Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 23

سورة الملك

قُلۡ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَکُمۡ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡئِدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۲۳﴾

Say, "It is He who has produced you and made for you hearing and vision and hearts; little are you grateful."

کہہ دیجئے کہ وہی ( اللہ ) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ ... Say it is He Who has created you, meaning, He initiated your creation after you were not even a thing worth mentioning (i.e., nothing). Then He says, ... وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالاَْبْصَارَ وَالاَْفْيِدَةَ ... and endowed you with hearing and seeing, and hearts. meaning, intellects and powers of reasoning. ... قَلِيلً مَّا تَشْكُرُونَ Little thanks you give. meaning, how little you use these abilities that Allah has blessed you with to obey Him, to act according to His commandments, and avoid His prohibitions.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یعنی پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ 23۔ 2 یعنی کان آنکھیں اور دل بنائیں جن سے تم سن سکو اور اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرکے اللہ کی معرفت حاصل کرسکو تین قوتوں کا ذکر فرمایا ہے جن سے انسان مسموعات، مبصرات اور معقولات کا ادراک کرسکتا ہے یہ ایک طرح سے اتمام حجت بھی ہے اور اللہ کی ان نعمتوں پر شکر نہ کرنے کی مذمت بھی اسی لیے آگے فرمایا تم بہت ہی کم شکرگزاری کرتے ہو۔ 23۔ 2 یعنی شُکْرًا قَلِیْلًا یا زَمْنً قَلِیلًا یا قلت شکر سے مراد ان کی طرف سے شکر کا عدم وجود ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] آنکھیں، کان اور دل ان میں سے ایک ایک نعمت ایسی ہے جو ہزار نعمتوں کے برابر ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چھن جائے تو تمہیں ان کی قدروقیمت کا احساس ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کا تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں آنکھیں، کان اور دل محض اس لیے نہیں دیئے تھے کہ تم ان سے اتنا ہی کام لو۔ جتنا جانور لیتے ہیں۔ بلکہ اس لیے دیئے تھے کہ آنکھوں سے تم اللہ کی آیات کا مشاہدہ کرو، کانوں سے اللہ کی آیات و احکام سنو، پھر دل سے ان میں غور کرو۔ مگر کافروں کا یہ حال ہے کہ ان نعمتوں پر شکر تو کیا کرتے، الٹا ان نعمتوں کو اللہ کی راہ کی مخالفت میں استعمال کر رہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ ۔۔۔۔: اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں پیدا فرمایا اور تمہیں کان ، آنکھیں اور دل عطاء فرمائے۔ اب پیدا کرنے کا شکرتو یہ تھا کہ صرف اسی کی عبادت کرتے اور کان ، آنکھیں اور دل عطاء فرمانے کا شکریہ تھا کہ انہیں وہیں استعمال کرتے جہاں یہ نعمتیں دینے والے کی رضا تھی اور ان کے ذریعے سے اس کی خوشنودی کا راستہ تلاش کرتے ، مگر تم نے نہ کانوں سے حق بات سنی ، نہ آنکھوں سے اللہ کی قدرتیں دیکھ کر عبرت پکڑی اور نہ دل سے اس کی توحید سمجھنے کی کوشش کی ۔ بیشمار نعمتوں میں سے یہ تین نعمتیں اس لیے ذکر فرمائیں کہ یہ تینوں علم کے ذرائع ہیں ، انہی کے ذریعے سے آدمی کو حق تک پہنچ سکتا ہے ۔ اس آیت میں خطاب کفار سے ہے اور ” قلیلا ما تشکرون “ (تم کم ہی شکر کرتے ہو) سے مراد یہ ہے کہ تم بالکل شکر ادا نہیں کرتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ‌ وَالْأَفْئِدَةَ ۖ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُ‌ونَ (Say, |"He is the One who has originated you, and made for you the ears and the eyes and the hearts. How little you pay gratitude|" ...67:23). Specifying ears, eyes and Heart Of all the human sense organs, only three are mentioned here on which depends knowledge and perception of the external world. Philosophers have identified five sources of knowledge and perception that are called &five senses&: to see, hear, smell, taste or feel something. Allah has equipped man with &nose& to smell, with &tongue& to taste, with &ears& to hear and with &eyes& to see; Allah has spread &skin& throughout man&s body to feel. But out of the five physical senses, only two have been mentioned, namely, ears and eyes, because man receives a very limited range of knowledge by smelling, tasting and feeling. Man depends for information largely on hearing and seeing. Of the two organs, his sense of hearing is mentioned first, because a careful analysis shows that most of the information gathered in human life is through hearing, not so much by seeing. The third organ mentioned specifically is the &heart&, because that is the centre of knowledge. Knowledge received through hearing and seeing depends on the human &heart&, unlike the theory of the philosophers and scientists who believe that the centre of knowledge is the human &brain&. After this, the non-believers are threatened with punishment. Towards the end of the Surah, a statement is once again repeated to remind them which purports to say: &0 you who live on the earth, dig wells and drink water from it to quench your thirst and grow plants and vegetation, do not forget that none of these things is your personal property. They are a Divine gift. He sent down water, and loaded it in the form of ice and reserved it on the peaks of mountains, so that it may not putrefy. Then He caused the congealed water to melt gradually and allow it to seep or soak into the earth through the pores or small interstices of the mountains and allowed a network of melted water to spread throughout the earth without any pipeline. Whenever man requires, he could dig a few meters deep into the earth from its upper surface to obtain water. This is a Divine gift. If He wills, He could send the water down into the depths of the earth, and it would not be accessible to anyone. This is the import of the following verse.

(آیت) قُلْ هُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ، یعنی آپ کہہ دیجئے کہا للہ ہی وہ ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے مگر تم لوگ شکر گزار نہیں ہوتے۔ سمع و بصر اور قلب کی تخصیص :۔ اس میں اعضائے انسانی میں سے ان تین اعضاء کا ذکر ہے جن پر علم و ادراک اور شعرو موقوف ہے۔ فالسفہ نے علم و ادراک کے پانچ ذریعہ بیان کئے ہیں جن کو حواس خمسہ کہا جاتا ہے۔ یعنی سننا، دیکھنا، سونگھنا، چکھنا اور چھوٹا، سونگھنے کے لئے ناک اور چکھنے کے لئے زبان اور چھونے کی قوت سارے بدن میں حق تعالیٰ نے رکھی ہے۔ سننے کے لئے کان اور دیکھنے کے لئے آنکھ بنائی ہے یہاں حق تعالیٰ نے ان پانچوں چیزوں میں سے صرف دو کا ذکر کیا ہے یعنی کان اور آنکھ، وجہ یہ ہے کہ سونگھتے چکھنے اور چھونے سے بہت کم چیزوں کا علم انسان کو حاصل ہوتا ہے اس کے معلومات کا بڑا مدار سننے اور دیکھنے پر ہے اور ان میں سے بھی سننے کو مقدم کیا گیا غور کرو تو معلوم ہوگا کہ انسان کو اپنی عمر میں جتنی معلومات ہوئی ہیں۔ ان میں سنی ہوئی چیزیں بہ نسبت دیکھی ہوئی چیزوں کے بدر جہا زائد ہوتی ہیں اس لئے اس جگہ حواس خمسہ میں سے صرف دو پر اکتفا کیا گیا ہے کہ وہ اصل بنیاد اور مرکز علم کا ہے۔ کانوں سے سنی ہوئی اور آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیزوں اک علم بھی قلب پر موقوف ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں کہ قلب کو مرکز علم قرار دیا ہے۔ بخلاف فلاسفہ کے کہ وہ دماغ کو اس کا مرکز مانتے ہیں۔ اس کے بعد پھر کفار و منکرین کو تنبیہ اور عذاب کی وعید کا بیان ہے۔ آخر سورت میں پھر ایک جملہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ زمین پر بسنے والو اور اس کو کھود کر کنوئیں بنانے والو اور اس کے پانی سے اپنے پینے پلانے اور نباتات اگانے کا کام لینے الو اس بات کو نہ بھولو کہ یہ سب چیزیں کوئی تمہاری ذاتی جاگیر نہیں صرف حق تعالیٰ کا عطیہ ہے کہ اس نے پانی برسایا اور اس پانی کو برف کی شکل میں بحر منجمد بنا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر لاد دیا کہ سڑنے اور خراب ہونے سے محفوظ رہے پھر اس برف کو آہستہ آہستہ پگھلا کر پہاڑوں کی عروق کے ذریعہ زمین کے اندر اتار دیا اور بغیر کسی پائپ لائن کے پوری زمین میں اس کا ایسا جال پھیلا دیا کہ جہاں چاہو زمین کھود کر پانی نکال لو مگر یہ پانی جو اس نے زمین کی اوپر ہی کی سطح پر رکھ دیا ہے جس کو چند فٹ یا گز زمین کھود کر نکالا جاسکتا ہے یہ مالک و خالق کا عطیہ ہے اگر وہ چاہے تو اس پانی کو زمین کے نیچے کی سطح پر اتار دے جہاں تک تمہاری رسائی ممکن نہ ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ ہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَۃَ۝ ٠ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝ ٢٣ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأ» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں ينشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. ( ف ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ ان کافروں سے فرما دیجیے وہی ایسا منعم ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور حق و ہدایت کی بات سننے دیکھنے اور سوچنے کے لیے کان اور آنکھیں اور دل دیے، ان احسانات کے سامنے تمہارا شکر بھی کم ہے یا یہ کہ تم تھوڑا بہت بھی شکر نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣{ قُلْ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَـکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ } ” کہہ دیجیے کہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لیے کان ‘ آنکھیں اور دل بنائے۔ “ لغوی اعتبار سے لفظ ’ اَنْشَاَ ‘ اٹھانے اور پرورش کرنے کا مفہوم بھی دیتا ہے۔ لفظ ” فواد “ کے مفہوم کی وضاحت سورة بنی اسرائیل کی آیت ٣٦ کے تحت گزر چکی ہے۔ عام طور پر اس لفظ کا ترجمہ ” دل “ کیا جاتا ہے لیکن اصل میں اس سے مراد انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کی مدد سے وہ دستیاب معلومات کا تجزیہ کر کے نتائج اخذ کرتا ہے ۔ چناچہ اس لفظ میں عقل یا سمجھ بوجھ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں جب انسان کی طبعی صلاحیتوں یا حواس کا تذکرہ ہوتا ہے تو السَّمْع (سماعت) کا ذکر پہلے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی علم کے ذرائع میں پہلا اور بنیادی ذریعہ اس کی سماعت ہے۔ پچھلی نسلوں کے علمی آثار اور تجرباتی علم سے استفادہ کرنا ہر دور کے انسان کی ضرورت رہی ہے ۔ اس علم کو بھی نسل در نسل منتقل کرنے کا بنیادی ذریعہ انسان کی سماعت ہی ہے ۔ دوسرے حواس یا ذرائع اس میں اپنا اپنا حصہ بعد کے مراحل میں شامل کرتے ہیں۔ { قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ۔ } ” بہت ہی کم شکر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 That is, "Allah had made you men, not cattle. You were not meant to follow blindly whatever error and deviation you found prevailing in the world, without considering for a moment whether the way you had adopted was right or wrong. You had not been given these ears that you may refuse to listen to the one who tries to distinguish the right from the wrong for you, and may persist in whatever false notions you already had in your mind; you had not been given these eyes that you may follow others like the blind and may not bother to see whether the signs scattered around you in the world testified to the Unity of God, which the Messenger of God is preaching, or whether the system of the universe is Godless, or is being run by many, gods simultaneously. Likewise, you had also not been given this knowledge and intelligence that you may give up thinking and understanding to others and may adopt every crooked way that was enforced by somebody in the world, and may not use your own intellect to see whether it was right or wrong. Allah had blessed you with knowledge and intelligence, sight and hearing, so that you may recognize the truth, but you are being ungrateful to Him in that you are employing these faculties for every other object than the one for which these had been granted." (For further explanation, see E.N.'s 72, 73 of AnNaml E.N.'s 75, 76 of AI-Mu'minun, E.N.'s 17, 18 of As-Sajdah, E.N. 31 of AI-Ahqaf) .

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :33 یعنی اللہ نے تو تمہیں انسان بنایا تھا ، جانور نہیں بنایا تھا ۔ تمہارا کام یہ نہیں تھا کہ جو گمراہی بھی دنیا میں پھیلی ہوئی ہو اس کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چل پڑو اور کچھ نہ سوچو کہ جس راہ پر تم جا رہے ہو وہ صحیح بھی ہے یا نہیں ۔ یہ کان تمہیں اس لیے تو نہیں دیے گئے تھے کہ جو شخص تمہیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھانے کی کوشش کرے اس کی بات سن کر نہ دو اور جو غلط سلط باتیں پہلے سے تمہارے دماغ میں بیٹھی ہوئی ہیں انہیں پر اڑے رہو ۔ یہ آنکھیں تمہیں اس لیے تو نہیں دی گئی تھیں کہ اندھے بن کر دوسروں کی پیروی کرتے رہو اور خود اپنی بینائی سے کام لے کر یہ نہ دیکھو کہ زمین سے آسمان تک ہر طرف جو نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ آیا اس توحید کی شہادت دے رہی ہیں جسے خدا کا رسول پیش کر رہا ہے یا یہ شہادت دے رہی ہیں کہ سارا نظام کائنات بے خدا ہے یا بہت سے خدا اس کو چلا رہے ہیں ۔ اسی طرح یہ دل و دماغ بھی تمہیں اس لیے نہیں دیےگئے تھے کہ تم سوچنے سمجھنے کا کام لے کر یہ سوچنے کی کوئی زحمت گوارا نہ کرو کہ وہ غلط ہے یہ صحیح ۔ اللہ نے علم و عقل اور سماعت و بینائی کی یہ نعمتیں تمہیں حق شناسی کے لیے دی تھیں ۔ تم ناشکری کر رہے ہو کہ ان سے اور سارے کام تو لے لیتے ہو مگر بس وہی ایک کام نہیں لیتے جس کے لیے یہ دی گئی تھیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل ، حواشی 72 ۔ 73 ۔ جلد سوم ، المومنون ، حواشی 75 ۔ 76 ۔ جلد چہارم ، السجدہ ، حواشی 17 ۔ 18 ۔ الاحقاف ، حاشیہ 31 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:23) قل ھو الذی انشاکم : مذکورہ بالا دونوں آیات : امن ھذا الذی ھو جند لکم ینصرکم اور امن ھذا الذی ھو یرزقکم میں صراحت فرمائی تھی کہ کافروں کا کوئی حمایتی نہ ان کی مدد کرسکتا ہے اور نہ ان کو رزق دے سکتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر نصرت اور رزق کون عطا کرتا ہے ؟ اس سوال مقدرہ کے جواب میں فرمایا :۔ کہ تم کو نصرت اور رزق وہی عطا فرماتا ہے جس نے تم کو پیدا کیا تاکہ تم اس کو پہچانو اور اس کی عبادت کرو۔ (تفسیر مظہری) انشأ ماضی واحد مذکر غائب انشاء (افعال) مصدر۔ اس نے پیدا کیا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر، تم کو۔ السمع کان ، سننا، الابصار (آنکھیں) بصر کی جمع۔ الافئدۃ (دل) فؤاد کی جمع۔ السمع اصل میں مصدر ہے۔ اور مصدر کی جمع (اصل وضع کے اعتبار سے) نہیں آتی۔ اس لئے السمع کو بصورت مفرد ذکر کیا۔ لیکن البصر اور الفؤاد کی یہ حالت نہیں (یہ مصدر نہیں ہیں) اس لئے الابصار، الافئدۃ کو بصورت جمع ذکر کیا۔ ہر سہ السمع، الابصار، الافئدۃ منصوب بوجہ مفعول جعل کے ہیں۔ قلیلا ما تشکرون ۔ قلیلا صفت مشبہ بحالت نسب بوجہ مفعول۔ تھوڑا۔ قلۃ (باب ضرب) مصدر۔ اگر یہاں مراد تھوڑا شکر لیا جائے تو یہ مفعول مطلق ہوگا۔ اور اگر اس کا مطلب ” کم وقت میں “ لیا جائے تو یہ مفعول فیہ ہوگا۔ دونوں صورتوں میں موصوف محذوف ہوگا۔ ما لفطا زائدہ ہے اور معنی مفہوم قلت کی تاکید ہے۔ بہت ہی تھوڑے وقت میں شکر کرتے ہو۔ قلت شکر سے مجازا نفی شکر ہے۔ بالکل شکر نہیں کرتے، یا کسی وقت بھی شکر نہیں کرتے۔ تشکرون ۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ شکر (باب نصر) مصدر، تم شکر کرتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اللہ کی نعمتوں کا شکر یہی ہے کہ انہیں اس کی رضا مندی کے کاموں میں استعمال کیا جائے۔ کان کا شکریہ ہے کہ اس سے حق بات سنی جائے اور آنکھ کا شکریہ ہے کہ اس سے وہی چیز دیکھی جائے جس کے دیکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے یا اجازت دی ہے اور دل کا شکریہ ہے کہ اس میں وہی خیالات رکھے جائیں جو حق کے مطابق ہوں۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کی دوسری نعمتوں کا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آیت ١٦ سے لے کر ٢٢ تک چھ مرتبہ سوالیہ انداز میں اپنی قدرتیں سمجھائی ہیں اور اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھ مرتبہ ” قُلْ “ کے لفظ سے حکم دیا ہے کہ آپ اپنے رب کی ذات اور اس کی قدرتوں سے لوگوں کو آگاہ فرمائیں کہ اللہ کی قدرت کی عظیم نشانیوں میں سے یہ بھی ایک بڑی نشانیاں ہیں کہ اس نے تمہیں پیدا فرمایا، تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے ہیں مگر تھوڑے لوگ ہیں جو اس کا شکر ادا کرتے ہیں، یہ بھی انہیں بتلائیں کہ اس نے تمہیں پیدا کرنے کے بعد زمین پر پھیلایا ہے اور اسی کی طرف تم اکٹھے کیے جاؤ گئے۔ ان آیات میں بڑے اختصار کے ساتھ انسان کی تخلیق، اس کی صلاحیتوں اور لوگوں کے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ بالآخر تم سب نے اسی کی طرف اکٹھا ہونا ہے۔ اگر انسان اپنی تخلیق پر غور کرے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ انسانِ اوّل کو مٹی سے اور ہر انسان پانی کی ایک بوند سے پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عظیم شاہکار ہے پھر اس نے انسان کو کان، آنکھیں اور دل دیا تاکہ وہ کانوں کے ساتھ حقیقت سنے، آنکھوں کے ساتھ اس کی قدرتوں کا مشاہدہ کرے اور دل میں غور کرے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جس ذات نے اسے ان صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا اسے اس کی ذات اور بات کا انکار کرنے کی بجائے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ شکرگزار بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے ذہن میں یہ بات سما جائے کہ اگر میں نے اپنے خالق اور مالک کا شکر ادا نہ کیا تو مجھے قیامت کے دن اس کا حساب دینا ہوگا۔ لیکن ناشکرے لوگوں کی حالت اور عادت یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ کہ قیامت کب آئے گی۔ قرآن مجید میں کفار کے سوال کا متعدد مرتبہ جواب دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہی کہتے تھے اور کہتے رہیں گے کہ قیامت کب آئے گی۔ ان کے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ وہ قیامت کی آمد پر یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر دور میں انبیاء اور ان کے ماننے والے کہتے رہے ہیں کہ قیامت آنے والی ہے لیکن آج تک قیامت نہیں آئی۔ بقول ان کے یہ بات لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتی ان کا کہنا ہے کہ انسان اسی طرح ہی پیدا ہوتے اور مرتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے اور مرتے رہیں گے اور دنیا کا نظام جس طرح چل رہا ہے اسی طرح چلتا رہے گا۔ موت وحیات کا سلسلہ بھی اس نظام کا ایک حصہ ہے لہٰذا جو شخص مَر چکا وہ کبھی نہیں اٹھایا جائے گا۔ (وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِِلَّا الدَّہْرُ وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا یَظُنُّونَ ) (الجاثیہ : ٢٤) ” یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیزجو ہمیں ہلاک نہیں کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس علم نہیں ہے محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ ” اللہ “ ہی نے انسانوں کو پیدا کیا اور انہیں کان، آنکھیں اور دل عطا فرمائے۔ ٢۔ ” اللہ “ ہی نے لوگوں کو زمین میں پھیلا یا اور وہی انہیں اپنے حضور اکٹھا کرے گا۔ ٣۔ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا تھا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب برپا ہوگی : ١۔ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (الزخرف : ٦٨) ٢۔ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ (الاعراف : ١٨٧) ٣۔ اللہ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف : ٨٥) ٤۔ قیامت قریب آگئی اور اس کے آنے کو اللہ کے سوا کوئی نہیں روک سکتا۔ (النجم : ٥٧۔ ٥٨) ٥۔ قیامت کے بارے میں اللہ کے علاوہ کسی کو علم نہیں کہ قیامت کب واقع ہوگی۔ (الانعام : ٥٩) ٦۔ قیامت قریب آگئی ہے لیکن لوگ اسے اعراض کرتے ہیں۔ ( الانبیاء : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ھوا .................... تشکرون ” یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ ہی نے انسان کو پیدا کیا ، اور اسے دیکھنے سننے اور سوچنے کی قوتیں بھی اللہ ہی نے دیں اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں سے انسان اعلیٰ ارفع مخلوق ہے۔ اور وہ اس جہاں میں موجود ہے۔ اس نے خود اپنے آپ کو نہیں پیدا کیا ، لہٰذا اس سے اعلیٰ وارفع اور زیادہ علم والا موجود ہوگا۔ اور وہی خالق ہے ، کوئی شخص خالق کے اعتراف سے نہیں بھاگ سکتا ، کیونکہ خود انسان کا محض وجود ہی تقاضا کرتا ہے کہ کوئی ارفع قوت موجود ہے اور اس میں بحث وجدال کرنا اور شک کرنا محض ہٹ دھرمی ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کو یہاں اس لئے لاتا ہے کہ وہ بتائے کہ اللہ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی قوتیں دی ہیں۔ وجعل .................... والا فئدة (٧٦ : ٣٢) ” تم کو سننے ، دیکھنے اور سوچنے کی طاقتیں دیں “۔ اور انسان نے اللہ کے یہ انعامات پاکر کیا کیا ؟ یہ سمع ، یہ بصارت اور یہ عقل کی قوت ؟ اور انسان کا طرز عمل دیکھئے ! قلیلاً ما تشکرون (٧٦ : ٣٢) ” مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو “۔ سننے کی قوت اور دیکھنے کی قوت انسان کے نفس کے اندر دو عجیب معجزے ہیں۔ انسان نے ان کے بعض پہلو معلوم کر لئے ہیں۔ اور والافئدة سے قرآن سوچنے کی قوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ تو اعجب العجائب ہے۔ انسان کی عقلی قوت کے بارے میں ابھی تک انسان پوری معلومات نہیں حاصل کرسکا۔ عقل انسان کے اندر اللہ کا ایک منفرد معجزہ ہے۔ جدید علوم نے سننے کی قوت کے بارے میں بعض حیران کن باتوں کو دریافت کرلیا ہے ، مناسب ہے ان میں سے بعض چیزوں کا یہاں ذکر کردیا جائے۔ ” ہمارے سننے کی حس بیرونی کان سے کام شروع کرتی ہے اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ اس کی انتہا کہاں ہوتی ہے ؟ سائنس دان کہتے ہیں کہ کہ آواز ہوا کے اندر جو لہریں پیدا کرتی ہے یہ لہریں کان تک جاتی ہیں۔ یہ کان ان کے اندر داخل کرنے کے لئے منظم کرتا ہے ، تاکہ یہ کان کے پردے کے اوپر پڑیں اور یوں یہ آواز کام کے پردے کی دوسری طرف گہرائی تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ گہرائی ایسی ہے کہ اس میں اسپرنگ کی طرح گول نالیاں ہیں اور یہ نصف دائرے کی شکل میں ہیں۔ اس گول نالیوں کے حصے میں چار ہزار قوس ہیں ، جو سر کے آلہ سماعت کے ساتھ پیوست ہیں “۔ ” سوال یہ ہے کہ ہر ایک قوس کا طول کیا ہے اور اس کا حجم کیا ہے اور یو قوس کس طرح بنائے گئے ہیں ، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور یہ کس قدر چھوٹی جگہ میں رکھ دیئے گئے ہیں جبکہ ان کے علاوہ اور کئی ہڈیاں ہیں جو موجوں کی طرح متحرک ہوتی ہیں۔ اور یہ تمام سامان کان کے پردے کے پیچھے ایک چھوٹی سی کھلی جگہ میں ہے ! کان میں ایک سو ہزار (ایک لاکھ) سماعتی خلیات ہیں ! اور سماعت کے اعصاب کے آخر میں باریک ترین ریشے ہیں ، جن کی باریکی ہی محیرالعقول ہے اور اس کے تصور ہی سے سر چکرانے لگتا ہے “۔ (اللہ اور جدید علوم ، عبدالرزاق نوفل ، ص ٧٥) ” انسانی حاسہ بصارت کو ذرا دیکھئے ، اس کے مرکز میں روشنی کا استقبال کرنے والوں کی ٠٣١ ملین (٣١ لاکھ) سیل ہیں۔ یہ استقبال کرنے والی آنکھیں اعصاب کے سرے ہیں اور آنکھ کے اہم حصے صلبہ قرنیہ (Cornea) جھلی (Plancenta) جالی (Ratina) یہ اہم اعضا ، ہزارہا اعصاب اور مراکز کے علاوہ ہیں۔ (حوالہ بالا ص ٨٥) ۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کرکے یہ خصوصیات اسے عبث نہیں دیں۔ اور نہ بغیر کسی ارادے منصوبے کے یونہی اتفاقاً یہ کام ہوگیا ہے۔ بلکہ یہ اس لئے دی گئی ہیں کہ انسان اس زمین پر زندگی بسر کرسکے۔ اور یوم الجزاء میں پھر اس سے زندگی کا حساب لے کر اسے جزاء وسزا دی جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اعضاء وجوارح کا شکر کرو : اس کے بعد اللہ تعالیٰ شانہ ٗ کا یہ احسان فرمایا کہ اس نے تمہیں پیدا کیا، تمہارا بالکل ہی وجود نہ تھا اس نے تمہیں وجود بخشا اور صرف وجود ہی نہیں دیا بلکہ بہترین اعضاء وجوارح سے آراستہ فرما دیا، تمہیں اس نے قوت سامعہ دی آنکھیں عطا فرمائیں دل عنایت فرمائے۔ ان سب نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ خوب بڑھ چڑھ کر اس کا شکر ادا کرو۔ قلب سے اور قالب سے شکر گزار بندے بنے رہو۔ سمجھداری کا تو تقاضا یہی ہے مگر تمہارا حال یہ ہے کہ بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے علم و فہم اور ادراک و شعور عطا فرمایا ہے ان کے کچھ ذرائع بھی بنا دیئے ہیں۔ دیکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انکھیں دیں سننے کے لیے قوت سامعہ عطا فرمائی، سونگھنے کے لیے ناک کے اندر قوت شامہ رکھ دی اور چکھنے کے لیے زبان کے جسم میں قوت ذائقہ ودیعت فرما دیا اور قوت لامسہ یعنی چھونے کی قوت سارے بدن میں رکھ دی۔ اعضاء کی نعمتوں میں سے یہاں تین چیزوں یعنی سمع اور بصر اور افئدہ یعنی قلوب کو ذکر فرمایا ہے یہ مضمون سورة ٴ نحل اور سورة المومنون اور سورة ٴ الم سجدہ میں بھی بیان فرمایا ہے افئدہ فواد کی جمع ہے فواد ” دل “ کو کہتے ہیں جو علم اور فہم، ادراک اور شعور کا مرکز ہے اور انسان کو زیادہ معلومات سننے سے حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے بعد دیکھنے کا مرتبہ ہے اس سے بھی علم حاصل ہوتا ہے لیکن جو معلومات سننے سے حاصل ہوتی ہیں ان معلومات سے زیادہ ہیں جو دیکھنے سے حاصل ہوتی ہیں اس سے سمع و بصر کے ذکر پر اکتفا فرمانے اور سمع کو بصر پر مقدم فرمانے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی گو دل کو ان حواس کے ذریعہ علم حاصل ہوتا ہے لیکن ان حواس کا ذریعہ علم ہونا بھی صحت قلب پر موقوف ہے اگر انسان کا دل ٹھکانے نہ ہو تو یہ چیزیں ادراک سے قاصر اور عاجز رہتی ہیں۔ اس اعتبار سے سمع بصر اور فواد کی نعمت کو اکٹھا بار بار بیان کرنے کی حکمت معلوم ہوگئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” قل ھو الذی انشاکم “ چھٹی دلی عقلی خاص۔ زمین و آسمان کے احوال کے بعد اب اپنی طرف دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا فرمایا اور تمہیں سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی قوتیں عطا کیں، مگر تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے ہو۔ ” جعل لکم السمع الخ “ مدار کلام ہے۔ جب یہ قوتیں عطا کرنے والا کوئی اور نہیں، تو کیا برکات دہندہ کوئی اور ہوگا ؟ ” قل ھو الذی ذرا کم “ ساتویں دلیل عقلی خاص۔ تمہیں پیدا بھی میں نے کیا اور پھر زمین میں تم کو پھیلایا اور آباد کیا اور پھر آخر سب اسی کے پاس اکٹھے کیے جاؤ گے کیا یہ سب کچھ کسی دوسرے نے کیا ہے ؟ نہیں، نہیں ! میں ہی نے کیا ہے تو برکات دہندہ کوئی اور ہوگا ؟۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) اے پیغمبر آپ فرمائیے وہ اللہ تعالیٰ ایسا منعم اور محسن ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور تم کو کان اور آنکھیں اور دل دیئے مگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کا بہت کم شکرادا کرتے ہو۔