Surat ul Aeyraaf
Surah: 7
Verse: 1
سورة الأعراف
الٓـمّٓصٓ ۚ﴿۱﴾
Alif, Lam, Meem, Sad.
المص
الٓـمّٓصٓ ۚ﴿۱﴾
Alif, Lam, Meem, Sad.
المص
Allah says; المص Alif-Lam-Mim-Sad. We mentioned before the explanation of the letters (such as, Alif-Lam, that are in the beginning of some Surahs in the Qur'an).
اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں ، ان کے متعلق جو کچھ بیان ہمیں کرنا تھا ، اسے تفصیل کے ساتھ سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں مع اختلاف علماء کے ہم لکھ آئے ہیں ۔ ابن عباس سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ اس سے مراد حدیث ( انا اللہ افضل ) ہے یعنی میں اللہ ہوں میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں ، سعید بن جبیر سے بھی یہ مروی ہے ، یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، اسمیں کوئی شک نہ کرنا ، دل تنگ نہ ہونا ، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا ، نہ کسی کا لحاظ کرنا ، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبرو استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا ، اس کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے ، یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت و عبرت وعظ و پند ہے ۔ اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ اس نبی امی کی پوری پیروی کرو ، اس کے قدم بہ قدم چلو ، یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے ، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے وہ اللہ تم سب کا خالق مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے ، خبردار ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرانا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی ، افسوس تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بے ایمانی پر اڑے ہی رہیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ 116 ) 6- الانعام ) یعنی اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے ۔ سورۃ یوسف میں فرمان ہے اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے ۔
[ ١] یہ سورة انعام سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی البتہ اس میں آٹھ آیات (آیت) ( وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ١٦٣۔ ) 7 ۔ الاعراف :163) سے لے کر ( وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّـةٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ بِهِمْ ۚ ١٧١ ) 7 ۔ الاعراف :171) تک مدنی ہیں اور اس سورة کا نام اعراف اس لیے ہے کہ اس میں جنت اور دوزخ کے درمیانی مقام اعراف اور اصحاب اعراف کا ذکر آیا ہے۔
الۗمّۗصۗ: یہ حروف مقطعات ہیں، تشریح کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١)
Commentary An overview of the Surah shows that most of the subjects it deals with are related to Ma` ad (Return to the Hereafter) and Risalah (Prophethood). The former appear from the beginning of the Surah upto approximately the end of the sixth section. Then, from the eighth to the twenty first sections, there is a detailed description of past prophets, events about their communities, their reward and punish¬ment and the punishment which overtook them.
خلاصہ مضامین سورة تمام سورة پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں زیادہ تر مضامین معاد (آخرت) اور رسالت سے متعلق ہیں، اور پہلی ہی آیت كِتٰبٌ اُنْزِلَ میں نبوت کا اور آیت نمبر 6 میں فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ میں معاد و آخرت کی تحقیق کا مضمون ہے، اور رکوع چہارم کے نصف سے رکوع ششم کے ختم تک بالکل آخرت کی بحث ہے۔ پھر رکوع ہشتم سے اکیسویں رکوع تک وہ معاملات مذکور ہیں جو انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں سے ہوئے ہیں۔ یہ سب مسئلے رسالت سے متعلق ہیں، اور ان قصص میں ساتھ ساتھ منکرین رسالت کی سزاؤں کا بھی ذکر چلا آیا ہے، تاکہ منکرین موجودین کو عبرت حاصل ہو، اور رکوع بائیس کے نصف سے تیئیس کے ختم تک پھر معاد کی بحث ہے، صرف ساتویں اور بائیسویں رکوع کے شروع میں اور آخری رکوع چوبیس کے اکثر حصہ میں توحید پر خاص بحث ہے، باقی بہت کم حصہ سورة کا ایسا ہے جس میں جزوی فروعی احکام بمناسب مقام مذکور ہیں (بیان القرآن) خلاصہ تفسیر الٓمٓصٓ، (اس کے معنی تو اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک راز ہے، جس پر امت کو اطلاع نہیں دی گئی بلکہ اس کی جستجو کو بھی منع کیا گیا، کِتٰب اُنزِل اِلَیک الخ) یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جو (اللہ کی جانب سے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ذریعہ (لوگوں کو سزائے نافرمانی سے) ڈرائیں، سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں (کسی کے نہ ماننے سے) بالکل تنگی نہ ہونی چاہئے (کیونکہ کسی کے نہ ماننے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصل مقصد بعثت میں جو کہ حق بات پہنچانے کا ہے کوئی خلل نہیں آتا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں دل تنگ ہوں) اور یہ (قرآن خصوصیت کے ساتھ) نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے (آگے عام امت کو خطاب ہے کہ جب قرآن کا منّزل من اللہ ہونا ثابت ہوگیا تو) تم لوگ اس (کتاب کا) اتباع کرو جو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے (اتباع کتاب یہ ہے کہ اس کی دل سے تصدیق بھی کرو اور اس پر عمل بھی) اور خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر (جس نے تمہاری ہدایت کے لئے قرآن نازل کیا) دوسرے رفیقوں کا اتباع مت کرو، (جو تم کو گمراہ کرتے ہیں جیسے شیاطین الجن والانس مگر باوجود اس مشفقانہ فہمائش کے) تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے ہو، اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ان کو (یعنی ان کے رہنے والوں کو ان کے کفر و تکذیب کی بناء پر) ہم نے تباہ و برباد کردیا اور ان پر ہمارا عذاب (یا تو) رات کے وقت پہنچا (جو سونے اور آرام کرنے کا وقت ہے) یا ایسی حالت میں (پہنچا) کہ وہ دوپہر کے وقت آرام میں تھے (یعنی کسی کو کسی وقت کسی کو کسی وقت) سو جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا اس وقت ان کے منہ سے بجز اس کے اور کوئی بات نہ نکلتی تھی کہ واقعی ہم ظالم (اور خطاوار) تھے (یعنی ایسے وقت اقرار کیا جب کہ اقرار کا وقت گزر چکا تھا، یہ تو دنیوی عذاب ہوا) پھر (اس کے بعد آخرت کے عذاب کا سامان ہوگا کہ قیامت میں) ہم ان لوگوں سے (بھی) ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے (کہ تم نے پیغمبروں کا کہنا مانا یا نہیں) اور ہم پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے (کہ تمہاری امتوں نے تمہارا کہنا مانا یا نہیں ؟ (آیت) یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ماذا اجبتم، اور دونوں سوالوں سے مقصود کفار کو زجر و تنبیہ ہوگی) پھر چونکہ ہم پوری خبر رکھتے ہیں خود ہی (سب کے روبرو ان کے اعمال کو) بیان کردیں گے، اور ہم (عمل کے وقت اور جگہ سے) غائب تو نہ تھے۔
الۗمّۗصۗ ١ ۚ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ ٢ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے حرج أصل الحَرَج والحراج مجتمع الشيئين، وتصوّر منه ضيق ما بينهما، فقیل للضيّق : حَرَج، وللإثم حَرَج، قال تعالی: ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء/ 65] ، وقال عزّ وجلّ : وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج/ 78] ، وقد حرج صدره، قال تعالی: يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام/ 125] ، وقرئ حرجا «1» ، أي : ضيّقا بکفره، لأنّ الکفر لا يكاد تسکن إليه النفس لکونه اعتقادا عن ظن، وقیل : ضيّق بالإسلام کما قال تعالی: خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وقوله تعالی: فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف/ 2] ، قيل : هو نهي، وقیل : هو دعاء، وقیل : هو حکم منه، نحو : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1] ، والمُتَحَرِّج والمتحوّب : المتجنّب من الحرج والحوب . ( ح ر ج ) الحرج والحراج ( اسم ) کے اصل معنی اشب کے مجتع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اسلئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہاجاتا ہے قرآن میں ہے ؛۔ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء/ 65] اور ۔۔۔ اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج/ 78 اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی ۔ حرج ( س) حرجا ۔ صدرہ ۔ سینہ تنگ ہوجانا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام/ 125] اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے ۔ ایک قرآت میں حرجا ہے ۔ یعنی کفر کی وجہ سے اس کا سینہ گھٹا رہتا ہے اس لئے کہ عقیدہ کفر کی بنیاد وظن پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو کبھی سکون نفس حاصل نہیں ہوتا اور بعض کہتے کہ اسلام کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] سے مفہوم ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف/ 2] اس سے تم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے ۔ میں لایکن فعل نہی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور ۔۔۔۔ جملہ دعائیہ بھی ۔ بعض نے اسے جملہ خبر یہ کے معنی میں لیا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1] سے مفہوم ہوتا ہے ،۔ المنحرج ( صفت فاعلی ) گناہ اور تنگی سے دور رہنے والا جیسے منحوب ۔ حوب ( یعنی گنا ہ) بچنے والا ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
(١) المص۔ اس کے معنی مراد اللہ تعالیٰ ہی جاننے والے ہیں یا یہ کہ یہ قسم ہے کہ جس کے ساتھ کھائی گئی ہے۔
یہ حروف مقطعات ہیں ‘ اور جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے ‘ حروف مقطعات کا حقیقی اور یقینی مفہوم کسی کو معلوم نہیں اور یہ کہ ان تمام حروف کے مفاہیم و مطالب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان راز کا درجہ رکھتے ہیں۔ البتہ یہ نوٹ کرلیجیے کہ قرآن مجید کی دو سورتیں ایسی ہیں جن کے شروع میں چار چار حروف مقطعات آئے ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہی سورة الاعراف ہے اور دوسری سورة الرعد ‘ جس کا آغازا آآّرٰسے ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے تین حروف مقطعات (اآآّ ) سورة البقرۃ اور سورة آل عمران میں آچکے ہیں۔
المص : سورہ بقرہ کے شروع میں گزرچکا ہے کہ یہ علیحدہ علیحدہ حروف جو بہت سی سورتوں کے شروع میں آئے ہیں ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں، اور ان کے ٹھیک ٹھیک معنیٰ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ اور ان کے معنیٰ سمجھنے پر دین کی کوئی بات موقوف بھی نہیں ہے۔
یہ حروف مقطعات ہیں ان کے معنے سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں چناچہ اس کی تفصیل سورة بقرہ میں گذر چکی ہے :۔
رکوع نمبر 1 ۔ آیات نمبر 1 تا 10 ۔ اسرار و معارف : کتاب کا مفہوم : حفورف مقطعات کے متعلق شروع میں ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ انھا سر بین اللہ ورسولہ نیز جنہیں قلب اطہر سے نسبت تام نصیب ہوجائے اللہ کی عطا سے وہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق آگاہ ہوجاتے ہیں ان پر ایمان ضروری ہے اور تلاوت سے وہ فائدہ جو مقصود ہے نصیب ہوجاتا ہے لہذا ہر کس و ناکس کو معافی کی کرید نہ کرنا چاہئے۔ یہ کتاب ہے جامع مکمل اور سچی محض اوراق لکھ کر جوڑ دینا کتاب کا مفہوم ادا نہیں کرتا اس لیے کہ ہر کتاب کسی موضوع پر ہوتی ہے اور حق یہ ہے کہ اسے موضوع کے بارے مکمل سچی اور حتی بات قاری تک پہنچانا چاہئے۔ انسانی اندازے تو ہوتے ہیں قطعی بات کہنا اللہ کے سوا کسی کے بس میں نہیں اس مفہوم کو صرف اللہ کی کتاب پورا کرتی ہے لہذا ارشاد ہوا یہ کتاب ہے اور اللہ کی طرف سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ نافرمانوں کو اعمال بد کے خطرناک نتائج سے بروقت خبردار کردیجیے اور ایمان لانے والوں کو وہ طریقہ تعلیم فرمائیے کہ جن سے وہ زیادہ سے زیادہ قرب الہی حاصل کرسکتے ہیں لہذا آپ کو غمگین نہ ہونا چاہئے کہ اللہ کا ذاتی کلام ہے کتنی مشقت اٹھا کر لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے لیکن بدنصیب مان کر نہیں دیتے جس کے نتیجے میں جہنم میں گریں گے ہمیشہ کے لیے عذاب سے دوچار ہوں گے لوگ اگر ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کی اپنی پسند اور ذاتی انتخاب ہے آپ اس پر دلگیر نہ ہوا کریں۔ یہ رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فطری شفقت تھی کہ معاندین کے انجام کا دکھ محسوس فرماتے تھے تو متعلقین پر کتنا کرم ہوگا کاش مسلمان اندازہ کرسکے ک اور صرف اس لیے اللہ کی اطاعت کرلے کہ نافرمانی پہ صرف اپنا نقصان ہی مرتب نہ ہوگا رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی پریشانی لاحق ہوگی نیز یہ واضح ہوگیا کہ مفاہیم کتاب بیان کرنا منصب رسالت ہے ہر کوئی محض لغت سے معانی مقرر کرنے کا نہ مجاز ہے نہ کسی میں اس کی استعداد ، اسی لیے تفسیر صرف وہ معتبر ہوگی جو حدیث اور سنت سے ثابت ہو۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر تزکیہ قلب نصیب نہ ہو تو آدمی اپنے پر جبر کرکے اطاعت کی صورت تو بنا سکتا ہے لطف غلامی سے نا آشنا ہی رہتا ہے۔ لوگو یہ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے یعنی اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے کہ نہ صرف تمہاری جسمانی اور دنیوی حاجات کو پورا کرے بلکہ روحانی اور اخروی و ابدی ضروریات کی تکمیل بھی اشد ضروری ہے لہذا رب جلیل نے اس کا اہتمام کردیا اب جس طرح زندہ رہنے کے لیے غذا کھاتے تندرستی کے لیے دوا لیتے ہو اسی ابدی راحت کے لیے اطاعت اور عبادت کی ضرورت ہے اور یہ تمہارا کام ہے کہ آگے بڑھ کر اس پیغام کو سینے سے لگا لو زندگی ہار دو مگر آخرت کو ہاتھ سے جانے نہ دو یہ کام اسی صورت ممکن ہے کہ تم ساری امیدیں اللہ سے وابستہ کرلو اور اس کے بغیر کسی سے امید نہ رکھو ورنہ جس سے امید باندھو گے اسی کی غلامی میں گرفتار ہوجاؤگے بات بڑی سادہ ہے مگر ہمیشہ کم ہی لوگ سمجھ پائے ہیں دنیا کی چکا چوند میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ گناہ کرتے کرتے اس حد پہ جا پہنچے کہ حیات دنیا میں عذاب الہی کا شکار ہوئے کتنی قومیں راتوں رات تباہ ہوگئیں اپنے حال میں مست اور عیش کوشیوں میں مصرف کوئی دن کو لیٹے اور پھر اٹھنا نصیب نہ ہوا یہ لوگ اسی زمین پر آباد تھے اور احکامِ الہی کو خاطر میں نہ لاتے تھے حتی کہ جب گرفت میں آئے تو بےاختیار کہہ اٹھے کہ بلا شک ہم ہی غلط کار تھے آخر ہماری بےراہ روی رنگ لائی کیا ان کے حالات تمہارے لیے عبرت کا سامان نہیں ؟ دنیا محض تماشا نہیں بلکہ انبیاء ومرسلین تک سے ان کی زمہ داریوں کے بارے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے اللہ کی بات پہنچا دی تھی یا نہیں یا وجود اس کے کہ سب نبی معصوم ہوتے ہیں اور پوری زندگی کی توانائیاں صرف اس مقصد پہ صرف کرتے ہیں جس کے لیے مبعوث ہوں حتی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبہ حج میں ہی بات ارشاد فرما کر صحابہ کرام سے پوچھا تھا کہ تم لوگ میرے بارے کیا شہادت دو گے تو سب نے عرض کیا کہ آپ نے پہنچانے کا حق ادا کردیا تو آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر تین بار فرمایا اللھم اشہد اے اللہ گواہ رہنا۔ جب انبیا علیہم الصلوۃ والسلام سے پرسش ہوگی اگرچہ سب نے پوری پوری محنت کی تو بھلا جن کی طرف نبی بھیجے گئے وہ کیسے بچ سکیں گے کہ ان میں سے اکثر نے بات سننا بھی گوارا نہ کیا لہذا اس بات کی پوری تحقیق ہوگی اور چھوٹے سے چھوٹا کام جو لوگوں کو یاد بھی نہ ہوگا۔ اللہ کریم فرماتے ہیں ہم یاد دلائیں گے ہم کہیں غیر حاضر تو نہ تھے تم نے جو کچھ کیا اللہ کے روبرو کیا اور ہر بات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ آج دار دنیا میں تو سمجھتے ہو کہ جابر یا دولت مند کا پلہ بھاری ہے اقتدار سے خائف رہتے ہو یا مل جائے تو ناز کرتے ہو مگر اس دن ٹھیک ٹھیک تول کیا جائے گا انسانوں کا ان کے عقاید اور اعمال کا ہر چیز میزان میں رکھ دی جائے گی پورے پورے انصاف کے ساتھ یعنی اعمال کو مھض اس لیے آسان نہ جانو کہ ان کا کوئی جرم ہی نہیں یا یہ مجسم تو ہیں نہیں پھر ان کا وزن کیسا اللہ قادر ہے یہ بھی مجسم ہوں گے انہیں جسم عطا کرنے پہ بھی قادر ہے اور بغیر جسم دئیے کیفیات کو لینے پر بھی قدرت رکھتا ہے لہذا ایک پلڑے میں نافرمانیاں اور ایک پلڑے میں اطاعت رکھ دی جائے گی جس کی اطاعت کا پلڑا بھاری ہوگا وہی کامیاب ہوگا اگر نیکی کا پلڑا ہلکا اور گناہ کا بھاری ثابت ہوا تو بقدر گناہ جہنم میں جانا ہوگا جو بہت بڑا نقصان ہے کہ ناروا طریقے اختیار کرکے دولت یا شہرت و اقتدار حاصل کیا تھا تو وہ بھی گیا اور جہنم کی مصیبت اس کے سوال گلے پڑی اس نقسان کا بنیادی سبب یہی آیات الہی کا انکار ہے کفر تو گناہ ہی ایسا ہے جس کے ساتھ کوئی نیکی سرے سے اپنا وجود ہی نہیں رکھتی لہذا ہمیشہ دوزخ کو سدھارے گا سوائے اس کے اللہ کریم رحم کردے کہ ایمان رحمت کا محل تو ہے۔ مفسرین نے یہاں مختلف اعمال کی فضیتل ترازو میں ان کا بھاری ہونا اور تولنے کی کیفیت کافی بحث فرمائی ہے۔ لہذا ایمن ہو تو امید نجات بھی ہے اگر جہنم جانا پڑا تو بھی ہمیشہ تو نہ رہے گا اور کفر ہمیشہ کی مصیبت ہے۔ چاند پر یا دوسرے سیاروں پر آبادی : دیکھو ہم نے زمین میں تمہار اٹھکانہ بنا دی اور اس میں تمہاری ضرورت کی ہر شے مہیا کردی اس سے واضح ہے کہ انسان کی قدرتی حیات کے اسباب کرہ ارض پر ہی ہیں چاند پر اگر آباد ہونا چاہے یا کسی دوسرے سیارے پر تو زندگی کے اسباب یہاں سے لے کر جائے گا حتی کہ غذا کے علاوہ ماحول موسم اور فضا تک یعنی آکسیجن تک زمین سے جائے گی تو پھر وہاں رہنا کس قدر دشوار اور غیر طبیع ہوگا یہ بات بھی جواب طلب ہے کہ وہاں نسل چل سکے گی کاش یہ اربوں ڈالر جو وہاں جانے کے لیے خرچ ہو رہے ہیں زمین ہی پر انسان کی بہتری کے لیے صرف ہوتے۔ اتنی بیشمار نعمتوں کے باوجود بہت کم لوگ ایسے ہیں جو شکر ادا کرتے ہیں یعنی اطاعت اختیار کرتے ہیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 5 : لایکن ( نہ ہوں) حرج (تنگی) لاتتبعوا ( تم پیروی نہ کرو) من دونہ (اس کے سوا) تذکرون ( تم دھیان دیتے ہو) کم ( کتنے ۔ کتنی) باسنا ( ہمارا عذاب) بیات ( رات کو) قائلون ( دوپہر کو سونے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 5 : قرآن حکیم کی ترتیب کے لحاظ سے سورة اعراف ساتویں بڑی سورت ہے جو ہجرت مدینہ سے کچھ ہی عرصہ پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی اس سورة کے مضامین کا خاص رخ مکہ مکرمہ کے ان مشرکین اور کفار کی طرف ہے جنہوں نے حق و صداقت کی آواز کو دبانے کے لئے ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی جب ہم سورة الانعام اور سورة الاعراف کے مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں سورتیں ہجرت مدینہ سے کچھ ہی عرصے پہلے ایک کے بعد ایک نازل ہوئی ہیں کیونکہ دونوں کی آیات کا رخ مکہ مکرمہ کے مشرکین اور کفار کی طرف ہے۔ سورة الانعام میں توحید اور اللہ کی وحدانیت پر زور ہے جبکہ سوۃ الاعراف میں توحید کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام رسالت اور آپ کی شان کے متعلق ارشادات موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ توحید و رسالت ہی وہ سچائی ہے جس کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء کرام علیھم السلام اور ان کے جاں نثاروں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور اس پیغام کو پہنچانے میں انہوں نے حالات کی ‘ قوم کے افراد کی اور ان کے جاں نثاروں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور اس پیغام کو پہنچانے میں انہوں نے حالات کی ‘ قوم کے افراد کی اور حکومت و سلطنت اور اس کی طاقت کی پرواہ نہیں کی۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی جب اس پیغام حق و صداقت کو مکہ مکرمہ کے رہنے والوں تک پہنچانے کی بھر پور جدوجہد کی تو ابتدا میں کفار و مشرکین نے اس کو بےحقیقت سمجھ کر نظر انداز کردیا اور بات مذاق اڑانے اور پھبتایں کسنے کی حد تک محدود رہی لیکن جب اس سچائی کی تحریک نے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا شروع کردیا تو کفار مکہ اور مشرکین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) پر مخالفت کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی زیادتیاں اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک ہر طرح کی مخالفت اور ظلم وستم کی وہ انتہا کردی جس کے تصور سے بھی روح کا نپ اٹھتی ہے۔ لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) نے استقلال اور صبر و تحمل کا پیکر بن کر ہر ظلم وستم کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور کفار کے مقابلے میں عزم و ہمت کا پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی عزم و ہمت کے سامنے پہاڑ بھی ریت کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ پھر بین ان مٹھی بھر اہل ایمان کا سارے عرب کے ساتھ مقابلہ کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں تھا۔ بشری تقاضا ہے کہ کبھی کبھی انسان حالات کے سامنے بےبس سا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ وقت کسی بھی تحریک کلئے بہت نازل ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب سورة الاعراف نازل ہوئی جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) سے فرمایا جارہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالات کی سنگینی میں دل کا تنگ ہوجانا ‘ گھبرا اٹھنا اور دھمکیوں سے متاثر ہوجانا ایک فطری اور بشری تقاضا ہے لیکن آپ ہر طرح کی انسانی حمایت سے بےنیاز ہو کر صرف اس پیغام حق کی پیروی کیجئے جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے۔ آپ اس پیغام حق کو بےخوف و خطر پہنچانے کی کوشش کیجئے اور بس۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اللہ خود ہی اس دین کا محافظ ہے۔ سورۃ الا عراف کی ابتدائی پانچ آیات میں سب سے پہلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جارہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان حالات میں کوئی تنگی اور گھٹن محسوس نہ کیجئے۔ آپ اپنے فرض کی ادائیگی میں لگے رہئے جن لوگوں کے مقدر میں ایمان کی سعادت لکھی ہے وہ اس پر دھیان دینگے اور آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے اور جن کے مقدر میں دولت ایمانی سے محرومی ہے ان کے لئے آپ کچھ بھی کیجئے وہ اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے اور ان کو ایمان کی روشنی تک نصیب نہ ہوگی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد تمام اہل ایمان سے فرمایا جارہا ہے کہ جو کچھ اللہ کا یہ پیغام نازل کیا جارہا ہے اس پر دھیان دیں اس کو اپنے دلوں کا نور بنالیں اور ان لوگوں کی پرواہ نہ کریں جو اس پیغام حق کی طرف دھیان نہیں دیتے کیونکہ سچائی کی طرف بہت کم لوگ متوجہ ہوا کرتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے بعد اللہ تعالیٰ نے تاریخ انسانی کو گواہ بنا کر فرمایا ہے کہ گذری ہوئی قوموں کا حال سامنے رکھو۔ ان کے حالات پر نگاہ رکھو کہ جب بھی انبیاء کرام علیھم السلام پیغام حق لے کر آئے تو ان پر بھی ہر طرح کے ظلم و ستم کئے گئے لیکن جب ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی تو پھر اللہ کا فیصلہ اس وقت آگیا جب کہ وہ رات کو یا دن کو مدہوش اور بیخبر نیند کی لذتوں میں مست تھے۔ فرمایا کہ جب تمہارے رب کا یہ فیصلہ آجاتا ہے تو پھر ظالم خود ہی پکار اٹھتے ہیں کہ واقعی ہم تو ظالم تھے ‘ ہم سے بہت زیادتی ہوئی۔ مگر اللہ کا فیصلہ آنے کے بعد کسی کے پچھتانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ان آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) سے فرمایا جارہا ہے کہ اللہ کا قانون کبھی بدلتا نہیں ۔ آج کفار و مشرکین کے لئے وقت ہے کہ وہ گذشتہ قوموں کی زندگی سے عبرت حاصل کرلیں ورنہ جب اللہ کا فیصلہ آجائے گا تو پھر ان کے راحت و آرام اور مال و دولت کی بدمستی ان کے کام نہ آسکے گی۔ 1) سچائی کے پیغام کا ہی حق ہے کہ اس کو پوری دیانت و امانت سے اللہ کے بندوں تک پہنچادیاجائے اس راستے میں خوف کرنے ‘ اور ناکامی کے خوف سے ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پیغام حق ” کو پہنچانا یہ وہ کانٹوں بھر اراستہ ہے جہاں ہر اٹھنے والا قدم زخمی ضرور ہوتا ہے۔ اس راستے میں ہر ملامت کرنے والے کی کی ملامت اور دھمکیاں دینے والوں کی دھمکیوں سے بےنیاز ہو کر آگے بڑھنا ہے یہ وہ راستہ ہے جہاں عشق کو آتش نمرود میں بےدھڑک کود جانا پڑتا ہے۔ (2) تبلیغ دین کی تیکنیک یہ ہے کہ اللہ کے اس ابدی اور سچے پیغام کو ان لوگوں تک پہنچاتے رہنا چاہیے جو ایمان لاچکے ہیں تاکہ ان کا ایمان تازہ اور مضبوط رہے۔ لیکن ان سے بھی غافل نہ رہنا چاہیے جو ابھی تک ایمان کی روشنی سے محروم ہیں۔ (3) اس دین کی سچائی کو پہنچانے کی تیسری شرط یہ ہے کہ اللہ نے جس شخص کو اس دین کی سچائی کو پھیلانے کی سعادت عطا فرمادی ہو اس کی زندگی ‘ عمل اور کردار دوسروں کے لئے مینارہ نور ہو۔ وہ اس عمل کی سچی تصویر ہو محض گفتار کا غازی نہ ہو بلکہ کردار کا بھی غازی ہو۔۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ دنیا کو بتادے کہ جب اس نے دین کا راستہ اختیار کرلیا ہے تو اس نے اللہ اور رسول سے اپنا سب سے بڑا رشتہ قائم کرلیا ہے۔ اب اس رشتے کے سامنے ہر دوستی ‘ رشتہ ‘ تعلق اور قرابت داری ایمان کی عظمتوں پر قربان ہے۔ اس کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام (رض) اور بزرگان دین کی زندگی بہتر ین نمونہ ہے جنہوں نے اس رشتے کے سامنے کسی بھی رشتے اور تعلق کی پرواہ نہیں کی اور اپنا سب کچھ قربان کردینے کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم فرمائیں۔
4۔ تمام سورت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ مضامین اس میں معاد اور نبوت کے متعلق ہیں۔
اس کے بعد اس قصے پر کئی تبصرے سامنے آتے ہیں ۔ ایک تبصرہ فطری عہد کے بعد آتا ہے اس میں اس شخص کی صورت حال کا نقشہ کھینچا گیا ہے جسے اللہ نے اپنی نشانیاں عطا کیں اور وہ اس سے نکل گیا ۔ مثلا بنی اسرائیل اور وہ تمام دوسری اقوام جنہیں اللہ نے اپنی نشانیاں عطا کیں لیکن انہوں نے ان کی پابندی نہ کی ۔ یہ ایک ایسا تبصرہ ہے جس میں تمام اشکال اور تمام حرکات اور اشارات ہماری نظروں کے سامنے آجاتے ہیں اور سورة انعام جیسے مناظر اور مشاہد سامنے آتے ہیں ۔ آیت ” وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَأَ الَّذِیَ آتَیْْنَاہُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْہَا فَأَتْبَعَہُ الشَّیْْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِیْنَ (175) وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِہَا وَلَـکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلَی الأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَیْْہِ یَلْہَثْ أَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَث ذَّلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (176) سَاء مَثَلاً الْقَوْمُ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا وَأَنفُسَہُمْ کَانُواْ یَظْلِمُونَ (177) مَن یَہْدِ اللّہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِیْ وَمَن یُضْلِلْ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ (178) وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَّ یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلَـئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (179) (٧ : ١٧٥ تا ١٧٩) ” اور اے محمد ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا ۔ گر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا ۔ آخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑگیا ۔ یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا ۔ اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے ‘ مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا ‘ لہذا اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے ۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ۔ تم یہ حکایات انکو سناتے رہو ‘ شاید کہ یہ غور وفکر کریں ۔ بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ‘ اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہ راست پاتا ہے ۔ اور جسے اللہ اپنی راہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام ونامراد ہو کر رہتا ہے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے ۔ ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سوچتے نہیں ‘ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے ہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے اور یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔ اب براہ راست نظریاتی مباحث آتے ہیں ۔ نظریاتی مباحث کے ساتھ بعض کائناتی شواہد ومؤثرات بھی پیش کئے جاتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے عذاب اور اس کی سخت پکڑ سے ڈرایا جاتا ہے ان کے دلوں کو ٹٹولا جاتا ہے کہ وہ غور وہ فکر کریں ‘ اللہ کی آیات میں تدبر کریں اور اس رسول اور اس کی رسالت کے بارے میں سوچ سے کام لیں ۔ آیت ” 179) وَلِلّہِ الأَسْمَاء الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُواْ الَّذِیْنَ یُلْحِدُونَ فِیْ أَسْمَآئِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (180) وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّۃٌ یَہْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ (181) وَالَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُم مِّنْ حَیْْثُ لاَ یَعْلَمُونَ (182) وَأُمْلِیْ لَہُمْ إِنَّ کَیْْدِیْ مَتِیْنٌ(183) أَوَلَمْ یَتَفَکَّرُواْ مَا بِصَاحِبِہِم مِّن جِنَّۃٍ إِنْ ہُوَ إِلاَّ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(184) أَوَلَمْ یَنظُرُواْ فِیْ مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّہُ مِن شَیْْء ٍ وَأَنْ عَسَی أَن یَکُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُہُمْ فَبِأَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُونَ (185) مَن یُضْلِلِ اللّہُ فَلاَ ہَادِیَ لَہُ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ (186) ”(٧ : ١٨٠ تا ١٨٦) ” اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے ‘ اس کو اچھے ناموں ہی سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھتے ہیں وہ راستی سے منحرف ہوجاتے ہیں ۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا بدلہ ہو پاکر رہیں گے ۔ ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا ہے ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقے سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی ۔ میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں ‘ میری چال کا کوئی توڑ نہیں ۔ اور کیا ان لوگوں نے کبھی سوچا نہیں ؟ ان کے رفیق پر جنون کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ وہ تو ایک خبردار کرنے والا ہے جو صاف صاف متنبہ کررہا ہے ۔ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا ؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آلگا ہو ؟ پھر آخر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہو سکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟ جس کو اللہ راہنمائی سے محروم کر دے اس کے لئے پھر کوئی راہنمائی نہیں ہے اور اللہ انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے ۔ اس کے بعد اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنی دعوت کی نوعیت سے آگاہ کریں اور اس نظریہ حیات میں رسول کے حدود کار سے آگاہ کریں ۔ یہ بات ان کے اس سوال کے جواب میں آتی ہے جس میں انہوں نے رسول سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس قیامت کے وقت کا تعین کردیں جس سے وہ انہیں ہر وقت ڈراتے رہتے ہیں۔ آیت ” یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ رَبِّیْ لاَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَا إِلاَّ ہُوَ ثَقُلَتْ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ تَأْتِیْکُمْ إِلاَّ بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ اللّہِ وَلَـکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُونَ (187) قُل لاَّ أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعاً وَلاَ ضَرّاً إِلاَّ مَا شَاء اللّہُ وَلَوْ کُنتُ أَعْلَمُ الْغَیْْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوء ُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِیْرٌ وَبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ (188) (٧ : ١٨٧ تا ١٨٨) ” یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ؟ کہو اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے ۔ اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا ۔ آسمانوں اور زمین میں بڑا سخت وقت ہوگا ۔ وہ تم پر اچانک آجائے گا ۔ “ یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو ۔ کہو ” اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ۔ “ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کہ ” میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا ‘ اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے ‘ وہ ہوتا ہے ۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔ میں ایک محض خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لئے جو میری بات مانیں۔ اس کے بعد قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ نفس انسانی جس سے اللہ نے عہد لیا تھا کہ وہ راہ ہدایت پر قائم رہے گا کس طرح اس عقیدہ توحید کو ترک کردیتا ہے جس کا اقرار اس کی فطرت نے کیا تھا۔ یہاں شرک کی کراہت اور شریک معبودوں کی کمزوری کو بیان کرنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ان معبودوں کی تحدی کریں کہ وہ کس قدر عاجز ہیں ۔ آیت ” قُلِ ادْعُواْ شُرَکَاء کُمْ ثُمَّ کِیْدُونِ فَلاَ تُنظِرُونِ (195) إِنَّ وَلِیِّـیَ اللّہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتَابَ وَہُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ (196) وَالَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِہِ لاَ یَسْتَطِیْعُونَ نَصْرَکُمْ وَلا أَنفُسَہُمْ یَنْصُرُونَ (197) وَإِن تَدْعُوہُمْ إِلَی الْہُدَی لاَ یَسْمَعُواْ وَتَرَاہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ وَہُمْ لاَ یُبْصِرُونَ (198) (٧ : ١٩٥ تا ١٩٨) ” اے محمد ان سے کہو کہ ” بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ‘ پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو ‘ میرا حامی وناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے ‘ بخلاف اس کے تم جنہیں ‘ خدا کو چھوڑ کر ‘ پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لئے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے ۔ بظاہر تم کو ایسا بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقعہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے “۔ اب آگے خطاب صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا جاتا ہے اور یہ آخر تک چلتا ہے ۔ یاد رہے کہ سورة کا آغاز بھی براہ راست حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطاب کے ساتھ ہوا تھا ۔ یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کریں گے ۔ دعوت کو لے کر کس طرح بڑھیں گے ۔ راستے کی مشکلات پر کس طرح قابو پائیں گے ‘ لوگوں کی سازشوں اور ایذا رسانیوں پر کس طرح قابو پائیں گے ۔ وہ اور اہل ایمان قرآن پر کس طرح کان دھریں گے ۔ وہ اللہ کو ہر وقت کس طرح یاد کریں گے اور اس کے ساتھ ایک تعلق کس طرح قائم رکھیں گے ۔ نیز یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں ملائکہ کس طرح اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ آیت ” خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ (199) وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّہِ إِنَّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(200) إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّہُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّیْْطَانِ تَذَکَّرُواْ فَإِذَا ہُم مُّبْصِرُونَ (201) وَإِخْوَانُہُمْ یَمُدُّونَہُمْ فِیْ الْغَیِّ ثُمَّ لاَ یُقْصِرُونَ (202) وَإِذَا لَمْ تَأْتِہِم بِآیَۃٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَیْْتَہَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا یِوحَی إِلَیَّ مِن رَّبِّیْ ہَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ (203) وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَہُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ (204) وَاذْکُر رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وَخِیْفَۃً وَدُونَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَکُن مِّنَ الْغَافِلِیْنَ (205) إِنَّ الَّذِیْنَ عِندَ رَبِّکَ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیُسَبِّحُونَہُ وَلَہُ یَسْجُدُونَ (206) (٧ : ١٩٩ تا ٢٠٦) ” اے نبی ‘ نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو ‘ معروف کی تلقین کئے جاؤ ‘ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔ اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو ۔ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فورا چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگ جاتا ہے کہ ان کے لئے صحیح طریق کار کیا ہے ۔ رہے ان کے (شیطانوں کے) بھائی بند ‘ تو وہ انہیں کج روی میں کھینچتے لئے چلے جاتے ہیں اور انہی بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔ اے نبی ‘ جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے ان کے لئے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی ؟ ان سے کہو ” میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں ۔ جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو اسے قبول کریں۔ جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو ‘ شاید کہ تم پر بھی رحمت کی جائے ۔ “ اے نبی اپنے رب کو صبح وشام یاد کیا کرو۔ دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ جو فرشتے تمہارے رب کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے جھکتے ہیں ۔ “ امید ہے کہ اس خلاصے اور ان اقتباسات سے سورة اعراف کے خدوخال واضح ہوگئے ہوں گے ۔ اور اس میں اور سورة انعام میں فرق و امتیاز بھی واضح ہوگیا ہوگا کہ دونوں سورتیں ایک ہی موضوع کو کس طرح مختلف انداز میں بیان کرتی ہیں ۔ دونوں کا موضوع اسلامی عقیدہ اور نظریہ حیات ہے ۔ جہاں تک ہر موضوع پر تفصیلی بات کا تعلق ہے وہ نصوص پر تفصیلی بحث کے وقت آئے گی ۔ انشاء اللہ اللہ کے فضل وکرم سے ! (المص) الف لام میم صاد ‘ سورة کا آغاز ان حروف مقطعات سے کیا گیا ہے ۔ سورة بقرہ کے آغاز میں ہم ان پر بحث کر آئے ہیں ۔ اسی طرح سورة آل عمران کے آغاز میں بھی ۔ ان کی تفسیر کے سلسلے میں ہم نے اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ ان سے مراد یہ ہے کہ یہ سورة ایسے ہی حروف سے بنی ہوئی ہے اور عربی زبان کے ان حروف تہجی کو تمام لوگ استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی شخص اس میڑیل سے قرآن جیسا کلام نہیں بنا سکتا اور یہ بذات خود اس بات کے لئے شاہد عادل ہے کہ قرآن انسان کا بنایا ہواکلام نہیں ہے کیونکہ یہ حروف اور عربی زبان کے الفاظ ان کے سامنے موجود ہیں۔ لیکن وہ ان سے قرآن نہیں بنا سکتے ۔ ہم نے یہ رائے بطور ترجیح اختیار کی ہے ۔ ہم جزم سے کوئی بات نہیں کہہ سکتے واللہ اعلم ۔ اس لحاظ سے پھر ترکیب یوں ہوگی کہ المص مبتدا ہے اور کتاب انزل الیک اس کی خیر ہے ۔ یعنی ان حروف اور کلمات سے مرکب یہ کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے ۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ (المص) صرف اشارہ ہے جس سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے اور کتاب خیر ہے اور مبتدا محذوف ہے یعنی (ھذا کتب)
2:“ ا لمص ” یہ حروف مقطعات میں سے ہیں ان کی مراد اللہ ہی جانتا ہے۔ حروف مقطعات کی تفصیلی بحث سورة بقرہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے۔ (ص 81، حاشیہ 2) جیسا کہ خلاصہ میں گذر چکا ہے سورة اعراف میں تین دعوے ذکر کیے گئے ہیں۔ 1 ۔ مسئلہ توحید کی جراءت و استقلال سے تبلیغ کرو اور اس سلسلہ میں جو تکلیفیں آئیں انہیں برداشت کرو اور دل میں تنگی نہ لاؤ۔ 2 ۔ نفی شرک فعلی یعنی اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو اور شیاطین کی اتباع میں اپنی طرف سے تحریمات اختراع نہ کرو۔ 3 ۔ نفی شرک اعتقادی یعنی غیب دان اور متصرف صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ اس نے کوئی اختیار کسی کے حوالے نہیں کیا لہذا غائبانہ حاجات میں اسی کو پکارو۔