Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 21

سورة الأعراف

وَ قَاسَمَہُمَاۤ اِنِّیۡ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾

And he swore [by Allah ] to them, "Indeed, I am to you from among the sincere advisors."

اور ان دونوں کے رو برو قسم کھا لی کہ یقین جانیے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَاسَمَهُمَا ... And he Qasamahuma, swore to them both by Allah, saying, ... إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ "Verily, I am one of the sincere well-wishers for you both." for I was here before you and thus have better knowledge of this place. It is a fact that the believer in Allah might sometimes become the victim of deceit. Qatadah commented on this Ayah, "Shaytan swore by Allah, saying, `I was created before you, and I have better knowledge than you. Therefore, follow me and I will direct you."'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 جنت کی جو نعمتیں اور آسائشیں حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا کو حاصل تھیں، اس کے حوالے سے شیطان نے دونوں کو بہلایا اور یہ جھوٹ بولا کہ اللہ تمہیں ہمیشہ جنت میں رکھنا نہیں چاہتا، اس لئے اس درخت کا پھل کھانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس کی تاثیر ہی یہ ہے جو اسے کھا لیتا ہے، وہ فرشتہ بن جاتا ہے یا دائمی زندگی اسے حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر قسم کھا کر اپنا خیر خواہ ہونا بھی ظاہر کیا، جس سے حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا متاثر ہوگئے اس لئے اللہ والے اللہ کے نام پر آسانی سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے طریقے :۔ ان دو آیات میں شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے طریق کار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس طریق کا آغاز شیطان کا انسان کے دل میں وسوسہ پیدا کرنے سے ہوتا ہے اور وسوسہ سے مراد ہر وہ خیال ہے جس پر عمل کرنا کسی امر الٰہی کی نافرمانی پر منتج ہوتا ہو یعنی انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کا پہلا حملہ اس کے خیالات پر ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ شیطان انسان کی رگوں میں یوں دوڑتا ہے جیسے انسان کا خون دوڑتا ہے (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب صفۃ ابلیس و جنودہ) (٢) شیطان انسان کو کبھی کوئی برا راستہ دکھا کر گمراہ نہیں کرتا، نہ کرسکتا ہے بلکہ ہمیشہ اسے سبز باغ دکھا کر گمراہ کرتا ہے۔ مثلاً اگر یہ کام کرو گے تو تمہاری حالت موجودہ حالت سے بدرجہا بہترین ہوسکتی ہے اور فلاں کام کرنے سے تمہارے کاروبار میں خاصی ترقی ہوسکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ چناچہ سیدنا آدم و حوا (علیہما السلام) کو بھی اس نے ایسے ہی سبز باغ دکھائے کہ اگر تم اس درخت کو کھالو گے تو پھر فرشتوں کی طرح یا فرشتے بن جاؤ گے تو پھر تمہارا اس جنت سے نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ (٣) ابلیس یا اس کے چیلے چانٹے سبز باغ ہی نہیں دکھاتے بلکہ طرح طرح کے دلائل اس کے دل میں ڈال کر اسے یہ یقین دہانی کرا دیتے ہیں کہ جو راہ اس نے دکھائی وہ فی الواقع اس کے لیے بہتری اور اس کی خیر خواہی کی راہ ہے اس میں اس کا اپنا کچھ مفاد نہیں اور اس یقین دہانی کے لیے اگر اسے قسمیں بھی کھانا پڑیں تو کھائے جاتا ہے۔ (٤) شیطان کا سب سے پہلا ہدف انسان کے صنفی یا جنسی اعضاء ہوتے ہیں انسان کو گمراہ کرنے کی سب سے آسان صورت یہ ہوتی ہے کہ فحاشی کے دروازے کھول دے اور جنسی معاملات میں اسے بےراہ رو بنا دے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان میں فطری طور پر جو شرم و حیا کا جذبہ رکھ دیا ہے اس جذبہ کو کمزور تر بنا دے ابلیس اور اس کے چیلوں چانٹوں کی یہ روش آج تک جوں کی توں قائم ہے ایسے لوگوں کے نزدیک تہذیب و تمدن کی ترقی کا کوئی کام شروع ہی نہیں ہوسکتا جب تک وہ عورت کو بےحیا بنا کر بازار میں نہ لا کھڑا کریں اور اختلاط مرد و زن کی ساری راہیں کھول نہ دیں۔ عورت کے گھر میں رہ کر بچوں کی دیکھ بھال کو ان لوگوں نے عورت کے لیے قید خانے کا نام دے رکھا ہے اور پردے کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور یہ سب کچھ شیطان کی سکھائی ہوئی چالیں ہیں۔ اور یہ خیال کہ شیطان نے پہلے حوا (علیہا السلام) کو گمراہ کیا اور پھر حوا (علیہا السلام) کے کہنے پر سیدنا آدم (علیہ السلام) نے بھی اس درخت کا پھل کھالیا غالباً اسرائیلیات سے لیا گیا ہے کتاب و سنت میں اس کی کوئی صراحت نہیں ملتی۔ قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے دونوں سے وعدے وعید کیے اور دونوں اس کے چکمے میں آگئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ نے اس درخت کے قریب جانے سے سیدنا آدم (علیہ السلام) و حوا کو منع کردیا تھا تو پھر وہ کیسے شیطان کے دام میں پھنس گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مدتوں گزر چکی تھیں کہ آدم و حوا دونوں عیش و آرام سے جنت میں رہ رہے تھے اور انہیں اس درخت کے پاس آنے کا کبھی خیال ہی نہ آیا تھا۔ حتیٰ کہ اللہ کا یہ حکم انہیں بھول ہی گیا تھا اس وقت شیطان کو اس نافرمانی پر اکسانے کا موقع مل گیا۔ جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہے آیت (فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا ١١٥؀ ) 20 ۔ طه :115) && پھر آدم (علیہ السلام) اللہ کا حکم بھول گئے اور ہم نے اس میں نافرمانی کا کوئی ارادہ نہ پایا۔ &&

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَاسَمَهُمَآ : باب مفاعلہ ( مقاسمہ) دو طرف سے مقابلہ کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں صرف شیطان نے قسم کھائی تھی، آدم (علیہ السلام) نے مقابلے میں کوئی قسم نہیں کھائی، اس لیے یہاں مبالغہ کے لیے ہے، لہٰذا ترجمہ ” بار بار قسم کھائی “ کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَدَلّٰىہُمَا بِغُرُوْرٍ۝ ٠ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ۝ ٠ ۭ وَنَادٰىہُمَا رَبُّہُمَآ اَلَمْ اَنْہَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَۃِ وَاَقُلْ لَّكُمَآ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝ ٢٢ دلَ الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات، والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره . ( د ل ل ) الدلا لۃ ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ طفق يقال : طَفِقَ يفعل کذا، کقولک : أخذ يفعل کذا، ويستعمل في الإيجاب دون النّفي، لا يقال : ما طَفِقَ. قال تعالی: فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] ، وَطَفِقا يَخْصِفانِ [ الأعراف/ 22] . ( ط ف ق ) طفق یفعل کذا : وہ ایسا کرنے لگا یہ اخذ یفعل کی طرح ( کسی کام کو شروع کرنے کے معنی دیتا ) ہے اور ہمیشہ کلام مثبت میں استعمال ہوتا ہے لہذا ماطفق کذا کہنا جائز نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔ وَطَفِقا يَخْصِفانِ [ الأعراف/ 22] اور وہ لگے ۔ چپکانے ۔ ورق وَرَقُ الشّجرِ. جمعه : أَوْرَاقٌ ، الواحدة : وَرَقَةٌ. قال تعالی: وَما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها [ الأنعام/ 59] ، ووَرَّقْتُ الشّجرةَ : أخذت وَرَقَهَا، والوَارِقَةُ : الشّجرةُ الخضراءُ الوَرَقِ الحسنةُ ، وعامٌ أَوْرَقُ : لا مطر له، وأَوْرَقَ فلانٌ:إذا أخفق ولم ينل الحاجة، كأنه صار ذا وَرَقٍ بلا ثمر، ألا تری أنه عبّر عن المال بالثّمر في قوله : وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ [ الكهف/ 34] قال ابن عباس رضي اللہ عنه : هو المال «1» . وباعتبار لونه في حال نضارته قيل : بَعِيرٌ أَوْرَقُ : إذا صار علی لونه، وبعیرٌ أَوْرَقُ : لونه لون الرّماد، وحمامةٌ وَرْقَاءُ. وعبّر به عن المال الکثير تشبيها في الکثرة بالوَرَقِ ، كما عبّر عنه بالثّرى، وکما شبّه بالتّراب وبالسّيل كما يقال : له مال کالتّراب والسّيل والثری، قال الشاعر : واغفر خطایاي وثمّر وَرَقِي«2» والوَرِقُ بالکسر : الدّراهم . قال تعالی: فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هذِهِ [ الكهف/ 19] وقرئ : بِوَرِقِكُمْ «3» و ( بِوِرْقِكُمْ ) «4» ، ويقال : وَرْقٌ ووَرِقٌ ووِرْقٌ ، نحو كَبْد وكَبِد، وكِبْد . ( و ر ق ) الورق ۔ درخت کے پتے اس کی جمع اوراق اور واحد ورقتہ آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها [ الأنعام/ 59] اور کوئی پتہ نہیں جھڑ تا مگر وہ اس کو جانتا ہے ۔ اور ورقت الشجرۃ کے معنی درخت کا پتے دار ہونا کے ہیں اور سر سبز خوبصورت پتے دار درخت کو وارقتہ کہا جاتا ہے ۔ عام اورق کے معنی قحط سالی کے ہیں ۔ اور اورق فلان کے معنی ناکام ہونے کے ہیں گویا وہ پتے دار درخت ہے جو بدوں ثمر کے ہے اور اس کے بالمقابل آیت : ۔ وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ [ الكهف/ 34] اور اس کو پیدا وار ( ملتی رہتی) تھی ۔ میں مال کو ثمر کہا ہے جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے اور رنگ کی ترو تازگی کے لحاظ سے خاکستری رنگ کے اونٹ کو بعیر اورق کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح حمامتہ ورقاء کا محاورہ ہے جس کے معنی خاکی رنگ کی کبوتری یا فاختہ کے ہیں ۔ اورق ( ایضا ) مال دار ہونا گویا کثرت کے لحاظ گئی ہے جیسا کہ مال کو ثٰری تراب یاسیل کے ساتھ تشبیہ دے کر اس معنی میں کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ لہ مال کالتراب اوالسیل اوالترٰی : یعنی وہ بہت زیادہ مالدار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( الرجز ) ( 447 ) واغفر خطایای وثمرورنی میری خطائیں معاف فرما اور میرا مال بڑھا دے اور الورق ( بکسر الراء ) خصوصیت کے ساتھ دراہم کو کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هذِهِ [ الكهف/ 19] تو اپنے میں سے کسی کو یہ سکہ دے کر شہر بھیجو ۔ ایک قرات میں بورقکم وبورقکم ہے اور یہ ورق وورق دونوں طرح بولاجاتا ہے ۔ جیسے کبد وکبد ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُور أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:21) وقاسمھما۔ ان کے سامنے قسم اٹھائی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 لہذا میرکہناما نو تم بڑ فائدے میں رہو گے۔ !

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17 ابلیس نے ان کو قسم دی کہ وہ ان کی خیر خواہی کر رہا ہے یہاں مزید بمعنی مجرد ہے کیونکہ قسم صرف ابلیس نے کھائی تھی لیکن آدم و حواء (علیہما السلام) نے چونکہ اس کی قسم کو مان لیا تھا تو گویا ان کی طرف سے بھی قسم ہوگئی اس لیے باب مفاعلہ استعمال کیا گیا۔ واخرج قسم ابلیس علی زنۃ المفاعلۃ لانہ لما کان منہ القسم و منھما التصدیق فکانہما من اثنین (مدارک ج 2 ص 30) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 اور ابلیس نے ان دونوں سے قسم کھا کر یہ بھی کہا کہ میں تم دونوں کا خیرخواہ ہوں۔