Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 127

سورة الأعراف

وَ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اَتَذَرُ مُوۡسٰی وَ قَوۡمَہٗ لِیُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِہَتَکَ ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ نَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ ﴿۱۲۷﴾

And the eminent among the people of Pharaoh said," Will you leave Moses and his people to cause corruption in the land and abandon you and your gods?" [Pharaoh] said, "We will kill their sons and keep their women alive; and indeed, we are subjugators over them."

اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ ( علیہ السلام ) اور ان کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وہ ملک میں فساد کرتے پھریں اور وہ آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کیئے رہیں فرعون نے کہا کہ ہم ابھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے اور عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے اور ہم کو ان پر ہر طرح کا زور ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Fir`awn vows to kill the Children of Israel, Who complain to Musa; Allah promises Them Victory Allah mentions the conspiracy of Fir`awn and his people, their ill intentions and their hatred for Musa and his people. وَقَالَ الْمَلُ مِن قَوْمِ فِرْعَونَ ... The chiefs of Fir`awn's people said, (to Fir`awn), ... أَتَذَرُ مُوسَى وَقَوْمَهُ ... "Will you leave Musa and his...  people!" will you let them be free, ... لِيُفْسِدُواْ فِي الاَرْضِ ... "to spread mischief in the land," spreading unrest among your subjects and calling them to worship their Lord instead of you. Amazingly, these people were worried that Musa and his people would cause mischief! Rather, Fir`awn and his people are the mischief-makers, but they did not realize it. They said, ... وَيَذَرَكَ وَالِهَتَكَ ... "and to abandon you and your gods." `Your gods', According to Ibn Abbas, as As-Suddi narrated from him, "Were cows. Whenever they saw a beautiful cow, Fir`awn would command them to worship it. This is why As-Samiri, made the statue of a calf that seemed to moo for the Children of Israel." Fir`awn accepted his people's recommendation, ... قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءهُمْ وَنَسْتَحْيِـي نِسَاءهُمْ ... He said: "We will kill their sons, and let their women live," thus reiterating his previous order concerning the Children of Israel. ... وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ and we have indeed irresistible power over them." He had tormented them (killing every newly born male) before Musa was born, so that Musa would not live. However, the opposite of what Fir`awn sought and intended occurred. The same end struck Fir`awn that he intended to subjugate and humiliate the Children of Israel with. Allah gave victory to the Children of Israel, humiliated and disgraced Fir`awn, and caused him to drown along with his soldiers. When Fir`awn insisted on his evil plot against the Children of Israel,   Show more

آخری حربہ بغاوت کا الزام فرعون اور فرعونیت نے حضرت موسیٰ اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے سوچے ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے کہنے لگے یہ تو آپ کی رعایا کو بہکاتے ہیں بغاوت پھیلا دیں گے ملک میں بد امنی پیدا کریں گے ان کا ضرور اور جلد کوئی انتظام کرنا چاہئے ، ا... للہ کی شان دیکھئے کیا مصلح بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسول اور مومنوں کے فساد سے دنیا کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مفسد اور بد نفس خود ہیں ۔ آیت ( ویذرک ) میں بعض تو کہتے ہیں واؤ حالیہ ہے یعنی در آنحالیکہ موسیٰ اور قوم موسیٰ نے تیری پرستش چھوڑ رکھی ہے پھر بھی تو انہیں زندہ رہنے دیتا ہے؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں ہے آیت ( وقد ترکوک ان یعبدوا الھتک ) اور قول ہے کہ واؤ عاطفہ ہے یعنی تو نے انہیں چھوڑ رکھا ہے ۔ جس فساد کو یہ برپا کر رہے ہیں اور تیرے معبودوں کے چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں ۔ بعض کی قرأت الاھتک ہے یعنی تیری عبادت سے ، بعض کا بیان ہے کہ فرعون بھی کسی کو پوجا کرتا تھا ۔ ایک قول ہے کہ اسے وہ پوشیدہ راز میں رکھتا تھا ، ایک روایت میں ہے کہ اس کا بت اس کی گردن میں ہی لٹکتا رہتا تھا جسے یہ سجدہ کرتا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بہترین گائے پر فرعون کی نگاہ پڑی جاتی تو لوگوں سے کہہ دیتا کہ اس کی پرستش کرو ۔ اسی لئے سامری نے بھی بنی اسرائیل کے لئے بچھڑا نکالا ۔ الغرض اپنے سرداروں کی بات سن کر فرعون جواب دیتا ہے کہ اب سے ان کے لئے ہم احکام جاری کریں گے کہ ان کے ہاں جو اولاد ہو دیکھ لی جائے ۔ اگر لڑکا ہو تو قتل کر دیا جائے لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ دی جائے ۔ پہلے سرکش فرعون ان مساکین کے ساتھ یہی کر چکا تھا جبکہ اسے یہ منظور تھا کہ حضرت موسیٰ پیدا ہی نہ ہوں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ غالب آیا اور حضرت موسیٰ باوجود اس کے حکم کے زندہ و سالم بجے رہے اب دوبارہ اس نے یہی قانون جاری کر دیا تاکہ بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے ، یہ کمزور پڑ جائیں اور بالاخر ان کا نام مٹ جائے لیکن قدرت نے اس کا بھی خلاف کر دکھایا ، اسی کو اور اس کی قوم کو غارت کر دیا اور بنی اسرائیل کو اوج و ترقی پر پہنچا دیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس تکبر کے مقابلے میں تحمل اور اس کے ظلم کے مقابلے میں صبر سے کام لیا اپنی قوم کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ فرما چکا ہے کہ لحاظ سے تم ہی اچھے رہو گے تم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو ۔ قوم والوں نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم اس طرح ستائے جاتے رہے ، اسی ذلت و اہانت میں مبتلا رہے اور اب پھر یہی نوبت آئی ہے ۔ آپ نے مزید تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں ۔ یقین مانو کہ تمھارا بدخواہ ہلاک ہوگا اور تم کو اللہ تعالیٰ اوج پر پہنچائے گا ۔ اس وقت وہ دیکھے گا کہ کون کتنا شکر بجا لاتا ہے؟ تکلیف کا ہٹ جانا راحت کامل جانا انسان کو نہال نہال کر دیتا ہے یہ پورے شکریئے کا وقت ہوتا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

127۔ 1 یہ ہر دور کے مفسدین کا شیوا رہا ہے کہ وہ اللہ والوں کو فسادی اور ان کی دعوت ایمان و توحید کو فساد سے تعبیر کرتے ہیں فرعون نے بھی یہی کہا۔ 127۔ 2 فرعون کو بھی اگرچہ دعویٰ ربوبیت تھا (اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى) 79 ۔ الزاریات :24) میں تمہارا بڑا رب ہوں وہ کہا کرتا تھا لیکن دوسرے چھوٹے چھوٹے معب... ود بھی تھے جن کے ذریعے سے لوگ فرعون کا تقرب حاصل کرتے تھے۔ 127۔ 3 ہمارے اس انتظام میں یہ رکاوٹ نہیں ڈال سکتے قتل انبیاء کا یہ پروگرام فرعونیوں کے کہنے پر بنایا گیا اس سے قبل بھی جب موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت نہیں ہوئی تھی موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد از ولادت خاتمے کے لئے اس نے بنی اسرائیل کے نوملود بچوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے بعد ان کو بچانے کی یہ تدبیر کی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو خود فرعون کے محل میں پہنچوا کر اس کی گود میں ان کی پرورش کروائی۔ (فَلِلّٰهِ الْمَكْرُ جَمِيْعًا) 13 ۔ الرعد :42) ۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٤] لوگوں کا ایمان لانا اور فرعونیوں کو بغاوت کا خطرہ :۔ فرعون کی اس تدبیر کا بھی الٹا ہی اثر پڑا اور بہت سے اسرائیلی سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے حتیٰ کہ چند قبطی (فرعونی) بھی آپ پر ایمان لے آئے تو فرعونیوں کے لیے ایک تشویشناک صورت حال پیدا ہوگئی۔ وہ فرعون سے کہنے لگے اس صورت حال پر...  سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہیں یہ سب مل کر ملک میں بغاوت نہ کھڑی کردیں۔ اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ نہ دیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے اور بھی کئی دیوتا تھے جن کی پرستش کی جاتی تھی۔ ایک تو فرعون نے ہر جگہ عبادت کے لیے اپنے مجسمے تیار کرا کے نصب کرا رکھے تھے۔ دوسرے قرآن سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم گؤ سالہ پرستی میں مبتلا تھی یعنی بیل کی پوجا کرنا ان کا مذہبی شعار بن چکا تھا اور وہ سورج کے علاوہ اور بھی کئی ستاروں کی روحوں کے فرضی مجسموں کو پوجتی تھی۔ [١٢٥] بنی اسرائیل کو نبیوں کے قتل کی دوسری بار سزا :۔ بنی اسرائیل پر بیٹوں کے قتل کا عذاب دو بار مسلط کیا گیا۔ پہلی دفعہ تو فرعون رعمسیس نے ایسا آرڈر نافذ کیا تھا جب اسے نجومیوں نے بتلایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری سلطنت کا تختہ الٹ دے گا چناچہ فرعون نے بنی اسرائیل کے ہاں سب پیدا ہونے والے بیٹوں کے قتل کی مہم کا آغاز کیا مگر جو کچھ اللہ کو منظور تھا وہ ہو کے رہا۔ جس بچے کو اس سلطنت کا تختہ الٹنا تھا اللہ تعالیٰ نے ایسا بندوبست کردیا کہ اس کی تربیت اور پرورش اسی فرعون کے گھر میں ہوتی رہی اور دوسری بار اسی فرعون کے بیٹے منفتاح نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چل کر اسی بیٹوں کے قتل والی مہم کو شروع کردیا جس کا مقصد یہ تھا کہ کچھ مدت بعد بنی اسرائیل کی نسل ہی کو ختم کردیا جائے وہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو لونڈیاں بناکر ان سے طرح طرح کی بیگار لیا کرتے تھے اس طرح بزعم خود ان لوگوں نے اپنی سلطنت کو اور اپنے آپ کو آنے والے خطرے سے بچانے کی تدابیر مکمل کرلیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کے غلبے اور جادوگروں کے ایمان لانے پر اگرچہ چند ہی نوجوانوں نے ایمان لانے کی جرأت کی اور وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتے ہوئے۔ (دیکھیے یونس : ٨٣) تاہم فرعون کی بنی اسرائیل کے خلاف کاروائیاں کچھ کم ہوگئیں تو اس کے سردا... روں نے اسے یہ کہہ کر بھڑکایا کہ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑے رکھے گا کہ وہ زمین میں فساد کریں، یعنی وہ تمہاری رعیت کو دعوت دیتے پھریں کہ وہ تمہارے اور تمہارے معبودوں کے بجائے اللہ واحد کی عبادت کریں اور ملک میں دعوت توحید سے فساد پھیلاتے پھریں۔ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” تعجب ہے کہ یہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے فساد پھیلانے سے ڈر رہے ہیں، حالانکہ فساد پھیلانے والے تو وہ خود ہیں۔ “ فرمایا : (اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ ) [ البقرۃ : ١٢ ] ” سن لو ! یقیناً وہی تو فساد ڈالنے والے ہیں اور لیکن وہ نہیں سمجھتے۔ “ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ۭ: ” آلِہَۃٌ“ یہ ” اِلٰہٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی معبود ہے، یعنی وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑے رکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے بھی کچھ معبود تھے جن کی وہ عبادت کرتا تھا۔ بعض صحابہ کی قراءت میں ” اِلَاھَتَکَ “ ہے، ” اِلَاھَۃٌ“ کا معنی عبادت ہے، یعنی وہ تجھے اور تیری عبادت کو چھوڑے رکھیں، یہ بھی اگرچہ درست ہے مگر مشہور قراءت پہلی ہی ہے۔ اس لیے اہل علم نے اس کی کئی توجیہات کی ہیں اور وہ سبھی ممکن ہیں۔ ایک توجیہ اس کی یہ ہے کہ وہ واقعی رب اعلیٰ ہونے کے اعلان کے باوجود خود کئی معبودوں کی پرستش کرتا تھا اور ان معبودوں کے تقدس کا عقیدہ اس کی قوم میں بھی موجود تھا، مثلاً گائے کی پرستش تو عام تھی، جس کے نتیجے میں ان سے میل جول اور ان کی محکومیت کی وجہ سے بنی اسرائیل میں بھی یہ عقیدہ در آیا تھا۔ جس کی دلیل آزاد ہونے کے بعد بھی گائے ذبح کرنے کے حکم پر ان کے بہانے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر جانے کے بعد سامری کا بچھڑا بنا کر قوم کو اس کی عبادت پر لگانا ہے۔ مصری تہذیب ہندوؤں سے ملتی جلتی تھی۔ مشرکانہ مذاہب میں عجیب پیچیدگی پائی جاتی ہے، عموماً ان کے ہاں اصل خدا کسی انسان میں اتر آتا ہے جو مسلمان صوفیا کے ہاں حلول کے نام سے معروف ہے۔ فرعون اپنے آپ کو ان تمام معبودوں کا نمائندہ قرار دے کر اپنے آپ کو رب اعلیٰ کہلاتا تھا اور اپنے سرداروں سے کہتا تھا : (مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ ۚ ) [ القصص : ٣٨ ] ” مجھے اپنے سوا تمہارا کوئی معبود معلوم نہیں۔ “ یہ وہی بات ہے جو بعض مسلمانی کا دعویٰ کرنے والوں نے کہی ہے ؂ وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفیٰ ہو کر مگر یہ لوگ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اصلی خدا مان کر بھی بہت سے زندہ خداؤں، مثلاً مرشدوں اور مردہ خداؤں کی قبروں کی پرستش کرتے ہیں اور ان میں بھی اللہ کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اس قسم کے تمام گندے عقیدوں سے بری ہیں۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ درحقیقت فرعون دہری تھا۔ کائنات کا کوئی بنانے والا مانتا ہی نہ تھا، اس کے نزدیک بادشاہ ہی معبود کا مقام رکھتا تھا کہ جو اس کے منہ سے نکلے وہی دین اور قانون ہے۔ اپنے سرداروں کے لیے یہ مقام وہ خود رکھتا تھا اور اس کے سردار اپنے اپنے علاقے کی رعایا کے لیے یہ مقام رکھتے تھے، چناچہ اس نے اپنے بت بنوا کر لوگوں کے گھروں میں رکھے ہوئے تھے، جیسا کہ آج کل کے اکثر حکمران اپنی تصاویر اور مجسموں کے ذریعے سے لوگوں کے ذہنوں میں اپنی خدائی بٹھاتے ہیں، کمیونسٹ حکمران سٹالن، لینن اور ماؤزے تنگ بھی خدا کے منکر ہونے کے باوجود لوگوں کے دماغوں میں اپنی خدائی کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ جمہوری حکمران بھی اس کوشش میں حتی الوسع کمی نہیں کرتے، اگرچہ وہ نام عوام کا استعمال کرتے ہیں۔ تیسری توجیہ یہ ہے کہ حاکمیت میں وہ اپنے سوا کسی کو معبود نہیں مانتا تھا، البتہ غیبی مدد کرنے والے کچھ معبود اس نے بھی رکھے ہوئے تھے، جس طرح آج کل بعض حکمران قانون اپنا چلاتے ہیں مگر غیبی مدد حاصل کرنے کے لیے کئی ہستیوں کی نیاز دیتے رہتے ہیں۔ چناچہ وہ کعبہ کی طرح پختہ قبروں کو عرق گلاب سے غسل دیتے اور بزرگوں کو کرنی والا سمجھتے ہیں اور کچھ کچھ اللہ کو بھی مان لیتے ہیں، مگر کیا مجال کہ اس کا کوئی قانون عمل میں لائیں یا لانے دیں۔ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَهُمْ ۔۔ : یعنی ہم جو ظلم و ستم موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے بنی اسرائیل پر کرتے تھے اس کا سلسلہ پھر سے شروع کریں گے، اس طرح یہ تباہ ہوجائیں گے اور ان کا تخم تک باقی نہیں رہے گا۔ ان کے مرد مارے جائیں گے اور صرف عورتیں بچیں گی، وہ کیا کرسکیں گی، ان کو ہم لونڈیاں بنا کر اپنے گھروں میں رکھیں گے۔ ابھی تک اس کی جرأت نہ کرنے کے لیے اس نے یہ حیلہ تراشا کہ ایسی کیا جلدی ہے، ہم ان پر پوری طرح قابو رکھتے ہیں، جب چاہیں گے ایسا کرلیں گے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Pharaoh was frightened It is to be noted that the Pharaoh was in some degree successful in keeping his ignorant people in their former ignorance through his clever and false statements, but at the same time, they strangely noted that all the fury and rage of Pharaoh was limited to the sorcerers only. He did not dare say a word against the prophets Musa (علیہ السلام) and Harun who were his real opp... onents. This is obvious from the following statement of his people: أَتَذَرُ‌ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْ‌ضِ وَيَذَرَ‌كَ وَآلِهَتَكَ ۚ|"Do you leave Musa (علیہ السلام) and his people alone to spread disorder in the land, even when he abandons you and your gods?|" Pharaoh had no convincing answer to this question. He only said, سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُ‌ونَ |"We shall slaughter their sons and let their women live, and we have full power over them.|" According to the commentators of the Holy Qur&an, Pharaoh tried to satisfy his people saying that by killing their males and leaving their women alive, he shall totally eliminate them within a period of time. Their women shall be spared to serve his people as maid servants. In fact, Pharaoh was so frightened by the miracle of the prophet Musa (علیہ السلام) that even at this occasion when he was threat¬ening to kill all the men of Israelites, he could not utter a single word of threat against Musa and Harun (علیہ السلام) Maulana Rumi said: ھر کہ ترسید از حق وتقوی گزید ترسید ازوی جن و انس و ھر کہ دید |"Whoever adopts &Taqwa& and fears Allah is feared by all human beings and spirits|" . The above statement of Pharaoh&s people, &Even when he abandons you and your gods& makes us understand that Pharaoh himself used to worship other gods, even though he claimed to be the god of his people. The law about killing of the males of the Israelites and leaving their women alive was now promulgated the second time. The first time it was put into force prior to the birth of the prophet Musa (علیہ السلام) . He was witnessing the failure of this law up to this day which was evident from the huge crowd of the Israelites present at this occasion. When Allah intends to bring disgrace to a people, all they contrive leads to nothing but disaster. We shall soon see that this tyranny and oppres¬sion, at last, led him and his people to an ignominious end.  Show more

فرعون پر حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کی ہیبت کا اثر : فرعون کی چالاکی اور سیاسی جھوٹ نے اس کی جاہل قوم کو اس کے ساتھ قدیم گمراہی میں مبتلا رہنے کا کچھ سامان تو کردیا، مگر یہ اعجوبہ ان کے لئے بھی ناقابل فہم تھا کہ فرعون کے غصہ کا سارا زور جادوگروں پر ختم ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) جو اصل مخا... لف تھے ان کے بارے میں فرعون کی زبان سے کچھ نہ نکلا، اس پر ان کو کہنا پڑا۔ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ، یعنی کیا آپ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دیں گے کہ وہ آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ کر ہمارے ملک میں فساد کرتے پھریں۔ اس پر مجور ہو کر فرعون نے کہا، سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَنَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ ۚ وَاِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ ، یعنی ان کا معاملہ ہمارے لئے کچھ قابل فکر نہیں، ہم ان کے لئے یہ کام کریں گے کہ ان میں جو لڑکا پیدا ہوگا اس کو قتل کردیں گے صرف لڑکیوں کو رہنے دیں گے، جس کا نتیجہ کچھ عرصہ میں یہ ہوجائے گا کہ ان کی قوم مردوں سے خالی ہو کر صرف عورتیں رہ جائیں گی جو ہماری خدمت گار باندیاں بنیں گی۔ اور ہم تو ان سب پر پوری قدرت رکھتے ہیں جو چاہیں کریں یہ ہمارا کچھ نہیں بنا سکتے۔ علماء مفسرین نے فرمایا کہ قوم کے اس طرح جھنجوڑنے پر بھی فرعون نے یہ تو کہا کہ ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کردیں گے، لیکن حضرت موسیٰ و ہارون علہما السلام کے بارے میں اس وقت بھی اس کی زبان پر کوئی بات نہ آئی۔ وجہ یہ ہے کہ اس معجزہ اور واقعہ نے فرعون کے قلب و دماغ پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سخت ہیبت بٹھلادی تھی۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ فرعون کا یہ حال ہوگیا تھا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھتا تو پیشاب خطا ہوجاتا تھا، اور یہ بالکل صحیح ہے، ہیبت حق کا یہی حال ہوتا ہے، ہیبت حق است ایں از خلق نیست اور مولانا رومی نے فرمایا : ہر کہ ترسید از حق وتقوی گزید ترسد از وے جن وانس وہر کہ دید یعنی جو اللہ سے ڈرتا ہے ساری مخلوق اس سے ڈرنے لگتی ہے۔ اس جگہ قوم فرعون نے جو یہ کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ کر فساد کرتے پھریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرعون اگرچہ اپنی قوم کے سامنے خود خدائی کا دعویدار تھا اور اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى کہتا تھا، لیکن خود بتوں کی پوجا پاٹ بھی کیا کرتا تھا۔ اور بنی اسرائیل کو کمزور کرنے کے لئے یہ ظالمانہ قانون کہ جو لڑکا پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے یہ اب دوسری مرتبہ نافذ کیا گیا، اس کا پہلا نمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پید ائش سے پہلے ہوچکا تھا، جس کے ناکام ہونے کا مشاہدہ یہ اس وقت تک کررہا تھا، مگر جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو رسوا کرنا چاہتے ہیں اس کی تدبیریں ایسی ہی ہوجایا کرتی ہیں جو انجام کار ان کے لئے تباہی کا سامان کردیتی ہیں، چناچہ آگے معلوم ہوگا کہ فرعون کا یہ ظلم وجور آخر کار اس کو اور اس کی قوم کو لے ڈوبا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَہٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِہَتَكَ۝ ٠ ۭ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَنَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنَّا فَوْقَہُمْ قٰہِرُوْنَ۝ ١٢٧ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعم... ل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ قهر القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] ، فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ، فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرْ [ الضحی/ 9] أي : لا تذلل، وأَقْهَرَهُ : سلّط عليه من يقهره، والْقَهْقَرَى: المشي إلى خلف . ( ق ھ ر ) القھر ۔ کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد/ 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔ ۔ فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرْ [ الضحی/ 9] تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرو اسے ذلیل نہ کرو ۔ اقھرہ ۔ کسی پر ایسے شخص کو مسلط کرنا جو اسے ذلیل کردے ۔ القھقری پچھلے پاؤں لوٹنا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٧) سردار کہنے لگے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو قتل نہیں کرتے کہ وہ آپ کے دین اور پرستش میں تغیر کررہے ہیں اور تمہیں اور تمہارے معبودوں کی عبادت یا تمہاری پرستش کو چھوڑ رکھا ہے۔ فرعون کہنے لگا جیسا کہ میں پہلے نومولود بچوں کو قتل کرتا تھا، اسی طرح قتل کردوں گا اور بڑی لڑکیوں سے ہم خدمت لی... ں گے، ان پر ہمیں پورا اختیار حاصل ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٧ (وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَقَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ ) (وَیَذَرَکَ وَاٰلِہَتَکَ ط) جس نئے نظریے کا پرچار وہ کر رہے ہیں اگر وہ لوگوں میں مقبول ہوتا گیا اور اس نظریے پر لوگ اکٹھے اور منظم ہوگئے تو ہمارے خلاف بغاوت پھوٹ پڑے گی۔ اس طرح ملک میں فساد ... پھیلنے کا سخت اندیشہ ہے۔ یہاں پہ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قوم فرعون کے معبود بھی تھے۔ ان کا سب سے بڑا الٰہ تو سورج تھا۔ لہٰذا معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ خدا صرف فرعون کو مانتے تھے۔ فرعون کی خدائی سیاسی تھی ‘ اس کا دعویٰ تھا کہ حکومت میری ہے ‘ اقتدارو اختیار (sovereignty) کا مالک میں ہوں۔ نمرود کی خدائی کا دعویٰ بھی اسی طرح کا تھا۔ باقی پوجا پاٹ کے لیے کچھ معبود فرعون اور اس کی قوم نے بھی بنا رکھے تھے جن کے چھوٹ جانے کا انہیں خدشہ تھا۔ (قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَ ہُمْ وَنَسْتَحْیٖ نِسَآءَ ہُمْ ج) یہ آزمائش ان پر ایک دفعہ پہلے بھی آچکی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے قبل جو فرعون برسر اقتدار تھا اس نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر میں اس کے نجومیوں نے اسے بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچے کی پیدائش ہونے والی ہے جو بڑا ہو کر آپ کی حکومت ختم کر دے گا۔ چناچہ اس خدشے کے پیش نظر فرعون نے حکم دیا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جائے اور صرف لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ تقریباً چالیس ‘ پینتالیس سال بعد اب پھر یہ مرحلہ آگیا کہ جب موجودہ فرعون کے سرداروں نے اس کی توجہ اس طرف دلائی کہ جسے تم مشت غبار سمجھ رہے ہو وہ بڑھتے بڑھتے اگر طوفان بن گیا تو پھر کیا کرو گے ؟ اگر اس (حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) نے اپنی قوم کو تمہارے خلاف ایک تحریک کی شکل میں منظم کرلیا تو پھر ان کو دبانا مشکل ہوجائے گا۔ لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ nip the evil in the bud کے اصول کے تحت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کردیا جائے ‘ لیکن فرعون کے دل میں اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے محبت ڈالی ہوئی تھی۔ کیونکہ یہ وہی فرعون تھا جس کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بھائیوں کا سا رشتہ تھا ‘ جس کی وجہ سے اس کے دل میں آپ ( علیہ السلام) کے لیے طبعی محبت ابھی بھی موجود تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے آپ ( علیہ السلام) کو قتل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا ‘ بلکہ اس کے بجائے اس نے بنی اسرائیل کو دبانے کے لیے پھر سے اپنے باپ کا پرانا حکم نافذ کرانے کا عندیہ دے دیا کہ ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرتے رہیں گے تاکہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو اپنی قوم سے اجتماعی افرادی قوت مہّیا نہ ہو سکے۔ (وَاِنَّا فَوْقَہُمْ قٰہِرُوْنَ ) ۔ گویا اب درباریوں اور امراء کا حوصلہ بڑھانے کے انداز میں کہا جا رہا ہے کہ تم کیوں گھبراتے ہو ‘ ہم پوری طرح ان پر چھائے ہوئے ہیں ‘ یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

93. There were two periods of persecution. The first was during the reign of Rameses 11 and took place before Moses' birth, whereas the second period of persecution started after Moses' assumption to the office of prophethood. Common to both periods is the killing of the male issue of Israelites while the female was spared. It was a calculated design to rob the Israelites of their identity and to ... bring about their forcible assimilation. An inscription discovered during the archaeological excavations of 1896 probably belongs to this period. According to this inscription, Pharaoh Minpetah rounds off the narration of his achievements and victories in these words: 'The Israel have been exterminated, and no seed of them is left.' (For further explanation see al-Mu'min 40: 25)  Show more

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :93 واضح رہے کہ ایک دور ستم وہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے رعمسیس ثانی کے زمانہ میں جاری ہوا تھا ، اور دوسرا دور ستم یہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد شروع ہوا ۔ دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرایا گیا اور ان ... کی بیٹیوں کو جیتا چھوڑ دیا گیا تا کہ بتدریج ان کی نسل کا خاتمہ ہو جائے اور یہ قوم دوسری قوموں میں گم ہو کر رہ جائے ۔ غالباً اسی دور کا ہے وہ کتبہ جو سن ١۸۹٦ء میں قدیم مصری آثار کی کھدائی کے دوران میں ملا تھا اور جس میں یہی فرعون منفتاح اپنے کارناموں اور فتوحات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ”اور اسرائیل کو مٹا دیا گا ، اس کا بیج تک باقی نہیں ۔ “ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو المومن ، آیت ۲۵ )   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

56: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے ایمان لانے والے جادوگروں کو دھمکیاں تو دی تھیں ؛ لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے اور جادوگروں کے ایمان اور استقامت کو دیکھ کر حاضرین اور خاص طور پر بنی اسرائیل کی اتنی بڑی تعداد ایمان لے آئی کہ اس کو فوری طور سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں...  پر ہاتھ ڈالنے کا حوصلہ نہ ہوا، اور جب مجمع درہم برہم ہوگیا توحضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والے اپنے گھروں کو چلے گئے، اس موقع پر فرعون کے سرداروں نے یہ بات کہی جو یہاں مذکور ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو آزاد چھوڑ دیا ہے، رفتہ رفتہ یہ اپنی طاقت جمع کرکے آپ کے لئے ایک خطرہ بن جائیں گے، فرعون نے اپنی خفت مٹانے کے لئے ان کا جواب دیا کہ فوری طور پر چاہے میں نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی، مگر اب بنی اسرائیل کو ایک ایک کرکے ختم کروں گا، البتہ عورتوں کو اس لئے زندہ رکھوں گا کہ وہ ہماری خدمت کے کام آسکیں، اس نے اپنے آدمیوں کو یہ بھی یقین دلایا کہ حالات ہمارے قابو میں ہیں اور ہماری حکمت عملی ایسی ہے کہ ہمارے لئے کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں ہوگا، اس طرح بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مومنوں کو تسلی دی کہ صبر سے کام لیتے رہو۔ آخری انجام ان شاء اللہ تمہارے ہی حق میں ہوگا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:127) تذر۔ تو چھوڑتا ہے۔ تو چھوڑے گا۔ وذر سے۔ اس فعل کی ماضی مستعمل نہیں۔ یذرک۔ وہ تجھے چھوڑ دیتا ہے اس میں فاعل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں ادرک ضمیر مفعول فرعون کے لئے ہے۔ قاھرون۔ غالب ۔ مسلط۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 کہ و لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دے کر ملک کے امن وامان کو غارت کرتے رہیں ؟ 3 حضرت عبداللہ بن عمر الا ھتک قرات کرتے ہیں یعنی تیری عبادت مگر جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ فرعون نے کچھ چھو ٹے چھوٹے بن بنواکر لوگوں کو دئیے تھے کہ میرا تقرب حاصل کرنے کے لیے ان کی پو جا کریں اس لیے وہ لوگوں سے کہا کرتا ا... ناربکم الاعلی ورب ھذہ الا صنام یعنی تمہارا بڑا رب ہوں اور ان بتوں کا بھی رب ہوں امام رازی فرماتے ہیں میرا خیال یہ ہے کہ فرعون دہریہ تھا اور صانع کا منکر وہ کہا کرتا کہ اس عالم کی تد بیر کواکب کرتے ہیں مگر اس عالم کی مربی میں ہوں ۔ اس لیے تمہیں چاہیے کہ میری عبادت کرو۔ ( دیکھئے سورة القصص آیت) اور ہوسکتا ہے کہ اس نے ان ستاروں کی صورتیں کے بت بنوا کر رکھے ہوں، پس الھتہ سے مراد یا تو وہ چھوٹے چھوٹے بت ہیں جن کی فرعون خود بھی پو جا کیا کرتا تھا، بایں صورت لھتک اپنے ظاہری معنی پر محمول ہوگا۔ (کبیر، فتح البیا)4 یعن ہم جو ظلم وستم موسیٰ کی پیدا ئش سے پہلے بنی اسرائیل پر کرتے تھے، اس کا سلسلہ پھر سے شروع کریں گے اس طرح یہ تباہ ہوجائیں گے اور ان کا تخم تک باقی نہ رہے گا ان کے مرد مارے جائینگے صرف عورتیں بچیں گی، وہ کیا کرسکیں گی، ان کو ہم لونڈیاں بناکر اپنے گھروں میں رکھیں گے ،  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 15 ۔ آیات 127 تا 129 ۔ اسرار و معارف : فرعون کی اس مکاری نے قوم کو گمراہ کرنے کا کام تو کسی حد تک کیا مگر باوجود سب طرح کی جہالت کے انہوں نے یہ بات پوچھ ہی لی کہ بھئی ایمان لانے ولوں کو بڑی زبردست سز املی مگر خود موسیٰ (علیہ السلام) کا آپ نے کچھ نہیں بگاڑا نہ ان کی قوم کے لیے کوئی سزا تجو... یز کی اگر یہی حال رہا تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم تو تباہی مچا دیں گے اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کردیں گے مگر فرعون حقیقت حال جان چکا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے سخت خوفزدہ تھا صرف تکبر کی وجہ سے دل انابت سے خالی تھا اور توبہ کی توفیق نصیب نہ تھی کہنے لگا بھئی ہم نے ان پر پہلے ہی بہت سخت سزا مقرر کر رکھی ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو قتل کردیا جائے اور بچیوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ ہماری خدمت کریں اور اب ہم ان پر اور بھی سختی کریں گے آخر وہ ہیں کیا چیز مگر موسیٰ (علیہ السلام) کا نام پھر بھی نہ لے سکا مفسرین کے مطابق ان سے بیحد خوفزدہ ہوگیا تھا۔ پریشانیوں کا حل : موسی (علیہ السلام) نے حالات دیکھ کر قوم سے فرمایا کہ دیکھو تمام پریشانیوں سے نجات کا آسان نسخہ ہے کہ اللہ سے مدد طلب کرو جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی اطاعت اختیار کرو خواہ وہ خلاف مزاج بھی ہو صبر کا معنی اپنے آپ کو روکنا ہے یعنی خلاف پسند بات کو بھی برداشت کرنا اور یہاں مراد گناہ اور نافرمانی سے رکنا ہے۔ نیز حالات کی ناساز گاری پر غلط راستے اختیار کرنے سے رکنا۔ تو پریشانی کا درست اور آسان حل یہ ہے اللہ کی اطاعت اختیار کرکے اس کی مدد طلب کرو اور اللہ کی نافرمانی سے باز آجاؤ تو زمین اس کی اپنی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کردیتا ہے یعنی اگر حکومت ظالم یا ناپسندیدہ ہے تو اسے تبدیل کرنے کے لیے بھی ظالمانہ رویہ اپنایا گیا تو ظلم بڑھے گا ختم تو نہ ہوگا لہذا اس کا طریقہ یہ ہے کہ اطاعت الہی اختیار کی جائے تو وہ اقتدار ظالم سے چھین کر مظلوم کو دینے پہ قادر ہے رہی آخرت اور دائمی زندگی تو اس کا فیصلہ ہوچکا کہ وہ صرف نیکوکار لوگوں کا حصہ ہے وہاں بدکاروں کو کچھ نہیں مل سکے گا۔ آئندہ کی خبر : قوم بھی عجیب تھی غالباً کیفیات قلبی کی قیمت سے کماحقہ آشنا نہ تھے اور محض دنیا کے آرام کی بات اکثر کرتے تھے کہنے لگے موسیٰ (علیہ السلام) آپ کے آنے سے کیا فرق پڑا آپ نہیں تھے تو یہ ذلت ہمارا مقدر تھی آپ آئے تو بھی ہم اسی ذلت میں گرفتار ہیں۔ یہاں آپ نے پیشگوئی فرمائی۔ مراد یہ تھی کہ انہیں استقامت نصیب ہو تو نیکی کریں اور گمراہی سے بچیں تو فرمایا عنقریب اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور یہ زمین جس پر تمہارا عرصہ حیات تنگ کیا رہا ہے تمہارے زیر نگیں ہوگی تمہیں اللہ کی طرف سے حکومت نصیب ہوگی مگر انسان کی حکومت تو اللہ کریم کی نیابت و خلافت کا نام ہے کہ وہ پھر تمہیں بھی دیکھے گا کہ تم کون سا رویہ اپنتے ہو یعنی اگر اتقدار میں آ کر تم نے بھی غلط روش اختیار کی تو تم بھی تباہی کو آواز دینے والے ہوگے۔ اقتدار بہت بڑا امتحان ہوتا ہے : اس لیے کہ اقتدار و اختیار عطا فرما کر اللہ کریم یہ امتحان لیتے ہیں کہ خلافت یعنی اللہ کریم کے حکم کے مطابق کام کرتا ہے یا اپنی پسند کو نافذ کرتا ہے اور حدیث پاک کے مطابق ہر شخص حکمران ہے کوئی بڑا کوئی چھوٹا کسی کا اقتدار ملک پر ہے تو کسی کا خاندان پر یا کم از کم اپنے وجود پر لہذا سب ہی اپنی حیثیت کے مطابق جوابدہ ہوں گے اور غلط کار عذاب الہی کی گرفت میں آجائیں گے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (127 تا 9 12 ) ۔ اتذر (کیا تو چھوڑتا ہے ؟ ) ۔ نستحی (ہم زندہ رکھیں گے) ۔ استعینوا (تم مدد مانگو ) ۔ یورت (مالک بناتا ہے ) ۔ اوذینا (ہمیں تکلیف دی گئی) ۔ یستخلف (نائب بنائے گا) ۔ تشریح : آیت نمبر ( 127 تا 129 ) ۔ ” اس پورے مضمون میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ فرعون نے جادو گر کو پ... ھانسی پر لٹکا نے اور ہر طرح کی سزا دینے کی دھمکی دی لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بظاہر اس نے کوئی دھمکی نہیں دی۔ شاید فرعون پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رعب اور ہیبت طاری ہوچکی تھی اسی وجہ سے فرعون کے درباریوں نے کہا کہ اے فرعون تو نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کو یوں ہی جھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ اگر ایسا ہوا تو وہ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل اور اس کے ماننے والے تو تباہی مچا دیں گے اور تیری حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ جھوٹا الزام لگانا ہمیشہ ظالموں کی فطرت رہی ہے ان کی زبان میں فساد کے معنی ہوں گے حکومت فرعون کے خلاف تبلیغ کرنا اور لوگوں کو راہ حق دکھانا۔۔۔۔ ۔ فرعون پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ایمان والوں کا اتنا رعب تھا کہ وہ ان کے خلاف براہ راست کوئی کاروائی کرنے پر راضی نہ ہوا۔ اس نے اتنا ہی کہا کہ میں اس کی قوم (نبی اسرائیل) میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو ذبح کردوں گا مار ڈالوں گا اور ہر پیدا ہونے والی لڑکی کو زندہ رکھوں گا تاکہ یہ قوم آہستہ آہستہ خود بخود ختم ہوجائے۔۔۔۔ ۔۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بنی اسرائیل میں کھلبلی مچ گیو وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکوہ اور واویلا کرنے لگے کہ ہم تو کہیں کے نہ رہے۔ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اے لوگو ! تم اللہ ہی سے مدد مانگو اور ڈٹے رہو۔ یہ ساری کی ساری زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس سر زمین کا وارث اور نگراں بنا دیتا ہے۔ اس اللہ نے اگر آج اپنی مصلحت سے تاج و تخت فرعون کو دے رکھا ہے۔ تو کل اس کے سر سے یہ تاج اتارنے میں دیر نہیں لگے گی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اب خواہ حاکم ہو یا محکوم جب تک اللہ سے ڈرتا رہے گا نتیجہ اس کے حق میں ہوگا ۔ دنیا کی مختصر زندگی میں کامیابی نہ ملی تو آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کی کامیابیاں ضرور نصیب ہوں گی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو نصیحت فرمائی کہ تم اس عر صہ میں دو کام کر (1) اللہ سے مدد کی دعائیں مانگو (2) دوسرے یہ کہ صبر و تحمل اور استقامت کے ساتھ اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔ استعانت اور استقامت یہ وہ عظیم جذبہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دیا تھا۔ یہ نسخہ کیمیا آج بھی اتنا ہی کارگر اور مفید ہے۔ مظلوم کے ہاتھ میں یہ سب سے مضبوط ہتھیار ہے جس کے سامنے کوئی ظالم اور کسی حکومت کا ظلم و ستم بہت عرصہ تک نہیں ٹھرتا۔۔۔۔ ۔۔ اگر غور کیا جائے تو ” دعا “ خود بہت تیز تلوار ہے اور پھر اس پر اللہ سے مدد مانگنا۔۔۔۔ ۔۔ اور جس کے ہاتھ میں مدد الہٰی آگئی اس کا مقابلہ کان کرسکتا ہے اب رہا صبر یعنی استقلال، بےخوفی، مسلسل کوشش اور باطل کے مقابلہ میں ڈٹ جانا۔ اس کے لئے اللہ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ پر ارشاد فرمایا ہے کہ ” میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” صبر ایسی نعمت ہے کہ اس سے وسیع تر نعمت کسی کو نہیں ملی (ابودائود) ۔۔۔۔ ۔۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں جہاں صبر و استقامت والے لوگ تھے وہیں کچھ لوگ وہ بھی تھے جنہوں نے بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ : ” اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم تو ہمیشہ ہی مصیبتوں میں گھرے رہے۔ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہم ہر طرح کی مصیبتیں اٹھاتے رہے اور آپ کے آنے کے بعد بھی وہی مصیبتیں ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سمجھایا کہ اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہیں گے حالات بدلیں گے۔ یہ دور مظلومیت بہت جلد بدلنے والا ہے کیونکہ ظالم کو بہت عرصے تک فروغ حاصل نہیں ہوتا۔ فرعون کا زوال قریب ہے اس کے بعد اس کی سلطنت تمہارے حوالے کی جائے گی لیکن وہ وقت اس وقت سے بھی زیادہ نازک ہوگا۔ بڑی ذمہ داری کا وقت ہوگا۔ جب ملک کی سلطنت تمہارے ہاتھ میں آئے گی تو یہ دیکھاجائے گا کہ تم اپنے اقتدار و اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہو اگرچہ اس آیت کا خطاب بنی اسرائیل کی طرف ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک اصول ہے جو تمام ظالموں اور مظلوموں کے درمیان قیامت تک قائم رہے گا۔ اللہ جس کا چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کو چھین لیتا ہے۔ سلطنت اور حکومت ایک سخت اور کڑا امتحان ہوتا ہے۔ ایک بات کی اور وضاحت ضروری ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا زمانہ تھا اس سقت فرعون کو بتایا گیا تھا کہ بنی اسرائیل سخت خطرہ ہیں، ان میں کوئی شخص پیدا ہوگا۔ جو تیری سلطنت کو تباہ کر کے رکھدے گا۔۔۔۔ اور ان آیات میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوچکے اور تبلیغ دین کے لئے فرعون کے دربار سے کامیاب لوٹے ہیں اس کے بعد فرعون نے جہاں اور اقدامات کئے ان میں لڑکوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو زندہ رکھنے کا بھی حکم دیا تھا۔۔۔۔ ۔ اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو صبر و تحمل کا درس دیا اور بتایا کہ بہت جلد فرعون اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور یہ سب کچھ بنی اسرائیل کو مل جائے گا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے ممکن ہے فرعون اور اس کی قوم کی مستقل پالیسی یہ رہی لو کہ لڑکوں کو قتل کیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت بھی ایسا ہوا ہو اور بعد میں پھر اس حکم کو زندہ کیا گیا ہو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ فساد یہ کہ اپنا مجمع بڑھا دیں جس کے اخیر میں اندیشہ بغاوت ہے۔ 7۔ یعنی ان کے معبود ہونے کے منکر رہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل ایمان کو دھمکیاں دینے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو قتل کرنے کی دھمکی۔ فرعون نے اہل ایمان کو اذیتیں دینے اور تختۂ دار پر لٹکانے کی دھمکی دی تھی اس کے ہم زبان ہو کر فرعون کے وزیروں، مشیروں، درباریوں اور سرکاری اہلکاروں نے اسے مزید اشتعال دلاتے ہوئے مطالب... ہ کیا، کیا موسیٰ اور اس کی قوم کو ملک میں بد امنی پھیلانے اور اپنی خدائی کا انکار اور بغاوت کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے گا ؟ اس پر اس نے پورے جاہ و جلال سے اعلان کیا کہ ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے بلکہ عنقریب ہم ان کے جوانوں کو تہہ تیغ کرتے ہوئے ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنائیں گے کیونکہ ہم ہر اعتبار سے ان پر جاہ و جلال اور اقتدار و اختیار رکھنے والے ہیں۔ ان کے خلاف پوری قوت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ سورة المومن (٢٦) میں فرعون کی اس دھمکی کا ذکر بھی موجود ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ میرے راستے سے ہٹ جاؤ کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردینا چاہتا ہوں اور میرے مقابلہ میں یہ اپنے رب کو بلا لائے۔ اگر میں نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل نہ کیا تو میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ تمہارے دین کو بدلنے کے ساتھ ملک اجاڑ دے گا۔ اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فقط اتنا فرمایا کہ میں متکبر اور قیامت کے حساب و کتاب کو جھٹلانے والے ہر شخص کے شر سے، اس رب کی پناہ مانگتا ہوں جو میرا اور تمہارا حقیقی رب ہے۔ ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ فرعون کے جبر و استبداد کے مقابلہ میں پورے صبر و استقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ زمین کا وارث اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے بنایا کرتا ہے حقیقی اور بہتر انجام مومنوں کے لیے ہی ہوا کرتا ہے۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم افسوس کرنے لگی کہ ہمیں آپ کی تشریف آوری سے پہلے اور آپ کے آنے کے بعد بھی تکلیفیں ہی اٹھانا پڑی ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں مزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہوسکتا ہے کہ عنقریب ہی تمہارا رب تمہارے دشمن کو تباہ و برباد کردے اور پھر تمہیں ملک میں خلافت عنایت کرے اور دیکھے تمہارا کردار کیا ہے۔ سورة یونس آیت ٨٤ تا ٨٥ میں تفصیل بیان کی گئی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ بھی فرمایا اگر تم صحیح معنوں میں مسلمان ہوئے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو۔ جس کے جواب میں ایماندار لوگوں نے کہا کہ ہم اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ظالموں کے ظلم سے نجات دے۔ قرآن مجید کے انداز بیان سے واضح ہو رہا ہے کہ فرعون نے جادو سے توبہ کرنے والے ایمانداروں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے بنی اسرائیل ہی کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ جادوگر پورے ملک سے لائے گئے تھے اور ان کا اپنے اپنے مقام پر لوگوں میں گہرا اثر و رسوخ تھا۔ اس کے پیش نظر فرعون اور اس کے درباریوں نے ان پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے مناسب سمجھا کہ پہلے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کو تہس نہس کیا جائے تاکہ بنیادی مسئلہ حل ہوجائے۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم یعنی بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کا یہ دوسرا دور شروع ہوا۔ اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے قبل بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے کی کئی سال تک مہم جاری رہی تھی۔ جسے اب دوبارہ پوری قوت کے ساتھ شروع کیا گیا۔ جس کا اندازہ قرآن کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ جبر و استبداد کی یہ مہم اتنی سخت تھی کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : (وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (سورۂ یونس، آیت : ٨٧) ” اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو وحی کی کہ اپنی قوم کو حکم دو کہ اپنے گھروں کو قبلہ رخ بناتے ہوئے نماز قائم کریں اور عنقریب مومنوں کے لیے خوشخبری ہوگی۔ “ مسائل ١۔ متکبر اور بےدین حکمران ہمیشہ سے انبیاء ( علیہ السلام) اور مصلحین کو فسادی قرار دیتے آئے ہیں۔ ٢۔ ظالم حکمران اور متکبر لوگ حق کا مقابلہ طاقت سے کیا کرتے ہیں۔ ٣۔ مشکل اور مصیبت کے وقت صبر و استقامت کے ساتھ اللہ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ ٤۔ صبر و استقامت اختیار کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن توحید باری تعالیٰ پر ایمان لانے والوں کا صبر و حوصلہ : ١۔ سخت آزمائش کے وقت رسولوں اور ایماندار لوگوں نے گھبرا کر کہا کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ (البقرۃ : ٢١٤) ٢۔ مومن پر اللہ کی طرف سے خوف، بھوک، مال و جان کے نقصان میں آزمائش ضرور آتی ہے۔ مومن صابر کے لیے خوشخبری ہے۔ (البقرۃ : ١٥٥) ٣۔ پہلے لوگوں کو بڑی بڑی آزمائشوں سے دو چار کیا گیا تاکہ پتہ چل جائے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون۔ (العنکبوت : ٣) اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کا جانشین بناتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے ان سے پہلے لوگوں کو بنایا۔ (النور : ٥٥) ٢۔ اللہ چاہے تو تمہیں اٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے خلیفہ بنائے۔ (الانعام : ١٣٣) ٣۔ تمہارا رب جلد ہی تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور ان کے بعد تم کو خلیفہ بنائے گا۔ (الاعراف : ١٢٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اس قصے کا مزید مطالعہ کیجئے۔ پردہ اٹھتا ہے اور ایک جدید اور دوسرا خوبصورت منظر ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس میں کفر کی پارلیمنٹ نظر آتی ہے۔ مشورہ اور نجوہ ہوتا ہے اور کسی سخت اقدام کے لیے ایک دوسرے کو جوش دلایا جاتا ہے۔ پہلے اور کھلے میدان کے معرکے میں کھلی کھلی شکست میں خفت اٹھائے ہوئے اعیان دول... ت بپھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے لیے یہ صورت حالات ناقابل برداشت ہے کہ موسیٰ اور ہارون اس طرح کامیاب و کامران ہوجاء یں۔ اور یہ ایمان لانے والے لوگ بھی مزے مزے سے ان کے ہمرکاب ہوں۔ حالانکہ حضرت موسیٰ پر ایمان لانے والوں میں چند کمزور لوگ شامل تھے اور وہ فرعون سے ہر وقت ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں فرعون ان کو فتنے میں نہ ڈال دے۔ جیسا کہ دوسرے مقامات پر قرآن نے تصریح کی ہے۔ یہ پارلیمنٹ سختی کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ یہ لوگ حضرت موسیٰ کے خلاف فرعون کو برانگیختہ کر رہے ہیں اور اسے ڈراتے ہیں کہ اگر اس کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا گیا تو نتائج خطرناک ہوں گے۔ حکومت کا رعب جاتا رہے گا۔ جدید خطرناک نظریات پھیل جائیں گے۔ لوگ فرعون کے بجائے اللہ کو رب العالمین سمجھیں گے۔ چناچہ وہ تیار ہوجاتا ہے اور اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ وہ فیصلہ کردیتا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف شدید ایکشن لے اور قوت کا استعمال کرے اور اخلاقی شکست کے بعد پوری مادی قوت استعمال کرے۔ مادی قوت کے مالکان ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ۭقَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَنَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ ۚ وَاِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ ۔ فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا " کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھیں ؟ " فرعون نے جواب دیا " میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے "۔ فرعون کا دعوی یہ نہ تھا کہ وہ اس کائنات کا الہ اور خالق اور اس کائنات کو وہ چلاتا ہے یا یہ کہ اسے اس کائنات کے طبیعی نظام پر قدرت حاصل ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو اپنی کمزور پبلک پر الہ اور رب سمجھتا تھا۔ اس معنی میں کہ وہ حاکم اور مقن ہے اور یہ کہ اس کا حکم اور ارادہ قانون ہیں اور ان پر عمل ہوتا ہے اور ہونا چاہیے اور تمام حکام اور بادشاہوں کا بھی یہی دعوی ہوتا ہے کہ ان کا قانون چلتا ہے اور ان کے حکم سے امور طے ہوتے رہیں اور یہی مفہوم ہے ربوبیت کا ازروئے لغت۔ مصر میں لوگ فرعون کی بندگی اس معنی میں نہ کرتے تھے کہ وہ فرعون کی نمازیں پڑھتے تھے یا فرعون کے روزے رکھتے تھے بلکہ ان کے اپنے الہ تھے جس طرح فرعون نے اپنے لیے الہ بنا رکھے تھے اور یہ لوگ ان الہوں کی بندگی بجا لاتے تھے اور اس حقیقت کا اظہار درباریوں کے اس قول سے بھی ہوتا ہے۔ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ " تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے ہیں " اور یہ حقیقت مصر کی فرعونی تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ فرعون کا الہ تھا۔ لہذا فرعون اس معنی میں ان کا رب اور الہ تھا کہ یہ لوگ اس کے اوامرو نواہی کے پابند تھے اور اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرسکتے تھے اور نہ اس کے کسی قانون کی خلاف ورزی کرسکتے تھے اور عبادت کا یہی لغوی ، حقیقی اور اصطلاحی مفہوم ہے بلکہ یہی واقعی مفہوم ہے جو شخص کسی انسان کے وضع کردہ قانون کی اطاعت کرے وہ گویا اس کی عبادت کر رہا ہے۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی تشریح فرمائی ہے۔ اتخذوا احبارہم ورھبانہم اربابا من دون اللہ کی تشریح کے بارے میں ایک صحابی عدی ابن حاتم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت تو نہ کرتے تھے ؟ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ احبارو رہبان ان کے لیے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرتے تھے اور یہ لوگ اس میں ان کی اطاعت کرتے تھے ، یہی تو ان کی جانب سے ان کی عبادت ہے۔ (ترمذی) رہی یہ بات جو اس نے کہا ما علمت لکم من الہ غیری۔ میرے علم میں تمہارے لیے میرے سوا کوئی الہ نہیں ہے ؟۔ تو اس کی تفسیر خود قرآن نے کردی ہے۔ قرآن نے فرعون کی زبانی یہ بات نقل کردی۔ (الیس لی ملک مصر و ھذہ الانھار تجری من تحتی افلا تبصرون۔ ام انا خیر من ھذا الذی ھو مھین ولا یکاد یبین۔ فلولا القی علیہ اسورۃ من ذھب او جاء معہ الملئکۃ مقترنین) " لوگو کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ؟ اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل و حقیر ہے اور اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کرسکتا ؟ کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی (معیت) میں نہ آیا "۔ ظاہر ہے کہ وہ اس میں اپنا اور حضرت موسیٰ کا موازنہ پیش کر رہا تھا۔ اس کے پاس کنگن نہیں ہیں اور میں نے کنگن پہنے ہوئے ہیں یعنی میں بادشاہ ہوں اور زیب وزینت کا مالک ہوں اور موسیٰ کے پاس یہ خوبی نہیں۔ لہذا اس کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ میرے سوا تمہارا کوئی حاکم نہیں ہے۔ میں ہی حاکم ہوں اور جس طرح چاہتا ہوں اس مملکت کو چلاتا ہوں اور لوگ میری بات سے سرتابی نہیں کرسکتے اور اس مفہوم میں حاکمیت الوہیت کے مترادف ہے۔ اور فی الحقیقت الوہیت کا مفہوم ہی یہی ہے۔ الہ ہوتا ہی وہ ہے جو لوگوں کے لیے قانون بناتا ہے۔ چاہے وہ الوہیت کا دعوی کرے یا نہ کرے۔ اس تفسیر کے مطابق ہم فرعون کے امراء کے اس قول کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں۔ وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ " فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا " کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھیں۔ ان لوگوں کے نقطہ نظر سے فساد فی الارض یہ ہے کہ انسان اللہ وحدہ کی ربوبیت اور حاکمیت کی طرف لوگوں کو بلائے ، کیونکہ جب کوئی اللہ رب العالمین کو الہ اور حاکم تسلیم کرتا ہے تو اس سے از خود تمام دوسرے نظاموں اور حاکموں کی نفی ہوجاتی ہے۔ کیونکہ فرعونی نظام حاکمیت غیر اللہ کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ نظام فرعون کی ربوبیت کے اصول پر قائم ہوتا ہے اور یہ شخص اللہ کی ربوبیت کا داعی ہوتا ہے۔ لہذا اب ہر شخص فرعونیوں کی نظروں میں مفسد فی الارض ہوتا ہے۔ وہ باغی اور انقلابی ہوتا ہے اور ملک کے موجودہ قائم حالات کے اندر اکھاڑ پچھاڑ چاہتا ہے۔ اور موجود مستحکم حالات کی جگہ نئے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ جن میں ربوبیت اور حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہو کسی انسان کو یہ حقوق حاصل نہ ہوں۔ لہذا ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ مفسدین فی الارض ہیں اور فرعون اور اس کے الہوں کی بندگی کو ترک کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل فرعون نے اپنے تمام حقوق اس دین سے اخذ کیے تھے جس کا وہ پیروکار تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ وہ ان الہوں کا محبوب بیٹا ہے اور باپ بیٹے کے جس تعلق کا وہ داعی تھا وہ کوئی حسی اور طبیعی تعلق نہ تھا ، کیونکہ لوگوں کو معلوم تھا کہ فرعون جس ماں باپ سے پیدا ہوا تھا وہ مصری باشندے تھے اور انسان تھے۔ یہ ایک اشاراتی اور رمزی ابنیت تھی جس کے ذریعے وہ اپنے لیھے وہ تمام حقوق حاصل کرتا تھا ، جو اس نے اپنے لیے مخصوص کر رکھے تھے۔ جب موسیٰ اور آپ کی قوم نے رب العالمین کی براہ راست بندگی شروع کردی اور فرعونی الہوں کو ترک کردیا جن کی عبادت مصری لوگ کرتے تھے ، تو اس فعل سے وہ نظریاتی اساس ہی ختم ہوجاتی تھی جس پر فرعون کی مملکت کی تعمیر ہوئی تھی۔ پھر وہ اپنے نظام مملکت میں اپنی قوم کو کچھ حیثیت بھی نہ دیتا تھا اور وہ لوگ بھی اس کی اطاعت کرتے تھے وہ اللہ کے دین سے خارج تھے اور فاسق تھے۔ دوسری جگہ میں ہے (فاستخف قومہ فاطاعوہ۔۔ انہم کانوا قوم فاسقین) " اس نے اپنی قوم کو ہلکا کردیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی۔۔۔ بیشک یہ لوگ فاسق تھے " یہ تاریخ کی صحیح تفسیر ہے۔ اگر فرعون کی قوم ہلکے لوگوں پر مشتمل نہ ہوتی اور فسق و فجور کی عادی نہ ہوتی تو ہر گز فرعون کی اطاعت نہ کرتی۔ اللہ پر جو شخص ایمان لے آتا ہے طاغوت اسے ہلکا نہیں سمجھ سکتا۔ اور نہ کوئی مومن طاغوت کی اطاعت کرسکتا ہے بشرطیکہ مومن یہ جانتا ہو کہ یہ معاملہ شریعت کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے فرعون اور تمام لوگوں کو رب العالمین کی طرف دعوت دینا ، پھر میدان مبارزت میں جادوگروں کو شکست دینا اور ان کا ایمان لے آنا اور اس کے بعد قوم موسیٰ کی طرف سے رب العالمین پر ایمان لانا اور رب واحد کی عبادت کرنا یہ سب امور ایسے تھے جو فرعون کے نظام حکومت کے لیے نہایت ہی خطرناک تھے اور جہاں بھی کوئی ایسا نظام قائم ہو جس میں انسان انسان کا غلام اور مطیع ہو اور ایسے نظام کے اندر کوئی صرف رب العالمین کی بندگی اور اطاعت کی دعوت شروع کردے تو یہ اس نظام کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شہادت لا الہ الا اللہ کی طرف دعوت دے اور یہ دعوت اس کلمہ کے حقیقی مفہوم کی طرف ہو کہ لوگ پورے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں اور یہ مفہوم نہ لیا جائے کہ جزوی طور پر مراسم عبودیت اللہ کے سامنے بجا لائیں تو یہ دعوت کسی بھی موجود نظام کفر کے لیے چیلنج ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرعون نے اس صورت حالات میں سخت الفاظ میں اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کا اعلان کردیا کیونکہ اس کا پورا نظام مملکت خطرے میں تھا۔ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَنَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ ۚ وَاِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ ۔ فرعون نے جواب دیا " میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے " حضرت موسیٰ کی پیدائش کے دور میں بھی بنی اسرائیل کے خلاف نسل کشی کی یہ پالیسی اختیار کی گئی تھی۔ فرعون اور اس کا نظام مملکت ان کے لڑکوں کو قتل کر رہا تھا۔ سورة قصص میں اس کی تفصیلات یوں دی گئی ہیں :۔ ان فرعون علا فی الارض و جعل اھلھا شیعا یستضعف طائفھ منہم یذبح ابناءہم و یستحیی نساءہم انہ کان من المفسدین " واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا ، اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقعہ وہ مفسد لوگوں میں سے تھا "۔ یہ سرکشی ہر دور میں رہتی ہے اور ہر جگہ رہتی ہے۔ آج بھی وہ یہی ذرائع و وسائل اختیار کرتی ہے اور صدیاں پہلے بھی اس کے یہی ذرائع تھے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قوم فرعون کے سرداروں نے فرعون کو بھڑکایا کہ تو موسیٰ اور ان کی قوم کو کب تک یوں ہی چھوڑے رہے گا فرعون نے جادو گروں کو دھمکی دی تھی اس کا علم تو درباریوں کو ہو ہی گیا تھا۔ لیکن ان لوگوں نے بطور خوشامد اور چاپلوسی کے فرعون کو ابھارا اور اس سے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو (جو اس کے ماننے والے ہیں...  خواہ بنی اسرائیل میں سے ہوں خواہ جادو گر ہوں خواہ وہ لوگ ہوں جو قوم فرعون میں سے مسلمان ہوگئے تھے) اسی طرح چھوڑے رکھے گا کہ وہ زمین میں فساد کرتے رہیں اور تجھ سے اور تیرے تجویز کیے ہوئے معبودوں سے علیحدہ رہیں ؟ مطلب ان لوگوں کا یہ تھا کہ اس کا کچھ انتظام کرنا چاہئے۔ ان لوگوں کے ساتھی بڑھتے رہیں گے اور ان کی جماعت زور پکڑ جائے گی جب سر سے پانی اونچا ہوجائے گا، بغاوت کو دبانا دشوار ہوجائے گا لہٰذا ابھی سے کچھ کرنا چاہئے۔ فرعون کی سمجھ میں اور تو کچھ نہ آیا اس نے وہی قتل کی سزا تجویز کرتے ہوئے کہا کہ ہم سر دست یہ کریں گے کہ ان کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کردیں گے اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دیں گے تاکہ ہماری خدمت میں لگی رہیں اور ان کے زندہ رہنے سے کچھ بغاوت کا کوئی ڈر نہیں۔ بعض اسرائیلی روایات میں ہے کہ جب جادو گر مسلمان ہوگئے تو انہیں دیکھ کر قوم قبط سے بھی چھ لاکھ آدمی مسلمان ہوگئے تھے جو فرعون کی قوم تھی۔ اس سے فرعون کو اور اس کے درباریوں کو فرعون کی حکومت کے بالکل ختم ہوجانے کا پورا اندازہ ہوچکا تھا۔ اس لیے آپس میں مذکورہ بالا سوال جواب ہوا۔ اخیر میں فرعون کی یہ جو بات ذکر فرمائی۔ (وَ اِنَّا فَوْقَھُمْ قٰھِرُوْنَ ) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ان لوگوں کی کچھ بات آگے بڑھی ہے لیکن ابھی ہم کو طاقت اور قوت کی برتری حاصل ہے ہم نے جو ان کے بیٹوں کے قتل کا فیصلہ کیا ہے واقعی ہم اس پر عمل کرسکتے ہیں۔ فرعون کے درباریوں نے جو یہ کہا (وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِھَتَکَ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے اگرچہ (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی) کا دعویٰ کیا تھا اور لوگوں سے اس نے یہ کہا تھا کہ (مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ) (کمافی سورة القصص) لیکن خود اس نے اپنے لیے معبود تجویز کر رکھے تھے جن کی عبادت کرتا تھا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس کا یہ اعتقاد تھا کہ ستارے عالم سفلی کے مربی ہیں اور وہ خود نوع انسان کا رب ہے۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کے لیے بت تجویز کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ ان بتوں کی عبادت کرو ممکن ہے کہ یہ اس کی اپنی مورتیاں ہوں۔ روح المعانی میں ہے کہ اس نے ستاروں کی ان مورتیوں کو الھتکَ سے تعبیر کیا کیونکہ یہ اس کے تجویز کردہ معبود تھے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

119:“ وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ الخ ” جب فرعون کے درباری امراء نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غلبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو فرعون سے کہنے لگے کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو آزاد چھوڑے رکھیں گے کہ وہ زمین میں فساد کرتے پھریں حالانکہ وہ آپ کو اور آپ کی مورتیوں کو بھی نہیں پوجتے۔ فرعون...  نے اپنے بت بنوا کر اپنی رعیت کو دے دئیے تھے تاکہ وہ ان کی پوجا کیا کریں یہاں “ اٰلِھَتَکَ ” سے یہی بت مراد ہیں (شاہ عبدالقادر) ۔ 120: فرعون نے جواب دیا کہ اب میں اپنے پرانے دستور کے مطابق بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑنا از سر نو شروع کردوں گا تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ ہمارا تشدد و غلبہ ان پر اب بھی باقی ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

127 اورفرعون کی قوم کے امراء اور سرداروں نے فرعون سے کہا کیا آپ موسیٰ (علیہ السلام) اور اس قوم کو یوں ہی چھوڑے رکھیں گے اور ان کی مفسدانہ حرکات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلاتے رہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) آپ کو اور آپ کے تجویز کردہ معبودوں کو نظرانداز کرتا رہے اور ان م... عبودوں کی توہین ہوتی رہے فرعون نے کہا۔ ہم عنقریب ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے۔ بلاشبہ ہم ان پر پوری طرح زور اور غلبہ رکھتے ہیں یعنی فرعون کے بت یہ تھے کہ اپنی صورت بنادیتا تھا لوگوں کو کہ اس کو پوجا کریں اور بیٹے مارنے اور بیٹیاں چھوڑنی پہلے بھی کرتا تھا درمیان میں چھوڑ دیا تھا اب پھر قصد کیا فرعون نے اپنی قوم کو مطمئن کرنے کی غرض سے قتل کی تجویز کو دوبارہ بروئے کار لانے کا ارادہ ظاہر کیا۔  Show more