Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 147

سورة الأعراف

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الۡاٰخِرَۃِ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ ؕ ہَلۡ یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۷﴾٪  7

Those who denied Our signs and the meeting of the Hereafter - their deeds have become worthless. Are they recompensed except for what they used to do?

اور یہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور قیامت کے پیش آنے کو جھٹلایا ان کے سب کام غارت گئے ۔ ان کو وہی سزا دی جائے گی جو کچھ یہ کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِأيَاتِنَا وَلِقَاء الاخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ... Those who deny Our Ayat and the meeting in the Hereafter, vain are their deeds. indicates that whoever among them does this, remaining on this path until death, then all his deeds will be in vain. Allah said next, ... هَلْ يُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ Are they requited with anything except what they used to do! meaning, `We only recompense them according to the deeds that they performed, good for good and evil for evil. Surely, as you bring forth, you reap the harvest thereof.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

147۔ 1 اس میں آیات الٰہی کی تکذیب اور احکام کا انکار کرنے والوں کا انجام بتلایا گیا ہے کہ چونکہ ان کے عمل کی اساس عدل و حق نہیں ظلم و باطل ہے۔ اس لئے ان کا نامہ اعمال میں شر ہی شر ہوگا جس کی کوئی قیمت اللہ کے ہاں نہ ہوگی۔ اور اس شر کا بدلہ ان کو وہاں ضرور دیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٤] کافروں کے اچھے اعمال کا بدلہ بھی نہ ملنے کی وجہ :۔ اس لیے کہ کسی عمل کے بارآور ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق ہو اور جس عمل میں یہ تصور ہی موجود نہ ہو کہ وہ عمل اس نیت سے کر رہا ہے کہ آخرت میں مجھے اس کا صلہ ملے گا اس کا صلہ آخر مل بھی کیسے سکتا ہے ؟ یہ تو ان اعمال کا حال ہوگا جو اچھے ہوں گے اور جو عمل اللہ کی نافرمانی اور معصیت کی صورت میں ہوں گے ان کی سزا البتہ ضرور ملے گی اور ملنی بھی چاہیے کیونکہ جو شخص اللہ کی زمین پر رہ کر اس کی مخلوق ہو کر اور اس کا رزق کھا کر اس کی مرضی کے خلاف عمل کرتا ہے اسے سزا آخر کیوں نہ ملے ؟ اس دنیا میں یہی اصول کار فرما ہے اگر ایک غلام اپنے آقا یا ماتحت اپنے افسر کے حکم کے خلاف کوئی کام کرتا ہے تو اس کو اس کی سزا ملتی ہے اور جو کام وہ اپنے مالک کے لیے نہیں کر رہا اس کا بدلہ اس کے مالک کی طرف سے اسے کبھی نہیں ملتا اسے بدلہ صرف اس کام کا ملتا ہے جو وہ اپنے مالک کے حکم یا مرضی کے مطابق کرتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ۝ ٠ ۭ ہَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٤٧ ۧ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٧) اور جو ہماری کتاب اور ہمارے رسول اور بعث بعد الموت (مرنے کے بعد جینے کی) تکذیب کرتے ہیں تو حالت شرک کی نیکیاں بھی انکی برباد ہیں انھیں آخرت میں ان کی کوئی جزاء نہیں ملے گی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٧ (وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَلِقَآءِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ ط) ۔ ایسے لوگ اپنے تئیں بڑی بڑی نیکیاں کمار ہے ہوں گے ‘ مگر اللہ کے ہاں ان کی ان نیکیوں کا کوئی صلہ نہیں ہوگا۔ جیسا کہ قریش مکہ خود کو خادمین کعبہ سمجھتے تھے ‘ وہ کعبہ کی صفائی اور ستھرائی کا خصوصی اہتمام کرتے ‘ حاجیوں کی خدمت کرتے ‘ ان کے لیے دودھ اور پانی کی سبیلیں لگاتے ‘ مگر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر ایمان لائے بغیر ان کے ان سارے اعمال کی اللہ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

105. That the acts of such persons are vain and fruitless is evident from the fact that the acceptance of man's acts by God is subject to two conditions. First, one's acts should conform to the Law laid down by God. Second, man should be prompted by the desire to achieve success in the Hereafter rather than merely in this world. If these conditions are not fulfilled, a person's acts will be of no consequence. He who performs an act in defiance of God's guidance, is guilty of rebellion and is undeserving of God's reward. He who acts only to obtain worldly success, is neither entitled to nor should expect any reward from God in the Hereafter. If someone uses another person's land contrary to his wish, what else can he expect from him than punishment? The same holds true for he who deliberately uses someone's land, knowing well that he is not entitled to any produce after the restoration of that land to its owner. There is no justification for him to expect any share of the produce of that land.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :105 ضائع ہوگئے ، یعنی بار آور نہ ہوئے ، غیر مفید اور لاحاصل نکلے ۔ اس لیے کہ خدا کے ہاں انسانی سعی و عمل کے بار آور ہونے کا انحصار بالکل دو امور پر ہے ۔ ایک یہ کہ وہ سعی و عمل خدا کے قانون شرعی کی پابندی میں ہو ۔ دوسرے یہ کہ اس سعی و عمل میں دنیا کی بجائے آخرت کی کامیابی پیش نظر ہو ۔ یہ دو شرطیں جہاں پوری نہ ہوں گی وہاں لازماً حبطِ عمل واقع ہوگا ۔ جس خدا سے ہدایت لیے بغیر بلکہ اس سے منہ موڑ کر باغیانہ انداز پر دنیا میں کام کیا ، ظاہر ہے کہ وہ خدا سے کسی اجر کی توقع رکھنے کا کسی طرح حقدار نہیں ہو سکتا ۔ اور جس نے سب کچھ دنیا ہی کے لیے کیا ، اور آخرت کے لیے کچھ نہ کیا ، کھلی بات ہے کہ آخرت میں اسے کوئی ثمرہ پانے کی امید نہ رکھنی چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہاں وہ کسی قسم کا ثمرہ پائے ۔ اگر میری مملوکہ زمین میں کوئی شخص میرے منشا کہ خلاف تصرف کرتا رہا ہے تو وہ مجھ سے سزا پانے کے سوا آخر اور کیا پانے کا حق دار ہو سکتا ہے؟ اور اگر اس زمین پر اپنے خاصبانہ قبضہ کے زمانہ میں اس نے سارا کام خود ہی اس ارادہ کے ساتھ کیا ہو کہ جب تک اصل مالک اس کی جرٲت بے جا سے اغماض کر رہا ہے ، اسی وقت تک وہ اس سے فائدہ اُٹھائے گا اور مالک کے قبضہ میں زمین واپس چلے جانے کے بعد وہ خود بھی کسیِ فائدے کا متوقع یا طالب نہیں ہے ، تو آخر کیا وجہ ہے کہ میں اس غاصب سے اپنی زمین واپس لینے کے بعد زمین کی پیداوار میں سے کوئی حصّہ خواہ مخواہ اسے دوں؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

68: اوپر جو یہ فرمایا گیا تھا کہ : میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کو برگشتہ رکھوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں۔ اس سے کسی کو یہ شبہہ ہوسکتا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے کود ان کو اپنی نشانیوں سے برگشتہ کردیا تو ان کا کیا قصور۔ اس شبہ کو اس فقرے کے ذریعے دور فرمایا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اختیار سے کفر پر اڑے رہنے کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تو ہم وہی راستہ اس کے لیے مقدر فرما دیتے ہیں جسے اس نے اپنی مرضی سے اختیار کیا۔ چونکہ وہ چاہتا ہی یہ تھا کہ ہماری نشانیوں سے برگشتہ رہے، اس لیے ہم اس کو اس کی خواہش کے خلاف کسی بات پر مجبور نہیں کرتے۔ بلکہ اسے اس کی خواہش کے مطابق برگشتہ ہی رکھتے ہیں۔ لہذا اس کو جو سزا ملتی ہے وہ خود اپنے ہی عمل کی ملتی ہے جو وہ اپنے اختیار سے مسلسل کرتا آیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

عملوں کے اکارت ہوجانے پر بعضے مفسریں کو یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ آیت ممن یعمل مثقال ذرۃ میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ ذرہ برابر بھی نیکی یا بدی جو کوئی دنیا میں کرے گا قیامت کے دن وہ سب اس کو دکھلائی جاویں گی پھر جبکہ کچھ اچھے عمل ابھی سے ناپیدا ہوگئے یا برے عمل توبہ یا کسی دوسرے اچھے کام کے سبب معاف ہوگئے تو ذرہ ذرہ برابر نیک کام امر بد کام قیامت کے دن دیکھنے کا ہر شخص کو موقعہ کیونکر باقی رہے گا جواب اس شبہہ کا یہ ہے کہ قیامت کے دن کا نام یوم الجزا ہے نیکی بدی کے جزا وسزا کے اس دن دکھلائے جانے کے یہ معنے ہیں کہ نیکی وبدی کی جزا وسزا اس دن ہر آدمی کے سامنے آوے گی اور یہ ظاہر بات ہے کہ ناپیدی اور معافی بھی ایک جزا ہے جس کے عمل ناپیدا یا معاف ہوں گے وہی جزا اس کو دکھلائی جاوے گی۔ معتبر سند سے مسند بزار اور طبرانی میں انس (رض) بن مالک کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سر بمہر اعمال نامے کھولے جاکر اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہونگے اور اسی پیشی کے بعد جن عملوں میں ریا کاری کا کچھ لگاؤ ہوگا وہ عمل پھینک دئے جاویں گے اور خالص نیت کے عمل قبول کر لئے جاویں گے۔ ابوداؤد اور نسائی کے حوالہ سے ابوامامہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بغیر خالص نیت کے عمل کے کوئی عمل بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہوسکتا اس آیت میں عملوں کے ضائع ہوجانیکا جو ذکر ہے یہ گویا اس کی تفسیر ہیں کیونکہ آیت اور ان حدیثوں کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا سے کہ شرک اور ریاکاری یہ دونوں عملوں کے ضائع ہونے کا سبب ہیں اس لئے کہ ریا کاری بھی ایک قسم کا شرک ہے چناچہ معتبر سند سے مسند امام احمد میں محمود بن امید (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریاکاری کو چھوٹا شرک فرمایا ہے معتبر سند سے صحیح ابن خزیمہ میں محمود بن لبید (رض) کی دوسری حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریاکاری کو چھوٹا شرک فرمایا ہے معتبر سند سے صحیح ابن خزیمہ میں محمود بن لبید (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو نیک کام لوگوں کے دکھاوے کے لئے کیا جاوے وہی ریاکاری اور وہی خفیہ شرک ہے اگرچہ بعضے علماء کو محمود بن لبید کے صحابی ہونے میں کلام ہے لیکن امام بخاری اور ابن عبدالبر نے ان محمود (رض) کو صحابی قرار دیا ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:147) ہل۔ استفہام انکاری۔ (نہیں دی جائے گی ان کو جزاء مگر اس فعل کی جس کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی انہوں نے کفر کی حالت میں اگر کوئی نیک عمل کئے بھی مگر خاتمہ کفر پر ہوا تو ان کے تمام اعمال بےکار ہوجائیں گے اور انہیں ان کا وئی بدلہ نہ ملے گا۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ان حکموں کی توفیق نہ ہوگی اور جو اپنی عقل سے کریں گے قبول نہ ہوگا ( مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ور یہ کہ وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا " ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا آخرت کی ہستی کا انکار کیا اور اس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ، کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں۔ حبطت کا لفظ حبوط سے ہے۔ کہتے ہیں حبطت اعمالہم۔ جب وہ زہریلی گھاس چرے اور اس کا پیٹ پھول جائے اور پھر اس سے گیس نکل جائے۔ اس لفظ کو باطل کی قوت کے لیے اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ باطل کے اعمال بظاہر بہت ہی پھلتے پھولتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی حقیقت کچھ نہیں ہوتی جب غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے تو پھر کچھ نہیں رہتا۔ یہ تو مناسب سزا ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی اور آخرت کی جوابدہی سے انکار کیا لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے اعمال کس طرح ختم ہوجاتے ہیں اور برباد ہوجاتے ہیں ؟ نظریاتی اور اعتقادی لحاظ سے تو ہمارا ایمان ہے کہ ان کے اعمال ضائع ہوں گے ، اگرچہ ظاہری حالات ایسے نظر آئیں کہ ان میں ، ان لوگوں کے اعمال کا یہ انجام متوقع نہ نظر آتا ہو۔ لیکن جو کوئی بھی اللہ کی آیات کی تکذیب کرے اور آخرت کی جوابدہی کا یقین نہ رکھے اس کے اعمال آخر کار ضائع اور برباد ہوں گے اور ان کی حیثیت اسی ہوگی جیسے کہ وہ کچھ نہیں ہیں۔ لیکن نظری پہلو سے بھی یہ بات واضح ہے کہ جو لوگ ان آیات و معجزات کی تکذیب کرتے ہیں جو اس پوری کائنات کے صفحات میں بکھرے پڑے ہیں اور ان کی تائید میں وہ آیات و دلائل بھی موجود ہیں جو اللہ کے پیغمبروں نے پیش کیے ، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ آخرت کی جوابدہی کا بھی انکار کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کی روح در اصل مسخ شدہ ہے اور ایسے لوگ اس کائنات کے مزاج اور اس کے قوانین سے سرکش ہیں۔ اس کائنات سے ایسے شخص کا کوئی حقیقی رابطہ نہیں ہوتا اور نہ اس قسم کے لوگ اس سچی جدوجہد کی راہ سے ہم آہنگ ہیں۔ ایسے لوگوں کے اعمال چونکہ کائنات کے رخ ، اس کے مقاصد اور اللہ کے قوانین کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ اعمال اگرچہ بظاہر خیرہ کن ہوں بےحقیقت ہیں۔ اگرچہ بظاہر وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوں ، اس لئے کہ یہ اعمال ان دائمی مضبوط دواعی اور نظریات پر مبنی نہیں ہوتے جو اس پوری کائنات کی بنیاد ہیں۔ ان اعمال کا ہدف اور نصب العین وہ نہیں ہوتا جو اس پوری کائنات کا ہدف اور نصب العین ہے۔ ان کی مثال اس نہر جیسی ہے جو اپنے سرچشمے سے کٹ گئی ہو اور اس نے جلد یا بدیر لامحالہ خشک ہونا ہے۔ جو لوگ ان ایمانی اقدار اور انسانی تاریخ کے درمیان گہرے رابطے کا ادراک نہیں کرسکتے اور جو لوگ تقدیر کے اس اٹل فیصلے کو نہیں پا سکتے جو ان لوگوں کے حق میں صاد ہوچکا ہے جو ان ایمانی اقدار کے منکر ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ غافل ہیں۔ اور انہی کے بارے میں یہ سزا سنائی گئی ہے کہ وہ اللہ کی سنت جاریہ اور ناموس کلی کو نہ پا سکیں گے۔ کیونکہ ان کا رخ پھر گیا ہے اور اب ان کے بارے میں آخری فیصلے کا ظہور باقی ہے۔ جن لوگوں کو اس دنیا کی عمر مختصر نے غرے میں ڈال دیا ہے اور وہ یہ دیکھتے ہیں کہ آخرت سے غافل لوگ بظاہر اس دنیا میں بڑی کامیابی سے زندگی بسر کر رہے ہیں ، ان کو یہ دھوکہ اس سو جن سے ہوگیا جو کسی جانور کو مسوم گھاس کھانے کی وجہ سے لاحق ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جانور تازہ اور موٹا ہوگیا اور وہ بہت ہی صحت مند ہے۔ حالانکہ در حقیقت وہ مرنے والا ہوتا ہے۔ اس دنیا میں جو اقوام نابود ہوکر مٹ چکی ہیں ، اور ان کی جگہ جو دوسری اقوام آکر آباد ہوگئی ہیں۔ وہ ان سابقہ اقوام سے عبرت نہیں لیتیں۔ وہ اللہ کی اس سنت کو نہیں دیکھ رہی ہیں کہ وہ کس طرح اس کائنات میں کام کرتی ہے۔ اللہ کی یہ تقدیر اور اس کا نظام جاری وساری ہے۔ اسی میں کسی وقت بھی ٹھہراؤ نہیں آتا۔ اللہ سب لوگوں پر احاطہ کیے ہوئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ) (جن لوگوں نے ہماری آیات کو اور آخرت کے دن کی ملاقات کو جھٹلایا۔ یعنی آخرت پر ایمان نہ لائے ان کے اعمال اکارت ہوگئے) ۔ دنیا میں جو کام کیے آخرت میں بالکل کام نہ آئیں گے اگرچہ بظاہر نیک کام تھے اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اپنی دنیا بنانے اور دنیاوی ترقی کرنے کے لیے جو کچھ کیا وہ سب برباد ہوگیا کیونکہ آخرت میں یہ چیزیں بالکل کام نہ آئیں گی۔ (ھَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (ان کو ان کے اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا) کفر پر اڑے رہے اس کا بدلہ دائمی عذاب کی صورت میں مل جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

147 اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو اور آخرت کی ملاقات اور یوم آخرت کے پیش آنے کو جھٹلایا تو ان کے تمام اعمال اکارت ہوئے اور ان کی سب محنتیں اور کوششیں برباد ہوئیں اور ان لوگوں کو وہی سزا دی جائے گی اور وہی بدلہ ملے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ یعنی چونکہ آخرت کو مانتے نہ تھے اس لئے کوئی عمل ثواب کی امید پر نہ کرتے تھے اگر کوئی عمل اچھا کیا بھی تو اس کا پھل دنیا میں مل چکا وہاں کچھ بھی نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں الواح دیکر یہ بھی فرمایا کہ قوم کو تقلید کرو کہ عمل کریں اور یہ بھی فرمایا جو بےانصاف ہیں اور حق پرست نہیں ان کے دل میں پھیر دوں گا اس پر عمل نہ کریں گے یعنی ہدایت اور ضلالت دونوں اس کی طرف سے ہے اسی طرح بہشت و دوزخ۔ 12 اعمال کے بارے میں حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ان حکموں کی توفیق نہ ہوگی اور جو اپنی عقل سے کریں گے وہ قبول نہ ہوگا۔