Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 173

سورة الأعراف

اَوۡ تَقُوۡلُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَشۡرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ۚ اَفَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ ﴿۱۷۳﴾

Or [lest] you say, "It was only that our fathers associated [others in worship] with Allah before, and we were but descendants after them. Then would You destroy us for what the falsifiers have done?"

یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوْ تَقُولُواْ إِنَّمَا أَشْرَكَ ابَاوُنَا مِن قَبْلُ ... unaware. Or lest you should say: "It was only our fathers aforetime who took others as partners in worship along with Allah," ... وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ and we were (merely their) descendants after them; will You then destroy us because of the deeds of men who practiced falsehood." وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الايَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

173۔ 1 یعنی ہم نے یہ اخذ عہد اپنی ربوبیت کی گواہی اس لئے لی تاکہ تم یہ عذر پیش نہ کرسکو کہ ہم تو غافل تھے یا ہمارے باپ دادا شرک کرتے تھے، یہ عذر قیامت والے دن بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٦] عہدِالست اور اتمام حجت :۔ اس ازلی عہد کی اللہ تعالیٰ نے دو اغراض بیان فرمائیں ایک یہ کہ انسان پر اتمام حجت ہوجائے اور کوئی مشرک، ملحد، کافر یا نافرمان انسان قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو اس حقیقت کا پتہ ہی نہ چل سکا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عہد کو سمجھنے کی استعداد بھی انسان کے اندر رکھ دی ہے اور خارج میں انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں بھی بھیج دیں اور دوسری یہ کہ انسان اپنی سابقہ نسلوں پر یا بگڑے ہوئے ماحول پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر شخص سے یہ عہد انفرادی طور پر لیا گیا تھا وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اصل میں مشرک یا قصوروار تو ہمارے بڑے بزرگ تھے اور ہمیں محض ان کی اولاد ہونے کی سزا کیوں دی جا رہی ہے ؟ معتزلہ کا اس عہد الست سے انکار اور اس کی تردید :۔ عہد الست کے وقت تمام بنی آدم کی ارواح کو حاضر کرنے کا قصہ بہت سی کتب احادیث مثلاً ترمذی، ابو داؤد، مالک اور احمد میں کئی صحابہ سے منقول ہے اس کے باوجود معتزلہ نے اس قصہ کا انکار کیا ہے اور ایسی احادیث کو خبر واحد کی بنا پر رد کردیا ہے وہ اس آیت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت اس طرح نکالی کہ وہ بصورت نطفہ پشت آباء میں تھے۔ پھر وہاں سے اپنی ماؤں کے رحموں میں آئے پھر ان کو علقہ، پھر مضغہ وغیرہ مراحل طے کرا کے کامل الخلقت بنا کر ماؤں کے پیٹ سے نکالا پھر عقل و حواس عطا کیا جس سے وہ کائنات میں غور کر کے اس کی وحدانیت پر دلائل قائم کرنے کے قابل ہوئے۔ سو یہی دلائل گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عہد اور خود ان کو اس بات پر گواہ بنانا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کائنات میں ایسے دلائل پیدا کرنا ہی گویا اقرار لینا اور ان کا اس حالت میں زبان حال سے اقرار کرلینا اور گواہ بننا ہے۔ معتزلہ اپنے اس مطلب کے حق میں دو دلائل پیش کرتے ہیں ایک نقلی، دوسری عقلی۔ نقلی دلیل یہ ہے کہ اس آیت میں آدم (علیہ السلام) کا ذکر ہے اسی طرح بنی آدم کی وجہ سے من ظہورہم کے الفاظ آئے ہیں اگر یہ قصہ سیدنا آدم (علیہ السلام) سے ہی متعلق ہوتا تو من ظہور ہم کی بجائے من ظہرہ آنا چاہیے تھا۔ ان کی اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ سلسلہ وار ہر ایک نبی کی پشت سے اس کی اولاد نکالی جو تاقیامت پیدا ہونے والی ہے۔ مثلاً زید کو عمرو کی پشت سے اور عمرو کو اس کے باپ خالد کی پشت سے علیٰ ہذا القیاس تو لامحالہ اوپر کی جانب سیدنا آدم (علیہ السلام) پر ہی یہ سلسلہ منتہی ہوگا کیونکہ سب بنی آدم کے وہی باپ ہیں یعنی آدم (علیہ السلام) کی اولاد پھر اس کی اولاد علیٰ ہذا القیاس تمام بنی آدم کی ارواح حاضر کرلی گئیں جن میں آدم (علیہ السلام) بھی شامل اور موجود تھے اور قیامت تک ان کی ہونے والی ساری اولاد بھی۔ اب اگر آدم (علیہ السلام) کے اور من ظہرہ کے الفاظ ہوں تو بھی یہی مفہوم نکلتا ہے جو بنی آدم اور من ظہورہم کے الفاظ آنے سے نکلتا ہے گویا الفاظ کے اختلاف کی وجہ سے مفہوم میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اور ان کی عقلی دلیل یہ ہے کہ عہد تو اہل عقل و ادراک سے لیا جاتا ہے اور ارواح کو عقل و ادراک نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہم کو یاد بھی ہونا چاہیے تھا حالانکہ ایسا عہد کسی کو یاد نہیں اس دلیل کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے۔ ان دو دلائل کے بعد معتزلہ نے جو اس آیت کا مطلب پیش فرمایا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کائنات میں دلائل پید اکر دینا ہی گویا اقرار لینا ہے اور لوگوں کا یا نبی آدم (علیہ السلام) کا اس حالت میں زبان حال سے اقرار کرلینا اور گواہ بننا ہے۔ بالفاظ دیگر کوئی واقعہ بھی ظہور میں نہیں آیا۔ اللہ نے کائنات پیدا کردی تو اللہ کا اقرار لینا ہوگیا اور لوگوں نے اس کائنات کو دیکھ لیا تو یہ ان کا اقرار کرلینا اور گواہ بننا ہوگیا اس توجیہہ میں جتنا وزن ہے وہ آپ خود ہی ملاحظہ فرما لیجئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَكَ ۔۔ : یا یہ عذر پیش کرو کہ ہم تو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی شرک کی راہ پر چلتے رہے، ہمارا کیا قصور ہے، مطلب یہ ہے کہ شرک کے بارے میں مقلد کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔ ” الْمُبْطِلُوْنَ “ سے مراد آباء و اجداد ہیں، یعنی یہ کہنا ہے کہ اصل مجرم وہی ہیں ہم نہیں، اس قسم کے عذر کا وہاں کوئی موقع نہیں ہوگا، کیونکہ ابتداءً ہر شخص کی فطرت میں اپنے رب کی پہچان اور اس کی توحید رکھ دی گئی ہے، پھر اس کی یاد دہانی اور تفسیر و تشریح کے لیے رسول بھیجے اور کتابیں نازل فرمائی گئی ہیں اور کائنات میں اس کے دلائل رکھ دیے گئے ہیں اور ان کے فہم کے لیے عقل بھی عنایت کی گئی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Another possible excuse from them was to say: أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَ‌كَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّ‌يَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧٣﴾ |"Or you should say, |"It was our forefathers who associated partners with Allah and we were (only) a progeny after them. So, would you destroy us on account of what the false ones did?|" The verse precludes them from seeking refuge in saying that they were unaware of the Truth. Being a progeny of their forefathers they only followed their path. Therefore they should not be punished for the error of their forefathers. The verse has said that they shall not be punished for the acts of their forefather. It was their own fault and their apathetic attitude that led them to this disaster. It is because the covenant had sown the seed of Truth in their heart and it was not difficult for them to decide that the stones, shaped by themselves into idols, or the fire, the trees and other created beings could, in no way, be considered as being their creator or possessing powers of helping them in their need.

اس کے بعد دوسری آیت میں ارشاد فرمایا، (آیت) اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَكَ اٰبَاۗؤ ُ نَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ ، یعنی یہ اقرار ہم نے اس لئے بھی لیا ہے کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ عذر نہ کرنے لگو کہ شرک وبت برستی تو دراصل ہمارے بڑوں نے اختیار کرلی تھی اور ہم تو ان کے بعد ان کی اولاد تھے، کھرے کھوٹے اور صحیح غلط کو نہیں پہچانتے تھے اس لئے بڑوں نے جو کچھ کیا ہم نے بھی اسی کو اختیار کرلیا تو بڑوں کے جرم کی سزا ہمیں کیوں دی جائے۔ حق تعالیٰ نے بتلا دیا کہ دوسروں کے فعل کی سزا تم کو نہیں دی گئی بلکہ خود تمہاری غفلت کی سزا ہے کیونکہ اس اقرار ازلی نے انسان میں ایک ایسی عقل و بصیرت کا تخم ڈال دیا تھا کہ ذرا بھی غور و فکر سے کام لیتا تو اتنی بات سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں تھا کہ یہ پتھر جن کو ہم نے اپنے ہاتھوں تراشا ہے، یا آگ اور پانی، اور درخت یا کوئی انسان، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کو کوئی انسان اپنا پیدا کرنے والا اور پروردگار یا حاجت روا مشکل کشا یقین کرسکے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَكَ اٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّۃً مِّنْۢ بَعْدِہِمْ۝ ٠ ۚ اَفَتُہْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ۝ ١٧٣ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٣) اور یہ نہ کہو کہ عہد شکنی تو ہم سے پہلے ہمارے بڑوں نے کی تھی اور ہم تو چھوٹے تھے ہم نے تو ان کی پیروی کرلی، تو کیا آپ ہمیں ہم سے پہلے ان مشرکوں کی بدعہدہ پر عذاب دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٣ (اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْم بَعْدِہِمْ ج) (اَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ ) ہمارے بڑے جو راستہ ‘ جو طور طریقے چھوڑ گئے تھے ‘ ہم تو ان پر چلتے رہے ‘ لہٰذا ہمارا کوئی قصور نہیں ‘ اصل مجرم تو وہ ہیں جو ہمیں اس دلدل میں پھنسا کر چلے گئے۔ یہ با طل طور طریقے انہوں نے ہی ایجاد کیے تھے ‘ ہم تو صرف ان کے مقلد تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

135. The verse describes the purpose of the primordial covenant. The purpose is to make every person responsible for his deeds so that if he rebels against God he will be held fully accountable for that rebelfion. Because of the covenant, no one will be able either to plead for acquittal on grounds of ignorance, or blame his misdeeds on his ancestors. In other words, this primordial covenant has been mentioned as the reason for the inherent awareness in every single person that God is the only Lord and Deity. Thus, none can totally absolve himself of his responsibility on the plea that he was altogether ignorant, or transfer the blame for his error to the corrupt environment in which he was brought up. Now, it can be argued that even if the covenant did take place, no human being remembers its occurrence. No human being is aware that a long time ago, at the time of creation, he had affirmed, in response to God's query, that God indeed was his Lord. This being the case, it can be further argued that no charge can be legitimately brought against man on the ground of a covenant with God which he no longer remembers to have made. In response to this it can be said that had the covenant been made fully in man's conscious memory, it would be meaningless for God to put man to the test in this world. Hence, there can be no denying that the covenant is not preserved in man's conscious memory. But it has doubtlessly been preserved in man's sub-conscious mind. In this respect the primordial covenant is no different from other pieces of knowledge in man's sub-conscious mind. Whatever man has so far achieved in the way of culture and civilization can be attributed to his latent potentialities. All external factors and internal motivations simply account for helping the actualization of those potentialities. Neither education nor training nor environmental factors can bring out anything which is not potentially found in the human mind. Likewise, external factors have no power to root out man's latent potentialities. External factors may, at the most, cause a person to deflect from the course dictated by sound human nature. However, man's sound nature is inclined to resist the pressure of external forces and exert itself in order to find an outlet. As we have said earlier, this is not peculiar to man's religious propensity alone, but is equally true of all his mental potentialities. In this regard the following points are particularly noteworthy: (1) All man's potentialities exist in the sub-conscious mind and prove their existence when they manifest themselves in the form of human action. (2) The external manifestation of these potentialities requires external stimuli such as instruction, upbringing. and attitudinal orientation. In other words, our actions consist of the responses of our inherent potentialities to external stimuli. (3) Man's inner potentialities can be suppressed both by false urges within him as well as external influences by trying to pervert and distort those latent potentialities. The potentialities themselves, however, cannot he totally rooted out. The same holds true of man's intuitive knowledge regarding his position in the universe and his relationship with his Creator. In this connection the following points should be borne in mind: (1) That man has always had such intuitive knowledue is evident from the fact that this knowledge has surfaced throughout history in every period and in every part of the world, and which no power has so far been able to extirpate. (2) That this intuitive knowledge conforms to objective reality, is borne out by, the fact that whenever this knowledge has influenced human life, it has had beneficial results. (3) That in order to manifest itself in his practical life, man's intuitive knowledge has always required external stimuli. The stimuli have consisted of the advent of the Prophets (peace be on them), the revelation of the Heavenly Books, and the striving of those who have tried to follow them and invite others to do the same. It is for this reason that the Qur'an has been desienated as mudhakkir (the reminder): dhikr (remembrance); tadhkirah (admonition). and the function of the Qur'an has been characterized as tadhkir(reminding). What this suggests is that the Prophets, the Heavenly Books and those who invite people to the truth do not seek to provide human beings with something new, something which exists outside of them. Their task rather consists of bringing to the surface and rejuvenating what is latent, though dormant, in man himself. Throughout the ages man has always positively responded to this 'Reminder'. This itself is testimony to the fact that it is embodied in a knowledge which has always been recognized by; man's soul. Forces arising from ignorance and obscurantism, lust and bigotry, and the erroneous teachings and promptings of devils - human as well as jinn - have always attempted to suppress, conceal, and distort the fact that the truth preached by the Prophets is embedded in man's soul. These attempts gave rise to polytheism, atheism, religious misdirection and moral corruption. Despite the combined efforts of the forces of falsehood, however, this knowledge has always had an imprint on the human heart. Hencel, whenever any effort was made to revive that knowledge, it has proved successful. Doubtlessly those who are bent on denying the truth can resort to a great deal of sophistry in order to deny or at least create doubt and confusion about the existence of this knowledge. However on the Day of Resurrection the Creator will revive in man the memory of the first assembly when man made his covenant with God and accepted Him as his Only Lord. On that occasion God will provide evidence to the effect that the covenant always remained imprinted on man's soul. He will also show how from time to time man tried to suppress his inner voice which urged him to respond to the call of the covenant; how again and again his heart pressed him to affirm the truth; how his intuition induced him to denounce the errors of belief and practice; how the truth ingrained in his soul tried to express itself and respond to those who called to it; and how on each occasion he lulled his inner self to sleep because of his lust and bigotry. However a Day will come when man will no longer be in a position to put forth specious arguments to justify his false claims. That will be the Day when man will have no option but to confess his error. It will then be impossible for people to say that they were ignorant, or negligent. In the words of the Qur'an: '...and they will bear witness against themselves that they had disbelieved' (al-An'am 6: 130).

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :135 اس آیات میں وہ غرض بیان کی گئی ہے جس کے لیے ازل میں پوری نسل آدم سے اقرار لیا گیا تھا ۔ اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے خدا سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں ۔ اُنہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہوسکیں گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس ازلی عہد و میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور اس بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بے خبری کے سبب سے ، یا ایک گمراہ ماحول میں پرورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ داری سے بالکلیہ بری ہو سکتا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الواقع عمل میں آیا بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں محفوظ ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغازِ آفرنیش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کا سوال ہوا تھا اور اس نے بلیٰ کہا تھا ؟ اگر نہیں تو پھر اس اقرار کو جس کی یاد ہمارے شعور و حافظہ سے محو ہو چکی ہے ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس میثاق کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہو جاتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائشِ و امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے ۔ لہٰذا اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا ، لیکن وہ تحت الشعور ( Sub-conscious mind ) اور وِجدان ( Intuition ) میں یقیناً محفوظ ہے ۔ اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے ۔ تہذیب و تمدّن اور اخلاق و معلاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوة ( Potentially ) موجود تھا ۔ خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوة تھا اسے بالفعل کر دیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم ، کوئی تربیت ، کوئی ماحول تاثیر اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی ، جو اس کے اندر بالقوة موجود نہ ہو ، ہرگز پیدا نہیں کر سکتی ۔ اور اسی طرح یہ سب موثرات اگر اپنا تمام زور بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ان چیزوں میں سے ، جو انسان کے اندر بالقوة موجود ہیں ، کسی چیز کو قطعی محو کر دیں ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کر سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف ( Pervert ) کر دیں ۔ لیکن وہ چیز تمام تحریفات و تمسیخات کے باوجود اندر موجود رہے گی ، ظہور میں آنے کے لیے زور لگاتی رہے گی ، اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لیے مستعد رہے گی ۔ یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ، ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے: وہ سب ہمارے اندر بالقوة موجود ہیں ، اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت ان چیزوں سے ہمیں ملتا ہے جو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی ہیں ۔ ان سب کے ظہور میں آنے کے لیے خارجی تذکیر ( یاد دہانی ) ، تعلیم ، تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے ، اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا درحقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالقوة موجودات کی طرف سے ملتا ہے ۔ ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تاثیرات دبا کر ، پردہ ڈال کر ، منحرف اور مسخ کر کے کالعدم کر سکتی ہیں مگر بالکل معدوم نہیں کر سکتیں ، اور اسی لیے اندرونی احساس اور بیرونی سعی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی ( Conversion ) ممکن ہوتی ہے ۔ ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت ، اور خالق کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے: اس کے موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں ، زمین کے ہر خطہ میں ، ہر بستی ، ہر پشت اور ہر نسل میں اُبھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کر دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے ۔ اس کے مطابق حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ اُبھر کر بالفعل ہماری زندگی میں کار فرما ہوا ہے اس نے صالح اور مفید نتائج ہی پیدا کیے ہیں ۔ اس کو اُبھرنے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے ، چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی اور ان کی پیروی کرنے والے داعیانِ حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں ۔ اسی لیے ان کو قرآن میں مذکِّر ( یاد دلانے والے ) ذِکر ( یاد ) تذکرہ ( یادداشت ) اور اب ان کے کام کو تذکیر ( یاد دہانی ) کے الفاظ سے تعبیر گیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیان حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اسی چیز کو اُبھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی ۔ نفس انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اس تذکیر کا جواب بصورت لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لیے اُبھر آیا ۔ پھر اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشات نفس اور تعصبات اور شیاطینِ جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک ، دہریت ، الحاد ، زندقہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے ۔ لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لیے تذکیر و تجدید کی کوششیں اسے اُبھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں ۔ بلاشبہ دنیا کی موجودہ زندگی میں حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں وہ اپنی حجت بازیوں سے اس پیدائیشی نقش کے وجود کا انکار کر سکتے ہیں یا کم از کم اسے مشتبہ ثابت کر سکتے ہیں ۔ لیکن جس روز یوم الحساب برپا ہوگا اس روز ان کا خالق ان کے شعور و حافظہ میں روزِ ازل کے اس اجتماع کی یاد تازہ کر دے گا جبکہ انہوں نے اس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا ۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی ان کے اپنے نفس ہی سے فراہم کر دے گا کہ اس میثاق کا نقش ان کے نفس میں برابر موجود رہا اور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے علیٰ رؤس الاشہاد دکھاوے گا کہ انہوں نے کس کس طرح اس نقش کو دبایا ، کب کب اور کن کن مواقع پر ان کے قلب سے تصدیق کی آوازیں اُٹھیں ، اپنی اور اپنے گردوپیش کی گمراہیوں پر ان کے وجدان نے کہاں کہاں اور کس کس وقت صدائے انکار بلند کی ، داعیان حق کی دعوت کا جواب دینے کے لیے ان کے اندر کا چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ اُبھرنے پر آمادہ ہوا ، اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی بنا پر کیسے کیسے حیلوں اور بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور خاموش کر دیتے رہے ۔ وہ وقت جبکہ یہ سارے راز فاش ہوں گے ، حجت بازیوں کا نہ ہوگا بلکہ صاف صاف اقرار جرم کا ہوگا ۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ اس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے ، بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم کافر تھے ۔ یعنی ہم نے جان بوجھ کر حق کا انکار کیا ۔ وَ شَھِدُوْا عَلٓیٰ اَنْفُسِہِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کَافِرِیْنَ ( الاَنعام ، ١۳۰ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:173) اوتقولوا۔ عطف ہے ان تقولوا (آیہ سابقہ پر) افتھلکنا۔ الف لام استفہام کے لئے ہے۔ تہلک مضارع واحد مذکر حاضر نا ضمیر مفعول جمع متکلم ۔ کیا تو ہمیں ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ مبطلون۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر۔ غلط گو۔ جھوٹے۔ اہل باطل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ان تقولی ا یہ اصل میں لئلا تقو لو اس یا کر اھتہ ان تقو لوا ہے یعنی ی عہد تم سے اس لیے لیا کہ ایسانہ ہو کہ تم دنیا میں شرک و نافرمانی کی روش اختیار کرو اور قیامت کے روز تم سے باز پرس کی جائے تو یہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کرنے لگے کہ ہم تو اس سے غافل تھے ( کبیر، ابن کثیر)2 یا یہ عذار پیش کرو کہ ہم تو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی شرک کو راہ پر چلتے رہے ہیں ہمارا قصور کیا ہے مطلب یہ ہے کہ شرک کے بارے میں مقلد کا کوئی عذر قبول نہ ہوگا، ( ابن کثیر۔ کبیر ) ،3 یعنی ہمارے یعنی ہمارے آباؤ اجدانے لہذا وہی مجرم ہیں مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے عذار وہاں کوئی موقع نہ و ہوگا کیونکہ ابتدا ہر شخص توحید پر قائم رہنے کا عہد لیا گیا ہے اور پھر اس عہد کی یاددہانی اور تفسیر و تشریح کے لیے رسول بھیجے اور تکابیں نازل فرمائی گئی ہیں۔ کذافی التفاسیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لیکن یہ اللہ کی نہایت ہی مہربانی ہے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ انسان میں ہدایت اور ضلالت دونوں کی استعداد ہے۔ اور یہ کہ انسان اپنے اس فطری عہد کے باوجود انحراف اختیار کرسکتا ہے۔ جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اسے صحیح راہ سے شیاطین جن و انس منحرف کرتے ہیں اور یہ جن و انس کے شیاطین بڑی ہوشیاری سے انسان کی کمزوریوں کو کام میں لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رحم یہ فرمایا کہ اس نے انسان کو محض اپنی فطری صلاحیت پر ہی ذمہ دار ہدایت نہیں ٹھہرایا۔ اور نہ اپنی عقلی اور فطری قوت ادراک اور تمیز پر اس سے جواب طلبی فرمائی۔ بلکہ سا کے باوجود اللہ نے رسول بھیجے ، جنہوں نے تفصیلات کے ساتھ آیات و دلائل پیش کیے تاکہ وہ فطرت کے اوپر چڑھے ہوئے زنگ کو اتاریں۔ اسے صیقل کریں اور انسان کو خواہشات اور شہوات کی بندگی سے چھڑائیں۔ اگرچہ اللہ کو معلوم تھا کہ رسولوں اور دعوتوں کے بغیر بھی انسان کی ہدایت کے لیے اس کی فطری استعداد اور عقلی قوت کافی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ نے حساب و کتاب کا مدار رسالت اور دعوت پر رکھا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

173 یا یوں نہ کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے باپ دادوں نے کیا تھا اور ہم تو ان کی اولاد اور ان کی نسل میں سے تھے جو ان کے بعد ہوئے تھے یعنی ہم تو محض ان کے تابع تھے جو اپنے بڑوں کو کرتے دیکھا وہی کرنے لگے تو اے خدا ! کیا اب تو ہم کو ان غلط کار اور غلط راہ نکالنے والوں کی وجہ سے اور ان کے غلط فعل کے باعث ہم کو ہلاک کرتا ہے اور ہم کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ یعنی قیامت میں عذاب کو دیکھ کر یہ باتیں نہ کہہ سکو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی اولاد نکالی سب سے اقرار کروایا اپنی خدائی کا پشت میں داخل کیا اس سے مدعا یہ ہے کہ خدا کے ماننے میں ہر کوئی آپ کفایت ہے باپ کی تقلید نہیں اگر باپ شرک کرے بیٹا چاہے ایمان لاوے اگر کسی کو شبہ ہو کہ وہ عہد تو یاد نہیں رہا پھر کیا حاصل تو یوں سمجھے کہ اس کا نشان ہر کسی کے دل میں رہا ہے اور ہر زبان پر مشہور ہے کہ سب کا خالق اللہ ہے ساراجہان قائل ہے اور جو کوئی منکر ہے یا شرک کرتا ہے تو اپنی عقل ناقص کے دخل سے پھر آپ ہی جھوٹا ہوتا ہے۔ 12