Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 129

سورة الأعراف

قَالُوۡۤا اُوۡذِیۡنَا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَاۡتِیَنَا وَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جِئۡتَنَا ؕ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۹﴾٪  5

They said, "We have been harmed before you came to us and after you have come to us." He said, "Perhaps your Lord will destroy your enemy and grant you succession in the land and see how you will do."

قوم کے لوگ کہنے لگے کہ ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے آپ کی تشریف آوری سے قبل بھی اور آپ کی تشریف آوری کے بعد بھی موسیٰ ( علیہ السلام ) نے فرمایا کہ بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور بجائے ان کے تم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنا دے گا پھر تمہارا طرز عمل دیکھے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُواْ أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِينَا وَمِن بَعْدِ مَا جِيْتَنَا ... "Verily, the earth is Allah's. He gives it as a heritage to whom He wills of His servants; and the (blessed) end is for the pious and righteous persons." They said: "We suffered troubles before you came to us, and since you have come to us." The Children of Israel replied to Musa, `they (Fir`awn and his people) ... inflicted humiliation and disgrace on us, some you witnessed, both before and after you came to us, O Musa'! Musa replied, reminding them of their present situation and how it will change in the future, ... قَالَ عَسَى رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ ... "It may be that your Lord will destroy your enemy. .." encouraging them to appreciate Allah when the afflictions are removed and replaced by a bounty. ... وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الاَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ and make you successors on the earth, so that He may see how you act!"   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

129۔ 1 یہ اشارہ ہے ان مظالم کی طرف جو ولادت موسیٰ (علیہ السلام) سے قبل ان پر ہوتے رہے۔ 129۔ 2 جادوگروں کے واقعہ کے بعد ظلم و ستم کا یہ نیا دور جو موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد شروع ہوا۔ 129۔ 3 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا، زمین میں ت... مہیں اقتدار عطا فرمائے گا پھر تمہاری آزمائش کا نیا دور شروع ہوگا۔ ابھی تو تکلیفوں کے ذریعے سے آزمائے جا رہے ہو، پھر انعام و اکرام کی بارش کرکے اور اختیار اور اقتدار سے بہرہ مند کرکے تمہیں آزمایا جائے گا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٦] بنی اسرائیل پر مصائب & صبر کی تلقین اور وعدہ فتح ونصرت :۔ جب بنی اسرائیل کو دوبارہ ایسی سخت آزمائش میں ڈال دیا گیا وہ سخت پریشان ہوگئے اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کے طور پر کہنے لگے کہ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم پر یہی ظلم و ستم ہوتا رہا اور اب تم پر ایمان لانے کی بعد بھی ہم دوب... ارہ وہی ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کا ظلم توڑ کے رکھ دیتا ہے بس تم اللہ سے مدد مانگتے رہو عنقریب وہ تمہارے اس دشمن کو ہلاک کر کے تمہیں اس سرزمین میں حکومت عطا کرے گا پھر تمہاری ایک دوسرے انداز سے آزمائش ہوگی آج تمہاری آزمائش سختیوں اور مظالم سے ہو رہی ہے کہ تم صبر سے برداشت کرتے ہو یا نہیں پھر تمہیں حکومت عطا کر کے دیکھے گا کہ تم حاکم بن کر کیسے کام کرتے ہو۔ واضح رہے کہ جس دور میں یہ سورة نازل ہوئی اس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ایسے ہی مصائب و شدائد کے دور سے گزر رہے تھے اور بمصداق گفتہ آید در حدیث دیگراں، صحابہ کرام (رض) کو بھی صبر کی تلقین کی جا رہی ہے اور ان سے حکومت ملنے کا وعدہ فرمایا جا رہا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ ۔۔ : پہلے بھی ہمارے بچوں کو قتل کیا جاتا رہا ہے، ہم سے مشقت کے کام لیے جاتے رہے ہیں اور ہماری آزادی سلب رہی ہے، اب آپ کے آنے کے بعد بھی وہی غلامی اور مشقت ہے اور دوبارہ بچوں کے قتل کے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ : موسیٰ (علیہ السلام) نے بشا... رت دی کہ عن قریب تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کرکے تمہیں آزادی اور حکومت دینے والا ہے اور دیکھنے والا ہے کہ تم اس کا شکر کرتے اور احکام بجا لاتے ہو یا تم بھی ناشکری اور نافرمانی کرنے لگتے ہو ؟ معلوم ہوا کہ آزادی اور حکومت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ کفار کی غلامی پر راضی رہنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یہ کلام نقل فرمایا مسلمانوں کے سنانے کو، یہ سورت مکی ہے، اس وقت مسلمان بھی ایسے ہی مظلوم تھے، پھر بشارت پہنچی پردے میں۔ “ (موضح)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Israelites who seemed to have no conception of such matters could not understand how patience alone could free them from Pharaoh&s punishment and bring them success against him. They blamed the prophet Musa (علیہ السلام) saying: قَالُوا أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِيَنَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا We have been persecuted before you came to us as well as after you came to us.|" What the... y meant, perhaps, was that they were looking for a prophet to deliver them from the oppression of the Pharaoh, but their fate remained unchanged even after he came to them. The prophet Musa answered to them: عَسَىٰ رَ‌بُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ فَيَنظُرَ‌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ &It is likely that your Lord will destroy your enemy and make you successors in the earth that He may see how then, you act.& Sovereignty is a test The last phrase of the verse has provided with a wise observation that sovereignty or dominion is not in itself an aim or objective but a means to achieve the objective of making peace and justice prevail in the land. Sovereignty or dominion is a sacred trust bestowed upon by Allah for making good prevail over evil. The verse has warned them that, in case they are bestowed this trust, they should not forget the ill fate of those who were before them. Though the direct addressee of the verse are the Israelites, but indirectly the verse has thrown a warning to all those trusted with rule or dominion. Sovereignty or power, in fact, belongs to Allah alone. Allah has made man his deputy on the earth. He is the One who designates man with power and takes it away when He so wills. This is what the following verse means: تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ You give power to whom You please, and You strip off power from whom You please.|" (3:26) The power and rule, therefore, is a test for the rulers to see how far they have fulfilled their duty of establishing peace and justice and making good prevail over evil. Abu Hayyan in his Tafsir Al-Bahr-al Muhit has included the following event under the comments on this verse: ` Amr ibn ` Ubaid once visited Mansur, the second caliph of the Abbaside dynasty, prior to his designation to caliphate and recited this verse: &It is likely that Allah will destroy your enemy and make you successor in the earth.& This was a sort of prediction by ` Amr ibn ` Ubaid of his succession to the throne. Soon after Mansur succeeded to the throne and became the Caliph. ` Amr ibn ` Ubaid came to the Caliph again. Mansur reminded him of the prediction made by him. Amr ibn ` Ubaid instantly answered, |"Well, the first part of the prediction has come true and you have become the Caliph, but the second part of it still remains unful¬filled. The verse also contains this phrase, فَیَنظُرَ کَیفَ تَعمَلُون |"Then, He will see how you act.|" Amr ibn ` Ubaid suggested that gaining power is not a matter of pride because thereafter, Allah judges the acts of those in authority and sees how they make use of this trust.  Show more

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس حکیمانہ نصیحت اور اس پر مرتب ہونے والی فتح ونصرت کا اجمالی وعدہ کجروی کی خوگر بنی اسرائیل کی سمجھ میں کیا آتا، یہ سب کچھ سن کر بول اٹھے اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا، یعنی آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذائیں دی گئیں اور آپ کے آنے...  کے بعد بھی۔ مطلب یہ تھا کہ آپ کے آنے سے پہلے تو اس امید پر وقت گزارا جاسکتا تھا کہ کوئی پیغمبر ہماری گلو خلاصی کے لئے آئے گا، اب آپ کے آنے کے بعد بھی یہی ایزاؤں کا سلسلہ رہا تو ہم کیا کریں گے۔ اس لئے پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حقیقت امر کو واضح کرنے کے لئے فرمایا، عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ ، یعنی یہ بات دور نہیں کہ اگر تم نے ہماری نصیحت کو مانا تو بہت جلد تمہارا دشمن ہلاک و برباد ہوگا اور ملک پر تم کو قبضہ و اقتدار ملے گا، مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا، فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ، جس میں بتلا دیا کہ اس دنیا میں کسی زمین کی حکومت و سلطنت خود کوئی مقصد نہیں بلکہ زمین میں عدل و انصاف قائم کرنے اور اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی نیکی کو پھیلانے اور بدی کو روکنے کے لئے کسی انسان کو کسی ملک کی حکومت دی جاتی ہے، اس لئے جب تم کو ملک مصر پر اقتدار حاصل ہو تو ہوشیار رہو، ایسا نہ ہو کہ تم بھی حکومت و اقتدار کے نشہ میں اپنے سے پہلے لوگوں کے انجام کو بھلا بیٹھو۔ حکومت و سلطنت حکمران طبقہ کا امتحان ہے۔ اس آیت میں خطاب اگرچہ خاص بنی اسرائیل کو ہے لیکن اللہ تعالیٰ شانہ نے ہر حکمران طبقہ کو اس میں یہ تنبیہ فرمادی ہے کہ درحقیقت حکومت و سلطنت اللہ تعالیٰ کا حق ہے، انسان کو بحیثیت خلیفہ کے وہ ہی حکومت دیتا ہے اور جب چاہتا ہے چھین لیتا ہے، تُؤ ْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ کا یہی مطلب ہے۔ نیز یہ کہ جس کو کسی زمین پر حکومت عطا کی جاتی ہے وہ درحقیقت حکمران فرد یا حکمران جماعت کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ مقصد حکومت یعنی قیام عدل و انصاف اور اقامتہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو کس حد تک پورا کرتا ہے تفسیر بحر محیط میں اس جگہ نقل کیا ہے کہ بنی عباس کے دوسرے خلیفہ منصور کے پاس خلافت ملنے سے پہلے ایک روز عمرو بن عبید آپہنچے تو یہ آیت پڑھی عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ ، جس میں ان کے لئے خلافت ملنے کی بشارت تھی، اتفاقا اس کے بعد منصور خلیفہ بن گئے اور پھر عمرو بن عبید ان کے ہاں پہنچے تو منصور نے ان کی پشین گوئی جو آیت مذکورہ کے تحت اس سے پہلے فرمائی تھی یاد دلائی تو عمرو بن عبید نے خوب جواب دیا کہ ہاں خلیفہ ہونے کی پیشین گوئی تو پوری ہوگئی مگر ایک چیز باقی ہے یعنی فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ، مطلب یہ تھا کہ ملک کا خلیفہ و امیر بن جانا کوئی فخر ومسرت کی چیز نہیں کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خلافت و حکومت میں اس کا رویہ کیا اور کیسا رہا، اب اس کے دیکھنے کا وقت ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا۝ ٠ ۭ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّہْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ۝ ١٢٩ ۧ أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ،...  قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ خلف والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر/ 39] ، ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٩) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے وہ لوگ کہنے لگے ہماری اولاد کو فرعون قتل کرتا رہا اور ہماری عورتوں سے خدمت لیتا رہا ہے اور آپ کی رسالت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بہت جلد اللہ تعالیٰ فرعون اور اس کی قوم کو قحط سالی اور بھوک کی سختی سے ہلاک کردے گا اور تم ہی کو م... صر کی سرزمین کا مالک بنادے گا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٩ (قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِءْتَنَا ط) ۔ ان الفاظ سے اس مظلوم قوم کی بےبسی اور بےچارگی ٹپک رہی ہے ‘ کہ پہلے بھی ہمارا یہی حال تھا کہ ہم بدترین ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے ‘ اور اب آپ ( علیہ السلام) کے آنے کے بعد بھی ہمارے حالات میں کوئی تبدیلی...  نہیں آسکی۔ (قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ) یہ آیت مسلمانان پاکستان کے لیے بھی خاص طور پر لمحۂ فکریہ ہے۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمان بھی غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ متحدہ ہندوستان اگر ایک وحدت کی حیثیت سے آزاد ہوا تو کثرت آبادی کی وجہ سے ہندو ہمیشہ ہم پر غالب رہیں گے ‘ کیونکہ جدید دنیا کا جمہوری اصول one man one vote ہے۔ اس طرح ہندو ہمیں دبا لیں گے ‘ ہمارا استحاصل کریں گے ‘ ہمارے دین و مذہب ‘ تہذیب و تمدن ‘ سیاست و معیشت اور زبان و معاشرت ہرچیز کو برباد کردیں گے۔ چناچہ انہوں نے ایک الگ آزاد وطن حاصل کرنے کے لیے تحریک چلائی۔ اس تحریک کا نعرہ یہی تھا کہ مسلمان قوم کو اپنے دین و مذہب ‘ ثقافت اور معاشرت وغیرہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ اس تحریک میں اللہ نے انہیں کامیابی دی اور انہیں ایک آزاد خود مختار ملک کا مالک بنا دیا۔ ابھی اس حوالے سے اس آیت کا دوبارہ مطالعہ کیجیے : (وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ 4) کہ وہ تمہیں زمین میں طاقت اور اقتدار عطاکرے گا اور پھر دیکھے گا کہ تم لوگ کیسا طرز عمل اختیار کرتے ہو ! اس ملک میں اللہ کی حکومت قائم کر کے دین کو غالب کرتے ہو یا اپنی مرضی کی حکومت قائم کر کے اپنی خواہشات کے مطابق نظام چلاتے ہو۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:129) اوذینا۔ ہم کو ستایا گیا۔ ہم کو سزا دی گئی۔ ایذاء (افعال) ماضی مجہول جمع متکلم ۔ اذی ماضی معروف۔ اوذی۔ ماضی مجہول۔ اذی مادہ۔ فینظر۔ مضارع واحد مذکر غائب (باب نصر) کہ وہ دیکھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اس کا شکر کرتے ہو اور اس کے احکام بجالاتے ہو یا تم بھی باشکری ونافر مانی کرنے لگتے ہو ِ ؟ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ کلام نقل فرمایا مسلمانو کو سنانے کو یہ سورت مکی ہے اس وقت مسلمان بھی ایسے ہی مظلوم تھے پھر بشارت پہنچی پردے میں (مو ضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کہ شکروقدر و اطاعت کرتے ہو یا بےقدری اور غفلت و معصیت اس میں ترغیب ہے طاعت کی اور تحذیر ہے معصیت سے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا) اس کی قوم کے لوگوں نے کہا " تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں " ان الفاظ کے پیچھے ایک خاص ذہنیت ہے ، ان کے اندر قطعیت کے ساتھ ان کی مایوسی کا اظہار ہے۔ کہتے ہیں کہ تیرے آنے...  سے پہلے بھی ہم پر مظالم ہوتے رہے اور آپ کے آنے کے بعد بھی جاری ہیں۔ ان کے تسلسل میں کوئی فرق نہیں آرہا ہے۔ یہ ختم ہوتے نظر نہیں آتے۔ لیکن نبی اپنی نہج اور ڈگر پر جاری رہتا ہے۔ وہ انہیں مشورہ دیتا ہے کہ ذکر الہی میں مشغول ہوں ، پر امید رہیں ، نبی انہیں اشارہ بھی دیتے ہیں کہ دشمن ضرور ہلاک ہوگا اور تمہیں مقام خلافت فی الارض ضرور نصیب ہوگا لیکن نبی اپنی نہج اور ڈگر پر جاری رہتا ہے۔ وہ انہیں مشورہ دیتا ہے کہ ذکر الہی میں مشغول ہوں ، پر امید رہیں ، نبی انہیں اشارہ بھی دیتے ہیں کہ دشمن ضرور ہلاک ہوگا اور تمہیں مقام خلافت فی الارض ضرور نصیب ہوگا لیکن جسے یہ مقام ملتا ہے وہ در اصل بڑی آزمائش میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ۔ اس نے جواب دیا۔ قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے ، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ حضرت موسیٰ نبوت کے دل و دماغ اور بصیرت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں ، آپ سنت الہیہ کو مٹآ مٹآ دیکھ رہے ہیں۔ یہ سنت حسب وعدہ صابرین کے حق میں فیصلہ کرتی ہے ، اسی طرح منکرین حق کے لیے بھی اس کے فیصلے وقت پر ہوتے ہیں۔ آپ کو صاف صاف نظر آتا ہے کہ طاغوتی طاقتوں نے تباہ و برباد ہونا ہے اور ان کی جگہ صابرین و مجاہدین نے لینی ہے ، لہذا آپ اپنی قوم کو راہ مصابرت پر آگے بڑھاتے ہیں تاکہ سنت الہیہ ان کے حق میں فیصلے کردے۔ آپ کو تو آغاز ہی سے معلوم ہے کہ بنی اسراء یل کو زمین کا وارث بنانا ان کے لیے یہ آزمائش ہے۔ یہ نہیں کہ وہ اللہ کے چہیتے ہیں اور محبوب ہیں ، جیسا کہ بعض بنی اسرائیل کو زمین کا وارث بنانا ان کے لیے آزمائش ہے۔ یہ نہیں کہ وہ اللہ کے چہیتے ہیں اور محبوب ہیں ، جیسا کہ بعض بنی اسرائیل اپنے بارے میں زعم رکھتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے ان کے گناہوں کی وجہ سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا ، اس لیے کہ یہ دنیا یونہی بےمقصد بھی نہیں بنائی گئی اور نہ یہ ازلی اور ابدی ہے بلکہ یہاں ہر قوم کا عروج انسان کے لیے ہے۔ فینظر کیف تعملون۔ تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟ اللہ تو کسی چیز کے واقعہ ہونے سے بھی پہلے جانتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی جانب سے ارتکاب جرم سے پہلے سزا نہیں دیتا۔ جب تک کہ وہ بات ان سے واقعہ نہیں ہوجاتی جس کا اللہ کو پہلے سے عالم الغیب ہونے کی حیثیت سے علم ہوتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

122: قوم نے مایوسانہ انداز میں کہا اے موسیٰ ! تیری آمد سے پہلے بھی ہم تکلیفوں میں مبتلا کئے جاتے تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا وہی حال ہے۔ یعنی تیرے آنے سے ہماری تکلیفوں کا کچھ مداوا نہیں ہوا۔ “ قَالَ عَسٰی الخ ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جلدی نہ کرو، صبر سے کام لو، ایک وقت آئے گا جب ال... لہ تمہارے دشمنوں کو تباہ و برباد کر کے ان کی پستیوں پر تمہیں قابض بنا دے گا۔ پھر پتہ چل جائے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو آیا اللہ کے انعامات بےپایاں کا شکر ادا کرتے ہو اور اس کے احکام بجا لاتے ہو یا اس کی ناشکری اور نافرمانی کرتے ہو۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

129 بنی اسرائیل نے پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے آپ کی تشریف آوری سے قبل بھی ستائے جاتے رہے اور آپ کی تشریف آوری کے بعد بھی ہمارے ساتھ وہی سلوک ہورہا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ وقت قریب ہے تمہارا رب بہت جلد تمہارے دشمن...  کو ہلاک کردے اور اس کی جگہ تم کو اس ملک کا مالک بنادے پھر وہ دیکھے کہ تم کیا کرتے ہو اور تمہارا طرز عمل کیا ہوتا ہے یعنی یہ کلام نقل فرمایا مسلمانوں کے سنانے کو یہ سورت مکی ہے اس وقت مسلمان بھی ایسے ہی مظلوم تھے یہ بشارت پہنچی پردے میں۔ مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل فرعون کے مظالم سے بہت تنگ تھے وہ بنی اسرائیل سے بیگار لیتا تھا اور ان کے بچوں کو قتل کرتا تھا اور مختلف قسم سے ان کو سزائیں دیتا تھا بچوں کے قتل کی پھر دوسری تجویزکا اعلان کردیا تھا انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکوہ کیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے امید دلائی کہ تمہارے دشمن کا ظلم حد کو پہنچ گیا اب خدا کی مدد آنے ہی والی ہے یہاں انقلاب ہوجائے گا تم مصر کے حاکم ہوجائوگے اس انقلاب میں بھی تمہارا امتحان ہوگا تاکہ تمہارا طرز عمل دیکھا جائے اور تم آسمانی قانون کے موافق حکومت کرتے ہو یا سوسائٹی کے قانون پر عمل کرکے محکوموں کو پریشان کرتے ہو۔  Show more