Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 27

سورة الملك

فَلَمَّا رَاَوۡہُ زُلۡفَۃً سِیۡٓئَتۡ وُجُوۡہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ قِیۡلَ ہٰذَا الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تَدَّعُوۡنَ ﴿۲۷﴾

But when they see it approaching, the faces of those who disbelieve will be distressed, and it will be said, "This is that for which you used to call."

جب یہ لوگ اس وعدے کو قریب تر پا لیں گے اس وقت ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے جسے تم طلب کیا کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِييَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ... But when they will see it approaching, the faces of those who disbelieve will be sad and grievous. means, when the Day of Judgement begins, and the disbelievers witness it, and they see that the matter has drawn close, because everything that is to occur will occur, even if it takes a long time. So, when what they denied occurs, it will grieve them because they will know what is awaiting them there (in Hell) of the worst evil. This means that it will surround them and Allah will command what they were not able to reckon or fully comprehend to come to them. وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُواْ مَا فِى الاٌّرْضِ جَمِيعاً وَمِثْلَهُ مَعَهُ لاَفْتَدَوْاْ بِهِ مِن سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُواْ يَحْتَسِبُونَ وَبَدَا لَهُمْ سَيِّيَاتُ مَا كَـسَبُواْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ and there will become apparent to them from Allah what they had not been reckoning. And the evils of that which they earned will become apparent to them, and that which they used to mock at will encircle them. (39:47,48) This is why it will be said to them in order to scold and reprimand them, ... وَقِيلَ هَذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تَدَّعُونَ This is what you were calling for! meaning, that you were seeking to hasten.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 یعنی ذلت اور ہولناکی اور دہشت سے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہونگی۔ جس کو دوسرے مقام پر چہروں کے سیاہ ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی یہ عذاب جو تم دیکھ رہے ہو وہی ہے جسے تم دنیا میں جلد طلب کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] یعنی اس وقت تو تم قیامت اور بعث بعد الموت کا مذاق اڑاتے اور طنزیں کرتے ہو مگر جب اسے واقع ہوتے دیکھ لو گے تو تمہاری کیفیت وہی ہوگی جو ایک پھانسی کے مجرم کو تختہ دار دیکھنے سے طاری ہوجاتی ہے۔ چہرے کا حلیہ بگڑ جائے گا اور ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔ اس وقت فرشتے تمہیں مخاطب کرکے کہیں گے یہ ہے قیامت کا دن جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے کیا اب بھی تمہیں یقین آیا ہے یا نہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا رَاَوْہُ زُلْفَۃً سِیْئَتْ ۔۔۔۔۔” زلقۃ “ ” زلق یزلف “ (ن) سے اسم مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، قریب۔” تدعون “” دعا یدعو “ کے باب افتعال سے فعل مضارع ہے ، جس میں تائے افتعال کو دال سے بدل کر دال کو دال میں ادغام کردیا ہے۔ اب وہ جس قیامت کو مذاق سمجھ رہے ہیں اور جس کا مطالبہ بڑے دھڑلے سے بار بار کر رہے ہیں ، جب قریب آتی ہوئی دیکھیں گے تو سب ہنسی مذاق اور شیخی شوخی بھول جائیں گے ، خوف اور دہشت سے ان کے چہرے بگڑ جائیں گے اور کہا جائے گا یہی ہے وہ قیامت جس کا تم مطالبہ کیا کرتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا رَاَوْہُ زُلْفَۃً سِيْۗـــــَٔتْ وُجُوْہُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَقِيْلَ ہٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِہٖ تَدَّعُوْنَ۝ ٢٧ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ زلف الزُّلْفَةُ : المنزلة والحظوة «2» ، وقوله تعالی: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک/ 27] وقیل لمنازل اللیل : زُلَفٌ قال : وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود/ 114] ( ز ل ف ) الزلفۃ اس کے معنی قریب اور مرتبہ کے ہیں چناچہ آیت : ۔ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک/ 27] سو جب وہ قریب دیکھیں گے ۔ اور منازل لیل یعنی رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود/ 114] اور رات کے کچھ حصوں میں۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو جب یہ دوزخ کے عذاب کو پاس آتا ہوا یا یہ کہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو وہ برا عذاب کافروں کے چہروں کو جھلس دے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی عذاب ہے جس کی تم دنیا میں طلب کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ عذاب واقع نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧{ فَلَمَّا رَاَوْہُ زُلْـفَۃً سِیْــٓئَـتْ وُجُوْہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ” پھر جب وہ دیکھیں گے اس کو اپنے قریب آتے تو ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے “ { وَقِیْلَ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَدَّعُوْنَ ۔ } ” اور کہا جائے گا ‘ یہ ہے وہ چیز جس کا تم مطالبہ کرتے ‘ تھے۔ “ ہماری وعیدوں اور تنبیہات کے جواب میں تم لوگ طنزیہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ لائو دکھائو کیسی ہے وہ جہنم ! لائو ابھی لے آئو ہمارے اوپر وہ عذاب موعود ! تو لو دیکھ لو اب ‘ یہ ہے جہنم ! تمہارا اصل اور دائمی ٹھکانہ !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 That is, they will be in the same agony as is suffered by the criminal who is being taken to the gallows.

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :37 یعنی ان کا وہی حال ہو گا جو پھانسی کے تختہ کی طرف لے جائے جانے والے کسی مجرم کا ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:27) فلما راوہ : ف ترتیب کا ہے۔ پھر ، لما : یہاں بطور کلمہ ظرف مستعمل ہے اور شرط کے لئے آیا ہے۔ بمعنی جب۔ راوہ : ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے اور ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع الوعد (آیت 25 میں مذکور ہے) الوعد سے مراد روز حشر، وقت وقوع حشر، حشر کے دن کا عذاب۔ زلفۃ : ای قریبا منہم۔ اپنے قریب ہی ، اپنے پاس ہی ، یہ راوہ میں ہ ضمیر مفعول سے حال ہے۔ پھر جب وہ اسے اپنے قریب ہی پائیں گے یاد یکھیں گے۔ فلما راوہ زلفۃ جملہ شرط ہے۔ سیئت وجوہ الذین کفروا : جواب شرط۔ سیئت ماضی مجہول کا صیغہ واحد مؤنث غائب سوء (باب نصر) مصدر۔ بمعنی غمگین کرنا۔ برا سلوک کرنا۔ س و ء مادہ سے باب افعال سے اساء یسی اساء ۃ خراب کرنا ، بگاڑنا۔ وجوہ مفعول مالم یسم فاعلہ۔ مضاف، الذین کفروا سلہ و موصول مل کر مضاف الیہ کافر لوگوں کے چہرے۔ سیئت وجوہ الذین کفروا : ای اساء ھا اللہ فتغیرت بالاسواد و الکابۃ والحزن (ایسر التفاسیر) اللہ تعالیٰ ان کے چہرے بگاڑ دے گا اور وہ حشر کے روز متواتر تاریکی میں ٹھوکریں کھانے اور افتاں وخیزاں چلنے سے بگڑ جائیں گے (افمن یمشی مکبا علی وجہہ اھدی ۔۔ کی طرف اشارہ ہے) ۔ اکثر مفسرین نے اس کا ترجمہ صیغہ ماضی معروف میں کیا ہے۔ کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے وقیل : ای وقیل لہم اور (ان کافروں سے) کہا جائے گا۔ قیل کا عطف سیئت پر ہے ھذا کا اشارہ عذاب آخرت کی طرف ہے۔ کنتم بہ تدعون : کنتم تدعون ماضی استمراری جمع مذکر غائب ادعاء افتعال مصدر۔ تم دعا کیا کرتے تھے، تم آرزو کیا کرتے تھے۔ تم مانگا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی غم اور افسوس کے مارے روسیاہ ہوجائیں گے اور ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔6 یعنی بار بار پیغمبر اور مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ بتائو یہ وعدہ کب پورا ہوگا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ پاس آتا ہوا دیکھنا یہ کہ اعمال کا محاسبہ ہوگا دوزخ میں جانے کا حکم ہوگا جس سے متیقن ہوجائے گا کہ اب عذاب سر پر آیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ان آیات میں کفار کو بتلائی جانے والی چوتھی اور پانچویں حقیقت۔ اس سے پہلے ” قُلْ “ کا لفظ استعمال فرما کر نبی کو حکم ہوا کہ کفار کو یہ بتلا یا جائے کہ تمہیں ” اللہ “ ہی نے پیدا کیا اور اسی نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل عطا فرمائے ہیں، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور وہی تمہیں اپنے حضور دوبارہ اکٹھا کرے گا اور وہی جانتا ہے کہ قیامت کب برپا ہوگی۔ اب حکم ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انہیں بتلائیں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کرے یا ہم پر مہربانی فرمائے تو کافرو ! تم بتلاؤ کہ تمہیں عذاب الیم سے کون بچائے گا ؟ انہیں یہ بھی بتلائیں کہ جو ہلاک کرنے اور بچانے والا ہے اسی الرحمن پر ہمارا بھروسہ اور ایمان ہے، وقت آئے گا کہ تمہیں پتا چل جائے گا کہ کون کھلی گمراہی میں مبتلا ہے اور کون ہدایت کے راستے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہلاک کرنے اور مہربانی فرمانے کا ذکر فرما کر کفار کو یہ حقیقت بتلائی گئی ہے کہ موت اور زندگی، نفع اور نقصان صرف ” اللہ “ کے ہاتھ میں ہے لہٰذا تمہاری مخالفت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، البتہ تم یاد رکھو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ تم کھلی گمراہی میں مبتلا ہو۔ (یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ ) (آل عمران : ١٠٦) ” جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض سیاہ، کالے چہروں والوں سے کہا جائے گا کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ؟ اب عذاب چکھو کیونکہ تم انکار کرتے تھے۔ “ ” نہایت مہربان رب کی طرف سے جو زمینوں اور آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کو بولنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ جس دن جبریل اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے کوئی بات نہیں کر پائے گا سوائے اس کے جسے الرّحمن اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے وہ دن برحق ہے جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کرلے۔ ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آچکا ہے جس دن آدمی سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی بنا رہتا۔ “ (عبس : ٣٧ تا ٤٢) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی پر رحم فرمائے یا اسے ہلاک کرے اس کے کام میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ ٢۔ کفار جس قدر چاہیں مسلمانوں کی مخالفت کرلیں بالآخر انہیں عذاب الیم میں مبتلا ہونا ہے۔ ٣۔ مسلمان کو ہر حال میں ” اللہ “ پر بھروسہ کرنا چاہیے جو سب سے بڑا مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جس پر گرفت فرمائے اسے دنیا اور آخرت میں کوئی بچانے والا نہیں : ١۔ ” اللہ “ کا عذاب برحق ہے اور تم اس کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس : ٥٣) ٢۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ (ہود : ٤٣) ٤۔ اس دن وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ” اللہ “ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (المومن : ٣٣) ٥۔ اگر اللہ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس تکلیف سے بچا سکے۔ (الاحزاب : ١٧) ٦۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج : ١٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلما راوہ .................... تدعون ” جب انہوں نے اسے دیکھ لیا اور وہ ان کے سامنے ہے۔ ان کو توقع ہی نہ تھی کہ ان کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ اب تو ان کے چہروں کی شکل بگڑ رہی ہے۔ غم کے بادل ہیں ان چہروں پر۔ اب ان کو یوں سرزنش کی جاتی ہے۔ ھذا الذی ................ تدعون (٧٦ : ٧٢) ” یہی ہے وہ چیز جس کے لئے تم تقاضے کرتے تھے “۔ یہ ہے حاضر اور قریب۔ اور دعویٰ تمہارا یہ تھا کہ قیامت کہاں ہے ؟ یہ انداز کہ ہونے والے واقعات کو قرآن اس طرح پیش کرتا ہے کہ گویا ہوگئے ، یہ ان کے شکوک و شبہات کے جواب میں کیا ہی خوب انداز ہے۔ ان کو ایک شعوری جھٹکا دیا جاتا ہے کہ وہ دیکھو قیامت تو برپا ہے۔ اور تکذیب کرنے والا اور شک کرنے والا کلام ربانی کے سامنے مبہوت رہ جاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ وہ منکر ہے بلکہ منظر کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔ اور یہ تصویر کشی اثر انداز اس لئے ہوئی ہے کہ اللہ کے علم میں ہیں وہ ہونے والے مناظر ، گویا فی الواقعہ وہ مناظر قائم ہیں ، کیونکہ اللہ کا علم زمان ومکان کے قید کے اندر محدود نہیں۔ یہ ماضی ، حال اور مستقبل تو انسان کے لئے ہیں۔ آج اگر اللہ حکم دے تو یہ شاید ہم اسی طرح دیکھ سکتے ہیں۔ اس طرح اچانک منکرین مخاطبین کو دنیا سے آخرت میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ اور شک وشبہ کی بجائے ان کا سامانا کرادیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کے سامنے ان کو لایا جاتا ہے جو اللہ کے علم میں قائم ہے ، اگر پردہ اٹھادے تو ہم بھی دیکھ لیں ، لیکن اللہ یہاں صرف اس کی تصویر دکھاتا ہے۔ مشرکین مکہ اس قدر احمق ، خوش فہم اور معاند تھے کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مٹھی بھر مومنین کے بارے میں یہ تمنائیں کرتے تھے کہ وہ ہلاک ہوجائیں اور یہ مومنین سے بےغم ہوجائیں۔ اور وہ ایک دوسرے کو بھی نصیحت کیا کرتے تھے کہ بھائی صبر کرو ، چند لوگ ہیں مرکھپ جائیں گے۔ اس لئے یہ انتشار خود بخود ختم ہوجائے گا جو قریش کی صفوں میں انہوں نے برپا کردیا اور بعض اوقات تو وہ اس زعم میں مبتلا ہوجاتے تھے کہ اللہ عنقریب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کردے گا۔ اس لئے کہ وہ صابی اور گمراہ ہیں کیونکہ یہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ اب حشرونشر کے اس میدان کے بعد ان کو کہا جاتا ہے تمہاری یہ تمنائیں تو اپنی جگہ ، لیکن اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی ہلاک کردیئے گئے تو تم عذاب الیم سے کس طرح بچ جاﺅ گے۔ تم اپنے رویہ اور اپنے عقائد اور اپنے اعمال پر غور کرو ۔ اگر یہ پیغمبر اور اس کے مٹھی بھر ساتھی ہلاک ہوگئے تو اس سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ قِيْلَ هٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تَدَّعُوْنَ ٠٠٢٧﴾ اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ جسے تم طلب کیا کرتے تھے۔ یعنی تم جو یہ کہتے تھے کہ قیامت آنے کا وعدہ کب پورا ہوگا گویا انداز بیان ایسا تھا جیسے تم قیامت کے چاہنے والے ہو، لو اب وعدہ پورا ہوگیا تمہاری مانگ پوری ہوگئی آج اپنے انکار و تکذیب کی سزا بھگت لو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” فلما راوہ “ تخویف اخروی۔ جب مشرکین اللہ کے عذاب کو اپنے قریب دیکھ لیں گے تو خوف وہراس سے ان کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا۔ یہ وہی عذاب ہے جس کا تم مطالبہ کرتے تھے۔ ” قل ارایتم “ تخویف دنیوی و طریق تبلیغ اول۔ شرط کی جزا محذوف ہے۔ ای لیس لنا غیرہ من عذابہ۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عذاب دینے والا اور رحم کرنے والا کوئی نہیں۔ اے مشرکین یہ بتاؤ کہ اگر مجھے اور میرے ساتھیوں کو اللہ ہلاک کر ڈالے جس طرح تمہاری تمنا ہے یا وہ ہم پر مہربانی اور ہمیں عذاب سے مھفوظ رکھے تو بتاؤ تمہیں اس کے دردناک عذاب سے کون پناہ دے گا ؟ کیونکہ تمہارے معبود تو عاجز اور بےبس ہیں۔ اس لیے تمہارا فائدہ اسی میں رہے کہ تم پیغمبر (علیہ السلام) کی پیروی کرو جس کا اتباع تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکتا ہے۔ والحاصل انہ لافائدۃ لکم فی ھلاکنا حتی تطلبونہ انما یفیدکم ان تتبعوا من یجیرکم من عبذاب اللہ الخ (مظہری ج 10 ص 28) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) کہ جب اس روز قیامت یا اس وعدہ قیامت کو قریب اور پاس آتا ہوا دیکھیں گے تو اس وقت ان منکرین حق اور کفر پیشہ لوگوں کے چہرے اور شکلیں بگڑ جائیں گی اور اس وقت کہا جائے گا یہی وہ عذاب ہے جس کا تم سخت تقاضا کیا کرتے تھے اور تاکید کے ساتھ مانگا کرتے تھے۔ یعنی جس وعدے کا تعین کر ارہے ہو اور تاریخ اور وقت کی تعیین کر ارہے ہو جب وہ وعدہ آئے گا اور وہ قیامت قریب آجائے گی تو کافروں کی صورتیں اور ان کی شکلیں مارے غم اور پریشانی کے بگڑ جائیں گی اور اس وقت ان سے کہا جائے گا یہی تو وہ دن ہے جس کا تم تقاضا کیا کرتے تھے۔