Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 104

سورة الأعراف

وَ قَالَ مُوۡسٰی یٰفِرۡعَوۡنُ اِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۴﴾ۙ

And Moses said, "O Pharaoh, I am a messenger from the Lord of the worlds

اور موسیٰ ( علیہ السلام ) نے فرمایا کہ اے فرعون!میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah mentions a debate that took place between Musa and Fir`awn, and Musa's refuting Fir`awn with the unequivocal proof and clear miracles, in the presence of Fir`awn and his people, the Copts of Egypt. Allah said, وَقَالَ مُوسَى يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ And Musa said: "O Fir`awn! Verily, I am a Messenger from the Lord of all that exists". meaning Musa said, `the one Who sent me is the Creator, Lord and King of all things,'

موسیٰ علیہ السلام اور فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اور فرعون کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اللہ کے کلیم نے فرمایا کہ اے فرعون میں رب العالمیں کا رسول ہوں ۔ جو تمام عالم کا خالق و مالک ہے ۔ مجھے یہی لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں وہی باتیں کہوں جو سراسر حق ہوں ب اور علی یہ متعاقب ہوا کرتے ہیں جیسے رمیت بالقوس اور رمیت علی القوس وغیرہ ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں حقیقی کے معنی حریض کے ہیں ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ مجھ پر واجب اور حق ہے کہ اللہ ذوالمنین کا نام لے کر وہی خبر دوں جو حق و صداقت والی ہو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی عظمت سے واقف ہوں ۔ میں اپنی صداقت کی الٰہی دلیل بھی ساتھ ہی لایا ہوں ۔ تو قوم بنی اسرائیل کو اپنے مظام سے آزاد کر دے ، انہیں اپنی زبردستی کی غلامی سے نکال دے ، انہیں ان کے رب کی عبادت کرنے دے ، یہ ایک زبردست بزرگ پیغمبر کی نسل سے ہیں یعنی حضرت یعقوب بن اسحاق بن حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہیں ۔ فرعون نے کہا میں تجھے سچا نہیں سمجھتا نہ تیری طلب پوری کروں گا اور اگر تو اپنے دعوے میں واقعہ ہی سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کر ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٠] لقب فرعون کی حقیقت اور فرعون کی سلطنت کی وسعت :۔ اس دور میں مصر کے ہر بادشاہ کا لقب فرعون ہوا کرتا تھا اور ان کا اصلی نام الگ ہوا کرتا تھا۔ فرعون کے لقب کے پیچھے یہ تصور کار فرما تھا کہ سب سے بڑے دیوتا سورج کی روح بادشاہ کے جسم میں حلول کر جاتی ہے اس لحاظ سے وہ بادشاہ اس زمین میں اسی سبب سے بڑے دیوتا یا مہا دیو کا جسمانی مظہر ہوتا ہے اسی بنا پر تمام فراعنہ زمین پر اپنی خدائی کا دعویٰ بھی رکھتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی زندگی میں دو فرعونوں سے پالا پڑا تھا ایک وہ فرعون جس نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش کی تھی اور اس کا نام رعمسیس تھا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے بھاگ کر دس سال کا عرصہ سیدنا شعیب (علیہ السلام) کے زیر تربیت رہے اس دوران یہ فرعون مرچکا تھا اور اس کا بیٹا تخت نشین ہوچکا تھا۔ ان کے زمانہ کا صحیح صحیح تعین بہت مشکل ہے کیونکہ تاریخوں میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے تاہم یہ زمانہ سوا ہزار قبل مسیح سے لے کر ڈیڑھ ہزار قبل مسیح کے درمیان ہی ہوسکتا ہے جس فرعون کے سامنے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اپنے معجزات لے کر گئے تھے یہ وہی رعمسیس کا بیٹا تھا جس کی سلطنت بڑی وسیع تھی جو شام سے لے کر لیبیا تک اور بحر روم کے سواحل سے حبش تک پھیلی ہوئی تھی یہ فرعون اس وسیع علاقے کا صرف بادشاہ ہی نہ تھا بلکہ معبود بھی بنا ہوا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ مُوْسٰي يٰفِرْعَوْنُ اِنِّىْ رَسُوْلٌ۔۔ : فرعون مصر کے ہر بادشاہ کا لقب تھا، جیسا کہ روم کے بادشاہ کا قیصر اور فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے اس کے عزت والے نام کے ساتھ نہایت نرمی کے ساتھ مخاطب فرمایا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھیجتے وقت تلقین فرمائی تھی۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٤٤) اس فرعون کا نام منفتاح بن رمسیس ثانی یا ولید بن ریان بتایا جاتا ہے، مگر یہ بات کسی قابل اعتماد ذریعے سے ثابت نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse is a clear declaration of the prophet Musa (علیہ السلام) before Pharaoh that he was a messenger of Allah, the Lord of all the worlds, and that his status of prophethood does not allow him to ascribe anything but truth to Allah because the message given to the prophets by Allah is a sacred trust and it is a great sin to tamper with it. All the prophets of Allah are free of all sins and cannot do so. The prophet Musa (علیہ السلام) tried to convince them that they should believe him because his truthfulness was beyond question and that he had never uttered a word of lie. In addition to this, his miracles are a clear proof to support his claim to prophethood.

دوسری آیت میں فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ میں رب العلمین کا رسول ہوں، میرے حال اور منصب نبوت کا تقاضا یہی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات بجز سچ کے منسوب نہ کروں، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کو جو پیغام حق تعالیٰ کی طرف سے دیئے جاتے ہیں وہ ان کے پاس خدائی امانت ہوتے ہیں، اس میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنا خیانت ہے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) خیانت اور ہر گناہ سے پاک اور معصوم ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ تم لوگوں کو میری بات پر اس لئے یقین کرنا چاہیے کہ میری سچائی تم سب کے سامنے ہے، میں نے کبھی نہ جھوٹ بولا ہے اور نہ بول سکتا ہوں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ مُوْسٰي يٰفِرْعَوْنُ اِنِّىْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ١٠٤ ۙ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

85. 'Pharaoh' literally means 'the offspring of the sun-god'. The ancient Egyptians called the sun 'Ra', worshipped it as their supreme deity', and Pharaoh - Ra's physical manifestation and representative - was named after it. It was for this reason that all Egyptian rulers claimed their authority on the basis of their association with Ra, and every ruler who mounted the Egyptian throne called himself Pharaoh, trying thereby to assure his people that he was their supreme deity. It may be noted that the Qur'anic narrative regarding Moses refers to two Pharaohs. The first of these was one during whose reign Moses was born and in whose palace he was brought up. The second Pharaoh to Whorn reference is made is the one whom Moses invited to Islam and who was asked to liberate the Israelites. It is this latter Pharaoh who was finally drowned. Modern scholarship is inclined to the view that the first Pharaoh was Rameses 11 who ruled over Egypt from 1292 B.C. to 1225 B.C. while the second Pharaoh was Minpetah, his son, who had become a co-sharer in his father's authority during the latter's lifetime and who, after his death, became the fully-fledged ruler of Egypt. This, however, is not fully established since Moses, according to the Egyptian calendar, died in 1272 B.C. In any case these are merely historical conjectures. It is quite difficult to establish a clear chronological framework owing to discrepancies in the Egyptian, Israeli and Christian calendars.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :85 لفظ فرعون کے معنی ہیں”سورج دیوتا کی اولاد ۔ “ قدیم اہل مصر سورج کو ، جو ان کا مہا دیو یا ربِّ اعلیٰ تھا ، رغ کہتے تھے اور فرعون اسی کی طرف منسوب تھا ۔ اہل مصر کے اعتقاد کی رو سے کسی فرماں روا کی حاکمیت کے لیے اس کے سوا کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ رغ کا جسمانی مظہر اور اس کا ارضی نمائندہ ہو ، اسی لیے ہر شاہی خاندان جو مصر میں برسرِ اقتدار آتا تھا ، اپنے آپ کو سورج بنسی بنا کر پیش کرتا ، اور ہر فرماں روا جو تخت نشین ہوتا ، ”فرعون“ کا لقب اختیار کر کے باشندگانِ ملک کو یقین دلاتا کہ تمہارا ربِّ اعلیٰ یا مہادیو میں ہوں ۔ یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصّے کے سلسلہ میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے ۔ ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ پیدا ہوئے اور جس کے گھر میں آپ نے پرورش پائی ۔ دوسرا وہ جس کے پاس آپ اسلام کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور بالآخر غرق ہوا ۔ موجودہ زمانہ کے محققین کا عام میلان اس طرف ہے کہ پہلا فرعون رعمسیس دوم تھا جس کا زمانہ حکومت سن١۲۹۲ ء سے سن١۲۲۵ ءقبل مسیح تک رہا ۔ اور دوسرا فرعون جس کا یہاں ان آیات میں ذکر ہو رہا ہے ، منفتہ یا منفتاح تھا جو اپنے باپ رعمسیس دوم کی زندگی ہی میں شریک حکومت ہو چکا تھا اور اس کے مرنے کے بعد سلطنت کا مالک ہوا ۔ یہ قیاس بظاہر اس لحاظ سے مشتبہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے حساب سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تاریخ وفات ١۲۷۲ قبل مسیح ہے ۔ لیکن بہر حال یہ تاریخی قیاسات ہی ہیں اور مصری ، اسرائیلی اور عیسوی جنتریوں کے تطابق سے بالکل صحیح تاریخوں کا حساب لگانا مشکل ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان پہلی ملاقات میں جو مکالمات ہوئے اور واقعات پیش آئے تھے وہ اس طرح تھے۔ " موسیٰ نے کہا " اے فرعون ، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں۔ میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں ، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں ، لہذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔ فرعون نے کہا " اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر "۔ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدھا تھا۔ اور اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔ اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ " یقینا یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے "۔ تمہیں تمہاری زمین سے بےدخل کرنا چاہتا ہے۔ اب کہو کیا کہتے ہو ؟ "۔ پھر ان سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہر کارے بھیج دیجئے۔ کہ ہر ماہر فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں "۔ حق و باطل اور ایمان و کفر کے مابین یہ پہلا معرکہ ہے ، اس منظر میں ایک جانب رب العالمین کی طرف سے دعوت دی جار رہی ہے مد بالمقابل وہ طاغوتی طاقت ہے جس نے ربوبیت کے تمام حقوق اپنے لیے خاص کیے ہوئے ہیں اور زندگی کے ان معاملات میں رب العالمین کی اطاعت نہیں کی جاتی۔ وَقَالَ مُوْسٰي يٰفِرْعَوْنُ اِنِّىْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ موسیٰ نے کہا " اے فرعون ، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں ذرا انداز خطاب ملاحظہ ہو۔ " اے فرعون !" آپ نے اسے مائی لارڈ سے خطاب نہیں فرمایا۔ جس طرح عموماً لوگ اس لفظ کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت لارڈ اور مولیٰ کون ہے ؟ ہاں آپ نے بادشاہ کو بڑی عزت سے اس کے لقب سے پکارا ، اس لفظ کے استعمال کے ذریعہ آپ نے فرعون کو بتا دیا کہ آپ صرف فرعون ہیں اور دوسری یہ حقیقت بھی اس کے سامنے کھول دی کہ اِنِّىْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، " میں اس کائنات کے مالک کا نمائندہ ہوں " حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو حقیقت پیش کی یہی حقیقت آپ سے پہلے آنے والے تمام رسولوں نے بھی پیش کی تھی اور وہ یہ تھی کہ تمام جہانوں کا اب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ ایک ہی حاکم ہے اور پوری زندگی میں اس کی اطاعت ضروری ہے۔ آج کل کے ماہرین ادیان جو کچھ کہتے ہیں عقائد میں بھی تغیر اور ارتقاء کا عمل ہوتا رہا ہے اور وہ سماوی ادیان کو بھی اس اصول سے مستثنی نہیں کرتے تو ان حضرات کا یہ نظریہ باطل ہے ، کیونکہ ادم (علیہ السلام) سے نبی آخر الزماں تک تمام رسولوں کا عقیدہ ایک ہی رہا ہے ، اس میں صرف اللہ حاکم اور مطاع رہا ہے ، اور یہ نہیں رہا کہ پہلے متعدد الٰہوں کے نظریات تھے پھر تین خداؤں اور پھر ایک خدا کا عقیدہ جاری ہوگیا۔ یہ تو تھی صورت اسلام کی۔ رہی جاہلیت تو اس کے اندر جو اختلاف و اضطراب رہا ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ روح پرستی ، متعدد الہوں کی پرستش ، سورج کی پرستش ، دو خداؤں کی پرستش ، ایک خدا کی مشرکانہ پرستش اور بے خدا جاہلیت وغیرہ۔ لہذا سماوی ادیان رسولوں کی تعلیمات اور جاہلی ادیان کے افکار کو ایک ہی اصول پر نہیں پرکھا جاسکتا۔ غرض حضرت موسیٰ اور فرعون اور اس کے ٹولے کے درمیان جو آمنا سامنا ہوا ، یہی صورت ہر نبی کو اپنے اپنے دور میں پیش آئی۔ حضرت موسیٰ سے پہلے آنے والوں کو بھی اور ان کے بعد آنے والوں کو بھی۔ ہر دور میں حکمرانوں نے یہ سمجھا کہ یہ دعوت ان کے اقتدار کے خلاف سازش ہے جس طرح فرعون نے یہ سمجھا کہ یہ درحقیقت ان کے اقتدار اعلی کے خلاف ایک تحریک ہے۔ جب کوئی یہ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ اللہ وحدہ رب العالمین ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی حاکمیت کے سوا تمام دوسری حاکمیتیں باطل نہیں اور اللہ کے سوا وہ تمام لوگ جو عوام سے اپنا قانون منواتے ہیں وہ وہ در اصل طاغوت ہیں۔ اور اس اعلان کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دعوے کے ساتھ پیش فرمایا کہ وہ اللہ رب العالمین کی جانب سے رسول ہیں اور وہ جو بات کرتے ہیں وہ اللہ کی جانب سے کرتے ہیں اور ان کا اللہ کی جانب سے یہ فریضہ ہے کہ وہ لوگوں تک یہ دعوت پہنچائیں

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

104 اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے فرعون بلاشبہ میں کائنات کے پروردگار کا فرستاد اور رسول ہوں۔