These verses narrate the remaining part of the story of the prophet Musa (علیہ السلام) . Seeing these wonders of staves turning into serpents and making his hand emitting strong white light, the Pharaoh should have been convinced and have believed in Musa (علیہ السلام) as the logic and sense demanded. But it is the common practice of the wrong-doers that they always seek false interpretations of the truth in order to conceal it, the Pharaoh and his people belied him instead, and said to the people that he was a great sorcerer and that he wanted to expel them from their homes and take over the rule of the country. The people of the Pharaoh suggested: أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ ﴿١١١﴾ يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ ﴿١١٢﴾ |"leave him and his brother alone for a while, and send men to the cities to collect and bring to you every expert sorcerer-111, 112.|" The people of the Pharaoh said that there were many expert sorcerers in their cities who were capable of defeating Musa (علیہ السلام) . Some soldiers should be sent to collect and bring the sorcerers for this purpose. Sorcery and magic, being the custom of the day, the sorcerers enjoyed a high status among people. Allah sent Musa (علیہ السلام) with the miracles of the staff and white-lit hand so that people may clearly observe the misery of the sorcerers after entering into a contest with Musa (علیہ السلام) . It is the usual practice of Allah that He sends His prophets with miracles that are appropriate to the demand of the time. For instance, in the time of the prophet ` Isa (علیہ السلام) (the Jesus), Greek philos¬ophy and medical sciences were at their zenith. He was, therefore, sent with the miraculous powers of restoring the sight of those who were born blind and cure the lepers instantly with a touch of his hand. In the time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the Arabs were boastful of their oratory and linguistic capabilities. The Holy Qur&an was sent as the greatest of all miracles of the Holy prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .
خلاصہ تفسیر (غرض مشورہ طے کر کرا کر) انہوں نے (فرعون سے) کہا کہ آپ ان ( موسیٰ (علیہ السلام) کو اور انکے بھائی کو مہلت دیجئے اور ( اپنی حدود قلمرو کے) شہروں میں ( گردآوروں کو یعنی) چپراسیوں کو ( حکم نامے دے کر) بھیج دیجئے کہ وہ ( سب چہروں) سب ماہر جادوگروں کو ( جمع کر کے) آپ کے پاس لاکر حاضر کردیں (چنانچہ ایسا ہی انتظام کیا گیا) اور وہ جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے ( اور) کہنے لگے کہ اگر ہم ( موسیٰ (علیہ السلام) پر) غالب آئے تو ( کیا) ہم کو کوئی بڑا صلہ ( اور انعام) ملے گا، فرعون نے کہا کہ ہاں ( انعام بھی بڑا ملے گا) اور ( مزید برآں یہ ہوگا کہ) تم ( ہمارے) مقرب لوگوں میں داخل ہوجاؤ گے ( غرض موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی جانب سے اس کی طلاع دی گئی اور مقابلہ کے لئے تاریخ معین ہوئی اور تاریخ پر سب ایک میدان میں جمع ہوئے اس وقت) ان ساحروں نے ( موسیٰ (علیہ السلام) سے) عرض کیا کہ اے موسیٰ ( ہم آپ کو اختیار دیتے ہیں) خواہ آپ ( اول اپنا عصا میدان میں) ڈالئے ( جس کو آپ اپنا معجزہ بتلاتے ہیں) اور یا ( آپ کہیں تو) ہم ہی ( اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں) ڈالیں، موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم ہی ( پہلے) ڈالو جب انہوں نے ( اپنی رسیوں اور لا ٹھیوں کو) ڈالا تو ( جادو سے دیکھنے والے) لوگوں کی نظربندی کردی ( جس سے وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ کی شکل میں لہراتی نظر آنے لگیں) اور ان پر ہیبت غالب کردی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھلایا اور ( اس وقت) ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو ( وحی کے ذریعہ سے) حکم دیا کہ آپ اپنا عصا ڈال دیجئے ( جیسا ڈالا کرتے ہیں) سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے ( اژدھا بن کر) ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا پس ( اس وقت) حق ( کا حق ہونا) ظاہر ہوگیا اور انہوں نے ( یعنی ساحروں نے) جو کچھ بنایا ونایا تھا سب آتا جاتا رہا۔ پس وہ لوگ ( یعنی فرعون اور اس کی قوم) اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوئے ( اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے) اور وہ جو ساحر تھے وہ سجد میں گرگئے، ( اور پکار پکار کر) کہنے لگے کہ ہم ایمان لے آئے رب لعالمین پر جو موسیٰ اور ہارون ( علیہما السلام) کا بھی رب ہے۔ معارف و مسائل ان آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بقیہ قصہ مذکور ہے کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کھلا معجزہ دیکھا کہ لاٹھی کا سانپ بن گیا اور پھر جب اس کو ہاتھ میں پکڑا تو پھر لاٹھی بن گئی اور ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر نکا لا تو چمکنے لگا، اس آیت قدرت کا عقلی تقاضایہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا مگر جیسا اہل باطل کا عام طرز ہے کہ حق پر پردہ ڈالنے اور مکرنے کے لئے صحیح چیز کو غلط عنوان دیا کرتے ہیں، فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے بھی لوگوں سے یہی کہا کہ یہ بڑے ماہر جادوگر ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے ملک پر قبضہ کر کے تمہیں نکال دیں تو اب تم بتلاؤ کیا کرنا چاہئے ؟ قوم فرعون نے یہ سن کر جواب دیا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ وَاَرْسِلْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ يَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ ، اس میں لفظ ارجہ ارجاء سے مشتق ہے جس کے معنی ڈھیل دینے اور امید دلانے کے آتے ہیں اور مدائین، مد ینة کی جمع ہے جو ہر بڑے شہر کے لئے بولا جاتا ہے، حشرین، حاشر کی جمع ہے جس کے معنی ہیں اٹھانے اور جمع کرنے والا، مراد اس سے سپاہی ہیں جو اطرف ملک سے جادوگروں کو جمع کرکے لائیں۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ قوم کے لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ اگر یہ جادوگر ہے اور جادو کے ذریعہ ہمارا فتح کرنا چاہتا ہے تو اس کا مقابلہ ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں، ہمارے ملک میں بڑے بڑے ماہر جادوگر ہیں اس کو اپنے جادو سے شکست دے دیں گے، کچھ سپاہی ملک کے اطراف میں بھیج دیجئے جو ہر شہر کے جادوگروں کو بلائیں۔ وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ میں جادو سحر کا رواج عام تھا اور عام لوگوں پر جادوگروں کا اقتدار تھا اور شاید حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضاء کا معجزہ اسی لئے عطا فرمایا کہ جادوگروں سے مقابلہ ہو اور معجزہ کے مقابلہ میں جادو کی رسوائی سب لوگ آنکھوں سے دیکھ لیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم عادت بھی یہی ہے کہ ہر زمانہ کے پیغمبر کو اس زمانہ کے منا سب معجزات عطا فرماتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں حکمت یونانی اور طب یونانی اپنے عروج پر تھی تو ان کو معجزہ یہ دیا گیا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا بنادیں اور جزامی کوڑھیوں کو تندرست کردیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں عرب کا سب سے بڑا کمال فصاحت و بلاغت تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا معجزہ قرآن بنایا گیا جس کے مقابلہ سے سارا عرب وعجم عاجز ہوگیا۔