Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 4

سورة الملك

ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ ﴿۴﴾

Then return [your] vision twice again. [Your] vision will return to you humbled while it is fatigued.

پھر دوہرا کر دو دو بار دیکھ لے تیری نگاہ تیری طرف ذلیل ( و عاجز ) ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ ... Then look again and yet again, Qatadah said, "It means (look) twice." ... يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِأً ... your sight will return to you Khasi', Ibn `Abbas said that Khasi' means humiliated. Mujahid and Qatadah both said that it means despised. ... وَهُوَ حَسِيرٌ and worn out. Ibn `Abbas said t... hat this means it will be exhausted. Mujahid, Qatadah and As-Suddi all said that it means broken down fatigue that comes from weakness. Thus, the Ayah means that if you continuously looked, no matter how much you look, your sight will return to you خَاسِأً Khasi' due to the inability to see any flaw or defect (in Allah's creation) وَهُوَ حَسِيرٌ and worn out. meaning, exhausted and broken down feebleness due to the great amount of repeated looking without being able to detect any deficiency. Then, after Allah negated any deficiency in the creation of the heavens, He explains their perfection and beauty. He says,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یہ مذید تاکید ہے کہ جس سے مقصد اپنی عظیم قدرت اور وحدانیت کو واضح تر کرنا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] یعنی انسان کو بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر تم اللہ کی ہستی، اس کے تصرف اور اس کے علیم و حکیم ہونے میں کچھ شک رکھتے ہو تو بتاؤ کہ اس کائنات کے نظام میں فلاں نقص باقی رہ گیا ہے۔ بار بار آسمانوں کی طرف نظر دوڑاؤ اور غور و فکر کرکے اس نظام میں کوئی عیب تلاش کرنے کی کوشش کرو تم دیکھ دیکھ ... کر اور غور و فکر کر کرکے عاجز رہ جاؤ گے مگر تمہیں ایسا کوئی عیب یا نقص نظر نہیں آئے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ ۔۔۔۔۔:” کر تین “ کا لفظی معنی دو مرتبہ ہے ، مگر یہاں مراد صرف دو مرتبہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ ( دوبارہ غور کرنے سے بھی کوئی خلل نہ ملے تو) بار بار دیکھ ! جیسا کہ ” لبیک “ کا لفظ تثنیہ ہے مگر اس کا معنی یہ نہیں کہ ” میں دو دفعہ حاضر ہوں “ بلکہ یہ ہے کہ ” میں...  بار بار حاضر ہوں “۔” خاسئاً “ کسی چیز کو طلب کرنے والا جو اس سے دور ہٹا دیا جائے ۔” حسیر “ جو تھک کر عاجز رہ جائے ۔ بار بار دیکھنے کا حکم ان کی بےبسی واضح کرنے کے لیے ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّہُوَحَسِيْرٌ۝ ٤ انقلاب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِ... بُونَ [ الأعراف/ 125] ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں الانقلاب کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ خسأ خَسَأْتُ الکلب فَخَسَأَ ، أي : زجرته مستهينا به فانزجر، وذلک إذا قلت له : اخْسَأْ ، قال تعالیٰ في صفة الكفّار : اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون/ 108] ، وقال تعالی: قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة/ 65] ، ومنه : خَسَأَ البَصَرُ ، أي انقبض عن مهانة، قال : خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] . ( خ س ء ) خسات الکلب فخساء میں نے کہتے کو دھکتارا تو وہ دور ہوگیا ۔ اور کسی کو دھکتارنے کیے لئے عربی میں اخساء کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں کفار کے متعلق فرمایا ۔ اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون/ 108] اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو ۔ قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة/ 65] تو ہم نے ان سے کہا ک ذلیل و خوار بند ر ہوجاؤ ۔ اسی سے خساء البصر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں نظر درماندہ ہوکر منقبض ہوگئی ۔ قرآن میں ہے :۔ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] . کہ وہ نظر درماندہ اور تھک کر لوٹ آئے گے ۔ حسر الحسر : كشف الملبس عمّا عليه، يقال : حسرت عن الذراع، والحاسر : من لا درع عليه ولا مغفر، والمِحْسَرَة : المکنسة، وفلان کريم المَحْسَر، كناية عن المختبر، وناقة حَسِير : انحسر عنها اللحم والقوّة، ونوق حَسْرَى، والحاسر : المُعْيَا لانکشاف قواه، ويقال للمعیا حاسر ومحسور، أمّا الحاسر فتصوّرا أنّه قد حسر بنفسه قواه، وأما المحسور فتصوّرا أنّ التعب قد حسره، وقوله عزّ وجل : يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] ، يصحّ أن يكون بمعنی حاسر، وأن يكون بمعنی محسور، قال تعالی: فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً [ الإسراء/ 29] . والحَسْرةُ : الغمّ علی ما فاته والندم عليه، كأنه انحسر عنه الجهل الذي حمله علی ما ارتکبه، أو انحسر قواه من فرط غمّ ، أو أدركه إعياء من تدارک ما فرط منه، قال تعالی: لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة/ 50] ، وقال تعالی: يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر/ 56] ، وقال تعالی: كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة/ 167] ، وقوله تعالی: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس/ 30] ، وقوله تعالی: في وصف الملائكة : لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء/ 19] ، وذلک أبلغ من قولک : ( لا يحسرون) . ( ح س ر ) الحسر ( ن ض ) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور حسرت عن الذارع میں نے آستین چڑھائی الحاسر بغیر زرہ مابغیر خود کے ۔ المحسرۃ فلان کریم الحسر کنایہ یعنی ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اور کمزور اونٹنی جسکا گوشت اور قوت زائل ہوگئی ہو اس کی جمع حسریٰ ہے الحاسر ۔ تھکا ہوا ۔ کیونکہ اس کے قویٰ ظاہر ہوجاتے ہیں عاجز اور درماندہ کو حاسربھی کہتے ہیں اور محسورۃ بھی حاسرۃ تو اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے خود اپنے قوٰی کو ننگا کردیا اور محسور اس تصور پر کہ درماندگی نے اس کے قویٰ کو ننگا دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] تو نظر ( ہر بار ) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔ میں حسیر بمعنی حاسرۃ بھی ہوسکتا ہے اور کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہوکر بیٹھ جاؤ ۔ الحسرۃ ۔ غم ۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا گویا وہ جہالت اور غفلت جو اس کے ارتکاب کی باعث تھی وہ اس سے دیر ہوگئی یا فرط غم سے اس کے قوی ننگے ہوگئے یا اس کوتاہی کے تدارک سے اسے درماند گی نے پالیا قرآن میں ہے : ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران/ 156] ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کردے ۔ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة/ 50] نیز یہ کافروں کے لئے ( موجب ) حسرت ہے ۔ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر/ 56] اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة/ 167] اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا ۔ يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس/ 30] بندوں پر افسوس ہے اور فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء/ 19] وہ اس کی عبادت سے نہ کنیا تے ہیں اور نہ در ماندہ ہوتے ہیں ۔ اس میں سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤{ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَـیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّہُوَ حَسِیْرٌ ۔ } ” پھر لوٹائو نگاہ کو بار بار (کوئی رخنہ ڈھونڈنے کے لیے) ‘ پلٹ آئے گی نگاہ تمہاری طرف ناکام تھک ہار کر۔ “ اندازہ کیجیے کہ کس قدر ُ پرزور اسلوب ہے اور کتنا بڑا چیلنج ہے ! بار بار دیکھو ‘ ہر پہلو ا... ور ہر زاویے سے دیکھو ! اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تمہیں کہیں کوئی خلل ‘ نقص یا رخنہ نظر نہیں آئے گا ! ظاہر ہے یہ چیلنج پوری انسانیت کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ بہرحال آج تک کوئی سائنس دان اور کوئی دانشور اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکا۔ گویا اب تک پوری نوع انسانی اس نکتے پر متفق ہے کہ یہ کائنات اور اس کی ایک ایک تخلیق مثالی اور کامل ہے۔ دراصل دنیا بھر کے دانائوں اور دانشوروں کی توجہ اس مثالی تخلیق کی طرف دلا کر انہیں پیغام تو یہ دینا مقصود ہے کہ اے عقل کے اندھو ! کائنات کی خوبصورتی اور کاملیت کو دیکھ کر اس پر حیرت کا اظہار کرنے کے بجائے اس کے خالق کو پہچانو اور اس کی عظمت کے سامنے اپنا سر نیازخم کرو۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ ستاروں اور کہکشائوں کی دنیا کے اسرار و عجائب کا کھوج لگانے والے بڑے بڑے سائنسدان اور ماہرین فلکیات بھی اس معاملے میں اپنے ناک تلے کے پتھر سے ٹھوکریں کھاتے رہے۔ ان لوگوں نے اپنی تحقیقات کے دوران بہت کچھ دریافت بھی کیا اور بہت کچھ دیکھا بھی۔ لیکن اس ساری چھان بین میں انہیں اگر نہیں نظر آیا تو اس کائنات کا خالق کہیں نظر نہیں آیا۔ بقول اقبال : ؎ ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا !   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:4) ثم ارجع البصر کرتین۔ اس جملہ کا عطف فارجع پر ہے اور تثنیہ (یعنی لفظ کر تین جو کرۃ کا تثنیہ ہے) تکثیر کے لئے ہے۔ صرف دو دفعہ دیکھنا مراد نہیں ہے بلکہ بار بار دیکھنا مراد ہے پھر با ربارنگاہ ڈالو۔ ینقلب : مضارع مجزوم (بوجہ جواب امر) صیغہ واحد مذکر غائب ۔ ابقلاب (انفعال) مصدر۔ وہ (نگاہ تیری طرف)...  لوٹے گی خسئا : خسأ (باب فتح) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ، بمعنی درماندہ، ذلیل و خوار، تھک کر رہ جانے والا۔ دھتکارا ہوا۔ عربی میں ہے خسات الکلب فخسأ میں نے کتے کو دھتکارا پس وہ دور ہوگیا۔ کسی کو دھتکارنے کے لئے عربی میں اخسأ کہا جاتا ہے چناچہ قرآن مجید میں ہے :۔ اخسئوا فیہا ولا تکلمون (23:108) اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور میرے ساتھ کلام نہ کرو، اسی سے خسأ البصر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں نظر درماندہ ہو کر منقبض ہوگئی۔ (خ س و حروف مادہ) ۔ خسئا حال ہے ینقلب کے فاعل البصر سے۔ وھو حسیر : یہ جملہ بھی البصر کا دوسرا حال ہے حسیر تھکا ہوا۔ درماندہ، حسر (باب فتح) مصدر سے جس کے معنی ہیں تھکنا عاجز ہونا۔ بروزن (فعیل) صفت مشبہ کا صیغہ بمعنی فاعل بھی ہوسکتا ہے یعنی تھکنے والا۔ عاجز، اور بمعنی مفعول بھی۔ یعنی تھکا ہوا اور درماندہ  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی دیکھتے دیکھتے نگاہ تھک جائے گی لیکن آسمان ( اور اسی طرح دوسری مخلوق) میں کوئی عیب نظر نہ آئے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی وہ جس چیز کو جیسا چاہے بنا سکتا ہے، چناچہ آسمان کو مضبوط بنانا چاہا تو کیسا بنایا کہ باوجود مرور زمان دراز اب تک اس میں کوئی خلل نہیں آیا، اسی طرح کسی شے کو ضعیف و منفعل بنادیا، غرض اس کو ہر طرح قدرت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم ارجع البصر کرتین (٧٦ : ٤) ” بار بار نگاہ دوڑاﺅ“۔ شاید کوئی چیز دیکھنے سے رہ گئی ہو ، اور تم معلوم نہ کرسکے ہو ، لہٰذا پھر بھی نگاہ ڈالو۔ ینقلب .................... حسیر (٧٦ : ٤) ” تمہاری نگاہ تھک کرنا مراد پلٹ آئے گی “۔ یہاں چیلنج یہ ہے کہ ان آسمانوں اور اللہ تمام کی تمام مخلوقات کو ذرا گہری نظر...  سے دیکھو ، اس کائنات کا سنجیدہ مطالعہ کرو ، اور اس میں تامل و تدبر کرو ، اور اس چیز اور اس صفت ہی کو دراصل قرآن کریم انسانوں میں عام کرنا چاہتا ہے کہ تم اس کائنات کا گہرا مشاہدہ کرو۔ یہ کائنات دراصل بہت عجیب و غریب اور نہایت ہی خوبصورت ہے اور اس کے اندر معجزات و کمالات موجود ہیں لیکن ہم اس کے اندر اس قدر مانوس ہوگئے ہیں کہ اس کا انوکھا پن ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ اور اس کی عظیم خوبصورتی ہمیں کوئی خوبصورتی نظر نہیں آتی۔ حالانکہ یہ اس قدر خوبصورت ہے کہ نظر اس کی خوبصورتی کو دیکھ دیکھ کر سیر ہی نہ ہو اور اس کے اندر جو سبق اور اشارات ہیں ہمارے قلب ونظر کو اس سے سیر ہی نہ ہو۔ اور عقل تدبر کرتی ہی رہ جائے اور اس کے نظام کی بوقلمونیاں ختم ہی نہ ہوں۔ اس نقطہ نظر سے اگر انسان اس کائنات کا مطالعہ کرے تو اسے یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ اور سجائی ہوئی حسین و جمیل نمائش گاہ نظر آئے ، جس کا انوکھا پن اور جس کی خوبصورتی کبھی پرانی نہ ہو کیونکہ اس طرح عقل ونظر کے لئے اس کی خوبصورتی ہر روز نئی ہوگی۔ جو لوگ اس کائنات کی حقیقت سے قدرے واقف ہیں اور وہ جدید سائنسی علوم کے مطابق اس کے بعض پہلوﺅں کے حالات اور اس کے نظام کو کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں وہ تو حیران رہ جاتے ہیں اور ان کی عقل چکرانے لگتی ہے۔ لیکن اس کائنات کی خوبصورتی کے مشاہدے کے لئے کسی بڑی مقدار علم کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان پر اللہ کا یہ کرم ہے کہ اس کو اللہ نے ایسی صلاحیت دی ہے کہ وہ معمولی مشاہدے اور غوروفکر کے ساتھ اس کائنات کے ہمقدم اس طرح چل سکتا ہے جس طرح ایک زندہ آدمی دوسرے زندہ آدمی کے ساتھ چلتا ہے۔ انسان کا قلب براہ راست اس کائنات کے پیغام کو پاتا ہے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھتا ہے ، بشرطیکہ وہ آنکھیں اوپر کرکے دیکھے اور دل کھول کر کچھ اخذ کرے۔ اور وہ اس کائنات کو ایک زندہ مخلوق سمجھ کر اس کا رفیق بن جائے ، قبل اس کے کہ وہ اپنے نور فکر اور اپنی صد گاہوں سے اس عظیم اور عجیب کائنات کے رازوں کو افشا کرے۔ چناچہ قرآن مجید لوگوں کو اس کائنات کے حوالے کرتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں کائنات کی کھلی کتاب پکڑاتا ہے ، کہ اس کائنات کی آواز سنو ، اس کے تناظر اور عجائبات کی سیر کرو ، اس لئے کہ قرآن مجید کے مخاطب صرف سائنس دان نہیں ہیں ، بلکہ ہر دور اور ہر سطح کے انسان ہیں۔ قرآن کو ایک جنگلی اور صحراوی بھی پڑھتا ہے اور شہر میں بسنے والا اور سمندروں میں سفر کرنے والا بھی پڑھتا ہے ۔ وہ ایک ان پڑھ سے بھی مخاطب ہے ، جس نے ایک حرف بھی نہیں پڑھا۔ اور اسی طرح وہ باہر علم نجوم وفلکیات سے بھی مخاطب ہے۔ وہ ماہر طبیعیات سے بھی ہمکلام ہے اور ماہ رفلسفی سے بھی۔ ہر ایک کو قرآن میں عجائبات ملتے ہیں ، جن میں وہ تامل کرتا ہے اور قرآن ان سب کے غوروفکر کی قوتوں کو بیدار کرتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) پھر بار بار نگاہ کو دوہرا کر دیکھ اور بار بار نگاہ ڈال کر دیکھ تیری نگاہ ذلیل اور درماندہ ہوکر تیری طرف لوٹ آئے گی۔ یعنی پہلی مرتبہ کے بعد دو مرتبہ دیکھنے کا پھر حکم فرمایا یعنی تین مرتبہ دیکھنے کا حکم دیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہاں مقصود بار بار دیکھنے کی تاکید ہے کہ عالم علوی کی اس صنع میں جس کو ... آسمان کہتے ہیں کوئی عیب نکالنے کی غرض سے اس پر تنقیدی نظر ڈالو سوائے اس کے کہ اے مخاطب تیری نظر ذلیل ہوکر اور تھک کر تیری طرف واپس آجائے۔ حضرت حق تعالیٰ کے بنائے ہوئے آسمانوں میں کوئی تفاوت تجھ کو نظر نہ آئے گا پھر یہ آسمان پوری زمین کو اسی طرح محیط ہے جس طرح انڈا اپنی سفیدی اور زردی کو محیط ہوتا ہے انڈا پوری طرح گول نہیں ہوتا مگر آسمان زمین کی طرح گول ہے اور زمین کو سب طرف سے گھیرے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ زمین کے کسی حصے پر پہنچ کر آسمان کو دیکھئے ہر جگہ سے سروں کے اوپر نظرآئے گا اور یہ جو فرمایا ۔ خاسئا وھو حسیر نگاہ عیب بین کو جب کوئی عیب نہ ملے گا تو ذلیل ہوگی اور جب بار بار کوشش کرے گی تو تھک کر درماندہ ہوجائے گی۔ حضرت حق تعالیٰ کے کمال صنع میں انگلی رکھنے کی جگہ کہاں۔ آگے آسمان دنیا کی بعض خصوصیات کا ذکر فرمایا۔  Show more