Surat ut Tehreem

Surah: 66

Verse: 6

سورة التحريم

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶﴾

O you who have believed, protect yourselves and your families from a Fire whose fuel is people and stones, over which are [appointed] angels, harsh and severe; they do not disobey Allah in what He commands them but do what they are commanded.

اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالٰی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Teaching One's Family the Religion and Good Behavior Allah's advice to يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا ... O you who believe! ... قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا .... Protect yourselves and your families against a Fire (Hell) Ali bin Abi Talhah reported from Ibn `Abbas; He said, "Work in the obedience of Allah, avoid disobedience of Allah and order your fami... lies to remember Allah, then Allah will save you from the Fire." Mujahid also commented on: قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (Protect yourselves and your families against a Fire (Hell)) saying, "Have Taqwa of Allah and order your family to have Taqwa of Him." Qatadah said, "He commands obedience to Allah, to not disobey Allah, he orders his family to obey His orders and helps them to act upon His orders. When one sees disobedience, he stops them and forbids them from doing it." Similar was said by Ad-Dahhak and Muqatil; "It is an obligation for the Muslim to teach his near family members, and his male and female slaves what Allah has made obligatory for them and what Allah has forbidden for them." There is a Hadith that confirms the meaning of this Ayah. Ahmad, Abu Dawud and At-Tirmidhi recorded that Ar-Rabi` bin Sabrah said that his father said that the Messenger of Allah said, مُرُوا الصَّبِيَّ بِالصَّلَةِ إِذَا بَلَغَ سَبْعَ سِنِينَ فَإِذَا بَلَغَ عَشْرَ سِنِينَ فَاضْرِبُوهُ عَلَيْهَا Order the children to pray when they reach the age of seven and when they reach the age of ten, discipline them for (not performing) it. This is the narration that Abu Dawud collected; At-Tirmidhi said, "This Hadith is Hasan." Fuel for Hell and a Description of its Angels Allah said, ... وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ... whose fuel is men and stones, indicating that the Children of Adam will be fuel for the Fire that will feed it, وَالْحِجَارَةُ and stones, in reference to the idols that were worshipped, just as Allah said in another Ayah, إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ Certainly you and that which you are worshipping now besides Allah, are (but) fuel for Hell! (21:98) Abdullah bin Mas`ud, Mujahid, Abu Ja`far Al-Baqir and As-Suddi said that these are sulfur stones that are more putrid than rotten corpses, according to Mujahid. Allah's statement, ... عَلَيْهَا مَلَيِكَةٌ غِلَظٌ شِدَادٌ ... over which are (appointed) angels stern (and) severe, means, their nature of behavior is stern, because the mercy has been taken out of their hearts for those who disbelieve in Allah, شِدَادٌ severe, meaning, their structure is powerful, strong and frightening, ... لاَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُوْمَرُونَ who disobey not the commands they receive from Allah, but do that which they are commanded. meaning, whatever Allah commands them, they rush to obey Him, without delay for even a twinkling of an eye. They are able to fulfill the command; they are called Az-Zabaniyah, meaning, the keepers and guards of Hell, may Allah give us shelter from them. No Excuse will be accepted from the Disbeliever on the Day of Resurrection Allah said, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لاَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ   Show more

ہمارا گھرانہ ہماری ذمہ داریاں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ارشاد ربانی ہے کہ اپنے گھرانے کے لوگوں کو علم و ادب سکھاؤ ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کے فرمان بجا لاؤ اس کی نافرمانیاں مت کرو اپنے گھرانے کے لوگوں کو ذکر اللہ کی تاکید کرو تاکہ اللہ تمہیں جہنم سے بچا لے ، مجاہد فرماتے ہیں اللہ سے...  ڈرو اور اپنے گھر والوں کو بھی یہی تلقین کرو ، قتادہ فرماتے ہیں اللہ کی اطاعت کا انہیں حکم دو اور نافرمانیوں سے روکتے رہو ان پر اللہ کے حکم قائم رکھو اور انہیں احکام اللہ بجا لانے کی تاکید کرتے رہو نیک کاموں میں ان کی مدد کرو اور برے کاموں پر انہیں ڈانٹو ڈپٹو ۔ ضحاک و مقاتل فرماتے ہیں ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنے رشتے کنبے کے لوگوں کو اور اپنے لونڈی غلام کو اللہ کے فرمان بجا لانے کی اور اس کی نافرمانیوں سے رکنے کی تعلیم دیتا رہے ، مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب بچے سات سال کے ہو جائیں انہیں نماز پڑھنے کو کہتے سنتے رہا کرو جب دس سال کے ہو جائیں اور نماز میں سستی کریں تو انہیں مار کر دھمکا کر پڑھاؤ ، یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ، فقہاء کا فرمان ہے کہ اسی طرح روزے کی بھی تاکید اور تنبیہہ اس عمر سے شروع کر دینی چاہئے تاکہ بالغ ہونے تک پوری طرح نماز روزے کی عادت ہو جائے اطاعت کے بجالانے اور معصیت سے بچنے رہنے اور برائی سے دور رہنے کا سلیقہ پیدا ہو جائے ۔ ان کاموں سے تم اور وہ جہنم کی آگ سے بچ جاؤ گے جس آگ کا ایندھن انسانوں کے جسم اور پتھر ہیں ان چیزوں سے یہ آگ سلگائی گئی ہے پھر خیال کر لو کہ کس قدر تیز ہوگی؟ پتھر سے مراد یا تو وہ پتھر ہے جن کی دنیا میں پرستش ہوتی رہی جیسے اور جگہ ہے ترجمہ تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو ، یا گندھک کے نہایت ہی بدبو دار پتھر ہیں ، ایک رویات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اس وقت آپ کی خدمت میں بعض اصحاب تھے جن میں سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہنم کے پتھر دنیا کے پتھروں جیسے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جہنم کا ایک پتھر ساری دنیا کے تمام پتھروں سے بڑا ہے انہیں یہ سن کر غشی آ گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دل پر ہاتھ رکھا تو وہ دل دھڑک رہا تھا آپ نے انہیں آواز دی کہ اے شیخ کہو لا الہ الل اللہ اس نے اسے پڑھا پھر آپ نے اسے جنت کی خوشخبری دی تو آپ کے اصحاب نے کہا کیا ہم سب کے درمیان صرف اسی کو یہ خوشخبری دی جا رہی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں دیکھو قرآن میں ہے ترجمہ یہ اس کے لئے ہے جو میرے سامنے کھڑا ہونے اور میرے دھمکیوں کا ڈر رکھتا ہو ، یہ حدیث غریب اور مرسل ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے اس آگ سے عذاب کرنے والے فرشتے سخت طبیعت والے ہیں جن کے دلوں میں کافروں کے لئے اللہ نے رحم رکھا ہی نہیں اور جو بدترین ترکیبوں میں بڑی بھاری سزائیں کرتے ہیں جن کے دیکھنے سے بھی پتہ پانی اور کلیجہ چھلنی ہو جائے ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جب دوزخیوں کا پہلا جتھا جہنم کو چلا جائے گا تو دیکھے گا کہ پہلے دروازہ پر چار لاکھ فرشتے عذاب کرنے والے تیار ہیں جن کے چہرے بڑے ہیبت ناک اور نہایت سیاہ ہیں کچلیاں باہر کو نکلی ہوئی ہیں سخت بےرحم ہیں ایک ذرے کے برابر بھی اللہ نے ان کے دلوں میں رحم نہیں رکھا اس قدر جسیم ہیں کہ اگر کوئی پرند ان کے ایک کھوے سے اڑ کر دوسرے کھوے تک پہنچنا چاہے تو کئی مہینے گذر جائیں ، پھر دروازہ پر انیس فرشتے پائیں گے جن کے سینوں کی چوڑائی ستر سال کی راہ ہے پھر ایک دروازہ سے دوسرے دروازہ کی طرف دھکیل دیئے جائیں گے پانچ سو سال تک گرتے رہنے کے بعد دوسرا دروازہ آئے گا وہاں بھی اسی طرح ایسے ہی اور اتنے ہی فرشتوں کو موجود پائیں گے اسی طرح ہر ایک دروازہ پر یہ فرشتے اللہ کے فرمان کے تابع ہیں ادھر فرمایا گیا ادھر انہوں نے عمل شروع کر دیا ان کا نام زبانیہ ہے اللہ ہمیں اپنے عذاب سے پناہ دے آمین ۔ قیامت کے دن کفار سے فرمایا جائے گا کہ آج تم بیکار عذر پیش نہ کرو کوئی معذرت ہمارے سامنے نہ چل سکے گی ، تمہارے کرتوت کا مزہ تمہیں چکھنا ہی پڑے گا ۔ پھر ارشاد ہے کہ اے ایمان والو تم سچی اور خالص توبہ کرو جس سے تمہارے اگلے گناہ معاف ہو جائیں میل کچیل دھل جائے ، برائیوں کی عادت ختم ہو جائے ، حضرت نعمان بن بشیر نے اپنے ایک خطبے میں بیان فرمایا کہ لوگو میں نے حضرت عمر بن خطاب سے سنا ہے کہ خلاص توبہ یہ ہے کہ انسان گناہ کی معافی چاہے اور پھر اس گناہ کو نہ کرے اور روایت میں ہے پھر اس کے کرنے کا ارادہ بھی نہ کرے ، حضرت عبداللہ سے بھی اسی کے قریب مروی ہے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے جو ضعیف ہے اور ٹھیک یہی ہے کہ وہ بھی موقوف ہی ہے واللہ اعلم ، علماء سلف فرماتے ہیں توبہ خالص یہ ہے کہ گناہ کو اس وقت چھوڑ دے جو ہو چکا ہے اس پر نادم ہو اور آئندہ کے لئے نہ کرنے کا پختہ عزم ہو ، اور اگر گناہ میں کسی انسان کا حق ہے تو چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ حق باقاعدہ ادا کر دے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نادم ہونا بھی توبہ کرنا ہے ، حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں ہمیں کہا گیا تھا کہ اس امت کے آخری لوگ قیامت کے قریب کیا کیا کام کریں گے؟ ان میں ایک یہ ہے کہ انسان پاین بیوی یا لونڈی سے اس کے پاخانہ کی جگہ میں وطی کرے گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق حرام کر دیا ہے اور جس فعل پر اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی ہوتی ہے ، اسی طرح مرد مرد سے بدفعلی کریں گے جو حرام اور باعث ناراضی اللہ و رسول اللہ ہے ، ان لوگوں کی نماز بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں جب تک کہ یہ توبہ نصوح نہ کریں ، حضرت ابو ذر نے حضرت ابی سے پوچھا توبتہ النصوح کیا ہے؟ فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا تو آپنے فرمایا قصور سے گناہ ہو گیا پھر اس پر نادم ہونا اللہ تعالیٰ سے معافی چاہنا اور پھر اس گناہ کی طرف مائل نہ ہونا ، حضرت حسن فرماتے ہیں توبہ نصوح یہ ہے کہ جیسے گناہ کی محبت تھی ویسا ہی بغض دل میں بیٹھ جائے اور جب وہ گناہ یاد آئے اس سے استغفار ہو ، جب کوئی شخص توبہ کرنے پر پختگی کر لیتا ہے اور اپنی توبہ پر جما رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام اگلی خطائیں مٹا دیتا ہے جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ اسلام لانے سے پہلے کی تمام برائیاں اسلام فنا کر دیتا ہے اور توبہ سے پہلے کی تمام خطائیں توبہ سوخت کر دیتی ہے ، اب رہی یہ بات کہ توبہ نصوح میں یہ شرط بھی ہے کہ توبہ کرنے والا پھر مرتے دم تک یہ گناہ نہ کرے ۔ جیسے کہ احادیث و آثار ابھی بیان ہوئے جن میں ہے کہ پھر کبھی نہ کرے ، یا صرف اس کا عزم راسخ کافی ہے کہ اسے اب کبھی نہ کروں گا گو پھر بہ مقتضائے بشریت بھولے چوکے ہو جائے ، جیسے کہ ابھی حدیث گذری کہ توبہ اپنے سے پہلے گناہوں کو بالکل مٹا دیتی ہے ، تو تنہا توبہ کے ساتھ ہی گناہ معاف ہو جاتے ہیں یا پھر مرتے دم تک اس کام کا نہ ہونا گناہ کی معافی کی شرط کے طور پر ہے؟ پس پہلی بات کی دلیل تو یہ صحیح حدیث ہے کہ جو شخص اسلام میں نیکیاں کرے وہ اپنی جاہلیت کی برائیوں پر پکڑا نہ جائے گا اور جو اسلام لا کر بھی برائیوں میں مبتلا رہے وہ اسلام اور جاہلیت کی دونوں برائیوں میں پکڑا جائے گا ، پس اسلام جو کہ گناہوں کو دور کرنے میں توبہ سے بڑھ کر ہے جب اس کے بعد بھی اپنی بدکردارویوں کی وجہ سے پہلی برائیوں میں بھی پکڑ ہوئی تو توبہ کے بعد بطور اولیٰ ہونی چاہئے ۔ واللہ اعلم ۔ لفظ عسی گو تمنا امید اور امکان کے معنی دیتا ہے لیکن کلام اللہ میں اس کے معنی تحقیق کے ہوتے ہیں پس فرمان ہے کہ خالص توبہ کرنے والے قطعاً اپنے گناہوں کو معاف کروا لیں گے اور سرسبز و شاداب جنتوں میں آئیں گے ۔ پھر ارشاد ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو ہرگز شرمندہ نہ کرے گا ، انہیں اللہ کی طرف سے نور عطا ہو گا جو ان کے آگے آگے اور دائیں طرف ہو گا ۔ اور سب اندھیروں میں ہوں گے اور یہ روشنی میں ہوں گے ، جیسے کہ پہلے سورہ حدید کی تفسیر میں گذر چکا ، جب یہ دیکھیں گے کہ منافقوں کو جو روشنی ملی تھیں عین ضرورت کے وقت وہ ان سے چھین لی گئی اور وہ اندھیروں میں بھٹکتے رہ گئے تو دعا کریں گے کہ اے اللہ ہمارے ساتھ ایسا نہ ہو ہماری روشنی تو آخر وقت تک ہمارے ساتھ ہی رہے ہمارا نور ایمان بجھنے نہ پائے ۔ بنو کنانہ کے ایک صحابی فرماتے ہیں فتح مکہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے میں نے نماز پڑھی تو میں نے آپ کی اس دعا کو سنا ( ترجمہ ) میرے اللہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنا ، ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن سب سے پہلے سجدے کی اجازت مجھے دی جائے گی اور اسی طرح سب سے پہلے سجدے سے سر اٹھانے کی اجازت بھی مجھی کو مرحمت ہو گی میں اپنے سامنے اور دائیں بائیں نظریں ڈال کر اپنی امت کو پہچان لوں گا ایک صحابی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کیسے پہچانیں گے؟ وہاں تو بہت سی امتیں مخلوط ہوں گی آپ نے فرمایا میری امت کے لوگوں کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ ان کے اعضاء وضو منور ہوں گے چمک رہے ہوں گے کسی اور امت میں یہ بات نہ ہو گی دوسری پہچان یہ ہے کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے ، تیسری نشانی یہ ہو گی کہ سجدے کے نشان ان کی پیشانیوں پر ہوں گے جن سے میں پہچان لوں گا چوتھی علامت یہ ہے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے ہو گا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6 ۔ 1 اس میں اہل ایمان کو ان کی ایک نہایت اہم ذمے داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور وہ ہے اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح اور ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا اہتمام تاکہ یہ سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جب بچہ سات سال کی عمر کو...  پہنچ جائے تو اسے نماز کی تلقین کرو اور دس سال عمر کے بچوں میں نماز سے تساہل دیکھو تو انہیں سرزنش کرو سنن ابی داؤد۔ فقہا نے کہا ہے اسی طرح روزے ان سے رکھوائے جائیں اور دیگر احکام کے اتباع کی تلقین انہیں کی جائے تاکہ جب وہ شعور کی عمر کو پہنچیں تو اس دین حق کا شعور بھی انہیں حاصل ہوچکا ہو۔ ابن کثیر۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] یعنی مسلمانوں کو محض اپنی ذات کی اصلاح پر ہی اکتفا نہ کرلینا چاہیے بلکہ اہل و عیال پر بھی اتنی ہی توجہ دینا چاہیے اور اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی دین کی راہ پر چلانا چاہیے اور اس کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرنا چاہئے۔ ڈرا کر سمجھا کر، پیار سے، دھمکی سے، مار سے جس طرح بھی بن پڑے۔ انہیں اس ... راہ پر لانے کی کوشش کرے۔ اس کی بہترین تفسیر وہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص راعی (نگہبان) ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی (کہ اس نے ان کی اصلاح کیوں نہ کی تھی) امام بھی راعی ہے، اسے اپنی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے، اسے اپنی رعیت سے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر کی راعی ہے، اسے اس کے متعلق پوچھا جائے گا (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب قولہ تعالیٰ من بعد وصیۃ۔۔ ) اس لحاظ سے ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح کرے ورنہ اس سے باز پرس ہوگی۔ [١٣] پتھر سے مراد وہ پتھروں کے بت بھی ہیں جن کی مشرک دنیا میں پوجا کرتے رہے ہیں۔ تاکہ مشرکوں کی حسرت و یاس میں مزید اضافہ ہو اور پتھری کوئلہ بھی جس میں آگ کی حرارت کی شدت عام کوئلہ سے بدرجہا زیادہ ہوتی ہے اور گندھک اور گندھک ملے دوسرے تمام جمادات اور پتھروں کی قسم کے شعلہ گیر مادے بھی۔ جو آگ کی حرارت میں شدت پیدا کردیتے ہیں۔ [١٤] جہنم پر مقرر کردہ فرشتوں کی تین صفات مذکور ہوئیں ایک یہ کہ وہ سخت دل ہیں، انہیں کسی پر رحم نہیں آئے گا۔ دوسرے سخت گیر ہیں، جو عذاب دیں گے، پوری سختی اور قوت کے ساتھ دیں گے۔ تیسرے وہ دوزخیوں کی چیخ و پکار اور التجاؤں کا کوئی اثر قبول نہ کریں گے، بلکہ وہی کچھ کریں گے جو اللہ کی طرف سے انہیں حکم ملا ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ یٰٓـاَیَّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا : پچھلی آیات میں امہات المومنین کی تربیت اور ان کے اعمال و اخلاق کی اصلاح کا بیان تھا ، اب تمام ایمان والوں کو اس کا حکم دیا جا رہا ہے۔” نارا ‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے ، یعنی اس عظیم آگ سے بچ جاؤ ۔” قوا “ ( بچاؤ) ” و قی...  یقی وقیا و و قایۃ “ (ض) سے امر حاضر جمع مذکر ہے۔ اس میں ایمان والوں کو ایک نہایت اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائیں اور اس کے ساتھ اپنے گھر والوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے اعمال و اخلاق کی اصلاح کا اہتمام کر کے انہیں بھی جہنم کی آگ سے بچائیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( کلکم راع و کلم مسؤل عن رعیتہ) ( بخاری ، الجمۃ ، باب الجمعۃ فی القری والمدن : ٨٩٣)” تم میں سے ہر ایک راعی ( نگہبان) ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جانے والا ہے “۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت کے ہر فرد کو اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دینے اور اس پر پابند رہنے کا حکم دیا، فرمایا :(وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا) (طہٰ : ١٣٢)” اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ “ ۔ اس مقصد کے لیے بچپن ہی سے انہیں نماز روزے اور اسلام کے دوسرے احکام پر عمل کی عادت ڈالنی چاہیے اور سمجھ دار ہونے پر اس کے لیے سختی کی ضرورت ہو تو وہ بھی کرنی چاہیے ، خواہ ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں اور سن تمیز شروع ہونے کے ساتھ ہی انہیں جنسی بےراہ روی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عبد اللہ بن عمر و (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( مروا اولاد کم بالصلاۃ وھم ابناء سبع سنین واضربوھم علیھا وھم ابناء عشر سنین و فرقوا بینھم فی المضاجع) (ابو داؤد ، الصلاۃ ، باب متی یوم الغلام بلالصلاۃ ، ٤٩٥، وقال الالبانی حسن صحیح)” اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو ، جب وہ سات برس کے ہوں اور اس پر انہیں مارو جب وہ دس برس کے ہوں اور بستروں میں انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دو “۔ ٢ وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ بقرہ (٢٤) کی تفسیر۔ ٣۔ عَلَیْہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ ۔۔۔۔۔:” غلاظ “ ” غلیظ “ کی جمع ہے، سخت دل والے ، بےرحم اور ” شداد ‘ ” شدید “ کی جمع ہے ، سخت قوت والے ، نہایت مضبوط ۔ یہاں جہنم پر مقرر فرشتوں کے چار اوصاف بیان ہوئے ہیں ۔ ١۔ وہ نہایت سخت دل ہیں ، انہیں کسی پر رحم نہیں آئے گا۔ ٢۔ سخت قوت والے ہیں ، کوئی ان کی گرفت سے نکل نہیں سکے گا ۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ انہیں جو حکم بھی دے اس کی نافرمانی نہیں کرتے ۔ ٤۔ اور وہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کرتے ، بلکہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ انبیائ (٢٧)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ (0 those who believe, save yourselves and your families from a fire...66:6). This verse addresses the general body of Muslims and enjoins upon them to safeguard themselves and their families from a fire of Hell whose fuel is people and stones. Then the verse goes on to describe the intensity and horror of the Hell-Fire. Towards the end of it the angels in ... charge of it, whose name is Zabaniah, are described. They are harsh and terrible from whom no inmate of Hell will be able to rescue himself by force, power, strength, flattery or bribery. The word أَهْلِيكُمْ (your families) comprehends wife, children and slaves [ males as well as females ]. It is not inconceivable to include full-time servants in the imperative like slaves. When this verse was revealed, Sayyidna ` Umar (رض) inquired: |"O Messenger of Allah, we understand how to save ourselves from Hell, that is, we guard ourselves against sins and carry out the Divine injunctions, but how do we safeguard our families from Hell?|" The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied: |"Instruct them to refrain from deeds that Allah has prohibited, and ask them to carry out deeds that Allah has enjoined. This will rescue them from the Hell-Fire.|" [ Ruh-u1-Ma’ ani ] Education and Training of Wife and Children: Every Muslim&s Responsibility The jurists have pointed out that, according to the verse under comment, it is the responsibility of every Muslim to educate the wife and children in matters of Shari obligations, and in matters of halal and Haram and train them diligently to act upon them. A hadith says, |"May Allah shower His mercy upon a person who says: &0 my wife and children, (be mindful of) your prayers, your fasting, your alms, your indigent, your orphan, your neighbour! It is hopeful that Allah will gather all these with him in Paradise|" &Your prayers, your fasting& and so on& implies &Take care of them. Do not ignore them.& The phrase مسکینکم یتیمکم &Your indigent, your orphan and so on& implies &Fulfill their rights towards them willingly and readily.& Righteous elders have said that the person deepest in punishment on the Day of Judgment will be the one whose family is ignorant and unaware of the religion. [ Ruh ] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَا تَعْتَذِرُ‌وا الْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (0 those who disbelieve, do not make excuses today. You will only be recompensed for what you have been doing....66:7) After advising the general body of believers, the current verse turns attention to the non-believers who are asked not to try to make excuses, because they will not be accepted. They will be told that they are merely being repaid for what they did.  Show more

خلاصہ تفسیر اے ایمان والو (جب رسول کی بیبیوں کو بھی عمل صالح اور اطاعت سے چارہ نہیں جیسا کہ اوپر معلوم ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس پر مامور ہیں کہ اپنی ازواج کو نصیحت کرکے عمل صالح پر آمادہ کریں تو باقی سب امت پر بھی یہ فریضہ اور زیادہ موکد ہوگیا کہ اپنے اہل و عیال کی اصلاح ... اعمال و اخلاق میں غفلت نہ برتیں اسلئے حکم دیا گیا کہ) تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) اس آگ سے بچاؤ جسکا ایندھن (سوختہ) آدمی اور پتھر ہیں (اپنے کو بچانا خود اطاعت احکام کرنا اور گھر والوں کو بچانا ان کو احکام الہیہ کا سکھانا اور ان پر عمل کرانے کے لئے زبان سے ہاتھ سے بقدر امکان کوشش کرنا ہے۔ آگے اس آگ کی دوسری حالت کا بیان ہے کہ) جس پر تند خو (اور) مضبوط (قوی) فرشتے (متعین) ہیں (کہ نہ وہ کسی پر رحم کریں نہ کوئی ان کا مقابلہ کرکے بچ سکے) جو خدا کی (ذرا) نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے اور جو کچھ ان کو حکم دیا جاتا ہے اس کو (فوراً ) بجالاتے ہیں (غرض اس دوزخ پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو کافروں کو دوزخ میں داخل کرکے چھوڑیں گے اور اس وقت کافروں سے کہا جائے گا کہ) اے کافرو تم آج عذر (ومعذرت) مت کرو۔ (کہ بےسود ہے) بس تم کو تو اسی کی سزا مل رہی ہے جو کچھ تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے۔ معارف ومسائل قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ ، الآیة، اس آیت میں عام مسلمانوں کو حکم ہے کہ جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی پھر نار جہنم کی ہولناک شدت کا ذکر فرمایا اور آخر میں یہ بھی فرمایا کہ جو اس جہنم کا مستحق ہوگا وہ کسی زور طاقت جتھہ یا خوشامد یا رشوت کے ذریعہ ان فرشتوں کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا جو جہنم پر مسلط ہیں جنکا نام زبانیہ ہے۔ لفظ اَهْلِيْكُمْ میں اہل و عیال سب داخل ہیں جن میں بیوی، اولاد، غلام، باندیاں سب داخل ہیں اور بعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر چاکر بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آگئی (کہ ہم گناہوں سے بچیں اور احکام الٰہی کی پابندی کریں) مگر اہل و عیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اور جن کاموں کے کرنے کا تم کو حکم دیا ہے تم ان کے کرنے کا اہل ویعال کو بھی حکم کرو تو یہ عمل انکو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا (روح المعافی) بیوی اور اولاد کی تعلیم و تربیت ہر مسلمان پر فرض ہے حضرات فقہا نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال و حرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لئے کوشش کرے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت نازل کرے جو کہتا ہے اے میرے بیوی بچو، تمہاری نماز، تمہارا روزہ، تمہاری زکوٰة، تمہارا مسکین، تمہارا یتیم، تمہارے پڑوسی، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اسکے ساتھ جنت میں جمع فرمائیں گے۔ تمہاری نماز، تمہارا روزہ وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کا خیال رکھو اس میں غفلت نہ ہونے پائے اور مسکینکم یتیمکم وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جو حقوق تمہارے ذمہ ہیں ان کی خوشی اور پابندی سے ادا کرو اور بعض بزرگوں نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب میں وہ شخص ہوگا جس کے اہل و عیال دین سے جاہل وغافل ہوں (روح) عام مومنین کی نصیحت کے بعد کفار کو خطاب ہے کہ اب تمہارا کیا ہوا تمہارے سامنے آرہا ہے اب کوئی عذر کسی کا قبول نہیں کیا جاسکتا يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ کا یہی مطلب ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَيْہَا مَلٰۗىِٕكَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ۝ ٦ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك ... : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 56] ، وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد/ 34] ، ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد/ 37] ، قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم/ 6] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 56] اور خدا ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے گا ۔ وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد/ 34] اور ان خدا کے عذاب سے کوئی بھی بچانے والا نہیں ۔ ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد/ 37] تو خدا کے سامنے نہ کوئی تمہارا مدد گار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ۔ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم/ 6] اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ وقد يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران/ 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ ( و ق د ) وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران/ 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج/ 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ حجر الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه : أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ( ح ج ر ) الحجر سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ فرشته الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج/ 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك . ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا } ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔ غلظ الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير . قال تعالی: وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] ، وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة/ 73] ، واسْتَغْلَظَ : تهيّأ لذلک، وقد يقال إذا غَلُظَ. قال : فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] . ( ع ل ظ ) الغلظۃ ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] عذاب شدید سے ۔ وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة/ 73] کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو ۔ استغلظ کے معنی موٹا اور سخت ہونے کو تیار ہوجانا ہیں اور کبھی موٹا اور سخت ہوجانے پر بھی بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

انسان پر اہل وعیال کی ذمہ داری ہے قول باری ہے (یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھنیکم نارا۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچائو) حضرت علی (رض) سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ ” اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو خیر کی تعلیم دو ۔ “ حسن کا قول ہے ” تم انہیں تعلیم دو ، ا... نہیں امربا لمعروف اور نہی عن المنکر کرو۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہماری ذمہ ہماری اولاد اور اہل وعیال کو دین کی ، بھلائی کی اور ضروری آداب کی تعلیم دینا فرض ہے۔ یہ آیت اس قول باری کی طرح ہے (وامر اھلک بالصلوٰۃ واصطبرعلیھا، اپنے اہل وعیال کو نماز کا حکم دو اور اس پر خودبھی جمے رہو) اسی طرح یہ قول باری ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا گیا ہے (وانذر عشیرتک الاقربین اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرائو) یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ہم سے جو رشتہ دار جس قدر قریب ہوں گے ان کی تعلیم اور انہیں اللہ کی اطاعت کا حکم دینے کی اتنی ہی زیادہ ذمہ داری ہم پر ہوگی۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بطور شاہد موجود ہے کہ (کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ، تم سب کے سب نگران ہو اور تم سب سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی) ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ راعی یعنی چرواہا جس طرح اپنے چرنے والے جانوروں کی حفاظت ان کی نگرانی اور ان کے مفادات ومصالح کی تلاش کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسی طرح گھر کا سربراہ اپنے ماتحتوں کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (فالرجل راع علی اھلہ وھو مسئول عنھم والامیرراع علی رعیتہ وھو مسئول عن رعیتہ۔ مرد اپنے اہل وعیال کا راعی یعنی نگران ہے، ان کے متعلق اس سے پوچھ گچھ ہوگی اور امیر یعنی سردار اور حاکم اپنی رعایا کا نگران ہے اور رعایا کے متعلق اس سے پوچھ گچھ ہوگی) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں اسماعیل بن الفضل بن موسیٰ نے، انہیں محمد بن عبداللہ بن حفص نے ، انہیں محمد بن موسیٰ السعدی نے عمر دین دینار سے جو آل زبیر کے متنظم اور کارندے تھے، انہوں نے سالم سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (مانحل والد ولدا خیر من ادب حسن۔ عمدہ تربیت سے بڑھ کر کسی باپ نے اپنے بیٹے کو کوئی تحفہ نہیں دیا) ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں الحضرمی نے، انہیں جبارہ نے، انہیں محمد بن الفضل نے اپنے والد سے، انہوں نے عطا سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (احق الولد علی والدہ ان یحسن اسمہ ویحن ادبہ، بچے کا اپنے باپ پر یہ حق ہے کہ وہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اسے اچھی تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرے) ۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن موسیٰ بن ابی عثمان نے، انہیں محمد بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذا بلغ اولادکم سبع سنین فعلموھم الصلوٰۃ واذا بلغا عشرنین فاضربوھم علیھا وفرقوا بینھم فی المضاجع۔ ) جب تمہاری اولاد کی عمر سات برس ہوجائے تو انہیں نماز سکھائو، اور جب یہ دس برس کے ہوجائیں تو نماز کے سلسلے میں ان کی پٹائی کرو اور ان کے بستر الگ الگ کردو۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنی قوم اور اپنے گھر والوں کو اس دوزخ کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور کبریت کے پتھر ہیں۔ یعنی ان کو نیکیوں کی تعلیم کرو جس سے وہ دوزخ سے بچ سکیں اس دوزخ پر مضبوط فرشتے متعین ہیں وہ اہل دوزخ کو عذاب دینے میں حکم خداوندی کی نافرمانی نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا } ” اے اہل ایمان ! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے “ اس سے پہلے سورة التغابن میں اہل ایمان کو ان کے اہل و عیال کے بارے میں اس طرح متنبہ کیا گیا ہے : { یٰٓــاَیـُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ مِنْ...  اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّــکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْج } (آیت ١٤) ” اے ایمان کے دعوے دارو ! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں تمہارے دشمن ہیں ‘ پس ان سے بچ کر رہو “۔ سورة التغابن کے اس حکم کے تحت اہل ایمان کو منفی انداز میں متنبہ کیا گیا ہے ‘ جبکہ آیت زیر مطالعہ میں انہیں ان کے اہل و عیال کے بارے میں مثبت طور پر خبردار کیا جا رہا ہے کہ بحیثیت شوہر اپنی بیویوں کو اور بحیثیت باپ اپنی اولاد کو دین کے راستے پر ڈالنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ یہ مت سمجھو کہ ان کے حوالے سے تمہاری ذمہ داری صرف ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی حد تک ہے ‘ بلکہ ایک مومن کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کے حوالے سے تمہارا پہلا فرض یہ ہے کہ تم انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کرو۔ اس کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرو جس سے ان کے قلوب و اذہان میں دین کی سمجھ بوجھ ‘ اللہ کا تقویٰ اور آخرت کی فکر پیدا ہوجائے تاکہ تمہارے ساتھ ساتھ وہ بھی جہنم کی اس آگ سے بچ جائیں : { وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ } ” جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر “ { عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ} ” اس پر بڑے تند خو ‘ بہت سخت دل فرشتے مامور ہیں “ وہ فرشتے مجرموں کو جہنم میں جلتا دیکھ کر ان پر رحم نہیں کھائیں گے ‘ اور نہ ہی وہ ان کے نالہ و شیون سے متاثر ہوں گے۔ تو کیا ہم ناز و نعم میں پالے ہوئے اپنے لاڈلوں کو جہنم کا ایندھن بننے کے لیے ان سخت دل فرشتوں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں ؟ بہرحال ہم میں سے ہر ایک کو اس زاویے سے اپنی ترجیحات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے اہل و عیال کو جنت کی طرف لے جا رہے ہیں یا جہنم کا راستہ دکھا رہے ہیں ؟ اپنے بہترین وسائل خرچ کر کے اپنی اولاد کو ہم جو تعلیم دلوا رہے ہیں کیا وہ ان کو دین کی طرف راغب کرنے والی ہے یا ان کے دلوں میں دین سے بغاوت کے بیج بونے والی ہے ؟ اگر تو ہم اپنے اہل و عیال کو اچھے مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کر رہے اور ان کے لیے ایسی تعلیم و تربیت کا اہتمام نہیں کر رہے جو انہیں دین کی طرف راغب کرنے اور فکر آخرت سے آشنا کرنے کا باعث بنے تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم محبت کے نام پر ان سے عداوت کر رہے ہیں۔ { لاَّ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ } ” اللہ ان کو جو حکم دے گا وہ فرشتے اس کی نافرمانی نہیں کریں گے “ اللہ تعالیٰ جس کو جیسا عذاب دینے کا حکم دے گا وہ فرشتے اسے ویسا ہی عذاب دیں گے۔ کسی کے رونے دھونے کی وجہ سے اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتیں گے۔ { وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ۔ } ” اور وہ وہی کریں گے جس کا انہیں حکم دیا جائے گا۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 Thts verse tells that a person's responsibility is not confined to making effort to save himself from the punishment of God but it is also his responsibility that he should so educate and train to the best of his ability members of his family also to become Allah's favourite servants, who have been entrusted to his care in the natural process of life; and if they might be following a path to He... ll, he should try. as far as he can, to correct them. His concern should not only be that his children should lead a happy and prosperous life in the world but; more than that, he should be anxious to see that they do not become fuel of Hell in the Hereafter. According to a tradition reported in Bukhiiri by Hadrat `Abdullah bin 'Umar, the Holy Prophet (upon whom be peace) said: "Each one of you is a herdsman and is accountable with regard to his herd: the ruler is a herdsman and is accountable with regard to his subjects; the man is a herdsman of his family and is accountable with regard to them; and the woman is a herdsman of her husband's house and his children and is accountable with regard to them." Whose fuel...stone" probably implies coal. Ibn Mas' ud, Ibn 'Abbas, Mujahid, Imam Muhammad al-Baqir and Suddi say that this will be brimstone. 17 That is, they will enforce on every culprit precisely the same punishment which they will be commanded to enforce on him without making any alteration in it, or showing any pity for him.  Show more

سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :16 یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظام فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی حد استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ ا... نسان بنیں ، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو ، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے ۔ اس کو صرف یہی فکر نہیں ہو نی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوشحال ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں ۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے معاملہ میں جوابدہ ہے حکمران راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے معاملہ میں جوادہ ہے ۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے ۔ جہنم کا ایندھن پتھر ہوں گے ، اس سے مراد غالباً پتھر کا کوئلہ ہے ۔ ابن مسعود ، ابن عباس ، مجاہد ، امام میں الباقر اور سدی رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ یہ گندھک کے پتھر ہوں گے ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :17 یعنی ان کو جو سزا بھی کسی مجرم پر نافذ کرنے کا حکم دیا جائے گا اسے جوں توں نافذ کریں گے اور ذرا رحم نہ کھائیں گے ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :18 ان دونوں آیتوں کا انداز بیان اپنے اندر مسلمانوں کے لیے سخت تنبیہ لیے ہوئے ہے ۔ پہلی آیت میں مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا گیا کہ ا پنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس خوفناک عذاب سے بچاؤ ۔ اور دوسری آیت میں فرمایا گیا کہ جہنم میں عذاب دیتے وقت کافروں سے یہ کہا جائے گا ۔ اس سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو دنیا میں وہ طرز عمل اختیار کرنے سے بچنا چاہیے جسکی بدولت آخرت میں ان کا انجام کافروں کے ساتھ ہو ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: پتھر سے مراد پتھر کے وہ بت ہیں جنہیں بت پرست لوگ پوجا کرتے تھے۔ ان کو دوزخ میں عبرت کے طور پر ڈالا جائے گا، تاکہ بت پرست ان پتھروں کا انجام دیکھیں جن کو انہوں نے خدا بنایا ہوا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦۔ ٧۔ ہر ایمان دار آدمی اپنی جان کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے یوں بچا سکتا ہے کہ جن باتوں کے بجا لانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے ان کے بجا لانے کی اور جن سے منع فرمایا ہے ان سے باز رہنے کی خود بھی کوشش کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تاکید کرتا رہے ‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوٰۃ ایسے فرائض ہ... یں جن کے ادا کرنے کا وقت سال میں یا عمر میں ایک دفعہ آتا ہے نماز ایک ایسا فرض ہے کہ دن رات میں پانچ وقت ہے اس لئے گھر والوں کو اس کی خاص تاکید رکھنے کا حکم سورة طہ کی آیت وامر ھلک بالصلوۃ میں گزر چکا ہے یہ تو نماز کا دنیا میں اہتمام ہوا کہ قرآن اور حدیث میں جگہ جگہ اس کا ذکر ہے عقبیٰ میں بھی باقی کے سب فرائض سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔ چناچہ مسند امام ١ ؎ احمد اور سنن اربعہ میں معتبر سند سے ابوہریرہ کی حدیث میں اس کا ذکر ہے اسی واسطے مسند امام احمد اور ابو داؤود ٢ ؎ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان میں ہے کہ سات برس کے لڑکے کو نماز کی زبانی تاکید کی جائے اور دس برس کے لڑکے کو مار پیٹ کر نماز پڑھائی جائے اس روایت کے چند طریقے ہیں اس لئے ایک کو دوسرے سے تقویت حاصل ہو کر یہ روایت قابل اعتبار ہے اگرچہ دس برس کے لڑکے یا لڑکی پر نماز فرض نہیں ہے لیکن یہ تاکید اس لئے ہے کہ بالغ ہونے کے بعد مسلمان کی اولاد کو نماز کی عادت رہے اکثر سلف کے قول کے موافق دوزخ کا ایندھن گندھک کے ایک قسم کے پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہے اوسط طبرانی میں ناقابل اعتراض سند سے حضرت عمر (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ پر جو فرشتے تعینات ہیں اگر ان میں سے ایک فرشتہ بھی زمین پر آجائے تو اس کی خوفناک صورت دیکھ کر تمام دنیا کے لوگ مرجائیں ‘ حدیث کا یہ ٹکڑا غلاظ شداد کی گویا تفسیر ہے۔ دنیا کے جیل خانے میں جیل کے داروغہ یا نگہبان کبھی بعض قیدیوں سے مل جاتے ہیں اور ان قیدیوں کی طرح طرح سے رعایت کرنے لگتے ہیں اس لئے فرمایا کہ دوزخ کے درواغہ اور نگہبانوں کا یہ حال نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے پورے فرمانبردار ہیں اس واسطے وہ اللہ کے حکم کی پوری تعمیل کریں گے صحیح مسلم کی انس بن مالک کی حدیث اوپر گزر چکی ہے ٣ ؎ کہ قیامت کے دن بعض گناہ گار اپنے گناہوں کے اقبال کرنے میں پہلے پہل طرح طرح کے عذر کریں گے آخر اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر سکوت کی مہر لگا کر ان کے ہاتھ پیروں کو گواہی کے ادا کرنے کا حکم دے گا اور ایسے لوگوں کے ہاتھ پیر ان کے سب عملوں کی شہادت ادا کریں گے اور پھر ان لوگوں کا کوئی عذر نہ سنا جائے گا غرض ان آیتوں میں جس وقت کے عذر کے نہ سنے جانے کا ذکر ہے اس وقت کی یہ حدیث تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نافرمان لوگوں پہلے عذر داری کا موقع دیا جائے گا اور آخری شہادت پر فیصلہ ہو کر اس طرح وہ فیصلہ آخر ان لوگوں کو سنا دیا جائے گا نیک و بد سے ایک طرح کا برتاؤکرنا بڑی ناانصافی ہے اس لئے اے نافرمان لوگو تمہارے حق میں منصفانہ فیصلہ یہی ہے کہ تم اپنے کئے کی سزا بھگتو۔ اوپر صحیح حدیثوں کے حوالہ سے یہ گزر چکا ہے کہ دوزخ کے جیل خانہ کی سزا کے بعد جن گناہ گاروں کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہوگا ان کی سزا حسب حیثیت جرم میعادی ہوگی جس میعاد کے گزر جانے کے بعد پھر وہ دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کئے جائیں گے ہاں اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک ٹھہرانے والے لوگ بغاوت کے جرم کے مجرم ہیں اس واسطے ان کی سزا اس فیصلہ میں دائم الجس قرار پائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ایسے لوگوں کے حق میں یہی منصفانہ وعدہ ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا۔ (١ ؎ مشکوٰۃ شریف باب الصلوٰۃ فی التطوع فصل ثانی ص ١١٧۔ ) (٢ ؎ ابو داؤود متی یومر الفلاہ بالصلوٰۃ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم کتاب الزھد ص ٤٠٩ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(66:6) یایھا الذین امنوا : یا حرف نداء ہے الذین امنوا موصول و صلہ مل کر منادی ۔ اے ایمان والو۔ اے مومنو ! (نیز ملاحظہ ہو 66:1 ۔ یایھا النبی) ۔ قوا۔ فعل امر معروف جمع مذکر حاضر۔ لفیف مفروق وقایۃ مصدر (باب ضرب) ق امر معروف واحد مذکر حاضر۔ یہ تقی مضارع معروف سے بنایا گیا ہے۔ علامت مضارع کو شروع سے او... ر ی حرف علت کو آخر سے گرا دیا گیا ہے ق رہ گیا۔ گردان فعل امر حاضر یوں ہوگی :۔ ق، قیا، قوا، قی، قیا، قین۔ اسم فاعل واق ، وقایۃ وقاء کے معنی ہیں کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا۔ و ، ق، ی مادہ تقویٰ بھی اسی مادہ سے مشتق ہے۔ قوا۔ تم بچاؤ۔ انفسکم (اپنی جانوں کو) مضاف مضاف الیہ مل کر معطوف علیہ اور اہلیکم (اپنی اہل و عیال کو) مضاف مضاف الیہ مل کر معطوف، معطوف علیہ اور معطوف مل کر دونوں قوا فعل امر کے مفعول اول۔ نارا مفعول شانی۔ (اپنی جانوں کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ) ۔ وقودھا الناس والحجارۃ : نارا کی صفت۔ وقودھا مضاف مضاف الیہ۔ وقود ایندھن جس سے آگ جلائی جائے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع نارا ہے۔ (جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں) ۔ علیہا ملائکۃ غلاظ شداد۔ یہ بھی صفت ہے نارا کی۔ (اس پر بےرحم اور زبردست فرشتے مقرر ہیں۔ علیہا ملائکۃ : ای انھم مؤکلون علیہا۔ ان کو نار جہنم پر سپردار مقرر کیا گیا ہے ۔ غلاظ : غلیظ کی جمع۔ سخت دل۔ بےرحم ۔ شداد۔ شدید کی جمع، سخت، زبردست ، مضبوط ۔ یہ فرشتوں کی صفت ہے۔ دوزخ کے فرشتوں کو زبانیۃ کہا جاتا ہے چناچہ اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ سندع الزبانیۃ (96:18) ہم بھی اپنے مؤکلان دوزخ کو بلائیں گے۔ لا یعصون اللہ ما امرھم : ملکئۃ کی صفت ہے۔ لا یعصون مضارع منی جمع مذکر غائب۔ عصیان (باب ضرب) مصدر۔ وہ نافرمانی نہیں کرتے۔ اللہ اسم مفعول فعل لا یعصون کا۔ لہٰذا منصوب ہے ما موصولہ عائد محذوف ای لایعصون اللہ الذی امرھم بہ یعنی اللہ جس کا انہیں حکم دیتا ہے وہ اس کے بجالانے میں نہ نہیں کرتے۔ ویفعلون ما یؤمرون : یہ جملہ ملائکہ کی صفت ثانی ہے۔ واؤ عاطفہ ہے ما موصولہ یؤمرون اس کا صلہ۔ موصول وصلہ مل کر یفعلون کا مفعول۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب ۔ امر (باب نصر) مصدر۔ اور وہ وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی نیک اعمال کرو اور گناہوں سے بچو اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تلقین کرو تاکہ خود بھی جہنم سے بچو اور انہیں بھی بچائو۔8 یعنی کوئی دوزخی سے ان سے رحم کی درخواست کرے تو انہیں رحم نہیں آتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ قوا۔ بچائو۔ غلاظ۔ سخت کلام۔ شداد۔ زبردست ۔ طاقت والے۔ لا یعصون۔ وہ نافرمانی نہیں کرتے۔ یومرون۔ حکم دئیے گئے۔ لا تعتدذروا۔ تم بہانے مت ڈھونڈو۔ توبۃ نصوحا (نصوح) ۔ سچی توبہ۔ یکفر۔ وہ اتار دے گا۔ دور کردے گا۔ لا یخزی۔ رسوانہ کرے گا۔ یسعی۔ دوڑتا ہے۔ اتمم۔ پورا کردے۔ جاھد۔ جہاد کرنے والا۔ ا... غلظ۔ سختی کر۔ ماوی۔ ٹھکانا۔ ضرب اللہ۔ اللہ نے (مثال ) بیان کی۔ امرات۔ عورت۔ بیوی تحت عبدین۔ دو بندوں کے نیچے۔ خانتا۔ دونوں نے خیانت کی۔ ابن لی۔ میرے لے بنا دے۔ احصنت۔ محفوظ رکھا۔ فرج۔ شرمگاہ۔ نفخنا۔ ہم نے پھونک ماری۔ القنتین۔ ادب سے بندگی کرنے والے۔ تشریح : کسی انسان کی اس سے زیادہ غفلت، نادانی اور بھول کیا ہوگی کہ وہ اپنے بیوی، بچوں اور رشتہ داروں کی محبت میں حق و صدات کا راستہ چھوڑ کر باطل کو گلے لگا لیتا ہے اور آخرت کی ابدی زندگی کے مقابلے دنیا کی راحتوں اور اسباب میں گم ہوجاتا ہے۔ لیکن جن کے دل میں ایمان اور عمل صالح کی تڑپ موجود ہوتی ہے وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی ناپائیدار زندگی کے اسباب کو جائز حد تک اختیار کرتے ہیں اور دنیا کی چکا چوند میں گم ہونے کے بجائے اپنی آخرت کو یاد رکھتے ہیں۔ زیر مطالعہ آیات میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے ان ہی حقائق کو بیان فرمایا گیا ہے۔ فرمایا اے ایمان والو ! تم خود بھی شریعت کے احکامات کے مطابق تمام فرائض اور واجبات کو ادا کرو۔ خود بھی نیکیوں پر قائم رہو اور اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو بھی نیکیوں پر چلا کر جہنم کی اس ہیبت ناک آگ سے بچانے کی کوشش کرو جس میں اللہ کے نافرمان لوگ اور پتھر ایندھن کے طور پر جھونک دئیے جائیں گے۔ اور اس جہنم پر ایسے طاقت ور اور سخت مزاج فرشتے مقرر کئے جائیں گے جو صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرنا جانتے ہوں گے اور قطعاً نافرمانی نہیں کریں گے۔ مراد یہ ہے کہ اگر کوئی خوشامد کرکے نکلنا بھی چاہے گا تو اس جہنم سے نکل نہ سکے گا کیونکہ جہنم پر مقرر فرشتے صرف ان احکامات کی تعمیل کرتے ہیں جن کا حکم ان کو اللہ کی طرف دیا جاتا ہے۔ کفار و منافقین جب اس ہیبت ناک جہنم کو دیکھیں گے تو طرح طرح کے عذر پیش کریں گے لیکن اس دن کسی کا عذر قبول نہ کیا جائے گا۔ ان آیات میں دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اے ایمان والو ! تم اللہ سے توبہ کرو لیکن ایسی توبہ جو خالص اور سچی توبہ ہو جس میں پھر گناہ کی طرف جانے کا خیال تک نہ آئے۔ فرمایا کہ اگر تم ایسی سچی توبہ کرو گے تو اللہ نہ صرف تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا بلکہ تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اس دن اللہ اپنے نبی اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہ کرے گا بلکہ پل صراط پر جانے کے لئے اس اندھیرے میں ایک ایسا نور عطا فرمائے گا جو ان کے آگے آگے اور ان کے داہنی جانب دوڑ رہا ہوگا۔ جب اہل ایمان یہ دیکھیں گے کہ کفار اندھیروں میں دھکے کھا رہے ہیں تو وہ اہل ایمان اللہ سے دعا کریں گے کہ الٰہی ہماری اس روشنی اور نور کو آخر تک قائم رکھئے گا تاکہ ہم بھی ان کفار کی طرح اندھیروں میں ٹھوکریں نہ کھانے لگیں۔ ہماری کوتاہیوں اور گناہوں کو معاف کردیجئے بیشک آپ کو ہر چیز پر پوری طرح قدرت حاصل ہے۔ توبہ کے لفظی معنی لوٹنے، پلٹ آنے اور رجوع کرنے کے آتے ہیں۔ یعنی اپنے گناہوں پر شرمندگی اور ندامت کے ساتھ آئندہ کا یہ عزم کہ میں اس گناہ کے پاس نہ جاؤں گا یہ سچی توبہ ہے جو بھی ایسی سچی توبہ کرتا ہے اللہ اس کو دنیا اور آخرت کی رحمتیں عطا فرماتا ہے۔ حضرت ابن ابی حاتم نے زربن حبیش کے واسطے سے یہ روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی ابن ابی کعب سے پوچھا کہ ” توبہ نصوحا “ کا مطلب کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہوجائے تو اپنے گناہ پر نادم و شرمندہ ہو اور پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔ (ابن حریر) ۔ سیدنا عمر فاروق (رض) ” توبہ نصوحا “ کی تعریف یہ کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی گناہ کا اعادہ تو درکنار اس کے دوبارہ کرنے کا ارادہ تک نہ کرے۔ (ابن حریر) ۔ سیدنا حضرت علی مرتضیٰ (رض) نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ” توبۃ الکذابین “ (جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے) ۔ انہوں نے پوچھا کہ پھر صحیح توبہ کیا ہے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اس کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہیں۔ (1) جو کچھ ہوچکا اس پر شرمندگی اور ندامت (2) جن فرائض میں غفلت ہوئی ہے ان کی ادائیگی (3) اگر کسی کا حق مار لیا ہو تو اس کو واپس کرنا۔ (4) اگر کسی کو تکلیف پہنچائی ہو تو اس سے معافی مانگنا۔ (5) آئندہ اس بات کا عزم کرنا کہ میں اس گناہ کو دوبارہ نہیں کروں گا۔ (6) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں اسی طرح گھلانا جس طرح اس نے گناہ میں اپنے آپ کو مبتلا کیا ہوا تھا۔ نفس کو اللہ کی اطاعت کا مزا چکھانا جس طرح اس نے اب تک اپنے نفس کو گناہ اور معصیت کا مزہ چکھا رکھا تھا (کشاف) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ سچی توبہ کرنے سے انسان کے گذشتہ گناہ اس طرح معاف ہوجاتے ہیں جیسے اس نے گناہ کئے ہی نہ ہوں۔ توبہ کرنے کے بعد اگر بشری کمزوری کی بنا پر پھر اسی گناہ میں مبتلا ہوجائے تو پہلے سے زیادہ احساس ندامت کے ساتھ اپنے اس گناہ کی معافی مانگے اور اس بات کا عزم کرلے اور کہے الٰہی ! مجھے معاف کردیجئے۔ آپ مغفرت کرنے والے مہربان ہییں میں آئندہ نہیں کروں گا۔ امید ہے کہ اللہ ایسے شخص پر رحم و کرم نازل کرتے ہوئے اس کے گناہوں کو معاف کردے گا۔ ان آیات میں تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اگر کفار سے جنگ ہوجائے تو پھر ان سے رعایت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سختی سے نمٹا جائے اور ان کو اپنے کئے ہوئے اقدام کی سخت سزا دیجائے تاکہ اس سے دوسروں کو عبرت اور نصیحت حاصل ہو۔ فرمایا کہ آخر کار ان کفار اور منافقین کا اصل ٹھکانا جہنم کی بھڑکتی آگ ہے لیکن کفرو شرک سے معافی مانگ کر اور توبہ کرکے نجات بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ چوتھی اور آخری بات یہ فرمائی گئی کہ کفار مکہ جن کو اس بات پر بڑا ناز تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور پیغمبروں کی اولاد ہیں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آدمی کے اگر اعمال صحیح نہ ہوں اور وہ کفرو شرک میں مبتلا ہو تو پیغمبروں کی نسبت اور ان کی اولاد ہونا بھی کسی کو فائدہ نہیں دے سکتا۔ کفار کو عبرت دلانے کے لئے فرمایا جا رہا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی جس کا نام ” داغلہ “ تھا اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی جس کا نام ” والہہ “ تھ یہ دونوں پیغمبروں کی بیویاں تھیں جنہوں نے ایمان کی راہ میں پیغمبروں کا ساتھ نہ دیا بلکہ کفار کا ساتھ دیا تو ان کو پیغمبروں کی نسبت ان کے کام نہ آئی اور پیغمبروں کی بیویاں ہونے کے باوجود پیغمبر بھی ان کو جہنم کی آگ سے نہ بچا سکے۔ معلوم ہوا کہ کفرو شرک ایسی بدترین چیزیں ہیں کہ اگر نبی بیوی، بیٹا اور کوئی رشتہ دار بھی اس میں مبتلا ہو تو پیگمبروں کی سفارش اور نسبت بھی ان کے کام نہیں آسکتی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کا یہ حال تھا کہ جو بھی ایمان لاتا وہ جا کر کفار کو اس کی اطلاع کردیتی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کفار کو ہر آنے جانے والی کی خبر دے دیا کرتی تھی۔ یہ ایک سخت بددیانتی اور خیانت تھی جس کو اللہ نے سخت ناپسند فرمایا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویاں بدکار نہیں تھیں بلکہ بددیانت اور خائنہ تھیں اسی لئے حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ کسی نبی کی بیوی کبھی بدکار نہیں ہوتی۔ معلوم ہوا کہ ان دونوں پیغمبروں کی بیویوں نے خیانت کی تھی جس کی سزا یہ دی گئی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور بیٹا دونوں کفار کے ساتھ پانی میں غرق کردئے گئے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کافروں کے ساتھ اللہ کے عذاب کا شکار ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کی بیویوں کا ذکر کرکے فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کا ذکر کیا اور بتایا کہ فرعون جو اللہ اور رسول کا سخت دشمن تھا جب اس کی بیوی حضرت آسیہ بنت مزاحم نے کفر سے توبہ کرکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان قبول کیا تو اللہ نے ان کو جنت کا اعلیٰ مقام دینے کا وعدہ فرمایا کیونکہ وہ فرعون جیسے کافر و ظالم کی بیوی ضرور تھیں لیکن ان کے ایمان اور عمل صالح نے ان کو اتنا بلند مقام عطا کیا کہ فرعون جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا اور اس کی بیوی حضرت آسیہ جنت کے باغوں میں راحت و آرام کے ساتھ رہیں گی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ محترمہ حضرت مریم بنت عمران جو بچپن سے جوانی تک پوری طرح پاک دامن اور بےداغ رہیں جنہوں نے اپنی عزت آبرو کی حفاظت کی جب انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغامات جو فرشتوں کے ذریعہ ان تک پہنچتے تھے ان کی تصدیق کی اور اللہ کی کتابوں پر ایمان لائیں تو اللہ نے ان کو بھی جنت کا اعلیٰ مقام دینے کا وعدہ فرمایا۔ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہے یہی چیز انسان کو نجات دلانے والی ہے۔ بڑوں اور بزرگوں کی نسبت بھی تب ہی کام آتی ہے جب ایمان اور عمل صالح ہو۔ اسی بات کو ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ فاطمہ تم یہ مت سمجھنا کہ تم بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو اور تمہاری نجات ہوگی بلکہ تمہارے اعمال تمہیں نجات دلائیں گے۔ حضرت فاطمہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو بھی نجات اعمال کی وجہ سے نجات ملے گی تو آپ نے فرمایا ہاں مجھے بھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اپنے کو بچانا خود اطاعت کرنا اور گھر والوں کو بچانا ان کو احکام الہیہ سکھلانا اور ان پر عمل کرانے کے لئے زبان سے، ہاتھ سے بقدر امکان کوشش کرنا۔ 3۔ یہاں عصیان سے مراد عصیان بالقلب ہے جو مقابل اطاعت کا ہے کہ وہ بھی بالقلب ہے یعنی نہ دل میں خیال نافرمانی کا ہوتا ہے، نہ فعلا خلاف کرتے ہیں، یا یوں کہا...  جاوے کہ بایں معنی نافرمانی بھی نہیں کرتے کہ کہے ہوئے کے خلاف کریں اور سستی اور دیر بھی نہیں کرتے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ازواج مطہرات کو انتباہ کرنے کے بعد تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رب کی نافرمانی سے بچیں اور اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی ہولناکیوں سے بچائیں۔ خاندان اور قوم کی اصلاح کا بنیادی اور بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر مسلمان اپنی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اہل و ع... یال کی اصلاح کرتا رہے یہ کام بڑا اہم ہے جس کے لیے انتباہ کے انداز میں فرمایا کہ اے ایمان والو ! اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ جہنم پر ایسے ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے جو بڑے تند مزاج اور سخت ہیں، وہ اللہ کے حکم کی ایک لمحہ بھی نافرمانی نہیں کرتے۔ وہ اسی طرح ہی کرتے ہیں جس طرح انہیں حکم دیا جاتا ہے یادر کھو ! ٖ جو لوگ اللہ کے حکم کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن انہیں سے کہا جائے گا کہ اے کافرو ! آج کے دن کوئی بہانہ اور معذرت پیش نہ کرو ! کیونکہ آج تمہیں تمہارے کیے کی پوری پوری سزا دی جائے گی۔ یاد رہے کہ گناہ کرنے والا ہر شخص اپنے یا اپنے عزیز و اقرباء کی وجہ سے گناہ کرتا ہے۔ عزیز و اقرباء میں سب سے پہلے آدمی کی اپنی اولاد ہوتی ہے، جن کی محبت اور خیرخواہی میں آکر عام انسان ہی نہیں بلکہ بیشمار اچھے بھلے مسلمان بھی اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں، کیونکہ انسان اپنے یا اپنے عزیز و اقرباء کے فائدے اور خیرخواہی کے لیے گناہ کرتا ہے، اس لیے مسلمانوں کو انتباہ کیا ہے کہ آج اپنے اور اپنے عزیز و اقرباء کے فائدے اور خیر خواہی کے لیے اپنے رب کی نافرمانی کیے جارہے ہو۔ وہ وقت یاد کرو ! جب نافرمانوں کو جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوگے، وہاں عزیر واقربا کام نہیں آئیں گے۔ آہ وزاریاں اور معذرت پہ معذرت کریں گے لیکن ان کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ کہا جائے گا کہ آج اپنے کیے کی سزا پاؤ۔ دانا اور بہترین شخص وہ ہے جو اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالْأَمِیرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی أَہْلِ بَیْتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا وَوَلَدِہٖ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ) (رواہ البخاری : باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجہا) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر کسی کو اپنی ذمہ داری کے بارے میں جواب دینا ہے، امیر اپنی رعایا پر نگران ہے۔ آدمی اپنے گھر کا نگران ہے، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اپنے بچوں کی نگران ہے۔ تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور ہر کسی سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ ہر ایماندار کو اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پر ایسے ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی ہے جو بڑے تند مزاج اور سخت ہیں۔ وہ جہنمی کو اس طرح سزا دیں گے جس طرح انہیں حکم دیا جائے گا۔ ٣۔ جہنم کی آگ کا ایندھن مجرم اور پتھر ہوں گے۔ ٤۔ جہنم میں کفار کی کوئی معذرت قبول نہیں ہوگی۔ ٥۔ جہنمی کو کہا جائے گا کہ آج اپنے کیے کی سزا پاؤ۔ تفسیر بالقرآن والدین کی اپنی اولاد کے بارے میں ذمہ داریاں : ١۔ اولاد کو شرک سے بچنے کا حکم دینا چاہیے۔ (لقمان : ١٣) ٢۔ اولاد کو ایک الٰہ کی عبادت کا حکم دینا چاہیے۔ (البقرۃ : ١٣٢) ٣۔ اولاد کو مسلمان رہنے کی نصیحت کرنی چاہیے۔ (البقرۃ : ١٣٢) ٤۔ اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٥۔ اولاد کو نیکی کی تبلیغ اور برائی سے منع کرنے کی تبلیغ کرنی چاہیے۔ (لقمان : ١٧) ٦۔ اولاد کی بول چال اور چال ڈھال پر نظر رکھنی چاہیے۔ (لقمان : ١٨) ٧۔ اولاد کو آخرت کی جوابدہی کا احساس دلانا چاہیے۔ (لقمان : ١٦) ٨۔ نہ اسراف کرو، نہ زنا کرو اور نہ اپنی اولاد کو قتل کرو۔ (الممتحنہ : ١٢) ٩۔ اے ایمان والو ! اپنے آپ اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچا لو۔ (التحریم : ٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس واقعہ کی روشنی میں ، جس کے سبب مسلمانوں کی زندگی پر گہری اثرات مرتب ہوگئے تھے ، اب قرآن کریم مسلمانوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل اولاد کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاﺅ۔ چناچہ قیامت کا ایک نہایت ہی موثر منظر بھی ان کے سامنے پیش کیا جاتا کہ وہاں کفار کی حالت کیا ہوگی۔ جس طرح ... اس واقعہ میں زواج کو دعوت دی تھی کہ توبہ کرو اسی طرح یہاں اہل ایمان کی دعوت دی جاتی ہے کہ توبہ کرو اور توبہ کرنے والوں کے لئے اللہ نے جو باغات تیار کر رکھے ہیں وہ بھی بتادیئے جاتے ہیں۔ اور جھلک دکھادی جاتی ہے۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جاتا ہے کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو۔ یہ ہے اس سورت کا دوسرا پیراگراف : یایھا الذین ........................ وبئس المصیر اپنے نفس اور اپنے اہل و عیال کے بارے میں مومن پر عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ قیامت کے دن کی آگ موجود ہے۔ اور اس نے اس سے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بچانا ہے۔ یہ ایسی دہکتی ہوئی آگے ہے۔ وقودھا .................... والحجارة (٦٦ : ٦) ” جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے “۔ لوگ اس میں اس طرح ہوں گے جس طرح پتھر پڑے ہوتے ہیں ، سنگ راہ کی طرح کوئی ان کی طرف توجہ نہ کرے گا۔ کس قدر سخت آگ ہوگی کہ اس میں پتھر جلیں گے اور کس قدر سخت عذاب ہوگا اور اہل جہنم کس قدر بےوقعت ہوں گے۔ جہنم کا سب ماحول نہایت شدید اور خوفناک ہوگا۔ علیھا ................ شداد (٦٦ : ٦) ” جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے ہوں گے “۔ ان کا مزاج اس عذاب کی سختی کی طرح سخت ہوگا۔ لا یعصون .................... یومرون (٦٦ : ٦) ” جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں “۔ ان کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں ، اور ان کی خصوصیت یہ ہے کہ جو بھی حکم ان کو دیا جاتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں ، اور وہ اپنی اس قوت اور مضبوطی کی وجہ سے اس آگ پر متعین ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ اس آگ سے اپنے نفس اور دین کی بجائے اور قبل اس کے فرصت کی گھڑیاں ختم ہوں وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال اور آگ کے درمیان پردے حائل کردے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اپنی جانوں کو اور اہل و عیال کو دوزخ سے بچانے کا اور سچی توبہ کرنے کا حكم یہ چار آیات کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں ایمان والوں سے خطاب فرمایا کہ تم اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو ایسی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ہیں دنیا میں جو آگ ہے وہ لکڑی یا تیل یا گیس سے جلتی ہے اور ہے بھی کم گ... رم اور دوزخ کی آگ کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ہیں اور وہ آگ بہت زیادہ گرم بھی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ دوزخ کی آگ دنیا سے انہتر درجہ زیادہ گرم ہے (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٢٤٢) ایسی آگ سے بچنا اور اپنے گھر والوں کو بچانا عقل کے اعتبار سے بھی ضروری ہے اور یہ بچنا اسی طرح ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے خود بھی بچیں اور اپنے گھر والوں کو بھی بچائیں، انہیں دینی احکام سکھائیں اور ان پر عمل کرائیں، دنیا میں کھلانے پہنانے کے لیے اپنے اہل و عیال کے لیے انتظام تو کرتے ہیں لیکن دوزخ کی آگ سے بچانے کا اہتمام نہیں کیا جاتا اس میں عموماً غفلت برتی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم دیا کہ تم اپنی جانوں کو بھی اس آگ سے بچاؤ اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس میں فرائض و واجبات کا خود اہتمام کرنے اور اہل و عیال سے عمل کرانے کا حکم آگیا اور گناہوں سے بچنے اور بچانے کا بھی بلکہ حلال کھانے اور کھلانے کا حکم بھی آگیا، حرام کھانا اور اولاد کو حرام کھلانا دوزخ میں لے جانے کا ذریعہ ہے۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو گوشت حرام سے پلا بڑھا ہوگا جنت میں داخل نہ ہوگا اور جو گوشت حرام سے پلا بڑھا ہوگا، دوزخ اس کی زیادہ مستحق ہوگی۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٢٤٢) حلال کمائے، حلال کھائے اور بیوی بچوں کو بھی حلال کھلائے حرام سے بچے اور حرام سے بچائے حرام سے پیٹ بھر دینا ان کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ ظلم ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے گھر والوں کو دین سکھانا بھی ضروری ہے کیونکہ عمل بغیر علم کے نہیں ہوسکتا علم کے بغیر جو عمل ہوگا وہ غلط ہوگا وہ بھی عذاب دوزخ کا سبب بنے گا۔ تفسیر در منثور میں صفحہ ٣٦: ج ١ بحوالہ طبرانی، حاکم اور بیہقی حضرت عبداللہ (رض) نقل کیا ہے کہ یہ پتھر جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ﴿ وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ﴾ میں فرمایا ہے کبریت (گندھک) کے پتھر ہیں اللہ تعالیٰ نے جیسا چاہا پیدا فرما دیا (اس آگ کی تیزی پھر گندھک کے پتھروں کو ایندھن ہونا اس سب کا تصور کرے، خود بھی سوچے اور اہل و عیال کو بھی سمجھائے تاکہ گناہوں کے چھوڑنے پر نفس آمادہ ہوجائے، دوزخ پر جو فرشتے مقر رہیں ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ سخت مزاج ہیں اور بہت زیادہ مضبوط ہیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم ملتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے جو کچھ انہیں حکم ہوتا ہے وہی کرتے ہیں، اس میں یہ بتادیا کہ کوئی بھی دوزخی ان فرشتوں سے جان چھڑا کر دوزخ کا دروازہ کھول کر یا دیواروں کو پھاند کر نہیں جاسکتا، انہیں جو بھی حکم ہوتا ہے مضبوطی کے ساتھ اس کی تعمیل کرتے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” یا ایہا الذین امنوا “ یہ مومنوں سے خطاب ہے۔ فرمایا اے اہل ایمان اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو ان کاموں سے بچاؤ جو عذاب جہنم کا موجب ہوں۔ جہنم کی آگ نہایت سخت ہوگی اور اس کی تیزی اور تندی کو بڑھانے کے لیے ایندھن کے طور پر پتھروں کو جلایا جائے گا۔ یا ” الحجارۃ سے پتھر کے وہ بت مراد ہیں جو مشرکی... ن نے اپنے معبودوں کے ناموں پر بنا رکھے تھے جس طرح ’ الناس ‘ سے مشرک لوگ مراد ہیں۔ ” غلاظ “ تندخو۔ ” شداد “ سخت گیر۔ جہنم پر جو فرشتے مقرر ہوں گے وہ نہایت تند خو اور سخت گیر ہوں گے وہ کسی دوزخی کی خوشامد اور منت سماجت پر کان نہیں دھریں گے اور نہ ان کو دوزخیوں کی چیخ و پکار اور نالہ وزاری پر رحم ہی آئیگا وہ تو بس اللہ تعالیٰ کے حکم کے بندے ہوں گے جو ان کو حکم ہوگا اسے بجا لائیں گے اور اس سے سرِ مو انحراف کریں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اے ایمان والو ! تم اپنی جانوں کو اور اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگے سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس آگ پر سخت دل اور زور آور فرشتے مقرر ہیں جو حکم اللہ تعالیٰ ان کو دیتا ہے وہ اس حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور ان کو حکم دیا جاتا ہے اس کو فوراً بجا لاتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب ... (رح) فرماتے ہیں ہر مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے پھر والوں کو دین کی راہ پر لاوے لالچ دے کر ڈردکھا کر پیارے سے ، مار سے اس پر بھی وہ اگر نہ آویں تو ان کی کم بختی یہ بےگناہ ہے۔ غرض ہر شخص کو اس جہنم سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے بالخصوص اپنے اہل و عیال اور اہل قرابت کو، آگ میں جلنے کو آدمی ہیں یعنی نفارمان لوگ اور پتھر جن کو لوگ پوجتے ہیں، غلاظ، شداد، تندخو، مضبوط، سخت خو، سخت رو بےحکمی نہیں کرتے اور فوری حکم کی تعمیل کرتے ہیں بعض نے غلاظ الاقوال شداد الافعال فرمایا ہے۔ بہرحال یہ فرشتے پکڑ پکڑ کر اس آگ میں ڈالیں گے جن کی صورت بھی مہیب ہوگی اور حکم خداوندی کی بجا آوری میں بھی بہت سخت ہوں گے وہ آگ میں جھونکتے وقت کہتے ہوں گے۔  Show more