Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 111

سورة الأعراف

قَالُوۡۤا اَرۡجِہۡ وَ اَخَاہُ وَ اَرۡسِلۡ فِی الۡمَدَآئِنِ حٰشِرِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾ۙ

They said, "Postpone [the matter of] him and his brother and send among the cities gatherers

انہوں نے کہا کہ آپ ان کو اور ان کے بھائی کو مہلت دیجئے اور شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells; قَالُواْ أَرْجِهْ وَأَخَاهُ ... They said: "Put him and his brother off (for a time), Ibn Abbas commented, أَرْجِهْ ("Put him off"), means, "delay him (for a time)." ... وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَايِنِ ... "and send to the cities," areas and provinces of your kingdom -- O Fir`awn, ... حَاشِرِينَ "to collect." to gather magicians from various lands. يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ

درباریوں کا مشورہ درباریوں نے مشورہ دیا کہ ان دونوں بھائیوں کا معاملہ تو اس وقت رفع دفع کرو ، اسے ملتوی رکھو اور ملک کے ہر حصے میں ہر کارے بھیج دو جو جادوگروں کو جمع کر کے آپ کے دربار میں لائیں ۔ تو جب تمام استاد فن جادوگر آ جائیں ان سے مقابلہ کرایا جائے تو یہ ہار جائے گا اور منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا ، یہ اگر جادو جانتا ہے تو ہماری رعایا میں جادو گروں کی کیا کمی ہے؟ بڑے بڑے ماہر جادوگر ہم میں موجود ہیں جو اپنے فن میں بےنظیر ہیں اور بہت چست و چالاک ہیں ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ سے کہا گیا کہ ہم سمجھ گئے کہ تو جادو کے زور سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال دینے کے ارادے سے آیا ہے تو اگر تجھ میں کوئی سکت ہے تو آ ہاتھ ملا ہم تجھ سے مقابلے کا دن اور جگہ مقرر کرتے ہیں اور جگہ مقرر ہو جائے پھر جو بھاگے وہی ہارا ۔ آپ نے فرمایا اجھا یہ ہوس بھی نکال لو ۔ جاؤ تمہارا عید کا دن مجھے منظور ہے اور دن چڑھے اجالے کا وقت اور شرط یہ کہ یہ مقابلہ مجمع عام میں ہو ۔ چنانجہ فرعون اس تیاری میں مصروف ہو گیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ ۔۔ : ” اَرْجِهْ “ یہ ” أَرْجَأَ یُرْجِئُ إِرْجَاءً “ سے امر حاضر کا صیغہ ہے، جو اصل میں ” اَرْجِءْہُ “ تھا، جس کا معنی ” اَخِّرْہُ “ ہے، یعنی ان کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہ کیا جائے اور ان کا معاملہ چند روز تک ملتوی رکھا جائے، اس اثنا میں ملک بھر کے شہروں سے تمام ماہر فن جادوگر جمع کیے جائیں۔ چناچہ فرعون نے ایسا ہی کیا (دیکھیے شعراء : ٣٨) اور موسیٰ (علیہ السلام) سے تقاضا کرکے مقابلے کا دن یوم الزینہ اور دن چڑھے کا وقت طے کرلیا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٥٩) یہاں یہ سب محذوف ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

These verses narrate the remaining part of the story of the prophet Musa (علیہ السلام) . Seeing these wonders of staves turning into serpents and making his hand emitting strong white light, the Pharaoh should have been convinced and have believed in Musa (علیہ السلام) as the logic and sense demanded. But it is the common practice of the wrong-doers that they always seek false interpretations of the truth in order to conceal it, the Pharaoh and his people belied him instead, and said to the people that he was a great sorcerer and that he wanted to expel them from their homes and take over the rule of the country. The people of the Pharaoh suggested: أَرْ‌جِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْ‌سِلْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِ‌ينَ ﴿١١١﴾ يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ‌ عَلِيمٍ ﴿١١٢﴾ |"leave him and his brother alone for a while, and send men to the cities to collect and bring to you every expert sorcerer-111, 112.|" The people of the Pharaoh said that there were many expert sorcerers in their cities who were capable of defeating Musa (علیہ السلام) . Some soldiers should be sent to collect and bring the sorcerers for this purpose. Sorcery and magic, being the custom of the day, the sorcerers enjoyed a high status among people. Allah sent Musa (علیہ السلام) with the miracles of the staff and white-lit hand so that people may clearly observe the misery of the sorcerers after entering into a contest with Musa (علیہ السلام) . It is the usual practice of Allah that He sends His prophets with miracles that are appropriate to the demand of the time. For instance, in the time of the prophet ` Isa (علیہ السلام) (the Jesus), Greek philos¬ophy and medical sciences were at their zenith. He was, therefore, sent with the miraculous powers of restoring the sight of those who were born blind and cure the lepers instantly with a touch of his hand. In the time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the Arabs were boastful of their oratory and linguistic capabilities. The Holy Qur&an was sent as the greatest of all miracles of the Holy prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .

خلاصہ تفسیر (غرض مشورہ طے کر کرا کر) انہوں نے (فرعون سے) کہا کہ آپ ان ( موسیٰ (علیہ السلام) کو اور انکے بھائی کو مہلت دیجئے اور ( اپنی حدود قلمرو کے) شہروں میں ( گردآوروں کو یعنی) چپراسیوں کو ( حکم نامے دے کر) بھیج دیجئے کہ وہ ( سب چہروں) سب ماہر جادوگروں کو ( جمع کر کے) آپ کے پاس لاکر حاضر کردیں (چنانچہ ایسا ہی انتظام کیا گیا) اور وہ جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے ( اور) کہنے لگے کہ اگر ہم ( موسیٰ (علیہ السلام) پر) غالب آئے تو ( کیا) ہم کو کوئی بڑا صلہ ( اور انعام) ملے گا، فرعون نے کہا کہ ہاں ( انعام بھی بڑا ملے گا) اور ( مزید برآں یہ ہوگا کہ) تم ( ہمارے) مقرب لوگوں میں داخل ہوجاؤ گے ( غرض موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی جانب سے اس کی طلاع دی گئی اور مقابلہ کے لئے تاریخ معین ہوئی اور تاریخ پر سب ایک میدان میں جمع ہوئے اس وقت) ان ساحروں نے ( موسیٰ (علیہ السلام) سے) عرض کیا کہ اے موسیٰ ( ہم آپ کو اختیار دیتے ہیں) خواہ آپ ( اول اپنا عصا میدان میں) ڈالئے ( جس کو آپ اپنا معجزہ بتلاتے ہیں) اور یا ( آپ کہیں تو) ہم ہی ( اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں) ڈالیں، موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم ہی ( پہلے) ڈالو جب انہوں نے ( اپنی رسیوں اور لا ٹھیوں کو) ڈالا تو ( جادو سے دیکھنے والے) لوگوں کی نظربندی کردی ( جس سے وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ کی شکل میں لہراتی نظر آنے لگیں) اور ان پر ہیبت غالب کردی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھلایا اور ( اس وقت) ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو ( وحی کے ذریعہ سے) حکم دیا کہ آپ اپنا عصا ڈال دیجئے ( جیسا ڈالا کرتے ہیں) سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے ( اژدھا بن کر) ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا پس ( اس وقت) حق ( کا حق ہونا) ظاہر ہوگیا اور انہوں نے ( یعنی ساحروں نے) جو کچھ بنایا ونایا تھا سب آتا جاتا رہا۔ پس وہ لوگ ( یعنی فرعون اور اس کی قوم) اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوئے ( اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے) اور وہ جو ساحر تھے وہ سجد میں گرگئے، ( اور پکار پکار کر) کہنے لگے کہ ہم ایمان لے آئے رب لعالمین پر جو موسیٰ اور ہارون ( علیہما السلام) کا بھی رب ہے۔ معارف و مسائل ان آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بقیہ قصہ مذکور ہے کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کھلا معجزہ دیکھا کہ لاٹھی کا سانپ بن گیا اور پھر جب اس کو ہاتھ میں پکڑا تو پھر لاٹھی بن گئی اور ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر نکا لا تو چمکنے لگا، اس آیت قدرت کا عقلی تقاضایہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا مگر جیسا اہل باطل کا عام طرز ہے کہ حق پر پردہ ڈالنے اور مکرنے کے لئے صحیح چیز کو غلط عنوان دیا کرتے ہیں، فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے بھی لوگوں سے یہی کہا کہ یہ بڑے ماہر جادوگر ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے ملک پر قبضہ کر کے تمہیں نکال دیں تو اب تم بتلاؤ کیا کرنا چاہئے ؟ قوم فرعون نے یہ سن کر جواب دیا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ وَاَرْسِلْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ يَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ ، اس میں لفظ ارجہ ارجاء سے مشتق ہے جس کے معنی ڈھیل دینے اور امید دلانے کے آتے ہیں اور مدائین، مد ینة کی جمع ہے جو ہر بڑے شہر کے لئے بولا جاتا ہے، حشرین، حاشر کی جمع ہے جس کے معنی ہیں اٹھانے اور جمع کرنے والا، مراد اس سے سپاہی ہیں جو اطرف ملک سے جادوگروں کو جمع کرکے لائیں۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ قوم کے لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ اگر یہ جادوگر ہے اور جادو کے ذریعہ ہمارا فتح کرنا چاہتا ہے تو اس کا مقابلہ ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں، ہمارے ملک میں بڑے بڑے ماہر جادوگر ہیں اس کو اپنے جادو سے شکست دے دیں گے، کچھ سپاہی ملک کے اطراف میں بھیج دیجئے جو ہر شہر کے جادوگروں کو بلائیں۔ وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ میں جادو سحر کا رواج عام تھا اور عام لوگوں پر جادوگروں کا اقتدار تھا اور شاید حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضاء کا معجزہ اسی لئے عطا فرمایا کہ جادوگروں سے مقابلہ ہو اور معجزہ کے مقابلہ میں جادو کی رسوائی سب لوگ آنکھوں سے دیکھ لیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم عادت بھی یہی ہے کہ ہر زمانہ کے پیغمبر کو اس زمانہ کے منا سب معجزات عطا فرماتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں حکمت یونانی اور طب یونانی اپنے عروج پر تھی تو ان کو معجزہ یہ دیا گیا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا بنادیں اور جزامی کوڑھیوں کو تندرست کردیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں عرب کا سب سے بڑا کمال فصاحت و بلاغت تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا معجزہ قرآن بنایا گیا جس کے مقابلہ سے سارا عرب وعجم عاجز ہوگیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ وَاَرْسِلْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ۝ ١١١ ۙ رجه الرَّجُّ : تحريك الشیء وإزعاجه، يقال : رَجَّهُ فَارْتَجَّ ، قال تعالی: إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] ، نحو : إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] ، والرَّجْرَجَةُ : الاضطراب، وكتيبة رَجْرَاجَةٌ ، وجارية رَجْرَاجَةٌ ، وارْتَجَّ کلامه : اضطرب، والرِّجْرِجَةُ : ماء قلیل في مقرّه يضطرب فيتكدّر . ( ر ج ج ) الرج ( م ن ) اس کے معنی کسی چیز کو ہلانے اور جنبش دینے کے ہیں اور ارتجاج ( افتعال ) اس کا مطاوع ہے جس کے معنی ہلنے اور مضطرب ہونے کے ہیں : ۔ رجہ فارتج ۔ اسے ہلایا چناچہ وہ ہلنے لگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا[ الواقعة/ 4]( اور قیامت اس وقت واقع ہوگی ) جب کہ زمین بڑے زور سے ہلنے لگے گی ۔ اسی کو دوسرے مقام پر : ۔ إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی سے تعبیر کیا ہے ۔ الرجرجۃ : اضطراب ۔ کتیبة رجراجۃ لشکر جرار ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ مدن المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] . ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔ حشر الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي : «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال : حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف/ 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ وَاَرْسِلْ فِی الْْمَدَآءِنِ حٰشِرِیْنَ ) یعنی ابھی فوری طور پر ان کے خلاف کوئی ردِّعمل ظاہر نہ کیا جائے۔ انہیں مناسب انداز میں ٹالتے ہوئے مؤثر جوابی حکمت عملی اپنانے کے لیے وقت حاصل کیا جائے اور اس دوران ملک کے تمام علاقوں کی طرف اپنے اہلکار روانہ کردیے جائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:111) ارجد۔ ارجہ تو اس کو ڈھیل دے۔ تو اسے مہلت دے۔ ارجاء (افعال) سے جس کے معنی ڈھیل دینے یا مہلت دینے کے ہیں یا ملتوی کرنے کے۔ رجاء مادہ۔ ارج امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ آیات 109، 110، 111 میں مختلف اقوال ہیں : (1) ان ھذا سے لے کر فماذا تامرون تک سردار ان قوم فرعون کا کلام ہے اور خطاب جملہ حاضرین دربار سے ہے۔ (2) یہ کلام سرداران قوم فرعون کا ہے لیکن خطاب فرعون سے ہے۔ اور جمع کا صیغہ برائے تعظیم لایا گیا ہے۔ (3) ان ھذا سے لے کر من ارضکم تک سرداران قوم کا خطاب فرعون سے ہے اور فماذا تامرون فرعون کا خطاب سرداران قوم سے ہے کہ تم کیا مشورہ دیتے ہو۔ اسی طرح آیت 111 میں قالوا کے متعلق مختلف صورتیں ہیں : (ا) اگر خطاب جملہ حاضرین دربار سے ہے تو جمع مذکر غائب ان حاضرین کی طرف راجع ہے۔ (ب) اگر خطاب سرداران کا فرعون سے ہے (نمبر 2 مذکور بالا) تو قالوا سے مراد انہی سرداروں سے ہے جنہوں نے خطاب کے بعد فرعون کو ازخود تجویز پیش کی۔ (ج) مذکروہ نمبر 3 کی صورت میں ضمیر فاعل سرداروں کی طرف راجع ہے۔ مندرجہ بالا صورتوں میں نمبر 3 اور (ج) سے عبارت زایدہ واضح ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور امر حل طلب ہے وہ یہ ہے کہ آیات نمبر 109، 110 ۔ میں ان ھذا سے لے کر من ارضکم تک کلام سرداران قوم عرعون کی طرف منسوب ہے لیکن سورة الشعراء (22:3435) میں یہ خطاب فرعون کی طرف سے سرداران کو ہے۔ عبارت یوں ہے قال للملأ حولہ ان ھذا الساحر علیم ۔ یرید ان یخرجکم من ارضکم بسحرہ فما ذا تامرون (35) لیکن حقیقت میں ہر دو میں کوئی اختلاف یا تضاد نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر جب ناظرین (فرعون اور اس کے سرداران و دیگر حاضرین) بھونچکے رہ گئے تو باہمی چہ میگوئیوں میں یہ خدشہ ہر ایک کے دل میں تھا جو وہ اپنی اپنی زبانوں سے ادا کرنے لگے کہ یہ تو بڑا ماہر جادوگر معلوم دیتا ہے جس کا راداہ اپنے جادو کے زور سے قبطیوں کو ان کے ملک سے باہر نکالنے اور حکومت پر خود قبضہ کرنے کا ہے۔ المدائن۔ مدینۃ کی جمع ۔ مدینہ کی جمع مدن بھی ہے۔ معرف بہ ال ۔ حشرین۔ ہر کارے اکٹھے کرنے والے۔ جمع کرنے والے۔ اسم فاعل جمع مذکر ۔ حاشر واحد۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی انکے بارے میں بھی کوئی فیصلہ نہ کیا جائے اور ان کا معاملہ چند روز ملتوی رکھا جائے (ارجہ اصل میں ار حجئہ ہمزہ ساکن اور اک مضمومہ کے ساتھ ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب فرعون اور اس کے ٹولے کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے۔ اس وقت مصر میں کاہن اور جادوگر بڑی تعداد میں تھے۔ خود کاہن جادوگری کا کام بھی کرتے تھے۔ تمام بت پرستانہ مذاہب میں جادو دین کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ چناچہ ان ادیان کے کاہن اور مجاور جادوگری کا کام بھی کرتے تھے۔ آج کل ادیان کے جدید ماہرین اس صورت حالات کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایک دور ایسا بھی رہا ہے کہ جادوگری سے دین کا آغاز ہوا۔ اور زیادہ پکے ملحد یہ یا وہ گوئی کرتے ہیں کہ جس طرح جادو بالکل دین قرار پا گیا ہے اسی طرح ہر ایک دین بھی ختم ہوجائے گا اور جس طرح سائنس نے جادگروی کے دور کو ختم کردیا ہے اسی طرح ایک وقت ایسا آئے گا کہ مذہب بھی ختم ہوجائے گا۔ بہرحال یہ ان کا خطب ہے جس میں وہ سائنس کے عنوان سے مبتلا ہیں۔ فرعون کے مشیروں نے اسے یہ مشورہ دیا کہ وہ حضرت موسیٰ اور آپ کے بھائی کو وقت دے دیں اور اپنی ریاست کے اطراف و اکناف سے بڑے بڑے جادوگروں کو طلب کریں تاکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جادو گری کا مقابلہ کریں۔ (نعوذ باللہ) فرعون نے اپنی معروف و مشہور فرعونیت کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معاملے میں سرکشی کا مظاہرہ نہ کیا اور اس کا رویہ بیسویں صدی کے بعد کے فرعونوں سے زیادہ معقول رہا۔ آج کل کے فرعون دعوت اسلامی کا مقابلہ تشدد اور قید و بند اور باطل طریقوں سے کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 1 ان سب سرداروں نے متفقہ طور پر فرعون کو یہ مشورہ دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اس وقت کچھ مہلت دیدیجئے اور مختلف شہروں میں اپنے ہرکارے اور برق انداز اور سپاہی بھیج دیجئے۔