبزی و شادابی، بہتی نہریں، اعلیٰ ترین رزق اور ہمیشہ کی زندگی عطا کی جائے گی۔ فرمایا کہ یہ اس اللہ کا سچا وعدہ ہے جس نے سات آسمان اور ان ہی جیسی سات زمینیں پیدا کی ہیں یا زمین کے سات طبقات پیدا کئے ہیں۔ اتنی بڑی زمین اور آسمان کا کوئی ایسا ذرہ نہیں ہے جس کا اسے علم نہ ہو۔ اس کائنات میں ہر طرح کی طاقت و قوت صرف اللہ کی ہے وہی اس کائنات کا خالق ومالک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے سورة طلاق کی تمام آیات کا ترجمہ اور مختصر تفسیر تشریح ملاحظہ فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین)  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مطلب یہ کہ ان کے اعمال کفریہ میں سے کسی عمل کو معاف نہیں کیا، بلکہ سب پر سزا تجویز کی اور پرستش کے طور پر حساب مراد نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے احکام کی جو لوگ پرواہ نہیں کرتے انہیں اپنے سے پہلے نافرمان لوگوں کے انجام کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے عائلی قوانین بیان کرتے ہوئے انہیں کئی مرتبہ حدود اللہ قرار دیا ہے اور بار بار حکم دیا ہے کہ میاں، بیوی کو حدود کے بارے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ اگر د... ونوں کے درمیان نباہ کی کوئی صورت باقی نہ رہے تو علیحدگی بھی اچھے انداز میں ہونی چاہیے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سخت عذاب دینے والا ہے۔ اگر لوگوں کو اس بات پر یقین نہیں آتا تو انہیں اپنے سے پہلے نافرمان لوگوں کا انجام اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مسلسل نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے عذاب میں مبتلا کیا جس کی مثال اس سے پہلے موجود نہ تھی ان لوگوں نے اپنے گناہوں کا انجام پایا اور ایسے لوگوں کا انجام برا ہی ہوا کرتا ہے۔ یہ ان کی دنیا میں سزاتھی آخرت میں انہیں شدید ترین عذاب دیا جائے گا۔ جو شخص اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتا ہے اسے ہر حال میں اس سے ڈرتے رہنا چاہیے کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ اے عقل والو ! ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس پر ٹھیک طریقے سے ایمان لاؤ کیونکہ اس نے تمہارے لیے اپنی نصیحت یعنی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لیے مکمل راہنمائی کا بندوبست کیا ہے۔ (یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ) (الانفال : ٢٩) ” اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کرے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ “ مسائل ١۔ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اللہ تعالیٰ نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور انہیں ہولناک عذاب میں مبتلا کیا۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والے بالآخر اپنپے کیے کی سزا پاتے ہیں۔ نافرمانوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا کرتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نافرمان لوگوں کے لیے آخرت میں شدید ترین عذاب تیار رکھا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ عقل مند لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی نصیحت کی مختلف صورتیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا۔ (آ : ٢٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر : ٢٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ : ٢٢١) ٤۔ صاحب عقل ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر : ٩) ٥۔ ہم نے جو کتاب نازل کی ہے اس میں تمہارے لیے نصیحت ہے تم عقل کیوں نہیں کرتے۔ (الانبیاء : ١٠) ٦۔ ہم نے قرآن مجید کو واضح کردیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرئیل : ٤١) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو مختلف عذابوں سے دو چار کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (الاعراف : ١٣٠) ٨۔ نہیں ہے تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور سفارشی پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ (السجدۃ : ٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وکاین من قریة ........................ رزقا (١١) (٥٦ : ٨ تا ١١) ” کتنی ہی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بری طرح سزا دی۔ انہوں نے اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور ان کا انجام کار گھاٹا ہی گھاٹا ہے ، اللہ نے (آخرت میں) ان کے لئے سخت...  عذاب مہیا کررکھا ہے۔ پس اللہ سے ڈرو۔ اے صاحب عقل لوگو ، جو ایمانلائے ہو۔ اللہ نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کردی ہے ، ایک ایسا رسول جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سناتا ہے تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔ جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ نے ایسے شخص کے لئے بہترین رزق رکھا ہے “۔ یہ ایک طویل ڈراوا ہے ، جس کی تفصیلی مناظر ہیں۔ پھر جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کو ایمان کی روشنی نصیب ہوئی ہے ان کو بتایا گیا کہ یہ تم پر اللہ کا بہت بڑا کرم ہے اور اس کا بدلہ تمہیں قیامت میں ملے گا اور قیامت کا بدلہ ہی دراصل رزق حسن ہے۔ تاریخ جن لوگوں نے رسالت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا اور نافرمانی کی ہے تو اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ نافرمانوں کو اس نے پکڑا ہے۔ وکاین .................... عذابا نکرا (٥٦ : ٨) ” کتنی ہی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بری طرح سزا دی “۔ ان کی پکڑ کی تفصیل اور سخت حساب اور سخت عذاب اور برے انجام کی تصویر یہ تھی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” وکاین من قریۃ “ خانگی امور انتظامیہ طلاق، عدت، سکنی، نفقہ اور رضاعت کے احکام بیان کرنے کے بعد تخویف دنیوی و اخروی سنائی گئی۔ تاکہ احکام خداوندی سے بغاوت کرنے والوں کو اپنے انجام بد کا علم ہوجائے اور نیک لوگ بھی اس سے عبرت حاصل کریں۔ فرمایا بہت سی بستیاں ایسی تھیں جن کے باشندوں نے اپنے پروردگا... ر اور اس کے رسولوں کے احکام سے سرکشی کی اور روگدانی کی تو ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور ان کو نہایت دردناک سزا دی اس طرح انہوں نے اپنے کرتوتوں کا مزہ چکھ لیا اور انجام کار دین و دنیا کا خسارہ اٹھایا اور پھر آخرت میں بھی اللہ نے ان کے لیے شدید ترین عذاب تیار کر رکھا ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) چونکہ اوپر کی آیتوں میں طلاق کے احکام اور مطلقات کے حقوق بیان فرمائے تھے اس لئے آگے تنبیہہ کے طور پر بعض ایسی بستیوں کا ذکر فرمایا جو حضرت حق تعالیٰ اور اس کے رسولوں کا حکم نہ ماننے کی وجہ سے تباہ کردی گئیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے اور بہت بستیوں نے اپنے پروردگار کے حکم اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرت... ابی کی تو ہم نے ان سے سخت حساب لیا اور ان کو ایسی سزا دی جو کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ مطلب یہ ہے کہ تکبر کرنے وہ بستیاں حد سے نکل گئیں اور ان کے رہنے والوں نے سرکشی اور سرتابی کی راہ اختیار کی تو ہم نے سخت حساب لیا یعنی ایک گناہ بھی ان کا معاف نہیں کیا اور ایسا عذاب کیا جو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا یعنی ان دیکھا اور غیر متوقع عذاب۔  Show more