Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 171

سورة الأعراف

وَ اِذۡ نَتَقۡنَا الۡجَبَلَ فَوۡقَہُمۡ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمۡ ۚ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۱﴾٪  11

And [mention] when We raised the mountain above them as if it was a dark cloud and they were certain that it would fall upon them, [and Allah said], "Take what We have given you with determination and remember what is in it that you might fear Allah ."

اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ کو اٹھا کر سائبان کی طرح ان کے اوپر معلق کر دیا اور ان کو یقین ہوگیا کہ اب ان پر گرا اور کہا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ قبول کرو اور یاد رکھو جو احکام اس میں ہیں اس سے توقع ہے کہ تم متقی بن جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Raising Mount Tur over the Jews, because of Their Rebellion Allah tells; وَإِذ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّواْ أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُواْ مَا اتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ And (remember) when We Nataqna the mountain over them as if it had been a canopy, and they thought that it was goin... g to fall on them. (We said): "Hold firmly to what We have given you (the Tawrah), and remember that which is therein (act on its commandments), so that you may fear Allah and obey Him." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas commented on the Ayah, وَإِذ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ (And (remember) when We Nataqna the mountain over them), "We raised the mountain, as Allah's other statement testifies, وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ (And for their covenant, We raised over them the mountain) (4:154)." Also, Sufyan Ath-Thawri narrated that Al-A`mash said that, Sa`id bin Jubayr said that Ibn Abbas said, "The angels raised the Mount over their heads, as reiterated by Allah's statement, وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ (We raised over them the mountain) (4:154)." Al-Qasim bin Abi Ayyub narrated that Sa`id bin Jubayr said that Ibn Abbas said, "Musa later on proceeded with them to the Sacred Land. He took along the Tablets, after his anger subsided, and commanded them to adhere to the orders that Allah ordained to be delivered to them. But these orders became heavy on them and they did not want to implement them until Allah raised the mountain over them, كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ (as if it had been a canopy), that is, when the angels raised the mountain over their heads." An-Nasa'i collected it.   Show more

اسی طرح کی آیت ( وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ ۭ خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 63۝ ) 2- البقرة:63 ) ہے یعنی ہم نے ان کے سروں پر طور پہاڑ لا کھڑا کیا ۔ اسے فرشتے اٹھا لائے تھے ۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے ک... ہ جب موسیٰ علیہ السلام انہیں ارض مقدس کی طرف لے چلے اور غصہ اتر جانے کے بعد تختیاں اٹھا لیں اور ان میں جو حکم احکام تھے ، وہ انہیں سنائے تو انہیں وہ سخت معلوم ہوئے اور تسلیم و تعمیل سے صاف انکار کر دیا تو بحکم الہی فرشتوں نے پہاڑ اٹھا کر ان کے سروں پر لا کھڑا کر دیا ( نسائی میں ) مروی ہے کہ جب کلیم اللہ علیہ صلوات نے فرمایا کہ لوگو اللہ کی کتاب کے احکام قبول کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں سناؤ اس میں کیا احکام ہیں؟ اگر آسان ہوئے تو ہم منظور کرلیں گے ورنہ نہ مانیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بار بار کے اصرار پر بھی یہ لوگ یہی کہتے رہے آخر اسی وقت اللہ کے حکم سے پہاڑ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے سروں پر معلق کھڑا ہو گیا اور اللہ کے پیغمبر نے فرمایا بو لو اب مانتے ہو یا اللہ تعالیٰ تم پر پہاڑ گرا کر تمہیں فنا کر دے؟ اسی وقت یہ سب کے سب مارے ڈر کے سجدے میں گر پڑے لیکن بائیں آنکھ سجدے میں تھی اور دائیں سے اوپر دیکھ رہے تھے کہ کہیں پہاڑ گر نہ پڑے ۔ چنانچہ یہودیوں میں اب تک سجدے کا طریقہ یہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اسی طرح کے سجدے نے ہم پر سے عذاب الٰہی دور کر دیا ہے ۔ پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان تختیوں کو کھولا تو ان میں کتاب تھی جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا اسی وقت تمام پہاڑ درخت پتھر سب کانپ اٹھے ۔ آج بھی یہودی تلاوت تورات کے وقت کانپ اٹھتے ہیں اور ان کے سر جھک جاتے ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

171۔ 1 یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس تورات لائے اور اس کے احکام ان کو سنائے، تو انہوں نے پھر حسب عادت ان پر عمل کرنے سے انکار و اعراض کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر پہاڑ کو بلند کردیا کہ تم پر گرا کر تمہیں کچل دیا جائے گا، جس سے ڈرتے ہوئے انہوں تورات پر عمل کرنے کا عہد ... کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ رفع جبل کا یہ واقعہ ان کے مطالبے پر پیش آیا، جب انہوں نے کہا کہ ہم تورات پر عمل اس وقت کریں گے جب اللہ تعالیٰ پہاڑ کو ہمارے اوپر بلند کرکے دکھائے، لیکن پہلی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے واللہ اعلَم۔ یہاں مطلق پہاڑ کا ذکر ہے۔ لیکن اس سے قبل سورة بقرہ آیت 63 اور آیت 93 میں دو جگہ اس واقعہ کا ذکر آیا ہے۔ وہاں اس کا نام صراحت کے ساتھ کوہ طور بتلایا گیا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٤] اس کی تشریح سورة بقرہ کی آیت نمبر ٦٣ کے تحت لکھی جا چکی ہے وہاں ملاحظہ کرلی جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ ۔۔ : ” نَتَقَ یَنْتِقُ “ کا معنی ” کسی چیز کو زور سے کھینچ کر ہلانا “ ہے۔ (راغب) یہاں پہاڑ کا ذکر ہے اور سورة بقرہ میں طور کا ذکر ہے، یا تو وہ طور نامی پہاڑ تھا اور یا لفظ ” طور “ عام پہاڑ کے معنی میں بھی آتا ہے، دونوں جگہ دونوں مراد ہوسکتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی س... ابقہ سرکشیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے تورات کے احکام پر عمل کا پختہ عہد لینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زلزلے کے ساتھ پہاڑ کو اکھاڑ کر ان کے سروں پر سایہ فگن کردیا اور انھیں یقین ہوگیا کہ یہ ہم پر گرنے ہی والا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ اس ہیبت ناک ماحول میں وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے عمل کا سچا عہد کریں۔ قوت کے ساتھ پکڑنے کا مطلب اس پر عمل کرنا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The next verse (171) described another incident of the Israelites when they were forced to promise their obedience to the law of the Torah. It has also been mentioned in the Surah al-Baqarah. The Arabic word نَتَقنَا signifies drawing or lifting up. In the Surah al-Baqarah the word رَفَعنَا has been used which denotes the act of raising up. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has therefore, taken...  the word نَتَقنَا to signify raising high. The Arabic word ظُلَّہ &Zullah& means a sunshade or a canopy. The verse refers to the time when the Prophet Musa (علیہ السلام) came back from the mount of Sinai with the book of Torah. They found therein many injunctions which they thought were difficult for them, to follow. They started showing their unwillingness for obeying those commandments. Allah commanded the Archangel Jibra&i1 (علیہ السلام) to raise the Mount of Sinai upon their town. The area of this town is reported to have been three square miles. When the mount of Sinai was hanged over their heads they fell down prostrating themselves out of fear and promised their obedience to the Law of Moses (the Torah). The future events, however, witnessed their deviation from the Law every now and again. No compulsion in Faith The above incident gives rise to a question. Why the Israelites were forced to make a promise of their obedience while the Holy Qur&an has declared لَا إِكْرَ‌اهَ فِي الدِّينِ |"There is no compulsion in Faith?|" (2:256) The answer is quite simple. None of the disbelievers has ever been forced to accept faith, nor any one is allowed to use force for this purpose. However, those who have already entered the covenant of faith out of their free will and, later, deviate from the commandments of Allah just for avoiding their commitments, shall essentially be forced to abide by the rules and regulations of the Law. In case of deviation from their duty they must be held liable to punishments prescribed by the Law. This is what exactly happened in this incident. They had already believed in Allah and in His Prophet and had entered the covenant of Faith. What they did was to deny from obeying the Law of the Torah and rightly were forced to fulfill their commitment.  Show more

اس آیت میں لفظ نَتَقْنَا، نتق سے مشتق ہے جس کے معنی کھینچنے اور اٹھانے کے ہیں، سورة بقرہ میں اسی واقعہ کا ذکر لفظ رَفَعنَا سے کیا گیا ہے اس لئے یہاں بھی حضرت ابن عباس نے نَتَقْنَا کی تفسیر رَفَعنَا سے فرمائی ہے۔ اور لفظ ظُلَّـةٌ، ظل بمعنی سایہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سائبان، مگر لفظ سائبان عرف م... یں ایسی چیز کیلئے بولا جاتا ہے جس کا سایہ سر پر پڑتا ہو مگر وہ کسی عمود پر قائم ہو، اور اس واقعہ میں پہاڑ ان کے سر پر معلق کردیا گیا تھا سائبان کی صورت میں نہ تھا اسی لئے اس کو حرف تشبیہ کے ساتھ ذکر کیا گیا۔ معنی آیت کے یہ ہیں کہ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ ہم نے بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ کو اٹھا کر معلق کردیا جس سے وہ سمجھنے لگے کہ اب ہم پر پہاڑ گرا چاہتا ہے، اس حالت میں ان سے کہا گیا (آیت) خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ یعنی مضبوط پکڑو ان احکام کو جو ہم نے تمہیں دیئے ہیں اور یاد رکھو تورات کی ہدایات کو تاکہ تم برے اعمال و اخلاق سے باز آجاؤ۔ واقعہ اس کا یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی خواہش اور فرمائش کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے کتاب و شریعت مانگی اور حسب الحکم اس سلسلہ میں چالیس راتوں کا اعتکاف کوہ طور پر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی یہ کتاب ملی اور بنی اسرائیل کو سنائی تو اس میں بہت سے احکام ایسے پائے جو ان کی طبیعت اور سہولت کے خلاف تھے ان کو سن کر انکار کرنے لگے کہ ہم سے تو ان احکام پر عمل نہیں ہوسکتا، اس وقت حق تعالیٰ نے جبریل امین کو حکم دیا انہوں نے کوہ طور کو اس بستی کے اوپر معلق کردیا جس میں بنی اسرائیل آباد تھے، اس کا رقبہ تاریخی روایتوں میں تین مربع میل بیان کیا گیا ہے، اس طرح ان لوگوں نے موت کو اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو سب سجدہ میں گر گئے اور احکام تورات کی پابندی کا عہد کرلیا، لیکن اس کے باوجود پھر بار بار خلاف ورزی ہی کرتے رہے دین میں جبر واکراہ نہیں اس کا صحیح مطلب اور شبہ کا جواب : یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن کریم کا عام اعلان ہے (آیت) لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ یعنی دین میں جبر واکراہ نہیں کہ کسی کو زبردستی دین حق کے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے، اور اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو دین کے قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ لیکن ذرا غور کیا جائے تو فرق کھلا ہوا ہے کہ کسی غیر مسلم کو اسلام کے قبول کرنے پر کبھی کہیں مجبور نہیں کیا گیا، لیکن جو شخص مسلمان ہو کر اسلامی عہد و میثاق کا پابند ہوگیا اس کے بعد وہ اگر احکام اسلام کی خلاف ورزی کرنے لگے تو اس پر ضرور جبر کیا جائے گا اور خلاف ورزی کی صورت میں سزا دی جائے گی، اسلامی تعزیرات میں بہت سی سزائیں ایسے لوگوں کے لئے مقرر ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ (آیت) لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کا تعلق غیر مسلموں سے ہے کہ ان کو بجبر مسلمان نہیں بنایا جائے گا، اور بنی اسرائیل کے اس واقعہ میں کسی کو اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا گیا بلکہ ان لوگوں نے مسلمان ہونے کے باوجود احکام تورات کی پابندی سے انکار کردیا، اس لئے ان پر جبر واکراہ کرکے پابندی کرنا (آیت) لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے خلاف نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ نَـتَقْنَا الْجَــبَلَ فَوْقَہُمْ كَاَنَّہٗ ظُلَّـۃٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمْ۝ ٠ ۚ خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝ ١٧١ ۧ نتق نَتَقَ الشیءَ : جَذَبَهُ ونَزَعَهُ حتی يسترخِيَ ، كنَتْقِ عُرَى الحِمْل . قال تعالی: وَإِذْ نَتَقْنَا ... الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ [ الأعراف/ 171] ، ومنه استعیر : امرأة نَاتِقٌ: إذا کثُر ولدُها، وقیل : زِنْدٌ نَاتِقٌ: وَارٍ ، تشبيهاً بالمرأة النَّاتِق . ( ن ت ق ) نتق الشئی کے معنی کسی چیز کو کھنیچ کر ڈھیلا کردینے کے ہیں ۔ جیسے نتق عر ی الحمل اس نے بوجھ کی گر ہیں کھول دیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ [ الأعراف/ 171] اور جب ہم نے ان کے سروں پر پہاڑا ٹھا کھڑا کیا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر کثیرالا ولا عورت کو امراۃ ناتق کہا جاتا ہے اور اس عورت کو امراۃ ناتق کہا جاتا ہے اور اس عورت کے ساتھ تشبیہ دے کر زدر وآتش افزوز چقماق کو بھی زند ناتق کہتے ہیں ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ ظُّلَّةُ : سحابةٌ تُظِلُّ ، وأكثر ما يقال فيما يستوخم ويكره . قال تعالی: كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ [ الأعراف/ 171] ، عَذابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ [ الشعراء/ 189] اور ظلۃ سایہ فگن بدلی کو کہتے ہیں اور عام طور پر اس کا استعمال ناخوشگوار مواقع پر ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ [ الأعراف/ 171] گویا وہ سایہ دار بدلی ہے عذاب يَوْمِ الظُّلَّةِ [ الشعراء/ 189] سائبان کی طرح چھا جانیوالے دن کے عذاب نے۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ وقع الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] ، ( و ق ع ) الوقوع کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔ إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعمارل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧١) اور جس وقت ہم نے پہاڑ کو اکھاڑ کر چھت کی طرح اٹھا کر ان کے سروں پر لٹکا دیا اور انھیں پورا یقین ہوگیا کہ اگر ہم نے کتاب کو قبول نہ کیا تو ہمارے اوپر گرا دیا جائے گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے کہا جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس پر پوری مضبوطی اور استقامت سے عمل کرو اور ثواب و عذاب کو یاد رکھو یا یہ کہ ا... س کتاب میں جو اوامرو نواہی ہیں اسے محفوظ رکھو یا یہ کہ جو اس میں حلال و حرام ہیں، اس پر عمل کرو تاکہ غصہ اور عذاب سے نجات حاصل ہو اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) ۔ اب آخری تین رکوعوں میں فلسفۂ دین کے اعتبار سے بہت اہم مضامین آ رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

132. The allusion here is to the event which took place when Moses proclaimed God's Divine Law at the foot of Mount Sinai. Then Moses brought the people out of the camp to meet God; and they took their stand at the foot of the mountain. And Mount Sinai was wrapped in smoke, because the Lord descended upon it in fire; and the smoke of it went up like the smoke of a kiln, and the whole mountain qua... ked greatly. (Exodus 19: 17-18.) This awesome atmosphere was created by God at the time when He made the people of Israel enter into a covenant with Him in order to impress upon them the gravity of the event and the supreme importance of the covenant. It should not be mistakenly assumed, however, that the people of Israel, who were reluctant to make the covenant, were forced to enter into it. In fact they were all believers and had gone to the Mount merely to make the covenant. The extraordinary conditions which God created were such as to make the Israelites realize that making a covenant with God was not an ordinary matter. They were rather made to feel that they were entering into a covenant with none other than Almighty God and that violating it could spell their disaster. This concludes the discourse especially addressed to the Israelites. From here on the discourse is directed to all mankind, and particularly to the people whom the Prophet (peace be on him) addressed directly.  Show more

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :132 اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو موسیٰ علیہ السلام کو شہادت نامہ کی سنگین لوحیں عطا کیے جانے کے موقع پر کوہِ سینا کے دامن میں پیش آیا تھا ۔ بائیبل میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ”اور موسیٰ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا کہ خدا سے ملائے اور وہ پہاڑ کے نیچ... ے آ کھڑے ہوئے اور کوہِ سینا اُوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خداوند شعلہ میں ہو کر اس پر اُترا اور دھواں تنور کے دھوئیں کی طرح اوپر کو اٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا“ ( خروج ١۹: ١۷ ۔ ١۸ ) اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کتاب کی پابندی کا عہد لیا اور عہد لیتے ہوئے خارج میں ان پر ایسا ماحول طاری کر دیا جس سے انہیں خدا کے جلال اور اس کی عظمت و برتری اور اس کے عہد کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہو اور وہ اس شہنشاہ کائنات کے ساتھ میثاق استوار کرنے کو کوئی معمولی سی بات نہ سمجھیں ۔ اس سے یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ وہ خدا کے ساتھ میثاق باندھنے پر آمادہ نہ تھے اور انہیں زبردستی خوف زدہ کر کے اس پر آمادہ کیا گیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب اہل ایمان تھے اور دامن کوہ میں میثاق باندھنے ہی کے لیے گئے تھے ، مگر اللہ تعالیٰ نے معمولی طور پر ان سے عہد و اقرار لینے کے بجائے مناسب جانا کہ اس عہد و اقرار کی اہمیت ان کو اچھی طرح محسوس کرادی جائے تا کہ اقرار کرتے وقت انہیں یہ احساس رہے کہ وہ کس قادر مطلق ہستی سے اقرار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ بد عہدی کرنے کا انجام کیا کچھ ہو سکتا ہے ۔ یہاں پہنچ کر بنی اسرائیل سے خطاب ختم ہو جاتا ہے اور بعد کے رکوعوں میں تقریر کا رخ عام انسانوں کی طرف پھرتا ہے جن میں خصوصیت کے ساتھ روئے سخن ان لوگوں کی جانب ہے جو براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب تھے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

87: یہ واقعہ سورۃ بقرہ (63:2) اور سورۃ نساء (154:4) میں بھی گذرا ہے اور سورۃ بقرہ کی متعلقہ آیت کے تحت ہم نے اس کا خلاصہ بیان کیا ہے وہاں ہم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ عربی زبان کے لحاظ سے اس آیت کا یہ ترجمہ بھی ممکن ہے کہ : ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اس طرح زور زور سے ہلایا کہ انہیں یہ گمان ہوگیا کہ وہ ... ان کے اوپر گرنے والا ہے۔ْ  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧١۔ جب فرعون کو اللہ تعالیٰ نے غرق کر کے ہلاک کردیا تو بنی اسرائیل کو بڑی خوشی اور آزادی حاصل ہوئی ایک مدت دراز سے بنی اسرائیل فرعون کی قید اور طرح طرح کی سختیوں میں مبتلا تھے ان سختیوں سے چھوٹ جانے اور اس طرح کے دشمن قوی اور زبردست کے ایک دم میں ہلاک ہوجانے سے بنی اسرائیل کے دلوں میں اللہ تعالیٰ ک... ی معرفت بڑھی اور اس کی قدرت کا یقین زیادہ پیدا ہوا ایسی حالت میں پہلے تو انہوں نے حضرت موسیٰ سے پورا عہد کیا کہ جس اللہ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے اس کی طرف سے کچھ احکام آجاویں گے تو ہم اس کی مرضی نامرضی پہچان کر اس کے موافق پورا عمل کریں گے جب تورات نازل ہوئی تو بنی اسرائیل نے اس کے احکام کو سخت خیال کر کے ان احکام کے قبول کرنے سے انکار کیا اس وقت حضرت جبرئیل نے اللہ کے حکم سے ان کے سر پر پہاڑ اٹھایا اور زبردستی ان سے توریت کی تعمیل کرائی بعضے مفسروں نے اس آیت کی تفسیر میں یہ اعتراض جو کیا ہے کہ بموجب آیت لا اکراہ فی الدین (ہ : ٢٥٦) کے اس طرح کی زبردستی تم دین کے لئے تردد طلب ہے اوپر کے بیان سے اب وہ اعتراض باقی نہیں رہا کس لئے کہ بنی اسرائیل پر وہ پہاڑ بدعہدی کی سزا میں اٹھایا گیا ہے معتبر سند سے ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے ابوہریرہ کی حدیث سورة بقرہ میں گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہدایت کے بعد وہی قوم گمراہ ہوتی ہے جو دین کی باتوں کو زبردستی کے جھگڑوں میں ڈال دیوے ١ ؎۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے تسلیم کرنے میں زبردستی کے جھگڑے جو نکالتے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ بات یاد دلائی ہے کہ جس تورات پر عمل کرنے کا عہد تمہارے بڑوں سے لیا جا چکا ہے اسی تورات میں نبی آخر الزمان کے اوصاف اور ان پر ایمان لانے کا عہد موجود ہے پھر اس قدر سخت ہدایت کے بعد کتاب آسمانی کے برخلاف طرح طرح کی زبردستی کے جھگڑوں کا نکالنا بڑی گمراہی کی بات ہے اس لئے تو رات پر عمل کرنے کا عہد تمہارے بڑوں سے لیا جاچکا ہے اسی تو رات میں نبی آخرالزمان کے اوصاف اور ان پر ایمان لانے کا عہد موجود ہے پھر اس قدر سخت ہدایت کے بعد کتاب آسمانی کے برخلاف طرح طرح کی زبردستی کے جھگڑوں کا نکالنا بڑی گمراہی کی بات ہے اس لئے تو رات کا عہد یاد کرکے اس کے موافق تم لوگوں کو عمل کرنا اور بدعہدی کے وبال سے ڈرنا چاہئے :۔ ١ ؎ الترغیب و الترہیب ج ١ ص ٤٠ الترہیب من المراء دالجدل۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:171) نتقنا۔ ماضی جمع متکلم نتق سے (باب نصر) ہم نے اٹھایا۔ (سیوطی) ہم نے اکھاڑ دیا (بغوی) ہم نے معلق کردیا (فرار) نتق (باب ضرب و نصر) کھینچنا۔ ہلانا۔ بات کہنا کسی چیز کو کھینچنا اور بلانا اس طرح کہ وہ ڈھیلی پڑجائے (راغب) لسان العرب میں ہے کہ النتق۔ الزمزعۃ۔ والھز والجذب والنقص یعنی نتق کا معنی جھٹ... کا دینا۔ روز سے بلانا۔ کھینچنا اور جھاڑنا ہے۔ جب پہاڑ میں زلزلہ آتا ہے تو یہ کیفیت رونما ہوتی ہے۔ اور جو لوگ پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہوتے ہیں انہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ ان پر ابھی گرا چاہتا ہے۔ اس قسم کی صورت حال سے بنی اسرائیل کو دو چار کردیا گیا۔ ظلۃ۔ سائبان کی طرح سایہ دار بدلی۔ پھر ہر چیز پر جو سئیبان کی طرح چھانیوالی ہو اس پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے واذا غشیہم موج کا الظلل (31:32) جب (بادلوں کی طرح) سمندر کی بڑی بڑی موجیں انہیں ڈھانپ لیتی ہیں۔ الجبل سے مراد کوہ طور ہے۔ واقع۔ گرپڑنے والا۔ وقع سے (باب فتح) اسم فاعل واحد مذکر۔ خذوا۔ قلنا لہم خذوا۔ ما اتینکم۔ یعنی تورات۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یہ وقعہ اس وقت پر پیش آیا جب توراۃ کے احکام سن کر بن اسرائیل شرارت سے کہنے لگے کہ اتنے احکام کی پیروی ہم سے نہ ہو سکے گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے طور کو حکم دیا جو ان کے سروں پر چھتری کی طرح چھا گیا۔ اس حال میں اپنے لیے کوئی چارہ کار نہ پاکر انہوں نے توراۃ کے احکام پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ ( ابن ک... ثیر  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ چھت کے ساتھ تشبیہ بالائے سرہونے میں ہے معلق ہونے میں نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کو تو رات کے ساتھ وابستہ رکھنے کے لیے ان کے سروں پر کوہ طور کا اٹھایا جانا۔ بنی اسرائیل پر کوہ طور کو اٹھائے جانے کا واقعہ قرآن مجید میں چار مرتبہ بیان ہوا ہے سورة البقرۃ، آیت : ٦٣، ٩٣ اور سورة النساء ١٥٤ میں اس کے لیے ” وَرَفَعْنَا “ کا لفظ استعمال ہوا۔ جس کا معن... یٰ ہے ہم نے ان پر طور کو بلند کیا۔ جس کے بارے میں بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ کوہ طور کو جڑ سے نہیں اٹھایا گیا تھا۔ بلکہ یہ شدید زلزلہ کے باعث اس طرح ڈولنے اور حرکت کرنے لگا کہ انھوں نے سمجھا کہ بس یہ پہاڑ ہمارے اوپر گرنے ہی والا ہے لیکن یہاں قرآن نے ” نَتَقْنُا الْجَبَلَ فَوْ قَہُمْ “ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ جن کا معنیٰ ہے کہ ہم نے کوہ طور کو بنیاد سے اٹھا کر ان کے سروں پر منڈلایا۔ مزید فرمایا کہ پہاڑ ان کے سروں پر ” ظُلَّۃٌ“ کی مانند ہوا۔ ظُلّہ کا معنی ہے سائبان جب انسان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی قدرت و سطوت کے بجائے پہاڑ کی جسامت اس کی گہرائی اور اونچائی کی طرف مائل ہو تو پھر اسے یہ بات سمجھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے کہ اتنا بڑا پہاڑ کس طرح ان کے سروں کے اوپر منڈلایا جاسکتا ہے۔ لیکن جب انسان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی قدرت و سطوت کی طرف مائل ہو تو اسے یہ سمجھنے میں کوئی مشکل اور کسی تاویل کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ جو قادر مطلق ہمارے سروں پر آسمانوں کو بلا سہارا اربوں سال سے قائم رکھے ہوئے ہے اور جس نے زمین کو پانی کے اوپر بچھا رکھا ہے اور جو کھربوں ٹن بادلوں کو ہمارے سروں پر منڈلا تا ہے اس قادر مطلق کے سامنے کوہ طور کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اس لیے قرآن کے الفاظ کا حقیقی مفہوم اور لفظی معنیٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ لاکھڑا کیا تھا اور جب ان کو یقین ہوگیا کہ یہ تو ہمارے اوپر گرنے ہی والا ہے تب انھوں نے اقرار کیا تھا۔ قرآن مجید میں ” ظن “ کا لفظ اکثر مقامات پر یقین کے معنوں میں آیا ہے۔ یاد رہے کہ بنی اسرائیل جیسی مجرم قوم محض گمان کی بنیاد پر ماننے والی نہ تھی۔ لہٰذا یہاں ظن سے مراد یقین کرلینا ہے۔ اس حالت میں انھیں حکم ہوا کہ جو کچھ ہم تمہیں دے رہے ہیں ا سے مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور اس سے رہنمائی حاصل کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکو۔ لیکن یہ قوم اس قدر منافق اور ظالم تھی کہ انھوں نے بظاہر بلند آواز سے کہا کہ ہم نے سن لیا لیکن اپنے دلوں میں کہہ رہے تھے کہ ہم نہیں مانیں گے۔ قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ اتنی بڑی سرکشی اور نافرمانی کا سبب ان کا شرک کرنا تھا۔ کیونکہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پوری طرح سرایت کرچکی تھی۔ (وَإِذْ أَخَذْنَا میثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّورَخُذُوا مَا آَتَیْنَاکُمْ بِقُوَّۃٍ وَاسْمَعُوا قالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَأُشْرِبُوا فِی قُلُوبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ قُلْ بِءْسَمَا یَأْمُرُکُمْ بِہٖ إِیمَانُکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ )[ البقرۃ : ٩٣] ” اور جب ہم نے طور کو تمہارے اوپر اٹھا کر تم سے اقرار لیا کہ جو کتاب ہم نے نہیں دی ہے اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونا اور غور سے سننا۔ تو تمہارے اسلاف کہنے لگے کہ ہم نے سن لیا اور (دل میں کہا) ہم مانیں گے نہیں۔ ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑا ان کے دلوں میں رچ بس گیا۔ آپ ان سے کہیے اگر تم مومن ہو تو تمہارا یہ ایمان تمہیں بری باتوں کا حکم دیتا ہے۔ “ ایسی کیفیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید قبول کرنا اور ہدایت کے راستہ پر آنا مشکل ترین عمل بن جاتا ہے۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ جب تک انسان قلبی طور پر ہدایت کی طرف راغب نہ ہو۔ اسے جبراً کوئی بات منوائی نہیں جاسکتی۔ جبری ہدایت جبر کے قائم رہنے تک رہتی ہے۔ جونہی جبر ختم ہوگا وہ شخص برائی کی طرف پلٹ جائے گا۔ البتہ کلمہ گو کو جبراً نماز، روزہ اور نیک کاموں کی طرف راغب کرنا حکومت کا فرض ہے لیکن غیر مسلم کو جبراً مسلمان نہیں بنایا جاسکتا۔ مسائل ١۔ بنی اسرائیل کے سروں پر کوہ طور بلند کیا گیا تھا۔ ٢۔ مسلمان کو جبراً اسلام پر عمل کرنے کا حکم دیاجا سکتا ہے۔ ٣۔ غیر مسلم کو جبراً مسلمان نہیں کیا جاسکتا۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ کے فوائد : ١۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : ٣١ تا ٣٣) ٢۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٣۔ متقی کا ہر کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٤۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو بےخوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦١ تا ٦٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس قصے کے آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو کس طرح پکڑا۔ ۔۔۔ وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ ۔ یہ ناقابل فراموش عہد تھا ، کیونکہ یہ ایسے ظروف و احوال میں لیا گیا تھا جسے بھلا نہیں جاسکتا۔ یہ عہد اس وقت لیا گیا کہ جب پہاڑ ان پر اس طرح چھا گیا کہ گویا چھتری ہے۔ وہ یہی گمان کر رہ... ے تھے کہ ابھی گرا۔ اس لیے کہ عہد لیتے ہی وہ سرکشی کرنے لگے تھے۔ اس لیے ان سے ایسی صورت میں عہد لیا گیا تھا کہ اس کے بعد وہ دوبارہ عہد شکنی کے بارے میں سوچ ہی نہ سکیں۔ ان غیر معمولی حالات میں ان سے کہا گیا کہ کتاب اللہ کو سنجیدگی سے لو۔ سختی سے اس پر عمل کرو ، اس میثاق کے بعد بد عہدی ، سست روی اور پسپائی اختیار نہ کرو ، کتاب اللہ کی ہدایات کو یاد رکھو۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح تمہارے دل پسیج جائیں اور تمہارا تعلق باللہ قائم رہے۔ لیکن بنی اسرائیل ، بنی اسرائیل ہی رہے۔ ان پر اللہ کی بات سچ ثابت ہوگئی تھی ، اللہ نے انہیں اپنے وقت کی سپر پاور بنا دیا تھا۔ ان پر نعمتوں کی بارش کردی تھی۔ لیکن انہوں نے اللہ کا شکر ادا نہ کیا۔ اللہ کے عہد کا کوئی پاس نہ رکھا۔ ان کو میثاق الٰہی یاد ہی نہ رہا اس لیے وہ اس انجام تک پہنچے ورنہ اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

170: یہ یہود کے قول کی شناعت پر دوسری دلیل ہے یعنی اگر وہ بخشے ہوئے ہوتے تو کوہ طور ان پر معلق کر کے ان سے تورات کو قائم کرنے کا عہد کیوں لیا جاتا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے سامنے تورات پیش کی اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا حکم دیا تو وہ بگڑ گئے اور کہنے لگے اس کے احکام تو سخت ہی... ں ہم سے ان پر عمل نہیں ہوسکتا۔ کا یہ انکار چونکہ سراسر عنادًا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل (علیہ السلام) کو حکم دیا۔ انہوں نے کوہ طور کو اٹھا کر ان کے سروں پر معلق کردیا۔ بنی اسرائیل کو یقین ہوگیا کہ وہ ضرور ان پر گر پڑے گا تو انہوں نے عہد کیا کہ وہ تورات کے احکام پر ضرور عمل کریں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

171 اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جس وقت بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ کو اس طرح معلق کردیاد جیسے وہ ایک سائبان ہے یعنی پہاڑ ان کے سروں پر چھت کی طرح معلق ہوگیا اور وہ بنی اسرائیل یہ سمجھ گئے کہ وہ پہاڑ ان پر گراہی چاہتا ہے اور ان کو حکم دیا گیا کہ جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس کو پوری قوت اور کامل عزم ک... ے ساتھ لو اور مضبوطی کے ساتھ قبول کرو اور جو کچھ اس کتاب میں مذکور ہے اس کو یاد رکھو توقع ہے کہ تم بچ جائو۔ یعنی جس طرح کوئی سائبان یا چھت ہوتی ہے اس طرح پہاڑ کا ایک ٹکڑا ان پر معلق کردیا گیا اور سمجھے اور ان کو یقین ہوگیا کہ یہ پہاڑ ہم پر گرپڑے گا۔ اس وقت ان کو حکم ہوا کہ جو توریت ہم نے تم کو دی ہے اس کو قبول کرو اور اس کے احکام کو یاد رکھو تاکہ تم گناہوں سے بچ کرمتقی بن جائو واقعہ کی تفصیل پہلے پارے میں گزر چکی ہے۔  Show more