Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 145

سورة الأعراف

وَ کَتَبۡنَا لَہٗ فِی الۡاَلۡوَاحِ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡعِظَۃً وَّ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ ۚ فَخُذۡہَا بِقُوَّۃٍ وَّ اۡمُرۡ قَوۡمَکَ یَاۡخُذُوۡا بِاَحۡسَنِہَا ؕ سَاُورِیۡکُمۡ دَارَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۱۴۵﴾

And We wrote for him on the tablets [something] of all things - instruction and explanation for all things, [saying], "Take them with determination and order your people to take the best of it. I will show you the home of the defiantly disobedient."

اور ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہرچیز کی تفصیل ان کو لکھ کر دی تم ان کو پوری طاقت سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں اب بہت جلد تم لوگوں کو ان بے حکموں کا مقام دکھلاتا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الاَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلً لِّكُلِّ شَيْءٍ ... And We wrote for him on the Tablets the exhortation all things and the explanation for all things: Allah stated that He has written lessons and exhortation for all things and explanations for all things on the Tablets. It was said that in the Tablets, Allah wrote advice and the details of the commandments for lawful and prohibited matters. The Tablets contained the Tawrah, that Allah described; وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى الْكِتَـبَ مِن بَعْدِ مَأ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الاٍّولَى بَصَأيِرَ لِلنَّاسِ And indeed We gave Musa -- after We had destroyed the generations of old -- the Scripture as an enlightenment for mankind. (28:43) It was also said that Allah gave Musa the Tablets before the Tawrah, and Allah knows best. Allah said next, ... فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ ... Hold unto these with firmness, be firm on the obedience, ... وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا ... and enjoin your people to take the better therein. Sufyan bin Uyaynah said, "Abu Sa`d narrated to us from Ikrimah from Ibn Abbas that; "Musa, peace be upon him, was commanded to adhere to the toughest of what was ordained on his people." Allah's statement, ... سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ I shall show you the home of the rebellious, means, you will witness the recompense of those who defy My order and deviate from My obedience, the destruction, demise and utter loss they will suffer.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

145۔ 1 گویا تورات تختیوں کی شکل میں عطا فرمائی گئی جس میں ان کے لئے دینی احکام، امر و نہی تر غیب و ترتیب کی پوری تفصیل تھی۔ 145۔ 2 یعنی رخصتوں کی ہی تلاش میں نہ رہیں جیسا کہ سہولت پسندوں کا حال ہوتا ہے۔ 145۔ 3 مقام (دار) سے مراد تو انجام یہی ہلاکت ہے یا اس کا مطلب ہے کہ فاسقوں کے ملک پر تمہیں حکمرانی عطا کروں گا اور اس سے مراد ملک شام ہے۔ جس پر اس وقت عمالقہ کی حکمرانی تھی۔ جو اللہ کے نافرمان تھے۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٠] تورات کی تختیاں :۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ تورات انہی تختیوں پر لکھی گئی تھی اور بعض کہتے ہیں کہ ان تختیوں میں صرف چند جامع اور بنیادی احکام لکھے گئے تھے اور تورات بعد میں آپ پر نازل ہوئی۔ ان تختیوں پر کتاب کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان تختیوں کی تعداد کتنی تھی ؟ ان تختیوں میں وہی احکام مذکور ہیں جو سورة انعام کی آیت نمبر ١٥١ اور ١٥٢ میں مذکور ہیں اور یہ سبت کی تعظیم کے حکم سمیت دس احکام بنتے ہیں۔ [١٤١] احسن کے معانی :۔ قرآن کا لفظ باحسنہا کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو وہی ہے جو ترجمہ میں ذکر کردیا گیا ہے یعنی ان پر عمل بےدلی سے اور بےکار سمجھ کر نہ کریں بلکہ نہایت خوش دلی، نشاط اور اللہ کی رضا جوئی کے لیے بہتر طریقہ سے ان احکام پر عمل پیرا ہوں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان تختیوں پر لکھی ہوئی عبارت کا جو مفہوم ایک سلیم الطبع انسان کی عقل میں فوری طور پر آجاتا ہے اسی پر عمل کریں ان احکام کی عبارت کو فلسفیانہ موشگافیوں کی سان پر نہ چڑھائیں اور الٹی سیدھی تاویلات میں مشغول نہ ہوجائیں۔ [١٤٢] اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تم لوگ اب شام کی طرف جا رہے ہو راستہ میں تم کئی تباہ شدہ قوموں کے آثار قدیمہ کے پاس سے گزرو گے جس سے تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کی نافرمان قوموں کا کیا انجام ہوتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ دارالفاسقین سے مراد ملک شام میں عمالقہ کے گھر ہیں جن سے ان بنی اسرائیل کو جہاد کے لیے کہا جا رہا تھا اس معنی کی رو سے یہ جملہ ان کے لیے فتح کی خوشخبری کی حیثیت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۔۔ : یعنی تمام عقائد و احکام اور نصائح جن کی حلال و حرام اور دین کے دوسرے معاملات معلوم کرنے کے سلسلہ میں بنی اسرائیل کو ضرورت پیش آسکتی تھی۔ ” كُلِّ “ کا لفظ موقع کی مناسبت ہی سے متعین ہوتا ہے، مثلاً ملکۂ سبا کے متعلق آتا ہے : (وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ) [ النمل : ٢٣ ] ” اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔ “ اور قوم عاد پر آنے والی آندھی کے متعلق فرمایا : ( تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا) [ الأحقاف : ٢٥ ] ” جو ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔ “ حالانکہ ظاہر ہے کہ نہ ملکۂ سبا کو کائنات کی ہر چیز عطا ہوئی تھی اور نہ اس آندھی نے کائنات کی ہر چیز کو برباد کیا تھا۔ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ : اسے قوت کے ساتھ پکڑ۔ مجاہد نے فرمایا، جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کر۔ [ بخاری، التفسیر، قبل ح : ٤٤٧٧ ] موسیٰ (علیہ السلام) کو چالیس دن کے اعتکاف کے بعد کتاب ملی، جب کہ اس سے پہلے فرعون اور اس کی قوم موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت اور ان کے احکام سے انکار کی وجہ سے ہلاک کی جا چکی تھی اور اس وقت تک موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی کتاب نہیں ملی تھی، تقریباً چالیس سال تک اترنے والی وحی موسیٰ (علیہ السلام) کی حدیث ہی تھی، جس کے انکار کی وجہ سے فرعون غرق ہوا۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی اسی طرح دونوں قسم کی وحی اتری، ایک کتاب اللہ اور دوسری حدیث۔ جس طرح کتاب اللہ کا منکر مسلمان نہیں، اسی طرح حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ ماننے والا بھی کافر ہے، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی پہلے نبیوں کی طرح دونوں قسم کی وحی اتری۔ دیکھیے سورة نساء (١٦٣ تا ١٦٥) از فوائد مولانا محمد اسماعیل سلفی (رض) ۔ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا ۭ: ” اس کی بہتر باتیں “ یعنی جو کرنے کے حکم ہیں اور بری باتیں (وہ ہیں) جن کے نہ کرنے کا حکم ہے۔ (موضح) یا رخصت کے بجائے عزیمت اختیار کریں جو بہترین ہے اور جس کا اجر زیادہ ہے۔ یا دو کاموں میں سے ایک اچھا ہے اور ایک اس سے بھی اچھا ہے تو بہترین پر عمل کی کوشش کریں، مثلاً قصاص لینا، یا معاف کردینا، انتقام لینا یا صبر کرنا اور درگزر سے کام لینا۔ قرض وصول کرنے میں مہلت دینا یا چھوڑ دینا وغیرہ، اگرچہ دونوں اچھے ہیں مگر احسن پر عمل کی کوشش کریں۔ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ : یعنی میں تمہیں فاسقوں کا گھر دکھاؤں گا، یعنی دوبارہ فرعون اور اس کی آل کے گھر مصر لے جاؤں گا، اگرچہ کچھ دیر کے بعد، جیسا کہ بعد میں بنی اسرائیل کو فرعون کے باغات اور خزانوں کا مالک بنادیا۔ دیکھیے سورة اعراف (١٣٧) کے حواشی۔ استاد محمد عبدہ (رض) نے لکھا ہے، یعنی اگر تم نے ان باتوں پر عمل نہ کیا تو تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا کہ میری نافرمانی کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے اور انھیں کس قسم کی تباہی و بربادی سے دو چار ہونا پڑتا ہے (گویا ” دَارَ الْفٰسِقِيْنَ “ سے مراد جہنم ہے) ۔ (ابن جریر) بعض نے لکھا ہے کہ ” دَارَ الْفٰسِقِيْنَ “ سے مراد اہل شام ہیں، گویا اس میں وعدہ ہے کہ ملک شام تمہارے قبضے میں آئے گا۔ (کبیر) یا یہ کہ اگر تم نے نافرمانی کی تو تم کو اسی طرح ذلیل کریں گے جس طرح شام کا ملک ان سے چھین کر تم کو دیا۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The last sentence is سَأُرِ‌يكُمْ دَارَ‌ الْفَاسِقِين . |"I will show you the abode of the sinners|". This is a kind of promise by Allah that the Israelites shall soon take over Egypt or perhaps Syria, referred to as the abode of the sinners in this verse. There are two views about the reference to the abode of the sinners. The first holds that the reference has been made to Egypt while the second takes it to refer to Syria. The difference of opinion is, in fact, based on a question whether the Israelites had returned to Egypt after the destruction of Pharaoh and his people or not. If they went back to Egypt at that time and ruled the land, as has been indicated by the verse 137 saying that Allah made the Israelites inherit the land, then, this verse definitely has referred to Syria, as the abode of the sinners. It is because, in this case, the Israelites had taken over the land of Egypt before this event of Allah&s light appearing to the Mount of Sinai. In case, they did not go to Egypt after the destruction of Pharaoh, the reference may be to Egypt and Syria, both. The phrase وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ “ And we wrote for him everything on the Tablets” makes us understand that the Torah was given to the Prophet Musa علیہ السلام inscribed or written on the Tablets. (1) (1) Another view with regard to these tablets is that these tablets were given to him prior to the revelation of the Torah and were not the part of the Torah. This has been cited by Allama Shabbir Ahmad Usmani under his comments on this verse. He has cited it from Ibn Kathir. (Translator)

سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ ، اس جگہ دار الْفٰسِقِيْنَ سے کیا مراد ہے، اس میں دو قول ہیں، ایک ملک مصر، دوسرا ملک شام، کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے فتح کرنے سے پہلے مصر پر فرعون اور اس کی قوم حکمران اور غالب تھی اس کی وجہ سے مصر کو دار الْفٰسِقِيْنَ اور ملک شام پر عمالقہ کا قبضہ تھا وہ بھی کافر فاسق تھے اس لئے اس وقت شام بھی دار الْفٰسِقِيْنَ تھا، ان دونوں میں سے اس جگہ کونسا ملک مراد ہے، اس میں اختلاف اس بنیاد پر ہے کہ غرق فرعون کے بعد بنی اسرائیل مصر میں واپس چلے گئے تھے یا نہیں، اگر اس وقت مصر میں واپس گئے اور مملکت مصر پر قابض ہوئے جیسا کہ آیت وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ سے اس کی تائید ہوئی تو مصر پر قبضہ اور غلبہ اس واقعہ تجلی طور سے پہلے ہوچکا ہے اس میں سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ کا مفہوم ملک شام متعین ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس وقت واپس نہیں گئے تو دونوں ملک مراد ہو سکتے ہیں۔ وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات کی تختیاں لکھی لکھائی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سپرد کی گئی تھی، انہی تختیوں کے مجموعہ کا نام تورات ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَتَبْنَا لَہٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَۃً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ۝ ٠ ۚ فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا۝ ٠ ۭ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ۝ ١٤٥ كتب ( لکھنا) الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] . ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔ لوح اللَّوْحُ : واحد أَلْوَاحِ السّفينة . قال تعالی: وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر/ 13] وما يكتب فيه من الخشب ونحوه، وقوله تعالی: فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج/ 22] فكيفيّته تخفی علینا إلا بقدر ما روي لنا في الأخبار، وهو المعبّر عنه بالکتاب في قوله : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] واللُّوحُ : العَطَشُ ، ودابّة مِلْوَاحٌ: سریع العطش، واللُّوحُ أيضا، بضمّ اللام : الهواء بين السماء والأرض، والأکثرون علی فتح اللام إذا أريد به العطش، وبضمّه إذا کان بمعنی الهواء، ولا يجوز فيه غير الضّمّ. ولَوَّحَهُ الحرّ : غيّره، ولَاحَ الحرّ لَوْحاً : حصل في اللوح، وقیل : هو مثل لمح . ولَاحَ البرق، وأَلَاحَ : إذا أومض، وأَلَاحَ بسیفه : أشار به . ( ل و ح ) اللوح ۔ تختہ ( کشتی وغیرہ کا ) اس کی جمع الواح ہے ۔ قرآن میں ہے : وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر/ 13] اور ہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرلیا ۔ اور لوح لکڑی وغیرہ کی اس تختی کو بھی کہتے ہیں جس پر کچھ لکھا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج/ 22] لوح محفوظ میں ۔ میں لوح محفوظ کی اصل کیفیت کو ہم اسی قدر جان سکتے ہیں اور احادیث میں مروی ہے اسی کو دوسری آیت میں کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] بیشک یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے بیشک یہ کسب خدا کو آسان ہے ۔ اللوح کے معنی پیاس کے ہیں ۔ اور جس جو پایہ کو جلدی پیاس لگتی ہوا سے دابۃ ملواح کہا جاتا ہے ۔ اور لوح ( ضمہ لام کے ساتھ ) آسمان اور زمین کے درمیانی خلا کو بھی کہتے ہیں لیکن اکثر علمائے لغت کے نزدیک فتحہ لام کے ساتھ بمعنی پیاس کے ہے اور ضمہ لام کے ساتھ زمین وآسمان کے درمیانی خلا کے معنی میں آتا ہے گو اس میں فتحہ لام بھی جائز ہے ۔ لوحہ الحرا سے گرمی نے جھلس دیا ۔ لاح الحرلوحا گرمی فضا میں پھیل گئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ لمح کی طرح ہے اورا لاح بسیفہ کے معنی ہیں اس نے تلوار سے اشارہ کیا ۔ وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔ تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعمارل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٥) اور ہم نے چند تختیوں پر حلال و حرام اور امر و نواہی ہر ایک چیز کی تفصیل لکھ دی اس پر پوری کوشش کے ساتھ عمل کرو اور قوم کو حکم دو کہ وہ محکم پر عمل کرے اور متشابہ پر ایمان لائے، بہت جلد میں گنہگاروں کا مقام دکھلاتا ہوں اور وہ دوزخ ہے یا عراق یا مصر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٥ (وَکَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَۃً وَّتَفْصِیْلاً لِّکُلِّ شَیْءٍ ج) ۔ یعنی شریعت کے تمام بنیادی احکام ان الواح میں درج کردیے گئے تھے۔ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے بنیادی احکام شاہراہ حیات پر انسان کے لیے گویا danger signals کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے کسی پر پیچ پہاڑی سڑک پر سفر کو محفوظ بنانے کے لیے جگہ جگہ danger cautions نصب کیے جاتے ہیں اسی طرح انسانی تمدن کے پیچیدہ راستے پر آسمانی شریعت اپنے احکامات کے ذریعے caution نصب کر کے انسانی تگ و دو کے لیے ایک محفوظ دائرہ مقرر کردیتی ہے تاکہ انسان اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے ‘ اپنی عقل کو بروئے کار لاکر اپنی مرضی اور پسند ناپسند کے مطابق زندگی گزارے۔ اس دائرے کے باہر محرمات ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ ان کے قریب بھی مت جانا : (تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْہَا ط) (البقرۃ : ١٨٧) ۔ (فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا ط) ۔ کسی بھی حکم پر عمل درآمد کے لیے مختلف درجے ہوتے ہیں۔ یہ عمل درآمد ادنیٰ درجے میں بھی ہوسکتا ہے ‘ اوسط درجے میں بھی اور اعلیٰ درجے میں بھی۔ لہٰذا یہاں مطلب یہ ہے کہ آپ ( علیہ السلام) اپنی قوم کو ترغیب دیں کہ وہ احکام شریعت پر عمل کرتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی طرف بڑھنے کی کوشش کریں۔ یہی نکتہ ہم مسلمانوں کو بھی قرآن میں بتایا گیا : (الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ ط) ( الزمر : ١٨) یعنی وہ لوگ کلام اللہ کو سنتے ہیں پھر جو اس کی بہترین بات ہوتی ہے اس کو اختیار کرتے ہیں۔ ایک طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں ڈھیل اور رعایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ امتیازی پوزیشن نہ سہی ‘ فرسٹ یا سیکنڈڈویژن بھی نہ سہی ‘ بس pass marks کافی ہیں ‘ لیکن یہ معاملہ دین میں نہیں ہونا چاہیے۔ دینی امور میں عمل کا اچھے سے اچھا اور اعلیٰ سے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم سورة المائدۃ میں بھی پڑھ آئے ہیں : (اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) ۔ دنیوی امور میں تو ہر شخص ع ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ! کے نظریے کا حامل نظر آتا ہی ہے ‘ لیکن دین کے سلسلے میں بھی ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ اس کا آج اس کے کل سے بہتر ہو۔ دینی امور میں بھی وہ ترقی کے لیے حتی الامکان ہر گھڑی کوشاں رہے۔ (سَاُورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ ) ۔ اس سے مرادفلسطین کا علاقہ ہے جس پر حملہ آور ہونے کا حکم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ملنے والا تھا۔ بنی اسرائیل کا قافلہ مصر سے نکلنے کے بعد خلیج سویز کو عبور کر کے صحرائے سینا میں داخل ہوا تو خلیج سویز کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا ‘ یہاں تک کہ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی کونے میں پہنچ گیا جہاں کوہ طور واقع ہے۔ یہاں پر اس قافلے کا طویل عرصے تک قیام رہا۔ یہیں پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر طلب کیا گیا اور جب آپ ( علیہ السلام) تورات لے کر واپس آئے تو آپ ( علیہ السلام) کو فلسطین پر حملہ آور ہونے کا حکم ملا۔ چناچہ یہاں سے یہ قافلہ خلیج عقبہ کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف عازم سفر ہوا۔ بنی اسرائیل سات آٹھ سو سال قبل حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعوت پر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آب سے تھے۔ اب فلسطین میں وہ مشرک اور فاسق قوم قابض تھی جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ سخت اور زور آور لوگ ہیں۔ چناچہ جب ان کو حکم ملا کہ جا کر اس قوم سے جہاد کرو تو انہوں نے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کردی کہ ایسے طاقتور لوگوں سے جنگ کرنا ان کے بس کی بات نہیں : (قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْہَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَق) ( المائدۃ : ٢٢) اس واقعے کی تفصیل سورة المائدۃ میں گزر چکی ہے۔ یہاں اسی مہم کا ذکر ہو رہا ہے کہ میں عنقریب تم لوگوں کو اس سر زمین کی طرف لے جاؤں گا جو تمہارا اصل وطن ہے لیکن ابھی اس پر فاسقوں کا قبضہ ہے۔ ان نافرمان لوگوں کے ساتھ جنگ کر کے تم نے اپنے وطن کو آزاد کرانا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

101. The Bible categorically mentions that the tablets were of stone. The act of writing on these tablets is attributed in both the Qur'an and the Bible, to God. Nonetheless, it is not possible to ascertain whether the actual act of writing was as performed by God exercising His power directly, or by God in the sense of His assignment of the task to some angel or to Moses (cf. Exodus 31: 18, 32: 15-16; and Deuteronomyi, 5: 6-22). 102 The Israelites were asked to hold fast to the Law to follow it in its plain meaning, a meaning which can he grasped by an ordinary man of sound heart and good intent with the help of his common sense. This stipulation was added in order to discourage the chicanery and hair-splitting to which lawyers resort in order to accommodate the crooked aims of the people. The warning was necessary to emphasize that holding fast to the Law was not to be equated with following the chicanery of the lawyers. 103. The Israelites were told that on their way they would come across the ruins of earlier nations who had refused to turn to God and who had persisted in their evil way's. Observing those ruins would he instructive insofar as they eloquently spoke of the tragic end that meets those who indulge in such iniquity .

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :101 بائیبل میں تصریح ہے کہ یہ دونوں تختیاں پتھر کی سلیں تھیں ، اور ان تختیوں پر لکھنے کا فعل بائیبل اور قرآن دونوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف منسُوب کیا گیا ہے ۔ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے ہم اس بات کا تعیُّن کر سکیں کہ آیا ان تختیوں پر کتابت کا کام اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنی قدرت سے کیا تھا ، یا کسی فرشتے سے یہ خدمت لی تھی ، یا خود حضرت موسیٰ کا ہاتھ استعمال فرمایا تھا ۔ ( تقابل کے لیے ملاحضہ ہو بائیبل ، کتاب خروج ، باب ۳١ ، آیت١۸ ۔ باب ۳۲ ، آیت ١۵ ، ١٦ و استثناء باب ۵ آیت ٦ ۔ ۲۲ ) سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :102 یعنی احکامِ الہٰی کا وہ صاف اور سیدھا مفہوم لیں جو عقل عام سے ہر وہ شخص سمجھ لے گا جس کی نیت میں فساد ، یا جس کے دل میں ٹیڑھ نہ ہو ۔ یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ جو لوگ احکام کے سیدھے سادھے الفاظ میں سے قانونی اینچ پینچ اور حیلوں کے راستے اور فتنوں کی گنجائشیں نکالتے ہیں ، کہیں ان کی موشگافیوں کو کتاب اللہ کی پیروی نہ سمجھ لیا جائے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :103 یعنی آگے چل کر تم لوگ ان قوموں کے آثار قدیمہ پر سے گزروگے جنہوں نےخدا کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا اور غلط روی پر اصرار کیا ۔ ان آثار کو دیکھ کر تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ایسی روش اختیار کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

66: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تورات کے تمام ہی احکام بہترین ہیں، ان پر عمل کرنا چاہئے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جہاں تورات نے ایک کام کو جائز کہا ہو، لیکن دوسرے کام کو بہتر یا مستحب قرار دیا ہو تو اللہ تعالیٰ کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کام کو اختیار کرلیا جائے جس کو اس میں بہترین قرار دیا گیا ہے۔ 67: بظاہر اس سے مراد فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت عمالقہ کے قبضے میں تھا۔ اور دکھانے سے مراد یہ ہے کہ وہ علاقہ بنی اسرائیل کے قبضے میں آجائے گا۔ جیسا کہ حضرت یوشع اور حضرت سموئیل علیہما السلام کے زمانے میں ہوا۔ بعض مفسرین نے ’’ نافرمانوں کے گھر‘‘ کا مطلب دوزخ بتایا ہے اور مقصد یہ بیان کیا ہے کہ آخرت میں تمہیں نافرمانوں کا یہ انجام دکھا دیا جائے گا کہ جنہوں نے تم پر ظلم کیے تھے وہ کس برے حال میں ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

علمائے مفسرین نے ان تختیوں کی تفسیر میں بڑا اختلاف کیا ہے بعضے کہتے ہیں یہ تختیاں یاقوت کی تھیں اور بعضے کہتے ہیں زبرجد کی تھیں اور بعضے اور چیزوں کی بتلاتے ہیں پھر یہ بھی اختلاف ہے کہ ان تختیوں پر تورات ہی لکھی ہوئی تھی یا تو ریت کے علاوہ دوسری کچھ نصیحتیں اور احکام تھے اور یہ بھی اختلاف ہے کہ بنی اسرائیل کے بچھڑے کے پوجنے پر حضرت موسیٰ کو جو غصہ آیا اور اس غصہ میں حضرت موسیٰ نے ان تختیوں کو زمین پر پٹخ دیا تو وہ تختیاں ٹوٹ گئیں یا ثابت رہیں رفع اس اختلاف کا یہ ہے کہ یہ سب اختلاف بنی اسرائیل کی مختلف روایتوں کو وجہ س ہے اور بنی اسرائیل کی روایتوں کے باب میں دو دو صحیح حدیثیں آئی ہیں ایک حدیث میں تو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں کی نہ تم تصدیق کرو نہ ان کو جھٹلاؤ دوسری حدیث میں آپ نے یہ فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل سے روایت لینے میں کچھ حرج نہیں ہے اور بنی اسرائیل کی روایتوں کے تین حال ہیں یا ان کی روایت قرآن حدیث کے موافق ہے یا مخالف۔ شرع محمدی اس روایت کے مسئلہ کے بیان سے بالکل ساکت ہے اب اکابر علمائے سلف نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اوپر کی دونوں حدیثیں تیسری قسم کی روایت کتاب سے متعلق ہیں کیونکہ اول قسم کی تصدیق اور دوسری قسم کی تکذیب ضروریات دین سے اب اوپر کی اس آیت کی تفسیر کہ یہ اختلاف کہ ان تختیوں پر توریت کے علاوہ کچھ احکام لکھے ہوئے تھے قرآن شریف کے مضمون کے خلاف ہے کیونکہ قرآن شریف کا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو رسالت کے لئے چھانٹا اور بالتفصیل احکام ان تختیوں پر لکھ کر رسالت کے لئے حضرت موسیٰ کو دیے اور قرآن شریف کی بہت سی آیتوں سے یہ ثابت ہے کہ سوا توریت کے اور کوئی تفصیلی احکام کی کتاب اللہ تعالیٰ نے رسالت کے لئے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر نہیں نازل فرمائی اس لئے یہ اختلاف قسم دوم میں داخل ہو کرنا معتبر ہے رہا یہ اختلاف کر وہ تختیاں کس چیز کی تھیں اور حضرت موسیٰ نے جب غصے سے ان تختیوں کو زمین پر پٹخ دیا تو وہ تختیاں ٹوٹ گئیں یا ثابت رہیں اگرچہ یہ اختلاف قسم سوم میں داخل ہے لیکن آیت کی تفسیر میں خود یہ بات داخل نہیں ہے پھر اس میں اختلاف کرنا تفسیر کے علاوہ اور تاریخی بات ہے شریعت کے بہتر احکام پر عمل کرنے کی ہدایت جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے اس کے یہ معنے ہیں کہ شریعت میں جہاں دو حکم ہوں مثلا ظالم سے بدلہ لینا اور صبر کرنا ان دونوں حکموں میں زیادہ اجر کی بات پر عمل کرو تاکہ زیادہ اجرپاؤ۔” اب میں تم کو دکھاؤں گھر سے حکم لوگوں کا یہ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تنبیہ فرمائی ہے کہ جس طرح اس آیت میں تورات کے موافق عمل کرنے کا حکم ہے اس حکم کی تعمیل اگر یہ لوگ نہ کریں گے تو مصر اور شام کے ملک کو جاتے وقت ان کو قوم عاد او ثمود کی اجڑی ہوئی بستیاں ملیں گی ان بستیوں کو دیکھ کر انہیں بےحکمی کے نتیجہ سے ڈرنا چاہیے اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے بنی اسرائیل نے جب بےحکمی پر کمرباندھی تو ان پر طرح طرح کی آفتیں آن کر ان کی بادشاہت ثروت سب کچھ جاتا رہا صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے ابن عمر (رض) کی حدیث گذر چکی ہے کہ تبوک کے سفر کے وقت جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گذر ثمود کی بستی پر سے ہوا تو آپ خود بھی خوف زدہ ہوگئے اور صحابہ کو بھی عذاب الٰہی کے خوف سے ڈرایا اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اگرچہ بنی اسرائیل کی شان میں ہے لیکن آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ اب بھی جس بستی میں قحط وبا یا کوئی اور عام مرض ہو تو اور بستیوں کے لوگوں کو اس عذاب الٰہی سے ڈرنا اور گناہوں سے توبہ استغفار مناسب ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی تمام احکام و مواعظ جن کی حلال و حرام معلوم کرنے سلسلہ میں بنی اسرائیل کو ضرورت پیش آسکتی تھی۔ ( کبیر)3 اچھی باتیں یعنی کرنے کے کام ہیں او بری باتیں جن سے بچنے کا حکم ہے۔ ( مو ضح) یا عزیمت کی راہ اختیار کریں اور وہ کام کرنے کی کوشش کریں جن کا اجر دوسرے کاموں سے زیادہ ہے۔ (کذافی الکبیر)4 یعنبی اگر تم نے ان باتوں پر عمل نہ کیا تو تمہیں جلدی معلوم ہوجائے گا میری نافرمانی کرنے والوں کو انجام کیا ہوتا ہے اور انہیں کسی قسم کی تباہی وبر بادی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ( ابن جریر) بعض نے لکھا ہے کہ دار الفا ستمین سے مراد اہل شام ہیں گویا اس میں وعدہ ہے کہ ملک شام تمہاہا سے قبضہ آئے گا، (کبیر) یا یہ کہ اگر تم نے نافرمانی کی تو تم کو اسی طرح ذلیل کریں گے جس طرح شام کا ملک ان سے چھین کر تم کو دیا، ( کذافی امو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح :ـآیات نمبر ا 45 تا 147 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مختلف موقعوں پر پس پردہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے کلام کیا ہے اگر چہ وہ اللہ کا دیدار تو حاصل نہ کرسکے لیکن ان کو اللہ سے کلام کرنے کا شرف حاصل ہے اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے۔ پہلی گفتگو تو وہ ہے جو سورة الاعراف کی آیت نبمر 143 سے ظاہر ہے ۔ اللہ سے کلام کا سلسلہ جاری رہا اور چالیس دن کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پتھر کی سلوں پر لکھی ہوئی توریت عطا کی۔ اس میں جو ہدایات دی گئی تھیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔ 1) حکم پر محض عمل کرنا کافی نہیں ہے اللہ کو جو چیز مطلوب ہے وہ ہے حسن عمل یعنی کسی کا حکم پر احسن طریقہ سے عمل کرنا جس میں علم ، عقل ، خلوص، محبت اور حسن و جمال جیسی خوبیاں بھی شامل ہوں۔ اللہ کو ہر عمل کی کثرت نہیں بلکہ عمل کی خوبی زیادہ پسند ہے۔ 2) عبرت اور ہر چیز کی تفصیل سے مراد وہ تاریخی کھنڈرات بھی ہیں جہاں سے بڑی بڑی طاقتیں اٹھیں لیکن کفر و شرک میں مبتلا وہنے کی وجہ سے عذاب الہٰی کی مستحق ہوگئیں۔ 3) تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ اللہ کی آیات روح تک اسی وقت پہنچ سکتی ہیں جب راہ میں تکبر اور غرور کی رکاوٹ نہ ہو ۔ جہاں ذہن میں یہ بات آئی کہ میں قوت واقتدار والا ہوں میں دولت والا ہوں ، میں علم و عقل والا ہوں، میں باقاعدہ قرآن و حدیث پڑھے بغیر چند باتیں سیکھ کر دین کی ہر بات کو خود سمجھ لیتا ہوں (جیسا کہ آج کل کچھ جدید تعلیم یافتہ طبقہ سوچتا ہے ) تو اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ وہ دل و دماغ کو پھیر دیتا ہے اور وہ کہج فہم لوگ دوذخ کے راستے پر نکل پڑتے ہیں اور وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ تکبر کے ساتھ ” بغیر حق “ کی شرط لگی ہے اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ تکبر اور بڑائی کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے کبریائی کی شان اسی کے پاس ہے اللہ ہی ” اکبر “ ہے بقیہ سب اصغر (بہت ہی چھوٹے) ہیں انسان خواہ مخواہ اپنے آپ کو برا سمجھتا اور غرور کرتا ہے یہ ابلیس کی نشانی ہے ۔ ہا تحدیث نعمت کے طور پر یا شکر گزاری کے طو پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مجھے اللہ نے فلاں فلاں نعمتیں عطا فرامائی ہیں ۔ تقابلی موازنہ کی بھی کنجائش ہے ۔ مگر فخر و غرور کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حق کے معنی سچائی کے بھی ہیں ۔ حقوق اور انصاف کے بھی ۔ اگر بشرط ضرورت تقابلی موازنہ کیا جائے تو جو کچھ کہا جائے وہ بالکل سچ ہو۔ اس میں مبالغہ خود آرائی گھٹائو بڑھائو نہ ہو۔ نہ کسی کا حق مارا جائے یعنی اگر کسی شخص میں کوئی خوبی ہے تو اس کے بےلاگ طریقہ پر تسلیم کیا جائے۔ لیکن اس کی اجازت نہیں ہے کہ جذبات میں بہہ کر انصاف کا دامن ہا تھ سے چھوڑا دیا جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بیایا جارہا ہے کہ ان کو قوم میں تکبر اور برائی کرنے والوں کی کثرت ہے ۔ ایسے لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ ساری نشانیاں اور معجزات دیکھنے کے باوجود ایمان نہیں لاتے۔ وہ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں کبھی ان کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ لہو و لعب ان کی زندگی بن کر رہ گیا ہے۔ وہ اس طرف ذرا بھی توجہ نہیں کرتے کہ ایک دین انہیں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے کئے کا پورا پورا حساب دینا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمادیا ہے کہ کافروں میں جہاں برے لوگ ہیں وہیں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جو لوگوں کی بھلائی اور خیبر خواہی کے کام کرتے ہیں ۔ مگر قرآن کریم نے ہمارے سامنے اس اصول کو بھی واضح طریقہ پر رکھ دیا ہے کہ جو شخص کوئی بھی نیک کام کرے گا خواہ وہ اللہ کا دوست ہو یا دشمن اس کے نیک کاموں کا اس کو اجر دیا جائے گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ نیک کام جو کوئی انسان ایمان کے بغیر کرتا ہے تو اس کی محنت کا صلہ اس کو اسی دنیا میں مل جاتا ہے لیکن وہی نیک کام اگر ایمان کے ساتھ کیا جائے گا تو اس کا اجر اور صلہ اس دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں اجر وثواب کا دارومدار ایمان پر ہے اور ایمان ہی اس عمل ع کے اجر میں وزن پیدا کرتا ہے۔ ایمان کے بغیر جو بھی عمل کیا جائے گا وہ بھاری نہیں ہلکا ہوگا اتنا ہل کہ کہ وہ آسمانوں کی طرف بلند نہیں ہو سکتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس میں بشارت اور وعدہ ہے کہ مصر یا شام پر عنقریب تسلط ہوا چاہتا ہے مقصود اس سے ترغیب دینا ہے اطاعت کی کہ اطاعت احکام الہییہ کے یہ برکات ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسالت کے منصب پر تو پہلے ہی فائز کردیا تھا اپنی ہم کلامی کا شرف بخشتے ہوئے تختیوں کی شکل میں تورات عطا فرمائی جس میں بنی اسرائیل کے لیے نصیحت اور دین کی متعلقہ تفصیلات درج تھیں۔ قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تحریر کی شکل میں تورات عطا کی تھی شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بنی اسرائیل اہم اور حساس معاملات میں بھی ظاہر پرست واقع ہوئے تھے۔ جس کی بنا پر انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر اس پر اتنا اصرار کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان سے مجبور ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے اپنی قوم کے ستر نمائندے ساتھ لے گئے جنھیں اللہ تعالیٰ نے فوت کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا پر دوبارہ زندہ کیا۔ تفصیل کے لیے اسی سورة کی آیت ١٥٥ کی تلاوت کریں۔ پھر یہ بھی ان کی ظاہر پرستی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی صرف چالیس دن کی غیر حاضری پر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ممکن ہے کہ اسی ظاہر پرستی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تحریری طور پر تورات نازل فرمائی تاکہ تورات کی لکھی ہوئی تختیاں دیکھ کر یہ ایمان لے آئیں۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے ان تختیوں میں ان کی رہنمائی کے لیے ہر مسئلہ لکھ دیا تھا۔ ظاہر ہے تورات کی تحریر کوئی عام تحریر اور اس کی تختیاں کسی انسان کی بنائی ہوئی نہ تھیں نہ معلوم ان تختیوں کے اندر کتنی جاذبیت، کشش اور نورانیت ہوگی۔ اس کی تحریر کتنی خوش نما اور خوبصورت اور دیکھنے والے کو اس تحریر اور تختیوں سے کتناسکون ملتا ہوگا۔ پھر اس میں دین کے متعلق تمام مسائل کا اتنے مؤثر انداز سے احاطہ کیا گیا تھا جس کی نظیر اس سے پہلے دنیا میں نہیں پائی جاتی تھی۔” موعظۃ “ ایسی بات اور انداز کو کہتے ہیں جو انسان کے دل پر براہ راست دستک دے۔ اتنے اوصاف حمیدہ کی حامل کتاب کے بارے میں حکم ہوا کہ اے موسیٰ ! اسے مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ بھی اخلاص کے ساتھ نہایت اچھے طریقے سے اس کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تھام رکھیں یعنی پوری طرح اس پر عمل کرتے رہیں۔ یہی کتاب الٰہی کا سب سے بڑا ادب اور اس کا تقاضا ہے۔ جس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں اس سر زمین کا وارث بنائے گا جس پر فاسق وفاجر لوگ قابض ہوچکے ہیں۔ اس سے مراد اکثر مفسرین نے شام اور فلسطین کی سرزمین لی ہے جو اس وقت ایک ہی ملک شمار ہوتا تھا لیکن کچھ مفسرین نے شام اور فلسطین کے ساتھ مصر کا علاقہ بھی شامل کیا ہے فرعون اور ان کے بڑے بڑے لوگ غرق ہوجانے کے باوجود مصر کے لوگ اس زمانے میں سب سے زیادہ عیاش اور فسق و فجور میں مبتلا تھے۔” دَارُ الْفٰسِقِیْنَ “ سے مراد جہنم کا گھر بھی ہوسکتا ہے۔ جس میں فاسقین کا جانا یقینی ہے۔ اور مومنوں کو جہنم میں جہنمیوں کا انجام بھی دکھلایا جائے گا۔ تفصیل کے لیے سورة المدثر کی ٤٠ تا ٤٧ آیات تلاوت کریں۔ (عن عمر (رض) قال قال رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِینَ ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقران ] ” حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ساتھ اقوام کو بلند کرے گا اور دوسروں کو پست کردے گا۔ “ (أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تَرَکْتُ فیکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا کِتَاب اللّٰہِ وَسُنَّۃَ نَبِیِّہٖ ) [ موطا امام مالک : کتاب الجامع، باب النھی عن القول بالقدر ] ” بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑچلا ہوں جب تک تم ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوسکو گے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تورات تختیوں پر تحریر کی صورت میں نازل فرمائی۔ ٢۔ تورات میں ہر چیز کی وضاحت موجود تھی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل نہ کرنے والے فاسق ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کتاب اللہ سے تمسک کا حکم : ١۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ (آل عمران : ١٠٣) ٢۔ آپ اسے مضبوطی سے تھام لیں جو آپ کو وحی کی گئی ہے۔ (الزخرف : ٤٣) ٣۔ وہ لوگ جو کتاب کو مضبو طی سے تھامتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ایسے نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کیا جاتا۔ (الاعراف : ١٧٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب چند الفاظ اس رسالت کے مضمون اور طریقہ کار کے بارے میں ہیں کہ یہ رسالت کس طرح دی گئی : (وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ) " اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی " روایات اور مفسرین کے درمیان ان تختیوں کے بارے میں اختلافات ہیں ، بعض نے ان کے بارے میں تفصیلات دی ہیں۔ ان تفصیلات کا بیشتر حصہ ان اسرائیلی روایات پر مشتمل ہے جو اسلامی تفاسیر کے اندر داخل ہوگئی ہیں۔ ان روایات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی بات مرفوع نہیں ہے۔ چناچہ ہم اس آیت کو پڑھ کر آگے جانے سے رک جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ان روایات میں جو تفصیلات ہیں ان سے ان الواح کی حقیقت میں نہ اضافہ ہوتا ہے اور نہ کمی۔ یہ تختیاں کیسی تھیں ، کس چیز کی بنی ہوئی تھیں۔ ان پر کس انداز کی تحریر درج تھی ، اس کے بارے میں ہمارے پاس تفصیلات نہیں ہیں ، نہ ان کی کوئی ضرورت ہے ، کیونکہ اصل مقصد تو یہ تھا کہ ان تختیوں میں لکھا ہوا کیا ہے اور کیا تھا ؟ ان میں وہ تمام تفصیلات تھیں جن کا تعلق حضرت موسیٰ کی رسالت سے تھا۔ مثلاً اللہ کا بیان ، اللہ کی شریعت کے احکام ، لوگوں کی اصلاح کے لیے مزید ہدایات ، امت کے حالات اور جن امور کی وجہ سے ان کے اندر بگاڑ پیدا ہوگیا تھا ، یعنی ان کی تاریخ وغیرہ۔ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا۔ اور اس سے کہا " ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں " اللہ کی جانب سے اہم حکم یہ تھا کہ آپ نہایت ہی قوت اور عزم سے ان الواح و ہدایات کو لیں اور اپنی قوم کو سختی سے حکم دیں کہ وہ ان ہدایات پر عمل کریں۔ اگرچہ وہ مشکل ہوں اس لیے کہ وہ ان کی اصلاح حال کے لیے نہایت ہی موزوں تھیں اور احسن تھیں۔ حضرت موسیٰ کو اس انداز میں ہدایات لینے کا حکم دینے کے دو مقصد ہیں۔ ایک یہ ، بنی اسرائیل نے ایک طویل عرصہ تک غلامی کی زندگی بسر کی تھی ، ایک طویل عرصہ تک غلامی کی زندگی بسر کرتے کرتے ان کے اندر اخلاقی بگاڑ پیدا ہوگیا تھا ، لہذا ان کے ساتھ معاملہ کرتے وقت سختی اور سنجیدگی کی اشد ضرور تھی ، تاکہ وہ ان کے اندر فرائض رسالت اچھی طرح ادا کرسکیں اور پھر فرائض منصب خلافت ادا کرسکیں اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ تمام وہ لوگ جو نظریہ حیات کی اساس پر کام کرتے ہوں ان کو اپنے نظریات پر صحیح طرح جم جانا چاہیے۔ اللہ کے نزدیک عقیدہ بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ اس پوری کائنات کے نقطہ نظر سے بھی نظریہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یعنی اس کائنات کے تصرفات اور انسانی تاریخ کے بارے میں انسان کا صاف ستھرا نقطہ نظر ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی کے بارے میں انسان کے افکار صاف ہونے ضروری ہیں۔ یوں انسان کی بندگی صرف اللہ وحدہ کی الوہیت کے لیے مخصوص ہو۔ اس کے بعد اس نظریہ پر مبنی ایک ایسا نظام زندگی قائم ہو جو انسانی زندگی کو یکسر تبدیل کردے اور زندگی کے لیے بالکل ایک نیا انداز مقرر کردے۔ وہ نظام ایسا نہ ہو جس کے تحت جاہلیت چلتی ہے ، جس میں اللہ کے سوا کسی اور کی الوہیت قائم ہوتی ہو۔ غرض پوری زندگی کا ایک ایسا تفصیلی اور جامع نظام جو اس نظریہ حیات پر مبنی ہو۔ ایسے نظام کا قیام ضروری ہے۔ اللہ کے نزدیک واضح عقیدہ اور اس پر مبنی نظام کی بڑی اہمیت ہے۔ اس پوری کائنات کی تخلیق ، اس کے اندر انسان کے وجود اور پھر اس انسان کی تاریخ کے بارے اسلامی نظریہ حیات پر انسان کو بڑی سختی سے جم جانا چاہئے۔ انسان کو اس کے بارے میں سنجیدہ ہونا چاہئے واضح طور پر وہ اپنے نظریات کا اعلان کرے اور دو ٹوک الفاظ میں کرے۔ اس معاملے میں سہل انگاری سے کام نہ لے۔ نرمی اختیار نہ کرے ، رخصتیں تلاش نہ کرے۔ اس لیے کہ یہ بہت ہی اہم اور بنیادی معاملہ ہے۔ اس معاملے کے تقاضے بھی اس قدر مشکل ہیں کہ نرم مزاج ، لچک والے اور رخصتیں تلاش کرنے والے لوگ ان کو پورے نہیں کرسکتے۔ لیکن اسلامی نظریہ حیات پر جمنے اور اسے سختی سے پکڑنے کے معنی یہ بھی نہیں کہ انسان متشدد ، پیچیدہ مزاج اور خشک مزاج ہوجائے۔ اس لیے کہ دین اسلام کی یہ نفسیات نہیں ہیں۔ دین صرف یہ تقاضا کرتا ہے کہ دین کے لیے ایک شخص سنجیدہ ہو ، بات صاف کرتا ہو ، دو ٹوک نظریات رکھتا ہو اور صاف گو ہو۔ یہ باتیں تشدد ، سختی ، خشکی اور بد مزاجی سے الگ ہیں۔ نظریات پر جمنے اور بد مزاجی میں بہرحال فرق ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر کی طویل غلامانہ زندگی نے بنی اسرائیل میں ایسی اخلاقی کمزوریاں پیدا کردی تھیں ، جن کے لیے سختی پر مبنی ہدایات ضروری تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کو جس قدر ہدایات بھی دی گئیں ان میں نہایت ہی سختی پائی جاتی ہے۔ تاکہ روایتی سہل انگاری ، کمزور اخلاقی قوت اور بےراہ روی کا علاج کیا جاسکے اور وہ دین کے معاملے میں درست فکر ، صریح آواز اور واضح انداز اختیار کریں۔ وہ تمام اقوام جو ایک طویل عرصے تک غلام رہی ہوں ان کے اندر ایسی ہی اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ غلامی ذلت ، عاجزی ، ڈر ، طاغوت کی غلامی وغیرہ جن کی وجہ سے ایسے لوگ کج فہم ، دھوکہ باز ، سہل انگار اور محنت و مشقت سے بھاگنے والے ہوتے ہیں۔ آج کل ہمارے دور میں جو اقوام بھی غلام رہی ہیں ان کے اندر یہ صفات موجود ہیں کیونکہ غلامی لوگوں کے ضمیر بدل جاتے ہیں۔ ایسے لوگ نظریات سے دور بھاگتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ نظریات کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے۔ جس طرف دنیا چلتی ہے ، یہ لوگ اسی طرف چلتے ہیں اور جدھر کی ہوا ہو انسان اس طرف بڑی آسانی کے ساتھ چل سکتا ہے۔ یہ ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ کو یہ بشارت بھی دیتے ہیں کہ اگر تم نے اپنے نظریہ حیات کو سختی سے تھامے رکھا تو تمہیں زمین کا اقتدار اعلیٰ نصیب ہوگا اور تم فاسقون کے گھروں کے مالک بن جاؤ گے۔ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ " عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا " آیات کے اس ٹکڑے کا اقرب مفہوم یہ ہے کہ اس سے مراد ارض مقدس ہے جو اس دور میں بت پرستوں کے قبضے میں تھی۔ یہ حضرت موسیٰ کو بشارت تھی کہ تم اس پر قابض ہوگے۔ اگرچہ حضرت موسیٰ کے عہد میں بنی اسرائیل اس میں داخل نہ ہوئے کیونکہ آپ کے دور میں ابھی تک ان کی اخلاقی تربیت مکمل نہ ہوئی تھی۔ ان کے اخلاق ابھی تک درست نہ تھے کیونکہ وہ جب ارض مقدس کے سامنے آئے تو انہوں نے اپنے نبی سے کہہ دیا " اے موسیٰ ! اس میں تو ایک جبار قوم بستی ہے اور ہم اس وقت تک اس میں داخل نہ ہوں گے جب تک وہ اس سے نکل نہیں جاتے۔ ہاں اگر وہ نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہوں گے " ان میں ایک دو شخص سچے مومن تھے ، انہوں نے اصرار کیا کہ شہر میں داخل ہوجاؤ اور حملہ کردو ، یہ دو شخص در اصل الہ سے ڈرنے والے تھے۔ اس پر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ جواب دیا " ہم تو اس شہر میں ہرگز داخل نہ ہوں گے جب تک یہ قوم وہاں موجود ہے۔ تم اور تمہارا رب جاؤ، لڑو ، ہم یہاں بیٹھے ہیں انتظار میں "۔ ان آیات سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ بنی اسرائیل کا مزاج کس قدر بگڑا ہوا تھا۔ وہ کس قدر کج رو تھے اور حضرت موسیٰ ان کی دعوت اور ان کی شریعت کن لوگوں کی اصلاح کے لیے تھی۔ ایسے حالات میں یہ نہایت ہی موزوں ہدایت تھی کہ تورات کی ہدایات کو قوت سے پکڑو اور اپنی قوم سے ان پر سختی سے عمل کراؤ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو چالیس راتیں گزر جانے کے بعد توریت شریف عطا فرمائی جو تختیوں میں لکھی ہوئی تھی اس میں احکام شرعیہ تفصیل سے لکھے ہوئے تھے اور ہر طرح کی نصیحتیں بھی تھیں۔ حلال و حرام کو واضح طریقہ پر بیان فرما دیا تھا۔ اور محاسن و مساوی (اچھے برے کاموں) کو تفصیل سے بتادیا تھا۔ اسی کو فرمایا (وَ کَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَۃً وَّ تَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْءٍ ) کتاب عطا فرمانے کے ساتھ فَخُذْھَا بِقُوَّۃٍ بھی فرمایا کہ اسے قوت اور مضبوطی کے ساتھ لے لو اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا (وَاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِھَا) اپنی قوم کو بھی حکم دو کہ اس کے احکام کو پکڑے رہیں جو اچھے اچھے کام ہیں۔ قال صاحب الروح (ص ٥٩ ج ٩) و معنی احسنھا اشتمالھا علی الاحسن فانہ احسن کالصبر بالاضافۃ الی الانتصار) (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں احکام کے احسن ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ نیکی پر مشتمل ہوں پھر وہ اپنے کرنے والے کے انتصار کی بناء پر احسن بنتے ہیں) ۔ (سَاُورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ ) (میں عنقریب تمہیں نافرمانوں کا گھر دکھا دوں گا) نافرمانوں کے گھر سے کیا مراد ہے ؟ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اس سے مصر مراد ہے جہاں بنی اسرائیل کو (ایک قول کی بناء پر) فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد جانا نصیب ہوا تھا اور بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس سے جبابرہ عمالقہ کی سر زمین مراد ہے جس کے بارے میں سورة مائدہ میں فرمایا : (یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ) (الآیہ) ۔ حضرت یوشع (علیہ السلام) کے زمانہ میں بنی اسرائیل عمالقہ کی سر زمین میں داخل ہوگئے اور وہاں انہیں اقتدار حاصل ہوا۔ یہ علاقہ فلسطین کا تھا جو شام میں ہے۔ صاحب روح المعانی نے دار الفاسقین کی تفسیر میں تیسرا قول بھی لکھا ہے اور وہ یہ کہ اس سے عاد وثمود کے منازل اور ان قوموں کے مساکن مراد ہیں جو ان سے پہلے ہلاک ہوچکے تھے۔ اور چوتھا قول حضرت حسن اور حضرت عطا سے یوں نقل کیا ہے کہ دار الفاسقین سے جہنم مراد ہے۔ اور اگر یہ معنی لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ توریت کے احکام پر عمل کرو۔ خلاف ورزی کرنے کی صورت میں جہنم کے عذاب میں مبتلا ہو گے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

137:“ اَلْاَلْوَاحَ ” سے مراد تورات ہے اور “ شَیْءٍ ” سے ہر وہ چیز مراد ہے جن کی شریعت میں ان کو ضرورت تھی یعنی حلال و حرام کے احکام۔ “ من کل شیء یحتاجون الیه من الحلال والحرام والمحاسن والقبائح ”(روح ج 9 ص 56) ۔ “ مَوْعِظَةً وَّ تَفْصِیْلًا ” مفعول لہ ہیں یا “ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ ” سے بدل ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

145 پھر ہم نے چند تختیوں پر موسیٰ (علیہ السلام) کو ہر قسم کی نصیحت اور ہر ضروری چیز کی تفصیل لکھ دی اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) ان تختیوں کو سنبھال اور پورے عزم اور پوری قوت کے ساتھ خود بھی اس پر عمل کر اور اپنی قوم کو بھی حکم دے کہ وہ اس کے احکام پر جو بہترین ہیں عمل کرتے رہیں اور اس کے بہترین احکام کو پکڑے رہیں میں عنقریب تم کو نافرمانی اور بےحکمی کرنے والوں کا گھر دکھائوں گا۔ یعنی ان تختیوں پر کتاب تورات لکھی ہوئی تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی اور حکم ہوا کہ اس پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرو اور دوسروں سے اس کی اچھی اور بہترین باتوں پر عمل کرائو۔ نافرمانوں کے گھر دکھلانے کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں جہنم اور دنیا میں ذلت و رسوائی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس کی بہتر باتیں یعنی جن کے کرنے کا حکم ہے اور بری باتیں جنکے نہ کرنے کا حکم ہے اور دکھائوں گا گھر بےحکموں کا یعنی اگر تم حکم پر نہ چلو گے تو تم کو اسی طرح ذلیل کریں گے جس طرح شام کا ملک ان سے چھین کر تم کو دیا۔ 12 اس آیت میں ترغیب بھی ہے اور ترہیب بھی مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے فرمانبرداری کی تو تم کو مصر و شام کی حکومت ملے گی اور نافرمانودں کے ملک پر قابض ہوجائوگے اور اگر بےحکمی کروگے تو حکومت سے محروم کردیئے جائو گے اور بےحکموں کی طرح ذلیل و رسوا ہوگے۔