Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 138

سورة الأعراف

وَ جٰوَزۡنَا بِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡبَحۡرَ فَاَتَوۡا عَلٰی قَوۡمٍ یَّعۡکُفُوۡنَ عَلٰۤی اَصۡنَامٍ لَّہُمۡ ۚ قَالُوۡا یٰمُوۡسَی اجۡعَلۡ لَّنَاۤ اِلٰـہًا کَمَا لَہُمۡ اٰلِـہَۃٌ ؕ قَالَ اِنَّکُمۡ قَوۡمٌ تَجۡہَلُوۡنَ ﴿۱۳۸﴾

And We took the Children of Israel across the sea; then they came upon a people intent in devotion to [some] idols of theirs. They said, "O Moses, make for us a god just as they have gods." He said, "Indeed, you are a people behaving ignorantly.

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا ۔ پس ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں سے لگے بیٹھے تھے ، کہنے لگے اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے! جیسے ان کے یہ معبود ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Children of Israel safely cross the Sea, but still held on to the Idea of Idol Worshipping Allah tells; وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَايِيلَ الْبَحْرَ ... And We brought the Children of Israel (with safety) across the sea, Allah mentions the words that the ignorant ones among the Children of Israel uttered to Musa after they crossed the sea and witnessed Allah's Ayat and great power. ... فَأَتَوْاْ عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَّهُمْ ... And they came upon a people devoted to some of their idols (in worship). Some scholars of Tafsir said that the people mentioned here were from Canaan, or from the tribe of Lakhm. Ibn Jarir commented, "They were worshipping idols that they made in the shape of cows, and this influenced the Children of Israel later when they worshipped the calf." They said here, ... قَالُواْ يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَـهًا كَمَا لَهُمْ الِهَةٌ ... They said: "O Musa! Make for us a god as they have gods." ... قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ He said: "Verily, you are an ignorant people." Musa replied, you are ignorant of Allah's greatness and majesty and His purity from any partners or anything resembling Him.

شوق بت پرستی اتنی ساری اللہ کی قدرت کی نشانیاں بنی اسرائیل دیکھ چکے لیکن دریا پار اترتے ہی بت پرستوں کے ایک گروہ کو اپنے بتوں کے آس پاس اعتکاف میں بیٹھے دیکھتے ہی حضرت موسیٰ سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے بھی کوئی چیز مقرر کر دیجئے تاکہ ہم بھی اس کی عبادت کریں جیسے کہ ان کے معبود ان کے سامنے ہیں ۔ یہ کافر لوگ کنعانی تھے ایک قول ہے کہ لحم قبیلہ کے تھے یہ گائے کی شکل بنائے ہوئے اس کی پوجا کر رہے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسکے جواب میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال سے محض ناواقف ہو ۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ شریک و مثیل سے پاک اور بلند تر ہے ۔ یہ لوگ جس کام میں مبتلا ہیں وہ تباہ کن ہے اور ان کا عمل باطل ہے ۔ ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے شریف سے حنین کو روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں بیری کا وہ درخت ملا جہاں مشرکین مجاور بن کر بیٹھا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار وہاں لٹکایا کرتے تھے اس کا نام ذات انواط تھا تو صحابہ نے حضور سے عرض کیا کہ ایک ذات انواط ہمارے لئے بھی مقرر کر دیں ۔ آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری ذات ہے کہ تم نے قوم موسیٰ جیسی بات کہدی کہ ہمارے لئے بھی معبود مقرر کر دیجئے جیسا ان کا معبود ہے ۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ نے فرمایا تم جاہل لوگ ہو یہ لوگ جس شغل میں ہیں وہ ہلاکت خیز ہے اور جس کام میں ہیں وہ باطل ہے ( ابن جریر ) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ یہ درخواست کرنے والے حضرت ابو واقد لیثی تھے جواب سے پہلے یہ سوال سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ اکبر کہنا بھی مروی ہے اور یہ بھی کہ آپ نے فرمایا کہ تم بھی اپنے اگلوں کی سی چال چلنے لگے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

138۔ 1 اس سے بڑی جہالت اور نادانی کیا ہوگی کہ جس اللہ نے انہیں فرعون جیسے دشمن سے نہ صرف نجات دی، بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے اسے اس کے لشکر سمیت غرق کردیا اور معجزانہ طر یقہ سے دریا عبور کروا دیا۔ وہ دریا پار کرتے ہی اس اللہ کو بھول کر پتھر کے خود تراشیدہ معبود تلاش کرنے لگ گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ بت گائے کی شکل کے تھے جو پتھر کی بنی ہوئی تھیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٤] گؤسالہ پرستی کی استدعا :۔ بنی اسرائیل اگرچہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے اور اپنے موحد ہونے کا اقرار بھی کرتے تھے تاہم اس کے اندر گؤسالہ پرستی کے جراثیم ہنوز باقی تھے جس میں انہوں نے اپنی عمریں گزار دی تھیں۔ سمندر پار کرتے ہی انہوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ بچھڑے کا ایک پیتل کا بنا ہوا بت عبادت خانہ میں اپنے سامنے رکھ کر اس کی پوجا پاٹ میں مشغول تھے انہیں دیکھ کر بنی اسرائیل کو اپنی پرانی یاد تازہ ہوگئی اور گؤ سالہ پرستی کے لیے جی للچا آیا حتیٰ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بات کہہ بھی دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں کہا کہ یہ تم کیسی جہالت کی باتیں کر رہے ہو ؟ ابھی تک یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آسکی کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے۔ پیکر محسوس اور تصور شیخ کی علّت اور ذات انواط :۔ بت پرست لوگ عموماً یہ کہا کرتے ہیں کہ ہم ان بتوں کی پوجا نہیں کرتے بلکہ اللہ ہی کی پوجا کرتے ہیں مگر چونکہ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ وہ ایک محسوس چیز کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے اس لیے کسی بت کو سامنے رکھنے سے ہم اللہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور مسلمان کسی کا بت تو سامنے نہیں رکھتے مگر اپنے شیخ کا تصور یا تصویر اس طرح اپنے ذہن میں پختہ کرتے ہیں کہ اس کا تصور یا تصویر آنکھوں کے سامنے رہے اور کہتے ہیں کہ عبادت ہم اللہ ہی کی کرتے ہیں ایسی سب باتیں شرک ہی کا پیش خیمہ ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی ہر بات سے منع فرما دیا ہے جس میں شرک کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہو چناچہ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی لڑائی میں تشریف لے گئے وہاں مسلمانوں نے ایک بیری کا درخت دیکھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خواہش ظاہر کی کہ جس طرح کافروں نے ایک درخت مقرر کر رکھا ہے جس پر وہ اپنے کپڑے اور ہتھیار لٹکاتے اور اس کے گرد جمے رہتے ہیں اور اسے ذات انواط کہتے ہیں اسی طرح آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئے۔ آپ نے فرمایا یہ تو وہی مثال ہوئی جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ ہمیں بھی ایک بت بنا دیجئے جس طرح ان لوگوں کے بت ہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب الفتن۔ باب لترکبن سنن من کان قبلکم )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After the miraculous victory of the Israelites over Pharaoh and his people, and having a life of ease and comfort, they started to show the signs of ignorance as people of wealth show when given a life of luxury and opulence. The first impertinent request they made was to the prophet Musa (علیہ السلام) to make for them a god like the gods of the people they saw being worshipped on their way. They (the Israelites) said, يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَـٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ |"0 Musa make a god for us like their gods.|" He said, قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ |"You are really an ignorant people.|" The prophet Musa (علیہ السلام) was greatly annoyed by their ignorance and said that the labour of worship of those people was to go waste. How could he think of making for them a god other than Allah while he had given to them excellence over the people of all the worlds. That is, the people who believed in the prophet Musa (علیہ السلام) were superior to all the people of that age. The next verses remind them of their pitiable condition and their persecutions at the hands of Pharaoh when their sons were killed and their daughters were saved to serve them as their maid-servants. Allah relieved them of this disgraceful chastisement through His prophet. Shall they be as ungrateful to their Lord as to take the abject stones as gods and make them partners with Allah? They must repent to Allah for their transgression.

وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ ، یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا، بنی اسرائیل کو قوم فرعون کے مقابلہ میں معجزانہ کامیابی حاصل ہوئی اور اطمینان ملا تو اس کا وہی اثر ہوا جو عام قوموں پر عیش و عشرت اور عزت و دولت کا ہوا کرتا ہے کہ ان میں جاہلا نہ چیزیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ یہ قوم ابھی ابھی اعجاز موسوی کے ساتھ دریا سے پار ہوئی اور پوری قوم فرعون کے غرق دریا ہونے کا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ذرا آگے بڑھی تو ایک قبیلہ پر گزر ہوا جو مختلف بتوں کی پرستش میں مبتلا تھا، بنی اسرائیل کو کچھ ان کا ہی طریقہ پسند آنے لگ موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ جیسے ان لوگوں کے بہت سے معبود ہیں آپ ہمارے بھی کوئی ایسا ہی معبود بنا دیجئے کہ ہم بھی ایک محسوس چیز کو سامنے رکھ کر عبادت کیا کریں) اللہ تعالیٰ کی ذات تو سامنے نہیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا، اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ ، یعنی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے، یہ لوگ جن کے طریقہ کو تم نے پسند کیا ان کے اعمال سب ضائع و برباد ہیں یہ باطل کے پیرو ہیں تمہیں ان کی حرص نہ کرنا چاہئے، کیا میں تمہارے لئے اللہ کے سوا کسی کو معبود بنادوں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہی تم کو تمام جہاں والوں پر فضیلت بخشی ہے، مراد اس وقت کے اہل عالم ہیں کہ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے ہی دوسرے سب لوگوں سے افضل واعلی تھے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو ان کی پچھلی حالت یاد دلائی گئی کہ وہ فرعون کے ہاتھوں میں ایسے مجبور و مقہور تھے کہ ان کے لڑکوں کو قتل کیا جاتا تھا صرف لڑکیاں اپنی خدمت کے لئے رکھی جاتی تھیں، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی برکت ودعاء سے اس عذاب سے نجات دی کیا اس احسان کا اثر یہ ہونا چاہئے کہ تم اسی رب العالمین کے ساتھ دنیا کے ذلیل ترین پتھروں کو شریک ٹھہراؤ، یہ کیسا ظلم عظیم ہے، اس سے توبہ کرو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰي قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰٓي اَصْنَامٍ لَّہُمْ۝ ٠ ۚ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰـہًا كَـمَا لَہُمْ اٰلِہَۃٌ۝ ٠ ۭ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـہَلُوْنَ۝ ١٣٨ جاوز قال تعالی: فَلَمَّا جاوَزَهُ هُوَ [ البقرة/ 249] ، أي : تجاوز جوزه، وقال : وَجاوَزْنا بِبَنِي إِسْرائِيلَ الْبَحْرَ [ الأعراف/ 138] ، وجَوْزُ الطریق : وسطه، وجاز الشیء كأنه لزم جوز الطریق، وذلک عبارة عمّا يسوغ، وجَوْزُ السماء : وسطها، والجوزاء قيل : سمیت بذلک لاعتراضها في جوز السماء، وشاة جوزاء أي : ابیضّ وسطها، وجُزْتُ المکان : ذهبت فيه، وأَجَزْتُهُ : أنفذته وخلّفته، وقیل : استجزت فلانا فأجازني : إذا استسقیته فسقاک، وذلک استعارة، والمَجَاز من الکلام ما تجاوز موضعه الذي وضع له، والحقیقة ما لم يتجاوز ذلك . ( ج و ز ) جو ز اطریق کے معنی راستہ کے وسط کے ہیں اسی سے جازاشئیء ہے جو کسی چیز کے جائز یا خوشگوار ہونے کی ایک تعبیر ہے گو یا ۔ اس نے وسط طریق کو لازم پکرا ۔ جو اسماء وسط آسمان ۔ الجوزاء آسمان کے ایک برج کا نام ہے کیونکہ وہ بھی وسط آسمان میں ہے سیاہ بھیڑ جس کے وسط میں سفیدی ہو ۔ ( جاوزہ کسی چیز کے وسط میں سفیدی ہو ۔ ( جاوزہ کسی چیز کے وسط سے آگے گزر جانا ؟ قرآن میں ہے فَلَمَّا جاوَزَهُ هُوَ [ البقرة/ 249] پھر جب وہ حضرت طالوت ) اس دریا کے وسط سی آگے گزر گئے یعنی پار ہوگئے ۔ وَجاوَزْنا بِبَنِي إِسْرائِيلَ الْبَحْرَ [ الأعراف/ 138] اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا ۔ جزت المکان کسی جگہ میں گزرنا ۔ اجزتہ میں نے اسے نافذ کردیا اس کو پیچھے چھوڑدیا ۔ ( میں نے اس سے ( جانوروں یا کھیتی کے لئے ) پانی طلب کیا چناچہ اس نے مجھے دے دیا ۔ یہ بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور کسی لفظ کا حقیقی معنی وہ ہوتا ہے جو اپنے وضعی معنی میں استعمال ہو اور اس سے تجاوز نہ کرے ورنہ اسے مجازا کہتے ہیں ) بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ عكف العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج/ 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة/ 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء/ 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف/ 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه/ 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة/ 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] ، أي : محبوسا ممنوعا . ( ع ک ف ) العکوف کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة/ 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج/ 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة/ 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء/ 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف/ 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه/ 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔ صنم الصَّنَمُ : جُثَّةٌ متّخذة من فضّة، أو نحاس، أو خشب، کانوا يعبدونها متقرّبين به إلى اللہ تعالی، وجمعه : أَصْنَامٌ. قال اللہ تعالی: أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام/ 74] ، لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء/ 57] ، قال بعض الحکماء : كلّ ما عبد من دون الله، بل کلّ ما يشغل عن اللہ تعالیٰ يقال له : صَنَمٌ ، وعلی هذا الوجه قال إبراهيم صلوات اللہ عليه : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] ، فمعلوم أنّ إبراهيم مع تحقّقه بمعرفة اللہ تعالی، واطّلاعه علی حکمته لم يكن ممّن يخاف أن يعود إلى عبادة تلک الجثث التي کانوا يعبدونها، فكأنّه قال : اجنبني عن الاشتغال بما يصرفني عنك . ( ص ن م ) الصنم کے معنی بت کے ہیں جو کہ چاندی پیتل یا لکڑی وغیرہ کا بنا ہوا ہو ۔ عرب لوگ ان چیزوں کے مجم سے بناکر ( ان کی پوچا کرتے اور انہیں تقرب الہیٰ کا ذریعہ سمجھتے تھے صنم کی جمع اصنام آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام/ 74] کہ تم بتوں کو کیوں معبود بناتے ہو۔ لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء/ 57] میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلو نگا ۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جسے خدا کے سوا پوجا جائے بلکہ ہر وہ چیز جو انسان کو خدا تعالیٰ سے بیگانہ بنادے اور اس کی توجہ کو کسی دوسری جانب منعطف کردے صنم کہلاتی ہے چناچہ ابراہیم اعلیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] بازرکھنا کہ ہم اصنام کی پرستش اختیار کریں ۔ تو اس سے بھی واپسی چیزوں کی پرستش مراد ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معرفت الہی کے تحقق اور اسکی حکمت پر مطلع ہونے کے بعد یہ اندیشہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اور ان کی اولاد بت پرستی شروع کردے گی ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ جهل الجهل علی ثلاثة أضرب : - الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام . - والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه . - والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ج ھ ل ) الجھل ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔ ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٨ (وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ الْبَحْرَ ) بنی اسرائیل خلیج سویز کو عبور کر کے جزیرہ نمائے سینا میں داخل ہوئے تھے۔ (فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْکُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّہُمْ ج) ۔ بتوں کا اعتکاف کرنے سے مراد بتوں کے سامنے پوری توجہ اور یکسوئی سے بیٹھنا ہے جو بت پرستوں کا طریقہ ہے۔ بت پرستی کے اس فلسفے پر ڈاکٹر رادھا کرشنن (١٨٨٨ ء تا ١٩٧٥ ء) نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن ساٹھ کی دہائی میں ہندوستان کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے اپنی تصنیفات کے ذریعے ہندوستان کے فلسفے کو زندہ کیا۔ یہ برٹرینڈرسل (١٨٧٢ ء تا ١٩٧٠ ء) کے ہم عصر تھے اور یہ دونوں اپنے زمانے میں چوٹی کے فلسفی تھے۔ برٹرینڈ رسل ملحد تھا جبکہ ڈاکٹر رادھا کرشنن مذہبی تھا۔ اتفاق سے ان دونوں نے کم و بیش 90 سال کی عمر پائی۔ بت پرستی کے بارے میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جو کسی دیوی یا دیوتا کے نام کے بت بناتے ہیں تو ہم ان بتوں کو اپنے نفع یا نقصان کا مالک نہیں سمجھتے ‘ بلکہ ہمارا اصل مقصد ایک مجسم چیز کے ذریعے سے توجہ مرکوز کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ تصوراتی انداز میں ان دیوتاؤں کے بارے میں مراقبہ کرنا اور پوری توجہ کے ساتھ ان کی طرف دھیان کرنا بہت مشکل ہے ‘ جبکہ مجسمہ یا تصویر سامنے رکھ کر توجہ مرکوز کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسی انسانی کمزوری کو علامہ اقبال نے اپنی نظم شکوہ میں اس طرح بیان کیا ہے ؂ خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر ! بہر حال بنی اسرائیل نے اس بت پرست قوم کو اپنے بتوں کی عبادت میں مشغول پایا تو ان کا جی بھی للچانے لگا اور انہیں ایک مصنوعی خدا کی ضرورت محسوس ہوئی۔ (قَالُوْا یٰمُوْسَی اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰہًا کَمَا لَہُمْ اٰلِہَۃٌ ط) ۔ اس قوم کی حالت دیکھ کر بنی اسرائیل کا بھی جی چاہا کہ ہمارے لیے بھی کوئی اس طرح کا معبود ہو جس کو سامنے رکھ کر ہم اس کی پوجا کریں۔ چناچہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اپنی اسی خواہش کا اظہار کر ہی دیا۔ جواب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سخت ڈانٹ پلائی : (قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ ) تم کتنی بڑی نادانی اور جہالت کی بات کر رہے ہو !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

98. The point at which the Israelites probably crossed the Red Sea lies somewhere between the present Suez and Ismailia. After that they headed towards the south of the Sinai peninsula along the coastal route. The western and northern regions of the Sinai peninsula were then included in the Egyptian empire. In the southern part of the peninsula, in the area lying between the present towns of Tur and Abu Zanimah, there were copper and turquoise mines. Since these were of immense value to the Egyptians, a number of garrisons had been set up to ensure their security'. One such garrison was located at a place known as Mafqah, which also housed a big temple. The ruins of this temple can still be found in the south-western part of the peninsula. In its vicinity there was an ancient temple, dedicated to the moon-god of the Semites. Passing by these places the people of Israel, who had been subservient to the Egyptians for a long time and were thus considerably Egyptianized in their outlook, felt the desire to indulge in idol-worship. The extent to which the Israelites had become degenerated as a result of their slavery may be gauged by Joshua's last address to the Israelites delivered seventy years after their exodus from Epypt: Now therefore fear the Lord, and serve him in sincerity and in faithfulness; put away the gods which your fathers served beyond the River, and in Egypt, and serve the Lord. And if you are unwilling to serve the Lord, choose this day whom you will serve; whether the gods which your fathers served in the region beyond the River, or the gods of the Amorites in whose land you dwell; but as for me and my house, we will serve the Lord (Joshua 24: 14-15). This shows that even though the Israelites had been taught and trained by Moses for forty Years and by Joshua for twenty-eight years, they had still been unable to purge their minds of those influences which had warped their outlook and mentality during their period of bondage under Pharaoh. These Muslims had begun to look upon idol-worship as natural. Even after their exodus, the sight of a temple would incline them to indulge in the idolatrous practices which they had observed among their former masters.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :98 بنی اسرائیل نے جس مقام سے بحر احمر کو عبور کیا وہ غالباً موجودہ سویز اور اسماعیلیہ کے درمیان کوئی مقام تھا ۔ یہاں سے گزر کر یہ لوگ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی علاقے کی طرف ساحل کے کنارے کنارے روانہ ہوئے ۔ اس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا کا مغربی اور شمالی حصّہ مصر کی سلطنت میں شامل تھا ۔ جنوب کے علاقے میں موجودہ شہر طور اور ابو زَنِیمہ کے درمیان تانبے اور فیروزے کی کانیں تھیں ، جن سے اہل مصر بہت فائدہ اُٹھاتے تھے اور ان کانوں کی حفاظت کے لیے مصریوں نے چند مقامات پر چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں ۔ انہی چھاؤنیوں میں سے ایک چھاؤنی مفقَہ کے مقام پر تھی جہاں مصریوں کا ایک بہت بڑا بُت خانہ تھا جس کے آثار اب بھی جزیرہ نما کے جنوبی مغربی علاقہ میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کے قریب ایک اور مقام بھی تھا جہاں قدیم زمانے سے سامی قوموں کی چاند دیوی کا بُت خانہ تھا ۔ غالباً انہی مقامات میں سے کسی کے پاس سے گزرتے ہوئے بنی اسرائیل کو ، جن پر مصریوں کی غلامی نے مصریت زدگی کا اچھا خاصا گہرا ٹھپّا لگا رکھا تھا ، ایک مصنوعی خدا کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی ۔ بنی اسرائیل کی ذہنیّت کو اہل مصر کی غلامی نے جیسا کچھ بگاڑ دیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ مصر سے نکل آنے کے ۷۰ برس بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اوّل حضرت یُوشع بن نُون اپنی آخری تقریر میں بنی اسرائیل کے مجمعِ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”تم خدا کا خوف رکھو اور نیک نیتی اور صداقت کے ساتھ اس کی پرستش کرو اور ان دیوتاؤں کو دور کر دو جن کی پرستش تمہارے باپ دادا بڑے دریا کے پار اور مصر میں کرتے تھے اور خداوند کی پرستش کرو ۔ اور اگر خداوند کی پرستش تم کو بری معلوم ہوتی ہو تو آج ہی تم اسے جس کی پرستش کرو گے چن لو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو خداوند ہی کی پرستش کریں گے“ ( یشوع ۲٤:١٤ ۔ ١۵ ) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٤۰ سال تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اور ۲۸ سال حضرت یُوشع کی تربیت و رہنمائی میں زندگی بسر کر لینے کے بعد بھی یہ قوم اپنے اندر سے ان اثرات کو نہ نکال سکی جو فراعنہ مصر کی بندگی کے دور میں اس کی رگ رگ کے اندر اتر گئے تھے ۔ پھر بھلا کیونکر ممکن تھا کہ مصر سے نکلنے کے بعد فورًا ہی جو بُت کدہ سامنے آگیا تھا اس کو دیکھ کر ان بگڑے ہوئے مسلمانوں میں سے بہتوں کی پیشانیاں اس آستانے پر سجدہ کرنے کے لیے بیتاب نہ ہو جائیں جس پر وہ اپنے سابق آقاؤں کو ماتھا رگڑتے ہوئے دیکھ چکے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

63: بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان تولے آئے تھے اور فرعون کی طرف سے پہنچنے والی مصیبتوں کو بھی انہوں نے صبر سے برداشت کیا جس کی تعریف قرآن کریم نے بھی فرمائی ہے لیکن بعد میں انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو طرح طرح سے پریشان بھی کیا یہاں سے اللہ تعالیٰ اس قسم کے کچھ واقعات بیان فرمارہے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(138 ۔ 139) ۔ جب فرعون دریائے قلزم میں مع اپنے لشکر کے غرق ہو کر ہلاک ہوگیا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کو ساتھ لئے ہوئے پار ہوگئے تو ان لوگوں کا گزر شہر رقہ میں ہوا جو اسی دریا کے کنارہ پر واقعہ ہے یہاں قبیلہ کنعانی کے لوگ جن سے موسیٰ (علیہ السلام) کو لڑنے کا حکم ہوا تھا مورتیں پوج رہے تھے گائے کی شکل کے بت بنا رکھے تھے جن کی وہ لوگ پوجا کیا کرتے تھے انہیں بت پوجتے ہوئے دیکھ کر بنی اسرائیل نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ آپ بھی ہمارے لئے بت بنادیں ہم بھی اسی طرح ان بتوں کی پوجا کریں گے جس طرح یہ لوگ مورتیں پوج رہے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ تم لوگ کیسے حامل ہو خدا کی عظمت اور اس کے جلال کو نہیں پہچانتے ہو بت پرستی کے سبب سے ابھی قوم فرعون پر کیسے کیسے سخت عذاب دیکھ چکے ہو پھر ایسی بات منہ سے نکالتے ہو یہ لوگ جس شغل میں ہیں اور جن بتوں کو پوج رہے ہیں یہ سب نیست ونابود ہونے والے ہیں ان کا عمل سرے سے بےٹھکانے اور ان کا دین محض غلط ہے مطلب یہ ہے کہ بت پرستی کے وبال میں ان لوگوں پر کوئی عذاب الٰہی آوے گا تو اس سے ان کے بت ان کو بچا نہیں سکتے پھر اس طرح کی بےاختیار چیز کی پوجا سے کیا فائدہ ہے ایسی بےفائدہ چیز کی عبادت کی خواہش کا پیش کرنا نادانی اور جہالت کی خواہش ہے صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کے نبی ہونے سے پہلے اس قوم میں کچھ نیک لوگ تھے ان کا انتقال ہوگیا جس سے قوم کے لوگوں کو بڑا رنج ہوا شیطان نے قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ اس قوم کے لوگ اگر ان نیک لوگوں کی مورتیں بنا کر اپنی آنکھوں کے روبرو رکھیں تو آنکھوں کے سامنے سے ان نیکوں کے دنیا سے اٹھ جانے کا رنج کچھ کم ہوجاویگا۔ چناچہ قوم کے لوگوں نے اس وسوسہ کے موافق عمل کیا آخر رفتہ رفتہ ان مورتوں کی پوجا ہونے لگی اس شرک کے مٹانے کے لئے حضرت نوح ( علیہ السلام) نبی ہو کر آئے اور ساڑھے نو سو برس تک ان بت پرست لوگوں کو نصیحت کرتے رہے لیکن ان لوگوں پر اس نصیحت کا پورا اثر نہیں ہوا۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ شیطان نے اپنے ایک طرح کے وسوسہ سے جس طرح دنیا میں بت پرستی پھیلائی اسی طرح کا وسوسہ بنی اسرائیل کے دلوں میں ڈال دیا کہ بت پرست لوگوں کو بتوں کی پوجا سے ضرور کچھ نہ کچھو فائدہ پہنچا ہوگا جس کے سبب سے بت پرستی دنیا میں چلی آئی ہے اسی وسوسہ کے اثر سے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اپنی وہ خواہش ظاہر کی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نصیحت مناسب سے بنی اسرائیل کے اس وسوسہ کو رفع فرمادیا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:138) جوزنا۔ جاوز ۔ یجاوز۔ مجاوزۃ۔ پار کرنا۔ آگے گزر جانا۔ یا پار کرنا۔ پار اترنا۔ یم نے پار کرادیا۔ ہم نے پاراتار دیا۔ ہم نے پار اکرادیا۔ ہم نے پار اتار دیا۔ جوز سے جس کے معنی وسط کے ہوتے ہیں۔ جرز الطریق راستے کا وسط۔ جاوزہ۔ کسی چیز کے وسط سے آگے گزرجانا۔ فلما جاوزہ ھو۔ (2:249) پھر جب وہ (حضرت طالوت) اس دریا کے وسط سے آگے گزر گئے۔ یعنی پار ہوگئے۔ آیۃ ہذا میں :۔ ہم نے نبی اسرائیل کو سمندر سے پار کردیا۔ جائز۔ جواز۔ جائزہ ۔ مجاز۔ سب جوز سے مشتق ہیں ۔ فاتوا علی قوم۔ تو ان کا ایک قوم پر گزر ہوا۔ وہ ایک قوم پر جا نکلے۔ یعکفون۔ عکف یعکف (باب نصر) عکوف سے جس کے معنی تعظیماً کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سے وابستہ رہنا۔ شریعت کی اصطلاح میں الاعتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا۔ یعکفون علی اصنام لہم۔ اپنے بتوں کی عبادت میں مگن بیٹھے رہتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی عاشورہ کے روز حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) نے اس دن شکر کا روزہ رکھاجیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے۔ ( ابن کثیر)1 ان کی پوجا کر رہے تھے قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ نجم اور جذام کے قبیلہ سے تھے جو سمندر کے کنارے آباد تھے اور ان کے بت تانبے کی بنی ہوئی گایوں مو رتیں تھیں، واللہ اعلم۔ ( ابن جریر ) 1 بنی اسرائیل پر انعاما بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں ان کی جہالت اور کفر کو بیان فرمایا، موسیٰ ( علیہ السلام) کے اتنے ہیں معجزات اور انعامات دیکھنے کے بعدان کا یہ مطالبہ انتہائی جہالت اور مخالفت پر مبنی تھا، بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل جو ن کہ موحد تھے اس لے ان کی اس بت کے مطالبے سے یہ غرض تھی کہ ہو شرک کریں بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس بات کی تعظیم سے اللہ تعالیٰ کا تقرب چاہیں گے وہ سمجھے کہ یہ شرک نہیں ہے حالانکہ اس کا شرک ہونا انبیا ( علیہ السلام) کا اجماعی مسئلہ ہے جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ فرمایا کہ مشرک بتوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا سفارشی سمجھ کر پوجتے ہیں اور دوسری آیت میں ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ ہاں تقرب کا ذریعہ بناتے ہیں کذافی (الکبیر)2 یعنی افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ کی نشان نہیں پہچانتے، اللہ تعالیٰ کی ذات تو وہ ہے کہ نہ اس کی کوئی مورت بن سکتی ہے اور نہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک ٹھہر ایا جاسکتا ہے ْ ، پس ی مطالبہ سراسر مشرکانہ مطالبہ ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں جاہل آدمی نرے بےصورت کی عبادت کر کے تسکین نہیں پاتا جب تک سامنے ایک صورت نہ۔ ، وہ بنی اسرائیل نے جب وہ قوم دیکھی کہ گائے کی صورت کی پوجار تے تھے تو انہیں یہ ہوس آئی۔ آخر سونے کا بچھڑا بنایا اور پوجا۔ (مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیات نمبر 138 تا 141 وہ کونسا پانی تھا جسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل نے پا کیا تھا اور جس میں فرعون اور اس کا پور لشکر غرق ہوگیا تھا۔ اس کا صحیح اندازہ تو نہیں کیا جاسکتا البتہ تاریخ اور جغرافیہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بحیرہ احمر تھا۔ جزیرہ نما سینا کے مغرب میں جہاں اس کا پھیلائو اور پاٹ تنگ ہوجاتا ہے اور جہاں سے اب نہر سوئز شروع ہوتی ہے۔ سمندر کا یہ حصہ خاص مصر کو اور جزیرہ نمائے سینا کو الگ کرتا ہے اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ یہ لوگ سمندرپار کرکے جزیرہ نمائے سینا میں داخل ہوئے جہاں سامی قوم کے بڑے چھوٹے بت خانے تھے قرینہ ہے کہ ان ہی بت خانوں کو دیکھ کر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ایک ایسے بت کی فرمائش کی تھی جس کی عبادت کی جاسکے۔ یہ سوال بھی ابھی تک قیاس آرائیوں کا مرکز ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں فرعون مصر کا نام کیا تھا ؟ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ بات بیٹا دو فراعین تھے باپ وہ جس نے اپنے محل میں آپ کی پرورش کی تھی بیٹا وہ جس پر آپ نے تبلیغ کی اور وہ غرق ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ لندن انگلینڈ کے برٹش میوزیم میں جس فرعون کی مومیائی لاش رکھی ہے وہ ادھیڑ عمر کا آدمی ہے ۔ ابھی اس کے سارے بال نہیں پکے تھے۔ اگر ایک فرعون ہوتا تو وہ اس وقت کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوچکے تھے تو اس کو بالکل بوڑھا ہوجانا چاہیے تھا۔ قرآن کریم اس بحث نہیں کرتا چونکہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد تاریخ کا بیان کرنا نہیں ہے بلکہ تاریخ کے ان پلوؤں کو اجاگر کرنا ہے جن کا تعلق عبرت و نصیحت سے ہے۔ تاریخ جو ہم اپنے انداز سے بیان کرتے ہیں ممکن ہے کل کی تحقیق میں وہ نہ ہو جس کو ہم آج بیان کررہے ہیں لیکن جس شخصیت کے متعلق یہاں کہا جارہ ہے اس کی زندگی کے عبرت کے پہلو ہمیشہ اسی جیسے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کسی بھی واقعہ کو مسلسل بیان نہیں کرتا بلکہ وہ واقعات جن سے عرب کا بچہ بچہ واوقف تھا ان کی طرف اشارہ کرتا چلا جاتا ہے یا کہ کہ وہ واقعات جن کا لوگوں نے حلیہ بگاڑ دیا ہے ان کی اصلاح فر ماتا ہے۔ جب بنی اسرائیل نے سمندر کو پار کرلیا تو وہ ایک ایسی قوم کے پاس گذرے جو بتوں کی پوجا کر کررہے تھے۔ بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ جو نئے مسلمان تھے اور ان کا ذہن و فکر نہ بن سکا تھا انہوں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ہمارے لئے بھی اللہ کی کوئی ایسی ہی صورت و شکل بنادیں جس کو سامنے رکھ کر ہم اس کی عبادت و بندگی کرسکیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم نے یہ کیا جہالت کی باتین شروع کردیں۔ کیا میں ایک اللہ کی بندگی کو چھوڑ کر تمہارے لئے کوئی اور معبود تلاش کرکے لاؤں ۔ جس اللہ نے تمہیں فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی ہے۔ بےعزتی سے نکا ل کر عزت کی زندگی نصیب عطا فرما دی ہے ۔ فرعون جو تمہارے بیٹوں کو قتل کرتا تھا طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتا تھا تمہاری پھر اسی آمائش کی طرف پلٹنا چاہتے ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کہ کر ان کو اللہ کی عبادت و بندگی کی طرف آمادہ فرمایا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف ایک لطیف اشارہ کردیا ہے کہ انسان میں بھول جانے کی بہت بری عادت ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ جن اسباب کی وجہ سے اس پر ساری مصیبتیں آئی تھی پھر وہ غیر محسوس طریقے سے اسی طرف لوٹ رہا ہے۔ ایسے وقت میں وہ لوگ جن کو اللہ نے یہ منصب عطا کیا ہے کہ وہ لوگون کو اصل بات سمجھا سکیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو سچائی کا راستہ دکھائیں ورنہ عوام کے گمراہی میں مبتلا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ وجہ ان کی اس بےہودہ درخواست کی بغوی نے یہ لکھی ہے کہ ان کو توحید میں شک نہ ہوا تھا بلکہ اپنے غایت جہل سے یہ سمجھے کہ الہ غائب کی طرف متوجہ ہونے کے لیے اگر کسی شاہد کو ذریعہ بنایا جائے تو یہ امر منافی دیانت نہیں ہے بلکہ اس میں تعظیم و تقرب الی اللہ زیادہ ہے اور چونکہ یہ خیال بھی فی نفسہ نقلا وعقلا غلط ہے اس لیے اس کو جہل فرمایا گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ٓزادی حاصل کرنے کے بعد بنی اسرائیل کا پہلا جرم۔ بنی اسرائیل بحر قلزم کو عبور کرکے ایسے علاقے میں پہنچے جہاں کے لوگ بت اور قبر پرست تھے۔ انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ اسے موسیٰ ہمارے لیے بھی ایسا ہی معبود مقرر کیا جائے جس طرح ان لوگوں نے اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم انتہائی جاہل قوم ہو۔ یہ لوگ جو کچھ کررہے ہیں اور جو کچھ انھوں نے بنا رکھا ہے وہ باطل اور جھوٹ ہے اور یہ سب کا سب تباہ ہوجائے گا۔ کیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو تمہارا معبود ٹھہراؤں حالانکہ اس نے پوری دنیا پر تمہیں فضیلت و عظمت عطا کی ہے اور ابھی تو چند دنوں کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں آل فرعون کے مظالم سے نجات دی جو تمہارے بیٹوں کو تہہ تیغ کرتے تھے اور تمہاری بچیوں اور بیویوں کو اپنے لیے رہنے دیتے تھے یہ تم پر بڑی کربناک آزمائش تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے اور اس کی توحید پر جمے رہتے لیکن اس کے برعکس تم بت پرستی کا مطالبہ کر رہے ہو۔ بنی اسرائیل نسل در نسل غلام رہنے اور مشرکانہ ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے اس قدر ضعیف الاعتقاد اور متلون مزاج ہوچکے تھے کہ جونہی انھوں نے ایک قوم کو دیکھا کہ وہ پتھروں سے بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا کر رہی ہے تو انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر ڈالا کہ ہمارے لیے بھی ایسے بت بنا دیں۔ ناہنجار قوم سب کچھ بھول گئی۔ کہ ہماری بےبسی اور کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں ظالموں سے نہ صرف نجات عطا فرمائی بلکہ ہمارے سامنے ہمارا دشمن ڈبکیاں لے لے کر دہائی دیتے ہوئے ذلیل ہو کر مار دیا گیا۔ اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا میں ہماری فضیلت و عظمت اور بزرگی کی دھاک بٹھا دی ہے۔ یاد رہے شرک بذات خود ہر قسم کی جہالت اور برائی کا سرچشمہ اور منبع ہے لیکن اس قوم کی جہالت کی کوئی حد نہیں ہوتی جو اپنے نبی سے شرک کرنے کی نہ صرف اجازت طلب کرتی ہو بلکہ اس سے مطالبہ کرے کہ ہمارے لیے ایسا ہی بت خانہ بنایا جائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں جاہل قرار دیتے ہوئے متنبہ فرمایا کہ شرک پر لے درجے کی جہالت ہے۔ مشرک جو کچھ کرتے اور بناتے ہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں یہ سب کا سب باطل ہے اور باطل قائم رہنے کے بجائے بہت جلد تباہی کے گھاٹ اترجاتا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ لَعَنَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زَاءِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْہَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ ) [ رواہ النسائی : کتاب الجنائز، باب التغلیظ فی اتخاذ السرج علی القبور ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں پر جانے والی خواتین اور ان پر مساجد بنانے والوں اور ان پر چراغ روشن کرنے والوں پر لعنت کی ہے “ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فِیْ مَرَضِہِ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ لَعَنَ اللّٰہُ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَاءِہِمْ مَسْجِدًا)[ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی قبر نبی ] ” حضرت عائشہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتی ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس مرض میں فرمایا جس میں آپ فوت ہوئے اللہ تعالیٰ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائے انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ “ (عَنْ اَبِی مَرْثَدَنِ الْغَنَوِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَجْلِسُوْا عَلٰی الْقُبُورِ وَلاَ تُصَلُّوا اِلَیْہَا) [ مسلم ] ٗٗ ” حضرت ابو مرثد غنوی (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہ قبروں پر بیٹھا کرو اور نہ ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔ “ مسائل ١۔ بتوں اور مزارات کے سامنے چلہ کشی کرنا شرک ہے۔ ٢۔ شرک پرلے درجے کی جہالت ہے۔ ٣۔ شرک کی دین میں کوئی حقیقت نہیں۔ تفسیر بالقرآن الٰہ صرف ایک ہی ہے : ١۔ الٰہ ایک ہی ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ (البقرۃ : ١٦٣) ٢۔ ا لٰہ ٰ تمہارا ایک ہی ہے لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ (النحل : ٢٢) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں تمہاری طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے۔ (الکہف : ١١٠) ٤۔ الٰہ تمہارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ (الانبیاء : ١٠٨) ٦۔ تمہارا صرف ایک ہی الٰہ ہے اسی کے تابع ہوجاؤ۔ (الحج : ٢٤) ٧۔ ہمارا الٰہ اور تمہارا الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ ہم اسی کے لیے فرمانبردار ہیں۔ (العنکبوت : ٤٦) ٨۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جو میں تلاش کروں۔ (الاعراف : ١٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 80 ایک نظر میں اس سبق میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کی ایک دوسری کڑی چلتی ہے۔ اب آپ کا معاملہ اپنی قوم بنی اسرائیل سے ہے۔ یہ لوگ اب دشمن سے نجات پا چکے ہیں۔ اللہ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کردیا ہے۔ اور وہ تمام ترقی اور تعمیر جسے وہ سب کچھ سمجھتے تھے ، تباہ و برباد کردی گئی ہے۔ آج حضرت موسیٰ کو فرعون اور اس کے طاغوتی نظام سے واسطہ نہیں پڑا ہوا ، طاغوت کے ساتھ جو معرکہ تھا وہ تو سر ہوچکا ہے۔ آج آپ کو ایک نئے محاذ میں لڑنا ہے۔ انسانی شخصیت کے اندر جو جاہلیت رچی بسی ہوتی ہے۔ آج اس کے ساتھ معرکہ درپیش ہے۔ آج حضرت موسیٰ اس ذلت اور پستی سے برسر پیکار ہیں جو بنی اسرائیل کی شخصیت میں ، دور غلامی کے اندر تہ بہ تہ بیٹھی ہوئی ہے۔ ان کے مزاج میں کجی آگئی ہے ، ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوگئے ہیں اور میدان جنگ میں وہ سخت بزدل نظر آتے ہیں۔ زندگی اور بلند تر زندگی کی راہ میں جو مشکلات ہوتی ہیں ان کے انگیز کرنے میں وہ نہایت ہی کمزور ہیں۔ اور وہ شخصی میلانات کے بندے ہوگئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ذلت ، غلامی اور مظلومیت انسان کی شخصیت کو تباہ کردیتی ہیں۔ طویل عرصے تک خائف زندگی گزارنا۔ ، خفیہ سرگرمیاں ، کج فطرتی اور تشدد اور عذاب سے بچنے کے لیے مخفی رہنا۔ اور رات کے اندھیرے میں کام کرنا ہر وقت تشدد اور مصیبت میں ابتلاء کا ڈر ایک ایسا ماحول ہوتا ہے جس سے انسان کی فطرت میں سخت بگاڑ اور عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ بنی اسرائیل ایک طویل عرصے تک سخت ترین تشدد کا شکار رہے تھے۔ طویل عرصے تک ان پر خوف ، ڈر ، بت پرستی اور فرعونیت کا سایہ رہا۔ فرعون کی ان بچیوں کو زندہ رکھتا اور لڑکوں کو ذبح کردیتا۔ یہ سنگ دلانہ تشدد کبھی موقوف بھی ہوتا لیکن ذلت غلامی اور توہین آمیز زندگی تو مستقلاً ان کی قسمت میں تھی۔ ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا ہوگیا تھا۔ ان کا مزاج غیر معتدل ہوگیا تھا۔ فطرت میں کجی داخل ہوگئی تھی۔ خیالات بگڑ گئے تھے۔ ان کی نفسیات میں ذلت ، بزدلی ، کینہ پروری ، نفرت رچی بسی تھی۔ جب بھی کوئی انسانی طبقہ اس قسم کے مظالم کا شکار ہو تو ان میں اسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ حضرت عمر (رض) کو اللہ تعالیٰ نے ربانی بصیرت عطا کی تھی۔ آپ انسانوں کی نفسیات سے اچھی طرح باخبر تھے۔ انہوں نے اپنے تمام حکام سے کہہ رکھا تھا اور یہ وصیت کردی تھی " آپ لوگوں کے چہرے پر مار مار کر سزا مت دو ، اس طرح تم لوگوں کو ذلیل کردوگے " ان کو علم تھا کہ چہرے پر مار کی وجہ سے لوگ ذلیل ہوجاتے ہیں اور اسلام کی تو یہ بنیادی پالیسی ہے کہ رعیت کو ذلیل و خوار نہیں کرنا ہے ۔ کیونکہ اسلامی مملکت میں لوگ باعزت تصور ہوتے ہیں۔ اسلام کی پالیسی اور خواہش یہ ہے کہ لوگ باعزت ہوں۔ اور حکام کو اس بات سے منع کیا گیا کہ وہ لوگوں کو مار مار کر ذلیل کریں۔ اسلام نے یہ کہا کہ لوگ حکام کے غلام نہیں ہوتے۔ وہ اللہ کے غلام اور معزز لوگ ہوتے ہیں۔ وہ تمام غیر اللہ سے محترم ہیں۔ فرعونیت کے طاغوتی نظام میں فرعونیوں نے بنی اسرائیل کو مار مار کر ذلیل کردیا تھا۔ بلکہ ان پر جو مظالم ڈھائے گئے ان کے مقابلے میں یہ مار بالکل معمولی بات نظر آتی تھی۔ بنی اسرائیل کے بعد تمام مصری قوم کو بعد میں آنے والے حکمرانوں نے مار مار کر ذلیل کیا ، فرعونی طاغوت کے بعد رومی طاغوت نے مصریوں کو اسی طرح مار مار کر ذلیل کیا۔ ان مصائب سے مصری قوم کو صرف اسلام نے نجات دی۔ جب اسلام آیا تو اس نے مصری قوم کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نجات دی۔ عمرو ابن العاص حاکم مصر اور فاتح مصر کے بیٹے نے جب ایک قبطی کو صرف ایک کوڑا مارے جانے پر بہت ہی غصہ آیا اور وہ بھی فاتح مصر اور گورنر کے بیٹے کی طرف سے۔ اس نے اونٹنی پر سوار ہوکر ایک ماہ تک سفر کیا اور یہ شکایت حضرت عمر ابن خطاب تک پہنچائی۔ صرف ایک کوڑا مارنے کی شکایت۔ حالانکہ فتح مصر سے پہلے رومیوں کی جانب سے مارے جانے والے کئی کوڑوں پر وہ صبر کرتا تھا۔ یہ تھا اسلامی انقلاب کا معجزہ۔ جس نے قبطیوں کے اندر بھی انقلاب پیدا کردیا۔ اگرچہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ اسلام نے انسانیت کو ذلت و خواری کی جمی ہوئی تہوں کے نیچے سے نکالا اور آزادی دی۔ لوگ اس طرح اٹھے کہ ان کا جسم و روح آزاد ہوگیا اور انہوں نے اپنے آپ سے ذلت کے غبار کو ایک دم جھاڑ دیا۔ کسی غیر اسلامی نظام نے انسانیت کو اس قدر آزادی نہیں دی تھی۔ اب حضرت موسیٰ کا واسطہ اس مہم سے تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کی شخصیت سے صدیوں کی غلامی وجہ سے اور طاغوتی نظام کے تحت ذلت کی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوریوں کو دور کرنا تھا۔ بنی اسرائیل مصر سے نکل چکے تھے اور انہوں نے سمندر کو عبور کرلیا تھا۔ قرآن کریم کے بیان کردہ قصص میں ان لوگوں کی شخصیات صاف صاف نظر آتی ہیں۔ یہ غلامی کے گرد و غبار سے اٹی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آثار جاہلیت سے مقابلہ ہے۔ حضرت موسیٰ کا مقابلہ اب ان لوگوں کی کٹ حجتی ، اخلاقی بےراہ روی ، فکر و نظر کی جہالت سے ہے جو ان کی شخصیت میں ، اس طویل عرصہ اسیری میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھیں۔ اس سلسلے میں ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے حضرت موسیٰ کس قدر ان تھک مصائب برداشت کررہے ہیں۔ ان کو ایسے لوگوں سے واسطہ ہے جن کی فطرت صدیوں تک زمین بوس رہی ہے۔ ان کی حالت یہ تھی جس طرح غلاظت کا کیڑا غلاظت سے نکلنا پسند نہیں کرتا اور ذلت اور غلاظت کو اپنے لیے معمولی سمجھتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی جدوجہد میں ہر صاحب دعوت کے لیے ایک سبق ہے۔ خصوصاً ایسے صاحب دعوت کے لیے جسے ایسے لوگوں سے واسطہ ہو ، جو صدیوں تک ذلت اور غلامی میں رہے ہوں اور جنہوں نے ایسے طاغوتی نظام میں زندگی بسر کی جو ظالم بھی ہو اور متشدد بھی۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ لوگ یہ بھی جانتے ہوں کہ داعی جس طرف بلا رہا ہے وہ راہ نجات ہے۔ بلکہ وہی راہ نجات ہے لیکن ایک طویل عرصہ عالم ہونے اور مومن ہونے کی وجہ سے ان کے لیے یہ دعوت ایک عادی دعوت بن گئی ہو اور ان کا دین ایک بےروح روسمی دین بن گیا ہو۔ ایسے حالات میں ایک داعی کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ دگنا ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے داعی کے لیے صبر کی بھی بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے داعی کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی کج فہمی ، ان کی بد اخلاقی ، ان کے مزاج کی سہل انگاری اور ان کے اقدام کی سست رفتاری پر صبر کرے۔ ہر مرحلے پر ایسے لوگوں میں شکست اور دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ جانے کی خواہشات پر نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ صبر کرے۔ قصہ بنی اسرائیل کو امت مسلمہ کے لیے قرآن کریم میں اسی لیے ثبت کردیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کے لیے اس میں بڑی عبرتیں ہیں اور اسی حکمت کے تحت اسے بار بار مختلف پہلوؤں سے لایا گیا ہے۔ تاکہ امت مسلمہ اس تجربے سے فائدہ اٹھائے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آنے والے تمام داعیوں کے لیے بھی اس قصے میں بڑی مقدار میں زاد راہ موجود ہے۔ درس نمبر 80 تشریح آیات۔ 138 ۔ تا۔ 171 ۔۔۔ اس قصے کا یہ ساتواں منظر ہے۔ اس میں بنی اسرائیل اس وقت نظر آتے ہیں جب وہ نجات پا کر بحر قلزم سے اس پار چلے گئے ہیں۔ اب ہمیں فرعونی مناظر کے برعکس اس میں بنی اسرائیل کی سرکش ، معصیت کیش اور نہایت ہی کج مزاج شخصیت کا سامنا ہے۔ اور یہ اخلاقی کمزوریاں ان کے مزاج میں تہ بہ تہ صدیوں کی تاریخ کے دوران جمی ہوئی ہیں۔ اس پر کوئی طویل عرصہ نہ گزرا تھا کہ اللہ نے انہیں فرعون سے نجات دی تھی جس نے انہیں خوب ذلیل کرکے رکھا ہوا تھا۔ فرعون کی قوم بھی اس کام میں شریک تھی اور یہ نجات انہیں حضرت موسیٰ کی وجہ سے ملی تھی ، حضرت موسیٰ نے یہ تحریک اللہ رب العالمین کے نام سے چلائی تھی۔ رب العالمین نے ان کے دشمن کو ہلاک کیا اور ان کی نجات کے لیے سمندر کے ٹکڑے کیے اور انہیں اس ذلت آموز زندگی سے نجات دی۔ وہ تو مصر کی بت پرستی اور سرزمین ظلم سے ابھی رہا ہوکر آئے تھے۔ لیکن سمندر کو پار کرتے ہی جب وہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرتے ہیں جس کا ایک بت ہے اور وہ اس کی پوجا کرتی ہے اور ہر شخص اپنے بتوں کی پوجا پاٹ میں مشغول ہے تو وہ جھٹ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان کے لیے بھی ایسا ہی بت تجویز کردیں تاکہ وہ بھی اسی طرح پوجا پاٹ شروع کردیں حالانکہ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش خالص نظریہ توحید پر مبنی تھی اور اسی نظریہ کے تحت فرعون کی ہلاکت ہوئی تھی اور ان کو نجات ملی تھی۔ (وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰي قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰٓي اَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰـهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ ) ۔ بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا ، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے " اے موسیٰ ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جسیے ان لوگوں کے معبود ہیں۔ متعدی بیماریاں جس طرح جسم کو آ لیتی ہیں اسی طرح روحانی بیماریاں بھی متعدی ہوتی ہیں ، لیکن متعدی بیماریاں تب ہی پھیلتی ہیں جب لوگوں کے اندر ان کے پھیلاؤ کے لیے جراثیم موجود ہوں اور قرآن کریم نے جس طرح بنی اسرائیل کے مزاج کا نہایت ہی سچا ، گہرا اور ہمہ جہت نقشہ کھینچا ہے اس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ خلاقی اعتبار سے نہایت ہی بودے ، ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست تھے ، وہ گمراہی کو اسی طرح قبول کرتے تھے جس طرح پٹرول کو آگ لگتی ہے۔ وہ اٹھتے ہی گر جاتے تھے ، چند قدم ہی راہ مستقیم پر چلتے تھے کہ اچانک ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیتے تھے ، اس لیے کہ ان کے کلیجے میں گمراہی کے جراثیم داخل ہوچکے تھے۔ وہ سچائی سے دور تھے۔ ان کا احساس مر چکا تھا ، اور ان کا شعور بجھ چکا تھا۔ اچانک جب وہ ایک بت پرست قوم کو بت پرستی میں مشغول دیکھتے ہیں تو وہ حضرت موسیٰ کی بیس یا تئیس سالہ جدوجہد اور اپنی غلامی کی صدیاں بھول جاتے ہیں اور مطالبہ کردیتے ہیں کہ ان کے لیے بھی بت تجویز کیے جائیں۔ سابقہ معجزات کو تو چھوڑ دیں ایک طرف ، ابھی ابھی تو وہ سمندر پھٹا اور بڑے بڑے تودوں سے گزر کر آئے ہیں۔ جس میں ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا دشمن ہلاک کیا گیا۔ فرعون اور اس کا ظالم عملہ سب بت پرست تھے اور وہ بنی اسرائیل کے خلاف فرعون کو اسی بت پرستی کے نام پر ابھارتے تھے۔ وہ اہل فرعون کی یہ باتیں بھول گئے جو وہ کہتے تھے۔ " ا تذر موسیٰ و قومہ لیفسدوا فی الارض و یذرک و الھتک " کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ رہا ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں اور وہ تمہیں اور تمہارے الہوں کو چھوڑ دیں " یہ سب کچھ بھول بھلا کر وہ اپنے نبی اور رسول سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح تمہارے کہنے پر وسرے تمہارے کہنے پر دوسرے معجزات سرزد ہوئے اب اپنے رب سے ہمارے لیے بتوں کی منظوری بھی لے لے تاکہ ہم بھی بت پرستی شروع کردیں۔ اگر یہ لوگ خود ہی بت پرستی شروع کردیتے تو پھر بھی کوئی بات تھی مگر انہیں اس قدر حیا نہ آئی نبی اور رب العالمین سے بت پرستی کی اجازت چاہی لیکن یہ بنی اسرائیل ہیں ، ان سے سب کچھ متوقع ہے۔ اس مطالبے پر حضرت موسیٰ کو بہت غصہ آتا ہے ، جس طرح رب العالمین کے کسی رسول کو اپنے رب کے بارے میں آنا چاہئے۔ اس لیے کہ کوئی بھی رسول عقیدہ توحید کے بارے میں سخت غیرت مند ہوتا ہے اور اس کے لیے شرک ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ چناچہ آپ ان کو ایسا جواب دیتے ہیں جو ان کے لیے مناسب ہے۔ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ ۔ " موسیٰ نے کہا تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو "۔ یہاں ان کی جہالت کو مخصوص نہیں کیا گیا۔ لہذا مفہوم یہ ہوا کہ تم غایت درجے کے جاہل ہو ، اگر یہ علم کے مقابلے میں استعمال ہو تو مراد بےعلمی ہوتی ہے اور اگر یہ غلط عقل کے مقابلے میں آئے تو مراد حماقت ہوتی ہے یعنی تم غایت درجہ کے احمق اور غایت درجے کے کورے اور علم ہو۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ عقیدہ توحید سے جو لوگ منحرف ہوتے ہیں وہ جاہل بھی ہوتے ہیں اور احمق بھی ہوتے ہیں اور یہ کہ علم اور سائنس اور عقلمندی انسان کو عقیدہ توحید پر پہنچاتی ہے۔ علم اور عقل کبھی بھی عقیدہ توحید کے سوا کسی اور عقیدہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ علم اور عقل تو اس پوری کائنات کا مشاہدہ کرکے یہ شہادت پاتے ہیں کہ اس کا ایک خالق اور مدبر ہے ، یہ خالق اور مدبر ہے بھی وحدہ لاشریک۔ اس لیے کہ اس پوری کائنات کے ضوابط و قوانین اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس کا مدبر ایک ہے۔ اور جس قدر اس کائنات میں غور و فکر کیا جاتا ہے اور اس کے اندر جستجو کی جاتی ہے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ضوابط و آثار کی یک رنگی دلیل ہے وحدت خالق کی۔ اس سے اعراض اور صرف نظر وہی لوگ کرسکتے ہیں جو پرلے درجے کے جاہل ہوں یا احمق ہوں۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو عالم اور سائنس دان کہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سمندر سے پار ہو کر بنی اسرائیل کا بت پرست بننے کی خواہش کرنا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ان کو جھڑکنا گزشتہ آیات میں فرعونیوں کے دنیاوی عذابوں اور ان کی ضد وعناد اور بالآخر ان کے غرق ہونے کا تذکرہ تھا، ان آیات میں بنی اسرائیل کی نا شکری اور کج روی کا اور اس مظلومیت کا ذکر ہے جس میں یہ لوگ مصر کے زمانہ میں مبتلا تھے۔ جب یہ لوگ سمندر پار ہوگئے اور فرعون اور اس کے لشکروں کو اپنی نظر سے ڈوبتا ہوا دیکھ لیا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا لازم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر اور زیادہ پختگی کے ساتھ جمتے اور اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت میں مشغول رہتے اور توحید کی دعوت جو برسہا برس سے حضرت سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ کانوں میں پڑ رہی تھی اس کو دل میں جماتے اور پورے رسوخ کے ساتھ موحد بنتے۔ لیکن انہوں نے عجیب رویہ اختیار کیا۔ جب سمندر سے پار ہو کر آگے بڑھے تو دیکھا کہ کچھ لوگ بتوں کی پرستش میں مشغول ہیں اور وہیں دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ انہیں دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود تجویز کر دو جو ہمارے سامنے مجسمہ کی صورت میں ہو۔ حضرت موسیٰ نے جواب میں فرمایا کہ تم لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہو ان کے یہ معبود باطل ہیں ان کا شغل تباہ ہونے والا ہے اور جو عمل کر رہے ہیں وہ باطل ہیں کیونکہ یہ شرک ہے شرک کو تو اللہ تعالیٰ کبھی نہیں بخشے گا۔ مشرکوں کی کیوں ریس کرتے ہو، تم توحید پر جمے رہو، تمہیں معبود حقیقی کی عبادت کی تلقین کی گئی ہے جو مجسم ہو کر سامنے نہیں آسکتا۔ کیا اللہ کے سوا تمہارے لیے کوئی معبود تجویز کر دوں جس نے تمہیں تمہارے زمانہ کے جہانوں پر فضیلت دی ؟ اب تم ایسی بےوقوفی کی باتیں کرتے ہو کہ اسی رب العالمین جل مجدہ کے ساتھ پتھروں کو شریک بنانے کو تیار ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

130: یہ چوتھا واقعہ ہے۔ جب فرعون اور اس کی قوم دریائے نیل میں غرق ہوگئی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مع بنی اسرائیل اس کے معجزانہ راستوں سے گذر کر پار ہوگئے تو اب بنی اسرائیل نے سرکشی شروع کردی چناچہ راستہ میں جب ان کا گذر ایک قوم پر ہوا جو بت پرست تھے اور گائے کی پوجا کرتے تھے انہوں نے اپنے عبادت خانے میں گائے کے بت بنا کر رکھے ہوئے تھے۔ “ قال ابن جریج کانت تلک الاصنام تماثیل بقر ” (خازن ج 2 ص 23) ۔ جب اسرائیلیوں نے اس بت پرست قوم کو دیکھا تو ان کا جی بھی للچا اٹھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے ان کے ٹھاکروں جیسا ایک ہمیں بھی ٹھاکر بنا دو تاکہ ہم بھی اس کی پوجا پاٹ کریں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم بڑے نادان اور جاہل ہو۔ شرک اور بت پرستی سے اللہ نے تم کو نجات دی مگر اب تم پھر اسی گڑھے میں گرنا چاہتے ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

138 اور ہم نے بنی اسرائیل کو صحیح سالم دریا سے پار کردیا اور سمندر سے نکل دیا تب ان کا ایک ایسی قوم پر گزر ہوا جو اپن چند بتوں کی پوجا میں لگے ہوئے تھے اور ان کے روبرو جمے بیٹھے تھے بنی اسرائیل نے ان بت پرستوں کو دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے لئے بھی کوئی ایسا ہی معبود مقرر کردے جیسے ان کے معبود ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ! تم بڑی جہالت میں مبتلا ہو یعنی جاہل آدمی نرے بےصورت کو عبادت کر کر تسکین نہیں پاتا۔ جب تک سامنے ایک صورت نہ ہو وہ قوم دیکھ کر کہ گائے کی صورت پوجتے تھے اور ان کو بھی یہ ہوس آئی آخر سونے کا بچھڑا بنایا اور پوجا۔ مطلب یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا جہل ہوگا کہ اس قدر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور ان کی عنایات کے بعد بھی غیر اللہ کی پرستش کی خواہش ظاہر کی اور وہ بھی اللہ کے پیغمبر سے۔