Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 32

سورة الأعراف

قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ قُلۡ ہِیَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا خَالِصَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۲﴾

Say, "Who has forbidden the adornment of Allah which He has produced for His servants and the good [lawful] things of provision?" Say, "They are for those who believe during the worldly life [but] exclusively for them on the Day of Resurrection." Thus do We detail the verses for a people who know.

آپ فرما یئے کہ اللہ تعالٰی کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیاء اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہونگی اہل ایمان کے لئے ، دینوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں ۔ ہم اس طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah refutes those who prohibit any type of food, drink or clothes according to their own understanding, without relying on what Allah has legislated, قُلْ ... Say, O Muhammad, to the idolators who prohibit some things out of false opinion and fabrication, ... مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِيَ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ... Who has forbidden the adornment with clothes given by Allah, which He has produced for His servants and At-Tayyibat (good things) of sustenance!" ... قُلْ هِي لِلَّذِينَ امَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ... Say: "They are, in the life of this world, for those who believe, (and) exclusively for them (believers) on the Day of Resurrection." meaning, these things were created for those who believe in Allah and worship Him in this life, even though the disbelievers share in these bounties in this life. In the Hereafter, the believers will have all this to themselves and none of the disbelievers will have a share in it, for Paradise is prohibited for the disbelievers. ... كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الايَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ Thus We explain the Ayat in detail for people who have knowledge.

آخر کار مومن ہی اللہ کی رحمت کا سزا وار ٹھہرا کھانے پینے پہننے کی ان بعض چیزوں کو بغیر اللہ کے فرمائے حرام کر لینے والوں کی تردید ہو رہی ہے اور انہیں ان کے فعل سے روکا جا رہا ہے ۔ یہ سب چیزیں اللہ پر ایمان رکھنے والوں اور اس کی عبادت کرنے والون کے لئے ہی تیار ہوئی ہیں گو دنیا میں ان کے ساتھ اور لوگ بھی شریک ہیں لیکن پھر قیامت کے دن یہ الگ کر دیئے جائیں گے اور صرف مومن ہی اللہ کی نعمتوں سے نوازے جائیں گے ۔ ابن عباس راوی ہیں کہ مشرک ننگے ہو کے اللہ کے گھر کا طواف کر تے تھے سیٹیاں اور تالیاں بجاتے جاتے تھے پس آیتیں اتریں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 مشرکین نے جس طرح طواف کے وقت لباس پہننے کو ناپسندیدہ قرار دے رکھا تھا، اسی طرح حلال چیزیں بھی بطور تقرب الٰہی اپنے اوپر حرام کرلی تھیں نیز بہت سی حلال چیزیں اپنے بتوں کے نام وقف کردینے کی وجہ سے حرام گردانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوگوں کی زینت کے لئے (مثلاً لباس وغیرہ) اور کھانے کی عمدہ چیزیں بنائی ہیں۔ گو کفار بھی ان سے فیض یاب اور فائدہ اٹھا لیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ دینوی چیزوں اور آسائشوں کے حصول میں وہ مسلمانوں سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں لیکن یہ بالتبع اور عارضی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تکوینی مشیت اور حکمت ہے تاہم قیامت والے دن یہ نعمتیں صرف اہل ایمان کے لیے ہوں گی کیونکہ کافروں پر جس طرح جنت حرام ہوگی، اسی طرح ماکولات ومشروبات بھی حرام ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] ترک دنیا کی مذمت :۔ اللہ تعالیٰ نے تو لباس اور زینت اور کھانے پینے کی سب حلال چیزیں اپنے بندوں کے فائدہ اٹھانے ہی کے لیے پیدا کی ہیں، اب جو لوگ گدڑی پہنتے، کم سے کم خوراک کھاتے، لذائذ دنیا کو ترک کرتے، راتوں کو ریاضتیں کرتے اور نکاح سے اس لیے پرہیز کرتے ہیں کہ یہ ان کے روحانی ارتقاء میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے تو ایسے روحانی ارتقاء کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام میں روحانی ارتقاء کا راستہ ترک دنیا پر قطعاً منحصر نہیں ہے بلکہ یہ راستہ معاملات دنیا کو احسن طریقے پر ادا کرتے ہوئے اسی دنیا سے آگے چلتا ہے جس میں جسم کی بھی پرورش ہو اور روح کی بھی۔ اور جو لوگ ترک دنیا کی راہ اختیار کر کے روحانی ارتقاء چاہتے ہیں تو یہ پابندیاں اللہ نے قطعاً نہیں لگائیں یہ ان کی اپنی خودساختہ ہیں اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اس نے کسی شخص پر جو انعام کیے ہیں ان کا اثر اس کے طرز زندگی سے ظاہر ہونا چاہیے اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا انس (رض) سے روایت ہے کہ تین آدمی (عمرو بن عا ص (رض) علی (رض) اور عثمان بن مظعون (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے گھروں کے قریب آئے اور ازواج مطہرات سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کا حال پوچھا جب انہیں آپ کی عبادت کی خبر دی گئی تو انہوں نے اسے کمتر سمجھا اور کہا && کہاں ہم اور کہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی تو اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف ہو چکیں۔ && پھر ان میں سے ایک نے کہا && میں ہمیشہ ساری رات قیام کیا کروں گا۔ && دوسرے نے کہا && میں ہمیشہ روزے رکھا کروں گا، افطار نہ کروں گا && تیسرے نے کہا && میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا کبھی نکاح نہ کروں گا۔ && اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لے آئے اور آپ کو ان کی گفتگو کی خبر دی گئی۔ آپ نے ان سے کہا تم ہی ہو جنہوں نے ایسا اور ایسا کہا تھا ؟ سنو اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن میں روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں میں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں اب جس شخص نے میری سنت (طریقے) سے بےرغبتی کی اس کا مجھ سے کوئی سروکار نہیں۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الترغیب فی النکاح) [٣٢] اس لیے کہ جو لوگ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر بجا لاتے ہیں وہی نمک حلال ہوتے ہیں اور وہی مزید نعمتوں کے مستحق ہوتے ہیں اور جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کریں اس کی نعمتوں کے حقدار نہیں ہوسکتے لیکن چونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نمک حراموں کو بھی رزق دیئے جاتا ہے بلکہ بسا اوقات زیادہ بھی دیتا ہے تاہم آخرت میں اللہ کی نعمتیں صرف اللہ کے فرمانبرداروں ہی کے لیے مخصوص ہوں گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ ۔۔ : اس آیت میں ” َ زِيْنَةَ اللّٰهِ “ سے عمدہ لباس اور وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن سے انسان کو حسن و جمال حاصل ہوتا ہے اور ” َالطَّيِّبٰتِ “ سے عمدہ قسم کے لذیذ کھانے مراد ہیں۔ اس آیت میں ان لوگوں کی سخت تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے ترک استعمال کو درویشی سمجھتے ہیں اور گھٹیا قسم کا کھانا کھانے اور لباس پہننے ہی کو بڑی نیکی سمجھتے ہیں اور ان صوفیوں کی بھی تردید ہے جو خود ساختہ وظیفے بتانے کے ساتھ ہی ہر جان دار کا اور جان دار سے حاصل ہونے والی چیز، مثلاً دودھ، گھی اور شہد کا کھانا منع کردیتے ہیں اور اسے ترک حیوانات جلالی و جمالی کا نام دے رکھا ہے جو دراصل ہندو سادھوؤں اور جوگیوں کا مذہب ہے، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہر ہو۔ “ [ ترمذی، الأدب، باب ما جاء أن اللہ یحب۔۔ : ٢٨١٩، و صححہ الألبانی ] شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی منع کام میں خرچ نہ کرے، باقی کھانا پینا سب روا ہے، جو نعمت ہے مسلمان کے واسطے پیدا ہوئی ہے، دنیا میں کافر بھی شریک ہوگئے، آخرت میں صرف انھی کے لیے ہے۔ “ مزید دیکھیے سورة احقاف ( ٢٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Warned in the first verse are those who practice excess in acts of worship and introduce self-invented restrictions into it. They would abstain from things made Halal by Allah Ta` ala and go on to make them Haram on them and call it an act of obedience to and worship of Allah - as was the case of the disbelievers of Makkah who just did not consider wearing clothes in Tawaf during the days of Hajj as permissi¬ble and who used to think of abstinence from good food made lawful by Allah Ta` ala to be an act of worship. Such people have been sternly reprimanded in a chastising mode by inquiring as to who has made good and becoming dress created by Allah for his servants and the good and pure foods bestowed by Him Haram for people? Abstinence from Good Dress and Tasty Food is No Teaching of Islam It means that to determine and declare something to be Halal or Haram is the sole right of the Most Sacred Being that has created it. No one is permitted to interfere in this matter. Therefore, those who consider good dress and good food made lawful by Allah as something Haram for themselves deserve the wrath and punishment from Allah. Living in tattered rags despite having the means is no teaching of Islam, nor is it something considered worth emulation in Islam as some ignorant people think. Many among the early righteous elders and juristic Imams of Islam whom Allah had been blessed with good means would often times wear elegant, even expensive dresses. Our own master, may the blessing of Allah and peace be upon him, when his means allowed it, has adorned his body with the best of dresses. According to one narration, once when he came out, there was on his blessed body a Rida& the price of which was one thousand dirhams. As reported by Imam Abu Hani¬fah (رح) ، he had used a Rida& worth four hundred guineas. Similarly, Imam Malik (رح) always used decent and elegant dress. For him, someone had taken it on himself that he would provide three hundred and sixty pairs of dresses annually for his use. And a pair which adorned his body for a day would not be used again because after having been worn for one day, he would give this dress to some poor student. The reason is that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: When Allah Ta` ala blesses a servant of His with extended means, He likes to see the effect of His blessing on things around him, his dress being one them. Therefore, to let such blessing become visible is also a form of owing gratitude. In contrast, there is the attitude of wearing worn-out or untidy clothes, despite having the means, which is ingratitude. However, it is necessary to guard against two things, that is, from hypocrisy and exhibitionism, and from pride and arrogance. It means that one should not dress well simply to show off before others or to establish that they were superior or special as compared to them. And it is obvious that the righteous elders of the early period were free from such attitudes. As for the reported use of ordinary or patched dress by the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم Sayyidna Faruq al-A` zam (رض) and some other Sahabah among the righteous elders is concerned, it had two rea¬sons. First of all, whatever came in their hands as their income, they would spend it out over the poor and the needy, and in the pursuit of their religious objectives. For their own person, they would be left with too little to afford a nice dress. Then, they were leaders of people. They let themselves be in that simple and inexpensive bearing as it was so what others with extended means would get the message, and that common people and the poor and needy are not overwhelmed by their financial status. The same thing holds valid in the case of the noble Sufis (the group of rightly guided mystics in Islam who lay primary stress on spiritual purification). When they make new aspirants abstain from fine dresses and tasty foods, they really do not intend to say that leaving these things off for good is an act of thawab or merit. Far from it. Instead of that, it is only to put the brakes on the wanton desires of the human self during the initial stage of the quest for truth that they would pre-scribe such regimen of striving, as treatment and medicine. When the aspirant reaches a stage where he has learnt to control the desires of his self and it can no more be attracted to and snared by what is Har¬am and impermissible, then, at that time, all masters of the spiritual orders would use and recommend good dress and tasty foods like the general body of early righteous elders. When done at that time, these fine blessings of human sustenance become for them the source of knowing their Creator and achieving nearness to Him - rather becom¬ing impediments (through any lack of gratitude or triumph of desires as it is likely in the early stage). The Sunnah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in Food and Dress About food and dress, the essential way of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the Sahabah and the Tabi` in is that one should not be unnatu¬rally concerned about these. Dress and food within easy access are good enough and should be used gratefully. If the dress is coarse and the food dry, there is no need to go to the trouble of finding something better one way or the other - even if one has to borrow, or that one starts worrying about what one misses so much that one lands himself into some other trouble. Similarly, when good dress and food are naturally available, one should not go to the extreme trouble of spoiling them or avoiding their use. Thus, the way the seeking of good dress and good food is a self-imposed constraint, very similarly, doing the opposite of it, that is, to spoil what is good and to leave it aside in favour of what is bad, is also a self-imposed constraint - and a blameworthy one. Why should this be done? The next sentence of the verse explains the wisdom behind it. It says that all blessings, which include fine dresses and nice foods, have really been created for obedient believers. Others are enjoying these because of them - because this world is the venue of deeds not the venue of rewards. You cannot draw a line of dis¬tinction between the genuine and the counterfeit, the good and the bad in the matter of blessings available in this mortal world. Here, the feast is open to all. The blessings are there from the All-Merciful. He is Al-Rahman for this whole world. But, the arrangements in this world obey the will of Allah - and the customary practice of Allah in this world is: When the obedient believers in Allah fall short in their duties to Him, other people overcome them, grab the treasures of worldly blessings and, as a result, the believing servants of Allah become sub¬jected to hunger and poverty. But, this law operates within this mortal world of deeds only. Once in the Hereafter, all blessings and comforts shall be reserved for the obedient servants of Allah. This is what the sentence: قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ in this verse means, that is, `( O prophet) you tell them that all blessings in the worldly life itself are really the right of the believers - and, on the day of Qiyamah, they shall be theirs exclu¬sively.& Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has explained this verse by saying that all blessings and comforts of the world are - subject to the safeguard that they do not become a source of trouble for them in the Hereafter - are the rightful share of obedient believers only. Contrary is the case of disbelievers and sinners who, though they too receive these blessing in their mortal life, rather receive more of it, but these blessings of theirs are going to become their nemesis in the Hereafter bringing punishment which will last forever. Therefore, as the outcome shows, this is not the kind of comfort and honour one would wel-come. Some other commentators have determined its meaning by saying that all blessings and comforts of the world are laced with ceaseless striving, the apprehension of decline and never-ending anxiety. Pure blessing and pure comfort simply do not exist here. However, whoever gets these blessings on the day of Judgment, they will have them in the state of absolute purity. There will be no striving for it, no appre¬hension of decline or loss in it, nor any worries after it. The three ex¬planations of the sense of this sentence in this verse as given above could be accommodated therein and that is why commentators among the Sahabah and Tabi` in have gone by them. At the end of the verse, it was said: كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (This is how We elaborate the verses for people who understand). This verse carries a refutation of the excessive deeds and ignorant views of people who suggested that Allah Ta` ala is pleased with the practice of abandoning good dress and good food.

خلاصہ تفسیر (جو لوگ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزیں ملبوسات اور مطعومات و مشروبات کو بےدلیل بلکہ خلاف دلیل حرام سمجھ رہے ہیں ان سے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیجئے کہ (یہ بتلاؤ) اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے کپڑوں کو جو اس نے اپنے بندوں کے (استعمال کے) واسطے بنائے ہیں اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو (جن کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے) کسی شخص نے حرام کیا ہے (یعنی حلال و حرام قرار دینا تو خالق ومالک کائنات کا کام ہے، تم اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال یا حرام کہنے والے کون ہو ؟ آیات مذکورہ میں لباس اور کھانے پینے کی چیزوں کو انعام خدا وندی قرار دیا ہے، اس سے کفار کو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ یہ انعام تو ہمیں خوب مل رہا ہے، اگر اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوتا اور ہمارے عقائد و اعمال اس کے خلاف ہوتے تو یہ انعام ہمیں کیوں ملتا، اس شبہ کے جواب کیلئے فرمایا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یہ کہہ دیجئے کہ (انعامات الٓہیہ کے متعلق استعمال کی اجازت دلیل مقبولیت نہیں، ہاں جس استعمال کے بعد کوئی وبال نہ ہو وہ استعمال کرتے ہیں اتنا ہی ان کا وبال اور عذاب آخرت بڑھتا رہتا ہے، اس لئے فرمایا کہ) یہ اشیاء (لباس اور کھانے پینے کی چیزیں) اس طور پر کہ قیامت کے روز (بھی کدورات سے اور عذاب سے) خالص رہیں دنیوی زندگی میں خاص اہل ایمان ہی کے لئے ہیں (بخلاف کفار کے کہ گو دنیا میں انہوں نے اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرکے عیش و عشرت میں بسر کیا، مگر چونکہ ان نعمتوں کا شکر ایمان و اطاعات کے ذریعہ ادا نہیں کیا، اس لئے وہاں یہ نعمتیں وبال اور عذاب بن جاویں گی) ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھداروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے یہ بھی) فرمائیے کہ (تم نے جن حلال چیزوں کو بلا وجہ حرام سمجھ رکھا ہے وہ تو اللہ نے حرام نہیں کی) البتہ میرے رب نے صرف (ان چیزوں کو جن میں سے اکثر میں تم مبتلا ہو) حرام کیا ہے (مثلاً ) تمام فحش باتوں کو ان میں جو علانیہ ہیں وہ بھی (جیسے ننگے ہو کر طواف کرنا) اور ان میں جو پوشیدہ ہیں وہ بھی (جیسے بدکاری) اور ہر گناہ کی بات کو (حرام کیا ہے) اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو (حرام کیا ہے) اور اس بات کو (حرام کیا ہے) کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک (عبادت) ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند (اور دلیل) نازل نہیں فرمائی (نہ کلیاً نہ جزئیاً ) اور اس بات کو (حرام کیا ہے) کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ذمے ایسی بات لگا دو جس کی تمہارے پاس کوئی سند نہ ہو (جس طرح (آیت) قل امر ربی بالقسط میں تمام مامورات جن پر عمل کرنا مشروع ہے داخل ہوگئے، اسی طرح اِنَّمَا حَرَّمَ میں تمام منہیات جن کی ممانعت ہے شامل ہوگئے) اور (اگر ان محرمات کے ارتکاب کرنے والوں کو فوراً سزا نہ ہونے سے ان کی تحریم میں کسی کو شبہ ہوجاوے تو اس کا جواب یہ ہے کہ علم الٰہی میں) ہر گروہ (کے ہر فرد کی سزا) کے لئے (بمقتضائے حکمت) ایک میعاد معیّن ہے سو جس وقت ان کی (وہ) میعاد معین (نزدیک) آ جاوے گی اس وقت ایک ساعت نہ (اس سے) پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے (بلکہ فوراً ہی سزا جاری ہوجاوے گی اس میعاد کے قبل سزا نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ ان محرکات پر سزا نہ ہوگی) معارف و مسائل پہلی آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو عبادات میں غلو اور خود ایجاد تنگیاں پیدا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرنے اور اپنے اوپر حرام قرار دینے کو عبادت و اطاعت سمجھتے ہیں جیسے مشرکین مکہ ایام حج میں بوقت طواف لباس پہننا ہی جائز نہ سمجھتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کی حلال اور اچھی غذاؤں سے پرہیز کرنے کو عبادت جانتے تھے۔ ایسے لوگوں کو زجر اور سرزش کے انداز میں تنبیہ کی گئی کہ اللہ کی زینت یعنی عمدہ لباس جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمایا ہے، اور پاکیزہ عمدہ غذائیں جو اللہ نے عطا فرمائی ہیں ان کو کس نے حرام کیا۔ عمدہ لباس اور لذیز کھانے سے پرہیز اسلام کی تعلیم نہیں مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو حلال و حرام ٹھہرانا صرف اس ذات پاک کا حق ہے جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے، کسی دوسرے کی اس میں مداخلت جائز نہیں، اس لئے وہ لوگ قابل عتاب و عذاب ہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی عمدہ پوشاک یا پاکیزہ اور لذیز خوراک کو حرام سمجھیں، وسعت ہوتے ہوئے پھٹے حالوں گندہ پراگندہ رہنا نہ کوئی اسلام کی تعلیم ہے، نہ کوئی اسلام میں پسندیدہ چیز ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں۔ سلف صالحین اور ائمہ اسلام میں بہت سے اکابر جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی تھی اکثر عمدہ اور پیش قیمت لباس استعمال فرماتے تھے، خواجہ دوعالم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی جب وسعت ہوئی عمدہ سے عمدہ لباس بھی زیب تن فرمایا ہے، ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدن مبارک پر ایسی چادر تھی جس کی قیمت ایک ہزار درہم تھی، امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے کہ چار سو گنّی کی قیمت کی چادر استعمال فرمائی، اسی طرح حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ ہمیشہ نفیس اور عمدہ لباس استعمال فرماتے تھے، ان کے لئے تو کسی صاحب نے سال بھر کے لئے تین سو ساٹھ جوڑوں کا سالانہ انتظام اپنے ذمہ لیا ہوا تھا، اور جو جوڑا امام رحمة اللہ علیہ کے بدن پر ایک مرتبہ پہنچتا تھا دوبارہ استعمال نہ ہوتا تھا، کیونکہ صرف ایک روز استعمال کرکے کسی غریب طالب علم کو دیدتے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اپنی نعمت اور وسعت عطا فرماویں تو اللہ تعالیٰ اس کو پسند فرماتے ہیں کہ اس کی نعمت کا اثر اس کے لباس وغیرہ میں دیکھا جائے، اس لئے کہ اظہار نعمت بھی ایک قسم کا شکر ہے، اس کے بالمقابل وسعت ہوتے ہوئے پھٹے پرانے یا میلے کچیلے کپڑے استعمال کرنا ناشکری ہے۔ ہاں ضروری بات یہ ہے کہ دو چیزوں سے بچے، ایک ریاء و نمود، دوسرے فخر و غرور، یعنی محض لوگوں کو دکھلانے اور اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لئے لباس فاخر استعمال نہ کرے، اور ظاہر ہے کہ سلف صالحین ان دونوں چیزوں سے بری تھے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سلف صالحین میں حضرت فاروق اعظم (رض) اور بعض دوسرے صحابہ سے جو عام حالات میں معمولی قسم کا لباس یا پیوند زدہ کپڑے استعمال کرنا منقول ہے اس کی دو وجہ تھیں، ایک تو یہ کہ اکثر جو کچھ مال آتا وہ فقراء، مساکین اور دینی کاموں میں خرچ کر ڈالتے تھے، اپنے لئے باقی ہی نہی رہتا تھا، جس سے عمدہ لباس آسکے، دوسرے یہ کہ آپ مقتدائے خلائق تھے، اس سادہ اور سستی پوشاک کے رکھنے سے دوسرے امراء کو اس کی تلقین کرنا تھا، تاکہ عام غرباء فقراء پر ان کی مالی حیثیت کا رعب نہ پڑے۔ اسی طرح صوفیائے کرام جو مبتدیوں کو لباس زینت اور عمدہ لذیز کھانوں سے روکتے ہیں، اس کا منشاء بھی یہ نہیں کہ ان چیزوں کو دائمی طور پر ترک کرنا کوئی کار ثواب ہے، بلکہ نفس کی خواہشات پر قابو پانے کے لئے ابتداء سلوک میں ایسے مجاہدے بطور علاج ودواء کے کردیئے جاتے ہیں، اور جب وہ اس درجہ پر پہنچ جائے کہ خواہشات نفسانی پر قابو پالے کہ اس کا نفس اس کو حرام و ناجائز کی طرف نہ کھینچ سکے، تو اس وقت تمام صوفیائے کرام عام سلف صالحین کی طرح عمدہ لباس اور لذیز کھانوں کو استعمال کرتے ہیں، اور اس وقت یہ طیبات رزق ان کے لئے معرفت خداوندی اور درجات قرب میں رکاوٹ کے بجائے اضافہ اور تقرّب کا ذریعہ بنتے ہیں۔ خوراک و پوشاک میں سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوراک و پوشاک کے بارے میں خلاصہ سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ وتابعین کا یہ ہے کہ ان چیزوں میں تکلف نہ کرے، جیسی پوشاک و خوراک بآسانی میسر ہو اس کو شکر کے ساتھ استعمال کرے، موٹا کپڑا، خشک غذا ملے تو یہ تکلف نہ کرے کہ کسی نہ کسی طرح اچھا ہی حاصل کرے خواہ قرض لینا پڑے، یا اس کی فکر میں اپنے آپ کو کسی دوسری مشکل میں مبتلا کرنے کی نوبت آئے۔ اسی طرح عمدہ نفیس لباس یا لذیز کھانا میسر آئے تو یہ تکلف نہ کرے کہ اس کو جان بوجھ کر خراب کرلے یا اس کے استعمال سے پرہیز کرے، جس طرح بڑھیا لباس اور غذا کی جستجو تکلف ہے اسی طرح بڑھیا کو خراب کرنا یا اس کو چھوڑ کر گھٹیا استعمال کرنا بھی تکلف و مذموم ہے۔ آیت کے اگلے جملہ میں اس کی ایک خاص حکمت یہ بتلائی گئی کہ دنیا کی تمام نعمتیں نفیس اور عمدہ لباس، پاکیزہ اور لذیز غذائیں دراصل اطاعت شعار مؤمنین ہی کے لئے پیدا کی گئی ہیں، دوسرے لوگ ان کے طفیل میں کھا پی رہے ہیں، کیونکہ یہ دنیا دار العمل ہے، دار الجزاء نہیں یہاں کھڑے کھوٹے اور اچھے برے کا امتیاز دنیا کی نعمتوں میں نہیں کیا جاسکتا، بلکہ رحمن دنیا کی نعمتوں کا یہ دسترخوان عام یہاں سب کے لئے یکساں کھلا ہوا ہے، بلکہ دنیا میں عادة اللہ یہ ہے کہ اگر مومن و فرمانبردار بندوں سے اطاعت شعاری میں کچھ کمی ہوجاتی ہے تو دوسرے لوگ ان پر غالب آکر دنیوی نعمتوں کے جزائن پر قابض ہوجاتے ہیں اور یہ فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ قانون صرف اسی دار العمل دنیا کے اندر ہے، اور آخرت میں ساری نعمتیں اور راحتیں صرف اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اطاعت شعار بندوں کے لئے مخصوص ہوں گی، یہی معنی ہیں آیت کے اس جملہ کے (آیت) قُلْ هِىَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ دنیا کی سب نعمتیں حیات دنیا میں بھی دراصل مؤمنین ہی کا حق ہیں، اور قیامت کے دن تو خالص انہی کے ساتھ مخصوص ہوں گی۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اس جملہ کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ دنیا کی ساری نعمتیں اور راحتیں اس خاص کیفیت کے ساتھ کہ وہ آخرت میں وبال جان نہ بنیں صرف فرمانبردار مؤمنین کا حصہ ہے، بخلاف کفار و فجار کے کہ گو دنیا میں نعمتیں ان کو بھی ملتی ہیں بلکہ زیادہ ملتی ہیں، مگر ان کی یہ نعمتیں آخرت میں وبال جان اور عذاب دائمی بننے والی ہیں، اس لئے نتیجہ کے اعتبار سے ان کے لئے یہ کوئی عزت و راحت کی چیز نہ ہوئی۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس کے یہ معنی قرار دئیے کہ دنیا میں ساری نعمتوں اور راحتوں کے ساتھ محنت و مشقت اور پھر زوال کا خطرہ اور پھر طرح طرح کے رنج و غم لگے ہوئے ہیں، خالص نعمت اور خالص راحت کا یہاں وجود ہی نہیں، البتہ قیامت میں جس کو یہ نعمتیں ملیں گی وہ خالص ہو کر ملیں گی، نہ ان کے ساتھ کوئی محنت و مشقت ہوگی، اور نہ ان کے زوال یا نقصان کا کوئی خطرہ، اور نہ ان کے بعد کوئی رنج و مصیبت، تینوں مفہوم آیت کے اس جملہ میں کھپ سکتے ہیں، اور اسی لئے مفسرین صحابہ وتابعین نے ان کو اختیار کیا ہے۔ آخر آیت میں فرمای آكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ، ” یعنی ہم اپنی قدرت کامل کی نشانیاں سمجھدار لوگوں کے لئے اسی طرح تفصیل و وضاحت سے بیان کیا کرتے ہیں “۔ جس سے ہر عالم و جاہل سمجھ لے، اس آیت میں لوگوں کے غلو اور ان جاہلانہ خیالات کی تردید تھی کہ اچھا لباس اور اچھا کھانا ترک کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝ ٣٣ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

زینت اور طیبات کا حکم قول باری ہے قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ و الطیبات من الرزق۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں ؟ ) حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ عرب کے لوگ بحیرہ اور سائبہ (ان جانوروں کی تفصیل سورة انعام میں گزر چکی ہے) وغیرہ جانوروں کو اپنے اوپر حرا م کرلیتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی سدی کا قول ہے کہ عرب کے لوگ حالت احرام میں گھی اور دوسرے روغنیات کے استعمال کو حرام سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ا ن کے اس قول کی تردید میں یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت میں اباحت کے اس حکم کی تاکید ہے جو سابقہ آیت خذوازینتکم عند کل مسجد) میں گزر چکا ہے۔ قول باری والطیبات من الرزق) کی تفسیر میں دو وجوہ بیان کئے گئے ہیں۔ اول اس میں وہ تمام ماکولات و مشروبات شامل ہیں جو انسا ن کو پسند آئیں اور اس کی لذت کام و دہن کا ذریعہ نہیں۔ اس طرح یہ قول باری تمام ماکولات اور مشروبات کی اباحت کا مقتضی ہوگا ان سے صرف وہی چیزیں خارج ہوں گی جن کی تحریم کی دلالت قائم ہوچکی ہو دوم ان سے رزق حلال مراد ہے۔ قول باری ہے قلھی للذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا خالصۃ یو مالقیامۃ۔ کہو یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لئے ہیں اور قیامت کے روز تو خالصۃ انہیں کے لئے ہوں گی) یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے ان چیزوں کو مباح کردیا ہے اور قیامت کے دن یہ چیزیں انہیں تکدرو تفعض کی تمام آلائشوں سے پاک صاف ملیں گی۔ ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ چیزیں خالصۃ ان ہی کے لئے ہوں گے مشرکین کو ان میں سے کوئی چیز نہیں ملے گی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) کفار مکہ ایام جاہلیت میں ایام حج میں اپنے اوپر گوشت اور چربی کو حرام کرلیتے تھے اور حرم شریف میں مرد اور عورتیں رات کے وقت ننگے داخل ہوتے تھے اور بیت اللہ شریف کا ننگے طواف کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو منع کردیا کہ اس کی پیدا کردہ چیزوں کو کس لیے حرام کیا ہے۔ اور آپ یہ بھی فرما دیجیے کہ یہ پاکیز چیزیں دنیاوی زندگی میں خالص اہل ایمان کے لیے ہیں، اس طرح ہم ایسے لوگوں کے لیے جو منجانب اللہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں، بذریعہ قرآن کریم حلال و حرام کو بیان کرتے ہیں ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِط قُلْ ہِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط) ۔ دُنیا میں رہتے ہوئے تو بیشک اللہ کے منکرین بھی اس کی نعمتوں میں سے کھا پی لیں ‘ استفادہ کرلیں مگر آخرت میں یہ تمام پاکیزہ چیزیں اور نعمتیں اہل ایمان اور اہل جنت کے لیے مختص ہوں گی اور کفار کو ان میں سے کوئی چیز نہیں ملے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22. Since it is God Himself Who has created all good and pure things for man, it obviously could not have been His intent to make them unlawful. Now, if there is any religion, or any ethical or social system which forbids those things, or considers them an insurmountable barrier to man's spiritual growth, it has an intellectual orientation which itself is evident proof of its not having been prescribed by God. This is an important argument which the Qur'an advances in refutation of false creeds. An appreciation of this argument would help one understand the Qur'anic line of argumentation as such. 23. All the clean and beautiful things created by God are meant, in principle, for the believers even in this world, for they are God's faithful subjects, and it is fidelity to God that makes one deserve enjoyment of the things which are God's. However, all men are under a test in this world. Hence even those who are disloyal to God have been granted respite to mend their ways and are, therefore, not denied His worldly bounties. In fact with a view to testing those disloyal to God these bounties are at times lavished upon them even more abundantly than on God's faithful servants. But the character of the Next Life will be totally different. For one's station there will be determined entirely by one's righteousness and justice. God's bounties in the Next Life, therefore, will be for the faithful alone. As for the unfaithful, those who were disloyal to God even though every fibre of their being was nourished by the sustenance provided by Him, they will have no share whatsoever of those bounties in the Next Life.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :22 مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو دنیا کی ساری زینتیں اور پاکیزہ چیزیں بندوں ہی کے لیے پیدا کی ہیں ، اس لیے اللہ کا منشاء تو بہر حال یہ نہیں ہو سکتا کہ انہیں بندوں کے لیے حرم کر دے ۔ اب اگر کوئی مذہب یا کوئی نظام اخلاق و معاشرت ایسا ہے جو نہیں حرام ، یا قابلِ نفرت ، یا ارتقائے روحانی میں سدِّ راہ قرار دیتا ہے تو اس کا یہ فعل خود ہی اس بات کا کُھلا ثبوت ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے ۔ یہ بھی ان حجتوں میں سے ایک اہم حجت ہے جو قرآن نے مذاہب باطلہ کے رد میں پیش کی ہیں ، اور اس کو سمجھ لینا قرآن کے طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :23 یعنی حقیقت کے اعتبار سے تو خدا کی پیدا کردہ تمام چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی اہل ایمان ہی کے لیے ہیں ، کیونکہ وہی خدا کی وفادار رعایا ہیں اور حقَ نمک صرف نمک حلالوں ہی کو پہچانتا ہے ۔ لیکن دنیا کا موجودہ انتظام چونکہ آزمائش اور مہلت کے اصول پر قائم کیا گیا ہے ، اس لیے یہاں اکثر خدا کی نعمتیں نمک حراموں پر بھی تقسیم ہوتی رہتی ہیں اور بسا اوقات نمک حلالوں سے بڑھ کر انہیں نعمتوں سے نواز دیا جاتا ہے ۔ البتہ آخرت میں ( جہاں کا سارا انتظام خالص حق کی بنیاد پر ہوگا ) زندگی کی آرائشیں اور رزق کے طیبات سب کے سب محض نمک حلالوں کے لیے مخصوص ہوں گے اور وہ نمک حرام ان میں سے کچھ نہ پاسکیں گے جنہوں نے اپنے رب کے رزق پر پلنے کے بعد اپنے رب ہی کے خلاف سرکشی کی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: جس طرح ان عرب قبائل نے طواف کے وقت کپڑے پہننے کو حرام سمجھا ہوا تھا، اسی طرح جاہلیت کے لوگوں نہ بہت سی غذاؤں کو بلا وجہ حرام قرار دیا ہوا تھا، جس کا مفصل تذکرہ سورۂ انعام میں گزرا ہے، نیز حمس کے قبائل نے گوشت کی بعض قسموں کو اپنی امتیازی حیثیت ظاہر کرنے کے لئے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا تھا۔ 17:: یہ دراصل کفار مکہ کی ایک بات کا جواب ہے وہ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمارا موجودہ طریقہ پسند نہیں ہے تو وہ ہمیں رزق کیوں دے رہا ہے ؟ جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس دنیا میں تو اللہ تعالیٰ کے رزق کا دستر خوان ہر شخص کے لئے بچھا ہوا ہے چاہے وہ مومن ہو یا کافر، لیکن آخرت میں یہ نعمتیں صرف مومنوں کے لئے خاص ہیں، اس لئے یہ سمجھنا غلط ہے کہ اگر دنیا میں کسی کو خوشحالی میسر ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی دلیل ہے اور اسے آخرت میں بھی خوشحالی ضرور میسر آئے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:33) من کس نے۔ اخرج۔ یہاں بمعنی اس نے پیدا کی۔ خالصۃ۔ خاص کر۔ صرف (انہی کے لئے ۔ روز قیامت کو)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اس آیت میں زبتہ اللہ سے عمدہ لباس اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جن سے انسان کو تجمل حاصل ہوسکتا ہے اور الطیبات سے عمدہ قسم کے لذیذکھانے مراد ہیں جن کو شریعت نے حرام قرارنہ دیاہو مطلب یہ ہے کہ خوش پوشی اور عمدہ قسم کے صحت بخش کھانے اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرائے ہو اس آیت میں ان لوگوں کی سخت تر دید ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے ترک استعمال کو درویشی سمجھتے ہیں اور گھٹیا قسم کا کھانا کھانے ارولباس پہننے ہی کو بڑ ی نیکی خیال کرتے ہیں حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کو کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہرہو۔ ( نسائی، ابن ماجہ) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں یعنی جو نعمت ہے مسلمان کو واسطے پیداہوئی ہے میں کافر بھی شریک ہوگئے آخرت میں صرف انہوں کو کے لیے) ہے مزید دیکھئے سورة احقاف آیت 20 ( قرطبی، ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 4 ۔ آیات 32 تا 39: اسرار و معارف : اچھا کھانا اور لباس : چونکہ انسانی شرف کا مدار ہی اللہ کریم کی رضا ہے لہذا اصل کام خلوص دل سے اطاعتِ الہی کرکے اس کی رضا حاصل کرنا ہے اسلام نے باطل مذاہب کی طرح فضول اور خود ساختہ مشقت اٹھانے سے منع فرما دیا ہے اور لذیذ کھانوں سے اجتناب یا اچھا لباس پہننا کوئی عبادت نہیں نہ رب جلیل نے اس کا حکم دیا ہے جب مالک اللہ ہے اور اس نے بہتر رزق اچھے پھل مزیدار کھانے جو حلال اور جائز ذرائع سے حاصل کئے گئے ہوں ایسے ہی خوبصورت اور آرام دہ لباس یا بہتر سواری اور خوبصورت گھر سے منع نہیں فرمایا پھر دوسرا کون ایسا ہوسکتا ہے جو اس کے بندوں کو ان چیزوں سے روک دے یعنی کوئی نہیں ہوسکتا یہ اس دور میں بھی اور آج بھی یہ خیال عام ہے کہ نیک لوگ پھٹے پرانے کپڑے پہنتے ہیں روکھی سوکھی کھاتے ہیں اچھا بستر استعمال نہیں کرتے اس پر اسلام کے ابتدائی دور کے حالات بیان کرکے واعظین اور بھی رنگ آمیزی کرتے رہتے ہیں حالانکہ حق یہ ہے کہ جب صحابہ پر تنگی کا زمانہ تھا تو پھٹے ہوئے لباس اور خالی پیٹ کے ساتھ بھی اللہ کریم کی راہ میں ثابت قدم تھے خود آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی عمدہ لباس استعمال کیا ہے بلکہ ایک دفعہ آپ کے جسم اطہر پر ایسی چادر تھی جس کی قیمت ایک ہزار دینار تھی عہد خلافت راشدہ میں اور خصوصاً روم و ایران کی فتح کے بعد تو صحابہ بہت امیر ہوگئے تھے۔ مال غنیمت نے ان کی حالت بدل دی اور حضرت ابوہریرہ جن کا عہد نبوی میں فاقوں سے بےہوش ہوجانا مشہور ہے کے گھر میں ایسی قالین تھی جس میں ٹخنوں تک پاؤں دھنس جاتے اور آپ خود سے فرماتے بخ بخ ابوہریرہ اپنی پہلی حالت یاد رکھو۔ حضرت علی بہت زیادہ مالدار ہوگئے تھے اور حسنین کریمین واقعی شاہزادے تھے۔ خوبصورت گھوڑے بہترین لباس اور اعلی کھانے یہ سب میسر تھا بعد میں بھی حضرت ابوحنیفہ (رح) بہترین لباس پہنتے تھے حضرت امام مالک ایک جوڑا صرف ایک روز پہن لے کر خیرات کردیتے تھے کہ کسی نے ان کے لیے سال کے 365 جوڑوں کا اہتمام کردیا تھا اسی طرح حضرت عبدالقادر گیلانی (رح) اور حضرت عبیداللہ احرار امیر ترین لوگ اور نفیس ترین لباس استعمال کرنے والے تھے اور آج بھی جو لوگ مھض فریب دینے کے لیے نئے لباس پر بھی پیوند لگا لیتے ہیں یہ درست نہیں بلکہ اللہ کریم کا حکم ہے کہ جو نعمت میسر ہو اس کا اثر لباس سوار اور دسترخوان پہ بھی ظاہر ہونا چاہئے۔ ورنہ سخت ناشکری ہوگی ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یا خلافت راشدہ کے ابتدائی عہد کے جو واقعات معمول لباس اور فقروفاقہ کے ملتے ہیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں مسلمانوں کو فراغت یعنی دنیا کی دولت زیادہ نصیب نہ تھی اور اکثر جو مال آتا بھی تھا مساکین پہ خرچ ہوجاتا تھا مگر جب اللہ نے فراغت دی تو بہترین لباس بھی صحابہ کرام نے استعمال فرمائے ہاں سنت یہ ہے کہ خوراک اور پوشاک میں دکھاوے کے لیے تکلف نہ کرے اور جو کچھ آسانی سے میسر آسکتا ہو استعمال کرے اگر سادہ غذا یا موٹا کپڑا میسر ہو تو اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرے یہ نہ ہو کہ خواہ قرض لینا پڑے مگر چیزیں ضرور اعلی ہوں اسی طرح اگر اللہ کریم وسعت دیں اور اعلی لباس اچھی سواری یا بہترین کھانا میسر ہو تو اس کو خواہ مخواہ ترک نہ کرے کہ اسے خراب کرے یا اچھی چیز کو چھوڑ کر گھٹیا استعمال کرنے لگے یہ سب ناپسندیدہ حرکات ہیں بعض اوقات صوفیاء بھی طالبوں کو اچھے کھانے اور لباس سے روک دیتے ہیں مگر یہ بطور علاج اور تربیت کے ہوتا ہے کہ نفس سے خود نمائی کا جذبہ ختم ہوجائے جب وہ خواہشات نفسانی پہ کسی حد تک قابو پا لے کہ تفاخر میں مبتلا نہ ہو یا حرام کی طرف نہ چلا جائے تو پھر ایسی قید نہیں رہتی بلکہ اللہ کریم نے فیصلہ دے دیا کہ نعمتوں کے اصل حقدار تو ایمان دار بندے ہیں قل ھی للذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا خالصہ یوم القیام۔ آپ فرم ادیجئے کہ دنیا کی زندگی میں بھی بہترین چیزوں کے مستحق تو مومن ہی ہیں کافر تو طفیلی ہیں یعنی مومنین کے نفیل رزق پاتے ہیں دنیا میں اللہ کی شان رحمانیت کا ظہور ہے جسے آپ رحمت عامہ کہہ سکتے ہیں لہذا رزق بارش کھیتیاں اور پھل یا سارا نظام مومن کی وجہ سے قائم ہے کہ اس کائنات کی روح ذکر الہی ہے جو مومن کرتا ہے اگر کائنات میں اللہ کا ذکر نہ رہے تو یہ تباہ ہوجائے لہذا ان سب نعمتوں کی بقا کا باعث مومن ہے اور وہی ان کا زیادہ مستحق بھی ہے نیز مومن حصول نعمت کے جائز ذرائع اختیار کرتا ہے اور کسی دوسرے کا حق نہیں چھینتا اس کے برخلاف کافروں کے نظام معیشت کو دیکھیں تو آدمی کی تجوری بھرنے کے کس قدر لوگوں کو اپنے پیٹ تک خالی رکھنا پڑتے ہیں کیا ایسے ظالم بہتر چیزوں کو استعمال کرنے کا حق مومن سے زیادہ رکھتے ہیں ہرگز نہیں اور یہ بھی مومن کی شان ہے کہ ناجائز ذرائع سے اور دکھاوے کے لیے اچھا لباس یا عیش کوشی کے لیے حرام غذا کے قریب بھی نہیں جاتا بلکہ جو حلال ذرائع سے نصیب ہو اس پہ قناعت اختیار کرتا ہے۔ کافر بھی مومنین کے طفیل دنیا کی نعمتیں پاتے ہیں : بعض مفسرین کرام نے یہ معنی بھی نقل فرمایا ہے کہ اگر کافر کو نعمت دنیا ملے بھی تو وہ اخروی عذاب میں زیادتی کا باعث ہی بنتی ہے اگرچہ دنیا میں بھی اس پہ زوال کا اندیشہ اور پھر عند الموت تو چھوٹ ہی جاتی ہے اس کے برعکس مومن نعمت پہ شکر ادا کرکے مزید اجر کا مستحق بنتا ہے الفاظ کے اختلاف کے باجود مفہوم اس کا بھی وہی ہے۔ اور حدیث شریف میں جو ارشاد ہے کہ قیامت تب قائم ہوگی جب کوئی الہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا یہ بھی اسی بات پہ شاہد ہے کہ دنیا کی نعمتیں بھی ایمان والوں کے دم سے قائم ہیں لہذا اپنی حیثیت کے مطابق انہیں استعمال کرنے کا نہ صرف حق ہے بلکہ جان بوجھ کر اپنی حیثیت سے کمتر لباس وغیرہ کا استعمال بھی متعدد گناہوں کو شامل ہے جس میں ناشکری اور دکھاوا سر فہرست ہیں۔ یہ حال تو دنیا میں ہے اور آخرت میں رحمت عامل نہ ہوگی بلکہ رحمت خاصہ کا ظہور ہوگا لہذا کافر ہر طرح کی نعمت سے محروم رہے گا اور مومنین ہی تمام نعمتوں اور راحتوں سے مستفید ہوں گے وہاں یہ بات واجح ہوجائے گی کہ نعمتوں کا اصل حق دار کون ہے اور کون ان سے محروم رہا اللہ کریم فرماتے ہیں کہ ہم بات تفصیل سے بیان فرما دیتے ہیں کہ ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔ یہ خیال کہ اچھا کھانا یا اچھا لباس تو نیکی کے خلاف ہے لوگوں میں آج تک رچا بسا ہوا ہے مگر قرآن حکیم نے پوری قوت سے اس کی تردید فرمائی اور فرمایا کہ مسکینوں جیسا حلیہ بنا کر ایسے کام گزرنا جو دراصل اللہ کی طرف سے ممنوع ہیں صحیح نہیں اسی پر ابدی عذاب کی وعید ہے اللہ کی رضا ان امور سے بچنے میں ہے جن سے اس نے منع فرما دیا ہے جیسے اللہ نے بےحیائی کے کاموں کو حرام قرار دے دیا وہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے ظاہر جیسے برسر مجلس یا پردے میں یا دوسروں کو جتا کر یا اپنے اندر سوچتے ہوئے اور اللہ نے گناہ کے ہر کام سے منع فرما دیا ہے نیز ناحق ظلم سے بھی اثم ایسے گناہ جن کا تعلق اپنی ذات سے ہو اور بغی سے مراد ایسے معاملات جن کا تعلق دوسروں کے حقوق سے ہو یہ ایسے امور ہیں جن سے اللہ کریم نے سختی سے روکا ہے اور اپنی ذات یا صفات میں کسی کو بھی شریک ٹھہرانے کی اجازت نہیں دی نہ اس پر کوئی دلیل نازل فرمائی بلکہ یہ بھی بہت بڑا طلم ہے اور ایسے ہی اللہ کریم کے ذمے وہ باتیں لگانا جن کا حکم اللہ نے نہیں دیا بہت بڑی زیادتی ہے جیسے دین میں بدعات جاری کرنا اور جن کاموں کے کرنے کا شرعی حکم موجود نہیں انہیں باعث ثواب بتانا یا ثواب جان کر اختیار کرنا وغیرہ یہ سب منع ہیں اور مشرکین اور جاہلوں کا یہ حال ہے کہ بظاہر پھٹے پرانے کپڑے پہن لیں گے بھوک کاٹتے رہیں گے اور اس کے ساتھ لوگوں پر اپنی نیکی کا سکہ جما کر ان کا مال لے کر کھا جائیں گے یا انہیں مختلف مشرکانہ رسوم میں مبتلا کردیں گے یا بدعات کو رواج دے کر اپنی عاقبت برباد کرلیں گے۔ لیکن یہ بات یاد رکھ لو کہ ہر قوم کے لیے اور ہر طبقے کے لیے ایک خاص وقت تک اور ایک حد تک ہی مہلت ہوتی ہے جب وہ وقت مقررہ آجائے تو پھر لمحہ بھر آگے پیچھے نہیں ہوسکتا کوئی کتنی سرکشی اور کس قدر دھکو کرسکے گا بالآخر ہر کوئی اپنے انجام کو پا لے گا۔ اتباع نبوت ہی نجات کا واحد راستہ ہے : اے اولاد آدم یہ بات تو روز میثاق ہی بتا دی گئی تھی کہ میرے نبی اور رسول تم تک میرے ارشادات پہنچاتے رہیں گے کوئی زمانہ اور کوئی آبادی اس نعمت سے خالی نہ رہے گی اور یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ جس نے ان کی اطاعت اختیار کرکے میری زات سے تعلق جوڑ لیا اور اس پر قائم رہا تو اسے اندیشہ ہوگا نہ دکھ ماضی پہ بھی مطمئن ہوگا اور مستقبل لیے بھی پر امید اسی کے ساتھ یہ وضاحت بھی کردی گئی تھی کہ جن لوگوں نے انبیاء کی تعلیمات کا انکار کیا اور اپنے آپ ہی کو بڑا آدمی سمجھا ایسے لوگوں کو انجام کار دوزخ میں ٹھکانا ملے گا جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ اس لیے کہ ان لوگوں کا جرم بھی تو بہت بڑا ہے کہ تعلیمات نبوت کا انکار دو طرح پر ہی تو ہوگا یا تو سرے سے ذات باری کا انکار کردیں گے اور مخلوق کے لیے اپنے خالق ہی کا انکار بہت بڑا ظلم ہے یا پھر ان کے مقابلے میں جھوٹا مذہب پیش کریں اپنی گھڑی ہوئی رسومات کو دین ، عبادت اور باعث ثواب ثابت کریں گے اور اللہ پر جھوٹ باندھنے کے جرم میں مبتلا ہوں گے ظاہر ہے یہ ایسے مظالم ہیں جن پر اللہ کا غضب مرتب ہوگا جس کا مظہر جہنم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے دنیا میں جو بھی رزق اور عمر مقرر فرما دی ہے اکثر اوقات وہ اس سے مستفید ضرور ہوتے ہیں اس لیے کہ خود اللہ کریم نے مہتل بھی دی ہے اور حق و باطل میں سے ایک کو اختیار کرنے کی اجازت بھی لہذا اگر کوئی باطل کو اپنا لے تو محض اس وجہ سے نہ اس کا رزق روکا جاتا ہے اور نہ موت مسلط کی جاتی ہے ماشاء اللہ مگر کافروں کے اس حال پہ دھوکا بھی نہ رکھا جانا چاہئے کہ جب موت کے فرشتے روح قبض کرنے کے لیے آتے ہیں تو انہیں کہہ دیتے ہیں بھئی دار عمل کی فرصت ختم ہوئی اب دار جزا کو چلو مگر کیا بات ہے اللہ کریم کو چھوڑ کر جن کی غلامی اور اطاعت میں تمہاری زندگی گزری آج جب اطاعت کا بدلہ چکانے کی نوبت ہے وہ نظر نہیں آتے آج کی مشکل گھڑی میں تمہارے کام نہیں آ رہے تو کفار کہیں گے ہم سے کھو گئے کوئی نظر نہیں آ رہا اور نظر بھی کیا خاک آئیں گے کہ یہ مقام تو اللہ کریم کا تھا جو بہت بڑی گمراہی میں پڑ کر ہم نے دوسروں کے لیے مان لیا اور یوں اپنے کفر پر خود ہی گواہ بن رہے ہوں گے۔ موت کے وقت فرشتہ کافر سے بھی بات کرتا ہے : اور فیصلے کے وقت بھی یہی حکم ہوگا کہ کافر جن اور انسان اپنے سے پہلے گزرنے والے کافروں کے ساتھ دوزخ میں داخل ہوتے چلے جاؤ یعنی جس درجے کا کافر ہوگا اس درجے کے کفار میں داخل کردیا جائے گا اور جو بھی قوم داخل ہوگی اپنے سے پہلے پہنچی ہوئی جماعت کو لعنت کرے گی کہ کس قدر برا راستہ چھوڑ کر آئے تھے جس پر چل کر ہم بھی تباہ ہوگئے۔ جب سب دوزخی اپنے ٹھکانوں پر پہنچ چکیں گے تو بعد میں آنے والے اپنے سے پہلے آنے والوں کے لیے درخواست کریں گے کہ اے اللہ انہیں دوگنا عذاب دیجئے کہ یہ خود بھی گمراہ تھے ہمیں بھی گمراہ کرنے کا سبب بنے لہذا ان پر دوچند آگ بھڑکائی جائے ارشاد ہوگا بدبختو تم سب ایسے عذاب میں مبتلا ہو جو بڑھتا ہی رہے گا اور سب پر دوچند ہوتا چلا جائے گا لیکن تمہیں ان حقائق کی خبر نہیں یہ برائی اور گناہ پر دوستی کا انجام ہے جو بدترین دشمنی کی شکل میں ظاہر ہوگا ۔ اور پہلے والے کہیں گے کہ تم بھی برائی میں ہم سے کم نہیں ہو تم نے اللہ کے ارشادات سے منہ موڑ کر ہماری خرافات کو کیوں اپنایا تھا کیا تم نے کم ظلم کیا ہے اب اپنے کیے کا مزہ چکھو اور اپنے کردار کا نتیجہ بھگتو۔ اعاذنا اللہ منھا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی تحریم کے لیے تو محرم کی ضرورت ہے وہ محرم خدا کے سواکون ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی نوع انسان کو لباس پہننے کا حکم دینے کے ساتھ فرمایا تھا کہ کھاؤ اور پیو مگر اعتدال کے ساتھ۔ اس حکم کے باوجود جو لوگ شریعت کی جائز کردہ زیب وزینت اور حلال چیزوں کو حرام کرتے ہیں انہیں انتباہ کے انداز میں ایک سوال کیا ہے۔ ذرا بتاؤ تو سہی کہ جن چیزوں کو تم مذہب کے نام پر حرام کہتے ہو وہ کس نے تمہارے لیے حرام کی ہیں ؟ جبکہ حرام و حلال کا اختیار اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی نہیں دیا پھر کون ہے جو اللہ کی نعمتوں کو اسکے بندوں پر حرام کرے ؟ سورۃ التحریم کی پہلی آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے نبی آپ کو حق نہیں ہے کہ آپ اپنی ازواج کو خوش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو اپنے لیے حرام قرار دیں۔ اس فرمان سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے آخری نبی کو بھی کسی حلال کو حرام کرنے اور حرام کو حلال کرنے کا اختیار نہیں تو دوسرا کون ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی حلال قرار دی ہوئی چیزوں کو حرام کی فہرست میں شامل کرے۔ اس لیے بطور انتباہ ایسے لوگوں سے پوچھا جارہا ہے بتاؤ وہ کون سی ذات ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو تم پر حرام قرار دیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرماکر حلال قرار دیا۔ یہاں نعمتوں کے لیے زینت اور طیبات کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ زینت سے مراد مردوزن کا لباس ہے لہٰذا انسان کے لیے ہر چیز اور سب کے سب لباس جائز ہیں سوائے ان کے جن سے شریعت نے منع کیا ہے جہاں تک عمدہ اور قیمتی لباس کا تعلق ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی۔ کیا عمدہ لباس پہننا تکبر میں شامل ہے ؟ آپ نے فرمایا اچھا لباس پہننا تکبر میں شامل نہیں۔ اسی طرح خوردونوش کے بارے میں ہر وہ چیز مسلمان کو کھانے کی اجازت ہے جو پاک ہو اور شریعت نے اسے حلال قرار دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام اس لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ان سے آگہی حاصل کریں۔ یہاں زینت اور طیبات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی میں صاحب ایمان لوگوں کے لیے ہیں جن سے کفار بھی فائدہ اٹھاتے ہیں البقرۃ کی آیت ١٢٦ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا ذکر ہے جب انہوں نے بیت اللہ تعمیر کرنے کے بعد اور دعاؤں کے ساتھ یہ بھی دعا کی کہ الٰہی حرم کے رہنے والوں میں ان لوگوں کو رزق عنایت فرما جو تیری ذات اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ جواباً ارشاد ہوا کہ میں ان کو بھی رزق دوں گا جو کفر کریں گے البتہ انہیں آخرت میں جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ یہاں اس بات کا کنایۃً ذکر ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ زینت اور طیبات کے حقدار حقیقتاً اس کے تابع فرمان بندے ہیں۔ لیکن دنیا آزمائش گاہ بنائی گئی ہے اس سے کافر بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ اس لیے عمومی طور پر یہی نظر آتا ہے کہ مومنوں کے بجائے دنیا کے اسباب ووسائل۔ اللہ کے باغیوں کے ہاں زیادہ پائے جاتے ہیں (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُونَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ )[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا بلاشبہ بندہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے جبکہ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی جائز کردہ زینت اور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو کھانا اور استعمال کرنا چاہیے۔ ٢۔ دنیا کی نعمتوں سے کافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٣۔ آخرت کی نعمتیں کفار کے بجائے سب کی سب مومنوں کے لیے ہوں گی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام اس لیے نازل فرمائے ہیں تاکہ لوگ ان کا علم حاصل کریں اور ان پر عمل بھی کریں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (32) ” اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھنے والے ہیں ۔ “ اور جو لوگ اس دین کی حقیقت کو سمجھتے ہیں وہی اس بیان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ رہی وہ چیز جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے تو اگر اس کا تعلق لباس سے ہے تو بھی وہ صحت مند لباس نہیں ہے ۔ اگر اس کا تعلق خوراک واسکاک سے ہے تو وہ طیب نہیں ہے ماسوائے اسراف اور کبروغرور کے ۔ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کا ارتکاب وہ رات دن کر رہے ہیں۔ آیت ” قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِکُواْ بِاللّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَأَن تَقُولُواْ عَلَی اللّہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (33) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں : بےشرمی کے کام ۔۔۔۔۔۔ خواہ کھلے ہوں یا چھپے ۔۔۔۔۔ اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی ایسے کو شریک کرو جس کے لئے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی ‘ اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو ۔ (کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے) یہ ہیں وہ چیزیں جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ وہ فحش افعال جو حدود الہیہ سے متجاوز ہوں ۔ چاہے وہ ظاہر ہوں یا خفیہ ہوں ‘ (اثم) ہر معصیت کو کہتے ہیں ۔ (بغی بغیر الحق) وہ ظلم جو حق و انصاف کے خلاف ہو ‘ اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا جبکہ شرک کی پست پر کوئی قوت دلیل نہیں ہوتی ۔ اس شرک میں وہ بھی شامل ہے جو عرب جاہلیت میں بھی تھی اور اس کے علاوہ بھی تمام جاہلیتوں میں تھی کہ قانون سازی میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا جائے حالانکہ قانون سازی اور شریعت سازی اللہ کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے ۔ اللہ کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرنا جو خود نسبت کرنے والے کے علم میں بھی نہ ہوں ‘ مثلا وہ جن چیزوں کو حلال و حرام قرار دیتے تھے وہ ان کے علم میں نہ تھیں اور وہ بغیر علم ویقین کے ان کی نسبت اللہ کی طرف کرتے تھے ۔ یہ بجائے خود شرک ہے ۔ اس سلسلے میں کلبی نے ایک عجیب روایت نقل کی ہے کہ جب مشرکین کو یہ خطاب کیا گیا اور ان پر یہ گرفت کی گئی تو اس وقت ان کی حالت یہ تھی کہ ” جب مسلمانوں نے لباس پہن کر بیت اللہ کا طواف کیا تو مشرکین نے ان کو غیرت دلائی اور انہیں شرمندہ کرنے کی کوشش کی ۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر جاہلیت اپنے پیروکاروں کو کس حد تک پہنچا دیتی ہے۔ بعض لوگ ننگے بیت اللہ کا طواف کرتے تھے ۔ ان کی فطرت نے اپنی حالت بدل دی تھی اور ان کی فطرت اس حقیقی شرم وحیا سے محروم ہوچکی تھی جس کے بارے میں قصہ آدم وابلیس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ شرم وحیا آدم وحوا میں موجود تھا کیونکہ ” جب انہوں نے درخت کو چکھا تو انکی شرمگائیں ظاہر ہوگئیں اور وہ اپنے اوپر جنت کے درختوں کے پتے لپیٹنے لگے ۔ جب کفار نے دیکھا کہ مسلمان تو لباس پہن کر بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں اور زیب وزینت کے ساتھ طواف کر رہے ہیں اور ستر و شرافت کے ساتھ کر رہے ہیں تاکہ ان میں فطرت کے عین مطابق انسانی خصوصیات پروان چڑھیں اور وہ حیوانوں کی طرح عریانی سے محفوظ رہیں۔ جب مسلمانوں نے یہ فطری حال اختیار کی تو انہوں نے اس پر نکتہ چینی شروع کردی ۔ یہ ہے جاہلیت کا کارنامہ ۔ وہ لوگوں کی فطرت ‘ ان کی روح ‘ انکے تصورات اور انکی اقدار اور پیمانوں کو مسخ کردیتی ہے ۔ آج دور جدید کی جاہلیت لوگوں کے ساتھ وہی کچھ کررہی ہے جو ان کے ساتھ جاہلیت عربیہ کر رہی تھی یا اس سے پہلے یونانی جاہلیت کر رہی تھی یا رومی جاہلیت کر رہی تھی یا فارس کی مشرک جاہلیت کر رہی تھی غرض ہر خطے اور ہر دور میں جاہلیت کے یہی خدوخال رہے ہیں ۔ دور جدید کی جاہلیت کیا کر رہی ہے ‘ صرف یہ کہ وہ لوگوں کو ننگا کر رہی ہے ۔ ان کے جسم سے شرم وحیا اور تقوی کے لباس کا اتار رہی ہے ۔ اس کام کو وہ ترقی اور تہذیب و تمدن کا نام دیتی ہے ۔ اس کے بعد وہ شریف زادوں اور شریف زادیوں کو طعنہ دیتی ہے کہ وہ رجعت پسند ‘ مقلد روایت پسند اور دیہاتی ہیں۔ مسخ فطرت کو مسخ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے ۔ فطرت سے روگردانی کرنے کو فطرت کا فساد ہی کہا جاسکتا ہے ۔ حسن وقبح کے پیمانے بدل جانے کو ضمر کا بدلنا ہی کہا جاسکتا ہے اور اس پر اگر کوئی فخر بھی کرتا ہے تو وہ اس کا احمقانہ غرور ہی ہوگا بلکہ صریح سرکشی ہوگی ۔ کیونکہ اس بیماری اس حیوانیت اور اس سرکشی کا تعلق شرک کے ساتھ ہے ‘ یہ دراصل اربابا من دون اللہ کی طرف سے ان کے قانون سازی اور ضابطہ بندی ہے اور انہوں نے مل کر ایک دوسرے کو اس کی وصیت کی ہے ۔ عرب مشرکین اس قسم کی ہدایات اپنے علاقے کے حاکموں سے اخذ کرتے تھے اور یہ حکام ان کا استحصال کرتے تھے ‘ محض ان کی جہالت کی وجہ سے اور ان سے اس قسم کے غیر معقول کام کروا کر ان پر اپنی قیادت وسیادت مسلط کرتے جن میں کاہن سردار اور امراء سب شامل تھے ۔ آج بھی لوگ اپنی دنیاوی قیادتوں سے ایسی ہی ہدایات اخذ کرتے ہیں اور ان کی ہدایات کی تعمیل خدائی احکام کی طرح فرض ہوتی ہے ۔ کوئی انہیں رد نہیں کرسکتا ۔ آج آرائش کی دکانیں اور ان کی منصوبہ بندی کرنے والے ‘ اسی طرح فیشن کی منصوبہ بندی کرنے والے وہ ارباب ہیں جن کے جال میں دورجدید کی جاہلیت میں بسنے والی تمام عورتیں اور مرد پھنسے ہوئے ہیں ۔ یہ ارباب اپنے احکام صادر کرتے ہیں اور ان کی تعمیل وہ تمام لوگ کرتے ہیں جو پوری دنیا میں ننگی ٹکڑیوں کی شکل میں موجود ہیں اور یہ لوگ ان منصوبہ سازوں کے احکام کی تعمیل نہایت ہی بےبسی کی حالت میں کرتے ہیں ۔ یہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے لئے نئے سال کے لئے جو فیشن تیار کرلیا گیا ہے وہ انکے حالات اور ضروریات کے لئے مناسب بھی ہے یا نہیں ۔ یہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ لباس ان کیلئے مفید ہے یا نہیں بلکہ نہایت ہی عاجزی سے یہ لوگ ان کے اشاروں پر چلتے ہیں ۔ اگر یہ نہ چلیں تو ان پر دوسرے مویشی اور حیوانات حرف گیری کرتے ہیں اور طعنے دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آرائش وزیبائش اور فیشن ہاؤس کے پیچھے کون سے قوتیں کام کر رہی ہیں ؟ اور یہ کون سی قوتیں ہیں جو لوگوں کو ننگا کر رہی ہیں ۔ ناولوں اور فلموں کے پیچھے کیا مقاصد کام کررہے ہیں ؟ رسالوں اور اخباروں کی پشت پر کون سی قوتیں کار فرما ہیں ۔ بعض اخبارات تو مسلسل اخلاقی پستی اور اخلاقی فساد پھیلا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کی پشت پر وہ کون سی خفیہ قوت ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تمام عالمی فساد کی پشت پر یہودیوں کی قوت ہے ۔ یہ یہودی ہی ہیں جو دراصل ان لوگوں کے خدا بنے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی نکیل ان کے ہاتھ میں دے دی ہے ۔ وہ اپنے مقاصد دنیا میں اس قسم کی لہریں پیدا کرکے حاصل کرتے ہیں اور پوری دنیا ان مقاصد کیلئے بھاری قیمت ادا کرکے کام کر رہی ہے ۔ ان مقاصد کے لئے وہ لوگوں کے اندر نفسیاتی بےچینی پھیلاتے ہیں ‘ انسانی فطرت کو بدلتے ہیں اور انسان کو فیشن اور جنسی بےراہ روی کے ہاتھ میں ایک کھلونا بنادیا گیا ہے ۔ اس اسراف وتبذیر اور اخلاقی فساد کے ذریعے یہ یہودی قوت اپنے معاشی مقاصد پورے کرتی ہے ۔ کیونکہ فیشن اور میک اپ اور سامان تعیش کے کارخانے عالمی یہودیت نے لگا رکھے ہیں اور یہ لوگوں کے اندر مانگ پیدا کرکے پھر ان اشیاء کو ان پر ہی فروخت کرتے ہیں ۔ لباس اور فیشن کا معاملہ اسلامی شریعت سے جدا نہیں ہے ۔ اسلامی نظام حیات میں اس کے لئے بھی ضابطہ مقرر ہے ۔ اور اسی لئے اسے ایمان اور توحید وشرک کے اساسی مسئلے کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے ۔ مختلف اسباب کی بناء پر یہ مسئلہ نظریات اور شریعت کے ساتھ مربوط ہے ۔ ٭ لباس کا تعلق اللہ کے اقتدار اعلی سے ہے کیونکہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس کی طرف ہمیں اس معاملے میں رجوع کرنا ہے کیونکہ لباس ایک ایسی چیز ہے جس کے اثرات اخلاق ‘ معیشت اور زندگی کے دوسرے اہم معاملات پر پڑتے ہیں ۔ ٭ لباس ہی کے ذریعے انسان کی انسانی خصوصیات کا ظہور ہوتا ہے اور انسانی شخصیت کے حیوانی پہلو کو دبا کر انسانی پہلو کو نمایاں کیا جاتا ہے ۔ ہر جاہلیت کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کے ذوق ‘ ان کے اخلاق اور ان کے حسن وقبح کے پیمانے بدل دیتی ہے اور عریانی اور حیوانیت کو ترقی کا نام دیتی ہے ۔ اور ستر اور حیاچشمی کو رجعت پسندی اور پسماندگی کہتی ہے ۔ ایسی صورت میں انسانی فطرت کو مسخ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہمارے ہاں آج اس قسم کے جاہل موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ لباس کا دین اور مذہب کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ دین کا عورتوں کے لباس کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ دین و مذہب اور آرائش وزیبائش کا آپس میں تعلق ہی کیا ہے ؟ یہ ہے وہ فکری بگاڑ جو جاہلیت ہر دور میں اور ہر جگہ پیدا کرتی ہے ۔ بظاہر تو لباس کا مسئلہ ایک جزئی مسئلہ نظر آتا ہے لیکن اسلام اور رب تعالیٰ کے ہاں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ ایک تو اس کا تعلق توحید وشرک کے مسئلے سے ہے ‘ دوسرے اس کا تعلق انسان کے اخلاق ومعاشرے کی اصلاح و فساد کے ساتھ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس پر ایک نہایت ہی موثر اور پرزور تبصرہ کیا گیا ہے ۔ یہ تبصرہ عموما قرآن کریم میں بڑے بڑے اور اہم مسائل پر بحث کے بعد کیا گیا ہے ۔ اس تبصرے میں بنی آدم کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ انہیں اپنی اصل حقیقت پر بھی غور کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ان کا رہنا اور سہنا بہرحال ایک محدود مدت تک کے لئے ہے اور ایک دن انہیں یہاں سے جانا ہے جس کا وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک منٹ کی تاخیر وتقدیم نہیں ہو سکتی ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اہل ایمان کے لیے ہیں : پھر فرمایا (قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ) آپ فرما دیجیے کہ یہ طیبات اور پاکیزہ چیزیں جو اللہ پاک نے پیدا فرمائی ہیں دنیاوی زندگی میں اصالۃً مومنین کے لیے ہیں گو کافر بھی ان کو استعمال کرلیتے ہیں اور قیامت کے دن خالص مومنین کے لیے ہوں گی۔ آخرت میں کافروں کے لیے ان کا ذرا سا حصہ بھی نہیں ہے دنیا میں بھی نعمتوں کے استعمال کے اہل ایمان والے ہی ہیں ان کے طفیل میں کافر بھی استعمال کرلیتے ہیں۔ قال صاحب الروح ایھی لھم بالاصالۃ کر امتھم علی اللہ تعالیٰ و الکفرۃ و ان شارکوھم فیھا فبالتبع فلا اشکال فی الاختصاص المستفاد من اللام و انتصاب (خالصۃ) علی الحال من الضمیر المستتر فی الجارو المجرور و العامل فیہ متعلقہ و قرأ نافع بالرفع علی انہ خبر بعد خبر اوھم الخبر وللذیْن متعلق بہ قدم لتاکید الخلوص والاختصاص۔ اور بعض حضرات نے آیت کا یہ معنی بتلایا ہے کہ دنیا میں جو نعمتیں ہیں اہل ایمان ان سے منتفع ہوتے ہیں لیکن ان میں کدورتیں ملی ہوئی ہیں دکھ، تکلیف اور رنج و غم بھی ساتھ لگا ہوا ہے آخرت میں ان کو نعمتیں ملیں گی وہ خالص نعمتیں ہوں گی ان میں کسی قسم کی کدورت نہ ہوگی۔ قال صاحب معالم التنزیل ج ٢ ص ١٥٧ فیہ حذف تقدیرہھی للّذین اٰمنوا و للمشرکین فی الحیوۃ الدنیا فان اھل الشرک یشارکون المومنین فی طیّبٰت الدنیا و ھی فی الاٰخرۃ خالصۃ للمؤمنین لاحظ للمشرکین فیھا وقیلھی خالصۃ یوم القیامۃ من التنغیض و الغم للمؤمنین فانھا لھم فی الدنیا مع التنغیض والغم۔ در حقیقت کافر اس لائق نہیں ہے کہ کوئی بھی نعمت اسے دی جائے اور کسی بھی نعمت سے منتفع ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا بےحیثیت ہے اس لیے کافروں کو بھی دیدیتا ہے۔ حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اگر دنیا اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی حیثیت رکھتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی نہ پلاتا۔ (رواہ احمد والترمذی و ابن ماجہ کمافی المشکوٰۃ ص ٤٤١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32: یہ تحریمات غیر اللہ کا بیان ہے یعنی زینت و آرائش کا جو سامان اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے اور رزق کے لیے اس نے جو پاکیزہ چیزیں پیدا فرمائی ہیں یہ کس نے حرام کی ہیں۔ ظاہر ہے اللہ نے تو ان کو حرام نہیں ٹھہرایا کیونکہ اس نے یہ چیزیں بندوں کے استعمال کے لیے پیدا کی ہیں لہذا اپنی طرف سے ان حلال چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔ 33: یعنی یہ سامان آرائش وزینت اور طیبات رزق دنیا میں بھی مؤمنین کے فائدہ اٹھانے میں کفار و مشرکین بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔ “ خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِیٰمَة ” لیکن قیامت کے دن یہ اشیاء مومنین کے ساتھ مختص ہونگی اور کفار ان سے محروم ہونگے۔ کذالک نفصل الایت ای نمیز الحلال من الحرام لقوم یعلمون انہ لا شریک لہ (مدارک ج 2 ص 39) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے دریافت کیجئے آخر یہ تو بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے جو زینت کا لباس اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ اور ستھری روزی اور کھانے پینے کی چیزیں پیدا کی ہیں ان چیزوں کو حرام کس نے کردیا ہے اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے فرما دیجئے کہ یہ سب نعمتیں اس دنیوی زندگی میں انہی لوگوں کے لئے خاص ہیں جو صاحب ایمان و یقین ہیں یعنی جو ان نعمتوں کو استعمال کرنے کے بعد خالق کا حق مانتے اور شکر ادا کرتے ہیں اور قیامت کے دن تو ہر قسم کی نعمتیں صرف اہل ایمان ہی کے لئے مخصوص ہوں گی۔ ہم نے جس طرح یہ بات بیان کی ہے ہم اسی طرح اپنی تمام آیات و احکام کو سمجھ دار لوگوں کے لئے تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں یعنی جو پاکیزہ روزی اور زینت و آرائش کا لباس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کو کس نے حرام کردیا ہے کہ پیدا تو وہ کرے اور اس کو حرام کہنے والا یا حلال بتانے والا کوئی دوسرا ہو جیسا کہ اہل جاہلیت کرتے ہیں جب چاہا لباس ترک کردیا جب چاہا اللہ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ترک کرکے بیٹھ گئے پیدا وہ کرے اور حرام حلال کا حکم یہ کیا کریں۔ اہل ایمان کے لئے پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان نعمتوں کا پیدا کرنا اصل تو مومنین اور فرماں بردار لوگوں کے لئے ہے اگرچہ دنیوی زندگی میں منکروں اور نافرمانوں کو بھی تبعاً ان کے استعمال کا حق دے دیا گیا ہے لیکن قیامت میں یہ نہ ہوگا یا یہ مطلب ہے کہ دنیا میں یہ نعمتیں مسلمانوں کے ہی لئے ہیں کیونکہ وہ نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور جو دوسرے نافرمان استعمال کرتے ہیں اور شکر بجا نہیں لاتے تو ان کے لئے وبال ہوگا نعمت کے شکر کی بجاآوری کے ساتھ مواخذے محاسبے اور ہر قسم کی گرفت سے پاک ہے اس لئے یہ بات اہل ایمان کو میسر ہے منکروں کو نہیں۔ واللہ اعلم